قرآن ، اسرائیلی روایات اور ملحدین کے مغالطے

3

یہ مضمون سید امجد حسین نامی ایک ملحد کے مضمون ”قرآن اور اسرائیلیات“ کا جواب ہے۔ امجد حسین نے سورہ الشعراء سے اپنی بات کا آغاز کرتے ہوئے قرآنِ کریم کے پچھلی کتابوں کے متعلق کیے گئے اِس دعویٰ کو اپنے اعتراض کی بنیاد بنایا ہے کہ قرآن وحی الہٰی کے باہم مربوط سلسلے کی حتمی شکل ہے، لہٰذا اِس کا پچھلی کتابوں سے گہرا تعلق ہے۔

 ملحد امجد حسین کا دعویٰ ہے کہ قرآنِ کریم کا سابقہ کُتبِ سماوی سے گہرا تعلق نہیں ہے کیونکہ اکثر واقعات و حادثات جو قرآن نے پچھلی کتابوں سے منسوب کر کے بیان کیے ہیں، وہ یہودی اور مسیحی کتب میں موجود نہیں ہیں۔ مزید برآں، اگر کوئی واقعات موجود بھی ہیں تو وہ ہو بہو رقم نہیں کیے جا سکے، بلکہ ردّوبدل کر دئیے گئے ہیں، جو کہ قرآن کی صحت پر سوالیہ نشان اُٹھاتا ہے۔ جو قرآنی آیات اعتراض پیش کرنے کے لیے استعمال کی گئی ہیں، وہ سورہ الشعراء کی 192 سے 196 تک کی آیات ہیں، جن میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ” یہ قرآن ربُ العالمین کا اتارا ہوا ہے۔ اس کو امانت دار روح القدس لے کر اترے ہیں۔ جنہوں نے آپ کے دل پر اِس کو اُتار دیا، تاکہ آپ لوگوں کو خبردار کرتے رہیں۔ (یہ قرآن) روشن عربی زبان میں ہے۔ بے شک اِن باتوں کی خبر پہلے نازل شدہ صحائف میں موجود ہے۔“

ملحد امجد حسین کے اعتراض کے رد میں زیادہ مشقت کی ضرورت اِس لیے بھی نہیں ہے، کیونکہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ امجد حسین محض اپنی سوچ کی کسوٹی پر کچھ ”مفروضے“ قائم کر رہا ہے، جن کا معروضی تاریخ اور سامی مذہبی فکر سے بنیادی طور پر کوئی تعلق نہیں۔ امجد حسین نے اگرچہ مستشرق ٹسڈل کی کتاب سے قرآن پر کی گئی کڑی تنقید نقل کی ہے اور قرآن کے مُبیّنہ زمینی مآخذوں کا ذکر کیا ہے، تاہم اِس کے ساتھ ساتھ اُس نے اپنے ذہن کا زہر بھی اِس کے اندر ڈال دیا ہے۔ لیکن اِس سب کے باوجود بات محض ایک دعویٰ سے آگے نہیں بڑھ سکی اور بُغض وعناد کی شکل اختیار کر گئی ہے۔

ملحد امجد حسین کا کہنا ہے کہ وہ سبھی واقعات سابقہ کُتبِ سماوی میں موجود نہیں ہیں، جو قرآن میں مذکور ہیں۔ اُس کے اِس دعویٰ کی بنیاد موجودہ ”بائبل مقدس“ ہے، جس کی 66 یا 73 کُتب کو وہ سورہ الشعراء کی آیت 196 میں بیان کردہ ”زُبُر الاوّلین“ کے مساوی شمار کر کے اپنا یہ اعتراض داغ رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ سبھی واقعات تو اُن کُتب میں موجود ہی نہیں ہیں، لہذا بقول امجد حسین: ”اس دعوے کی قلعی یوں کھل جاتی ہے کہ قرآن کو شاید خود ہی یہ پتہ نہیں کہ اس میں درج بیشتر قصے اور کہانیاں پہلے پیغمبروں کی کتابوں (توریت اور انجیل) میں نہیں بلکہ ان کتابوں کے مفسرین اور ان کے امتیوں کی جمع کردہ احادیث کی کتابوں میں مرقوم ہیں۔“

پہلی بات تو یہ ہے کہ ملحد امجد حسین کے پاس ایسی کوئی سند نہیں ہے جس سے ثابت ہو کہ قرآنِ کریم نے کتبِ سابقہ کے ذکر میں اِنہی چند ایک کُتب کو سامنے رکھا ہے، جو ملحد معترض فرض کیے بیٹھا ہے۔ دوسری بات یہ کہ خود آلِ یہود الہام کے ارتقاء پر یقین رکھتے ہیں اور یہ تسلیم کرتے ہیں کہ طبقہءِ احبار (Levites) کے زیرِ انتظام توریت کی تفسیر بھی الہامی معیار ہی رکھتی ہے، کیونکہ بنی اسرائیل کے اکثر انبیاء کا تعلق اِسی طبقہ سے تھا اور تفسیر کا یہ شعبہ بائبل کے مطابق خود موسیٰؑ سے یُوشع بن نونؑ کی طرف منتقل ہوا۔ توریت کی پانچویں کتاب، ”کتابِ استثناء“، کے باب 34 میں تحریر شدہ حضرت موسیٰؑ کی وفات کا واقعہ اور اُس پر تبصرہ جنابِ یُوشعؑ کی ہی طرف منسوب ہے۔ اگرچہ تفسیری کُتب کا معیار یہودیوں کے ہاں توریت سے نیچے ہے، تاہم اِس کے الہامی مرتبہ سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اِس کے برعکس یہودی دوسری طرف مسیحی صحائف کو ”الہامی“ ماننے کو تیار نہیں ہیں، بلکہ مسیحیت کو ”بدعتی فرقہ“ قرار دیتے ہوئے اِس کے صحائف کو گمراہی سے تشبیہ دیتے ہیں۔ اُن کے نزدیک جنابِ عیسیٰؑ مسیحِ موعود نہیں تھے، اِس لیے کسی نئے خدائی عہد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ البتہ دوسری جانب مسیحی دُنیا اِس بات کی پُرزور داعی ہے کہ ”عہد نامہ جدید“ (New Testament) نہ صرف الہامی ہے، بلکہ بائبل کا جزوِ لازم ہے اور یہودی ”عہد نامہ قدیم“ (Old Testament) پر فوقیت رکھتا ہے۔ اتنے بڑے دعوے کے باوجود حیران کُن امر یہ ہے کہ مسیحی دُنیا آج تک بائبل کے اندر موجود کُتب کی تعداد پر متفق نہیں ہو سکی۔ بعض نے ایک خاص تعداد میں کُتب کو الہامی ہونے کا درجہ دیا، تو بعض نے اُس تعداد میں اضافہ کر دیا۔ مسیحیت کے پروٹسٹنٹ فرقہ کی بائبل میں 66 کُتب ہیں، کیتھولک بائبل 73 کُتب پر مشتمل ہے اور مشرقی آرتھوڈکس فرقہ کی بائبل 81 کُتب کی حامل ہے۔

