وحی متلواورغیرمتلوایک قرآنی تقسیم ہے!

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا ماخذ” الہٰی ہدایت” Divine guidance ہے، اللہ تعالی نے قرآن کریم کے علاوہ بھی آپ کی فکرو نظر کو قدسی جلا بخشی تھی اورآپ کے اعمال میں بھی اپنی وحی اتاری تھی، قرآن کریم کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے وحی قرآن کے علاوہ بھی کلام فرماتے تھے ،یہ وہ وحی ہےجس کے ذریعہ قرآن کریم میں بیان کردہ اصولوں کی تفصیلات اور ان کی صحیح تشریح وتعبیر سمجھائی جاتی تھی، یہ قسم لوگوں تک لفظ بلفظ نہیں پہنچائی گئی؛ بلکہ اس کے رسول کے ارشادات وافعال کے ذریعہ ظاہر کیا گیا۔

چنانچہ وحی کی  یہ قسم قرآن پاک میں شامل نہیں لیکن قرآن کریم نہ صرف یہ کہ اکثر اس کا حوالہ دیتا ہے بلکہ اس کے مضامین کا انتساب بھی اللہ تعالی جل شانہ کی طرف کرتا ہے۔   اس وحی غیر متلو کے لیے اس وحی متلو(قرآن کریم) میں کئی جگہ حوالہ Reference ملتا ہے ؛مگر جس بات کی طرف حوالہ دیا جارہا ہے وہ بات قرآن کریم میں نہیں ملتی۔ذیل میں بعض آیات کے حوالوں سے یہ بات واضح ہو جائے گی کہ وحی الٰہی محض قرآن کریم تک ختم نہیں ہو جاتی بلکہ وحی کی ایک دوسری قسم بھی ہے جو کلام پاک کا جزو نہ ہونے کے باوجود وحی الٰہی ہے۔

پہلی شہادت:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ اپنی ایک زوجہ سے پردے میں ایک بات کہی اور تاکید کی کہ وہ اسے کسی دوسروں کے سامنے ظاہر نہ کریں؛ لیکن ہوا یہ کہ ان سے اس پر قابو نہ رہ سکا اورانہوں نے اسے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے ذکر کردیا، اللہ تعالی نے آپ کو خبر دے دی کہ آپ کی زوجہ نے دوسری بی بی سے وہ بات کردی ہے،قرآن کریم آپ کی اس بیوی کے دوسری بیوی سے بات کرنے کی یوں خبر دیتا ہے۔
ترجمہ: اورجب نبی نے اپنی کسی بی بی سے ایک حدیث پر دے میں کہی تھی پھر جب اس نے (دوسری بی بی سے )اس کی خبر کردی اوراللہ تعالی نے آپ پر اسے ظاہر کردیا تو آپ نے اس میں سے کچھ بات جتلادی اورکچھ سے درگزرفرمایا،پھر جب آپ نے وہ بات، اس بی بی کو جتلائی تو اسنے پوچھا آپ کوکس نے یہ بات بتلائی ہے؟ آپ نے فرمایا مجھے علیم و خبیر نے خبر دی ہے۔ (التحریم:۳)
اللہ،علیم خبیر نے جو خبردی تھی وہ وحی غیر متلو تھی، یہ وحی خدا وندی قرآن کریم میں نہیں ملتی؛ لیکن اس کی طرف یہاں حوالہ Refernece موجود ہے؛ لیکن جس وحی کی یہاں حکایت ہے وہ قرآن کریم میں کہیں مذکور نہیں۔قرآن کریم کی اس آیت سے پتہ چلا کہ اللہ تعالی علیم و خبیر وحی قرآنی کے سوا بھی آپ سے کلام فرماتے تھے اورآپ کو کئی باتوں کی اس طرح خبر دیتے تھے کہ وہ بات ہمیں قرآن کریم میں مذکور نہیں ملتی،

