علم حدیث میں خواتین کا کردار

اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے، اس کی تہذیب وتمدن، ثقافت وحضارت، اس کے نظم ونسق، قوانین وضوابط اور طریقہ تعلیم وتربیت سرمدی وآفاقی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسلام ہمیشہ سے جہالت وناخواندگی اور آوارگی کا کھلا دشمن اور علم ومعرفت، شائستگی اور آراستگی کا روزازل سے ایک مخلص ساتھی اور دوست رہا ہے۔ چنانچہ اس نے انسانیت کو بغیر کسی تفریق مرد وزن لفظ”اقرء“سے مخاطب کیا .قرآن مجید کے علاوہ نبیﷺ نے بلا تفریق مرد وزن اس کے حصول کا حکم اور جا بجا اس کی اہمیت وفضیلت کو بیان کیا ہے، چنانچہ ابن ماجہ کی ایک روایت ہے کہ”طلب العلم فریضة علی کل مسلم“- یعنی تمام مسلمانوں پرعلم دین حاصل کرنا فرض ہے۔ اس میں مرد وعورت دونوں کے لیے حکم ہے اور اس پرعلماء امت کا اجماع ہے۔اسی ترغیب و تشویق کا نتیجہ یہ ہوا کہ عرب کی قوم، جس کی شانِ امتیاز ’ امّیت‘ تھی،جو علم و ثقافت سے کوسوں دور تھی اور جس میں پڑھنالکھنا جاننے والے افراد انگلیوں پر گنے جاتے تھے،اس میں علم کا زبردست چرچا ہونے لگا،مختلف علوم و فنون کی سرپرستی کی گئی اور بہت سے نئے علوم و فنون وجود میں آئے۔ یہاں تک کہ غلام اور باندیاں بھی زیورِ علم سے آراستہ ہونے لگے۔
اسلام پر ایک بڑا اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ اس نے عورتوں کو میدانِ علم سے دور رکھا ہے۔ وہ انھیں گھر کی چار دیواری میں محبوس رکھتا اور سماج میں سرگرم کردار ادا کرنے سے روکتا ہے۔وہ مردوں اور عورتوں کو اختلاط سے سختی سے منع کرتا ہے، جس کی بنا پرعورتیں علمی میدان میں مردوں سے استفادہ کرنے سے محروم اور انھیں علمی فیض پہنچانے سے قاصر رہتی ہیں۔مسلمانوں کے دور ِ زوال میں عورتوں کی حالتِ زار خواہ اس اعتراض کو حق بہ جانب قرار دیتی ہو، لیکن قرونِ اولیٰ میں مسلم سماج میں عورتوں کوجو مقام و مرتبہ حاصل تھا اس سے اس اعتراض کی کلّی تردید ہوتی ہے۔ عہدِ نبوی میں مرد اور عورت دونوں تحصیلِ علم اور استفادہ و افادہ کے میدان میں سر گرم نظر آتے ہیں۔ اس معاملے میں خاص طور سے امہات المومنین کا اہم کردار تھا۔

خواتین اسلام اور علم حدیث:
اگر کتب رجال کی ورق گردانی کریں تو صحابیات، تابعیات اور مختلف ادوار کی راویات ومحدثات کی ایک طویل فہرست دستیاب ہوسکتی ہے، جنھوں نے حفاظت حدیث کے تعلق سے وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے جس کی مثال دنیا کے کسی مذہب وملت میں نہیں مل سکتی۔ فن حدیث ہی کیا شرعی علم وفن کوئی بھی ہو اس میں عورتوں کی کارکردگی نمایاں نظر آتی ہے، فن تفسیر ہو یا حدیث، فقہ ہو یا اصول، ادب ہو یا بلاغت سارے کے سارے فنون کی عورتوں نے جان توڑ خدمت کی۔ اگر صحابیات وتابعیات تحمل اور روایت حدیث میں پیچھے رہتیں تو آج اسلامی دنیا مسائل نسواں کی علم ومعرفت سے محروم رہتی، نکاح وطلاق کے مسائل ہوں یا جماع ومباشرت کے ازدواجی زندگی کا کوئی الجھا ہوا پہلو ہو یا خانگی مشکلات، اگر اس قسم کے الجھے اورپرپیچ مسائل کا حل ہمیں ملتا ہے تو صحابیات وتابعیات کی مرویات ہیں۔ابتدائے اسلام سے لے کر اس وقت تک سینکڑوں ہزاروں پردہ نشیں مسلم خواتین نے حدود شریعت میں رہتے ہوئے گوشہ علم وفن سے لے کر میدان جہاد تک ہر شعبہ زندگی میں حصہ لیا اور اسلامی معاشرے کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کیا۔ خواتین اسلام نے علم حدیث کی جو خدمات انجام دی ہیں، ان کی سب سے پہلی نمائندگی صحابیات وتابعیات کرتی ہیں، اس لیے سب سے پہلے انہی کے کارناموں کا اجمالی نقشہ پیش کیا جارہا ہے۔