 لہٰذا یہاں اصولی معیار یہ ہو گا کہ قرآنی دعویٰ کی نوعیت کو جزوی تفصیلات کی بجائے قرآنی پیراڈائیم کے نقطہءِ ارتکاز اور فکری مُدعاء کو سامنے رکھ کر فیصلہ کیا جائے کہ کون کون سی کُتب قرآن کے پیش کردہ توحیدی معیار پر پورا اُترتی ہیں اور وحیِ الٰہی کی عکاسی کرتی ہیں۔ اِس پر مزید گفتگو آگے آ رہی ہے۔ اعتراض پر مبنی تحریر پڑھ کر معلوم پڑتا ہے کہ ملحد امجد حسین یہودی دینیات، الہٰیات اور تاریخ سے قطعاً واقف نہیں، کیونکہ اگر وہ اِن سے واقف ہوتا تو ٹسڈل کی تحقیق سے آگے بڑھ کر کچھ تفصیلات خود بھی شائع کرتا کہ کون سی یہودی کُتب میں کیا معاملات چل رہے ہیں اور اُن کا موضوع ومقصد کیا ہے۔ تاہم مصنف نے محض زہر افشانی کی، لیکن کوئی تفصیلات مہیا نہیں کیں۔ مُلحد کی آسانی کے لیے یہ معلومات یہاں درج کی جا رہی ہیں۔

یہودی دینیات ”تصورِ قانون“(תּוֹרָה) پر کھڑی ہے اور اِس سے نتھی تصورِ حیات اِسی قانون کے تابع ہے۔ چونکہ دینِ موسیٰ ؑ کی بنیاد ”توریت“ ہے، جو کہ کتابِ شریعت ہے۔ اِس لیے بنی اسرائیل کے لیے سب دینی سچائیوں کا منبع ومآخذ یہی کتاب ہے اور باقی سب تحریریں، تقریریں اور تعبیریں توریت کی تفسیر ہیں۔ توریت کو آج کی دُنیا میں The Law کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے۔ تاہم دلچسپ امر یہ ہے کہ یہودی قانون دو حصوں پر مشتمل ہے، جس کی یہ تحریری شکل ہے، جبکہ اِس کے علاوہ ایک دوسری شکل ”زُبانی قانون“ (Oral Torah یا Oral Law) کی بھی ہے، جو اپنی نوعیت میں اسلامی علمِ حدیث، تفسیر اور فقہ سے مماثلت رکھتا ہے، لیکن اِس لحاظ سے ممتاز ہے کہ اِس میں اکثر قانون سازی انبیائے کرامؑ کی جانب سے کی گئی ہے، جو آگے چل کر یہودی روایت ودرایت کا حصہ بن گئی۔ بعد ازاں، آلِ اسرائیل نے اِس کو اپنی سماجی، سیاسی، معاشی اور مذہبی زندگی میں ”Levites“ یعنی کاہنوں کے زیرِ سایہ توریت کے متوازی استعمال کرنا شروع کر دیا۔

بنی اسرائیل کا یہ عقیدہ تھا کہ حضرت موسیٰؑ کوطور پر دو طرح کی توریتیں ملی تھیں۔ ایک وہ تھی جو تحریری شکل میں موجود ہے اور ایک کو حضرت موسیٰؑ نے تحریر نہیں کیا بلکہ وہ سینہ بسینہ ہی چلتی اور منتقل ہوتی رہی۔ یہ قانون آلِ اسرائیل کی الہامی تاریخِ قانون سازی، تفسیر اور ہزار سالہ فکری ارتقاء پر محیط ہے۔ اِس کو ”طالمود“ (תַּלְמוּד) کہتے ہیں (“تالمود“ لکھنا مستعمل ہے)، جس کی دو اہم شکلیں ”تالمودِ یروشلم“ اور ”تالمودِ بابل“ ہیں۔ مزید برآں، تالمود کے دو اندرونی اہم حصے ہیں جن کے نام ”مشناح“ (מִשְׁנָה) اور ”گمورا“ (גמרא) ہیں۔