دوسری شہادت:
پھر یہ صرف اخبار (خبروں) میں ہی نہیں،احکام (کرنے والے کاموں) میں بھی بہت سے ایسے حکم نازل ہوئے جن کی وحی متلورہی ہے،مدینہ منورہ کے مشرقی جانب چند میل کے فاصلے پر بنو نضیر (یہود) آباد تھے۔انہوں نے مسلمانوں سے عہد شکنی کی،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے جنگ کا ارادہ فرمایا: یہ لوگ اپنے مضبوط قلعوں میں جابیٹھے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی کہ ان کے درخت کاٹے جائیں اورباغ اجاڑے جائیں؛ تاکہ یہ لوگ بے چین ہوکر قلعوں کے دروازے کھول دیں اورحالات کے چہرے سے نقاب اُٹھ جائے؛ چنانچہ ایسا ہی ہوا، جنگ کی نوبت نہ آئی اور یہ لوگ وہاں سے خیبر کی طرف نکال دیئے گئے،قرآن کریم میں اس واقعہ کا ذکر ان الفاظ میں ملتا ہے:
ترجمہ: اور(اس دن) جو کاٹ ڈالے تم نے کھجور کے درخت یا انہیں اپنی جڑوں پر کھڑے رہنے دیا سو (یہ سب) اللہ کے حکم سے تھا۔ (الحشر:۵)
قرآن کریم میں اللہ کا یہ حکم کہیں نہیں ملتاکہ”یہ درخت کاٹ دیئے جائیں اوریہ رہنے دیئے جائیں۔ وہ حکم خدا وندی جس کے تحت درختوں کے کاٹنے کا یہ عمل کیا گیا تھا وحی غیر متلو تھی جو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک میں القاء ہوئی تھی۔

تیسری شہادت
قرآن کریم کی یہ موجودہ ترتیب رسولی ہے نزولی نہیں،ترتیب نزولی اور ترتیب رسولی میں فرق ملحوظ رکھئے۔آنحضرتﷺ پرغارِ حرا میں جو پہلی وحی نازل ہوئی تھی وہ”اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ” (العلق:۱) تھی لیکن قرآن میں موجودہ ترتیب میں “بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ” کے بعد “أَلْحَمْدُ الِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ” سب سے پہلی آیت ہے۔حضوراکرمﷺ پر جب کوئی آیت اتر تی تو آپﷺ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوہدایت دیتے کہ اسے فلاں فلاں سورت میں لکھ دو۔ (ترمذی:۲/۳۶۸،)
سورتوں میں آیات کہاں کہاں لکھی جائیں یہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نگرانی میں ہوتا تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نمازوں میں قرآن پاک کی تلاوت فرماتے تو اسی ترتیب سے پڑہتے، جو قرآن پاک کی موجودہ ترتیب ہے (سنن ابی داؤد:۱/۱۲۷) اوراسی ترتیب سے ہر سال حضرت جبرئیل امینؑ رمضان میں آپﷺ کے ساتھ قرآن کا دور کیا کرتے تھے۔قران کریم کی جمع وترتیب میں اتنی اہم تبدیلی کس کے حکم سے ہوئی؟ کیا حضورﷺ پاک صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طرف سے اس میں کسی تبدیلی کے مجاز تھے؟ ہر گز نہیں قرآن کریم میں ہے:
ترجمہ: ان لوگوں نے جو ہم سے ملاقات کی امید نہیں رکھتے(پیغمبر سے) کہا کہ کوئی اور قرآن لے آو، یا اسے کچھ تبدیل کردیں، اے پیغمبر !آپ کہہ دیجئے میرے اختیار میں نہیں کہ میں اسے بدل ڈالوں، میں تو وہی کچھ کرتا ہوں جو مجھے حکمدیا جاتا ہے، میں ڈرتا ہوں اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں بڑے دن کے عذاب سے (یونس:۱۵،۱۷)
قرآن کریم نے بتلایا کہ آپﷺ نے جو کچھ کیا وہ وحی خدا وندی کے تحت تھا، کتاب کی ترتیب کو بدل دینا بہت اہم بات ہے، کوئی جزوی بات نہیں جسے آسانی سے نظر انداز کیا جاسکے، کسی تحریر اورکتاب کی ترتیب اس تحریر یا کتاب کی ذات ہوتی ہے، سو آپ نے قرآن پاک کی ترتیب میں جو عمل اختیار کیا وہ سب وحی خدا وندی کے تحت تھا، آپ کی تلاوت (جس ترتیب سے واقع ہوئی) وہ سب اللہ تعالی کے حکم سے تھی اوراللہ تعالی نے ہی آپ کو اس دوسری ترتیب اختیار کرنے کا حکم دے رکھا تھا ۔اب سوال یہ ہے کہ وہ حکم خداوندی جس کے تحت ترتیب کی یہ تبدیلی عمل میں آئی قرآن کریم میں کہا ں ہے؟ یہ وحی ہمیں قرآن پاک میں نہیں ملتی ۔عجیب بات یہ ہے کہ اس وحی غیر متلو کا انکار کرنے والے بھی قرآن کی موجودہ ترتیب سے اتفاق رکھتے ہیں ۔

