کیاحدیث قرآن کے خلاف عجمی سازش ہے؟

حدیث پر قرآن کے سائے

حدیث ہمیں کس طرح قرآن کریم کی طرف متوجہ کرتی ہے اور حدیث پر کس طرح قرآن کے سائے پھیلے ہوئے ہیں اورحدیث میں قرآن کریم کو کس طرح سربراہ مانا گیا ہے؟ اس سے اس پروپیگنڈے کی خود تردید ہوجائیگی کہ حدیث قرآن کے خلاف ایک عجمی سازش ہے،حدیث کے لٹریچر کا اگر یہی مقصد ہوتا کہ لوگوں کو قرآن کریم سے ہٹایا جائے تو اس میں قرآن کے سائے اس دور تک پھیلے ہوئے ہمیں کبھی نہ ملتے،حق یہ ہے کہ حدیث میں قدم قدم پر قرآن کریم کی سربراہ حیثیت کا اقرار ہے،آئیے دیکھیں روایاتِ حدیث میں کہیں قرآن کریم کے حوالے بھی ملتے ہیں؟ ملتے ہیں تو کس حیثیت سے؟ حدیث پر قرآن کریم کس طور پر سایہ فگن ہے؟ اورمتون حدیث میں قرآن کریم کو کس حیثیت سے ذکر کیا گیا ہے برابر کے ماخذ علم ہونے کی حیثیت سے یا اسے ایک منبع کی حیثیت سے ذکر کرتے ہیں جس سے آگے علم کے کئی اور چشمے پھوٹے ہوں۔اس موضوع میں دیکھنا چاہئے کہ محدثین کے ہاں مرویات حدیث میں قرآنی ہدایت کن اصولی حدود تک کارفرما ہے اور اس کی اصولی نظائر کس کس انداز میں مرویاتِ حدیث میں موجود ملتے ہیں۔
بعض روایات حدیث میں کتاب و سنت کو دوبرابر کے ماخذ علم کی حیثیت میں پیش کیا گیا ہے “ترکت فیکم امرین” ” میں تم لوگوں میں دو چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں” کی تعبیرات دونوں کو ایک ساتھ ذکر کرتی ہیں؛ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان تمام مرویات میں کتاب اللہ کا ذکر پہلے اورسنت یا حدیث کا ذکر بعد میں ہے،یہ صحیح ہے کہ عربی زبان میں واؤ ترتیب کے لیے نہیں ہوتی ؛لیکن سینکڑوں روایات میں ایک ہی ترتیب کا التزام بتلاتا ہے کہ قرآن مجید ہمیشہ سے مقدم رہا ہے اورحدیث قرآن کی برابری کے لیے نہیں اس کا آگے عملی پھیلاؤ ہے،یہ نہر ہدایت منبع قرآن سے ہی نکلی ہے اورحدیث میں ہر جگہ قرآن کو ہی سربراہ تسلیم کیا گیا ہے، علوم اسلامی کے تمام سوتے قرآن سے ہی پھوٹے ہیں اور یہی منبع علم ہے جو آگے پھیلتا چلا گیا؛پھر ایسی روایات کی بھی کمی نہیں جن میں آنحضرتؐ نے صرف قرآن کوہی پیش کیا ہے؛ اسی کو حق سے وابستگی بتلایا ہے؛ اسی کو حق کا نشان کہا ہے اوربنی نوع انسان کو اسی کی ابدی سچائی کی طرف دعوت دی ہے۔
یہ دونوں بنی نوع انسان کے لیے برابر کے حجت ہیں؛لیکن ماخذ علم ہونے میں دونوں ایک ترتیب سے سامنے آئے ہیں اور درجہ ہر ایک کا اپنا اپنا ہے۔بعض روایات میں۔”أَلَا إِنِّي أُوتِيتُ الْكِتَابَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ”۔ ترجمہ:کہ مجھے کتاب اللہ کے ساتھ اسی کی مثل اور بھی عطاء فرمائی گئی ہے۔(ابو داؤد،باب فی لزوم السنۃ،حدیث نمبر:۳۹۸۸)کے سے الفاظ ملتے ہیں؛ لیکن یہاں مثلیت سے مثلیت من کل الوجوہ مراد نہیں، قرآن مجید صفتِ خداوندی ہے اورمخلوق نہیں ہے، صفت باری تعالی مخلوق کیسے ہوسکتی ہے؟ حدیث قول و فعل پیغمبرﷺ ہے اورپیغمبرﷺ خود مخلوق ہیں، جو مخلوق سے صادر ہو وہ غیر مخلوق جیسا کیسے ہوسکتا ہے،سو یہاں مثلیت سے مراد مثلیت فی الحجۃ ہے؛ یعنی جس طرح قرآن مومنین کیلیے حجت ہے،قانون اور شرع ہے؛ اسی طرح حدیث بھی مومنین کے لیے قانون اورشرع، حدیث کا سرچشمہ بھی گو وحی الہٰی ہی ہے،لیکن تعبیر قرآن اورحدیث کی اپنی اپنی ہوتی ہے اورمسلمانوں کے لیے ہر دوماخذ علم ہیں اوراپنےاپنے درجے میں رہتے ہوئے یکساں حجت ہیں، کسی کا بھی کوئی عمدا انکار کرے تو وہ کفر کی دلدل میں گرجاتا ہے۔

حدیث میں قرآن بحیثیت منبع ہدایت ہے:

حدیث کے لٹریچر میں جگہ جگہ قرآن کی طرف متوجہ کیا گیا ہے عام محدثین قرآن کریم کو ہمیشہ سے منبع ہدایت تسلیم کرتے آئے ہیں،المصنف لا بن ابی شیبہؒ میں ہے۔
(۱)حضرت زید بن ارقم آنحضرتﷺ سے روایت کرتے ہیں،حضورﷺ نے فرمایا:
ترجمہ: میں تم میں کتاب اللہ چھوڑے جارہا ہوں، یہ اللہ کی مضبوط رسی ہے،جس نے اس کی پیروی کی ہدایت پر رہا اورجس نے اسے چھوڑدیا وہ گمراہی پر ہے۔(کنز العمال:۱/۱۸۵)
(۲)حضرت جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا: ترجمہ:اور میں نے وہ چیز چھوڑی ہے کہ اگر تم نے اس سے تمسک کیا تم کبھی گمراہ نہ ہوگے، وہ اللہ کی کتاب ہے۔(مسلم،باب حجۃ النبیﷺ ،حدیث نمبر:۲۱۳۷)
(۳)حضرت عبداللہ بن ابی اوفیؓ سے پوچھا گیا کہ حضورﷺ نے کسی کے لیے کوئی وصیت فرمائی؟ آپ نے کہا نہیں، اس نے کہا ہمیں تو آپﷺ نے وصیت کرنے کا حکم دیا اورخود کوئی وصیت نہیں فرمائی؟ اس پر حضرت عبداللہ بن ابی اوفیؓ نے کہا: ترجمہ:آپ نے قرآن کریم کو لازم پکڑنے کی وصیت فرمائی ہے۔(مسند الطیالسی، باب ھل اوصی رسول اللہﷺ :۲/۴۰۱)
ان تمام روایات میں قرآن کریم پر اقتصار کیا گیا ہے کہ وہ اطاعت رسول کی دعوت دیتے ہوئے عمل بالسنۃ کو بھی شامل ہے، کما فی بذل المجہود:۳/۱۵۵)؎

حدیث میں قرآن کی طرف رجوع :

آنحضرتﷺ جانتے تھے کہ نص قرآنی “إِذَاقَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا” کے تحت آپﷺ کے فیصلے اورارشادات بذات خود سند اورحجت ہیں،کسی مومن کو حق نہیں کہ صحیح حدیث ملنے کے بعد اس سے بڑی سند کا مطالبہ کرے یا قرآن سے اس کی دلیل مانگے، پھر بھی آپﷺ نے قرآن کی اساسی حیثیت اوراس کے اصل منبع علم ہونے کا بارہا اظہار فرمایا ہے،حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ حضور اکرمﷺ نے کئی بار فرمایا،چاہو تو اس باب میں تم قرآن کریم بھی پڑھ لو، آپﷺ کی عادت مبارک تھی کہ حدیث بیان کرتے کرتے کبھی کبھی اس کی اصل قرآن کی بھی نشاندھی فرمادیتے، قرآن کریم سے یہ استشہاد کبھی تو عین مضمون کے لیے ہوتا اورکبھی یہ مراد ہوتی کہ یہ بات اس عام حکم قرآن میں داخل ہے۔
چند ایسی روایات پیش ہیں جن میں آنحضرتﷺ نے حدیث بیان کرتے ہوئے خود قرآن پاک سے اس کی تائید پیش فرمائی؛ اس سے یہ مضمون کھل جاتا ہے کہ مطالعہ حدیث ہمیں کہاں تک قرآن کریم کی طرف متوجہ کرتا ہے اورکیسے اصل کی طرف لوٹاتا ہے،یوں کہیے حدیث کی اصل قرآن کریم ہی ہے۔

حضورﷺ کا حدیث بیان کرتے وقت قرآن پڑھنا:

(۱)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ الْخَلْقَ حَتَّى إِذَا فَرَغَ مِنْ خَلْقِهِ قَالَتْ الرَّحِمُ هَذَا مَقَامُ الْعَائِذِ بِكَ مِنْ الْقَطِيعَةِ قَالَ نَعَمْ أَمَا تَرْضَيْنَ أَنْ أَصِلَ مَنْ وَصَلَكِ وَأَقْطَعَ مَنْ قَطَعَكِ قَالَتْ بَلَى يَا رَبِّ قَالَ فَهُوَ لَكِ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ”۔
(بخاری، باب من وصل وصلہ اللہ،حدیث نمبر:۵۵۲۸)
ترجمہ:اللہ تعالی نے تمام مخلوق کو پیدا کیا یہاں تک کہ جب پیدا کرنے سے فارغ ہوا تو رشتہ داری نے عرض کیا کہ اے اللہ یہ تیرے حضور اس کی فریاد ہے جو قطع رحمی سے تیری پناہ مانگے، اللہ تعالی نے فرمایاکیا تجھے یہ پسند نہیں کہ میں اس سے ملوں جو تجھے ملائے اوراس سے قطع تعلق کروں جو تجھ سے قطع تعلق کرے، رحم نے عرض کیا اے میرے پروردگار کیوں نہیں،خدا تعالی نے فرمایا، بس یہ تجھے حاصل ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم یہ چاہو تو یہ آیت پڑھو۔”فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ”۔(محمد:۲۲) ترجمہ:(کیا عجب ہے کہ اگر تم مالک بن جاؤ زمین کے تو اس میں فساد کرنے لگو اور رشتہ داریوں کو کاٹنے لگو)
اس روایت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قطع رحمی (رشتوں کے حقوق توڑنا) کی مذمت بیان کرتے ہوئے، اس پر قرآن کریم کی آیت تلاوت فرمائی جس میں قطع رحم کی برائی مذکور تھی،کیا اس میں آنحضرتﷺ نے اپنے بیان پر قرآن کریم سے شہادت پیش نہیں فرمائی؟ کیا اب بھی کوئی کہہ سکتا ہے کہ حدیث،قرآن کے خلاف ایک نئے ماخذ کو کھڑا کرنا تھا؟ کچھ تو غور کیجئے اور حدیث کی اہمیت سے انکار نہ کیجئے۔
(