صحابیات/امہات المومنین:
صحابہ کرام کی طرح صحابیات بھی اپنے ذہن ودماغ کے لحاظ سے ایک درجے اور مرتبے کی نہیں تھیں اورنہ سب کویکساں طورسے آنحضرتﷺ کی صحبت ورفاقت نصیب ہوئی تھی، اس لیے ان کی خدمات بھی اسی کے اعتبار سے کم وبیش ہوں گی، کیونکہ حدیث کی خدمات کے لیے سب سے زیادہ ضرورت حفظ اور فہم وفراست ہی کی تھی۔ صحابیات میں ازواج مطہرات کو نبیﷺ کے ساتھ ہر لحاظ سے زیادہ خصوصیت حاصل تھی، اس لیے اس سلسلے میں ان کی خدمات سب سے زیادہ ہیں۔ ازواج مطہرات کو تاکید بھی کی گئی کہ:” یاد رکھو اللہ کی آیات اور حکمت کی ان باتوں کوجو تمھارے گھروں میں سنائی جاتی ہیں۔‘‘(الاحزاب:۳۴)
حضور کے سپرد جو کام کیا گیا تھا وہ یہ تھا کہ آپؐ ایک ان پڑھ قوم کو، جو اسلامی نقطۂ نظر سے ہی نہیں، بلکہ عام تہذیب و تمدن کے نقطۂ نظر سے بھی نا تراشیدہ تھی، ہر شعبۂ زندگی میں تعلیم و تربیت دے کر ایک اعلیٰ درجہ کی مہذب و شائستہ اور پاکیزہ قوم بنائیں ۔اس غرض کے لیے صرف مردوں کو تعلیم دینا کافی نہ تھا، بلکہ عورتوں کی تربیت بھی اتنی ہی ضروری تھی۔ مگر جو اصولِ تہذیب و تمدن سکھانے کے لیے آپ مامور کیے گئے تھے ان کی رو سے مردوں اور عورتوں کا آزادانہ اختلاط ممنوع تھا اور اس قاعدے کوتوڑے بغیر آپ کے لیے عورتوں کو بہ راہ راست خود تربیت دینا ممکن نہ تھا۔ اس بنا پر عورتوں میں کام کرنے کی صرف یہی ایک صورت آپ کے لیے ممکن تھی کہ مختلف عمروں اور ذہنی صلاحیتوں کی متعدد خواتین سے آپ نکاح کریں، ان کو بہ راہ راست خود تعلیم و تربیت دے کر اپنی مدد کے لیے تیار کریں اورپھر ان سے شہری اور بدوی اور جوان اور ادھیڑ اور بوڑھی ہر قسم کی عورتوں کو دین سکھانے اور اخلاق و تہذیب کے لیے اصول سمجھانے کا کام لیں۔ ( تفہیم القرآن،سید ابو الاعلیٰ مودودی، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی، ۲۰۱۵ء:۴؍۱۱۵ )
چنانچہ امہات المومنین کے ذریعے امت کو بڑے پیمانے پر علمی فیض پہنچا۔ اس کا آغاز عہدِ صحابہ ہی سے ہو گیا تھا۔علمی مسائل میں صحابۂ کرام کے درمیان اختلاف ہوتا یا انھیں کوئی الجھن درپیش ہوتی تو وہ امہات المومنین کی طرف رجوع کرتے اور وہ اس سلسلے میں جو کچھ بیان کرتیں اس کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دیتے۔ علامہ ابن قیم ؒنے’زاد المعاد‘ میں لکھا ہے: ’’صحابہ کے درمیان کسی معاملے میں اختلاف ہوتا اور امہات المومنین میں سے کوئی نبی ﷺ سے اس سلسلے میں کوئی حدیث بیان کر دیتیں تو وہ اس کو فوراً قبول کر لیتے اور اپنے تمام اختلافات کو چھوڑ کر اس کی طرف رجوع کرتے۔‘‘)زاد المعاد، ابن قیم:۵؍۵۳۴( حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ بیان کرتے ہیں:’’ہم اصحابِ رسول کو جب کبھی کسی حدیث کے معاملے میں کوئی دشواری پیش آتی اور ہم اس کے سلسلے میں حضرت عائشہؓ سے دریافت کرتے تو ہمیں ان کے پاس ضروراس کے متعلق علم حاصل ہوتا۔‘‘ (ترمذی، ابواب المناقب، باب فضل عائشۃ،۳۸۸۳)