چوتھی شہادت
قرآنِ کریم میں ہے:
“وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَالَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا”۔(النساء:۱۱۳)
ترجمہ:اوراللہ تعالیٰ نے اُتاری آپ پر کتاب اور حکمت اور آپ کوسکھایا وہ جوآپ نہیں جانتے تھے اور اللہ تعالیٰ کا آپ پربڑا فضل ہے۔
اسی آیت میں ‘نزولِ کتاب’ سے علیحدہ ، الگ اور مستقل’ نزول حکمت’ کا ذکر ہے ۔یہ کتاب سے اضافی چیز ہے اور رسول اللہ پر اس کا نزول بھی ہوا ہے، یہ تعلیم قرآن کریم کے ذریعہ یاوحی غیرمتلو کے واسطے سے ملنے والی تمام ہدایات کو شامل ہے۔

پانچویں شہادت
“يَسْأَلُونَكَ مَاذَاأُحِلَّ لَهُمْ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ وَمَاعَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّاعَلَّمَكُمُ اللَّهُ فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ”۔
ترجمہ:لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کونسی چیزیں حلال ہیں؟ کہہ دو کہ تمہارے لیے تمام پاکیزہ چیزیں حلال کی گئی ہیں اور جن شکاری جانوروں کوتم نے اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق سکھا سکھا کر (شکار کے لیے) سدھالیا ہو، وہ جس جانور کو(شکار کرکے) تمہارے لیے روک رکھیں، اس میں سے تم کھاسکتے ہو اور اس پر اللہ کا نام لیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ جلد حساب لینے والا ہے۔ (المائدہ:۴) (توضیح القرآن، آسان ترجمہ قرآن:۱/۳۲۵، مفتی تقی عثمانی،مطبع:فرید بکڈپو، دہلی)
سورۃ المائدہ نزول میں آخری سورتوں میں سے ہے؛ یہاں “مِمَّاعَلَّمَكُمُ اللَّهُ” میں ایک ایسی تعلیم کی حکایت کی گئی ہے جواس سے پہلے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کودے چکے ہیں، وہ تعلیم کیا تھی؟ شکاری کتا سدھانے کے آداب کہ (۱)کتا خود چھوڑا گیا ہو (۲)خدا کا نام لے کر چھوڑا گیا ہو (۳)وہ اپنے کھانے کے لیئے منہ نہ ڈالے (۴)وہ شکار کوزخم بھی کرے (یہ شرط لفظِ جرح سے ماخوذ ہے) یہ تعلیم اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے کس نے دے رکھی تھی؟ قرآنِ کریم میں کیا یہ تعلیم موجود ہے؟ اللہ تعالیٰ نے کیا اسے “عَلَّمَكُمُ اللَّهُ” کہہ کر ماضی میں ذکر نہیں کیا؟ آگے اس تعلیم کودہرایا گیا ہے۔ یوں سمجھئے جس وحی غیرمتلو کی “مِمَّاعَلَّمَكُمُ اللَّهُ” میں حکایت تھی، اس محکی عنہ (جس بات کی طرف حوالہ دیا جارہا ہے)کوآگے وحی متلو میں دہرایا گیا ہے “فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ” میں اسی کا اعادہ ہے، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وحی غیرمتلو کوکبھی وحی متلو بھی دہرادیتی ہے، حدیث تعلیم خداوندی پر مبنی نہ ہو تو “مِمَّاعَلَّمَكُمُ اللَّهُ” کا محکی عنہ تواس سے پہلے قرآن کریم میں کہیں موجود نہ تھا۔

