پرویز صاحب کا ایمان باالقرآن انکی تحقیقات کے آئینے میں

شیطان اور اسکے کارندے اس حقیقت سے خوب واقف ہیں کہ وہ اگر اپنی دعوتِ ضلالت کو ضلالت کے نام سے پیش کریں گے تو وہ ہرگز قابل قبول نہ ہوگی، چنانچہ وہ ہمیشہ یہ حربہ اختیار کرتے رہے ہیں کہ وہ گمراہی کو ہدایت کے روپ میں پیش کریں۔ جھوٹ کو لباسِ صدق پہنائیں، بے دینی کو دین کے بھیس میں سامنے لائیں اور خلقِ خداکو دھوکہ دینے کے لئے فریب ِکار کی بجائے ناصحِ درد مند کا بہروپ اپنائیں ۔ اگر وہ فساد کو صلاح کانقاب نہ اوڑھیں اور خود بے نقاب ہوکر سامنے آئیں تو کوئی اس کے فریب میں نہ آئے۔ وہ اپنی شیطنت کو پارسائیت کے پردے میں پیش کرتے ہیں اور یوں وہ ابناے آدم کو اپنی مفاد پرستیوں کی بھینٹ چڑھاتا ہے۔ نہ صرف تاریخ انسانیت بلکہ اسلام کی سرگذشت بھی اس حقیقت پر شاہد ہے کہ ہر عصر و مصر میں لوگوں نے ہدایت کے نام پر ضلالت کو، اسلام کے نام پر بے دینی کو، سچ کے نام پرجھوٹ کو اورقرآن کے نام پرخلافِ قرآن افکار و نظریات کو پھیلانے کی مذموم کوششیں کیں ۔
اِن ہی کوششوں میں ایک کوشش وہ بھی ہے جو ہمارے دور میں مغربیت کی ذہنی غلامی اور اشتراکیت کی فکری اسیری میں مبتلا ہوکر چوہدری غلام احمد پرویز نے قرآنِ کریم کے نام پر کی ۔انہوں نے ہر جدید نظریے اور نظام ، مغربی معاشرت کے عادات و اطوار،اشتراکیت کے معاشی نظام کو قرآن کے نام پر پیش کیا ۔ جو کہ قرآن کے بغیر ہی عصر حاضر کی گمراہ قومیں پہلے سے اپنائے ہوئے تھیں ۔جو کام مغربی ممالک کے ملحد فلاسفہ اوربے دین دانشور،مسلم معاشروں میں براہِ راست خود نہیں کرسکتے تھے، وہ کام ہمارے ‘مفکر ِقرآن’،’قرآنی دانشور’ بن کرکرتے رہے ہیں ۔

پرویز صاحب کی تعلّی آمیز انانیت:
غلام احمد پرویز صاحب سنت کی تحقیر کرکے حسبنا کتاب اللہ اور ایمان باالقرآن کا نعرہ لگاتے اور خود کو خادم قرآن کہتے تھے اور اپنے مقابلے میں جملہ اہل علم کو قرآن سے بے خبر اورجاہل قرار دیا کرتے تھے۔ چنانچہ انانیت کے ساتویں آسمان پر محو ِپرواز رہتے ہوئے وہ بلااستثنا تمام علماے کرام کے متعلق یہ اعلان کیاکرتے ہیں :
”حقیقت یہ ہے کہ یہ حضرات قرآن سے قطعاً نابلد ہوتے ہیں ۔'(طلوعِ اسلام: جون1956ء ص6)
ایک اور مقام پرعلما کے خلاف بڑا تحقیر آمیز رویہ اپناتے ہوئے، لیکن غرور و تکبر کی انتہائی بلندیوں پر براجمان ہوکر یہ فتویٰ داغتے ہیں :
”ہمارا مُلّاطلوعِ اسلام میں پیش کردہ دعوت کاجواب دلائل و براہین سے تو دے نہیں سکتا (اس لئے کہ یہ دعوت قرآن کی دعوت ہے او رمُلّا بے چارہ قرآنی نور سے محروم ہوتاہے۔( طلوعِ اسلام: مئی 1953ء، ص47)
ایک اورموقع پر اُسی اہانت آمیز لب و لہجہ میں جو علما کے خلاف ان کامستقل وطیرہ تھا، یہ فرماتے ہیں :
”مُلّا کے پاس نہ علم ہوتاہے، نہ بصیرت، نہ دلائل ہوتے ہیں ، نہ براہین۔( طلوع اسلام: 5 فروری 1955ء، ص4)
چنانچہ ‘مفکر ِقرآن’ صاحب اپنے عقیدت مندوں کے جھرمٹ میں علماء کرام پر ‘قدامت پرستی’ کالیبل لگاکر اپنے متعلق تعلّی آمیز خود ستائی کا اظہار بایں الفاظ کیا کرتے تھے :
”جو کچھ میں قرآن سے پیش کرتاہوں ، اس کی تردید کے لئے چونکہ ہمارے قدامت پرست طبقہ کے پاس دلائل و براہین نہیں ہوتیں ، اس لئے وہ خود بھی مشتعل ہوتاہے اور عوام کو بھی مشتعل کرتاہے۔( طلوعِ اسلام: اگست 1973ء، ص36)

أعلم الناس بالقرآن کی پندار افزائی:
‘مفکر ِقرآن’ صاحب خود أعلم الناس بالقرآن کے پندار میں مبتلاہوکر یہی پندار اپنے نیاز مندوں میں بھی پیدا کیا کرتے تھے اور اُنہیں اس زعم میں مبتلا کیا کرتے تھے کہ تیرہ چودہ صدیوں بعد جو قرآنی آواز طلوعِ اسلام کے ذریعہ بلند ہورہی ہے، آپ لوگ ہی اس کے واحد امین ہیں ، باقی ساری دنیا اس آواز کا گلاگھونٹتی چلی آرہی ہے۔
تیرہ سوسال کے بعد پھرسے خالص قرآن کی آواز طلوعِ اسلام کی وساطت سے بلند ہونی شروع ہوئی ہے۔( طلوعِ اسلام: نومبر1953ء، ص13)
اس سرزمین سے تیرہ سو سال کے بعد پہلی بار قرآن کی آواز اُٹھی ہے او رقدرت کو یہ منظور ہے کہ تیرہ سو سال کے بعد ایک بار پھر قرآنی نظام اپنی عملی شکل میں سامنے آئے۔ ( طلوعِ اسلام: نومبر1954ء، ص11)
اس وقت ساری دنیامیں قرآنِ خالص کی آواز صرف آپ کی اس ننھی سی جماعت کی طرف سے بلند ہورہی ہے۔ ( طلوعِ اسلام: دسمبر1964ء، ص87)
صدرِاوّل کے بعد ہماری تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ قرآنی نظام کی آواز بلند ہورہی ہے۔ ( طلوعِ اسلام: جون 1966ء،ص78)
پورے عالم اسلام میں ادارہ طلوعِ اسلام ہی وہ واحد ادارہ ہے جس نے چاروں طرف سے چھائی ہوئی مایوسیوں میں مسلمانوں کو پکارا اور بتایاکہ ان کی ذلت ورسوائی کاواحد سبب یہ ہے کہ وہ خدا کی دی ہوئی کتاب اور اس عطا فرمودہ روشنی سے دور جا پڑے ہیں ۔ مسلمانوں کی باز آفرینی کے لئے یہی ایک صورت ہوسکتی ہے کہ جس طرح خدا کی دی ہوئی روشنی نے اس قوم کو آج سے چودہ سو سال پہلے ترقی اور عروج کے بامِ ثریاتک پہنچا دیاتھا۔ یہ قوم پھر اُسی مینارۂ نور سے کسب ِضیا سے کرے اوراپنی زندگی کو اسی قالب میں ڈھال لے ۔ادارہ طلوع اسلام قریب تیس سال سے قرآن کریم کی آواز کو بلند کررہاہے۔( طلوعِ اسلام: جولائی 1969ء، ص73)
چنانچہ ایک مقام پر ‘مفکر ِقرآن’ اپنے منہ آپ میاں مٹھو بنتے ہوئے، اپنے حلقہ احباب کو یہ باورکرواتے ہیں کہ
6۔ اس وقت ملک میں خالص فکری تحریک صرف آپ کی ہے، باقی سب وقتی ہنگامہ آرائیاں ہیں ، جن میں اسلام کا نام لیاجاتاہے، جیسے خطوں کی پیشانی پر 786 لکھ دیا جاتا ہے، لیکن نفس مضمون سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ ( طلوعِ اسلام: دسمبر1967ء، ص52)
7۔ اس وقت ساری دنیا میں صرف آپ کی یہ مختصر سی جماعت ہے، جوپیغام خداوندی کی مئے بے درد و صاف کو شفاف اوربے رنگ پیمانوں میں پیش کررہی ہے۔ ( طلوع اسلام، نومبر1969ء ، ص68)

ایک اور مقام پر خود نمائی اور خود ستائی کے ساتویں آسمان پرمحو ِپروازکرتے ہوئے ‘مفکر قرآن’ یوں تسلی آمیز انداز میں فرماتے ہیں :
”ہمارے ہاں ، نہ کوئی ایسا صاحب ِفکر نکلا جو یہ سوچ سکے کہ قوم کی یہ حالت کیوں ہوگئی اورنہ کوئی ایسا صاحب ِعمل جو اس بے راہ ہجوم کا ہاتھ پکڑ کر اُسے راستہ پرلگا دے۔ سارے ملک میں لے دے کے، ایک طلوعِ اسلام کی آواز تھی (اور ہے) جو صحرا میں کھوئے ہوئے اس کارواں کے منتشر افراد کے لئے بانگ ِدرا تھی۔( طلوع اسلام: اکتوبر1971ء، ص51)
”اس وقت ،ملک جن ہنگامی حالات سے دوچار ہے، ان میں قوم کوقرآنی راہنمائی کی اشد ضرورت ہے او ریہ راہنمائی اُسے طلوعِ اسلام کے علاوہ اور کہیں سے نہیں مل رہی ہے۔ (طلوعِ اسلام: جنوری 1972ء، ص45)

