حدیث اور تاریخ میں فرق

کسی زمانہ کے حالات جب قلمبند کیے جاتے ہیں تو یہ طریقہ اختیار کیا جاتا ہے کہ ہر قسم کی بازاری افواہیں قلمبند کرلی جاتیں ہیں۔ جن کے راویوں کا نام ونشان تک معلوم نہیں ہوتا۔ ان افواہوں سے وہ واقعات انتخاب کرلیے جاتے ہیں جو قرائن وقیاسات کے مطابق ہوتے ہیں۔ تھوڑے زمانہ بعد(یعنی کتابی شکل اختیار کرنے کے بعد) یہی مجموعہ ایک دلچسپ تاریخی کتاب بن جاتی ہے۔چنانچہ اس وقت ہمارے پاس ماضی کی تاریخوں کا جوذخیرہ خواہ وہ روم ہویایونان، چین ہویاایران ان قدیم اقوام کی تاریخ جن ذرائع سے مرتب ہوتی ہے، اس میں بہت کم کوئی واقعہ ایسا مل سکتا ہے، جس کوخود اس کے شاھدوں نے مرتب کیا ہو، اتفاقاً اگراس بات کا پتہ چل بھی جائے تواس کا پتہ چلانا قطعاً دشوار؛ بلکہ شاید ناممکن ہے کہ ضبط واتقان، سیرت وکریکٹر کے لحاظ سے ان کا کیا درجہ تھا۔
اب اگر اس طرح لکھی ہوئی تاریخ کی ہم آہنگی میں کوئی قلمی نوشتہ بھی مل جائے توپھر تو اس تاریخ کے مستند ہونے کے کیا کہنے۔ یہ قلمی نسخہ جتنا زیادہ پرانا اور دیمک خوردہ ہوگا، اسی نسبت سے وہ ایک قیمت ستاویز قرار پائے گا۔ حالانکہ اس کا راوی مجہول الحال (جس کے حالات زندگی ہی کس کو معلوم نہیں) اور نہ معلوم کس قسم کے کردار کا مالک ہوتاہے۔ آج کل تو لوگوں نے ایسی قیمتی ستاویزات کے حصول کے لیے کئی مصنوعی طریقے بھی دریافت کرلیے ہیں۔پھر اگر کہیں سے پتھر یا دھات پر کوئی تحریر زمین میں دفن شدہ مل جائے۔ تو اس کی وقعت وحی الہیٰ سے بھی بڑھ جاتی ہے۔ گویا اس کا تحریر کنندہ ہر طرح کے عیوب اور غلطیوں سے پاک صاف تھا۔ تاہم چونکہ ایسے کتبوں کی آج کل وقعت بہت بڑھ گئی ہے۔ لہٰذا ایسی تحریریں بھی خود ہی اس وقت کے رسم الخط میں لکھ کر کسی دور افتادہ مقام پر گاڑھ دی جاتی ہیں اور کچھ مدت بعد نکال کر انھیں دنیا کے سامنے پیش کردیا جاتا ہے۔تاریخ کے میدان میں جو چیز فی الواقع کچھ اہمیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ خود نوشتہ سوانح حیات(autobigrophy) ہو۔ لیکن اس میں بھی انسانی عواطف، جانبداری اور”ملادرمدح خود می گوید”( ملاں اپنی تعریف آپ ہی کر رہا ہے) کے فطری رجحانات سے کون انکار کرسکتا ہے؟ بس یہ ہے تاریخ کی کل کائنات۔ جس کی تصنیف وتدوین کے لیے تمام حکومتیں اپنے وسیع ذرائع استعمال کرتی اور کروڑہا روپے خرچ کررہی ہیں۔

دوسری طرف حدیث جوصرف مسلمانوں ہی کی تاریخ نہیں ہےبلکہ انسانیت کے ایک عظیم انقلابی عہد آفریں دور کا ایک ایسا مکمل تاریخی مرقع ہے جسے ٹھیک حقیقی اور اصلی شکل وصورت بلکہ ہرخط وخال کی حفاظت میں لاکھوں ہی نہیں بلکہ کروڑوں انسانوں کی وہ ساری کوششیں اور تدبیریں صرف ہوئی ہیں جوکسی واقعے کے متعلق آدمی کا دماغ سوچ سکتا ہے۔ دنیا کی اسی تاریخ کے ایک عظیم الشان، حیرت انگیز اور انقلابی حصہ کا نام سچ پوچھئے توحدیث ہے۔