چھٹی شہادت
“وَإِذْيَعِدُكُمُ اللَّهُ إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ أَنَّهَا لَكُمْ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذَاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ وَيُرِيدُ اللَّهُ أَنْ يُحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ وَيَقْطَعَ دَابِرَ الْكَافِرِينَ”۔(الانفال:۷)
ترجمہ:اور وہ وقت یاد کروجب اللہ تم سے یہ وعدہ کررہا تھا کہ دوگروہوں میں سے کوئی ایک تمہارا ہوگا اور تمہاری خواہش تھی کہ جس گروہ میں (خطرے کا) کوئی کانٹا نہیں تھا، وہ تمھیں ملے اور اللہ یہ چاہتا تھا کہ اپنے اَحکام سے حق کوحق کردِکھائے اورکافروں کی جڑکاٹ ڈالے۔(توضیح القرآن، آسان ترجمہ قرآن:۱/۵۲۴، مفتی تقی عثمانی،مطبع:فرید بکڈپو، دہلی)
یہ دوجماعتیں کون سی تھیں؟ ایک وہ عظیم تجارتی قافلہ جومکہ سے گیا تھا اور مالِ تجارت لے کر آرہا تھا، دوسری جواس قافلے کی مدد کے لیئے مسلح ہوکر مکہ سے نکلی تھی یہ پرشوکت جماعت تھی مسلمان چاہتے تھے کہ مشرکین کی ان دوجماعتوں میں سے پہلے انہیں بن شوکت والے طائفہ سے واسطہ پڑے، یہ سب بیان جنگ بدر سے متعلق ہے۔
اِس آیت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک صریح وعدے کا ذکر کیا جارہا ہے وہ وعدہ قرآن کریم میں کہاں ہے اور کیا تھا؟ اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے اس وعدے کا کہیں ذکر نہیں ملتا؛ مگرقرآنِ کریم میں اس کی طرف حوالہ (Reference) ضرور موجود ہے، وہ وعدہ وحی غیرمتلو کے ذریعہ ہوا تھا اور حضور اکرمﷺ نے صحابہؓ کواس کی خبر دی تھی، جب وہ وعدہ قرآن کریم میں کہیں موجود نہیں توہم یقین کرنے پر مجبور ہیں کہ حضورِ اکرمﷺ پرقرآن کریم کے علاوہ بھی وحی آتی رہی؛ اسی وحی غیرمتلو کوحدیث کہتے ہیں۔

ساتویں شہادت

وحی کی مختلف اقسام خلاصہ ذکر کرتے ہوئے قرآن کریم میں ارشاد ہے :
وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّـهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ ۚ ﴿الشوری:٥١﴾
“اور کسی بشر کی یہ شان نہیں کہ اللہ تعالٰی اس سے کلام فرما دے مگر یا تو الہام سے یا حجاب کے باہر سے یا کسی فرشتہ کو بھیج دے کہ وہ خدا کے حکم سے جو خدا کو منظور ہوتا ہے پیغام پہنچا دیتا ہے۔” (۴۲-۵۱)
وحی کے ان تینوں طریقوں میں سے قرآن کریم کی وحی کا نزول تیسرے طریقے کے مطابق ہوا ہے یعنی ایک فرشتے کے ذریعے جس کو قرآن مجید نے “رسول” (پیغامبر) کا نام دیا ہے اور اسی کا ذکر دیگر آیات کریمہ میں بھی کیا گیا ہے۔
قُلْ مَن كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَىٰ قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّـهِ ﴿البقرۃ:٩٧﴾
“آپ یہ کہیے کہ جو شخص جبرائیل سے عداوت رکھے سو انہوں نے یہ قرآن آپ کے قلب تک پہنچا دیا ہے خداوندی حکم سے۔” (۲-۹۷)
وَإِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿ الشعراء:١٩٢﴾ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ ﴿ الشعراء:١٩٣﴾ عَلَىٰ قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنذِرِينَ ﴿ الشعراء:١٩٤﴾ بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِينٍ ﴿الشعراء:١٩٥﴾
“اور  یہ قرآن رب العالمین کا بھیجا ہوا ہے اس کو امانت دار فرشتہ لے کر آیا ہے۔ آپ کے قلب پر صاف عربی زبان میں تاکہ آپ منجملہ ڈرانے والوں کے ہوں۔” (۱۹۲ تا ۱۹۵ ، ۲۶)
یہ آیات اس بات کی کافی وضاحت کر دیتی ہیں کہ قرآن کریم کی وحی کا نزول ایک فرشتے کے ذریعے ہوا ہے جس جو پہلی آیت میں “جبرائیل” اور دوسری میں “الروح الامین” کا نام دیا گیا ہے۔ لیکن پہلے پیش کی گئی آیت (۴۲:۵۱) میں بتلایا گیا ہے کہ نزول وحی کے دیگر دو طریقے بھی ہیں۔ یہ دونوں ذریعے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نزول وحی کے لیے اختیار کئے گئے ہیں۔ جس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ آنحضرت پر صرف قرآن کریم ہی کی وحی نازل نہیں ہوئی بلکہ اس کے علاوہ دوسری قسم کی وحی کا بھی نزول ہوا ہے۔ دوسری قسم کی یہی وحی “وحی غیر متلو” کہلاتی ہے۔