ایمان بالقرآن کی بابت دعوی جات:
نظریاتی اور قولی و قلمی حیثیت سے ایمان بالقرآن کی بابت اُن کے بلند بانگ دعاوی کی ایک جھلک مندرجہ ذیل اقتباسات میں ملاحظہ فرمائیے:
1۔ صحت و سقم کامعیار میزانِ قرآنی ہے نہ میرا دعویٰ ، نہ غیر کی تردید۔ اس لئے اگر کوئی میری گذارشات کو باطل ٹھہراتا ہے تو اُسے کہو کہ اس کے لئے قرآن کی بارگاہ سے سند لائے۔( طلوعِ اسلام: مئی1952ء،ص48)
2۔ ہمارے نزدیک دین کامعیار فقط کتاب اللہ ہے،خواہ اس کی تائید میں ہزار حدیثیں بھی ایسی کیوں نہ پیش کردی جائیں ، جن کے راویوں میں جبرائیل و میکائیل تک کا بھی نام شامل کردیاگیا ہو۔( طلوعِ اسلام: نومبر1953ء، ص37)
3۔ صحیح اور غلط کے پرکھنے کا ایک ہی معیار ہے یعنی یہ کہ اس کے متعلق قرآن کا کیا فیصلہ ہے۔ جیسے قرآن صحیح قرار دے، وہ صحیح ہے خواہ اُسے ایک آدمی بھی صحیح نہ مانتا ہو، اور جسے وہ غلط قرار دے، وہ غلط ہے خواہ اُسے ساری دنیا مسلمہ کی حیثیت سے جانتی ہو۔( طلوعِ اسلام، فروری 1954ء، ص25)
4۔ قانون کے صحیح ہونے کی سند نہ زید ہے نہ بکر، نہ اسلاف ہیں نہ اخلاف۔ اس کی سند ہے اللہ کی کتاب جو اس کے مطابق ہے وہ صحیح ہے۔ جو اس کے خلاف ہے وہ غلط ہے خواہ اسے کسی کی بدنیتی یانادانی، کسی بڑی سے بڑی ہستی کی طرف بھی منسوب کیوں نہ کردے۔ ( طلوعِ اسلام: مارچ 1959ء، ص9)
5۔ سوال یہ ہے کہ کسی چیز کے ‘درحقیقت صحیح’ ہونے کا معیار کیاہے؟ قرآن کی رُو سے وہ معیار یہ ہے کہ جو بات کتابِ خداوندی کے مطابق ہو، وہ صحیح ہے اور جو اس کے خلاف ہو وہ غلط ہے۔ ( طلوعِ اسلام: ستمبر1959ء، ص6)
6۔ کسی بات کے لئے اسلامی یا غیراسلامی ہونے کے لئے کسی انسان کی سند کافی نہیں ہوسکتی۔ اس کے لئے سند صرف خدا کی کتاب کی ہونی چاہئے۔( طلوعِ اسلام: جنوری 1960ء، ص58)
7۔ ہمارے پاس خدا کی کتاب موجود ہے، جس کی روشنی میں ہر انسان کو حق حاصل ہے کہ جو کچھ کسی اور انسان نے کہا ہے (خواہ وہ اس وقت موجود ہے یا ہم سے پہلے گزر چکا ہے) اسے پرکھے۔اگر وہ اس کتاب کے مطابق ہے تو اسے صحیح تسلیم کرلیاجائے، اگر اس کے خلاف ہے تو مسترد کردیاجائے۔( طلوعِ اسلام: جون 1967ء ص62)
8۔ طلوعِ اسلام کا مسلک یہ ہے کہ حق اور باطل کا معیار قرآن ہے۔ہر وہ بات جو قرآن کے مطابق ہے، صحیح ہے۔( طلوعِ اسلام، فروری 1968ء، ص60)
9۔ دین کے معاملہ میں حق و باطل اور صحیح و غلط کا معیار قرآنِ کریم ہے۔( شاہکارِ رسالت، گذرگاہ خیال: ص39)
10۔ ہمارے سامنے ہدایت و ضلالت کامعیار قرآنِ مجیدہے۔( طلوعِ اسلام: جنوری 1959ء، ص31)
‘مفکر ِقرآن’ کے وسیع لٹریچر میں سے مُشتے نمونہ از خروارے کے طور پر یہ وہ چند اقتباسات ہیں جن میں فقط قرآن ہی کے واحد معیار، اسی کے تنہا سند ہونے اور اسی کے پیمانۂ ردّ و قبول اور اسی کے کسوٹی ٔ حق و باطل ہونے اور اسی کے فرقانِ صحت و سقم ہونے اور اسی کے میزانِ ہدایت و ضلالت ہونے کے خوش کن دعاوی مرقوم ہیں ۔
ہماری گزشتہ تحاریر سے بھی واضح ہے کہ ان ‘خوش کن دعاوی’کی حیثیت دراصل کسی بد دیانت اور فریب کار تاجر کی دکان میں موجود اُن اصلی اورکھری چند اشیا کی سی ہے جنہیں وہ اپنے جعلی اور کھوٹے سروسامان کی بہتات میں مصلحتاً رکھنے پر مجبور ہوتا ہے۔ اس تحریر میں ہم انکی تحقیقات و تحریرات کی روشنی میں انکے ایمان بالقرآن کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے ۔

 پرویز صاحب کا ایمان باالقرآن انکی تحقیقات کے آئینے میں: 

پرویز صاحب کے سارے لٹریچر پر نظر ڈال کر دیکھا جائے تو جس چیز کو ‘مفکر ِقرآن’ اور طلوعِ اسلام، قرآنی راہنمائی قرار دیتے ہیں غور کیا جائے تو وہ قطعاً اور ہرگز قرآنی راہنمائی نہیں ہے، بلکہ وہ مارکسی اشتراکیت اور کرمغربی سوچ و فکر ، معاشرت کے عادات و اطوار ہیں جنہیں قرآنی چھتری فراہم کی گئی ہے۔جہاں تک ‘مفکر قرآن’ کے ایمان بالقرآن کی اصل حقیقت ہے وہ ذلك قولھم بأفواھھم سے زیادہ نہیں ہے،وہ اگرچہ اپنے ایمان بالقرآن کاڈھنڈورا پیٹا کرتے تھے اور قرآنِ کریم ہی کو واحداتھارٹی اور سند قرار دیا کرتے تھے، لیکن عملاً اُن کے ہاں سند و معیار علماے مغرب کی تحقیقات ہی تھیں ۔
ہماری گزشتہ ایک تحریر سے یہ واضح ہے کہ کس طرح پرویز صاحب نے کارل مارکس کی اشتراکیت کو من و عن قبول کرکے اسے ‘نظامِ ربوبیت’ کے نام سے مشرف بہ اسلام کرتے ہوئے قرآنِ کریم کے جعلی پرمٹ پر درآمد کیا۔ پھر مغربی معاشرت اور اشتراکیت کا یہ ملغوبہ ‘انقلابی اسلام’ قرارپا جاتا ہے اور ‘مفکر قرآن’ صاحب اِسے اپنی ندرتِ نگاہ کا شاہکار قرا ردیتے رہے۔پرویز صاحب کے ایمان بالقرآن کی حقیقت واضح کرتی چند مزید مثالیں پیش ہیں ۔

پہلی مثال: انسانوں میں تصورِ خدا کیسے پیداہوا؟
بنی نوع انسان میں خدا کا تصور،عقیدۂ اُلوہیت او رایمان باللہ کا نظریہ کیسے پیدا ہوا؟اس سوال کاواضح اور اطمینان بخش جواب ازروے قرآن یہ ہے کہ ایسا وحی ٔ خداوندی کی بنا پرہوا۔ لیکن ہمارے ‘مفکر ِقرآن’ کی عقل و دانش اور ‘قرآنی بصیرت’ اس کا کوئی او رہی جواب فراہم کرتی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے یہ جواب:
”جب انسانی شعور نے آنکھ کھولی تو اپنے آپ کو عجیب دنیامیں پایا۔ سرپر آتش باری کرنے والا ایک عظیم اورمہیب گولہ، چاروں طرف بڑے بڑے پہاڑ، ادھر اُدھر ساحل ناآشنا سمندر اور اس کی خوفناک تلاطم انگیزیاں ، یہاں وہاں کف بردہاں اور سیلاب درآغوش دریاؤں کی خوف سامانیاں ، میلوں تک ڈراؤنے جنگل اور ان میں بڑے بڑے خطرناک درندے اور اژدہے، کبھی بادل کی لرزہ خیز گرج، کبھی زلزلوں کی تباہ کاریوں کاہجوم، شش جہات میں اس قسم کی خوفناک بلاؤں کا ہجوم و اژدہام اور ان کے اندر گھرا ہوابے یارو مددگار اور بے سروسامان تنہا ابن آدم۔آپ سوچئے کہ ان حالات میں خارجی کائنات کے متعلق اس کاردّعمل اس کے سوا کیاہوسکتا تھا کہ جو بلا سامنے آئے، یہ گڑگڑانا شروع کردے۔جہاں کوئی خطرہ آنکھ دکھائے یہ اس کے سامنے سرنگوں ہوجائے۔اس طرح فطرت کی مختلف قوتیں اس کا ‘اِلٰہ’ او ریہ اس کا پرستار بن گیا۔ چاند، سورج، ستارے، گرج، کڑک، بارش، آندھی، آگ، دریا،سانپ، شیر، حتیٰ کہ وبائی امراض، سب دیوی دیوتا تصور کرلئے گئے اور ان کی بارگاہ میں نذونیاز، منت و سماجت اور مدح و ستائش سے اُنہیں خوش رکھنے اور راضی رکھنے کی تدابیر اختیار کی جانے لگیں ۔ یہ تھا(اُس ماحول میں ) انسان کااوّلین ردّعمل۔ خارجی کائنات کے متعلق رفتہ رفتہ اسی ردّعمل نے مذہب کی شکل اختیار کرلی اور آپ جانتے ہیں کہ جب کوئی عقیدہ یا تصور مذہب کی شکل اختیار کرلے تو حالات کتنے ہی کیوں نہ بدل جائیں اس میں تبدیلی نہیں آیا کرتی، چنانچہ دنیا کے بیشتر مذاہب کائنات کے متعلق انسان کے اس اوّلین ردّعمل کے مظاہر ہیں ۔ (اسلام کیا ہے؟’ ص 194)
‘مفکر ِقرآن’کایہ اقتباس اس امر کو واضح کردیتاہے کہ انسان نے اپنی زندگی کی ابتدا عقیدہ توحید سے نہیں بلکہ نظریۂ شرک سے کی تھی۔ یہ نظریہ دراصل دین بیزار، توحید مخالف اور دہریت پسندقوموں کافلسفہ ہے جسے اُنہوں نے اپنی عقل کی کسوٹی پرپرکھ کر پیش کیا ہے اور ہمارے’مفکر ِقرآن’ نے اپنی فکری اسیری اور ذہنی غلامی کی بنا پر اسے من وعن قبول کرلیاہے حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ انسان نے اپنے سفر حیات کی ابتدا اللہ تعالیٰ کی رہنمائی میں عقیدۂ توحیدکی روشنی میں کی تھی نہ کہ کفر و شرک کی ظلمت میں ۔ انسان کو پیداکرنے کے بعد اس کی رہنمائی کرنا خود اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے رکھاہے جیسا کہ قرآنِ کریم میں بکثرت مقامات پرخداے قدوس کی اس ذمہ داری کو بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً : إِنَّ عَلَيْنَا لَلْهُدَىٰ …﴿١٢﴾…سورة الیل”اور ہم پر ہی یہ لازم ہے کہ ہم رہنمائی کریں ۔”اس بنا پر اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلا انسان جو پیدا کیا تو اسے علم وحی سے نوازا۔ مرتبۂ نبوت عطافرمایاتاکہ وہ علم کی روشنی میں ، نہ کہ جہالت و بے خبری کی تاریکی میں ، اپنے سفر حیات کاآغاز کرے۔
‘مفکر قرآن’ کے وہ دلائل جو اُنہوں نے’خارجی کائنات’کے متعلق انسان کے اوّلین ردّعمل کے ضمن میں پیش کئے ہیں تو وہ دراصل ‘دلائل’ نہیں بلکہ دانشورانِ مغرب کی چچوری ہوئی وہ ہڈیاں ہیں جنہیں منکرین حدیث اپنے منہ سے اُگل رہے ہیں۔ اور حیرت بالاے حیرت یہ امر ہے کہ تہذیب ِمغرب کے سحر میں گرفتار یہ غلام فطرت لوگ اپنی اسلامی حس اور تنقیدی قوت کو سرے سے ہی کھو چکے ہیں یہاں تک کہ مغرب سے جو کچھ بھی آتا ہے، اُسے وحی سمجھ کر من وعن قبول کرلیا جاتا ہے۔ہمارے ‘مفکر قرآن’ چونکہ ذہنا ًاور کلیا ً فلسفہ سے مرعوب و مسحور تھے۔ اس لئے وہ مقہور و مجبور تھے کہ اس سوال کے جواب میں کہ بنی نوع انسان میں خدا کاتصور کیسے پیداہوا؟ وہی فلسفہ اپنائیں جس کی روشنی میں اہل مغرب کے ہاں انسان کاسفر حیات شرک و کفر کی تاریکیوں میں ہواتھا او رپھر اسی فلسفۂ باطلہ کی لاج رکھتے ہوئے، اُنہوں نے اپنی فکری مرعوبیت اورذ ہنی غلامی کاکھلا کھلا ثبوت فراہم کرڈالا ہے۔ یہ طرزِعمل خود اس حقیقت کو بے نقاب کردیتا ہے کہ ‘مفکر ِقرآن’ کس طرح قرآن کانام لے کر، فکر ِفرنگ اور فلسفۂ مغرب کی پیروی کیا کرتے تھے۔