 تالمود کی قانونی شکل کو مسیحیت کی پیدائش کے وقت تک یہودی علماء نے سیل کر کے حتمی رُوپ دے دیا تھا اور اِس کے الہامی معیار کو یہود کے سبھی فرقے تسلیم کرتے تھے (سوائے آٹھویں صدی میں مشرقی یورپ میں ظاہر ہونے والے ”قرائیم“ فرقے کے)۔ تالمود کو بالآخر جب تحریری شکل میں لایا گیا اور اِس کی قانونیت (Canonization) کو حتمی قرار دیا گیا تو اِس عمل کو ”ہلاکاہ“ (הֲלָכָה) یعنی ”راستہ پر چلنے“ کا نام دیا گیا۔ یہودی ”تناخ“، جسے مسیح ”عہد نامہ قدیم“ کہتے ہیں اور جو توریت، کتبِ انبیاء، اور کتبِ حکمت پر مشتمل ہے، کے بعد ”تالمود“ یہود کی معتبر ترین کتاب ہے، جس کو یہودی عقائد کے مطابق الہامی سمجھا جاتا ہے اور یہودی علماء تالمود کی بنیاد پر کیے گئے فیصلوں کو حتمی سمجھتے ہیں۔ توریت درحقیقت شریعت کے 613 اصولوں کا مجموعہ ہے، جن میں سے اکثریت ”کتابِ استثناء“ میں وارد ہیں، جبکہ تالمود اِن اصولوں پر انبیاء اور یہودی صالحین وفقہاء کی جانب سے ڈالی گئی روشنی اور عملی تشریح پر مشتمل ایک وسیع سلسلہ ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملحد امجد حسین نے ایسا آخر کیونکر سمجھ لیا کہ قرآن نے سابقہ کُتب کے تذکرہ میں ”تالمود“ کا ادراک نہیں کیا ہو گا؟ کیا رسول اللہ (ﷺ) کے سامنے محض توریت ہی پڑھی جاتی تھی یا زُبانی قانون یعنی تالمود کو بھی بیان کیا جاتا تھا؟ اگر تو قرآن انسانی کلام ہوتا، تو محمد رسول اللہ (ﷺ) کے لیے بہت آسان تھا کہ سبھی یہودی کُتب کے سلاسل کو یہودِ مدینہ سے سُن کر قرآن میں ترتیب سے بیان کر دیتے اور اُن کی جزئیات پر بھی بحث کر ڈالتے۔ تاہم قرآنِ کریم کا ایک ایک لفظ شاہد ہے کہ قرآن کا مُدعاء یہ نہیں ہے، لہٰذا قرآن نے سابقہ کُتب کو عمومی زاوئیے سے تذکرہ کی زینت بنایا ہے اور پوری الہامی تاریخ کو ایک ’واحد سلسلہءِ وحی‘ (Organic Whole) میں پرو کر کلامِ الٰہی متصور کیا۔ اِس عمل میں چونکہ مآخذ خود خدا کا علم ہے، لہٰذا حتمی حوالہ کے طور پر ”وحیِ الٰہی“ کی سابقہ تاریخ کو اختصار کے ساتھ پیش کیا گیا اور اُن سب تفصیلات میں جانے سے گریز کیا گیا ہے کہ کون سے واقعات کن کُتب میں وارد ہوئے ہیں۔ یہ محض استدلال نہیں، بلکہ قرآن کا اپنا بیان ہے کہ کتاب اللہ میں واقعات اور حادثات کا بیان انسانیت کے ”سبق“ کے لیے ہے اور واقعاتی تفصیلات سے زیادہ اہم پیغامِ توحید وتقویٰ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن یاد دہانی کے ساتھ بار بار دعوتِ فکر بھی دیتا ہوا نظر آتا ہے۔

 ”آپ سے پہلے بہت سے مثالیں گزر چکی ہیں۔ پس آپ سب زمین میں چل کر دیکھیں کہ کیسا انجام تھا جھٹلانے والوں کا۔“ (سورہ آلِ عمران، آیت 137) ”بے شک یہ قرآن بنی اسرائیل کے سامنے وہ اصل باتیں پیش کرتا ہے، جس میں وہ زیادہ تر اختلاف کرتے ہیں۔“ (سورہ نمل، آیت 76)

 ملحد امجد حسین کی طرف سے اُٹھائے گئے اعتراض کے جواب کے لیے ہمیں قدیم تاریخ میں جانا پڑے گا تاکہ فتویٰءِ تاریخ کے سامنے کسی کو انکار کی جرات نہ ہو اور سبھی ملحدوں کی زُبان بندی یکبارگی ہی کر دی جائے۔ محمد رسول اللہ (ﷺ) نے اعلانِ نبوت 610ء میں کیا اور تب آپ (ﷺ) کی عمرِ مبارک 40 برس کے لگ بھگ تھی۔ تب تک آپ متحرک تجارتی زندگی سے کسی حد تک کنارہ کشی کر چکے تھے اور آفاقی سچائیوں اور انسانی وجود کی حقیقت پر گہرے تدبر اور تفکر کے مراحل سے گزر رہے تھے۔ تاہم معاشرتی معاملات میں آپ کی شمولیت بدرجہ اتم جاری تھی، جس کا ثبوت 608ء میں حجرِ اسود کی خانہ کعبہ میں تنصیب کا واقعہ ہے۔ جب مکہ میں پہلی وحی (سورہ علق) نازل ہوئی تو اُس کے اندر توحید وربوبیت کا جو آفاقی پیغام تھا، بالکل وہی پیغام 632ء میں نازل ہونے آخری وحی ”کہ آج ہم نے آپ کے لیے آپ کا دین مکمل کر دیا“ (سورہ مائدہ) میں بھی اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ موجود تھا۔ نہ تو کہیں انداز میں فرق تھا اور نہ ہی مرکزی فکرودینی پیغام میں کوئی جھول ظاہر ہوا۔ شروع سے آخر تک قرآن کا انداز ایک ہی رہا جو لاشریک الوہی ہستی کی جانب سے زمین پر چُن لیے گئے ”عبد“ کی طرف ترسیلِ احکامات وپیغامات کا حامل تھا، جبکہ اِس ابلاغ مابین خالق ومخلوق میں صیغہ ہمیشہ ”امر“ یعنی حکمیہ ہی رہا (حکمیہ میں ”امر ونہی“ دونوں داخل ہیں)۔

سوچنے کی بات ہے کہ اگر قرآن ایک انسانی کاوش ہوتا، جس کے مآخذ سابقہ کُتب، علاقائی کہانیاں، عرب مشاہیر کی داستانیں، عجم کے قصے اور خطے کی توہم پرستیاں تھیں، تو قرآن کا باہم مربوط اور مکمل ہونا ممکن نہ تھا۔ ایسی صورت میں نہ صرف قرآن میں بےشمار جھول پائے جاتے، بلکہ مصنف پیغام کی جامعیت اور ترسیل وترویج دونوں کے معاملے میں چُوک بھی جاتا۔ تاہم ایسا کبھی نہ ہوا، بلکہ قرآن تحریری شکل میں آنے سے پہلے بارہا عرب کے خاص وعام کے سامنے پڑھا گیا، یہودی اور مسیحی علماء کے سامنے اِس کی آیات رکھی گئیں اور اِن کو عرب کے طول وعرض میں بطورِ الہٰیاتی اورتاریخی حوالہ کے طور پر پیش کیا گیا، لیکن کیا عربی، کیا یہودی وعیسائی، کسی کو اِن آیات کی مخالفت کرنے اور کھلی کھلی دعوت کے باوجود قرآن میں سے تضاد ڈھونڈ کرلانے کی ہمت نہ ہو سکی۔ اِس پر مزید قرآن کے اِس ”چیلنج“ نے سونے پر سہاگہ والا کام کیا کہ اگر الزامات لگانے والے سچے ہیں اور قرآن کی مخالفت میں استقامت رکھتے ہیں تو اِس کلام جیسی ایک ”سورت“ ہی بنا لائیں۔ تاہم اِس چیلنج کو قبول کرنے کی ہمت کسی کو نہ ہوئی اور بڑے بڑے فُصحائے عرب کی زُبانوں پر قُفل پڑ گئے۔