(۲)حضرت عبداللہ بن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حد مارنے کیلیے لایا گیا، حضورﷺ کے چہرہ مبارک پر کچھ غبار کے سے آثار ظاہر ہوئے، گویا کہ آپ پریشان ہیں، صحابہ نے عرض کی کہ آپ پر یہ صورت کیوں گراں گزری،آپﷺ نے فرمایا:
“وَمَايَمْنَعُنِي وَأَنْتُمْ أَعْوَانُ الشَّيْطَانِ عَلَى صَاحِبِكُمْ وَاللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَفُوٌّ يُحِبُّ الْعَفْوَ وَلَا يَنْبَغِي لِوَالِي أَمْرٍ أَنْ يُؤْتَى بِحَدٍّ إِلَّا أَقَامَهُ”۔(مسند احمد،باب مسند عبداللہ بن مسعودؓ،حدیث نمبر:۳۷۸۰)
ترجمہ: اوراس سے مجھے کونسی چیز روک سکے؟ اور تم اپنے بھائی پر شیطان کے مددگار بن کر چڑھے ہو، اللہ تعالی معاف کرنے والے ہیں اور معاف کرنے کو پسند کرتے ہیں اور ہاں یہ کسی حاکم کے لیے جائز نہیں کہ اس کے پاس حد کا کوئی معاملہ(کیس) آئے مگر یہ کہ وہ اس حد کو قائم کردے۔اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن پاک کی یہ آیت تلاوت فرمائی” وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا”(النور:۲۲)(اورچاہئے کہ معاف کریں اور در گزر کریں)۔ (محدث عبدالرزاق(۲۱۱ھ)
آنحضرتﷺ نے اپنے طبعی رجحان کا اظہار فرمانے کے بعد اس پر قرآن کریم کی آیت سے استشہاد فرمایا کہ جہاں تک ہوسکے چاہئے کہ معاف کریں اور در گزر کریں، کیا اس حدیث پر قرآن کریم کا وسیع سایہ نہیں ملتا؟ اورکیا یہاں حدیث پر قرآن کی اصولی سربراہی کارفرمانہیں؟۔