عمر بھر کے مطالعۂ قرآن کے بعد بھی قرآن سے بے خبری:
‘مفکر ِقرآن’ اپنی ستائش آپ کرتے ہوئے اکثر اپنی عمر بھر کی قرآنی تحقیق و ریسرچ کاڈھنڈورا پیٹاکرتے تھے، مثلاً
”میں ، اے برادرانِ گرامی قدر! قرآنِ کریم کاطالب علم ہوں ، میں نے اپنی عمر کابیشتر حصہ اس کتابِ عظیم کی روشنی میں اپنی بصیرت کے مطابق اسلام کے بنیادی تصورات کامفہوم متعین کرنے میں صرف کیا ہے اورمیری اس کوشش کاماحصل،میری تصانیف کے اَوراق میں محفوظ ہے۔”( طلوعِ اسلام:جنوری 1973ء، ص27)
حیرت ہے قرآنِ کریم کی وہ واضح آیات جو فکر ِمغرب کی تردید کرتے ہوئے یہ اعلان کرتی ہیں کہ کاروانِ انسانیت نے اپنا سفر، کفر وشرک اور جہالت و بے علمی کی تاریکیوں میں نہیں بلکہ عقیدئہ توحید اور علم وحی کی روشنی میں شروع کیاتھا، اُن کی نگاہوں سے اوجھل ہی رہیں ۔صرف دو آیات ملاحظہ فرمائیے :
وَمَا كَانَ ٱلنَّاسُ إِلَّآ أُمَّةً وَ‌ٰحِدَةً فَٱخْتَلَفُوا…﴿١٩﴾…سورة یونس
”اور لوگ تو ایک ہی اُمت تھے پھر اُنہوں نے اختلاف کیا۔”
كَانَ ٱلنَّاسُ أُمَّةً وَ‌ٰحِدَةً فَبَعَثَ ٱللَّهُ ٱلنَّبِيِّـۧنَ مُبَشِّرِ‌ينَ وَمُنذِرِ‌ينَ…﴿٢١٣﴾…
”(ابتدا میں )سب کچھ لوگ ایک ہی طریقے پر تھے۔ (پھریہ حالت باقی نہ رہی اور اختلافات رونما ہوئے) تب اللہ نے نبی بھیجے جو مبشر اورمنذر تھے۔”
یہ دونوں آیات فکر ِپرویز کی تردیدکرتی ہیں ۔پہلی آیت کے تحت مولاناامین احسن اصلاحی لکھتے ہیں :
”ضمناً اس سے جدید فلسفیوں کے اس نظریہ کی بھی تردید ہوگئی کہ انسان نے دین کاآغاز شرک سے کیا، پھر درجہ بدرجہ اِرتقا کرتے ہوئے توحید تک پہنچا۔ قرآن اس کے برعکس یہ کہتا ہے کہ خدا نے شروع ہی سے انسان کو توحیدکی تعلیم دی،لیکن گمراہوں نے اس میں اختلاف پیدا کرکے فتنے کھڑے کردیئے۔ہم نے فلسفۂ جدید کے اس باطل نظریہ کی تردید اپنی کتاب’حقیقت ِتوحید’ میں تفصیل سے کی ہے۔”( تدبر قرآن، جلد4 ص35)
اور دوسری آیت کے تحت مولانا عبدالماجد دریابادی فرماتے ہیں :
”آیت نے ایک بڑی گرہ کھول دی۔ فرنگی ‘محققین’ حسب ِمعمول مدتوں اس باب میں بھٹکتے رہے اور ان میں اکثر یہی کہے گئے کہ انسان کا ابتدائی مذہب شرک یاتعددِ آلہہ تھا۔ شروع شروع میں وہ ایک ایک چیز کو خدا سمجھتا تھا اور عقیدۂ توحید تک نسلی انسانی بہت سی ٹھوکریں کھانے کے بعد اور عقلی اور دماغی ارتقا کے بڑے طویل سفر کے بعد پہنچی ہے۔ قرآنِ مجیدنے اس خرافی نظریہ کوٹھکرا کر صاف اعلان کردیا کہ نسلِ انسانی آغازِ فطرت میں دینی حیثیت سے ایک اور واحد تھی۔ اس میں ‘مذہب’ و ‘اَدیان’ کے یہ تفرقے کچھ بھی نہ تھے۔امت ِواحدہ میں جس وحدت کا ذکر ہے، ظاہر ہے کہ اس سے دینی و اعتقادی وحدت ہی مراد ہے:
صدیوں کی اُلٹ پھیر اور قیل و قال کے بعد اب آخری فیصلہ بڑے بڑے ماہرین اَثریات، انسانیات و اجتماعیات (سرچارلس مارسٹن، پروفیسر لنگڈن اور پروفیسر شمڈٹ) کا یہی ہے کہ انسان کا اوّلین دین، دینِ توحیدتھا۔( تفسیرماجدی: صفحہ 83، حاشیہ 772)
تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے ہماری تحریر” مذہب کی ابتداء و تاریخ کے متعلق مختلف نظریات-ایک جائزہ

دوسری مثال: انکارِ نبوت ِ آدم:
پرویز صاحب حضرت آدم علیہ السلام کو نبی تسلیم نہیں کرتے اور اس کے لئے بایں الفاظ دلیل پیش کرتے ہیں :
”سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ قصۂ آدم میں کہا گیا ہے کہ خدانے آدم کو بالتصریح ایک حکم دیا اور آدم نے اس سے معصیت برتی، اس قسم کی معصیت کسی نبی کا شیوہ نہیں ہوسکتا… حضرات انبیا تو رہے ایک طرف، جیسا کہ بتایا جاچکا ہے،ابلیس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد یہ ہے کہ {إِنَّ عِبَادِى لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَـٰنٌ…﴿٤٢﴾…سورة الحجر} ”یقینا میرے بندوں پرتجھے غلبہ حاصل نہیں ہوگا۔”( تفسیر مطالب الفرقان: ج2؍ ص63)
یہاں دو باتیں قابل غور ہیں :
اوّلاً یہ کہ … آدم علیہ السلام کی یہ معصیت تھی کس قسم کی؟ جس کے متعلق خود پرویز صاحب فرماتے ہیں کہ ”اس قسم کی معصیت، کسی نبی کا شیوہ نہیں ہوسکتی۔”
حقیقت یہ ہے کہ آدم علیہ السلام، نہ تو معصیت کوش تھے اور نہ ہی نافرمانی ربّ کا وہ کوئی ارادہ رکھتے تھے۔ بات صرف یہ ہوئی کہ جیسا کہ پرویز صاحب بھی یہی ترجمہ کرتے ہیں :”{وَقَاسَمَهُمَآ إِنِّى لَكُمَا لَمِنَ ٱلنَّـٰصِحِينَ …﴿٢١﴾…سورة الاعراف}”شیطان نے قسمیں کھا کر کہا: جو کچھ میں کہہ رہا ہوں ، اس میں میرا کوئی فائدہ نہیں ۔ میں یہ سب کچھ تمہاری خیرخواہی کے لئے کررہا ہوں ۔” (مفہوم القرآن: آیت 7؍21)حضرت آدم علیہ السلام جن کے حاشیہ خیال میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ کوئی فرد اللہ کے نام کی قسم کھاکر کسی کودھوکہ دے سکتاہے، اپنی فطری سادگی کی بنا پراس شیطانی چکمہ کا شکار ہوگئے، پھر یہ دھوکہ دہی کی واردات بھی پہلی ہی تھی کہ اس سے قبل اُنہیں کبھی کسی فریب دہی اور دھوکہ بازی کی صورتِ حال کا سامنا نہ ہواتھا، بلکہ اس وقت تک آدم علیہ السلام اپنی فطرت کی سادگی اور پاکیزگی پرقائم تھے کہ جھوٹ، دھوکہ اور فریب جیسے رذائل سے ان کاتعارف ہی نہ ہوا تھا۔ اس لئے وہ شیطان کے فریب میں آگئے ۔ کیا یہ واقعی اس قسم کی معصیت تھی جس سے انبیاے کرام بالاتر ہوا کرتے ہیں ؟ آخر وہ کسوٹی اور معیار تو بیان کیا جاتا جس کی رو سے انبیا کی معصیت اور غیر انبیا کی معصیت میں فرق کیا جاسکے۔