نسوانی مسائل کی بہت سی گتھیوں کو سلجھانے میں امہات المومنین کا غیر معمولی کردار ہے۔ انھوں نے وہ مسائل خود آنحضرت ؐ سے دریافت کرکے دوسری صحابیات کو بتائے، یا صحابیات ان کی خدمت میں حاضر ہو کر دریافت کرتی تھیں تو وہ حضورؐ سے رجوع کرکے انھیں جواب دیتی تھیں۔ مخصوص مسائل سے ہٹ کر بھی بہت سی تعلیمات اور احکام کا علم امت کو امہات المومنین ہی کے واسطے سے ہوا ہے۔وہ خلوت گاہِ نبوت کی را زدار تھیں۔ انھیں بہت سی ان باتوں کی خبر رہتی تھی جو دوسروں کی نگاہوں سے پوشیدہ تھیں۔ آنحضرت ؐ کے ارشاداتِ عالیہ کی معتد بہ تعداد ایسی ہے جو ہم تک صرف امہات المومنین کے ذریعے ہی پہنچی ہے۔( حقائقِ اسلام، محمد رضی الاسلام ندوی،مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی ،۲۰۰۸ء،ص ۸۳)

امہات المومنین کاعلمی مقام و مرتبہ:
علامہ ابن حزم اپنی کتاب”اسماء الصحاب الروا ة وما لکل واحد من العدد“کے اندر کم وبیش (125) صحابیات کا تذکرہ کیا ہے جن سے روایات مروی ہیں اور ان کے اعداد وشمار کے مطابق صحابیات سے مروی احادیث کی کل تعداد(2560) ہے جن میں سب سے زیادہ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، حضرت عائشہ مکثرین الروایة صحابہ میں سے ہیں، ان کی مرویات کی تعداد(2210) ہے(بقی بن مخلد القرطبی ص79، تدریب الراوی:20/677)، جن میں(286) حدیثیں بخاری ومسلم میں موجود ہیں، مرویات کی کثرت کے لحاظ سے صحابہ کرام میں ان کا چھٹا نمبر ہے(خدمت حدیث میں خواتین کا حصہ ص 17 ، تالیف: مجیب اللہ ندوی)،
مرویات کی کثرت کے ساتھ احادیث سے استدلال اور استنباط مسائل، ان کے علل واسباب کی تلاش وتحقیق میں بھی ان کو خاص امتیاز حاصل تھا اور ان کی صفت میں بہت کم صحابہ ان کے شریک تھے، کتب حدیث میں کثرت سے اس کی مثالیں موجود ہیں۔ ۔ رسول اللہ ﷺ سے استفادہ کے معاملے میں ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سب سے آگے تھیں۔ ان کے ذہن میں جو بھی اشکال پیدا ہوتا وہ فوراً آپ ؐ کے سامنے اس کا اظہار کرتیں اور آپؐ اس کی وضاحت فرمادیتے۔ ایک مرتبہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:مَن حُوسِبَ عُذِّبَ( روزِ قیامت جس کا حساب لیا گیا وہ گرفتارِ عذاب ہوگا۔) اس پر حضرت عائشہؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! قرآن میں تو کہا گیا ہے:فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَاباً یَسِیْراً ً( اس سے آسان حساب لیا جائے گا۔)اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ اس سے مراد اعمال کی پیشی ہے۔جس کے اعمال میں جرح شروع ہو گئی وہ توہلاک ہوگیا۔‘‘ ( بخاری، کتاب العلم،۱۰۳)
ان کے شاگردِ خاص اور بھانجے عروہ بن زبیرؒ کہتے ہیں: ’’ میں حضرت عائشہ ؓ کی صحبت میں رہا۔ میں نے ان سے زیادہ آیات کی شانِ نزول، فرائض، سنت، شعر و ادب، عرب کی تاریخ اور قبائل کے انساب وغیرہ اور مقدمات کے فیصلوں، حتیٰ کہ طب کا جاننے والا کبھی کسی کو نہیں دیکھا۔سیر اعلام النبلاء، ذہبی :۲؍۱۲۸۔۱۲۹)
عطا بن ابی رباح کہتے ہیں:’’حضرت عائشہؓ لوگوں میں سب سے بڑی فقیہ، سب سے زیادہ علم رکھنے والی اور عوام میں سب سے اچھی رائے رکھنے والی تھیں۔‘‘(تلخیص المستدرک، ذہبی:۴؍۱۴)امام ذہبی ؒفرماتے ہیں:’’رسول اللہ ﷺ کی امت میں، بلکہ مطلقاً سب ہی عورتوں میں ان سے زیادہ علم والی کسی عورت سے میں واقف نہیں ہوں۔‘‘(سیر اعلام النبلاء، ذہبی:۱؍ ۱۰۱)(عورت اور اسلام، مولاناسید جلال الدین عمری، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی، ۲۰۰۹ء، ص ۷۷ ۔۸۰)