تاریخی ذخائر سے حدیث کے امتیازات:
1. اس وقت تاریخ کے جوعام ذخیرے ہیں عموماً ان کا تعلق کسی قوم کی حکومت، کسی عظیم الشان جنگ یا اسی قسم کی پراگندہ گوناگوں اور منتشر چیزوں سے ہوتا ہے جن کا احاطہ ممکن نہیں، بخلاف اس کے حدیث اس تاریخ کا نام ہے جس کا تعلق براہِ راست ایک خاص شخصی وجود، یعنی سرورِکائناتﷺ کی ذاتِ اقدس سے ہے، ایک قوم، ایک ملک، ایک حکومت، ایک جنگ کے تمام اطراف وجوانب کوصحیح طور سے سمیٹ کربیان کرنا ایک طرف اور ایک واحد شخص کی زندگی کے واقعات کو بیان کرنا ۔ خوداندازہ کیا جاسکتا ہے کہ احاطہ وتدوین کے اعتبار سے دونوں کی آسانی ودشواری میں کیا کوئی نسبت ہے، پہلی صورت میں کوتاہیوں، غلط فہمیوں کے جتنے قوی اندیشے ہیں، یقیناً دوسری صورت میں صحت وواقعیت کی اسی قدر عقلاً توقع کی جاسکتی ہے۔

2. دوسرا امتیاز جوپہلے سے بہت زیادہ اہم ہے وہ محمدرسول اللہﷺ اور ان کے مورخوں یعنی صحابہ کرامؓ کا باہم تعلق ہے۔ بلاشبہ اس وقت ہمارے سامنے مختلف اقوام وممالک، سلاطین اور حکومتوں کی تاریخیں ہیں۔ لیکن جن مورخوں کے ذریعہ سے یہ تاریخیں ہم تک پہنچی ہیں کہاں ان میں کسی تاریخ کااپنے مؤرخ یامؤرخین سے وہ تعلق تھا جو صحابہ کا حضوراکرمﷺ کے ساتھ تھا؟ پہلے تو مشکل ہی سے آج کوئی ایسا تاریخی حصہ ایسا ہمارے پاس نکل سکتا ہے جس کے مؤرخین خود ان واقعات کے عینی شاھد ہوں۔جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا عموماً ان تاریخوں کی تدوین یوں ہوتی ہے کہ ابتداء میں مبہم، مجہول الحال افواہوں، کہانیوں کی صورت میں واقعات اِدھر اُدھر بکھرے رہے، پھرجب ان میں سے کسی کوشوق ہوا تواس نے ان ہی افواہوں کوقلمبند کرنا شروع کیا ہے، پھرخود اس مؤرخ ہی نے یااس کے بعد والوں نے قرائن وقیاسات سے جہاں تک ممکن ہوا جس حصہ کوچاہا باقی رکھا، جسے چاہا حذف کردیا۔ پھرجوں جوں ان قلمبند شدہ واقعات پرزمانہ گذرتا گیا اوراق میں زیادہ بوسیدگی پیدا ہوئی، کیڑوں کی خوراک سے بچ کر جوحصہ باقی رہا پچھلی نسلوں کے لیے وہی تاریخی وثیقہ بن گیا۔ اسی لیے آج مطبوعہ کتابوں سے زیادہ بھروسہ قلمی کتابوں پرکیا جاتا ہے اور سنگی، برنجی یاآہنی تختیوں کا کوئی ذخیرہ اگرکسی مورخ کومل گیا تووہی چیز جوہمارے جیسے انسانوں نے کسی زمانہ میں لکھ کر زمین میں گاڑی تھی؛ بلکہ ہم تواپنے معاصرین کوتوایک حد تک جانتے بھی ہیں؛ لیکن ان کے لکھنے والوں کا توکچھ پتہ نہیں ہوتا۔۔مگروہ معصوم فرشتوں کے بیان کی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں۔