لغزشِ یونس او رپرویز صاحب:
پھر از روے قرآن حضرت یونس علیہ السلام سے جو کچھ سرزد ہوا ،کیا وہ آدم علیہ السلام کی لغزش سے بڑی لغزش نہ تھی، حالانکہ نبوتِ یونس ؑکے خود پرویز صاحب بھی قائل ہیں ۔حضرت یونس علیہ السلام کے متعلق خودپرویز صاحب لکھتے ہیں :
”… وہ قوم کی مخالفت سے سخت گھبرا گیا اور پیشتر اس کے کہ اسے خدا کی طرف سے ہجرت کرنے کا حکم ملتا، وہ اپنے فرائض منصبی کو چھوڑ کر وہاں سے روانہ ہوگیا…۔”( برقِ طور: ص289)
پھرایک اور مقام پر حضرت یونس علیہ السلام کی لغزش کی وضاحت بایں الفاظ کرتے ہیں :
”خدا کی طرف سے ہجرت کا حکم، اُس وقت ملاکرتاہے جب اس قوم کا حق و صداقت کو قبول کرنے کا اِمکان باقی نہ رہے۔ اس سے پہلے وہاں سے چلے جانا گویا اپنے فرائضِ منصبی کو چھوڑ دینا ہے۔ یہی یونس علیہ السلام کی اجتہادی غلطی تھی۔” ( برقِ طور: ص289،290)
اب غور فرمائیے کہ ہمارے ‘مفکر ِقرآن’ حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ”اس قسم کی معصیت کسی نبی کا شیوہ نہیں ہوسکتا” یعنی کسی کی قسموں پراعتبار کرکے اسے شفیق ناصح جان کر اگر کسی سے لغزش ہوجائے تو یہ تو نبی کا شیوہ نہیں ہوسکتا، لیکن اگر کسی نبی سے ایسے حکم خدا کی نافرمانی ہوجائے جو سب انبیا کے لئے ہجرت کے لئے ایک مستقل ضابطہ کی حیثیت رکھتا ہے تو ایسی نافرمانی ”نبی کا شیوہ ہوسکتی ہے۔”
قربان جائیے’مفکر قرآن’ کی اس ‘قرانی فہم و بصیرت ‘کے!
ثانیاً یہ کہ … پرویز صاحب کا یہ استدلال کہ … ” شیطان نے آدم پر غلبہ پالیاجبکہ نبی تو رہا ایک طرف وہ اللہ کے مخلص بندوں پر بھی حاوی نہیں ہوسکتا۔” از حد لغو استدلال ہے، جو ‘مفکر ِقرآن’ کے غلبۂ شیطان کی حقیقت سے بے بہرہ ہونے کا نتیجہ ہے۔
غلبۂ شیطان کا اصل مفہوم یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی کے جملہ اُمور میں نہیں تو اکثر و بیشتر معاملات میں شیطان کا پیرو بن جائے اور شیطان کو اس پر اس قدر قابوحاصل ہوجائے کہ وہ راہِ راست پر نہ رہنے پائے۔ رہا کسی ایک آدھ معاملے میں ، شیطانی وسوسہ یاابلیسی نسیان کا شکار ہوجانا، تو اسے غلبۂ شیطان سے تعبیر کرناسوئے تعبیر ہے۔ اسے بیش از بیش’مسّ شیطان’ کہا جاسکتا ہے، چنانچہ قرآن مجید خود ‘غلبۂ شیطان’ اور ‘مسِ شیطان’ میں فرق کرتاہے۔ وہ اوّل الذکر کے متعلق یہ کہتا ہے کہ إنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْہِمْ سُلْطٰنٌ (15؍42) ”یقینامیرے بندوں پر تجھے غلبہ حاصل نہیں ہوگا۔” اور ‘مس شیطان’ کے بارے میں خود قرآنِ کریم ہی میں یہ مذکور ہے کہ اہل تقویٰ حضرات بھی بعض اوقات اس سے محفوظ نہیں رہ پاتے، تاہم خدا کی یاد جب اُن کی آنکھیں کھول دیتی ہے تو ان کی خفیہ یا مدھم بصیرت میں بیداری یا جلا پیدا ہوجاتی ہے اور وہ ‘مس شیطان’ کے اثر سے چھٹکارا پالیتے ہیں ۔ قرآن مجید اس سلسلہ میں یہ فرماتا ہے:إِنَّ ٱلَّذِينَ ٱتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَـٰٓئِفٌ مِّنَ ٱلشَّيْطَـٰنِ تَذَكَّرُ‌وا فَإِذَا هُم مُّبْصِرُ‌ونَ …﴿٢٠١﴾…سورة الاعراف
”بے شک جو لوگ تقوی شعار ہیں انہیں جب شیطان کی طرف سے وسوسہ پہنچتا ہے اللہ کو یاد کرتے ہیں تو ان کو آنکھیں کھل جاتی ہیں ۔

انکارِ نبوت آدم علیہ السلام کی اصل وجہ:
حضرت آدم علیہ السلام کی نبوت کے انکار کی اصل وجہ دراصل وہ فلسفہ تاریخ ہے جسے مغرب نے پیش کیاہے اور پرویز صاحب اُسے دل و جان قبول کرچکے ہیں ۔ نبوتِ آدم کا اقرار و اعتراف اس فلسفۂ تاریخ سے میل نہیں کھاتا جبکہ اسلامی فلسفۂ تاریخ کی رو سے آدم ؑ کی نبوت کوقبول کئے بغیر چارۂ کارنہیں ،کیونکہ روئے زمین پر اوّلین انسان کے ظہور پذیر ہونے کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلسلۂ رشدو ہدایت کا اِجرا و آغاز ، رحمت ِخداوندی کا ویسا ہی ناگزیر تقاضا ہے جیسا انسان کی مادی ضروریات کو پورا کرنا۔
قرآن کریم کی رُو سے تخلیقِ بشر (آدم ؑ) کا مقصد ہی زمین میں خلافت کے فرائض کو انجام دینا ہے ( وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً)۔اگر وہ خدائی رہنمائی سے انحراف کرتاہے تو نہ صرف یہ کہ خلافت کی بجائے بغاوت کی راہ اختیار کرتا ہے بلکہ وہ مستحق سزا بھی ٹھہرتا ہے ۔آدمؑ کو زمین پر اُتارتے وقت یہ سب باتیں اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دی تھیں :
فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّى هُدًى فَمَنِ ٱتَّبَعَ هُدَاىَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَىٰ ﴿١٢٣﴾ وَمَنْ أَعْرَ‌ضَ عَن ذِكْرِ‌ى فَإِنَّ لَهُۥ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُ‌هُۥ يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِ أَعْمَىٰ ﴿١٢٤﴾…سورہ طہ
”اب اگر میری طرف سے تمہیں ہدایت پہنچے تو جو کوئی میری اس ہدایت کی پیروی کرے گا، وہ نہ بھٹکے گا، نہ بدبختی میں مبتلاہوگا اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا، تو اس کے لئے دنیامیں بھی تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز بھی ہم اسے اندھا کرکے اُٹھائیں گے۔”
چنانچہ آدمؑ جو ابوالبشر اور اولیٰ الانسان تھے، اُسے امورِ خلافت کی انجام دہی کے لئے اللہ تعالیٰ نے نورِ ہدایت سے نوازا اور مقامِ نبوت پرسرفراز فرمایا۔اس طرح انسانی معاشرہ کی ابتدا کفر و شرک او رالحاد و دہریت کی تاریکیوں میں ہونے کی بجائے توحید و رسالت اور رشد و ہدایت کی روشنی میں ہوئی۔ لیکن ‘مفکر ِقرآن’ کے قلب و ذہن اور حواس و مشاعر پر جو فلسفہ اپنی مضبوط گرفت قائم کرچکا ہے، اس کی رُو سے انسانی معاشرہ کی ابتدا، کفروشرک یاالحاد و دہریت سے ہوئی تھی او رپھررفتہ رفتہ یہ معاشرہ ارتقائی منازل طے کرتا ہوا توحید تک پہنچا۔ اب اس فلسفہ کی رو سے چونکہ اس نظریے کو ماننے کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی جسے قرآن پیدائشِ آدمؑ کے ساتھ ہی آغاز پذیرقرار دیتا ہے اس لیے پرویز صاحب کسی ایسی صورت حال کے قائل نہیں ہوسکتے جس میں انسانی معاشرہ کی ابتدا نور وحی اور ضیاے ہدایت میں ہوناقرار پائے۔
پرویز صاحب قرآن کے حقائق اور جدید تحقیقات میں جہاں کہیں تضاد و تصادم نظر آتا ہے بجائے اسکے کہ وہ بحیثیت’ محب قرآن’ قرآنی حقائق کو حتمی، قطعی اور یقینی قرار دے کر ‘جدیدتحقیقات’ کو یہ کہہ کر ردّ کر دیں کہ ”یہ تحقیقات ابھی خام ہیں ، ممکن ہے مستقبل کے علمی انکشافات اُنہیں ردّ کرکے وہ چیز پیش کردیں جومطابق وحی ہو” ‘ قرآنی آیات کی تعبیر ہی جدید تحقیقات کے مطابق بدل جاتے ہیں ۔ اس طرح وہ ہمیشہ قرآن پر ان تحقیقات کو شرفِ تقدم بخشتے رہے جواہل مغرب نے پیش کیں ۔اس سے بخوبی واضح ہوجاتاہے کہ’مفکر ِقرآن’ کا راسخ ایمان قرآنِ کریم پرتھایا تحقیقات مغرب پر؟

تیسری مثال: حضرت نوح ؑ کی عمر
ہم اپنی تحریر ‘غلام احمد پرویز صاحب کی قرانی فکر-تضادات کا سیل رواں ‘ میں اس پر تفصیل پیش کرچکے ہیں ۔ اس میں اسکے علاوہ بھی بیسوں مثالیں پیش کی گئی تھیں کہ کیسے پہلے پرویز صاحب قرآنی موقف بیان کرتے رہے اور پھر بعد میں جب مغربی موقف سے آشنائی ہوئی تو قرآنی تعبیر ات کو اسکے مطابق بدل ڈالا۔ تحریر یہاں سے ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔

‘مفکر قرآن’ پڑھتے تو قرآن ہی رہے ہیں مگر سوچتے رہے ہیں تہذیب ِغالب کی تحقیقات کی روشنی میں ۔ آنکھیں تو اُن کی اپنی تھیں مگر دیکھتے رہے ہیں مغرب کے زاویۂ نگاہ سے۔ الفاظ تو وہ قرآن ہی کے اپنی زبان سے ادا کرتے رہے ہیں مگر ان کے اندر معانی وہ فکر جدید سے لے کر داخل کیا کرتے تھے۔
پرویز صاحب اگر واقعی قرآن کو حجت اور سند سمجھتے تو ان پر لازم تھاکہ وہ قرآنی تعبیر کو ہی جدید نظریے مطابق بدل دینے کے بجائے أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عَامًاسے 950 سال ہی مراد لیتے۔پھر جو کوئی اس طویل العمری پرشک و شبہ کااظہار کرتا تواسے یہ ہدایت فرماتے کہ وہ علمی انکشافات کا ابھی اور انتظار کرے تاآنکہ قرآن (وحی) کا یہ مفہوم ثابت ہوجائے۔” یہی رویہ ان کے لیے زیبا تھا اور ایک مقام پر خود اُنہوں نے اسے اختیار بھی کیاتھا، چنانچہ قصۂ صاحب ِموسیٰ ؑ کے ضمن میں اُنہوں نے یہی ہدایت فرمائی کہ
”عقل اپنی محدود معلومات کی بنا پر وحی کے کسی حکم کے خلاف اعتراض کرتی ہے، لیکن جب اس کی معلومات میں اضافہ ہوجاتا ہے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ جو کچھ وحی نے کہا تھا، وہ سچ تھا۔لہٰذا عقل کے لیے صحیح روش یہی ہے کہ وہ وحی کی بات تسلیم کرنے اور اپنی معلومات میں اضافہ کرنے کی کوشش کرتی رہے۔ جب اسے صحیح معلومات حاصل ہوجائیں گی تو وہ خود بخود وحی کی تصدیق کردے گی۔”( مفہوم القرآن: ص679)

چوتھی مثال: قتل ابناے بنی اسرائیل
یہ ایک ناقابل تردید تاریخی حقیقت ہے کہ فرعونِ مصر نے ولادتِ موسوی سے قبل ابناے بنی اسرائیل کو قتل کرنے کا ظالمانہ سلسلہ شروع کررکھا تھا، خود قرآنِ مجیدبھی اس حقیقت کی تائید کرتا ہے۔ مگر جناب غلام احمد پرویز کو اس سے انکار ہے۔چنانچہ قرآنِ کریم کے ہر اُس مقام پر جہاں فرعون کے ہاتھوں ابناے بنی اسرائیل کاقتل مذکور ہے، اُنہوں نے یہ تاویل (بشرطیکہ اسے تحریف کی بجائے تاویل کہا بھی جاسکے) فرمائی ہے کہ فرعون اور آلِ فرعون فرزندانِ بنی اسرائیل کو ”جو ہر انسانیت سے محروم رکھنے کی کوشش” کہا کرتے تھے نہ کہ اُنہیں جان سے مار دینے کی۔چنانچہ وہ فرماتے ہیں :”يُذَبِّحُ أَبْنَآءَهُمْ وَيَسْتَحْىِۦ نِسَآءَهُمْ” …﴿٤﴾…سورة القصص ) اس کا عام ترجمہ یہ ہے کہ ” وہ ان کے اَبناء کو قتل کرتا اور ان کی نساء کو زندہ رکھتا اور اس طرح اس میں فساد برپاکرتارہتا” یہ الفاظ دو ایک دیگر مقامات پر بھی آئے ہیں ۔(مثلاً الاعراف:127،غافر:25،البقرة:49) ہمارے ہاں ان الفاظ کامفہوم یہ لیا جاتا ہے کہ فرعون نے حکم دے رکھاتھا کہ بنی اسرائیل کے ہاں جتنے بھی بچے پیداہوں ، ان میں سے لڑکوں کوپیدا ہوتے ہی قتل کردیاجائے اور لڑکیوں کو زندہ رہنے دیا جائے۔یہ مفہوم صحیح نہیں ، اسے تورات سے لیا گیا ہے۔”( تفسیر مطالب الفرقان : ج2 ص173)
ہمیں افسوس ہے کہ مقالہ کی تنگ دامنی نہ تو ہمیں اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ اقتباسِ بالا میں سوے تعبیر کے ذریعہ جو کرشمہ سازی کی گئی ہے، اس کاپردہ چاک کیاجائے اورنہ ہی اس بات کی کہ موقف ِ پرویز کے جملہ دلائل کاتفصیلی رد پیش کیا جائے اورنہ ہی اس امر کی کہ علماے سلف و خلف کے موقف کادلائل و براہین سے اثبات کیا جائے۔ مزید یہاں چونکہ موضوع کی مناسبت سے صرف یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ’مفکر ِقرآن’ کے ایمان بالقرآن کی حقیقت کیا ہے اس لیے اس پر تفصیلی بات کرنا بہتر بھی نہیں ، جو احباب ان جملہ اُمور پرتفصیلی بحث پڑھنا چاہتے ہوں وہ یہ لنک (1،2) ملاحظہ کرلیں ۔

انکارِ قتل ابنائے بنی اسرائیل کی وجہ:
پرویز صاحب جس وجہ سے قتلِ ابناے بنی اسرائیل کاانکارکرتے ہیں ، وہی اس امر کو واضح کردیتی ہے کہ وہ فی الواقع قرآن کومانتے ہیں یاغیرقرآن کو؟ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ
”اس وقت تک مصر کی قدیم تاریخ سے جس قدر پردے اُٹھے ہیں ، ان میں سے بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کردینے کاکوئی واقعہ سامنے نہیں آیا ہے۔ ممکن ہے جب تاریخ کے مزید اوراق سامنے آئیں تو ان میں اس کے متعلق کوئی ذکر ہو، اس وقت تک صرف تورات میں یہ ملتا ہے کہ فرعون نے بنی اسرائیل کو مارنے کاحکم دے رکھا تھا۔ (کتابِ خروج)لیکن تاریخی نقطۂ نگاہ سے موجودہ تورات کی جو حیثیت ہے وہ اربابِ علم سے پوشیدہ نہیں ہے۔”( لغات القرآن: ص693،694)
اقتباسِ بالا نے پرویز صاحب کی مغرب کے مقابلے میں ذہنی غلامی اور فکری اسیری کو بالکل بے نقاب کرکے رکھ دیاہے۔ قرآنِ کریم بالفاظِ صریحہ فرعون کے متعلق یہ کہتا ہے کہ”يُذَبِّحُ أَبْنَآءَهُمْ وَيَسْتَحْىِۦ نِسَآءَهُمْ” …﴿٤﴾…سورة القصص ) ”وہ ان کے بیٹوں کو ذبح کیا کرتاتھا اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھا کرتاتھا” فرعونیوں کے متعلق بھی قرآن صراحت سے بیان کرتاہے کہ ”يُذَبِّحُونَ أَبْنَآءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَآءَكُمْ…﴿٤٩﴾…سورہ البقرة”وہ تمہارے بچوں کو ذبح کیا کرتے تھے اور تمہاری عورتوں کوزندہ رہنے دیا کرتے تھی۔۔۔”ایک دوسرے مقام پر ”یذبحون”کی جگہ ”یُقَتِّلُوْنَ” کے الفاظ آئے ہیں یعنی ”خوب قتل کیاکرتے تھے۔”
الغرض قرآن کریم نےیذبحون کہا ہو یا یقتلون، دونوں کامعنی ‘جان سے مار ڈالنا’ ہی ہے۔ لیکن ہمارے ‘مفکر قرآن’ کو یہ حقیقی اور عام فہم مفہوم قابل قبول نہیں کیوں ؟ محض اس لیے کہ ابھی تک حجری اور اثری انکشافات نے اس معنی کی تصدیق نہیں کی۔ گویا اصلی قابل اعتماد ماخذ الفاظ کلام اللہ نہیں ہیں بلکہ تاریخی آثار اور انکشافاتِ آثارِ قدیمہ ہیں ۔لہٰذا قرآنی مفہوم ان ہی کی روشنی میں متعین کیاجائے گا یعنی قرآنی الفاظ کا مفہوم قطعی نہیں بلکہ تاریخی آثار و کتبات سے برآمد شدہ مفہوم ہی قطعی ہے۔ یہ رویہ مغرب کی انتہائی ذہنی غلامی کا غماز ہے۔

ہمارے ‘مفکر قرآن’ ہوں یا دیگر منکرینِ حدیث، اُن کی یہ بات کس قدر قابل توجہ ہے اورموجب ِصد حیرت ہے کہ یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور آپؐ کے اُسوۂ حسنہ کے متعلق بخاری، مسلم، موطا اور دیگر کتب ِحدیث کی شہادتوں کو بلا تکلف ردّ کردیتے ہیں اور محققین مغرب کی آثارِ قدیمہ سے ماخوذ تاریخی شہادت کو قبول کرلیتے ہیں حالانکہ یہ تاریخی شہادتیں اُن شہادات کے مقابلہ میں کوئی وزن نہیں رکھتیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق احادیث میں پائی جاتی ہیں ۔ منکرین حدیث مغرب کی جن تاریخی شہادتوں پر اعتماد کرتے ہیں ، ان میں سے قوی سے قوی ذریعہ بھی ابن ماجہ، حاکم، بیہقی کی ضعیف سے ضعیف روایت کے مقابلہ میں بھی ہیچ ہے۔ لیکن بُرا ہو ذہنی غلامی کا، ستیاناس ہو دماغی مغلوبیت کا، بیڑہ غرق ہو فکری اسیری کا، جس کا واضح نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ؎
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر!
ہمارے’مفکر قرآن’ فرماتے ہیں کہ قتل ابناے بنی اسرائیل کو مقتول و مذبوح قرار دینے والی آیات میں ‘جان سے مار ڈالنے’ کامفہوم اس لیے قابل قبول نہیں کہ ”اس وقت تک مصر کی قدیم تاریخ سے جس قدر پردے اُٹھے ہیں ، ان میں سے بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کرنے کا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیاہے، ممکن ہے جب تاریخ کے مزید اوراق سامنے آئیں تو ان میں اس کے متعلق کوئی ذکر ہو۔ کیایہ عجیب بات نہیں کہ قرآنی الفاظ کے قطعی مفہوم کونظر انداز کرکے مصر کی تاریخ پر سے مزید پردوں کے اُٹھنے کاانتظار کرتے کرتے وہ شخص مرگیا جواُٹھتے بیٹھتے قرآن قرآن کی رٹ لگائے رکھتا تھا اور قرآن کے اوّل و آخر سند ہونے کی دہائی دیا کرتاتھا۔ اب گویا حیاتِ پرویز ہی میں جب اثری تحقیقات میں سے کوئی ایسی شہادت مل جاتی جو ولادتِ موسیٰ علیہ السلام کے وقت اسرائیلی بچوں کو’جان سے مار ڈالنے’ کا انکشاف کرڈالتی تو پھر’مفکر قرآن’ ایک اور قلابازی کھاتے اور مفہوم قرآن از سر نو بدل کر کچھ اور ہوجاتا اورجب تک کوئی ایسی شہادت نہیں مل پاتی اس وقت تک ‘پیروانِ دعوتِ قرآنی’ پر لازم ہے کہ وہ ‘مفکر قرآن’ کے اندازاً بتائے ہوئے قیاسی معانی ہی کو سینے سے لگائے رکھیں ۔