امام زہری جو کبار تابعین میں سے تھے وہ فرماتے ہیں: ” حضرت عائشہ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ علم رکھنے والی تھیں، بڑے بڑے صحابہ کرام ان سے مسائل دریافت کرتے تھے۔ (تھذیب التھذیب: 12/463، سیر الصحابیات: ص 28)دوسری جگہ اس طرح رقمطراز ہیں:”اگر تمام ازواج مطہرات کا علم بلکہ تمام مسلمان عورتوں کا علم جمع کیا جائے تو حضرت عائشہ کا علم سب سے اعلی وافضل ہوگا“(تھذیب التھذیب:12/463، الاستیعاب:4/1883)۔
حضرت عائشہ فتوی اور درس دیا کرتی تھیں، یہی نہیں بلکہ آپ نے صحابہ کرام کی لغزشوں کی بھی نشاندہی فرمائی، علامہ جلال الدین سیوطی اور زرکشی رحمہما اللہ نے اس موضوع پر”الاصاب فیما استدرکتہ عائشة علی الصحاب“ کے نام پر مستقل کتاب لکھ رکھی ہے، حضرت عائشہ سے روایت کرنے والے صحابہ وتابعین کی تعداد سو سے متجاوز ہے“(تھذیب التھذیب: 12/461، 463)
حافظ ابن حجر ؒ نے ان سے متعلق لکھا ہے:’’انھوں نے حضورؐ سے بہت سی باتیں یاد رکھیں۔ وہ آپ کے بعد تقریباً پچاس سال زندہ رہیں، چنانچہ لوگوں نے ان سے بہت زیادہ اخذ و استفادہ کیا اور بہت سے احکام و آداب ان سے نقل کیے، یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ شریعت کے ایک چوتھائی احکام ان سے منقول ہیں۔‘‘ ( فتح الباری، ابن حجر:۷؍۴۷۹)
حافظ ابن حجر ؒ نے تہذیب التہذیب میں حضرت عائشہ ؓ سے استفادہ کرنے والے اٹھاسی(۸۸) افراد، جن میں صحابہ اور تابعین، مرد اور عورت، آزاد اور غلام سب ہیں،ان کے نام گنانے کے بعد لکھا ہے: و خلق کثیر ، یعنی ان کے علاوہ ایک بڑی تعداد نے ان سے روایت کی ہے۔( تہذیب التہذیب، ابن حجر:۱۲؍۳۸۵)
ازواج مطہرات میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکے بعد حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا علم حدیث میں ممتاز نظر آتی ہیں، علم حدیث میں ان کے مقام ومرتبے کے متعلق محمد بن لبید فرماتے ہیں:” عام طور سے رسول اللہﷺ کی ازواج مطہرات آپ کی حدیثوں کو بہت زیادہ محفوظ رکھتی تھیں، مگر حضرت عائشہ اور ام سلمہ اس سلسلے میں سب سے ممتاز تھیں۔( طبقات ابن سعد:2/375) حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہاسے(378) حدیثیں مروی ہیں(بقی بن مخلد القرطبی ص:81، سیر الصحابیات: ص 9)۔ ان کے فتوے بکثرت پائے جاتے ہیں، علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے”اعلام الموقعین“میں لکھا ہے: ”اگر ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے فتوے جمع کیے جائیں تو ایک چھوٹا سا رسالہ تیار ہوسکتا ہے(اعلام الموقعین لابن قیم الجوزی: 1/15)، ان کا شمار محدثین کے تیسرے طبقے میں ہے۔ ان کے تلامذہ حدیث میں بے شمار تابعین اور بعض صحابہ بھی شامل ہیں۔
ان دونوں کی طرح دوسری ازواج مطہرات نے بھی حدیث کی روایت اور اشاعت میں حصہ لیا اور ان سے بھی بڑے جلیل القدر صحابہ اور تابعین نے احادیث حاصل کیں، جیسے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہاہیں۔ ان سے76، ام حبیبہ رضی اللہ عنہاسے65، حفصہ رضی اللہ عنہا سے60، زینب بنت جحش رضی اللہ عنہاسے11،جویریہ رضی اللہ عنہاسے7،سودہ رضی اللہ عنہاسے5،، خدیجہ رضی اللہ عنہاسے1، میمونہ اور ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہما سے دو دو حدیثیں مروی ہیں۔
