مستشرقین اور حدیث کے دوسوسال بعد مرتب ہونے کا مفروضہ

ایک بات جس کو مغربی مستشرقین بار ہا بیان کرتے رہتے ہیں اور ہمارے ہاں بہت سے لوگ اس فضول اور غیر علمی بات کو بغیر سوچے سمجھے دہراتے رہتے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ احادیث چوتھی صدی ہجری میں مرتب ہوئیں۔ مغربی مصنفین میں سے بعض کا کہنا ہے کہ جس طرح ہر قوم میں کچھ افسانے اور داستانیں مشہور ہوتی ہیں مسلمانوں میں بھی مشہور تھیں۔ محدثین نے ان مشہور قصوں اور کہانیوں کو سنا اور علم حدیث کے نام سے جمع کر دیا۔ یہ محدثین کی کاوشوں کے بارے میں بہت سے مغربی مستشرقین نے لکھا ہے۔ کچھ لوگ دنیائے اسلام میں بھی اس بات کو دہراتے ہیں۔
اس پر پچھلے سو سالوں کے دوران اتنی وضاحت اور تفصیل کے ساتھ غور ہوا ہے کہ تدوین حدیث کے ایک ایک پہلو پر لوگوں نے درجنوں کتابیں تیار کی ہیں۔ اس خدمت میں بھی ایک بار پھر برصغیر کے ایل علم نے سب سے پہلے یہ ثابت کیا کہ علم حدیث کی سنداور ثقاہت کن بنیادوں پر قائم ہے۔ ہمارے برصغیر کے مشہور محقق اور عالم مولانا مناظر حسن گیلانی نے سب سے پہلے تدوین حدیث پر ایک ضحیم کتاب لکھی تھی۔ اس میں انہوں نے وہ بنیادیں وضع کیں جن پر آئندہ پچاس سالوں میں کم و پیش ایک درجن محققین نے وقیع کام کیا اور اس بے بنیاد اور جاہلانہ دعوٰی کے تاروپود بکھیر دئیے۔ ان حضرات نے علم حدیث کی تاریخ پر غور کیا اور تحقیق کر کے یہ ثابت کیا کہ صحابہ کرام کے زمانے میں ہی حدیث کی تدوین کا کام خاصا آگے بڑھ چکا تھا۔
صحابہ کرام کے دست مبارک سے تحریر کردہ احادیث کے کم از کم اڑتالیس مجموعوں کا تذکرہ کتب حدیث میں موجود ہے۔ تابعین نے جو مجموعے مرتب کئے ان میں سے جن مجموعوں کی قدیم ماخذ میں نشاندہی ہوتی ہے، کتب حدیث اور سیرت میں ، ان کی تعداد ڈھائی سو ہے ۔ ڈاکٹر محمد حمیداللہ مرحوم نے تابعین کے مرتب کئے ہوئے سات مجموعوں کو ایک کتاب کی صورت میں مرتب کیا ہے، ان کو ایڈٹ کیا ہے، ان کا انگریزی ترجمہ کیا، انگریزی میں مقدمہ لکھا ہے اور وہ کتاب “کتاب السردوالفرد” کے نام سے اسلام آباد میں شائع ہو چکی ہے۔ اس سے پہلے صحابی رسول حضرت ابو ہریرہؓ کا مرتب کیا ہوا ایک مجموعہ ان کے شاگرد ہمام بن منبہ نے مرتب کیا تھا۔ وہ نسخہ دریافت ہوا۔ ڈاکٹر حمید اللہ صاحب نے اس کو ایڈٹ کیا۔ انگریزی، اردو، فرانسیسی، جرمن اور دیگر کئی زبانوں میں ترجمے ہوئے۔ وہ نسخہ بھی آج مطبوعہ موجود ہے۔