آٹھویں شہادت
أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُونَ أَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنْكُمْ فَالْآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَاكَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ۔ (ابقرۃ:۱۸۷)
ترجمہ:روزوں کی راتوں میں تمہارے لیے اپنی عورتوں کے پاس جائز کردیا گیا ہے وہ تمہاری پوشاک میں اور تم ان کی پوشاک ہو، خدا کومعلوم ہے کہ تم اپنے حق میں خیانت کرتے تھے؛ سواس نے تم کومعاف کیا اور تمہاری حرکات سے درگذر فرمائی، اب (تم کواختیار ہے کہ) ان سے مباشرت کرو اور خدا نے جوچیز تمہارے لیے لکھ رکھی ہے اس کو(خدا سے) طلب کرو اور کھاؤ اور پیؤ؛ یہاں تک کہ صبح کی سفیددھاری (رات کی) سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے؛ پھرروزہ رات تک پورا کرو۔
اس آیتِ کریمہ کا پس منظر یہ ہے کہ ابتدائے اسلام میں روزے کے حوالے سے ایک حکم یہ بھی تھا کہ اگرکوئی مسلمان رمضان کی رات میں کچھ دیر کے لیے بھی سوجاتا تواس کے لیے پھر کھانے پینے اوربیوی سے ہم بستری کی اجازت نہ ہوتی تھی؛ حالانکہ وہ اس وقت روزے کی حالت میں نہیں ہوتا تھا، بعض لوگوں نے اس حکم کی خلاف ورزی کی اور سونے کے بعد بیویوں سے ہم بستری کرلیا تواللہ عزوجل نے اس حکم کی خلاف ورزی پراوّلاً توعتاب کا اظہار کیا اور پھراس کے منسوخ ہونے اور سونے کے بعد سحری کا وقت ختم ہونے سے پہلے تک بیویوں سے ہم بستری کی اجازت کا حکم دیا۔ اس سے پتہ چلا کہ اس آیت کے نزول سے پہلے رمضان کی راتوں میں سونے کے بعد بیویوں سے ہم بستری منع کیا گیا تھا  اور یہ حکم بھی کوئی واجب الاطاعت ذات کی طرف سے تھا لیکن قرآن کریم میں ایسی کوئی آیت نہیں ہے جس میں اس  حکم کا ذکر ہو۔ درحقیقت یہ پابندی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عائد کردہ تھی۔ پھر بھی قرآن کریم نہ صرف اس کی تائید کرتا ہے بلکہ اسے اس طریقے پر بیان کرتا ہے کہ گویہ یہ اس کی خود لگائی ہوئی پابندی تھی۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ حکم اپنی خواہش سے نہیں دیا تھا۔ بلکہ یہ اللہ  تعالٰی کی جانب سے ایسی وحی پر مبنی تھا جو قرآن کریم میں مذکور نہیں ہے۔

نویں شہادت
لَاتُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِo إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُoفَإِذَاقَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُo ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ۔(القیامۃ:۱۶/تا ۱۹)
ترجمہ:اے پیغمبر! آپ قرآنِ پاک پراپنی زبان نہ ہلایا کیجئے؛ تاکہ آپ اس کوجلدی جلدی لیں، ہمارے ذمہ اس کا جمع کردینا اور اس کاپڑھوادینا، توجب ہم اس کوپڑھنے لگاکریں (یعنی ہمارا فرشتہ پڑھنے لگا کرے) توآپ اس کے تابع ہوجایا کیجئے؛ پھراُس کا بیان کردینا ہمارے ذمہ ہے۔
اس آیتِ کریمہ کے آخری حصہ میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی توضیح وتشریح بھی اپنی ذمہ لیتے ہوئے رسول اللہ سے وعدہ فرمایا کہ آپ سے قرآن کریم کی تشریح بیان کردینا بھی ہمارے ذمے ہیں ؛ یہاں یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ تشریح وتوضیح قرآن کریم سے کوئی جداگانہ شکل اور اس کے الفاظ سے علیحدہ اور ممتاز کوئی چیز ہوگی اور یہی وحی غیرمتلو ہے ۔