ایک تابعیہ حضرت صہیرہ بنت جیفرؒ بیان کرتی ہیں:’’ہم چند خواتین حج سے فارغ ہونے کے بعد مدینہ گئیں تو حضرت صفیہ ؓ کی خدمت میں حاضری دی۔ دیکھا کہ وہاں پہلے ہی سے کوفہ کی چند عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ ہم نے ان سے زن و شو سے متعلق مختلف مسائل اور حیض اور نبیذ کے احکام دریافت کیے۔‘‘) مسند احمد،حدیث صفیہ ام المومنین، حدیث:۲۶۳۲۴(
امہات المومنین کے علاوہ صحابیات میں مشکل ہی سے کوئی صحابیہ ایسی ہوں گی جن سے کوئی نہ کوئی روایت موجود نہ ہو، چنانچہ آپ کی پیاری بیٹی لخت جگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے18، آپ کی پھوپھی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہاسے11حدیثیں مروی ہیں(بقی بن مخلد القرطبی ص: 84/ 160)۔ عام صحابیات میں سے حضرت ام خطل رضی اللہ عنہا سے30حدیثیں مروی ہیں، حضرت ام سلیم اور ام رومان رضی اللہ عنہماسے چند حدیثیں مروی ہیں، ام سلیم رضی اللہ عنہاسے بڑے بڑے صحابہ مسائل دریافت کرتے تھے، ایک بار کسی مسئلے میں حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہمامیں اختلاف ہوا تو دونوں نے ان ہی کو حکم مانا(مسند احمد:6/430 ، منقول از خدمت حدیث میں خواتین کا حصہ ص: 12)۔ حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے متعدد صحابہ وتابعین نے روایت کیا اور صحابہ وتابعین ان سے مردے کو نہلانے کا طریقہ سیکھتے تھے(تھذیب التھذیب:12/455) ۔
مختلف عقدہ ہائے حیات کو لے کر ان کی طرف چھوٹوں نے بھی رجوع کیا اور بڑوں نے بھی، مردوں نے بھی اور عورتوں نے بھی، اصحابِ قرب و جوار نے بھی اور دور دراز کے رہنے والوں نے بھی، اور ان خواتینِ امت کی دینی سوجھ بوجھ اور بصیرت و دانائی نے ان گرہوں کو کھولا اور راہِ حق واضح کی۔‘‘(عورت اسلامی معاشرہ میں، سید جلال الدین عمری، مرکزی مکتبہ سلامی پبلشرز نئی دہلی، ۲۰۱۱ء،ص۱۵۴)
مسانید صحابیات:
صحابیات کی کثرت روایت اور ان کی خدمت حدیث کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ امام احمد بن حنبل نے (140) سے زائد صحابیات کا تذکرہ لکھا ہے، اسی طرح”اسد الغابة“ اور ”الاصاب فی تمییز الصحابة“ میں (500)سے زائد صحابیات کے تراجم موجود ہیں، ”تھذیب التھذیب“میں (233) خواتین اسلام کا تذکرہ ہے جن میں بیشتر صحابیات ہیں(تھذیب التھذیب:: 12/426-516)۔

تابعیات وتبع تابعیات:
صحابیات کی صحبت اور ایمان کی حالت میں جن خواتین نے پرورش پائی یا ان سے استفادہ کیا ان کو تابعیات کہا جاتا ہے، صحابیات کی طرح تابعیات نے بھی فن حدیث کی حفاظت واشاعت اور اس کی روایت اور درس وتدریس میں کافی حصہ لیا اور بعض نے تو اس فن میں اتنی مہارت حاصل کی کہ بہت سے کبار تابعین نے ان سے اکتساب فیض کیا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی کتاب”تقریب التھذیب“کی ورق گردانی کرنے سے یہ بات مترشح ہوجاتی ہے کہ صحابیات کی طرح تابعیات کی ایک بڑی تعداد نے روایت وتحمل حدیث میں انتھک کوشش کی، چنانچہ ان کے اعداد وشمار کے مطابق(121) تابعیات اور(26) تبع تابعیات ہیں۔ البتہ”تقریب التھذیب“ کے مطالعے سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ان تابعیات میں کچھ پائے ثقاہت کو پہنچی ہیں، زیادہ تعداد میں مجہولات پائی جاتی ہیں۔ چند مشہور تابعیات کی خدمت کا تذکرہ کیا جاتا ہے:
