پرویزصاحب کی قرآنی فکر1/2

میرے افکار میں کوئی تضاد نہیں: پرویز صاحب کا دعوی
’’ میں نے جو کچھ ۱۹۳۸ء میں کہا تھا، ۱۹۸۰ء میں بھی وہی کچھ کہتا ہوں کیونکہ یہ قرآنی حقائق پر مبنی ہے اور قرآنی حقائق ابدی اور غیر متبدل ہیں۔۔۔ قرآن کو حجت اورسند ماننے والے کے لیے یہ ناممکن ہے کہ وہ آج کچھ کہہ دے اور کل کچھ اور۔ قرآن کا متبع، نہ مداہنت کرسکتا ہے، اور نہ کسی سے مفاہمت‘‘۔[طلوع اسلام، دسمبر ۸۰ء: ص ۶۰]
’’طلوعِ اسلام ۱۹۳۸ء میں جاری ہوا، اور تقسیم ہند کے بعد ۱۹۴۸ء سے ا ب تک مسلسل اور متواتر پابندئ وقت کے ساتھ جاری رہا۔ قرآنی رہنمائی اور علم انسانی کی روشنی میں زمانے کے تقاضوں اور حالاتِ حاضرہ کا جائزہ لینا اس کا مشن ہے۔ اس کی اشاعتوں کے انبار میں سے آپ کوئی سے دو پرچے اٹھالیجیے؛ جہاں تک قرآنی فکر کا تعلق ہے، آپ کواس میں کوئی تضاد، کوئی تخالف نہیں ملے گا یہ اس لیے کہ قرآنِ کریم کی رو سے اس کے من جانب اللہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اس میں کوئی تضاد نہیں، کوئی اختلاف نہیں۔ اس لیے جو کچھ قرآنی رہنمائی میں کہا جائے گا، اس میں بھی کوئی تضاد و تخالف نہ ہوگا‘‘۔ [طلوع اسلام، جولائی ۸۴ء: ص ۳۳]
’’قرآن کو سند او رحجت ماننے والا توساری عمر میں دو متضاد باتیں بھی قرآن کی سند سے نہیں کہہ سکتا۔‘‘ [طلوع اسلام، اپریل ۶۷ء : ص ۵۸]

دعوے کی حقیقت :

غلام احمد پرویز صاحب نے صرف قرآن کو ماخذ قانون تسلیم کرنے کی جو وجوہات مختلف مواقع پر بیان فرمائیں وہ گزشتہ تحریر میں پیش کی گئی تھی۔ ان وجوہات کی روشنی میں ہم پرویز صاحب کے افکار کا عہد بہ عہد جائزہ لیں گے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے گی کہ پرویز صاحب واحد ماخذ قانون کی آیات سے مختلف زمانوں میں مختلف مطالب و مفاہیم اخذ کرتے رہے ،بے شمار مباحث اور موضوعات پر پرویز صاحب نے مختلف متضاد مؤقف اختیار کیا لیکن اعتراف نہیں کیا۔ ہر گردشِ زمانہ کے ساتھ ان کی تعبیرات بدلتی رہی ہیں، لیکن بڑے تسلسل اور تواتر کے ساتھ وہ نام، قرآن ہی کا لیتے رہے ہیں۔ جب کہ انکے دعوے کے مطابق قرآن کی روشنی میں کوئی اختلاف ممکن نہیں ہونا چاہیے تھا۔

1۔ قرآن اور عورت کو سزا:

پہلا موقف :مرد عورت کو مار سکتا ہے:
[۱] وَالّتی تخافون نشورھُنَّ فعظو ھن واہجُروھُنَّ فی المضاجِع واضرِ بوھن فِان اطعنکم فلا تبغوا علیِھنَّ سبیلا [النساء: ۳۴]
’’جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو، انہیں سمجھاؤ، خواب گاہوں میں ان سے الگ رہو اور مارو۔ پھر اگر وہ مطیع فرمان ہوجائیں تو ان پر زیادتی کی راہ نہ تلاش کرو‘‘۔
جنوری ۱۹۴۹ء میں پرویز صاحب قرآن کے تینوں احکامات کا مخاطب شوہر کو ٹھہراتے ہیں۔
“ذرا غور کرو، سلیم اگر عورت نیک سرشت اور شریف النفس ہوگی تو اس کے لیے یہ تنبیہہ بہت کافی ہوگی۔ لیکن اگر حالات ایسے پیدا ہوجائیں کہ وہ اس پر بھی سرکشی سے نہ رکے، تو اس کی بھی اجازت ہے کہ اس پر سختی کی جائے۔ واضربوھن [تم انہیں مار بھی سکتے ہو]۔‘‘ [طلوع اسلام، جنوری ۴۹ء: ص ۶۷]