تورات اور پرویز:
اور یہ بھی کیا خوب کہا ہے کہ ”اسرائیلی بچوں کو سچ مچ مار ڈالنے کا فرعونی حکم صرف تورات میں پایا جاتاہے مگر موجودہ تورات ‘ساقط الاعتبار’ ہے۔” یہاں ہمارے ‘مفکر قرآن’ کا یہ دو رُخا پَن بھی قابل غور ہے کہ اُنہوں نے جب اور جہاں چاہا تورات کے اُن واقعات کو بھی جو مطابقِ قرآن ہیں یہ کہہ کر رد کردیا کہ یہ واقعات تورات جیسی ساقط الاعتبار کتاب سے ماخوذ ہیں ” (مثلاً یہی قتل ابناے بنی اسرائیل کے واقعات) لہٰذا ناقابل قبول ہیں ۔لیکن دوسری طرف توراتِ محرفہ کے جن واقعات کو وہ اپنے منسوب الی القرآن تصورات کے موافق پاتے ہیں اُنہیں وہ ہاتھوں ہاتھ قبول کرلیتے ہیں (مثلاً نظامِ یوسفی میں اقتصادی نظام) پھر اُس وقت نہ تورات اُنہیں تحریف شدہ نظر آتی ہے اور نہ ہی ساقط الاعتبار۔
پھر ‘مفکر قرآن’ صاحب کا یہ دو رُخا پَن بھی ملاحظہ فرمائیے کہ قرآنِ کریم اگر یہ کہہ دے کہ”فرعون ابناے بنی اسرائیل کو قتل اور ذبح کیا کرتاتھا اور ان کی خواتین کو زندہ رکھاکرتا تھا۔” تو یہ قرآنی بیان ‘مفکر قرآن’ کے لیے قابل قبول نہیں ہے اور اسے مردود قرار دینے کے لیے یہ فرماتے ہیں کہ ”یہ تورات جیسی ساقط الاعتبار کتاب سے ماخوذ تصور ہے۔” لیکن دوسری طرف وہ خود ایک ایسی ہی حقیقت کو جب اہل کتاب کی مذہبی کتابوں سے پیش کرتے ہیں تو بغیر کسی تردد، دغدغہ، تامل اور حیل و حجت کے ‘حقیقت ِواقعہ’ قرار دے کر قبول کرتے ہیں ، چنانچہ وہ لکھتے ہیں :
”انجیل متی میں یہ بھی مذکور ہے کہ ہیرودلیسس نے بیت اللحم اور اس کی سرحدوں کے تمام بچوں کو جن کی عمر دو برس یا اس سے کم تھی، قتل کردیا تھا۔”( شعلہ مستور: حاشیہ بر ص16)
غور فرمائیے، انجیل متی کی سند پر ہیرودلیسس کا قتل اطفالِ مسلّم ومعتبر ہے لیکن قرآن کی سند پر قتل اطفال بنی اسرائیل غیر مسلّم ہے :
شعور و فکر کی یہ کافری معاذ اللہ!

پانچویں مثال: واقعہ قتل نفس اور ذبح بقرہ:
سورة البقرة میں ذبح البقرہ کے واقعہ کے ضمن میں قتلِ نفس کا واقعہ بایں الفاظ مذکور ہے :
وَإِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَٱدَّ‌ٰرَ‌ٰ‌ْٔتُمْ فِيهَا ۖ وَٱللَّهُ مُخْرِ‌جٌ مَّا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ ﴿٧٢﴾ فَقُلْنَا ٱضْرِ‌بُوهُ بِبَعْضِهَا ۚ كَذَ‌ٰلِكَ يُحْىِ ٱللَّهُ ٱلْمَوْتَىٰ وَيُرِ‌يكُمْ ءَايَـٰتِهِۦ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ﴿٧٣﴾…سورة البقرة
”اور تمہیں یاد ہے وہ واقعہ جب تم نے ایک شخص کو مار ڈالا تھا، تب اس ضمن میں باہم جھگڑے اور ایک دوسرے پر الزام قتل تھوپنے لگے اور اللہ اُس امر کو کھولنے والا تھا جسے تم چھپا رہے تھے۔ تب ہم نے کہا: لاشِ مقتول کو اس کے ایک حصے سے ضرب لگاؤ، دیکھو! اللہ یوں اپنی نشایاں دکھاتے ہوئے لوگوں کو زندگی بخشتا ہے تاکہ تم سمجھ سے کام لو۔”
اس آیت کی تفسیر میں قریب قریب جملہ علماے تفسیر نے یہ لکھا ہے کہ جس گائے کو ذبح کرنے کا حکم اس سے متصل پہلی آیات میں دیا گیا ہے، اسی کے گوشت کو مقتول کی لاش کے ساتھ لگانے کاحکم دیاگیا ہے:فَقُلْنَا ٱضْرِ‌بُوهُ بِبَعْضِهَا ۚ﴿٧٣﴾…سورة البقرة) اس کے نتیجہ میں مقتول کچھ دیر کے لیے زندہ ہوا اور اپنے قاتل کا نام بتا کر ہمیشہ کے لیے پھر موت کی نیندسوگیا اور قاتل کو اس کے جرم کی سزا دے دی گئی۔
لیکن پرویز صاحب نے اس آیت کی تفسیر میں علماء کے اس تفسیری موقف کو نظر انداز کرکے ایک ایسی بات کہی ہے جو کسی حد تک ان کے اَنسب و احوط رویہ کی غماز ہے۔ وہ فرماتے ہیں :
”اضربوہ ببعضھاکی تفسیر میں اتنا کچھ لکھا گیا ہے کہ خواب کثرتِ تعبیر سے پریشان ہوگیا ہے لیکن بایں ہمہ بات ویسی کی ویسی ہی مشکل رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک تاریخی واقعہ ہے اور اس کا صحیح مفہوم تاریخی انکشافات کی روشنی میں ہی متعین ہوسکتاہے جس طرح فرعون کی لاش کے محفوظ رکھے جانے کا بیان ایک تاریخی واقعہ تھا۔ صدیوں تک اس آیت کی تفسیر میں مختلف قیاس آرائیاں ہوتی رہیں لیکن جب تاریخ نے اپنے چہرہ سے نقاب اُٹھایا تو مصر کے تہہ خانہ میں اس آیت کی تفسیر مجسم نظر آگئی۔ اسی طرح محولہ صدر واقعہ بھی تاریخ سے متعلق ہے قیاس آرائیوں سے اس کا صحیح مفہوم متعین نہیں ہوسکتا۔ یہ آیت بھی ابھی متشابہات کی فہرست میں ہے، تاریخ اپنا کوئی اور ورق الٹے گی تو اس وقت یہ آیت محکمات کی فہرست میں منتقل ہوجائے گی۔ قرآنی حقائق و معارف زمانہ کے شکن درشکن گیسوؤں میں لپٹے ہوئے ہیں ۔ علم انسانی کی نسیم سحری جوں جوں ان پیچوں کو کھولتی جاتی ہے یہ گوہر آبدار حسین آویزوں کی طرح وجۂ درخشندگی عالم ہوتے جاتے ہیں ۔”( معارف القرآن: ج3؍ ص356)
یہ تفسیری موقف پرویز صاحب نے 1935ء میں اختیار کیاتھاجس کے تحت ایسی آیات کومتشابہات میں سمجھتے ہوئے اس کی تفسیر کو یہ کہہ کر معرضِ اِلتوا و انتظار میں ڈال دیا تھا کہ ”جب تک تاریخ اس طرح کی کوئی مجسم تفسیر پیش نہیں کردیتی جیسی کہ فرعون کے بدن کو محفوظ رکھنے والی آیت میں پیش کی گئی ہے، اس وقت تک اسے متشابہات میں سے ہی سمجھا جائے گا۔”نیز اُنہوں نے یہ بھی فرمایا تھاکہ ‘قتل نفس’کے زیر بحث واقعہ میں ا بھی ‘قیاس آرائیوں ‘ سے اس کامفہوم متعین نہیں ہوسکتا۔
لیکن بعد میں ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے بعد ان کی فضاے دماغی میں ایک لہر اُٹھی اور ظن و تخمین اور گمان و تخریص پر مبنی ایک خالص قیاسی تفسیر بایں الفاظ صفحۂ قرطاس پر مرتسم ہوگئی :
”ہم جو کچھ سمجھ سکے ہیں ، وہ یہ ہے کہ توہم پرستیوں سے لوگوں کی نفسیاتی حالت یہ ہوجاتی ہے کہ وہ ذرا سے خلافِ معمول واقعہ کا سامنا نہیں کرسکتے اور اس کے احساس سے ان پرلرزہ طاری ہوجاتا ہے۔ یہی کیفیت بنی اسرائیل کی ہوچکی تھی اور واقعۂ قتل میں ان کی نفسیاتی حالت کو تحقیق مجرم کا ذریعہ بنایا گیا ہے۔ ان سے کہا گیا کہ مشتبہ ملزموں میں سے ایک ایک شخص، لاش کے قریب سے گزرے اور لاش کا کوئی حصہ اُٹھاکر اس شخص کے جسم سے چھوا جائے، ملزم کی پہچان ہوجائے گی۔ ظاہر ہے کہ اس سے مجرم کی جو حالت ہوئی ہوگی، وہ اس کے داخلی احساسات کی غماز بن گئی ہوگی۔ اس طرح جب مجرم کاتعین ہوگیا تو اس سے قصاص لے لیا گیا۔ قرآن نے قصاص کے متعلق کہا ہے کہ اس میں رازِ حیات ہے۔ یہ بہرحال ہمارا قیاس ہے حقیقت اس وقت ہی سامنے آئے گی جب تاریخی انکشافات اس کی نقاب کشائی کریں گے۔”( برقِ طور:ص190،191)
پھر اس’قیاسی تفسیر’ کو جس کے متعلق خود اُن کا اپنا اعتراف ہے کہ ”یہ ہمارا قیاس ہے۔” عین مفہوم قرآن بناکر یوں پیش کرتے ہیں :
”ایک طرف تمہاری یہ حالت کہ ایک جانور کو ذبح کرنے میں اس قدر حیل و حجت اوردوسری طرف یہ عالم کہ ایک انسانی جان ناحق لے لی اوراسے خفیہ طور پر مار دیا اور جب تفتیش شروع ہوئی تو لگے ایک دوسرے کے سر الزام تھوپنے یعنی تم میں اتنی اخلاقی جرات بھی نہ تھی کہ جرم ہوگیاتو کھلے بندوں اس کااعتراف کرلیتے، لیکن جس بات کوتم چھپانا چاہتے تھے، خدا اُسے ظاہر کردینا چاہتا تھا تاکہ جرم بلاقصاص نہ رہ جائے۔مشرکانہ توہم پرستیوں سے جن میں تم مبتلا ہوچکے تھے، انسان کی نفسیاتی کیفیت یہ ہوجاتی ہے کہ اسے کسی ذرا سی خلافِ معمول بات کا سامنا کرنا پڑے تو اس پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے۔ (22؍31) چونکہ خدا تمہاری اس نفسیاتی کیفیت سے واقف تھا، اس نے قاتل کاسراغ لگانے کے لیے ایک نفسیاتی ترکیب بتائی ( جوانسان کی اُس زمانے کی ذہنی سطح کے اعتبار سے بڑی خلافِ معمول تھی) اُس نے کہا: تم میں سے ایک ایک جاؤ اوراپنے حصہ جسم کو لاش کے ساتھ لگا دو۔ (چنانچہ جو مجرم تھا، وہ جب لاش کے قریب پہنچا تو خوف کی وجہ سے اس سے ایسے آثار نمایاں ہوگئے جو اس کے جرم کی غمازی کرنے کے لیے کافی تھے) اس طرح اللہ نے اس قتل کے راز کو بے نقاب کردیا اورمجرم سے قصاص لے کر موت کو زندگی سے بدل دیا کیونکہ قصاص میں قوم کی حیات کاراز پوشیدہ ہوتا ہے۔(2؍179) اللہ اس طرح اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم عقل و شعور سے کام لے کر ایسے معاملات کو سلجھایا کرو اور اس حقیقت کوسمجھ لو کہ نفسیاتی تغیرسے (افراد سے آگے بڑھ کر)کس طرح خود قوموں کی حالت بدل جاتی ہے۔”( مفہوم القرآن:ص25)