دسویں شہادت:
“وَالَّذِیْنَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَعْلُومٌo لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ”۔(المعارج:۲۵،۲۴)
ترجمہ:اور جن کے مال ودولت میں ایک متعین حق ہےo سوالی اور بے سوالی کا۔(توضیح القرآن، آسان ترجمہ قرآن:۳/۱۸۰۱، )
قرآنِ کریم نے یہ بات نہیں بتلائی کہ زکوٰۃ کس شرح سے فر ض ہوگی اور کب فرض ہوگی ہرماہ پر یاسال گزرنے پر، اس کا مصرف توبیان کردیا کہ سائل اور محروم قسم کے لوگ ہوں گے؛ لیکن کتنا مال ہوگا جب یہ لازم ٹھہرے گی اور کس کس قسم کے مال پر واجب ہوگی یہ سب باتیں قرآنِ کریم میں کہیں مذکور نہیں۔سوال یہ ہے کہ قرآن کریم نے اسے “حق معلوم” کیسے فرمادیا۔صحیح بات یہ ہے کہ یہ سب تفصیلات اللہ تعالیٰ نے وحی غیرمتلو (Unwarded Revelation) سے حضوراکرمﷺ کوبتلادی تھیں اور آپ نے آگے صحابہؓ کوفرمادی تھیں، حق کیا ہے؟ کتنا ہے؟ اور کب ہے؟ یہ سب کومعلوم ہوچکا تھا، قرآن پاک کی اس آیت میں اسی حق معلوم کی حکایت ہے، حکایت وحی متلو میں ہورہی ہے اور محکی عنہ وحی غیرمتلو میں معلوم ہوا تھا، حدیث کے الہامی ہونے پر قرآن کریم کی یہ ناقابل انکار شہادت بتلارہی ہے کہ آنحضرتﷺ سے اللہ تعالیٰ کی ہمکلامی وحی قرآن کے علاوہ بھی ہوتی تھی۔ یہی حال نماز کے بارے میں آیات کا ہے۔ مثلا

حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّـهِ قَانِتِينَ ﴿البقرۃ:٢٣٨﴾ فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا أَوْ رُكْبَانًا ۖ فَإِذَا أَمِنتُمْ فَاذْكُرُوا اللَّـهَ كَمَا عَلَّمَكُم ﴿البقرۃ:٢٣٩﴾
“موافقت کرو سب نمازوں کی اور درمیان والی نماز کی۔ اور کھڑے ہوا کرو اللہ کے سامنے عاجز بنے ہوئے۔ پھر اگر تم کو اندیشہ ہو تو کھڑے کھڑے اور سواری پر چڑھے چڑھے پڑھ لیا کروپھر جب اطمینان ہو جائے تو تم خدا تعالٰی کی یاد اش طریق سے کرو جو اس نے تم کو سکھلایا ہے جس کو تم نہ جانے تھے۔ (۲۳۸-۲۳۹: ۲)
اس آیت کریمہ میں بین السطور یہ بات موجود ہے کہ مسلمانوں پر ایک سے زائد نمازیں فرض ہیں۔ لیکن نہ اس آیت کریمہ میں اور نہ ہی قرآن مجید کی کسی دوسری آیت کریمہ میں نمازوں کی کل تعداد بتلائی گئی ہے۔ مزید اس آیت میں ارشاد فرمایا گیا ہے۔
“پھر جب تم کو اطمینان ہو جائے تو تم خدائے تعالٰی کی یاد اس طریق سے کرو جو اس نے تم کو سکھلایا ہے۔”قرآن کریم یہاں مسلمانوں کو حالت امن میں اس طریقے سے نماز کی ادائیگی کی ہدایت دے رہا ہے۔ جس طریقے سے ” اللہ تعالٰی نے سکھلایا ہے”۔ یہاں واضح طور پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ طریقہ نماز خود اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کو سکھایا ہے۔ حالانکہ قرآن کریم میں کسی بھی جگہ اس طریقے کا کوئی ذکر نہیں ہے اور کسی بھی آیت کریمہ میں اس طریقے کی تفصیل نہیں ملتی جو ادائیگی نماز کے لیے مطلوب ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالٰی نے نماز کی ادائیگی کا طریقہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ایسی وحی کے ذریعے سکھلایا جو قرآن مجید میں شامل نہیں  تھی اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ طریقہ مسلمانوں کو سکھلا دیا۔  بہرحال یہ تعلیم جو وحی غیر متلو کے ذریعے دی گئی تھی آیت کریمہ میں اللہ تعالٰی کی تعلیم کے طور پر ذکر کی گئی ہے۔

“تِلْکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ”