کچھ بھی ہو کسی کی تاریخ ہو ان کے مؤرخوں کوان واقعات سے یاصاحب واقعات سے قطعاً وہ تعلق نہیں تھا اور نہ ہوسکتا ہے، جوصحابہ کرام کونبی کریمﷺ کے ساتھ تھا، وہ اپنے ماں باپ، بیوی، بچوں؛ بلکہ اپنی جانوں سے بھی زیادہ حضورِاکرمﷺ اور آپ کی زندگی کوعزیز رکھتے تھے، وہ سب کچھ آپ پرقربان کرنے کے لیے تیار تھے؛ گویا ایک قسم کے عشق وسرمستی کے نشہ میں مخمور تھے؛ یقیناً یہ ایسا امتیاز ہے جو کسی تاریخی واقعہ کواپنے مؤرخین کے ساتھ حاصل نہیں، آخر دنیا کی ایسی کونسی تاریخ ہے جس کے بیان کرنے والے مؤرخین اس تاریخ سے ایسا والہانہ تعلق رکھتے ہیں کہ بیان کرتے جاتے ہوں اور روتے بھی جاتے ہوں، کانپتےبھی جاتے ہوں، عبداللہ بن مسعودؓ کے متعلق ان کے دیکھنے والوں کا بیان ہے کہ وہ حضوراکرمﷺ کی طرف منسوب کرکے بہت کم احادیث بیان کرتے؛ لیکن اگرکبھی زبان پرحضورِاکرمﷺ کا نام آگیا، راوی کا بیان ہے کہ اس کے بعد:ترجمہ:کانپنے لگتے اور ان کے کپڑوں میں تھرتھری پیدا ہوجاتی، گردن کی رگیں پھول جاتی تھیں، آنکھیں آنسوؤں سے بھر جاتیں۔ (مسنداحمد:۷/۱۱۵، مؤسسۃ الرسالۃ بیرو، الطبعۃ الثانیۃ)اس قسم کے واقعات حضرت ابوذرؓ اور حضرت ابوھریرہ کے ذکر میں بھی ملتے ہیں۔
عروہ بن مسعود ثقفی جواس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے صلح حدیبیہ کے موقع پر قریش کوصحابہ کرامؓ کے حضورِاکرمﷺ کے ساتھ اس نشۂ محبت کی خبراپنے کفر کے زمانہ میں یوں دیتے ہیں: ترجمہ:لوگو! خدا کی قسم! مجھے بادشاہوں کے دربار میں بھی بازیابی کا موقع ملا ہے، قیصر (روم) کسریٰ (ایران) نجاشی (ابی سینا) کے سامنے حاضر ہوا ہوں، قسم خدا کی! میں نے کسی بادشاہ کونہیں دیکھا جس کی لوگ اتنی عظمت کرتے ہوں جتنی محمد کے ساتھی محمد کی کرتے ہیں؛ قسم خدا کی! جب بلغم تھوکتے ہیں تونہیں گرتا ہے وہ لیکن ان کے ساتھیوں میں سے کسی آدمی کے ہاتھ میں؛ پھروہ اپنے چہرہ اور اپنے بدن پراسے مل لیتا ہے (محمد) جب کسی بات کا انہیں حکم دیتے ہیں، اس کی تعمیل کی طرف وہ جھپٹ پڑتے ہیں، جب محمدوضو کرتے ہیں تواس وقت ان کے وضو کے پانی پرآپس میں الجھ پڑتے ہیں، جب محمدبات کرتے ہیں توان کی آوازیں پست ہوجاتی ہیں، محمدکونگاہ بھرکر ان کی عظمت کی وجہ سے وہ نہیں دیکھ سکتے۔ (بخاری، كِتَاب الشُّرُوطِ،بَاب الشُّرُوطِ فِي الْجِهَادِ وَالْمُصَالَحَةِ مَعَ أَهْلِ الْحَرْبِ وَكِتَابَةِ الشُّرُوطِ،حدیث نمبر:۲۵۲۹، شاملہ، موقع الإسلام)
اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جس تاریخ کواس کے مورخوں میں محبوبیت کا یہ مقام حاصل ہو وہ کس قدر محفوظ ومامون ہوسکتی ہے۔۔!