قرآنی الفاظ کے اختصارکوبھی دیکھئے اور پھر انہی الفاظ کے مفہوم کے طول وعرض کو بھی اور سوچئے کہ اگر یہی قرآنی مفہوم ہے تو کیا عرب کے اَن پڑھ اور سادہ مزاج بدؤوں کے حاشیۂ خیال میں بھی یہ مفہوم آسکا ہوگا جبکہ اس مفہوم سے خود ‘مفکر قرآن’ بھی بایں علم و دانش اور حکمت و فضیلت 1935ء تک محروم تھے۔ پھر اس ‘مفہوم القرآن’ کو اس پہلو سے بھی دیکھئے کہ اس میں کس قدر قرآنی الفاظ کی رعایت پائی جاتی ہے اورکس قدر ‘مفکر قرآن’ کے اپنے قیاس وگمان کادخل ہے۔ پھر یہ کہ قیاس و گمان اور لفاظی کایہ مرکب ایک سادہ اور عام فہم عرب کو قرآن سے قریب تر کرے گا یا بعید تر؟ یہ ہرشخص خود محسوس کرسکتا ہے۔
پرویز صاحب کے اس ‘مفہوم القرآن’ کے مقابلہ میں مندرجہ ذیل مفہوم آیات کو بھی ملاحظہ فرمائیے جسے قرآنی الفاظ کی حدود میں رہ کر اس خوبی سے پیش کیاگیا ہے کہ قرآنی ترجمہ اور شرحِ مفہوم میں ربط و ہم آہنگی نمایاں ہوجاتی ہے اور عبارت بھی الفاظ کے اِسراف و تبذیر سے قطعی پاک ہے:
”اور (وہ زمانہ یادکرو) جب تم لوگوں (میں سے کسی) نے ایک آدمی کاخون کردیا پھر (اپنی براء ت کے لئے) ایک دوسرے پرڈالنے لگے اور اللہ کو اس امرکاظاہر کرنامقصود تھا جس کو تم (میں سے مجرم و مشتبہ لوگ) مخفی رکھناچاہتے تھے۔ اس لیے (ذبح بقرہ کے بعد) ہم نے حکم دیاکہ اس (مقتول کی لاش) کو اس (بقرہ) کے کوئی سے ٹکڑے سے چھو دو (چنانچہ چھوانے سے وہ زندہ ہوگیا۔ آگے اللہ تعالیٰ بمقابلہ منکرین قیامت کے اس قصہ سے استدلال اورنظر کے طور پر فرماتے ہیں کہ ) اسی طرح حق تعالیٰ (قیامت میں ) مردوں کو زندہ کردیں گے اور اللہ تعالیٰ اپنے نظائر (قدرت)تم کودکھلاتے ہیں اس توقع پر کہ تم عقل سے کام لیا کرو (اور ایک نظیر سے دوسری نظیر کے انکار سے باز آؤ)۔”( تفسیرمعارف القرآن از مفتی محمد شفیع: رحمة اللہ علیہ ج1؍ص246)
اگرچہ ‘مفکر قرآن’ کا کسی ‘تاریخی انکشاف’ کاانتظار بھی کوئی خوشگوار موقف نہیں ہے لیکن اس کی بجائے اپنے قیاس و گمان پرمبنی موقف کو الفاظ کابے تحاشا اسراف کرتے ہوئے لفاظی اور وہم و گمان کے مرکب کی شکل میں ‘مفہوم القرآن’ کے نام سے پیش کرنا اس سے بھی بدتر عمل ہے۔ یہ بحث اور یہ واقعہ بھی ‘مفکر ِقرآن’ کے ایمان بالقرآن کی حقیقت کو بے نقاب کر ڈالتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ جس قرآن کے واحد مسند اور تنہا حجت ہونے کاڈھنڈورا ‘مفکر ِقرآن’ پیٹا کرتے تھے۔ اس پر ان کازبانی کلامی ایمان ہو تو ہو، عمل کی دنیا میں خوردبین لگا کر دیکھنے سے بھی اس کے اثرات دکھائی نہیں دیتے۔ وہ اپنی عملی زندگی میں قرآن کے نہیں بلکہ مغرب ہی کے پیروکار تھے قرآن کے نام پر جو کچھ وہ عمر بھر پیش کرتے رہے ہیں ، وہ سب کچھ بغیر کسی قرآن کے مغرب میں موجود ہے۔ وہ اشتراکیت جس کاچوہا جبل قرآن سے کھود نکالنے میں ‘مفکر قرآن’ نے بڑی زحمت اور مشقت اُٹھائی ہے وہ اُن کے ایسا کرنے سے بہت پہلے روس، چین اور دیگر ممالک میں موجود تھی۔ ‘مفکر قرآن’ کا اس باب میں اصل ‘اجتہادی کارنامہ’ یہ ہے کہ اُنہوں نے جو کچھ بھی پیش کیا ہے، اسے مغرب کی اصطلاحوں میں پیش کرنے کی بجائے اپنی اصطلاحوں میں پیش کیا ہے مثلاً وہ اشتراکیت کو پیش کرتے ہیں تو اس کے اصل نام کے ساتھ نہیں بلکہ ‘نظام ربوبیت’ کے نام سے پیش کرتے ہیں ۔کارل مارکس کی ‘جدلی مادیت’ کافلسفہ ان کے ہاں ‘حق و باطل کی کشمکش’ قرار پاتا ہے۔’تاریخی وجوب’ کی قوت کو وہ ‘زمانے کے تقاضے’ کہہ دیتے ہیں ۔ اب ظاہر ہے کہ زہرہلاہل کی بوتل پر آبِ حیات کالیبل چسپاں کردینے سے زہر کی اصل حقیقت تو نہیں بدل جاتی۔