(۳)حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا:
“مَامِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ وَيُنَصِّرَانِهِ أَوْيُمَجِّسَانِهِ كَمَا تُنْتَجُ الْبَهِيمَةُ بَهِيمَةً جَمْعَاءَ هَلْ تُحِسُّونَ فِيهَا مِنْ جَدْعَاءَ ثُمَّ يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ”۔
(بخاری،باب اذا اسلم الصبی فمات ھل یصلی،حدیث نمبر:۱۲۷۱)
ترجمہ: ہر بچہ فطرت اسلامی پر پیدا ہوتا ہے،اس کے بعد اس کے ماں باپ اسے یہودی،نصرانی یا مجوسی بنالیتےہیں، جس طرح جانوروں کے بچے تندرست وتوانا اورسالم پیدا ہوتے ہیں مگر بعد میں یہ کافران کے کان وغیرہ کاٹ ڈالتے ہیں یعنی ا س طرح انسانوں کے سب بچے اسلامی فطرت پر پیدا ہوتے ہیں) اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی:”فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ”۔ (الروم:۲۹)ترجمہ: وہ فطرت اللہ ہے اللہ نے اسی پر لوگوں کو تخلیق بخشی اللہ کا دین نہیں بدلتا، یہی ٹھیک دین ہے قائم رہنے والا۔
آنحضرتﷺ نے جوبات بیان فرمائی وہ اپنی جگہ سند کامل اورحق کی حجت تھی مگر اس پر بھی حضورﷺ نے اسے قرآن پاک سے مستفاد فرمایا، دیکھئے حدیث پرقرآن کے سائے کس طرح وسیع پھیلے ہوئے ہیں۔ اس قسم کی احادیث کے ہوتے ہوئے کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ حدیث دراصل قرآن کے خلاف ایک عجمی سازش تھی جس کا مقصد لوگوں کو قرآن سے ہٹانا اوراحادیث کے گرد لانا تھا؟ کیا ان احادیث میں صریح طورپر قرآن کریم کو منبع ہدایت کے طورپر نہیں مانا گیا؟ کچھ تو سوچئے اورانصاف سے کام لیجئے۔(مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:اٰثارالحدیث،۲۶۰،ازڈاکٹر خالد محمود)
ایک اورروایت میں ہے:
“لَاتَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا فَإِذَا طَلَعَتْ وَرَآهَا النَّاسُ آمَنَ مَنْ عَلَيْهَا فَذَلِكَ حِينَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ أَوْكَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا”۔(مسند احمد،باب مسند ابی ھریرۃؓ،حدیث نمبر:۶۸۶۴)
ترجمہ:قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک آفتاب مغرب سے طلوع نہ ہو اور جب لوگ آفتاب کو مغرب سے طلوع ہوتا دیکھ لیں گے تو روئے زمین کے سب لوگ خدا پر ایمان لے آئیں گے، سو یہ وہ وقت ہوگا جب کسی شخص کا ایمان لانا اسے فائدہ نہ پہنچائیگا،جب تک کہ پہلے سے ایمان نہ لایا ہو یا اس نے اپنے ایمان میں کوئی نیکی نہ کی ہو۔آپﷺ نے اپنے اس بیان پر قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی۔”لَايَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ أَوْكَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا”۔(الانعام:۱۵۸)ترجمہ:اس دن کسی ایسے شخص کا ایمان اس کے لیے کارآمد نہیں ہوگا جو پہلے ایمان نہ لایا ہو یا جس نے اپنے ایمان کے ساتھ کسی نیک عمل کی کمائی نہ کی ہو۔
دیکھئے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حدیث اور قرآن میں کس گہرے ربط کا اظہار فرمارہے ہیں،گویا حدیث منبع قرآن سے ہی ایک چشمہ پھوٹا ہے اوراس میں قرآنی جلال و جمال ہی اپنی لہریں دکھارہے ہیں۔
حضورﷺ قرآن و حدیث کا جو ربط بیان فرما رہے ہیں وہ اس حدیث سے واضح ہے، کیا اب بھی کوئی کہہ سکتا ہے کہ حدیث قرآن کے خلاف ایک عجمی سازش ہے،اگر ایسا ہوتا توحدیث پرقرآن کے اتنے وسیع سائے ہرگز نہ پھیلتے۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رکوع اورسجدوں میں “سُبْحَانَکَ اَللَّھُمَّ وَبِحَمْدِکَ اَللَّھُمَّ اغْفِرْلِیْ” بہت پڑھتے ہیں تو آپ کی نظر قرآن مجید کی اس آیت پر گئی۔”فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا”۔(النصر:۳)ترجمہ: سو آپﷺ اپنے رب کی تسبیح و تحمید کیجئے اوراس سے بخشش مانگئے،بے شک وہ تو بہ قبول کرنے والے ہیں۔
اس میں تسبیح وتحمیداور طلب مغفرت تینوں کا ذکر ہےاور حضورﷺ کی مذکور دعاء میں بھی یہ تین باتیں موجود ہیں:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن پاک کو اسلام کی مرکزی ہدایت نہ مانا ہوتا تو آپﷺ کا عمل اس طرح قرآن کی عملی تشکیل نہ کرتا، آپ ﷺ کے عمل اور قرآن پاک کی مذکورہ ہدایت میں تطبیق کس نے دیکھی؟ حضرت ام المومنینؓ نے۔ معلوم ہوا ان کے عقیدے میں حضورﷺ کے اقوال واعمال قرآن ہی کی عملی تشکیل تھے۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کا عقیدہ یہ تھا کہ اگر کوئی شخص حضور اکرمﷺ کے نام سے کوئی ایسی بات روایت کررہا ہے جو ظاہر مضمون قرآن سے ٹکرارہی ہے تو وہ بات ہرگز حضورﷺ نے کہی یا کی نہ ہوگی؛سو بایں صورت وہ راوی ایک غلط بات کہہ رہا ہوگا، امام بخاریؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت ام المومنین نے فرمایا:
جوشخص اس بات کا مدعی ہے کہ حضورﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے اس نے خدا پر بہت بڑا جھوٹ بولا ہے (حضرت ام المومنین ؓ رویت بالاحاطہ کے زعم کی نفی فرمارہی ہیں، مطلق رویت کی نہیں) (راوی کہتے ہیں) میں سہارا لگائے بیٹھا تھا۔ ام المومنین کی بات سن کر سیدھا بیٹھ گیا اور عرض کیا کہ ام المومنین مجھے بھی سوال کرنے کا موقع دیجئے اور فتویٰ دینے میں اتنی جلدی نہ فرمائیے،کیا قرآن مجید میں یہ موجود نہیں “وَلَقَدْ رَآهُ بِالْأُفُقِ الْمُبِين” (التکویر:۲۳) (آپﷺ نے اس کو افق مبین پر دیکھا) “وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى” (النجم:۱۳) (تحقیق آپﷺ نے ایک مرتبہ اور دیکھا )ام المومنین نے سن کر فرمایا: اس امت میں سب سے پہلے میں نے ہی اس کے بارے میں آنحضرتﷺ سے سوال کیا تھا تو آپﷺ نے فرمایا: اس سے مراد جبریل علیہ السلام ہیں،میں نے انہیں دو مرتبہ کے سوا اصلی صورت میں نہیں دیکھا، میں نے انہیں معراج شریف میں آسمان سے اترتے ہوئے دیکھا، ان کے جسم اور پروں کی وسعت زمین وآسمان کی درمیانی فضاء کو گھیرے ہوئے تھی، پھر آپ ؓ نے استدلال کے طور پر فرمایا: کیا تم نے قرآن میں نہیں سنا اللہ جل شانہ فرماتے ہیں :
“لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ ” (الانعام:۱۰۳)ترجمہ:آنکھیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں اورسب آنکھیں اس کے احاطہ میں ہیں اور وہ باریک بین خبر رکھنے والا ہے۔ایک اور جگہ فرماتے ہیں: “وَمَاكَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّاوَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا”(الشوریٰ:۵۱) ترجمہ:کوئی انسان اللہ جل شانہ سے بجز تین صورتوں کے ہمکلام نہیں ہوسکتا،بذریعہ وحی، بصورت حجاب، بواسطہ جبرئیل امین۔(مسلم،باب معنی قول اللہ عزوجل ولقد راہ،حدیث نمبر:۲۵۹)
ام المومنین نے مزید فرمایا کہ جو شخص اس بات کا مدعی ہے کہ حضورﷺ نے کتاب اللہ سے بعض چیزوں کو چھپالیا ہے وہ رسولﷺ پر بہتان باندھتا ہے؛حالانکہ اللہ ارشاد فرمارہے ہیں، “یَاأَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَاأُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ”۔ (المائدۃ:۶۷) (اے پیغمبر! جوکچھ آپﷺ پر نازل کیا گیا اسے لوگوں تک پہنچا دیں اور اگر آپ ایسا نہ کریں تو آپﷺ نے فریضہ رسالت کا حق ادا نہیں کیا)۔
پھر فرمایا کہ جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ حضورﷺ کل آئندہ کے بارے میں خبردے سکتے تھے (کہ کیا پیش آنے والا ہے یعنی عالم الغیب تھے) تو وہ بھی خدا پر جھوٹ باندھتا ہے؛ اس لیے کہ رب العزت فرماتے ہیں “لَايَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّااللَّهُ” (النمل :۶۵) زمین وآسمان میں غیب کو خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (مسلم،باب معنی قول اللہ عزوجل ولقد راہ،حدیث نمبر:۲۵۹)
غور فرمائیں کہ حضرت ام المؤمنینؓ کس طرح ایک ایک قدم پر قرآن کریم کی رہنمائی کی طرف متوجہ فرمارہی ہیں،کیا یہ احادیث قرآن کریم کی توضیح و تشریح ہے یا اس کے خلاف ایک عجمی سازش ہے؟۔