دوسرا موقف:عدالت عورت کو سزا دے گی:
اکتوبر ۱۹۴۹ء پرویز صاحب نے یہ نقطۂ نظر تبدیل کر دیا جبکہ ان کا دعویٰ تھا کہ قرآن کا ایک ہی مفہوم ہوتا ہے اس میں اختلاف ممکن ہی نہیں ہے۔ اب شوہر صرف بیوی کو نصیحت کرسکتا ہے خواب گاہ میں الگ رہنے اور مارنے کا اختیار شوہر سے چھین لیا گیا۔
’’ لیکن اگر معاملہ اس سے نہ سلجھے تو پھر بات حکام تک جائے گی اب فیصلہ وہاں سے صادر ہوگا ۔ عورت کا جرم ثابت ہوگیا تو ہلکی سزا تو یہ ہے کہ اسے ایک معینہ مدت کے لیے خاوند سے الگ کردیا جاے اور انتہائی صورت میں ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ اسے بدنی سزا دی جائے‘‘۔ [طلوع اسلام، اکتوبر ۴۹ء : ص ۹۲]
تیسرا موقف :معاشرہ اصلاح و مصالحت کرائے گا:
۱۹۵۷ء میں اسی آیت کی ایک نئی تفسیر سامنے آئی اور تینوں احکامات جو شوہر سے نکل کر عدالت کو منتقل ہوئے تھے اب معاشرے کو منتقل ہوگئے۔
آپ نے غور فرمایا کہ اس پہلے مرحلہ میں بھی قرآن کریم نے معاشرہ کے لیے تین مرحلے رکھے ہیں: اول انہیں چاہیے کہ وہ نصیحت اور سمجھا بجھا کر حالات کی اصلاح کی کوشش کریں اگر اس کے بعد بھی حالات درست نہ ہوں تو پھر شوہر کو وہ ہدایت کریں کہ وہ اپنی بیوی کو خواب گاہ میں تنہا چھوڑ دے اور اس سے الگ الگ رہے، اگر یہ تدبیر بھی کارگر نہ ہو تو پھر عدالت اگر ضروری سمجھے تو بیوی کو جسمانی سزا بھی دے سکتی ہے۔ اگر اس کے بعد وہ راہ پر آجائیں تو پھر ان پر مزید کسی زیادتی کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ [طلوع اسلام، فروری ۵۷ء : ص ۴۳]

2۔عمر نوح اور پرویز صاحب کے متضاد نقطۂ نظر:

سورہ عنکبوت کی آیت ۱۴:
وَلَقَد اَرْسَلْنَا نُوْ حَا اِلَی قَوْمِہِ فَلَبِثَ فِیْھِمْ اَلْفَ سَنَۃٍ اَلَّا خَمْسِیْنَ عَامَا
’’ہم نے نوحؑ کو اس کی قوم کی طرف بھیجا اور وہ ان کے درمیان پچاس کم ایک ہزار سال رہا۔‘‘
پہلا موقف ۔پرویز صاحب: عمر نوحؑ ساڑھے نو سو برس تھی
دور حاضر کے انسان کے لیے جو سو سوا سو سال کے عمر کے آدمیوں کو دور دور سے دیکھنے کے لیے آتا ہے اور نہایت حیرت و استعجاب سے ان سے ان درازی عمر کے راز دریافت کرتا ہے اتنی لمبی عمر مشکل باور کیے جانے کے قابل ہے۔ اس وجہ سے بعض حضرات عاماً ’سال‘ سے مراد مہینے لینے پر مجبور ہورہے ہیں۔ لیکن حضرت نوحؑ ، آدمؑ سے دسویں پشت میں آئے ہیں اور ان کے تمام اسلاف کی عمریں، آٹھ آٹھ، نو نو سو سال کی لکھی ہیں۔لہٰذا ایک ایسے بعید ترین زمانے میں جب ہنوز انسان کے اعصاب دورِ حاضر کی برق آگیں تمدن اور رعد آمیز فضا کے مہلک اثرات کا شکار نہیں ہوئے تھے اور اسے ارضی و سماوی آفات کے مقابلے کے لیے قوی ہیکل جسم اور فولادی عضلات عطا کیے گئے تھے، اتنی لمبی لمبی عمریں کچھ باعثِ تعجب نہیں ہوسکتیں۔ [معارف القرآن: جلد دوم، ص ۳۷۶]
تاؤمت کا ایک بہت بڑا مبلغ اور رِشی (Kwang) [جس کی پیدائش چوتھی صدی ق م کی ہے] اپنی چوتھی کتاب میں سمجھاتا ہے کہ عمر بڑھانے کا طریقہ کیا ہے۔ اس کے بعد وہ لکھتا ہے کہ میں بارہ سو سال سے اسی طریق کے مطابق زندگی بسر کررہا ہوں اور اس پر بھی میرا جسم روبہ انحطاط نہیں۔‘‘ (Sacred Books of the East, (Taoism) Translated by James Legge. (p.225) [معارف القرآن ، جلد دوم، حاشیہ ص ۳۷۷]
لیکن جب معارف القرآن جلد دوم کو جوئے نور میں تبدیل کیا گیا اور مغرب معیار حق بن گیا اور عقلی کسوٹی پر عمر نوح عجیب لگی اور عہد حاضر کا انسان قرآن کے اس دعوے کو عجیب نظر سے دیکھنے لگا تو حالات و زمانہ کی رعایت سے مغربی انسان کو مطمئن کرنے کے لیے اس آیت کی تعبیر بھی بدل گئی۔ خود پرویز صاحب اعتراف کرتے ہیں:
حقیقت یہ ہے کہ جس قوم پر صدیوں سے سوچنا حرام ہوچکا ہو اور تقلید لیکن زندگی کی محمود روش قرار پاچکی ہو ان میں فکری صلاحیتیں بہت کم باقی رہ جاتی ہیں لہٰذا ہمیں اس مقصد کے لیے بھی مغرب کے محققین کی طرف ہی رجوع کرنا ہوگا۔ [سلیم کے نام ج ۳ ص ۱۵۱] اسلام کو سمجھنے کے لیے مغرب کی طرف رجوع کرنے کا دعویٰ عجیب و غریب دعویٰ ہے۔
دوسرا موقف۔نوحؑ کی عمر دو سو سال: پرویز صاحب
عربی ’’لغت میں سنۃ کا اطلاق ’فصل‘ پر بھی ہوتا ہے جو سال میں چار ہوتی ہیں یعنی چار فصلوں کا ایک سال ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے الف سنۃ کے معنی ہوں گے کہ اڑھائی سو سال اور عام پورے سال کو کہتے ہیں۔ اس لیے اگر خمسین عاما کو اس میں سے منہا کردیا جائے تو باقی دو سو سال رہ جاتے ہیں اور اتنی عمر کچھ ایسی مستبعد نہیں۔‘‘ [جوئے نور، ص ۳۴]
پہلے حضرت نوح کی عمر ساڑھے نو سو سال پر پرویز صاحب کو کوئی تعجب نہ تھا اب صرف دو سو سال پر اکتفا کرلیا گیا ایک ہی قرآن سے دو مفہوم اخذ کیے جا رہے ہیں جب کہ دعوی ہے کہ حدیثوں میں اختلاف ہے قرآن میں کوئی تضاد اختلاف نہیں۔