ساتویں مثال: ولادت ِ عیسیٰ علیہ السلام ؛ قرآن اور ‘مفکر قرآن’
اس آخری مثال میں اس امر کاپھر جائزہ لیاجارہا ہے کہ زیر بحث معاملہ میں پرویز صاحب اپنے عقائد و تصورات کو تابع قرآن رکھتے ہیں یانہیں ؟ اس ضمن میں اُنہوں نے جو کچھ بھی لکھنا تھا وہ اپنی کتاب ‘شعلۂ مستور’ میں لکھ چکے ہیں کیونکہ باقی ہرجگہ وہ یہی فرماتے ہیں کہ جسے تفصیل درکار ہو، وہ شعلۂ مستور کی طرف رجوع کرے۔جس کاصاف مطلب یہ ہے کہ مسئلہ زیربحث میں ان کے افکار و نظریات کی آخری ترجمان یہی کتاب ہے، اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں :
”اس(قرآن) میں بالتصریح کہیں نہیں لکھا کہ حضرت عیسیٰ ؑکی پیدائش بغیر باپ کے ہوئی تھی، نہ ہی یہ لکھا ہے کہ آپ یوسف کے بیٹے تھے۔”( شعلۂ مستور، ص105)
اب جب کہ قرآن سے بالتصریح یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بن باپ پیداہوئے تھے یا باپ کے ذریعہ تواس کا لازمی اور منطقی تقاضا یہی قرار پاتا ہے کہ مکمل سکوت اختیار کیاجائے۔نہ اس بات پر زور دیا جائے کہ وہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے اور نہ ہی اس بات پرکہ وہ باپ کے ذریعہ متولد ہوئے۔علمی دیانت بھی اسی خاموشی کو لازم ٹھہراتی ہے۔ قرآن کریم کے ایک مخلص اور خداترس طالب ِعلم کے لیے بھی صرف اور صرف یہی رویہ شایانِ شان ہے۔ نیز تقویٰ و پرہیزگاری کے علاوہ حکمت ومصلحت کے لحاظ سے بھی عافیت اسی طرزِ عمل میں ہے۔ لیکن ہمارے ‘مفکر قرآن’ صاحب نہ تو قرآن کی حدود میں رہناپسند کرتے ہیں (کہ آزادی، انسان کا ‘بنیادی حق’ ہے، جس سے محروم ہونا اُنہیں پسند نہیں ) اورنہ ہی سکوت و خاموشی اختیار کرنا چاہتے ہیں (کہ ایساکریں تو ان کی عقلِ عیار بیکار اور ان کا شغلِ قلم کاری تعطل کاشکار ہوکر رہ جاتے ہیں ) اس لیے وہ خود کو مجبور پاتے ہیں کہ قرآنی ‘اَغلال و اِصر’ سے آزاد ہوکر دنیاے مغرب کے اسلام دشمن ‘محققین’ (مثل رینان وغیرہ) کی اتباع میں ابن مریم ؑ کو ‘ابن یوسف’ بنا ڈالیں اور پھر اپنی بے معنی نکتہ آفرینیوں دور ازکارموشگافیوں اور خسیس و رکیک تاویلات کے ذریعہ اپنی ہر لمحہ بدلنے والی عقلِ عیار کی خاطر قرآنِ کریم کے محکم اور اٹل حقائق کو توڑا مروڑا جائے۔
حرام ہے ‘مفکر قرآن’ صاحب یہ سوچیں کہ قرآنی حقائق کی شکست و ریخت کے نتیجہ میں معارف القرآن جلد سوم میں اس بحث پر جو کچھ وہ لکھ چکے ہیں ، اس کے ساتھ قدم قدم پر تضادات و تناقضات کاکس قدر وسیع و عریض خار زار پیدا ہورہا ہے۔ بس اب ان کے قلب و ذہن پر ایک ہی دُھن سوار ہے کہ واقعہ ٔ ولادتِ مسیح علیہ السلام سے معجزانہ پہلو کو زائل کردیا جائے، خواہ اس کے لیے ترجمہ آیت اور مفہوم قرآن میں مسخ و تحریف سے کام لینا پڑے یا قواعد ِزبان کو پس پشت ڈالنا پڑے یابین القوسین اضافی الفاظ کے ذریعہ مدلولاتِ آیات کا حلیہ بگاڑنا پڑے۔
حضرت عیسیٰ ؑ کی بن باپ ولادت سے انکار کے لئے بھی پرویز صاحب کی ‘قرآنی بصیرت’ قرآنِ کریم کو ناکافی سمجھتی رہی۔ (اگرچہ وہ اپنی زبان سے {أَوَلَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ} کے الفاظ کا ورد کرتے ہوئے ہرمعاملہ میں ، قرآن ہی کے کافی ہونے کا اعلان کرتے رہے) پھر قرآن کو ناکافی گردانتے ہوئے، اُنہیں یہ اعلان کرنا پڑا کہ
”اس میں بالتصریح کہیں نہیں لکھا کہ حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش بغیر باپ کے ہوئی تھی اور نہ ہی یہ لکھا ہے کہ آپ یوسف کے بیٹے تھے۔”( شعلہ مستور، ص105)
اب ظاہر ہے کہ جب حسبنا کتاب اﷲ کے دعوے دار ‘مفکر ِقرآن’ کو اس مسئلہ میں قرآن ناکافی نظر آیا اور ان کے سر پر مجبوری کی یہ تلوار بھی لٹک رہی تھی کہ ولادتِ مسیحؑ کو بہرحال بن باپ کی پیدائش ‘ثابت’ کرنا ہے، تو اُنہیں ‘اضطراراً’ اُن اناجیل کی طرف رجوع کرنا پڑا جن کی ثقاہت اور استنادی حیثیت کے وہ خود بھی قائل نہیں تھے، چنانچہ اُنہیں یہ کہنا پڑا :
”قرآنِ کریم تک آنے سے پیشتر، ہمیں ایک بار پھر اناجیل پر غور کرلینا چاہئے، اناجیل جیسی کچھ بھی ہیں ، بہرحال ان ہی کے بیانات کو سامنے رکھا جائے،(اسکے سوا چارہ ہی کیا ہے)۔”( شعلہ مستور ، ص58)
اب اس شخص کا معاملہ کس قدر پرفریب ہے جو تنہا قرآن ہی کو سندو حجت بھی قرار دے اور پھر مغربی مآخذ کو اپنا مرجع بھی بنائے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ‘مفکر ِقرآن’ صاحب، قرآن کو نہیں ، بلکہ تہذیب ِمغرب ہی کے اُصول و مبادی کو اور مغربی تحقیقات ہی کو عملاً حجت و سند سمجھا کرتے تھے۔ وہ بڑے ہی ‘خلوص سے’ اس بات کے متمنی تھے کہ اُمت ِمسلمہ کو قرآن اور رسولِ قرآن سے منحرف کرکے، لوگوں کو اپنی اُن آرا کا تابع فرمان بنایا جائے، جنہیں قرآن کے نام پر مغرب سے مستعار لے کر وہ پیش کیا کرتے تھے۔ کیونکہ (بزعم اُو) آفتابِ قرآن کی روشنی، روایاتِ حدیث کے کثیف بادلوں میں سے گزر کر ہم تک نہیں پہنچ سکتی (لیکن ‘مفکر ِقرآن’ کی آراء و اَہوا کے تہہ در تہہ دھوئیں میں سے گزر کر ہمارے پاس آسکتی ہے)۔۔۔!

قرآن بمقابلہ مغربیت اور روّیۂ پرویز:

گزشتہ ساری بحث سے مفکر قرآن’ صاحب کے ‘قرآنی ذوق’ اور ‘علمی مزاج’ کایہ پہلو قارئین کرام سے مخفی نہیں رہا کہ قرآنی تصریحات اور مغربی تحقیقات میں جب تعارض واقع ہوجاتا ہے تو ان کے نزدیک قرآنی تصریحات کی بجائے مغربی تحقیقات ہی شرفِ تقدم کا مستحق قرارپاتی ہیں ۔ اس کے لیے ان کی دلیل یہ ہوا کرتی ہے کہ ”ہمارے ہاں تو جمود ہی جمود اور تقلید ہی تقلید ہے، تحقیق و ریسرچ کا کام تو ہے ہی نہیں ، یہ تو صرف مغرب ہی میں پایا جاتاہے۔ لہٰذا تحقیقاتِ مغرب کی طرف رجوع ناگزیر ہے۔( سلیم کے نام، ج3، ص140)”
اس سے قارئین کرام یہ نہ سمجھیں کہ پرویز صاحب تقلید سے بے زار اور گریزاں تھے۔ ایساہرگز نہیں تھا، وہ بڑے پختہ مقلد تھے اور انتہائی جامد اور اندھی تقلید میں مبتلا تھے۔ امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ ، امام مالک رحمة اللہ علیہ ، امام شافعی رحمة اللہ علیہ اور امام احمد حنبل رحمة اللہ علیہ کی تقلید کی سخت مخالفت (بلکہ مذمت) کیا کرتے تھے۔ لیکن’امام’ کارل مارکس ، ‘امام’ ماؤزے تنگ، ‘امام’ چارلس ڈارون اور ‘امام’ رینان کی تقلید ِجامد پر ڈٹے ہوئے تھے۔ اور وہ بھی اس حد تک کہ اگر کہیں قرآن اور ائمہ مغرب کے موقف میں غیرفیصلہ کن صورتحال (TIE) پڑ جاتی تو وہ مغرب ہی کے اماموں کی پیروی کو ترجیح دیتے ہوئے قرآن کوچھیل چھال کرکتاب اللہ کو مطابق مغرب بنانے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ قرآنی تصریحات کو وہ اپنی اُس ‘عقل عیار’ کی کسوٹی پر پرکھا کرتے تھے جو مغربیت کے سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی اور جسے وہ اپنی ‘قرآنی بصیرت’ کانام دیاکرتے تھے۔
‘مفکر قرآن’ صاحب اگرچہ نام قرآن ہی کا لیا کرتے تھے لیکن ہدایت و ضلالت کا اصل معیار اُن کے ہاں تحقیقاتِ مغرب ہی تھیں ۔ قرآن، قرآن کی رَٹ لگاتے ہوئے بھی وہ اپنے قلبی آرا و افکار، ذہنی نظریات و معتقدات اوردماغی خیالات و تصورات کو اَصل قرار دے کر قرآنِ کریم کو ان کے مطابق ڈھالا کرتے تھے، نہ کہ ان (تخیلات و مزعومات) کو قرآن کے مطابق۔ لیکن بڑی ڈھٹائی اور بلند آہنگی سے وہ الٹا اعلان یہ کیا کرتے تھے :
”ہمارے سامنے ، ہدایت اور ضلالت کا معیارقرآنِ مجیدہے۔ اگر ہمیں اپنی ہدایت و ضلالت کااندازہ لگانا ہو تو اس کے لیے ہمیں یہ کرنا چاہئے کہ اپنے دماغ میں جواعتقادات ہوں ، اُنہیں قرآنِ مجید کی کسوٹی پرپرکھیں اور ایسا کرتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ ہم اس بات کا التزام رکھیں کہ اپنے دماغ کے کسی عقیدہ کو قرآن پر اثر انداز نہ ہونے دیں ، ورنہ ترازو، باٹ اور جس چیز کو تولا جارہا ہے۔ سب خلط ملط ہوجائیں گے اور ہم فیصلہ نہیں کرسکیں گے کہ ہدایت کیا ہے اور ضلالت کیا؟ میرا مطلب یہ ہے کہ قرآن کوتمام مذاہب ، آرا و افکار ، عقائد و خیالات کے بارے میں اصل مانناچاہئے نہ یہ کہ ہم مذاہب و عقائد کو اصل مان کر پھر ان پر قرآنِ مجید کو پرکھیں اور پھر قرآن مجید میں تاویل و تحریف کریں جیسا کہ ضآلین اور بے توفیق لوگوں کا شیوہ رہاہے۔” (طلوعِ اسلام: جنوری 1959ء ص31 )

استفادہ تحریر: غلام احمد پرویز کے ایمان بالقرآن کی حقیقت از محمد دین قاسمی

 

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password