صحابہؓ کا حضورؐ کی حدیث بیان کرتے وقت قرآن سے استشہاد کرنا:

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا عقیدہ تھا کہ بیشک حضورﷺ کا عمل اور وہ تمام امور جن کو آپﷺ نے اپنے سکوت سے سند بخشی اسلام میں قانونی حیثیت رکھتے ہیں،لیکن یہ سب حضرات جانتے تھے کہ اللہ تعالی نے ہی حضورﷺ کو قرآن سکھلایا اوراس کا بیان سمجھایا ہے،سو قرآن کریم کو وہ بلاشبہ منبع العلم اوراصل الاصول جانتے تھے اور کبھی حضورﷺ کے بیان کردہ مضمون پر قرآن کریم کی کوئی آیت بھی پڑھ دیتے تھے، یہ اس لیے نہیں کہ اس آیت سے اس مضمون کو سند فراہم کرنے کی ضرورت تھی؛ بلکہ اس لیے کہ قرآن وحدیث میں ایک لطیف ربط ہمیشہ امت کے سامنے رہا ہے، فرمودہ رسالت تو ہر حال میں حجت اورسند ہے لیکن اس پر قرآن کی سربراہی بھی اپنی جگہ قائم رہنی چاہئے، صحابہ کرامؓ حاملین قرآن تھے ان پر “بِأَيْدِي سَفَرَةٍ، كِرَامٍ بَرَرَةٍ ” ( سورۃ عبس :۱۶) کا سایہ تھا وہ جہاں بھی موقع مناسب سمجھتے قرآن کریم کی اس اصولی حیثیت کا راز کھول دیتے اوریہ ارتباط کبھی استشہاد کی صورت بھی اختیار کرجاتا۔
یہاں ہم چند روایات پیش کرتے ہیں جن میں مختلف صحابہ کرامؓ نے حدیث کی صحت کے بارے میں قرآن پاک کے حوالے دیئے۔

(۱)حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا:”تَفْضُلُ صَلَاةُ الْجَمِيعِ صَلَاةَ أَحَدِكُمْ وَحْدَهُ بِخَمْسٍ وَعِشْرِينَ جُزْءًا وَتَجْتَمِعُ مَلَائِكَةُ اللَّيْلِ وَمَلَائِكَةُ النَّهَارِ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ”۔(بخاری:۲/۶۵۱)ترجمہ: تم میں سے ہر شخص کی جماعت کی نماز تنہا نماز سے پچیس درجے (ثواب میں) زیادہ ہے اوررات کے فرشتے اور دن کے فرشتے فجر کی نماز میں جمع ہوتے ہیں۔
اس حدیث کو پیش کرنے کے بعد حضرت ابوہریرہؓ نے قرآن کریم کی اس آیت سے استشہاد فرمایا:”إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا”۔(بنی اسرائیل:۷۸) ترجمہ:یاد رکھو کہ فجر کی تلاوت میں مجمع حاضر ہوتا ہے۔(بخاری،باب فضل صلاۃ الفجر فی جماعۃ:حدیث نمبر:۶۱۲)
اس قسم کی روایات پتہ دیتی ہیں کہ صحابہ کرامؓ اورمحدثین عظام نے ہمیشہ حدیث کو قرآن کے تابع سمجھا ہے۔

(۲)حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت والے مومنین کرام گناہگار مومنین کے بارے میں اللہ تعالی سے بخشش کی درخواست کریں گے اوراللہ تعالی فرمائیں گے نکال لو ہر اس شخص کو جس کے دل میں ذرہ بھر بھی ایمان ہو.(مصنف عبد الرزاق:۱۱/۴۱۰)
اس حدیث کو پیش کرتے ہوئے حضرت ابو سعیدؓ نے قرآن کریم کی ایک آیت تلاوت فرمائی اور کہا:”فَإِنْ لَمْ تُصَدِّقُونِي فَاقْرَءُوا، إِنَّ اللَّهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا وَيُؤْتِ مِنْ لَدُنْهُ أَجْرًا عَظِيمًا”۔ (النساء:۴۰)
ترجمہ: پس جو شخص اس حدیث کی تصدیق نہیں کرتا اس کو چاہئے کہ آیت کو پڑھے، بلاشبہ اللہ تعالی ایک ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا اور اگرنیکی ہو تو اس کو دوگنا کردیتا ہے اورا پنے ہاں سے بڑا اجر وثواب دیتا ہے۔(بخاری،بَاب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى وجوہ یومئذناضرہ،حدیث نمبر:۶۸۶۶)
یہ وہی مضمون ہے جو حدیث کا ہے؛ سو اب تو حدیث کی تصدیق ہوگئی اور معلوم ہوگیا کہ وہ صحیح تھی غور کیجئے صحابہؓ کرام کس اہتمام سے حدیث کی تائید میں قرآن لارہے ہیں، کیا اب بھی کوئی کہہ سکتا ہے کہ حدیث قرآن کے خلاف ایک عجمی سازش تھی۔(مزیدتفصیل،اٰثارالحدیث:۲۷۰)

(۳)حضرت ابوبکرصدیقؓ نے آنحضرتﷺ کی وفات پر خطبہ دیا اورفرمایا:پس جو تم میں سے محمدﷺ کی عبادت کرتا ہے تو محمدﷺ تو انتقال فرما گئے اور جو تم میں سے اللہ تعالی کی عبادت کرتا ہے تو اللہ تعالی تو زندہ ہے جو نہیں مرے گا۔اور پھر استشہاداً یہ آیت پڑھی، امام بخاریؒ اسے نقل کرتے ہیں۔
وَمَا”ثم تلا هذه الاية وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ”۔
(آل عمران:۱۴۴)ترجمہ: اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم تو ایک رسول ہیں،آپ سے پہلے بہت سے رسول ہوچکے: پھرکیا اگر وہ فوت ہوگئے یا مارے گئے تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟اورجو کوئی الٹے پاؤں پھر جائے گا،وہ ہرگز اللہ کا کچھ نہ بگاڑسکے گا اوراللہ ثواب دے گا شکر گزاروں کو۔
دیکھئے حضرت صدیق اکبرؓ اس نازک موقع پر کس صفائی سے قرآن پاک سے استدلال کررہے ہیں، حضورﷺ کی وفات کے بعد یہ آپ کا پہلا خطبہ تھا،گویا صحابہ کرام کا حضورﷺ کی وفات کے بعد سب سے پہلا اجماع قرآن پاک کی اساسی سربراہی پر ہوا۔