حضرت حفصہ بنت سیرین:
انھوں نے متعدد صحابہ وتابعین سے روایت کی ہے، جن میں انس بن مالک اور ام عطیہ وغیرہ ہیں اور ان سے روایت کرنے والوں میں ابن عون، خالد الحذاء، قتادہ وغیرہ شامل ہیں(تھذیب التھذیب: 12/438)۔ جرح وتعدیل کے امام یحیی بن معین نے ان کو”ثقة “ ‘فرمایا (تھذیب التھذیب: 12/438)۔ ایاس بن معاویہ فرماتے ہیں”میں نے حفصہ سے زیادہ فضل والا کسی کو نہیں پایا۔( ایضاً:12/438) امام ذہبی سے انھیں حفاظ حدیث کے دوسرے طبقے میں شامل کیا ہے(تذکر الحفاظ:1/9)۔

حضرتعمرہ بنت عبد الرحمن:
یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خاص تربیت یافتہ اور ان کی احادیث کی امین تھیں، ابن المدینی فرماتے ہیں”حضرت عائشہ کی حدیثوں میں سب سے زیادہ قابل اعتماد احادیث عمرہ بنت عبد الرحمن، قاسم اور عروہ کی ہیں“۔ محمد بن عبد الرحمن فرماتے ہیں کہ مجھ سے عمر بن عبد العزیز نے فرمایا” اس وقت حضرت عائشہ کی احادیث کا ان سے بڑا کوئی جاننے والا موجود نہیں ہے۔( تھذیب التھذیب:12/466) اور امام ذہبی نے ان کو تابعین کے تیسرے طبقے میں شمار کیا ہے(تذکر ة الحفاظ: 1/94)۔ حضرت عائشہ کے علاوہ دوسرے صحابہ کرام سے بھی انھوں نے روایتیں کی ہیں۔ ان سے روایت کرنے والوں میں تیرہ سے زیادہ کبار تابعین ہیں۔ 103ھ یا 116 ھ میں وفات پائی(ایضاً:12/466) ۔

روایت حدیث کے مختلف ادوار:
خیر القرون کے تذکرے کے بعد متاخرین کے مختلف ادوار کا تذکرہ بھی مناسب معلوم ہوتا ہے، ان ادوار میں بھی محدثین اور رواة کے ہمراہ راویات ومحدثات کی ایک لمبی فہرست دستیاب ہوتی ہے جنھوں نے حفاظت حدیث کی ذمہ داری اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھائی۔ خدمت حدیث کی نوعیت علیحدہ علیحدہ اور مختلف ہے۔ کوئی اپنے زمانہ کی شیخ الحدیث تھی، کسی کا مسکن علم حدیث کا مرکز تھا، کسی نے حدیث کی تلاش وجستجو میں محرم کے ساتھ اپنے گھر کو خیرباد کہا، تو کسی نے محدثین کے ایک جم غفیر کو روایت حدیث کی اجازت مرحمت فرمائی۔ کسی نے حدیث کی مخصوص کتاب صحیح بخاری کا درس دیا، کتب ستہ اور دیگر کتب حدیث میں سینکڑوں حدیثیں ایسی ہیں جو کسی محدثہ یا راویہ کے توسط سے مروی ہیں۔ امام بخاری، امام شافعی، امام ابن حبان، امام ابن حجر، امام سیوطی، امام سخاوی، عراقی، سمعانی اور امام ابن خلکان رحمہم اللہ جیسے اساطین علم وفن کے اساتذہ کی فہرست میں متعدد خواتین اسلام کے نام ملتے ہیں(تلخیص از ماہنامہ السراج مارچ 2001 ء ص 24)، جن سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ خواتین نے اپنے ذاتی ذوق وشوق کی بنیاد پر نہ صرف علم حدیث حاصل کیا بلکہ اس کی نشرواشاعت کا فریضہ بھی انجام دیاہے۔
علم حدیث سے شغف رکھنے والی خواتین اسلام کی ایک طویل فہرست کتب اسماء ورجال کی ورق گردانی کے بعد دستیاب ہوسکتی ہے، چنانچہ چوتھی صدی ہجری میں پانچ خواتین، پانچویں صدی ہجری میں پندرہ، چھٹی صدی ہجری میں پچھتر، ساتویں صدی ہجری میں پینسٹھ، آٹھویں صدی ہجری میں ایک سو بانوے، نویں صدی ہجری میں ایک سو اکسٹھ اور دسویں صدی ہجری میں تین خواتین اسلام نے مختلف حوالوں سے خدمت حدیث کا کا انجام دیا(تلخیص از مجلہ الفرقان جولائی تا ستمبر 2002ء ص 26- 37)۔