وحی غیر متلو پر خود صاحب قرآنؐ کی شہادت

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کی باتیں بتاتے ہوئے بارہا ایسی وحی کا ذکر فرمایا ہے جو ہمیں قرآن کریم میں نہیں ملتی، اس قسم کی روایات اس کثرت سے ملتی ہیں کہ ان کی قدر مشترک تواتر کے درجے میں ہے اور قطعیت کا فائدہ بخشتی ہے اوریہ بات پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالی آپ کے قلب اطہر پر وہ وحی بھی اتارتے تھے،جو باقاعدہ تلاوت کا درجہ نہ پاتی تھی اوراس کے باوجود وہ وحی خداوندی ہی سمجھی جاتی تھی وہ الفاظ میں ہمارے سامنے نہیں آئی، اس وحی کو وحی غیر متلو Unwarded revelation کہتے ہیں قرونِ ثلثہ جن کے خیر ہونے کی خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی، ان میں کسی ممتاز علمی شخصیت نے اس حقیقت سے انکار نہیں کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دین و شریعت کے طورپر بات کہی اوراس میں وحی والہام Divine ispiration  کا دخل نہ تھا،بلکہ ہر ایک کا عقیدہ یہی رہا کہ اس میں وحی کا عنصر ضرور شامل ہے،قرآنی وحی وحی متلو ہے اور حدیث نبوی وحی غیر متلو اورہر دو کا مصدر ومنبع اللہ رب العزت کی ذات ہی ہے۔

حدیث کی تقریبا ًہر کتاب میں اس پر واضح شہادتیں موجود ہیں، یہ روایات اور شہادات اتنے مختلف ابواب اورمختلف وقائع کے ذیل میں ملتی ہیں کہ انہیں کسی سازش یا کسی وضع انسانی کا نتیجہ نہیں سمجھا جاسکتا کہ چند انسانوں نے کسی اسکیم کے تحت حدیث کے بارے میں یہ تصور پیدا کردیا ہو، ہر طبقہ فکر اور ہر فقہی مسلک کا اس پر متفق ہونا اور پھر ذخیرہ ٔحدیث میں اس پر لاتعداد شواہد ملنا اس اصولی نظریئے کی قطعیت کا پتہ دیتا ہے اورتو اور شیعہ محدثین جو جمہور اہل اسلام سے بالکل ہی علیحدہ راہ پر چلے ان کے ہاں بھی بے شمار روایات اس قسم کی ملتی ہیں کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اتاری اور وہ وحی غیر متلورہی اوراب اسے وحی حدیث کہتے ہیں۔ باوجود اتنے اصولی اختلافات کے اس ایک نقطہ پر ایک رائے ہونا اس موضوع کی اصولی اور قطعی حیثیت کا پتہ دیتا ہے۔

اس وقت اس قسم کی روایات کے استقصاء کی تو گنجائش نہیں؛ البتہ چند نظائر یہاں پیش کی جاتی ہیں، ان میں وہ احادیث بھی ہوں گی جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود انہی احادیث کے لیے وحی وانباء کے الفاظ استعمال کئے ہیں ان میں بعض میں جبرئیل امین کے آنے کی بھی تصریح ہے، بعض میں ان کے لیے امر الہٰی اور امر ربی جیسی تعبیرات ہیں اور کہیں کہیں ان کا براہ راست اللہ رب العزت کے نام سے مذکور ہونا اس وحی خدا وندی کا پتہ دے رہا ہے، اسے ہم وحی غیر متلو کہتے ہیں جس کی تلاوت الفاظ کی پابندی سے امت میں جاری نہ ہوئی، اس بات کے ثبوت میں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی غیر متلو بھی ہوتی رہی ائمہ اربعہ، جملہ اکابر محدثین، ائمہ تفسیر اور فقہائے کرام کا اتفاق ہے،بلکہ یوں سمجھئے کہ یہ بات اسلام میں متواتر طور سے ثابت ہے گو تو اتر قدر مشترک کے درجہ میں ہو، اب ہم اس پر چند شواہد پیش کرتے ہیں۔

وحی غیر متلو میں حضرت جبرئیل امین کی آمد

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی غیر متلو کی آمد میں صرف وحی کے الفاظ ہی نہیں ملتے، کئی روایات میں جبرئیل امین کی آمد بھی صریح طور پر مذکور ہے،اس قسم کی روایات بھی درجہ تواتر کو پہنچی ہوئی ہیں اورتقریبا ًہر مجتہد اورمحدث کے ہاں اس کی شہادتیں ملتی ہیں اور یہ بات انتہائی پختہ اورصحیح ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی غیر متلو(وحی حدیث) بھی لاتے رہے۔

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبریل ایک جوان مرد کی صورت میں حاضر ہوئے اور کہا السلام علیک یا رسول اللہ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، وعلیک السلام (اورتجھ پر بھی سلام ہو)….. حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ جبرئیل تھے جو تمہارے پاس اس لیے آئے تھے کہ تمھیں دین کے معالم (ضروری نشانوں کی ) تعلیم دیں۔(مسند امام اعظم ابی حنیفہ:۳۲)