 یہ تاریخی حقیقت ہے کہ قرآنی سورتوں کی  جواکثریت مکہ میں نازل ہوئی اور اِن سورتوں کی خاصیت یہ ہے کہ اِن میں اسلام کی دینی فکر، فلسفہءِ الہٰیات، دینیاتی قواعد اور تصوراتِ مابعد الطبیعات مکمل کر دئیے جا چکے تھے۔ ایسا کہنے سے مراد یہ ہے کہ اِسلام کا تصورِ توحید، تصورِ وحی، تصورِ نبوّت و رسالت اور تصورِ آخرت سبھی اپنی کامل شکل میں آ چکے تھے اور اسلام اپنی بنیادوں پر تاریخ کی مکمل روشنی میں قائم ہو چکا تھا۔ اگر کہیں کوئی ارتقاء جاری تھا تو وہ مراحل عبادات اور خانگی زندگی کے امور کے تھے، جن کا بہرحال ”عقائد“ کے ساتھ کوئی موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا تنقیدی نظر سے دیکھنے پر بھی معلوم ہو گا کہ مدینہ میں یہود کی موجودگی اور اُن سے رسول اللہ (ﷺ) کا ملنا جُلنا اِسلام کے تصوراتِ مابعد الطبیعات پر کسی قسم کا کوئی اثر نہ چھوڑ سکا۔ یہاں اعتراض یہ ہے کہ اسلام نے یہود سے بہت کچھ مستعار لیا ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہودیت کی دورِ ہجرت کے ابتدائی پانچ سالوں میں اسلام کے قُرب وجوار میں موجودگی اسلامی فکر کے اندر نہ تو کوئی اضافہ کر سکی اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی کمی لا سکی۔ تاہم قرآنی وحی کا سیاق وسباق بدل گیا اور اُن واقعات کو یہود کے ساتھ معاملات اور مذاکرات کے رُوپ میں پیش کیا جانے لگا جو اُن کی اپنی تاریخ میں آلِ اسرائیل کی غلطیاں اور گستاخیاں ظاہر کر رہے تھے۔ اِس نوعیت کی تبدیلی کو ہم اصولی (Doctrinal) تبدیلی کی بجائے ذیلی تبدیلی ہی کہیں گے۔ یہاں یہ واضح کر دیا جانا بھی ضروری ہے کہ اسرائیلیات کی صنف محض ”مدنی سورتوں“ کا خصوصی پہلو نہیں ہے، بلکہ شریعت وتاریخِ بنی اسرائیل کے حوالہ جات ”مکّی سورتوں“ میں بھی موجود ہیں، جو یثرب کے یہودیوں کے ساتھ میل جول سے پہلے نازل ہو چکی تھیں۔

اب سوال یہ اُٹھتا ہے کہ کیا رسول اللہ (ﷺ) کا یہودِ عرب سے معانقہ زمانہءِ قبل از وحی یا ہجرت سے پیشترعہدِ وحی میں رہا تھا؟ عرب میں یہود کی دو اہم بستیاں یثرب اور خیبر تھیں۔ اِس کے علاوہ یہود کا کہیں کوئی قابلِ ذکر وجود نہیں تھا۔ فلسطین میں یہودیوں کے رہنے پر پابندی تھی، کیونکہ 70ء میں رومیوں کی فتحِ فلسطین کے بعد یہودیوں کو بغاوت کے خطرہ کے پیشِ نظر خطہءِ فلسطین سے جلاوطن کر دیا گیا تھا اور دوبارہ آبادکاری کی اجازت نہیں دی گئی تھی (یہ اجازت حضرت عمر فاروق نے 638ء میں فتح بیت المقدس کے موقع پر یہودیوں کو دی تھی)۔ بعد ازاں جب رومی سلطنت نے مسیحیت قبول کی تو یہودیوں کے لیے معاملاتِ زندگی اور بھی مشکل ہو گئے کیونکہ مسیحیوں نے ”یہواہ“ کے پیروکاروں سے چُن چُن کر بدلے لیے۔ لہٰذا وہ مجبوراً مصر، یورپ، فارس اور ایشیائے کُوچک کے دُوراُفتادہ علاقوں کی طرف نکل گئے۔ عین ممکن ہے کہ عرب میں بسنے والے یہودی بھی رومی و مسیحی ظلم و استبداد سے بچنے کی خاطر صحرائے عرب کی گہرائیوں میں نکل آئے ہوں اور آباد ہو گئے ہوں۔

 ایسی صورت میں یہ امکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) کا یہودی علماء کے ساتھ کوئی باقاعدہ میل جول رہا ہوگا۔ تاہم اگر کسی یہودی فرد کے ساتھ کوئی انفرادی مُلاقات ہوئی بھی ہو تو کیا ہم اصولاً ایسی ایک، دو یا چند ملاقاتوں سے قرآنِ کریم اور احادیثِ نبوی میں موجود خالص یہودی تاریخ، علومِ تناخ وتالمود اور شریعتِ موسوی کے قوانین جیسے علومِ کثیرہ کو منسوب کر سکتے ہیں، کہ یہ سارا علم محمد (ﷺ) نے اِنہی چند ملاقاتوں میں حاصل کر لیا تھا اور آپ (ﷺ) اِن تفصیلات کو عہدِ نبوّت میں وقفہ وقفہ سے استعمال کرتے رہے؟

 کم ازکم عقلِ سلیم اِس بات کو تسلیم کرنے کی اجازت نہیں دیتی، جبکہ تاریخی تحقیق بھی اِس بات کا کوئی ثبوت فراہم کرنے سے معذور ہی رہی۔ پس یہ اعتراض کہ قرآنی اسرائیلیات درحقیقت یہودیوں سے مسلمانوں کے معانقہ کا نتیجہ ہے، نہ صرف بھونڈا ہے، بلکہ معترضین کی جہالت کو بھی ظاہر کرتا ہے۔