3. علاوہ مذکورہ بالا تعلقات کے ان براہِ راست مؤرخوں یاچشم دیدراویوں اور گواہوں نے حضوراکرمﷺ کے دستِ مبارک پربیعت ہی اس بات پرکی تھی کہ تاریخ کے اس عجیب وغریب واقعہ کے ہرہرجزو، ایک ایک خط وخال کے زندہ نقوش اپنے اندر پیدا کریں گے۔ انہوں نے جس قرآن کو خدا کی شریعت اور قدرت کا قانون یقین کرکے مانا تھا اس میں بار بار مطالبہ کیا گیا تھا کہ تم میں سے ہرایک کی زندگی کا نصب العین صرف یہی ہونا چاہیے کہ جوکچھ محمدرسول اللہﷺ فرماتے ہیں اسے سنو، محمدرسول اللہﷺ جوکچھ کرتے ہیں ان کی ہرہرادا پرنگاہ رکھو اور ٹھیک من وعن جس طرح ان کوجوکچھ کرتے ہوئے دیکھتے ہو تم بھی اس کام کواسی طرح انجام دینے کی کوشش کرو۔ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ۔ (الاحزاب:۲۱)
مزید صرف رسول اللہﷺ کے اقوال واعمال کی اطاعت واتباع ہی ان بزرگوں کے لیے ضروری نہ تھی؛ بلکہ یہ بھی کہ جوکچھ انہوں نے دیکھا ہے وہ دوسروں تک مسلسل پہنچاتے چلے جائیں ہرحاضر،غائب اورہرپہلا پچھلوں کوان کی طرف بلاتا جائے۔ منی کا میدان ہے، خیف کی مسجد ہے، ایک لاکھ سے اوپرحضوراکرمﷺ پرایمان لانے والوں کا مجمع ہے، سب کومخاطب کرکے فرمایا جاتا ہے:ترجمہ:تروتازہ رکھے اللہ اس بندے کوجس نے میری بات سنی؛ پھراسے یادرکھا اور جس نے نہیں سنا ہے اس تک انہیں پہنچایا۔ (مسنداحمدبن حنبل، حَدِيثُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ،حدیث نمبر:۱۶۷۸۴، شاملہ، الناشر:مؤسسۃ قرطبۃ، القاھرۃ)
یہی منی کا میدان ہے، حجۃ الوداع کے تاریخی خطبہ میں اعلان فرمایا جاتا ہے:ترجمہ:میں تم میں دوچیزیں چھوڑتا ہوں جن کے بعد تم پھرگمراہ نہیں ہوسکتے (ایک تو) اللہ کی کتاب اور دوسری میری سنت، یہ دونوں باہم ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے جب تک کہ حوضِ (کوثر) پرمیرے سامنے ہوجائیں۔ (مستدرک حاکم، کتاب العلم، حدیث نمبر:۳۱۹، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، الطبعۃ الاولی)پھراس خطبہ کے اختتام پرفرمایا:أَلَالِيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ۔ ترجمہ:چاہئے کہ جوحاضر ہے وہ غائب کو پہنچائے۔(بخاری،كِتَاب الْمَغَازِي،بَاب حَجَّةِ الْوَدَاعِ،حدیث نمبر:۴۰۵۴،شاملہ، موقع الإسلام)
نہ صرف آپﷺ عام مجامع میں یہ اعلان کرتے تھے؛ بلکہ ملک کے مختلف اطراف سے وقتا فوقتا جووفود دربارِ نبوت میں حاضر ہواکرتے تھے، عموماً ان کوایسی جگہ ٹھہرایا جاتا تھا جہاں سے اس واقعہ کے معائنہ اور مشاہدہ کا ان کوکافی موقع مل سکتا ہو جس کے وہ مؤرخ بنائے جاتے تھے؛ پھرجوکچھ سنانا اور دکھانا مقصود ہوتا وہ سنایا اور دکھایا جاتا تھا، آخر میں رخصت کرتے ہوئے حکم دیا جاتا؛ جیسا کہ بخاری میں ہے:ترجمہ:ان باتوں کویادرکھو اور جولوگ تمہارے پیچھے ہیں انہیں اس سے مطلع کرتے رہنا۔ (بخاری، كِتَاب الْإِيمَانِ،بَاب أَدَاءُ الْخُمُسِ مِنْ الْإِيمَانِ،حدیث نمبر:۵۱، شاملہ، موقع الإسلام)