اسی طرح کی اور بھی بہت ساری شہادتیں ہیں جو آپ مندرجہ ذیل کتابوں میں دیکھ سکتے ہیں۔

(موطا امام مالک:۲۲۴/۱۔ موطا امام مالک:۱۷۳۔ موطا امام محمد:۱۹۸۔ مسند الشافعی:۱۲۳۔ موطا امام محمد:۳۹۱۔ مسندالشافعی:۷۱)

امرنی ربی وغیرہ کے الفاظ

(۱)”عَنْ عِيَاضِ بْنِ حِمَارٍ الْمُجَاشِعِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ذَاتَ يَوْمٍ فِي خُطْبَتِهِ أَلَا إِنَّ رَبِّي أَمَرَنِي أَنْ أُعَلِّمَكُمْ مَا جَهِلْتُمْ مِمَّا عَلَّمَنِي يَوْمِي هَذَا”۔

ترجمہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا،مطلع رہو مجھے میرے رب نے حکم دیا ہے کہ میں تمھیں اس بات کی خبر دوں جس سے تم ناواقف تھے، مجھے آج میرے رب نے وہ باتیں بتائی ہیں۔ (صحیح مسلم،باب الصفات التی یعرف بھا فی الدنیا،حدیث نمبر:۵۱۰۹)

(۲)”عَنْ أَنَسٍ يَعْنِي ابْنَ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا تَوَضَّأَ أَخَذَ كَفًّا مِنْ مَاءٍ فَأَدْخَلَهُ تَحْتَ حَنَكِهِ فَخَلَّلَ بِهِ لِحْيَتَهُ وَقَالَ هَكَذَا أَمَرَنِي رَبِّي “۔

ترجمہ: حضور جب وضو فرماتے تو پانی کا ایک چلو لیتے، اسے اپنی ٹھوڑی کے نیچے لاکر اس سے ڈاڑھی کا خلال کرتے،آپ نے فرمایا: مجھے اس طرح کرنے کا میرے رب نے حکم دیا ہے۔(سنن ابی داود،باب تخلیل اللحیۃ،حدیث نمبر:۱۲۴)

(۳)”عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ بِمَحْقِ الْمَعَازِفِ وَالْمَزَامِيرِ وَالْأَوْثَانِ وَالصُّلُبِ وَأَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ”۔

ترجمہ: مجھے میرے رب نے گانے بجانے کی چیزوں،آلات ساز، بتوں،صلیبوں اورجاہلیت کی باتوں کو مٹانے کا حکم دیا ہے۔(مسنداحمد،باب حدیث ابی امامۃ الباھلی الصدی،حدیث نمبر:۲۱۲۷۵)

اور بھی کئی مثالیں ملتی ہیں کہ اللہ رب العزت وحی متلو (قرآن کریم) کے علاوہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمکلام ہوئے،آپ نے خدا وند تعالی سے صرف قرآن کریم ہی نقل نہیں کیا، آپ نے خدا تعالی کی طرف سے بہت سی احادیث بھی بیان کیں،آپ خود ارشاد فرماتے ہیں:

ترجمہ: جب میں تمہارے سامنے خدا سے کوئی بات (حدیث) نقل کروں تو اسے لے لیا کرو، میں خدائے عزوجل پر کوئی غلط بات نہیں کہتا۔(مسلم،باب وجب امتثال ما قالہ شرعادون،حدیث نمبر:۴۳۵۶)

آپ کو طبعاً اگر کوئی چیز ناپسند ہوئی آپ نے اس سے اجتناب فرمایا تو صاف کہا میرا یہ طبعی تقاضاہے خدا کے دین میں یہ حرام نہیں ہے،آپ نے ارشاد فرمایا

ترجمہ :اے لوگو!مجھے اس چیز کے حرام کرنے کا اختیار نہیں جسے اللہ نے حلال کیا ہے لیکن یہ ایک ایسی سبزی ہے جس کی بو مجھے ناپسند ہے (اس لیے میں اسے نہیں کھاتا)۔ (صحیح مسلم،باب نھی من اکل ثوما اوبصلا ،حدیث نمبر:۸۷۷)

اس حدیث میں آپ نے خدا کی بات لفظ حدیث (حدثتکم) سے نقل کی ہے؛ سو اس میں کوئی شک نہیں کی حدیث کا مبدا بھی اللہ رب العزت ہیں اور اس سے حضورﷺ   کی زبان اور عمل پر یہ فیضان جاری ہوا ہے۔

 

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password