3۔قوم نوح کی ہلاکت کی وجہ :

پہلا موقف :قوم نوح تکذیب حق کے باعث ہلاک کی گئی
قومِ نوح کی غرقابی کے واقعہ پر سرسری مورخانہ نگاہ صرف اتنا بتاسکے گی کہ پانی کا بلا انگیزطوفان آیا اور [سوائے ان لوگوں کے جو کشتی میں سوار تھے] سب غرق ہوگئے۔ ان کی بستیاں نذرِ سیلاب ہوگئیں۔ سارے علاقے میں کوئی متنفس باقی نہ رہا۔ جہاں اس شدت کا سیلاب آتا ہے ایسا ہی ہوتا ہے۔۔۔ لیکن قرآن کریم زاویۂ فکر و نظر کو کسی اور طرح بدل دیتا ہے۔ وہ یہ کہتا ہے کہ قومِ نوح نے دعوتِ حق و صداقت کی تکذیب کی او ر ان کے جرائم کی پاداش میں ان کا استہلاک ہوا‘‘۔ [معارف القران: جلد دوم، ص ۳۷۰]
دوسرا موقف -قوم نوح کا انجام بد اعمالیوں کی وجہ سے نہ تھا
’’یہاں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا یہ حوادث ان کی بد اعمالیو ں کا نتیجہ تھے یا انہیں ان کی تباہی کا موجب بنادیا گیا تھا؟ اس کے لیے سب سے پہلے یہ دیکھیے کہ آج بھی زلزلے آتے ہیں، آتش فشاں پہاڑ پھٹتے ہیں، سیلا ب بڑے بڑے ملکوں کو تباہ کردیتے ہیں،آندھیوں کے طوفان چلتی ہوئی ریل گاڑیوں کو اُٹھا کر دریاؤں میں پھینک دیتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی واقعہ ہے کہ یہ حوادث کسی قوم کی بد عملیوں کا نتیجہ نہیں ہوتے۔‘‘ [جوئے نور، ص ۲۹]
’’یہ حوادث نہ تو کسی قوم کے غلط اخلاقی اعمال کا نتیجہ ہوتے ہیں اور نہ ہی ان سے صرف بد اعمال لوگ تباہ ہوتے ہیں‘‘۔ [جوئے نور، ص ۲۹]
اس نئی تعبیر کا ایک ایک لفظ قرآن کی بیان کردہ حقیقت سے ٹکراتا ہے۔ آیت ﴿وَأَغرَ‌قنَا الَّذينَ كَذَّبوا بِـٔايـٰتِنا﴾ کے الفاظ واضح کرتے ہیں کہ عذابِ خداوندی کا نشانہ وہی لوگ بنے تھے جنہوں نے حق کی نشانیوں کو جھٹلا دیا تھا۔ اب رہے وہ لوگ جو قبولِ حق کرچکے تھے، تو اُنہیں اللہ تعالیٰ نے بچا لیا : ﴿فَأَنجَينـٰهُ وَالَّذينَ مَعَهُ فِى الفُلكِ﴾۔ یہاں چوہدری غلام احمد پرویز کو اللہ تعالیٰ سے اختلاف ہوگیا ہے اور بے چارہ قاری حیران وپریشان کھڑ ا سوچ رہا ہے کہ وہ کس کی بات مانے؟ مُنَزِّلِ قرآن کی؟ یا مفکر ِقرآن کی؟