ترکی کے ایک انتہائی بالغ نظر اور دور جدید کے صف اول کے محققین میں سے ایک محقق ڈاکٹر فواد سیزگن ہیں، جو جرمنی میں رہتے ہیں، اور جرمن زبان میں انہوں نے اسلامی موضوعات پر انتہائی عالمانہ کتابیں لکھی ہیں۔ انہوں نے صحیح بخاری کے مصادر وماخذ پر ایک کتاب لکھی تھی اور صحیح بخاری کے ماخذ کے بارے میں انہوں نے دلائل کے ساتھ یہ ثابت کیا تھا اور جس کا کوئی جواب کسی مغربی مستشرق کے پاس نہیں تھا کہ صحیح بخاری میں جو کچھ مواد شامل ہے وہ نہ صرف سارے کا سارا مستند ترین زبانی روایت کے ساتھ امام بخاری تک پہنچا بلکہ اس میں ہر روایت کے پیچھے مسلسل تحریری ذخائر بھی موجود تھے۔ انہوں نے کہا کہ عبدالرزاق صنعانی امام بخاری کے روات میں شامل تھے۔ وہ امام بخاری کے اساتذہ کے استادتھے۔ امام بخاری نے بہت سی روایت عبدالرزاق سے لیں۔ عبدالرزاق کی اپنی کتاب موجود تھی جو اس وقت تک نہیں چھپی تھی اور اب چھپ گئی ہے۔ وہ ساری احادیث جو امام بخاری نے عبدالرزاق کے توسط سے لی ہیں وہ جوں کی توں مصنف عبدالرزاق میں موجود ہیں۔ عبدالرزاق کے استاد تھےمعمربن راشدازدی’ ان کی کتاب جامع اُس وقت نہیں چھپی تھی اب چھپ گئی ہے۔ اس میں وہ تمام احادیث جو عبدالرزاق نے معمر بن راشد سے لی ہیں وہ سب جوں کی توں موجود ہیں۔ معمر کے سامنے جو ذخائر موجود تھے ان میں سے بعض چھپ گئے ہیں جن میں وہ احادیث موجود ہیں۔ گویا ایک ایک مرحلے پر زبانی روایتیں درجنوں اساتذہ، تابعین اور تبع تابعین کی موجود تھیں۔ اور ان میں سے ہرروایت کے پیچھے ہر محدث کے پاس تحریری ذخائر اور تحریری سند بھی موجود تھی۔
خود رسول ﷺ کی حیات مبارکہ میں کئی صحابہ کرام تھے جو حضور کی اجازت سے احادیث لکھنے کا کام کرتے تھے۔ ان میں سے ایک مشہور صحابی حضرت عبداللہ بن عمرہ بن العاص ہیں۔ ان کا مزار مبارک مصر میں ہے۔ وہ فاتح مصر حضرت عمروبن العاص کے بیٹے ہیں۔ یہ مدینہ منورہ میں رہتے تھے اور والد محترم سے پہلے اسلام قبول کر چکے تھے۔ حضور کی زبان مبارک سے نکلنے والا ہر لفظ لکھا کرتے تھے۔ بعض لوگوں نے کہا کہ یہ کیا کر رہے ہو، حضور کبھی مزاح کی کیفیت میں ہوں گے، کبھی غصے میں ہو گے، اس لئے ہر چیز لکھنا شاید درست نہ ہو۔ انہوں نے حضورﷺ سے عرض کیا کہ بعض لوگ ایسا کہتے ہیں۔ آپ ؐ نے فرمایا کہ جو سنو وہ لکھ لو، کیونکہ میری اس زبان سے حق کے علافہ کوئی چیز نہیں نکلتی۔ چنانچہ وہ حضور علیہ السلام کے ارشادات کو آپ ہی مجلس میں سن سن کر لکھا کرتے تھے۔ ان کا مرتب کیا ہوا مجموعہ محفوظ ہےاور علم حدیث کے طلبہ اس سے خوب مانوس ہیں۔ طلبہ حدیث نے بعض احادیث کی سند پڑھی ہوگی’ عن عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ عن النبیﷺ’ یہ وہی مجموعہ ہے جو حضرت عبداللہ بن عمرہ کا مرتب کیا ہوا مجموعہ ہے۔ اس مجموعہ کی احادیث عمرو بن شعیب اپنے والدسے اور اپنے پردادا سے روایت کرتے ہیں۔ ان کے پردادا سے مراد عبداللہ بن عمرہ بن العاصؓ ہیں۔ یہ پورے کا پورا مجموعہ امام احمد کی مسند میں موجود ہے ااور اسی ترتیب کے ساتھ موجود ہے۔ یہ مجموعہ، یعنی “الصحیفہ الصادقہ” یوں تو احادیث کے بہت سے موضوعات پر مشتمل ہے۔لیکن اس میں خالص سیرت نبوی سے متعلق بھی اہم مواد موجود ہے۔ چنانچہ دستورمدنیہ، غزوات نبوی، فتح مکہ اور حجتہ الودع جیسے اہم وقائع سیر ت کے بارہ میں اس مجموعہ میں معلومات ملتی ہیں۔
جب رسول اللہﷺدنیا سے تشریف لے گئے اور صحابہ کرام کا زمانہ آیا تو قرآن پاک تو مدون ہو گیا۔ احادیث کی تدوین کا کام بھی شروع ہو گیا۔ صحابہ کرام میں سے سینکڑوں حضرات نے اپنی زندگیاں اس کا م کے لئے وقف کر دیں کہ حضور سے جو رہنمائی ملی ہے اس کو عوام والناس تک پہنچایا جائے۔ صحابہ کرام میں سے ہر ایک کے حلقے میں سینکڑوں اور ہزاروں تابعین کا اجتماع ہوا کرتا تھا۔ وہ ان سے ہدایات اور رہنمائی لیا کرتے تھے۔ اس طرح سے علم حدیث کے سارے ذخائر تابعین تک منتقل ہونا شروع ہو گئے۔ جو صحابہ کرام علم حدیث کے ذخائر تابعین تک پہنچا رہے تھے وہ خود بھی درس و تدریس کا مشغلہ اختیار کئے ہوئے تھے۔ ان میں سے کئی صحابہ کرام ایسے تھے جنہوں نے عام مضامین حدیث کی بجائے خاص اہتمام اور دلچسپی کے ساتھ سیرت کے موضوعات پر توجہ دی اور سیرت ک موضوعات کے درس و تدریس کا مشغلہ اپنایا۔
حضرت براء بن عازب مشہور انصاری صحابی ہیں۔ ان کے بارے میں تذکرہ ملتا ہے کہ وہ صرف مغازی اور سیرت کے بارے میں املا کرایا کرتے تھے۔ ان کے شاگرد ابواسحاق السبیعی ہیں۔ انہوں نے ان سے روایات لیں اور ان کے سارے مجموعے کو مرتب کیا۔ حضرت براء بن عازب اپنا ذخیرہ معلومات املا کرایا کرتے تھے۔ ان کے بہت سے طلبہ ان کے مجموعہ احادیث وسیرت کے واقعات کو لکھتے تھے۔ ان شاگردوں میں اسحاق بھی شامل تھے۔ اس طرح سے حضرت براء بن عازب کے پاس علم سیرت کے جو کچھ ذخائر تھے وہ ان کے شاگردابواسحاق کے پاس آگئے۔ امام بخاری کی صحیح بخاری میں مغازی اور سیرت کے بارے میں درجنوں روایات ایسی ہیں جو براء بن عازب اور اسحاق کی روایت سے منقول ہیں۔ گویا براء بن عازب نے جو روایات بیان کی تھیں اور جو ابو اسحاق تک پہنچی تھیں وہ درجہ بدرجہ امام بخاری تک پہنچ گئیں ۔ اور امام بخاری نے ان کو اپنی کتاب میں محفوظ کر لیا۔