تاریخ شاہد ہے کہ یہودی دینیات میں زمانہءِ ما بعد از مسیح کے ارتقاء اور تالمود کی تحریری شکل میں آمد کے عمل کے اندر صحرائے عرب کے یہودیوں کا کوئی کردار نہیں تھا۔ وہ تو پہلی صدی عیسوی سے ہی باقی یہود سے الگ تھلگ ہو کر یہاں گمنامی میں آباد ہو گئے تھے اور اُن کو بعد میں ہونے والی مذہبی تبدیلیوں سے کوئی واقفیت نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ عربی کی عمومی مذہبی فضاء میں تالمود اور مدراشیم کا ذکر کہیں نہیں ملتا اور نہ ہی یہودِ عرب اِس کی موجودگی سے واقف معلوم ہوتے ہیں۔ لہٰذا یہ امر مصدقہ ہے کہ محمد (ﷺ) کے پاس تالمود کے واقعات تک رسائی کے لیے کوئی بھی مؤثر وغیر مؤثر ذریعہ سرے سے موجود ہی نہ تھا۔ پس یہ کیسے ممکن تھا کہ قرآنِ کریم کے بیان کردہ وہ واقعات جو تالمود میں بھی مذکور ہیں، وہ یہودِ مدینہ کی مذہبی داستانوں سے ماخوذ ہوتے؟

 اگر دوسری طرف مسیحیت کے متعلق بات کی جائے تو آج تک کی دو ہزار سالہ تاریخ شاہد ہے کہ مسیحیوں کو نہ تالمود سے کبھی کوئی غرض رہی ہے اور نہ ہی اُن کا علمی معیار کبھی اِس قابل ہو سکا کہ یہودی الہیات ودینیات کا احاطہ کر سکے۔ تالمود سے مسیحی علماء کو اگر کوئی غرض تھی تو اتنی ہی تھی کہ اِس کے ذخیرہ کے اندر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے لیے مناسب الفاظ استعمال نہیں کیے گئے اور اُن کی توہین کی گئی ہے۔ پس یہاں مسیحیت کا کردار دفاعِ عقیدہ کے معاملہ تک ہی محدود رہا۔

ایسی صورت میں قرآن کا بنی اسرائیل کی تاریخ سے معاملہ کرنا اور کتبِ تناخ کے ساتھ ساتھ تالمود اور مدراشیم کے اندر تک کی باتیں بیان کر دینا کسی اعجاز سے کم نہیں۔ معلوم تاریخ سے ثابت شدہ ہے کہ بائبل کا پہلا جزوی عربی ترجمہ گیارہویں صدی عیسوی میں دستیاب ہوا، جبکہ اِس سے پہلے ایسا کوئی مخطوطہ یا مصحف موجود نہ تھا جسے محمد (ﷺ) بطورِ مآخذِ اسرائیلیات استعمال کر سکتے۔

اسلامی علوم میں اسرائیلیات کی باقاعدہ شمولیت وسطی دورِ صحابہ کی بات ہے، جب کعب الاحبار اور وہب بن منبہ وغیرہ نے اپنے یہودی علمی پسِ منظرکے بل بوتے پر مسلمانوں کو اسرائیلیات کی باقاعدہ تعلیم دینا شروع کی۔ اِن اصحاب سے پہلے کوئی ایسا سلسلہ موجود نہ تھا جس سے علومِ اسرائیلیات کا حصول ممکن ہوتا۔ واضح رہے کہ یہ دونوں اصحاب زمانہءِ تابعین سے تعلق رکھتے ہیں۔ لہٰذا یہ امر طے شدہ ہے کہ محمد (ﷺ) کے لیے اسرائیلی تاریخ کے حصول کے علمی ذرائع قطعی طور پر ناپید تھے۔ اِسی طرح آپ بنی اسرائیل کے خطِ تاریخ (History Timeline) کا بھی دُنیوی ذرائع سے کوئی علم نہ رکھتے تھے۔ ایسی حساس صورتحال میں اِس امر کا کُلی امکان موجود تھا کہ آپ موسیٰؑ کو داؤدؑ کے بعد کی کوئی شخصیت قرار دے دیتے یا پھر ابراہیمؑ کو نوحؑ سے پہلے رکھ دیتے، یا ممکن ہے کہ عزیرؑ کو بُخت نصر کی تاراجِ یروشلم سے پہلے کی تاریخ میں داخل کر دیتے۔ یقیناً خالصتاً انسانی کاوش کے نتیجہ میں اِس بات کا صد فیصد امکان تھا کہ اِسی طرح کی کچھ تاریخی نوعیت کی اغلاط سامنے آ جاتیں جس سے اسلام کا پورے کا پورا دینی ”تھیسز“ ہی اُلٹ جاتا۔ تاہم ایسا نہ ہوا اور ہر بات تاریخِ بنی اسرائیل کے عین مطابق بیان کی گئی جس پر خود یہود بھی انگشتِ بدنداں تھے۔

 ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ محمد (ﷺ) کوئی مؤرخ تو نہ تھے جو فنِ تاریخ کی پیچیدگیوں سے واقف ہوتے اور جنہوں نے کسی معروف مؤرخ کی شاگردی کر کے تاریخ نگاری شروع کی ہوتی۔ آپ (ﷺ) ایک اُمّی ہستی تھے، جنہوں نے کسی بھی شعبہءِ علم یا فن کی کوئی رسمی تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ گفتگو کی اِس نہج پر پہنچ کر اِس بات کا اظہار ضروری ہے کہ قرآن نے محض اسرائیلی واقعات ہی نہیں، بلکہ زمانہءِ قدیم کی ہر چیز خطِ تاریخ کے عین مطابق پیش کی ہے۔ لہٰذا قرآنی تاریخ بائبل و تالمود کی نسبت نہ صرف صحیح ترین ہے، بلکہ یہ اسرائیلیات کے مؤرخین کی تاریخ کو بھی ہر درجہ تک درُست کرتی ہے۔ یاد رہے کہ تاریخ کے متعلق یہ دعویٰ بنا ثبوت نہیں ہے، کیونکہ ہم اِس کے ثبوت ذیل میں پیش کرنے جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر بائبل مقدس کی کتابِ پیدائش جب حضرت ابراہیمؑ کا سفرِ مصر بیان کرتی ہے توبادشاہِ مصر کو ”فرعون“ کہہ کر پُکارتی ہے۔ یہ ایک صریح تاریخی غلطی ہے، جسے اصولِ تاریخ کی زُبان میں Anachronism کہتے ہیں۔ ”اور یُوں ہوا کہ جب ابرام مصر میں آیا تو مصریوں نے اُس عورت کو دیکھا کہ وہ نہایت خوبصورت ہے۔ اور فرعون کے اُمرا نے اُسے دیکھ کر فرعون کے حضور میں اُس کی تعریف کی اور وہ عورت فرعون کے گھر میں پہنچائی گئی۔“ (کتابِ پیدائیش، باب 12، آیات 14 تا 15)