4۔ منطق الطیر کا مطلب

پہلا موقف -منطق الطیر: پرندوں کی بولی
قرآن کریم میں حضرت داؤدؑ اور حضرت سلیمانؑ کے تذکارِ جلیلہ میں یہ آیت بھی وارد ہوئی ہے:
’’حضرت سلیمان [علیہ السلام] حضرت داؤد [علیہ السلام] کے وارث بنے اور کہا:
’’اے لوگو! ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے‘‘۔ [النمل: ۱۶] [معارف القرآن جلد سوم ص ۴۰۵]
دوسرا موقف -منطق الطیر: گھوڑوں کا لشکر
برق طور میں پرانا نقطۂ نظر مسترد کر دیا گیا۔ فرمایا
’’منطق الطیر‘‘ کے معنی پرندوں کی بولی نہیں جیسا کہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں [یعنی برق طور ہی میں ۔۔۔] طیر سے مراد گھوڑوں کا لشکر ہے [جو حضرت داودؑ اور سلیمانؑ کے زمانہ میں بیشتر قبیلہ طیر کے افراد پر مشتمل تھا] اور منطق کے معنی اس قبیلہ کے قواعد و ضوابط ہیں۔ لہذا اس سے مطلب ہے:’’ گھوڑوں کے رسالہ کے متعلق علم‘‘ یہ اس زمانہ میں بہت بڑی چیز تھی۔‘‘[برقِ طور : ص ۲۵۳ تا ۲۵۴]
معارف القرآن کی محولہ بالا عبارت میں مَنْطِقَ الطَّيْر کا معنی ‘پرندوں کی بولی’ہے اور برق میں ٹھیک اسی معنی کی نفی کی گئی ہے اور جوجدید معنی پیش کیا گیا ہے، اس کا لغوی طور پر قرآن سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ ا س سے اندازہ لگا لیجئے کہ طلوعِ اسلام کی ٹکسال میں مختلف اور متضاد معانی کے سکے وقتاً فوقتاً کس طرح ڈھالے گئے…!!

5۔خذا العفو کا مطلب :

سورہ اعراف آیت ۱۹۹ : قرآن کے الفاظ میں اے نبیؐ درگزر کر تارہ معروف کی تلقین کیے جااور جاہلوں سے نہ الجھ۔
پہلا موقف:
پرویز صاحب لکھتے ہیں [بہرحال تم ان کی ان باتوں کی وجہ سے اپنے پروگرام میں رکو نہیں] تم ان سے درگزر کرتے ہوئے آگے بڑھتے جاؤ [مفہوم القرآن: ص۳۹۰]
دوسرا موقف:
پھر تفسیر مطالب القرآن میں خذا العفو کی تعبیر تک یک لخت تبدیل ہوگئی یہ خیال بھی نہ رہا کہ یہ مکی دور کی وحی ہے۔
العفو کا لفظ آیت [۲۱۹؍۲] میں آیا ہے جہاں بالبداہت زائد از ضرورت معنی ہی موزوں ہیں۔ چنانچہ میں نے مفہوم القرآن میں یہی معنی لکھے ہیں اور مطالب الفرقان جلد سوم ص ۳۲۶ پر بھی اس کے مطابق وضاحت کی ہے۔ اس کے بعد یہ لفظ زیر نظر آیت [۱۹۹؍۷] میں آیا تو مجھے اپنی بصیرت کی رو سے اس کا دوسرا مفہوم یعنی در گزر کرنا موزوں دکھائی دیا۔ چنانچہ میں نے یہی ترجمہ مفہوم القرآن میں دے دیا [ اس کا عام طور پر یہی ترجمہ کیا جاتا ہے] اس کے بعد ایک بحث کے دوران میں نے محسوس کیا کہ یہ مفہوم مزید تحقیق کا متقاضی ہے۔ بالخصوص لفظ خذ کے پیش نظر جس کے معنی وصول کرنے یا لینے کے ہیں، اس سلسلہ میں سورۂ توبہ کی آیت [۱۰۳؍۹] خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً اس کی موید تھی ۔ اس غور و فکر کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ آیت [۱۹۹؍ ۷] میں بھی العفو کا وہی مفہوم زیادہ موزوں ہے جو آیت [۲۱۹؍۲] میں دیا گیا ہے یعنی زائد از ضرورت مال ۔ اس آیت میں اسلامی نظام [ یا اس کے سربراہ حضور نبی اکرمﷺ ] سے کہا گیا ہے کہ جماعت مومنین کا زائد از ضرورت مال اپنی تحویل میں لے لیا کرو تاکہ اس طرح اجتماعی طور پر قرآن کا معاشی نظام قائم رہے۔ مفہوم القرآن [آیت ۱۹۹؍۷] کے مفہوم میں ترمیم اس کے نئے ایڈیشن میں کردی جائے گی ۔ البتہ اس دوران میں تبویب القرآن میں عفو کے عنوان کے تابع یہ مفہوم دے دیا گیا ہے‘‘۔ [تفسیر مطالب الفرقان : ج ۶، ص ۵۵]
عفو کا معنی زائد از ضرورت مال صرف وہاں لینے کی گنجائش ہوتی ہے جہاں اس کا مالی خرچ یا مال سے متعلق ہونے کا کوئی قرینہ موجود ہو۔ جیسا کہ آیت [۲۱۹؍۲] میں لفظ ینفقون میں یہ قرینہ موجود ہے۔ لیکن آیت زیر بحث الاعراف ۱۹۹ میں ایسا کوئی قرینہ موجود نہیں ہے۔
پھر اس بات کا قطعاً خیال نہ کیا کہ یہ مکی دور کی وحی ہے، جس میں اسلامی حکومت کی داغ بیل پڑی ہی نہ تھی اور اہل ایمان جو پہلے ہی زیادہ تر مفلس اور خستہ حال لوگوں پر مشتمل تھے، معاشی طور پر کفار کے ہاتھوں ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے تھے، ایسے حالات میں یہ نئی تعبیر قطعاً موزوں نہیں بیٹھتی۔ لیکن ‘مفکر قرآن’ کو اس سے کیا، انہیں تو اپنے پندار علم کا مظاہرہ کرنا ہے، تاکہ یہ نت نئی تعبیرات،اندھے معتقدین کے قلوب واذہان پر ان کی ‘تبحر علمی’ کی دھاک بٹھا دیں۔