ان تمام امور کے ساتھ اس کوبھی پیشِ نظر رکھنا چاہیے کہ جس ذاتِ گرامی کے ہرقول کووہ خدا کی بات اور خدا کا حکم سمجھتے تھے، اسی نے باربار بکثرت انکو اس بات سے بھی خبردار کردیا تھا کہ مشہور حدیث جو مجھ پر قصداً جھوٹ باندھے گا چاہیے کہ اپنا ٹھکانہ آگ میں تیار کرلے) ۔(بخاری، كِتَاب الْجَنَائِزِ، بَاب مَايُكْرَهُ مِنْ النِّيَاحَةِ عَلَى الْمَيِّتِ ،حدیث نمبر:۱۲۰۹، شاملہ، موقع الإسلام)
یہ تہدیدی خوف ان پراس قدرطاری تھا کہ جس قدر صحابیوں سے یہ روایت نقل کی گئی ہے بہت کم حدیثیں اس قدر کثیرتعداد صحابہ سے مروی ہوں گی۔ پھر جس قسم کے ایمان وایقان سے وہ معمور تھے وہ اس کے ساتھ اس قسم کی غلط بیانی اور دروغ گوئی سے کیسے کام لے سکتے تھے، جب وہ یہ جانتے تھے کہ حضوراکرمﷺ کی طرف کسی چیز کی نسبت درحقیقت خدا کی جانب اس چیز کی نسبت کرنا ہے؛ یہی وجہ تھی کہ بعض صحابہ جب یہ حدیث بیان کرنے کے لیے بیٹھتے تھے تواس سے پہلے وَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ والی حدیث ضرور پڑھ لیتے؛ تاکہ اپنی نازک تاریخی ذمہ داری کا احساس انھیں تازہ ہوجائے، ذخیرۂ حدیث کے سب سے بڑے راوی حضرت ابوھریرہؓ کا یہ دوامی معمول تھا کہ اپنی حدیث جس وقت بیان کرنی شروع کرتے توکہتے: فرمایا رسولِ صادق ومصدوق ابوالقاسمﷺ نے جس نے مجھ پرقصداً جھوٹ باندھا چاہیے کہ اپنا ٹھکانہ آگ میں تیار کرے۔ (الاصابہ، حرف الیاء، القسم لأول:۳/۴۲۱، شاملہ، موقع الوراق)
اس وعیدِ شدید نے صحابہ کرام اور مابعد کے علماء حدیث کونقل روایت میں ایسا محتاط بنادیا کہ جب تک نہایت کڑی تنقید وتحقیق کے ساتھ کسی حدیث کا ثبوت نہ ملے اس کوآپ کی طرف منسوب کرنے سے گریز کیا۔

4. یہ بھی ملحوظ رہے کہ آپﷺ جوکچھ صحابہ کوسناتے یاکرتے دکھاتے تھے اس کے متعلق صرف یہ حکم نہ تھاکہ تم بھی ان کویاد رکھنا یاکرنا؛ بلکہ اس کی باضابطہ نگرانی فرماتے تھے کہ اس حکم کی کس حد تک تعمیل کی جاتی ہے، اس تعلق سے حضوراکرمﷺ کی نگرانی کا کیا حال تھا، اس کا اندازہ آپ کواس سے ہوسکتا ہے کہ ایک معمولی بات یعنی ایک صحابی کویہ بتاتے ہوئے کہ جب سونے لگوتویہ دعا پڑھ کر سویا کرو، حضوراکرمﷺ نے خود سے بتانے کے بعد فرمایا: اچھا میں نے کہا، تم اسے دہراؤ، صحابی نے آخری فقرہ آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ وَبِنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ (ایمان لایا میں اس کتاب پرجو تونے اتاری اور اس نبی پر جسے تونے بھیجا) میں نَبِيِّكَ کے لفظ کووَرَسُولِكَ کے لفظ سے بدل دیا۔ (بخاری،كِتَاب الْوُضُوءِ،بَاب فَضْلِ مَنْ بَاتَ عَلَى الْوُضُوءِ ،حدیث نمبر:۲۳۹، شاملہ، موقع الإسلام)تقریباً ہم معنی الفاظ ہیں؛ لیکن حضورﷺ نے ان کو وہی الفاظ کہنے کی تلقین فرمائی جوآپ نے کہا تھا؛ حالانکہ سونے کی دعا کی حیثیت ان شرعی حقائق وقوانین کی نہیں جوفرائض وواجبات کے ذیل میں آتے ہوں؛ لیکن ایک ایک لفظ کے بارے میں حضوراکرمﷺ کی یہ نگرانی تھی۔