(۴)ایک شخص کا یہودی باپ مرگیا وہ زندگی میں تو اس کی خدمت کرتا رہا؛ لیکن اس کے جنازے میں نہ گیا، محدث عبدالرزاق روایت کرتے ہیں کہ اس پر حضرت عبداللہ بن عباس نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔”فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِلَّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ”۔ (التوبۃ:۱۱۴)ترجمہ: پھر جب کھل گیا حضرت ابراہیمؑ پر کہ وہ دشمن ہے اللہ کا تواس سے ایک طرف ہوگیا۔
دیکھیے ۔صحابہ کس طرح روز مرہ کی ضروریات میں قرآن سے استشہاد کرتے تھے،حدیث کی راہ سے قرآن پاک تک رسائی ان کے لیےبڑی دولت سمجھی جاتی تھی.زندگی میں باپ کے مسلمان ہوجانے کی امید بھی تھی جو اس کی وفات پر اٹھ گئی نیز خدمت والدین ان کی ضرورت پر موقوف ہے،ایمان پر نہیں، والدین غیر مسلم بھی ہوں اورخدمت کے محتاج ہوں تو اولاد پر ان کا حق ہے،ہاں موت مسلم اور غیر مسلم میں ابدی فاصلہ قائم کردیتی ہے۔

تابعین کرامؒ کا مضمون کو قرآن کی طرف لوٹانا

قرآن کی سربراہ حیثیت صرف عہد صحابہ رضی اللہ عنہم تک نہیں رہی اکابر تابعین بھی مسائل بیان کرتے وقت کبھی کبھی آیت کی تلاوت کردیتے تھے اور یہ بات ان کے حلقہ درس میں عام تھی کہ علم کے ماخذ میں قرآن شریف کو بلاشبہ سبقت حاصل ہے، احادیث قرآن کریم کی شرح ہیں قرآن کے خلاف بغاوت نہیں نہ اس میں کوئی سازش ہے،اس کی چند مثالیں دیکھیے:

(۱)ابن جریج کہتے ہیں انہوں نے حضرت عطاءؒ (۱۱۳ھ) سےیہ مسئلہ پوچھا کہ: کیا کوئی شخص جس کے پاس ایک غلام کےسوا اورکوئی مال نہیں’ غلام کی تدبیر کرسکتا ہے (وصیت کردے کہ یہ میرے بعد آزاد ہے) آپ نے فرمایا نہیں اورپھر آنحضرتﷺ کی ایک حدیث ذکر کی جو آپ نے اپنے دور میں اس غلام کے بارے میں جو اپنے مالک کی وفات کے بعد آزاد ہونا تھا ارشاد فرمائی،حضورﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی اس غلام سے اس مالک کی نسبت غنی ہے(یعنی اس غلام کو اللہ کی راہ میں آزاد کرنے کی نسبت اسے اپنے وارثوں کا خیال کرنا چاہئے کہیں وہ تنگدستی میں نہ گھر جائیں،اللہ تعالی غنی ہے اس کی راہ میں کچھ نہ بھی دیا جائے تو اس کا کچھ نقصان نہیں) پھر حضرت عطاؒ نے اس پر یہ آیت پڑھ دی:والذین اذا انفقوا لم یسرفوا ولم یقترواوکان بین ذلک قواما(الفرقان:۶۷)ترجمہ:اور اللہ کے بندے وہ ہیں کہ جب خرچ کریں تو نہ بے جا اڑائیں اورنہ تنگی سے کام لیں اور ہے اس کے بیچ میں درمیانی راہ۔ (مصنف عبدالرزاق:۹/۱۴۰)
علماء تابعین کا انداز عمل بتاتا ہے کہ حدیث ان کے ہاں قرآنی عمومات کے سائے ہی میں پڑھی اور سنی جاتی تھی۔

(۲)امام تفسیر حضرت مجاہدؒ نے فرمایا: “کل مؤمن شہید” مومن کسی نہ کسی درجے میں شہید ہے، اس پر قرآن کریم کی یہ آیت تلاوت فرمائی:” وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ وَالشُّهَدَاءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ”۔(الحدید:۱۹)ترجمہ: اور وہ لوگ جو یقین لائے اللہ پر اوراس کے سب رسولوں پر وہی سچے ایمان والے اور شہید ہیں۔