6۔قرآن کو لغت سے متعین کر نے کا انجام:

وَأَنزلنْآ إِلَیْکَ اَلذِّکرَ لِتُبَیِّنَ لِنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْھِمْ (النحل ۱۶؍۴۴)
ترجمہ :اے محمد ﷺ ! ہم نے آپ کی طرف ذکر نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کو بوضاحت بتائیں جو کچھ ان کی طرف نازل کیا گیاہے۔
پرویز صاحب اس نبوی وضاحت کو چھوڑ کر لغت عرب اور محاورہ عرب کے ذریعے مفاہیم قرآن متعین فرمانے کی کوشش کرتے ہیں۔ایک ہی اصطلاح مختلف معنوں میں کیسے استعمال ہوسکتی ہے؟ عدت کا مطلب عدت ہے اس کا مطلب اذان صلوۃ، حج نہیں ہوسکتا۔
پرویز صاحب کے پیش کردہ ملائکہ کے چند مفاہیم مطالب بحوالہ ملاحظہ کیجیے:
ملائکہ وجود نہیں رکھتے: اعمال کے اثرات ہیں
’’ملائکہ ہماری اپنی داخلی قوتیں ہیں یعنی ہمارے اعمال کے وہ اثرات جو ہماری ذات پر مرتب ہوتے رہتے ہیں۔‘‘ [ابلیس و آدم از پرویز: ص ۱۶۲]یہ موقف سورہ الاخراب کی آیت ۵۶ کا انکار ہے۔
ملائکہ سے مراد کائنات کی قوتیں:
’’ملائکہ یعنی کائنات کی قوتیں جن سے رِزق پیدا ہوتاہے، انسان کے تابع فرمان ہیں‘‘۔ [’’ابلیس و آدم‘‘ از پرویز: ص ۵۲]
ملائکہ سے مراد خارجی قوائے فطرت:
’’ملائکہ سے مراد مفہوم وہ قوتیں ہیں جو کائنات کی عظیم القدر مشینری کو چلانے کے لیے مامور ہیں۔ یعنی قوائے فطرت، اس لیے قانون خداوندی کی زنجیر کے ساتھ جکڑی ہوئی ہیں کہ ان سے انسان کام لے سکے اسی لیے قصہ آدم میں کہا گیا ہے کہ ملائکہ نے آدم کو سجدہ کر دیا۔ مطلب یہ کہ فطرت کی قوتیں انسان کے تابع فرمان بنا دی گئی ہیں‘‘۔ [ابلیس و آدم، ص ۱۴۴]
ملائکہ سے مراد داخلی قوتیں:
لہٰذا یہ ملائکہ ہماری اپنی داخلی قوتیں ہیں۔ یعنی ہمارے اعمال کے اثرات جو ہماری ذات پر مرتب ہوتے رہتے ہیں اور جب انسانی اعمال کے نتائج محسوس شکل میں سامنے آتے ہیں قرآن اسے قیامت سے تعبیر کرتا ہے۔ [ایضاً، ص۶۲]
ملائکہ سے مراد طبعی تغیرات:
’’ان مقامات سے ظاہر ہے کہ جو طبعی تغیرات انسان کے جسم میں رونما ہوتے ہیں اور جن کا آخری نتیجہ انسان کی طبعی موت ہوتی ہے۔ انھیں بھی ملائکہ کی قوتوں سے تعبیر کیا گیا ہے‘‘۔ [ایضاً، ص۱۵۹]
ملائکہ سے مراد نفسیاتی محرکات:
’’ان مقامات [یعنی بدر کے موقعہ پر تین ہزار ملائکہ کا نزول یا ایسی ہی دوسری آیات] پر غور کیجیے۔ ملائکہ کی مدد کے متعلق بتایا گیا ہے کہ اس سے جماعت مومنین کے دلوں کو تسکین ملی تھی اور ان کے عزائم پختہ ہوگئے تھے۔ دوسری طرف دشمنوں کے دل خوف زدہ ہوگئے تھے۔ اور ان کے حوصلے چھوٹ گئے اس سے ظاہر ہے کہ ان مقامات میں ملائکہ سے مراد وہ نفسیاتی محرکات ہیں جو انسانی قلوب میں اثرات مرتب کرتے ہیں‘‘۔ [ایضاً، ص۱۵۵]
ملائکہ: نتائج اعمال مرتب کرنے والی قوتیں:
اگر ایک طرف ملائکہ، ایمان و استقامت کی بناء پر اللہ کی رحمتوں کی نور افشانی کرتے ہیں تو دوسری طرف کفرو سرکشی کے لیے عذاب خدا وندی کے حامل بھی ہوتے ہیں ’’عذاب خداوندی‘‘ سے مفہوم یہ ہے غلط قوموں کی روش کے تباہ کن نتائج۔ لہٰذا اس باب میں ملائکہ سے مراد وہ قومیں ہیں جو قانون خداوندی کے مطابق انسانی اعمال کے نتائج مرتب کرنے کے لیے سرگرم عمل رہتی ہیں‘‘۔ [ابلیس و آدم، ص۱۵۸]
فرشتے ملائکہ: زمانے کے تقاضے ہیں
’’فرشتے ’ملائکہ ‘ وہ کائناتی قوتیں ہیں جو مشیتِ خداوندی کے پروگرام کو بروئے کار لانے کے لیے زمانے کے تقاضوں کی شکل میں سامنے آتی ہیں۔‘‘ [’اقبال اور قرآن‘ از پرویز: ص ۱۶۵] یہ نقطۂ نظر سورہ فاطر: ۱، زخرف۱۹، السجدہ ۱۱ کی آیات کا انکار ہیں۔ ملائکہ کے بارے میں جمہور امت کی تعریف و تشریح سے ہٹ کر اپنی عقل کے زور پر پرویز صاحب نے جو موقف اختیار کیا اس کے نتیجے میں انھیں ملائکہ کی کتنی تشریحات پیش کرنی پڑیں یہ آپ کے سامنے ہے۔