جو مستشرقین اور انکے مشرقی عقیدت مند کہتے ہیں کہ علم حدیث کا سارا ذخیرہ چوتھی صدی ہجری میں لکھا گیا ان کی غلط فہمیوں کی ایک وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ احادیث کے جو بڑے بڑے مجموعے امت میں مقبول ہوئے وہ زیادہ تر تیسری اور کچھ چوتھی صدی ہجری کے لکھے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ اس بات کو بھول جاتے ہیں یا شاید بھلا دیتے ہیں کہ زیادہ مکمل اور زیادہ بہتر کام جلدی مقبول ہو جاتا ہے اور کم درجہ کے یا ابتدائی مرحلہ کے کام سے لوگوں کو مستغنی کر دیتا ہے۔
تیسری اور چوتھی صدی ہجری تک وہ سارا مواد ایک ایک کر کے سامنے آگیا تھا جو پہلی اور دوسری صدی میں مدوّن ہوا تھا۔ حضرت براء بن عازب کا مجموعہ تو ظاہر ہے کہ دو چار سو روایات پر مشتمل ہو گا۔ ان واقعات پر مبنی ہوگا جو انہوں نے خود دیکھے۔ لیکن بعد میں آنے والے تابعین نے حضرت براء کی معلومات بھی لیں۔ حضرت خالد بن ولیدؓ سے آنے والی معلومات بھی لیں۔ بقیہ صحابہ سے بھی معلومات لیں اور ان کو یکجا کر دیا۔ تو ایک تابعی کے پاس ایک صحابی کی بجائے دس صحابہ کے مجموعے آ گئے۔ تبع تابعی کے پاس بیس صحابہ کے مجموعے آ گئے۔ تبع تابعین کے بعد جو لوگ آئے ان کے پاس اور زیادہ معلومات جمع ہو گئیں۔ یوں جب امام بخاری اور ان کے معاصرین کا زمانہ آیا تو یہ استیعاب اور استقصاء کا زمانہ تھا۔ استیعاب اور استقصاء کی وجہ سے حدیث کے زیادہ بہتر زیادہ جامع اور زیادہ مکمل مجموعے سامنے آ گئے۔ ان مجموعوں نے لوگوں کو بقیہ مجموعوں سے مستغنی کر دیا۔ یوں بقیہ مجموعوں کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ یعنی اگ کسی کے پاس صحیح بخاری موجود ہو تو اس کو یہ بیس بیس تیس تیس احادیث کے چھوٹے چھوٹے مجموعے رکھنے کی کیا ضرورت تھی؟؟
چھوٹے مجموعوں کی تاریخ اہمیت تو اپنی جگہ برقرار رہی۔ لیکن عام درسی اور تصنیفی ضروریات کے لئے بڑے مجموعوں نے لوگوں کو چھوٹے مجموعوں سے مستغنی کر دیا۔ جس طرح آج ہر جگہ حدیث کی بڑی بڑی کتابیں موجود ہیں۔ لیکن سو بچاس سال بعد شاید ان کی ضرورت نہیں ہو گی۔ کیونکہ ایک سی ڈی پر کئی کئی کتابیں دستیاب ہوں گی۔ ا ب آگے چل کر اگر کوئی کہے کہ جناب سی ڈی پر احادیث کی کتابیں تو بیسویں صدی میں مرتب ہوئی ہیں لہٰذا یہ ثابت ہوا کہ اس سے پہلے کچھ نہیں تھا۔ یہ بات غلط ہو گی کیونکہ اکیسیویں صدی کی سی ڈیوں پر جو کچھ فراہم ہوگا پچھلی صدیوں میں ہونے والے کام کی بنیاد پر ہی ہو گا۔ خلاصہ یہ کہ امام بخاری، امام ترمذی اور امام مسلم یہ حضرات جو مجموعے مرتب کر رہے تھے یہ انہی تحریری اور زبانی ذخائر کی بنیاد پر مرتب کر رہے تھے جو ان تک پہنچے تھے۔
(محاضرات قرآنی ، ڈاکٹر محمود احمد غازی)

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password