(۳)حضرت ابن جریج نے حضرت عطاء سے پوچھا:اگرمردعورت کو طلاق دے اور رات گزارنے کی جگہ نہ دےتو عورت عدت کہاں گزارےگی،آپ نے فرمایا :اپنے خاوند کے گھر جہاں وہ رہتی تھی،ابن جریج نے پوچھا اگر خاوند اجازت دیدے کہ وہ اپنے گھر والوں کے ہاں رہ سکتی ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں! اس صورت میں اگر وہ کسی گناہ میں مبتلا ہوجائے تو اس گناہ میں وہ خاوند بھی شریک ہوگا، یعنی وہ اپنے گھر والوں کے ہاں نہ جائے، اس پر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی، “ولا یخرجن الا ان یا تیین بفا حشۃ مبینۃ” اور نہ نکلیں وہ عورتیں جنہیں طلاق ہوئی، اپنے گھر سے مگر جو کریں صریح بے حیائی۔
ابن جریج نے پوچھا کیا یہ آیت اس باب میں ہے، آپ نے فرمایا: ہاں! یہ روز مرہ کے مسائل ہیں۔
آپ نے دیکھا! تابعین حضرات اپنی اپنی ان ضروریات میں کس طرح قرآن کریم کی طرف رجوع کرتے تھے، حق یہ ہے کہ حدیث پر قرآن کے سائے بہت دور تک پھیلتے گئے ہیں اورصحابہؓ و تابعینؒ نے حدیث کو ہمیشہ قرآن کریم کے تحت سمجھا، حدیث قرآن کے خلاف کوئی متبادل ماخذ علم ہر گز نہ سمجھی گئی تھی۔
یہ کبار تابعینؓ حدیث کو قرآن کے مقابل ایک متوازی ماخذ علم سمجھتے تو کتب حدیث میں قرآن پاک سے اس طرح کے استدلال ہرگز نہ دیکھے جاتے، اس قسم کی روایات جلی طور پر بتارہی ہیں کہ حدیث کے لٹریچر میں قرآن کی سربراہی ہر پہلو سے مسلم رہی ہے۔

مرویاتِ حدیث پر قرآن کے سائے:

محدثین کے ہاں مرویاتِ حدیث کا قرآن پاک سے اتصال قائم کرنا ایک بلند پایہ علمی ذوق سمجھا جاتا ہے،اس کی کوشش ہوتی تھی کہ جہاں تک ہوسکے اس کی قرآنی اصل کو ساتھ ساتھ ملحوظ رکھا جائے، محدثین حدیث کو روایت کرتے وقت اس مضمون کی قرآنی اصلیں بھی تلاش کرتےتھے۔
امام البغوی (۵۱۶ھ) کی شرح السنۃ کا باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ ملاحظہ کیجئے اور امام بغویؒ کا ذوقِ حدیث دیکھئے، امام بغویؒ اسے اس طرح شروع کرتے ہیں :
“قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُبِينٌ، يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ”۔(المائد:۱۶)ترجمہ: بے شک تمہارے پاس آئی ہے اللہ کی طرف سے روشنی اورکتاب ظاہر کرنے والی جس سے اللہ ہدایت کرتا ہے اس کو جو تابع ہوا اس کی رضا کا، سلامتی کی راہیں۔
“وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا”۔ (آل عمران:۱۰۳)ترجمہ:اور مضبوط پکڑو اللہ کی رسی کو سب مل کر اور پھوٹ نہ ڈالو۔”حبل الله : عهده، وقال أبو عبيد : الاعتصام بحبل الله : هو اتباع القرآن،وترك الفرقة”۔
ترجمہ: اللہ کی رسی اللہ کا عہد ہے، ابو عبیدہؒ فرماتے ہیں: اعتصام بحبل اللہ کا مطلب قرآن کی اتباع کرنا اورتفرقہ کو چھوڑنا ہے۔(شرح السنۃ للامام البغوی، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ:۱/۱۸۹)

صحیح بخاری کا کتاب الجمعہ یوں شروع ہوتا ہے:باب فرض الجمعہ لقولہ تعالی: “إِذَانُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ”۔ (الجمعۃ:۹)
کتاب الزکوٰۃ یوں شروع ہے:”باب وجوب الزکوٰۃ وقول اللہ عزوجل: وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ”۔ (البقرۃ:۴۳)
امام بخاریؒ کتاب المناسک (حج) کا آغاز یوں کرتے ہیں:”باب وجوب الحج وفضلہ وقول اللہ تعالی: وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا”۔ (آل عمران:۹۷)
پھر کتاب البیوع یوں شروع ہوتا ہے:”وقولہ: وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا”(البقرۃ:۲۷۵)
ہم کہاں تک ان ابواب کا استقصاء کریں، جگہ جگہ احادیث کو قرآنی آیات کے تاج پہنائے گئے ہیں،صحیح بخاری کا پورا سلسلہ اسی طرح قرآن کے سائے میں آگے تک پھیلتا گیا ہے، کتاب التفسیر تو اس کا ایک مستقل بڑا باب ہے، جس میں تقریبا ہر صورت کے تحت کچھ روایات پیش کی گئی ہیں۔
حضرت امام مسلمؒ نے اپنی صحیح کے باب خود نہیں باندھے، اس لیے اب ہم سنن نسائی (۳۰۳ھ) کی طرف رجوع کرتے ہیں قرآن کریم میں ہے۔
“وَإِذَاقُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ”۔ (الاعراف:۲۰۴)
ترجمہ: قرآن کریم جب پڑھا جائے تو اس کی طرف پوری طرح کان دھرو اورچپ رہو،تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
اس میں کافروں کو بھی متنبہ کیا گیا ہے جو قرآن پڑھے جانے پر شور کرتے تھے اورلغو کلامی کرتے تھے کہ چپ رہو! اور اسے سنو! ہوسکتا ہے تم رحمت خداوندی (دائرہ اسلام) میں آجاؤ،لیکن آیت چونکہ نماز کے بارے میں اتری تھی۔اس لیے مسلمانوں کو پابند کیا گیا کہ جب امام قرآن پڑھے (سورہ فاتحہ ہو یا اس کے بعد کی سورت) تو مقتدی امام کی طرف کان لگائے رہیں خود نہ پڑھیں چپ رہیں، امام نسائی اس آیت سے باب باندھتے ہیں اوراس کے تحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث نقل کرتے ہیں کہ جب امام پڑھے تو تم چپ رہو “اذاقرا فانصتوا”۔
امام نسائی کا ترجمۃ الباب ملاحظہ ہو:
“تَأْوِيلُ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ أَخْبَرَنَا الْجَارُودُ بْنُ مُعَاذٍ التِّرْمِذِيُّ…. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا”۔(سنن النسائی،باب تاویل قولہ عزوجل واذاقری،حدیث نمبر:۹۱۲)
کتاب الحج میں ایک باب ملاحظہ ہو:”قَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ”۔(سنن النسائی،باب قولہ عزوجل خذوازینتکم عندکل:۴۲۶/۹)
کتاب النکاح میں دیکھیں:
“تَأْوِيلُ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنْ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ”۔(سنن النسائی،باب تاویل قول اللہ عزوجل:۴۷۹/۱۰))(تفصیل کے لیے دیکھیے،اٰثارالحدیث:(۲۷۸)

