صحاح ستہ کےبعد کے متداول مجموعے

صحاحِ ستہ کے بعد اسکے قریبی زمانے کی جن کتابوں کوزیادہ شہرت حاصل ہوئی اور وہ علماء کودستیاب ہیں، یہ ہیں:
(۱)شرح معانی الآثار امام طحاویؒ (۳۲۱ھ)
اپنے طرز کی نہایت عجیب کتاب ہے، کتبِ حدیث میں اس کی مثل نہیں، درسی کتاب ہے مدارس میں دورۂ حدیث میں پڑھائی جاتی ہے، علامہ عینی جیسے بلند پایہ محدثین نے شرح معانی الآثار کی شرح کئی ضخیم جلدوں میں لکھی ہیں۔
(۲)مشکل الآثار امام طحاویؒ (۳۲۱ھ)
امام طحاویؒ نے اس میں مشکل اور ظاہراً متعارض احادیث پر بہت فاضلانہ بحث کی ہے، افسوس کہ یہ پوری شائع نہیں ہوئی، حیدرآباد دکن سے اس کی چار جلدیں شائع ہوئی ہیں اور یہ پوری کتاب کا تقریباً نصف ہیں، امام طحاویؒ نے اس کا ایک اختصار بھی کیا ہے، جسے قاضی جمال الدین یوسف بن موسیٰ نے “المعتصر من المختصر من مشکل الآثار”کے نام سے مرتب کیا ہے یہ المعتصر سنہ ۱۳۱۲ھ میں حیدرآباد دکن سے پہلی مرتبہ شائع ہوئی ہے؛ پھریہ مصر سے بھی شائع ہوچکی ہے۔
(۳)المعجم الکبیر للطبرانی (۳۶۰ھ)
حافظ ابوالقاسم سلیمان بن احمد بن ایوب الطبرانی (۳۶۰ھ) نے حدیث کے تین مجموعے قلمبند کیئے، ان میں سے سب سے بڑا مجموعہ یہ ہے، المعجم الصغیر للطبرانی مطبع انصاری دہلی میں سنہ ۱۳۱۱ھ میں چھپی تھی، المعجم الکبیر کا ایک مخطوطہ کسی زمانہ میں جامع عباسیہ بہاولپور کی لائبریری میں موجود تھا۔
(۴)سنن دارِقطنی (۳۸۵ھ)
ابوالحسن علی بن عمردارِقطنی بغداد کے محلہ دارِقطن کے رہنے والے تھے، عللِ احادیث میں اپنے وقت کے امام اور منتہیٰ تھے،بہت سے علماء نے اس کتاب پر قابلِ قدر حواشی لکھے ہیں، کتاب میں بہت سی منکر شاذ ضعیف اور موضوع روایات موجود ہیں؛ تاہم کئی پہلوؤں سے کتاب مفید ہے۔
(۵)مستدرک حاکم(۴۰۵ھ)
چار ضخیم جلدوں میں حیدرآباد دکن سے شائع ہوئی ہے، ساتھ ساتھ حافظ شمس الدین الذہبیؒ کی کتاب تلخیص المستدرک بھی ہے، حافظ ذہبی اسانید پر ساتھ ساتھ کلام کرتے جاتے ہیں، حاکم نے اپنے زعم میں صحیح بخاری اور صحیح مسلم پر اسی کتاب میں استدراک کیا ہے؛ اسی لیئے اسے مستدرک علی الصحیحین کہتے ہیں۔
(۶)سنن کبریٰ للبیہقی (۴۵۸ھ)
ابوبکراحمد بن الحسین البیہقی کی کتاب سنن کبریٰ دس ضخیم جلدوں میں حیدرآباد دکن سے شائع ہوئی ہے، ساتھ ساتھ علامہ علاؤ الدین الماردینی الترکمانی الحنفی کی کتاب الجوہر النقی فی الرد علی البیہقی بھی ہے، اس میں علامہ ترکمانی حنفیہ کی طرف سے امام بیہقی کوساتھ ساتھ جواب دیتے جاتے ہیں، امام بلند پایہ شافعی المذہب فقیہہ تھے۔
(۷)معرفۃ السنن والآثار للبیہقی (۴۵۸ھ)
دوجلدوں میں مصر سے شائع ہوئی ہے، اپنے طرز کی نادرکتاب ہے، امام بیہقی نے اس میں کہیں کہیں امامِ طحاوی کے طرز پر چلنے کی کوشش کی ہے؛ لیکن اس میں وہ کامیاب نہیں ہوسکے، ویسے یہ ایک بلند پایہ کتاب ہے، امام بیہقیؒ کی شعب الایمان جس سے صاحب مشکوٰۃ نے روایات لی ہیں، اس کے علاوہ ہے۔
(۸)کتاب التمہید لابن عبدالبر المالکیؒ (۴۶۵ھ)
امام ابن عبدالبر نے جامع بیان العلم میں اور الاستیعاب میں اپنی سند سے بہت روایات کی ہیں؛ لیکن”کتاب التمہید لمافی الموطا من المعانی والاسانید” اپنے موضوع میں نہایت فاضلانہ مجموعہ حدیث ہے، مراکش کے محکمہ شئوون اسلامی نے اسے تحقیقی کام کے ساتھ بیس جلدوں میں شائع کیا ہے، امام ابنِ عبدالبر نے “تجرید التمھیدی” کے نام سے اس کی ایک تلخیص کی ہے، جودوجلدوں میں چھپ چکی ہے۔
(۹)نوادرالاصول فی معرفۃ اقوال الرسول
یہ ابوعبداللہ محمدالحکیم الترمذیؒ کی تالیف ہے، جوحاشیہ مرقات الوصول کے ساتھ بیروت سے شائع ہوئی ہے۔
(۱۰)حلیۃ الاولیاء لابی نعیم الاصفہانی (۴۳۰ھ)
خطیب تبریزی اکمال میں لکھتے ہیں:”هومن مشائخ الحديث الثقات المعول بحديثهم المرجوع إلى قولهم كبير القدر”۔ترجمہ:ثقہ مشائخِ حدیث میں سے ہیں، جن کی روایت اور ان کے قول کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔

ان کتابوں کے علاوہ اس دور کی کچھ اور کتابیں بھی ہیں جن کا شمار معتبر کتابوں میں ہوتا ہے، یہ چونکہ زیادہ متداول نہیں، اس لیئے ان کی روایات بدوں تحقیق اسناد نہ لینی چاہئیں، اِن میں یہ کتابیں زیادہ معروف ہیں:
مسند ابی یعلی(۳۰۷ھ)، صحیح ابنِ خزیمہ ج(۳۱۱ھ)، صحیح ابنِ حبان (۳۵۴ھ)، عمل الیوم واللیلۃ حافظ ابوبکر احمد بن اسحاق المعروف بابن السنی (۳۶۳ھ)، تہذیب الآثار لابن جریر الطبری (۳۱۰ھ)، مسندابی بکر عبداللہ بن الزبیر الحمیدی (۲۱۹ھ)، مسندابن بزار (۲۹۲ھ)، منتقی ابن الجارود (۳۰۷ھ)، المحلی لابن حزم (۴۵۷ھ)۔

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password