تحصیل حدیث کے لیے سفراور محدثات کی درس گاہیں:
جس طرح احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش وجستجو میں محدثین نے عالم اسلام کی خاک چھانی ہے اور جملہ نوائب ومصائب کو برداشت کیا، ابتدائی دور میں احادیث وآثار کی روایت اور ان کی تدوین کے لیے بہت لمبے لمبے اسفار کیے تھے، لیکن بعد میں سند عالی کی طلب بھی ان اسفار کا سبب بن گئی، اسی طرح خواتین اسلام نے بھی اپنی صنفی حیثیت وصلاحیت کے مطابق شرعی پردے میں رہ کر تحصیل حدیث کے لیے دور دراز ملکوں اور شہروں کا سفر کیا اور محدثین کی فہرست میں اپنا نام درج کروایا(خواتین اسلام کی دینی وعلمی خدمات ص: 29-30) ۔
ام علی تقیہ بنت ابو الفرج بغدادیہ نے بغداد سے مصر جاکر قیام کیا اور اسکندریہ میں امام ابو طاہر احمد بن محمد السلفی سے اکتساب علم کیا(ابن خلکان:1/103)۔ اسی طرح زینب بنت برہان الدین اردبیلیہ کی ولادت مکہ مکرمہ میں ہوئی، ہوش سنبھالنے کے بعد انھوں نے اپنے چچا کے ساتھ بلاد عجم کا سفر کیا اور بیس سال کے بعد مکہ مکرمہ واپس آئیں(العقد الثمین: 8/224) ۔ ام محمد زینب بنت احمد بن عمر کا وطن بیت المقدس تھا، امام ذہبی نے ان کو “المعمر الرحال “کے القاب سے یاد کیا ہے، کیونکہ دور دراز کا سفر کرکے تحصیل علم اور حدیث کی روایت میں مشہور تھیں، اسی وجہ سے بعد میں دور دراز ملکوں کے طلبہ حدیث ان سے روایت کرتے تھے(ذیل العبر للذہبی: ص126)۔ (یاد رہے کہ ان محدثات کے یہ اسفار محرم کے بغیر ہرگز نہ ہوتے تھے اور ان کی درسگاہیں بھی اسلامی اقدار اور حجاب کی پابندی میں ہوتی تھی) ۔
ان خواتین اسلام پاک طینت محدثات اور راویات سے شرف تلمذ حاصل کرنے کے لیے مختلف علاقوں اور دور دراز ملکوں سے طلبہ حدیث جوق در جوق حاضر ہوتے تھے اور ان سے روایت کرنے کو اپنے لیے باعث صد افتخار تصور کرتے تھے، ان کی درس گاہوں میں طلبہ ہی نہیں بلکہ ائمہ وحفاظ حدیث بھی آکر اکتساب فیض کرتے تھے۔ ام محمد زینب بنت مکی حرانیہ نے چورانوے سال کی عمر تک حدیث کا درس دیا اور ان کی درس گاہ میں طلبہ کا کافی ہجوم رہا کرتا تھا، امام ذہبی نے لکھا ہے: ”وازدحم علیھا الطلبة“(العبر: 5/358)۔ ام عبد اللہ زینب بنت کمال الدین مقدسیہ مسند الشام کی پوری زندگی احادیث کی روایت اور کتب حدیث کی تعلیم میں گزری، ان کی درس گاہ میں طلبہ کی کثرت ہوا کرتی تھی، امام ذہبی نے لکھا ہے: ”تکاثر علیھا وتفردت وروت کتبا کثیرا“(العبر:5/213)۔

علم حدیث میں خواتین کی تدریسی خدمات:
عام طور سے محدثات کی مجلس درس ان کی رہائش گاہوں میں منعقد ہوتی تھی اور طلبہ حدیث وہیں جاکر استفادہ کرتے تھے، جیسا کہ امام ذہبی اور ابن الجوزی نے ان سے روایت کے سلسلے میں ان کی قیام گاہوں کی نشاندہی کی ہے، مگر بعض محدثات نے مختلف شہروں میں بھی درس دیا ہے اور دینی علم کو عام کیا ہے(خواتین اسلام کی دینی وعلمی خدمات ص:54)۔ خلدیہ بنت جعفر بن محمد بغداد کی باشندہ تھیں، ایک مرتبہ وہ بلاد عجم کے سفر پہ نکلیں تو مقام دینور میں ان سے خطیب ابو الفتح منصور بن ربیعہ زہری نے حدیث کی روایت کی (تاریخ بغداد:14/444)۔ مسند الوقت ست الوزراء بنت عمر تنوخیہ نے متعدد بار مصر اور دمشق میں صحیح بخاری اور مسند امام شافعی کا درس دیا(خواتین اسلام کی دینی وعلمی خدمات ص:54)۔