حضوراکرمﷺ کی یہ دوامی عادات مبارکہ تھی کہ:جب حضورﷺ کوئی بات کرتے تواس کوتین دفعہ دہراتے۔ (بخاری،كِتَاب الْعِلْمِ،بَاب مَنْ أَعَادَ الْحَدِيثَ ثَلَاثًا لِيُفْهَمَ عَنْهُ،حدیث نمبر:۹۳، شاملہ، موقع الإسلام)غالباً یہ اسی وجہ سے فرماتے تھے کہ الفاظ کے سننے میں کسی طرح کی کوئی کمی نہ ہو۔آپﷺ نے اپنی حیات کی ہرہرخبر کی حفاظت کے لیے اپنے مورخین کی یوں نگرانی کی تھی، آپ نے ان کے ہرمعاملہ میں رہنمائی ورہبری کی، کیا دنیا کی کوئی تاریخ بھی موجود ہے جس نے اپنے مورخین کی اور راویوں کے بیان وادا کی خودنگرانی کی ہو اور اس قدر سخت نگرانی کی ہو۔اس لیے تاریخی واقعات وروایات کوکسی حال میں وہ درجہ حاصل نہیں ہوسکتا جوروایاتِ حدیث کوحاصل ہے۔

5. پھر بعد میں محدثین نے ان احادیث کی بھی جانچ پڑتال کا ایک فن “اسماء الرجال “کا فن ایجاد کیا جسمیں راوی کے تمام ضروری حالات مثلاً، پیدائش وفات، تعلیم کب اور کس سے حاصل کی، شاگرد کون تھے، ناقدین کیا رائے تھی وغیرہ ذالک سب اس میں موجود ہیں ۔ اسی فن اسماء الرجال کے بارے میں ڈاکٹر اسپرنگر جیسے متعصب یورپین کو بھی یہ لکھنا پڑا کہ “کوئی قوم دنیا میں ایسی نہیں گزری، نہ آج موجود ہے، جس نے مسلمانوں کی طرح “اسماء الرجال “کا عظیم الشان فن ایجاد کیا ہو ،جس کی بدولت آج پانچ لاکھ شخصوں کا حال معلوم ہوسکتا ہو۔”( خطبات مدراس صفحہ ۴۲)

6. فن حدیث تاریخی تنقید ہی کا دوسرا نام ہے۔ پہلی صدی سے آج تک اس فن میں یہی تنقید ہوتی رہی ہے اور کوئی فقیہ یا محدث اس بات کا قائل نہیں رہا ہے کہ عبادات ہوں یا معاملات، کسی مسئلے کے متعلق بھی رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے نسبت دی جانے والی کسی روایت کو تاریخی تنقید کے بغیر حجت کے طور پر تسلیم کر لیا جائے۔ جدید زمانے کی بہتر سے بہتر تاریخی تنقید کو بھی مشکل ہی سے اس پر اضافہ و ترقی کہا جا سکتا ہے۔ بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ محدثین کے اصول تنقید اپنے اندر ایسی نزاکتیں اور باریکیاں رکھتے ہیں جن تک موجودہ دور کے ناقدین تاریخ کا ذہن بھی ابھی تک نہیں پہنچا ہے۔ دنیا میں صرف محمد رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت و سیرت اور ان کے دور کی تاریخ کا ریکارڈ ہی ایسا ہے جو اس کڑی تنقید کے معیاروں پر کسا جانا برداشت کر سکتا تھا جو محدثین نے اختیار کی ہے، ورنہ آج تک دنیا کے کسی انسان اور کسی دور کی تاریخ بھی ایسے ذرائع سے محفوظ نہیں رہی ہے کہ ان سخت معیاروں کے آگے ٹھہر سکے اور اس کو قابلِ تسلیم تاریخی ریکارڈ مانا جا سکے۔
یہ تاریخی تنقید کا ایک وسیع علم انتہائی باریک بینی کے ساتھ صرف اس مقصد کے لیے مدون ہو گیا کہ اس ایک فرد فرید کی طرف جو بات بھی منسوب ہو، اسے ہر پہلو سے جانچ پڑتال کر کے صحت کا اطمینان کر لیا جائے۔ کیا دنیا کی پوری تاریخ میں کوئی اور مثال بھی ایسی ملتی ہے کسی ایک شخص کے حالات محفوظ کرنے کے لیے انسانی ہاتھوں سے یہ اہتمام عمل میں آیا ہو؟ اگر نہیں ملتی اور نہیں مل سکتی، تو کیا یہ اس بات کا صریح ثبوت نہیں ہے کہ اس اہتمام کے پیچھے بھی وہی خدائی تدبیر کارفرما ہے جو قرآن کی حفاظت میں کارفرما رہی ہے؟

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password