خلاصہ :

یہ شہادتیں بہ بانگ دہل کہتی ہیں کہ محدثین نے حدیث کو ہمیشہ قرآن کے ماتحت جگہ دی ہے اسے قرآن کے مقابل نہیں رکھا اورنہ حدیث کا مقصد لوگوں کو معاذ اللہ قرآن سے دور کرنا تھا، اگر حدیث لوگوں کو قرآن سے دور کرنے کی کوئی سازش ہوتی تو ذخائر حدیث کی ترتیب اس انداز میں نہ ہوتی جس کےنظائرہم آپ کے سامنےپیش کرچکےہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث میں کئی دفعہ کتاب اللہ کی سبقت کا ذکر فرمایا ہے اوروہ احادیث انہی محدثین نے روایت کی ہیں،جن کے خلاف عجمی سازش کے کردار ہونے کا الزام ہے،امام ابوداؤد (۲۷۵ھ) کی شہادت بھی لیجئے،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم طواف کی دورکعتوں سے فارغ ہوکر سعی کے لیے نکلے تو آیت: “إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ” ورد زبان تھی۔(سنن ابی داود،باب صفۃ حجۃ النبی صلی اللہ علیہ:۲۵۸/۵)
روایات میں ترکہ رسول اللہﷺ کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا:”وَإِنِّي قَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ إِنْ اعْتَصَمْتُمْ بِهِ كِتَابَ اللَّهِ”۔
ترجمہ: اورمیں تم میں ایک ایسی چیز چھوڑ کر جارہا ہوں کہ اگر تم نے اسے تھام لیا تو تم کبھی گمراہ نہ ہوگے اوروہ اللہ کی کتاب ہے۔(سنن ابی داؤد،باب صفۃ حجۃ النبی صلی اللہ علیہ:۲۵۸/۵)
کہیے احادیث میں بھی قرآن کریم کی طرف رغبت دلائی گئی ہے یا ان میں مسلمانوں کو قرآن سے دور کیا گیا ہے؟۔
سنن ابن ماجہ کو دیکھئے،حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں آنحضرتﷺ نے ایک خط کھینچا،دولکیریں اس کی دائیں طرف لگائیں اوردو بائیں طرف اورخط اوسط (درمیانی لکیر) پر ہاتھ رکھتے ہوئے فرمایا،یہ اللہ کہ سیدھی راہ ہے اورپھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔
“وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ”۔ (الانعام:۱۵۳) ترجمہ:اوریہ ہے میری سیدھی راہ سو تم اس کی پیروی کرو اور دوسری راہوں پر نہ پڑو کہ وہ تجھے اس کی راہ سے بھٹکانہ دیں۔
ان روایات کے ہوتے ہوئے کیا کوئی سمجھدار شخص یہ سوچ سکتا ہے کہ محدثین حدیث جمع کرنے میں لوگوں کو قرآن کریم سے دور کرنے کی سازش کئے ہوئے تھے۔
کیا اس میں کتاب اللہ اولین درجے میں تسلیم نہیں کی گئی اورکیا سنت متواترہ اس کے ساتھ لازم نہیں رکھی گئی،حدیث کی تعلیم ہمیشہ سے یہی رہی ہے کہ دین کے اصل ماخذ کتاب اللہ اورسنت نبوی ہی ہیں۔
امام بیہقی(۴۵۸ھ) کی سنن کبریٰ کو لیجئے یہ کتاب الطہارت سے یوں شروع ہوئی ہے۔(سنن کبریٰ:۲/۱)
“قال اللہ جل ثناء ہ وَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً طَهُورًا”۔ (لقمان:۱۰)
(وقال) فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا۔ (المائدہ:۶)

حدیث کے داخلی مطالعہ میں آپ جتنے دور تک چلے جائیں گے یہ حقیقت آپ سے ایک لمحہ کے لیے اوجھل نہیں رہ سکتی کہ حدیث کتاب اللہ کی ہی ایک تذئیل اوراسی اجمال کی ایک تفصیل ہے، آنحضرتﷺ اور صحابہ کرام نے قرآن کریم کو ہمیشہ شریعت کا پہلا ماخذ اورحدیث کو اس کا دوسرا ماخذ سمجھا ہے اورحدیث ہمیشہ قرآن کریم میں ہی جلوہ پیرا رہی ہے،قرآن اورحدیث دونوں کا مبداء ذاتِ الہٰی ہے، وحی متلو اپنے ثبوت میں قطعی ہے اور وحی غیر متلو اگر متواتر نہ ہو تو یہ اپنے ثبوت میں ظنی ہے،ظنی کا حق ہے کہ وہ قطعی کے سایہ میں چلے اورتاریخ رسالت میں اس کے شواہد بے شمار ہیں۔
صحابہ آنحضرتﷺ سے جب کوئی دین کی بات سنتے یا آپ کو کوئی کام کرتے دیکھتے تو ان کے نزدیک یہ وحی غیر متلو اسی طرح قطعی ہوتی تھی، جس طرح وحی متلو قطعی ہے،لیکن جب یہ وحی غیر متلو خبر واحد کے طورپر آگے نقل ہوئی تو اس میں من حیث الثبوت ظنیت آگئی، اب اس کا مقام ماخذ شریعت میں بیشک دوسرا ہوگا، تاہم اس میں کسی شک اور تردد کی گنجائش نہیں کہ حدیث ہمیشہ قرآن کے سائے میں رہی ہے اوراسی کے سائے میں اب تک چل رہی ہے، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذٰلِکْ۔

 

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password