‘سماء ‘ اور’ ارض’ کے معانی
‘سماء ‘ اور ارض کے معانی کا ایک تصویر نمونہ ملاحظہ کیجیے۔
یہ انجام ہے سنت کے بجائے لغت سے قرآن مرتب کرنے کا ۔قرآن صرف صاحب قرآن کے ذریعے سمجھا جاسکتا ہے اور اصحاب رسول کے عمل سے:
اور اگر سماوات اور ارض دونوں الفاظ کا یک جا مفہوم بتانا ہو وہ ہوگا۔ صرف ’’نظام‘‘ [نظام۔۲۸۵] اور انہی دونوں الفاظ کا تفصیلی معنی ہے ’’کائناتی نظام‘‘
ایک ہی قرآنی لفظ کے اس قدر مختلف اور متضاد مفاہیم بیان کیے گئے ہوں اور ایسے مفاہیم کسی عربی لغت سے ڈھونڈے سے بھی نہیں مل سکتے۔

مجموعی جائزہ:
۲۔ لفظ آخرت کے بھی چھ مفہوم ہیں۔ مستقبل بھی، کلی مفاد بھی۔ آخر الامر بھی، آنے والی نسلوں کا مفاد بھی، حیات بعد الممات بھی اور حال اور مستقبل دونوں کی خوشگواریاں بھی۔ [تفصیل کے لیے دیکھیے ایمان بالغیب]
۳۔ دنیا کا لفظ چار مفہوم ادا کرتا ہے۔ حال کی زندگی، ذاتی مفاد، مفاد عاجلہ اور موجودہ دنیا کی زندگی۔ [حوالہ ایضاً]
۴۔ دین کے چار مفہوم ہیں (۱) مکافات عمل [ن۔ر، ص۱۴۰]، (۲) بمعنی نظام ربوبیت [ایضاً ص۲۸۵]، (۳) نظام ربوبیت کا قیام [ایضاً، ص۱۱۵]، (۴) قرآن کی عطا کردہ مستقل اقدار کا تحفظ، [لغات القرآن زیر عنوان ق۔د۔ر] اور (۵) قانون مکافات حق [ن۔ر، ص۱۴۸]
۵۔ صلوٰۃ کے مفاہیم یہ ہیں: (۱) صفات خداوندی کو بطور معیار سامنے رکھ کر ان کے پیچھے پیچھے چلنا، (۲) نظام ربوبیت کی بار بار یاد دہانی کرتے رہنا، (۳) مسکین کو کھانا کھلانا اور (۴) مصلی وہ گھوڑا ہوتاہے جو گھوڑ دوڑ میں اول نمبر پر آنے والے گھوڑے کے بالکل پیچھے پیچھے ہو۔ [تفصیل کے لیے دیکھیے ارکان اسلام]
۶۔ زکوٰۃ کے تین مفہوم ہیں: (۱)اسلامی حکومت جو کچھ مسلمانوں سے لے لے وہ زکوٰۃ ہے، (۲) زائد از ضرورت مال مسلمان اسلامی حکومت کو دے دیں، (۳) اسلامی حکومت جو ضروریات زندگی لوگوں کو دے وہ زکوٰۃ ہے۔ [تفصیل کے لیے دیکھیے، قرآنی زکوٰۃ]
۷۔ ملائکہ کے مفہوم پانچ ہیں: (۱) خارجی قوائے فطرت، (۲) داخلی قوتیں، (۳) نفسیاتی محرکات، (۴) طبعی تغیرات اور (۵) پروں والے فرشتے سے مراد ان کی قوت ہے۔ جتنے پر زیادہ اتنی قوت زیادہ [تفصیل کے لیے دیکھیے، فرشتوں پر ایمان بالغیب] ان سب مفاہیم میں قدر مشترک یہ ہے کہ فرشتوں کا خارجی وجود اور ذاتی تشخص نہیں ہے۔
۸۔ لفظ جن کے پانچ مفہوم ہیں (۱) وہ آتشیں مخلوق جو انسان سے پہلے تھی، (۲) دیہاتی لوگ (۳)غیر مرئی قوتیں، (۴) انسانی جذبات (۵) ابلیس کی خوئے سرکشی۔
۹۔ لفظ شیطان کے تین مفہوم ہیں (۱) شیطان بمعنی شیطان [نظام ربوبیت ص ۳۳۲]، (۲) بمعنی سرکش قوتیں [ایضاً ۲۱۹]، (۳) شیطان بمعنی ابلیسی معاشرہ [ایضاً ص ۱۷۵]۔
۱۰۔ لفظ سماء کے ۱۵ مفہوم ہیں اور لفظ ارض کے ۱۶ مفاہیم بیان کیے ہیں۔ اس سے پرویز صاحب کے افکار میں تضادات، اختلافات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