 اِسی طرح بائبل یوسفؐ کے زمانہ کا ذکر کرتے ہوئے بھی بادشاہِ مصر کو ”فرعون“ ہی کے لقب سے ملقب کرتی ہے، جبکہ یہ زمانہ حضرت ابراہیمؐ سے محض تین پُشتیں بعد کا زمانہ ہے۔ بائبل کی کتابِ پیدائش میں تحریر ہے: ”تب یُوسف نے فرعون سے کہا کہ فرعون کا خواب ایک ہی ہے۔ جو کچھ خُدا کرنے کو ہے اُسے اُس نے فرعون پر ظاہر کیا ہے۔“ (کتابِ پیدائش، باب 41، آیت 25)

دلچسپ امر یہ ہے کہ ”فرعون“ کا لقب مصری بادشاہت کے نئے دورِ سلطنت (New Kingdom) کے بادشاہ نے پندرہویں صدی قبلِ مسیح میں اختیار کیا تھا جو کہ اصلاً مصری لفظ ”پار-آ“ (عربی، فار-آ) تھا، جس کا مطلب ہے ”عظیم محل“۔ مصری بادشاہ کے لیے اختیار کیا گیا یہ خطاب مصری فرمانروا ”توت موسس“ کے دور میں سامنے آتا ہے جس کا ثبوت ماہرینِ آثارِ قدیمہ کو مصری مقبروں کی دریافتوں سے ملا ہے۔ اِس سے قبل مصر کے بادشاہ کو ”بادشاہ“ ہی کہا جاتا تھا۔ حضرت ابراہیمؑ کا زمانہ اکیسویں صدی قبل مسیح سے اُنیسویں صدی قبل مسیح کے درمیان کا ہے، لہٰذا یہ بات تاریخی طور پر مسلمہ ہے کہ مصری بادشاہ اُس دور میں کوئی بھی خطاب رکھتے ہوں، کم ازکم ”فرعون“ نہیں کہلواتے تھے۔ تاہم، اِس حقیقت کے باوجود بائبل نے ابراہیمؑ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے مصری بادشاہ کو فرعون کہہ کر ہی مخاطب کیا۔ یہ چیز قرآن کے اِس مقدمہ کو اور مضبوط کرتی ہے کہ بائبل تحریف شدہ ہے۔ جب ہم دوسری طرف یہ واقعہ قرآن میں دیکھتے ہیں، تو قرآن بائبل کی یہ غلطی درُست کرتا ہوا نظر آتا ہے، کیونکہ قرآن حضرت ابراہیمؑ کے واقعہ میں فرعون کا تذکرہ بالکل نہیں کرتا، جبکہ حضرت یوسفؑ کے واقعاتِ مصر میں مصری بادشاہ کو فرعون کہنے کی بجائے ”بادشاہ“ (عربی، ”ملک“) کے عمومی عنوان سے ہی مخاطب کرتا ہے۔ تاہم جب یہی بات حضرت موسیٰؑ کے زمانہ پر پہنچتی ہے، جو کہ پندرہویں یا چودہویں صدی قبل مسیح کا واقعہ ہے، تو مصری بادشاہ کے لیے قرآن ”فرعون“ کا لقب ہی پیش کرتا ہے، جو تاریخی تناظر میں صد فیصد درُست ہے۔

 ہم قرآن میں اِس احتیاط اور فرق کو ابھی ایک نظر دیکھ لیتے ہیں۔ ”اور بادشاہ نے کہا کہ میں نے خواب میں سات موٹی گائیں دیکھی ہیں، جنہیں سات پتلی گائیں کھا رہی ہیں۔۔۔“ (سورہ یوسف، آیت 43)

”اور اُن کے بعد ہم نے موسیٰ اور ہارون کو فرعون اور اُس کے درباریوں کی طرف اپنی نشانیوں کے ساتھ مبعوث کیا۔ پس اُنہوں نے تکبر کیا اور مجرموں میں شامل ہو گئے۔“ (سورہ یونس، آیت 75)

 پس ثابت ہوا کہ قرآنِ کریم نے بائبل وتالمود میں مذکورواقعات، تصورات اور تاریخ کی تصحیح کی ہے۔ اِس لیے جہاں جہاں بھی قرآن اور بائبل میں واقعات کے بیان میں فرق آتا ہے اور قرآن کی جانب سے اضافی معلومات فراہم کی جاتی ہیں، اُسے چربہ، غلطی، تحریف، ذاتی تخلیق یا موضوع روایت سمجھنے کی صریح غلطی نہ کی جائے، کیونکہ اِس کو ذرائع تاریخ سے کبھی ثابت نہیں کیا جا سکے گا۔ درحقیقت، قرآن کی جانب سے ایسا کیا جانا محض اصل تاریخ کا بیان ہے، کیونکہ وقت کی توڑ پھوڑ نے بائبل اور تالمود کے اندر بھی اپنے نقوش چھوڑ دئیے تھے اور وحی کے بیانات انسانی اضافوں کے بعد اپنی اصلی شکل سے ہٹ گئے تھے۔ لہٰذا اُن کو اصل شکل میں بحال کرنا ازحد ضروری تھا۔ اِسی طرح اسرائیلیات کے ایک اور اہم واقعہ کا ذکر یہاں اِسی ضمن میں ضروری ہے۔ یہ واقعہ ”ہامان“ کا ہے جس کو بائبل کی کتاب ”آستر“ (Esther) نے سلطنتِ فارس کے شہنشاہ ”ہوشیارشاہ“ (Xerxes) کا درباری اور ماہرِ تعمیرات بتایا ہے۔ دوسری طرف قرآنِ کریم ہامان نامی شخص کو مصری بادشاہ فرعون کے دربار میں رکھتا ہے اور اُس کو ماہرِ تعمیرات ہی قرار دیتا ہے۔ چونکہ بائبل پہلے لکھی گئی، لہٰذا اکثریت کا یہی ماننا ہے کہ قرآن کا نقطہءِ نظر اِس موضوع پر غلط ہے اور محمد (ﷺ) کو معاذ اللہ کسی غلط فہمی کی بنا پر ایسا معلوم ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ صدیوں سے مسیحی قرآنِ کریم کے اِس بیان کا مذاق اُڑاتے آ رہے ہیں۔ حالانکہ سچائی خود یہودونصاریٰ پر آج کھل رہی ہے اور وہ اِس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ ”آستر“ نامی کتاب، جو بائبل مقدس میں شامل ہے، ایک تاریخی افسانہ (Historical Fiction) ہے جو یہودیوں کی بُختِ نصر کے ہاتھوں ”بابل“ (Babylon) کی طرف جلاوطنی کے بعد اُن کی دلجوئی کے لیے لکھا گیا تھا۔ (حوالہ، Universal Jewish Encyclopedia – آرٹیکل: Esther)