علم حدیث میں خواتین کی تصنیفی خدمات:
مسلم خواتین نے صرف درس وتدریس اور روایت ہی سے اشاعت حدیث کا کام نہیں لیا، بلکہ محدثین کی طرح تصنیف وتالیف ، کتب احادیث کے نقل اور اپنی مرویات کو کتابی شکل میں مدون کرکے محفوظ کیا، نیز فن اسماء ورجال وفن حدیث میں بھی کتابیں تصنیف کیں اور اپنی نفع بخش تالیفات سے مکتبات اسلامیہ کو مالامال کیا اور دنیا کے کتب خانوں کو سنوارنے اور انھیں زیب وزینت بخشنے میں ان اہل قلم محدثات کا بڑا دخل رہا ہے، اس مختصر مقالے میں تمام صاحب قلم خواتین اور ان کی تصنیفات کا احصاء تو ممکن نہیں، البتہ بطور مثال چند مسلم خواتین کا نام اور ان کی مولفات کا نام پیش کیا جارہا ہے:
1۔ ام محمد فاطمہ بنت محمد اصفہانی کو تصنیف وتالیف میں بڑا اچھا سلیقہ حاصل تھا، انھوں نے بہت ہی عمدہ عمدہ کتابیں تصنیف کی تھیں، جن میں ”الرموز من الکنوز“ پانچ جلدوں میں آج بھی موجود ہے(العقد الثمین:8/202)۔
2۔ طالبہ علم: انھوں نے ابن حبان کی مشہور کتاب “المجروحین” میں مذکور احادیث کی فہرست تیار کی ہے۔
3۔ عجیبہ بنت حافظ بغدادیہ: انھوں نے اپنے اساتذہ وشیوخ کے حالات اور ان کے مسموعات پر دس جلدوں میں”المشیخ“ نامی کتاب لکھی(العبر للذہبی:5/194) ۔
4۔ ام محمد محمد شہدہ بنت کمال:ان کو بہت سی حدیثیں زبانی یاد تھیں۔ لہٰذا انہوں نے بہت سی احادیث کو کتابی شکل میں یکجا کیا(ذیل العبر للذہبی:ص 49)
5۔ امة اللہ تسنیم:یہ علامہ ابو الحسن علی ندوی کی بہن ہیں، انھوں نے امام نووی کی کتاب ”ریاض الصالحین“کا اردو ترجمہ ”زاد سفر“ کے نام سے کیا ہے۔

دور حاضر اور خدمات حدیث میں خواتین کا کردار:
عصر حاضر میں ہمارے ملک میں شاید ہی کوئی ایسا جماعتی ادارہ ہو جس کے ساتھ”شعبہ بنات” منسلک ومربوط نہ ہو۔ فی الحال ہندوستان میں تقریبا سینکڑوں ادارے خواتین اسلام کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری اٹھائے ہوئے ہیں اور جہاں دیگر علوم وفنون کے ساتھ ساتھ علم حدیث ، اصول حدیث اور فقہ واصول فقہ کی بھی خاطر خواہ تعلیم دی جاتی ہے، آئندہ نسلوں کے لیے یہ بہترین اور خوش آئند شئ ہے اور ہو بھی کیوں نہ جب کہ نسواں مدارس اسلامیہ میں فی الحال کتنی معلمات ایسی ہیں جو درس حدیث کے منصب پر فائز ہیں۔

خلاصہٴ کلام:
حاصل کلام یہ ہے کہ خیر القرون سے لے کر عصر حاضر تک ہر دور میں کم وبیش خواتین اسلام نے علم حدیث کی اشاعت میں جو خدمات جلیلہ انجام دی ہیں خواہ تعلیم وتدریس کے میدان میں ہو، یا تصنیف وتالیف کے میدان میں وہ قابل تعریف وستائش اور ناقابل فراموش ہے اور پورے وثوق واعتماد کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ خواتین اسلام کی علمی خدمات سے چشم پوشی کرنا تاریخ کے ایک روشن باب کو صفحہٴ ہستی سے ناپید کرنا ہے۔ الٰہی ان خواتین اسلام کی علمی خدمات اور مساعی جمیلہ کو شرف قبولیت عطا فرما، نیز ہم طالبان علوم نبوت کو علم کے ساتھ ساتھ اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عنایت فرما، آمین۔

 

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password