7۔پرویز صاحب اور قربانی:

1۔قربانی کے قائل تھے
﴿فَصَلِّ لِرَ‌بِّكَ وَانحَر‌ ٢ ﴾
’’ لہٰذا اپنے پروردگار کے لیے نماز قائم کرو اور قربانی کرو‘‘۔ [معارف القرآن: ۴؍۳۶۹]
لیکن ذہنی ارتقاء ہوا تو وانحر کا مفہوم قربانی کے بجائے کچھ اور ہوگیا۔
2۔ قربانی کا انکار
’’اب تیرے لیے ضروری ہے کہ تو اس کی تعلیم کو زیادہ سے زیادہ پھیلائے اس کے لیے تو اپنے پروگرام کی تکمیل میں ہمہ تن مصروف رہ۔ خدا کے نظام ربوبیت کے قیام کے لیے اپنے فرائض منصبی کو پوری طرح ادا کر، ان پر علم و عقل اور تجربہ و مشاہدہ سے پوری طرح حاوی ہو، اور اس کے ساتھ ہی اپنی جماعت کے لوگوں کے کھانے پینے کا بھی انتظام کر۔‘‘ [مفہوم القرآن، ص ۱۴۸۸]
یاد رہے کہ اونٹ ذبح کرنے کو’ نھر’ کہتے ہیں جب کہ آیت میں لفظ’ نھر’ نہیں بلکہ ‘نحر’ ہے۔ س

8۔آیت قصاص کا پہلا پرویزی مفہوم

آیت قصاص کا مفہوم پہلے پرویز صاحب کی نظر میں قصاص ہی تھا۔
’’پھر شریعت میں ایسی آسانیاں مل جانا جن سے قوانین ممکن العمل ہوجائیں رحمتِ خداوندی ہے، مثلاً قانون قصاص کی روسے قتل کا بدلہ قتل ہے لیکن ساتھ ہی فرمایا کہ
’’اگر [قاتل کو] اس کے بھائی [مدعی] کی طرف سے معافی مل جائے تو [اس کے لیے] معقول طریقہ پر خون بہا کا مطالبہ ہے اور [قاتل کے لیے] خوبی کے ساتھ اس کا ادا کرنا ۔ یہ [قانون دیت و عفو] تمہارے پروردگار کی طرف سے سختیوں کا کم کردینا اور ترحم [خسروانہ] ہے۔۔۔‘‘[معارف القرآن ، جلد اول، ص ۱۴۰]
لیکن جب تہذیب ِمغرب کی فکری یلغار نے ذہن ِپرویز کو مسخر کیا اور وہ مغرب کے تمدنی قوانین سے مرعوب ہوئے تو (1) قصاص کے معنی بھی بدل گئے اور (2) قتل عمد میں دیت اور عفو کا اختیار بھی، اولیائِ مقتول سے سلب ہوگیا، کیونکہ مغربی حکومتوں میں سے کسی میں بھی قتل عمد میں دیت و عفو کی رعایت نہیں ہے۔ پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ قرآنی قانون میں وہ ‘سقم’ باقی رہ جاتا، جو دانشورانِ مغرب کی نگاہ میں اسلام کے ماتھے پر بدنما داغ ہے۔ ‘قرآنی حمیت’ ، ‘مفکر ِقرآن’ پر غالب آئی تو انہوں نے پنی جدید تعبیر کی رو سے قرآنی قوانین سے اس ‘عیب’ کو دور کر ڈالا جو خود خدا کے اپنے الفاظ سے پیدا ہوگیا تھا (معاذ اللہ) ملاحظہ فرمائیے نیامفہوم:
’’قصاص: اس کے معنی ’جرم کی سزا‘ دینا نہیں، اس کے معنی ہیں مجرم کا اس طرح پیچھا کرنا کہ وہ بلا گرفت نہ رہ جائے، یعنی قرآنی نظام میں کسی جرم کو Untraced نہیں رہناچاہیے، وہ اس قسم کے محکم نظام تفتیش میں حیاتِ اجتماعیہ کا راز بتاتا ہے‘‘۔ [طلوع اسلام، اگست ۶۵ء: ص ۱۲]
اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے کہ قتل عمد میں عفو و دیت ہے ہی نہیں یہ سہولت صرف قتل خطا سے مخصوص ہے۔
’’جرم قتل: قرآن نے قتل عمد [بالا رادہ] اور قتل خطا [سہواً ] میں فرق کیا ہے۔ قتل خطا کی سزا [یا یوں کہئے کہ کفارہ یا جرمانہ] ایک مومن غلام کا آزاد کرنا اور مقتول کے وارثوں کو خون بہا ادا کرنا ہے۔ وہ اس خون بہا کو معاف کرسکتے ہیں۔ [۴؍۹۲،۹۳] واضح رہے کہ ’غلام آزاد کرنا، اس زمانے کی بات ہے جب عربوں کے ہاں غلام چلے آرہے تھے، اسلام نے غلامی کا دروازہ بند کردیا ہے لہٰذا یہ نظام معاشرہ تجویز کرے گا کہ اس کی جگہ کیا کفارہ ادا کیا جائے گا۔
قتل عمد کے لیے دیت [خون بہا] نہیں، اس کی سزا بڑی سخت ہے۔ اس کے متعلق کہا گیاہے کہ اس کی سزا جہنم ہے اور اللہ کا غضب اور اس کی لعنت اور بہت بڑی سزا [۹۳؍۴]۔ میں اس وقت ان مختلف سزاؤں کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا، لیکن یہ واضح رہے کہ قتل عمد کی بھی مختلف نوعیتیں ہیں۔ ایک قتل سوچی سمجھی اسکیم کے تحت ہوتا ہے اور ایک وقتی جوش میں آکر وقتی طور پر [وغیرہ وغیرہ] اس اعتبار سے جرم کی سزا میں بھی فرق ہوسکتا ہے۔ قرآن کے مختلف مقامات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عدل کے تقاضے کی رو سے جرم قتل عمد کے لیے موت کی سزا بھی تجویز کرتا ہے۔مثلاً ۱۷۸؍۲، ۳۵؍۵، ۳۳؍۱۷ [ماہنامہ طلوع اسلام: اگست ۶۵ء: ص ۱۴]
سیدھی سی بات ہے کہ قرآن نے قتل عمد میں قصاص (قتل کا بدلہ قتل) کے علاوہ، دیت اور عفو کی رعایات بھی رکھی ہیں اور قتل خطا میں قصاص ہے ہی نہیں۔ اس میں کیا اُلجھن ہے؟ ؎
تری ہر اَدا میں بل ہے، تری ہر نگاہ میں اُلجھن