آئیے اب اِس موضوع پر قرآن کا مقدمہ دیکھتے ہیں۔ ”فرعون نے کہا: اے ہامان، میرے لیے اُونچا محل بناؤ، تاکہ میں راستوں تک پہنچ سکوں۔“ (سورہ مومن، آیت 36) دلچسپ امر یہ ہے کہ مصر سے آثارِ قدیمہ کی چند اہم دریافتوں نے یہ عُقدہ بھی کھول دیا ہے۔ اوّل تو ”ہامان“ مصری زُبان کا ہی لفظ ہے، جد کو مصری ”ہ-م-ن“ (HMN) سے لکھتے تھے، جبکہ علمِ لسانیات کے مطابق اِس طرز کا نام فارسی الاصل نہیں ہے، کیونکہ اِس کے ہجے فارسی اصولوں پر پورے نہیں اُترتے۔ دوسری بات یہ ہے کہ آسٹریا کے شہر ویانا کے Kunsthistorisches Museum میں رکھے گئے ایک تختی نُما قدیم مصری پتھر پر واضح لفظوں میں ہامان کا نام لکھا ہے اور ہامان کو فرعون کے دربار کا ماہرِ تعمیرات ہی بتایا گیا ہے۔ لہٰذا اِس امر میں کوئی شبہ باقی نہیں رہ جاتا کہ ہامان فرعونِ مصر کے ہی دربار میں ملازم تھا۔ جو قارئین اِس حوالہ پر مشکوک ہیں، وہ Egyptian Treasures in Europe کا پانچواں حصہ دیکھ سکتے ہیں۔

اِس کے علاوہ ایک اہم استدلال جو قرآن کے حق میں جاتا ہے وہ اُؤنچی تعمیرات کی کثرت کے متعلق ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ بلندوبالا قدیم عمارتوں کے لیے سرزمینِ مصر معروف ہے، فارس نہیں۔ مصر میں انتہائی اونچے اہرام موجود ہیں، جبکہ تاریخی شہر ”لکسور“ کا شاہی محل اپنی طرز کا ایسا عجوبہ ہے جو دوہیکل ہونے کے ساتھ ساتھ فنِ تعمیر کا شاہکار بھی ہے۔ لہٰذا یہاں بھی بات صاف ہو جاتی ہے کہ قرآن نے بائبل سے مواد نقل نہیں کیا، بلکہ قرآن کا مآخذ وحیِ الٰہی ہے اور قرآن بلاشبہ بائبل میں شامل کردہ انسانی اضافوں اور اغلاط کو بھی درُست کرتا ہے۔

اِس ضمن میں تیسرا اہم واقعہ فرعون کے بحیرہِ احمر میں ڈوبنے کا ہے۔ یہ واقعہ تب پیش آیا تھا جب مصر سے خروجِ بنی اسرائیل کے وقت فرعون اپنے لاؤ لشکر سمیت اُن کا پیچھا کر رہا تھا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) حکمِ الٰہی سے بحیرہ احمر کے پانیوں پر اپنا عصاء مار کر خشک راستہ حاصل کر چکے تھے۔ ایسے موقع پر جبکہ بنی اسرائیل سمندری پانی کی فصیلوں کے درمیان چلتے جا رہے تھے، تو فرعون کو خیال گزرا کہ غلاموں کا اتنا بڑا سرمایہ یُوں ہاتھوں سے نہیں جانے دیا جا سکتا، لہٰذا سمندر کے اندر بھی پیچھا جاری رکھنا چاہیے۔ پس وہ پانی میں گھُس گیا اور اپنے لشکر سمیت وہیں غرقاب ہو گیا۔ یہاں تک بائبل مقدس اور قرآنِ مجید کا بیان تقریباً ایک جیسا ہی ہے۔ لیکن اِس سے آگے فرعون کے ساتھ کیا معاملہ ہوا، اِس پر بائبل خاموش ہے، جبکہ یہ گرہ قرآن واضح اعلان کے ساتھ 1400 سال پہلے کھول چکا ہے۔ بائبل کا بیان ہے کہ: ”اور پانی پلٹ آیا اور اُن نے رتھوں اور سواروں اور فرعون کے سارے لشکر کو جو اسرائیلیوں کا پیچھا کرتا ہوا سمندر میں گیا غرق کر دیا اور ایک بھی اُن میں سے باقی نہ چھوٹا۔“ (خروج، باب 14، آیت 28)

گفتگو کے اِس مرحلے پر سورہ یُونس کی آیت 92 خاص طور پر اہم ہے، جہاں ایک وقت میں تین الگ الگ جہتوں کو بیان کر کے اعجازِ قرآن کا ایک اور ثبوت فراہم کر دیا گیا ہے۔

”اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر سے پار کر دیا، جبکہ فرعون اور اُس کے لشکر نے سرکشی اور تعدّی سے اُن کا تعاقب جاری رکھا، یہاں تک کہ پانیوں نے آن گھیرا۔ اِس پر وہ پُکارا کہ میں ایمان لایا اُس (خدا) پر جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں، اُس کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اطاعت گزاروں میں سے ہوں۔ (کہا گیا) اب یہ (فرمانبرداری) اور پہلے سرکشی و فساد کرتا رہا؟ تو آج ہم تمہارے وجود کو تہمارے جسم میں محفوظ کر دیتے ہیں، تاکہ تو آنے والی نسلوں کے لیے نشانِ عبرت رہے، اور بے شک بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے غفلت برتتے ہیں۔“ (سورہ یونس، آیات 90 تا 92)

سورہ یُونس میں فرعون کے ماضی کے کردار اور موت کو بیان کیا گیا ہے، جبکہ وہ الفاظ بھی پیش کیے گئے ہیں جو فرعون نے اُس وقت کہے تھے جب وہ ڈوب رہا تھا۔ تاہم یہاں سب سے اہم بات جو قرآن کو بائبل سے ممتاز بناتی ہے وہ فرعون کے جسم کو محفوظ کر دینے کی پیشین گوئی ہے۔ قرآن نے واضح لفظوں میں جسم کی نجات کا ذکر کیا ہے اور ساتھ ہی کہا ہے کہ یہ بعد میں آنے والے لوگوں کے لیے ایک نشانی ہو گی۔ قرآن کا یہ بیان بائبل مقدس کے بیان سے زائد ہے اور بائبل اِس سے قطعی طور پر لاعلم ہے۔ یہاں صاف معلوم ہو رہا ہے کہ قرآنِ کریم فرعون کی لاش کے محفوظ کر دئیے جانے کا ذکر کر رہا ہے اور یہ بات زور دے کر کہی جا رہی ہے کہ دُنیا میں سرکشی کرنے والا خود ایک نشانِ عبرت بن جائے گا۔

یہاں حیران کُن طور پر جو بات قابلِ توجہ ہے وہ قرآن کا مصری فنِ حنوط سازی (Mummification) کی طرف اشارہ ہے، کیونکہ مصریوں نے فرعون کی لاش کو پانی سے نکال کر حنوط کیا اور محفوظ انداز میں اُس کے مقبرہ میں رکھ دیا تھا۔ بعد ازاں یہی لاش مصر کی ”مُردوں کی وادی“ (Dead Valley) سے 1898ء میں دریافت کی گئی۔ بعد ازاں اِس پر ایک فرانسیسی سرجن ”ڈاکٹر مورائس بوکائیے“ نے 1970ء کی دہائی میں تحقیق کی اور نتیجہ نکالا کہ اِس ممی میں موجود فرعون کی موت پانی میں ڈوب کر غوطے اور جھٹکے لگنے سے ہوئی تھی۔ ڈاکٹر مورائس بوکائیے نے ان دریافتوں کو اپنی مشہورِ زمانہ کتاب ”The Bible, the Quran and Science“ میں درج کیا، جبکہ اِس کے کچھ عرصہ بعد ہی اسلام بھی قبول کر لیا۔

 یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخرحضرت محمد (ﷺ) کو کیسے معلوم ہوا کہ فرعونِ موسیٰؑ کی لاش محفوظ کر کے مصری مقبرہ میں رکھ دی گئی ہے اور وہ ایک دن منظرِ عام پر آ جائے گی؟ یاد رہے کہ یہ واقعہ رسول اللہ (ﷺ) کی بعثت سے کم وبیش دو ہزار سال قبل پیش آیا۔ ماضی میں پیش آ چکے کسی نامعلوم واقعہ کے ذِکر کو انگریزی میں Postdiction کہتے ہیں، جو مستقبل کی طرف کی گئی پیشین گوئی سے بھی زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ بعض لوگوں نے اِس پیشین گوئی کو کسی اور انداز میں لے کر اِس پر یہ اعتراض لگا دیا کہ قرآن فرعون کے ایمان لے آنے پر اُس کی نجات اور پانی سے بچ نکلنے کی بات کر رہا ہے، حالانکہ قرآن کے سیاق وسباق اور اِس آیت کے تناظر سے کہیں بھی یہ بات ظاہر نہیں ہوتی کہ نجات سے مراد فرعون کا زندہ بچنا اور ایمان کی زندگی گزارنا تھا۔ یہودی کتاب ”مدراش ملکوت“ (Midrash Malkut) میں یہ ذکر موجود ہے کہ فرعون کو خدا نے زندہ بچا لیا۔ تاہم قرآن کا بیان اُس سے قطعی مختلف ہے اور مستقبل بعید کی طرف ایک اہم پیشین گوئی کی حیثیت رکھتا ہے۔ قرآنِ کریم میں شروع سے آخر تک فرعون کو ایک ملعون شخص کے طور پر ہی پیش گیا گیا ہے۔

 حضرت ابراہیمؑ کے والد اور  آتشِ نمرود کے حوالے سے قرآن پر کی گئی ملحد کی تنقید  پر تبصرہ ایک الگ مضمون میں پیش کیا جائے گا اس میں قرآنی مؤقف پر اُٹھائے گئے ملحدانہ اعتراضات کا پوری طرح سے ابطال سامنے آئے گا۔ اِسی طرح قرآن کے اندر پیش کردہ مسیحیت کی عمومی تصویر، بالخصوص اِس کے تصورِ تثلیث اور حضرت مریمؑ کی شخصیت وکردار کے حوالے سے بھی جامع گفتگو ایک اور مضمون (”قرآنِ کریم اور مسیحی عقیدہ تثلیث“) میں آگے گی . لہٰذا اِس سب کے یہاں دُوہرائے جانے کی ضرورت نہیں۔ تاہم اِس کا تذکرہ یہاں اِس لیے ضروری ہے کیونکہ یہ اسرائیلیات کے ہی دیگر پہلو گردانے جاتے ہیں اور موجودہ مضمون اُسی مباحثےکی ابتداء ہے۔ اُمید ہے کہ مُلحد احباب آئندہ قلم اُٹھانے سے پہلے تھوڑی تحقیق بھی کر لیں گے۔ تاہم وہ جب بھی خلوصِ دل سے معروضی تحقیق کریں گے تو اُن کے سامنے صرف ایک ہی بات ہو گی کہ: ”حق آ چکا اور باطل مٹ چکا۔ بے شک باطل کو تو مِٹنا ہی تھا۔“ (القرآن)

تحریر سید وقاص حیدر

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password