9۔مال غنیمت:

پرویز صاحب کا پہلا نقطۂ نظر 

’’غنیمت اور فے، دو اصطلاحات ہیں: مال غنیمت وہ جو مخالفین سے جنگ کے بعد حاصل ہو اور مال فے وہ جسے مخالفین جنگ کیے بغیر چھوڑ جائیں۔ مال غنیمت کا پانچواں حصہ، بیت المال میں جمع ہوگا اور باقی چار حصے سپاہیوں کو تقسیم ہوں گے، مال فے پورے کا پورابیت المال میں جمع ہوگا‘‘۔ [معارف القرآن: جلد چہارم ، حاشیہ ص ۶۲۴]
’’اور جان رکھو کہ جو تمہیں مالِ غنیمت میں ملے، اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے، رسولؐ کے لیے، [رسول کے] قرابت داروں کے لیے، یتیموں کے لیے، مسکینوں کے لیے اور مسافروں کے لیے نکالنا چاہیے [اور بقیہ چار حصے مجاہدین میں تقسیم کر دیے جاسکتے ہیں]، اگر تم اللہ اور اس [غینی امداد] پر یقین رکھتے ہو، جو ہم نے فیصلہ کر دینے والے دن، اپنے بندے پر نازل کی تھی، جب کہ دو لشکر ایک دوسرے کے مقابل ہوئے تھے [تو چاہیے کہ اس تقسیم پر کاربند رہو، اور یاد رکھو] اللہ کی قدرت سے کوئی بات باہر نہیں‘‘۔ [معارف القرآن، جلد چہارم، ص ۶۲۴]
پرویز صاحب کا جدید اور غلط نقطۂ نظر :
جنگ کے سلسلے میں اس حقیقت کو بھی پیش نظر رکھو کہ اس سے پہلے تمہارا دستور یہ تھا کہ جنگ کہ جو کسی کے ہاتھ آجائے وہ اس کا ہوایہی لوٹ کا مال وہ بنیادی جذبہ تھا جس کے لیے تم میدان جنگ میں جایا کرتے تھے [نعوذ باللہ صحابہ کبھی جنگ مال کے لیے نہیں لڑتے تھے] لیکن اب جنگ ظلم کو روکنے، نظام عدل قائم کرنے کے لیے ہوگی اس میں جذبہ محرکہ لوٹ کا مال نہیں ہوگا۔ ’’یاد رکھو، میدان جنگ میں جو مالِ غنیمت بھی ملے گا، اس میں سے پانچواں حصہ خدا اور رسول یعنی مملکت کی انتظامی ضروریات کے لیے رکھ کر باقی ضرورت مندوں کی ضروریات پوری کرنے میں صرف کیا جائے گا۔ مثلاً [میدان جنگ میں جانے اور کام آجانے والوں کے] اقرباء کے لیے، یتیموں اور معاشرہ میں بے یارو مددگار تنہا رہ جانے والوں کے لیے ان کے لیے، جن کا چلتا ہوا کاروبار رک گیا ہو یا جو کسی حادثے کی وجہ سے کام کاج کے قابل نہ رہے ہوں۔ نیز ان مسافروں کے لیے جو مدد کے محتاج ہوں۔ [مفہوم القرآن: ص ۴۰۴]
غور فرمائیے، پرویز صاحب کی آج کی اور کل کی تعبیر ات میں کتنا فرق ہے۔ آج دماغ کا رنگ بدلا، تو ساتھ ہی ‘تعبیر قرآن’ بدل گئی۔ یہ ہے وہ طریقہ جس کے ذریعہ پرویز صاحب کو ہر بات کا جواب قرآن سے مل جایا کرتا تھا۔ شاید پرویز صاحب نے اپنے بارے میں ہی ایک دفعہ فرمایا تھا کہ
”جب کوئی قرآن کو مسخ کرنے پر اُترآئے تو اُسے اس سے اپنی کون سی مصلحت کی سند نہیں مل سکتی …؟” (طلوع اسلام اکتوبر۷۹ئ:ص۱۳ )

پرویزصاحب کی قرآنی فکر 2/2

پرویز صاحب کی قرآنی فکر – خلاصہ

 

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password