میڈیااورحساس مذہبی قوانین کو متنازعہ بنانے کی کوششیں

12

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ قادیانیوں کے غیر مسلم ہونے کا معاملہ اور ریاست کو یہ حق حاصل تھا یا نہیں ، یہ سب یہ رمضان نشریات کا ایشو ہی نہیں۔ رمضان میں سحری اور افطار کے وقت موضوع گفتگو رمضان سے متعلق یا تذکیہ نفس کے حوالے سے ہوتے ہیں۔ کسی متنازع موضوع کو چھیڑنے کی کوئی منطق ہے نہ جواز۔
حمزہ علی عباسی بظاہر معقول آدمی ہیں، اوسط سے بہتر درجے کے وہ اداکار ہیں، شائستہ لب ولہجے میں بات کرتے اور کسی گیم شو ٹائپ پروگرام کے اینکر ہوسکتے ہیں، مگر کسی دینی پروگرام کے لئے ان میں وہ اہلیت موجود نہیں جو کہ درکار ہے ۔ جب کوئی اینکر صاحب مطالعہ نہ ہو، دینی تعلیم اس نے حاصل کی ہو نہ ہی دینی کتب سے شغف رہا ہو تو وہ اپنا زیادہ انحصار مہمان علما پر کرتا اورسادہ سوالات پوچھنے پر اکتفا کرتا ہے جو عام طور سے اس کی پروڈکشن ٹیم نے بنا کر دئیے ہوتے ہیں۔
حمزہ علی عباسی کی شخصیت میں ہلکا سا وہ تاثر موجود ہے، جسے انگریزی میں میگلومینیا اور اردو میں خبط عظمت کہا جاتا ہے، اوور ایمبیشس اپروچ کہہ لیں۔ انہیں رمضان نشریات میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا ایشو چھیڑنا ہی نہیں چاہیے تھا، یہ رمضان کا ایشو ہے ہی نہیں۔ پھر اگر چھیڑ بیٹھے توضروری تھا کہ وہ اس حوالے سے کچھ ہوم ورک ، بنیادی سی ریسرچ تو کر لیتے۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں تھا، کسی بھی پڑھے لکھے شخص سے، کسی سینئر صحافی سے بات کر لیتے ، وہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے فیصلے کے پس منظر سے آگاہ کر دیتا۔ قومی اسمبلی کی وہ کارروائی کتابی شکل مین شائع ہوچکی ہے ۔ ای بک اور پی ڈی ایف میں میسر ہے، گوگل سے تھوڑی سی سرچ کر کے نکالی جا سکتی ہے۔ کچھ تیاری اگر وہ پہلے سے کر لیتے تو انہیں معاملے کو سمجھنے میں آسانی ہوتی اور ممکن ہے اتنا سادہ سوال انہیں نہ کرنا پڑتا۔
تیسری یہ بات ہے کہ اس قسم کی بحثیں ٹی وی پر یوں، پبلک کے سامنے نہیں کی جا سکتیں، کرنی بھی نہیں چاہیں۔ بعض مباحث علمی محافل میں طے کئے جاتے ہیں، عوامی سطح پر بات اگر ہو تو بہت سوچ سمجھ کر، نپے تلے انداز میں ، پہلے سے ریکارڈ کر کے اسے احتیاط سے ایڈٹ کر کے چلانا چاہیے، نہ کہ لائیو شو میں یہ بم پھوڑ دیا جائے ۔
چوتھا یہ کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا ایشو عوامی حوالے سے بہت اہم ، جذباتی اور حساس ہے۔ پاکستانی عوام نے اس مقصد کے لئے لمبی چوڑی قربانیاں دی ہیں، تین چار عشرے لگ گئے اس آئینی ترمیم کو منظورکرانے میں۔ پچاس کے عشرے میں ایک بہت بڑی اور بھرپور تحریک چلی، بعد میں بھی یہ مطالبہ چلتا رہا، آخر بھٹو صاحب کے دور میں ایک اور تحریک چلی اور پھر یہ فیصلہ ہوا کہ اس پر عوام کے منتخب فورم پارلیمنٹ میں بحث ہوگی۔ ایک طرح سے یہ ان کیمرہ سیشن تھے، سوچا یہ گیا کہ غیر جذباتی انداز ہو کر اس کے مختلف پہلوئوں پر بات کی جائے اور پھر مشاورت کے ساتھ اس مسئلے کوہمیشہ کے لئے سیٹل کر دیا جائے ۔ پارلیمنٹ میں دینی جماعتوں کے نمائندے اور مولانا مفتی محمود، مولانا شاہ احمد نورانی ، پروفیسر غفور احمد جیسی قدآور شخصیات موجود تھیں، دیگر جماعتوں میں بھی پڑھے لکھے، ماہرین قانون موجود تھے، جو کارروائی میں بھی شریک ہوتے رہے ۔ اتنے لمبے چوڑے پراسیس کے بعد جا کر وہ آئینی ترمیم کی گئی۔ اس ترمیم کے حوالے سے اور خاص طور سے قانون توہین رسالت پر پچھلے دو عشروں میں مختلف حوالوں سے بات ہوتی رہی ہے۔ کئی باقاعدہ قسم کی تحریکیں اس پر چلتی رہیں ، ہر بار ان کی سرپرستی مغربی لابیز کرتی رہیں، بعض اوقات تو مغربی ممالک کی حکومتیں باقاعدہ یا غیر رسمی طور سے اس قانون میں ترمیم کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔ ہر بار جب یہ ایشو اٹھتا، عوامی حلقوں میں خوف اور اضطراب کی لہر دوڑ جاتی کہ کہیں عالمی دبائو پر ہماری کمزور حکومتیں آئینی ترمیم نہ کر ڈالیں۔ دینی حلقے متحرک ہوتے، علما اپنا کردار ادا کرتے، پرجوش نوجوان سڑکوں پر آتے اور پھر کہیں جا کر معاملہ ٹلتا۔ جب اچانک ہی بیٹھے بٹھائے ایک اداکار نما اینکر اس معاملے کو چند منٹوں میں نمٹانے کا سوچے اورصاف نظر آئے کہ اس کی رائے پہلے سے طے شدہ ہے، وہ صرف اپنے مہمانوں سے اس پر مہر تصدیق ثبت کرانا چاہتا ہے۔ ایسی صورت حال خواہ مخواہ کا نیا عوامی طوفان اٹھانے کے مترادف ہے ۔ پنجاب سلینگ کے مطابق اڑتا تیر بغل میں لینا۔
پانچواں ایشو چینل کا رویہ ہے۔ آج ٹی وی چینل نے اپنی نشریات اور اشتہارات کا بزنس بچانے کے لئے حمزہ کو کہہ دیا کہ آخری روزے میں اس پر بات کرنا تاکہ اس پر شور اٹھے تو ہم کہہ دیں گے کہ اب رمضان ختم ہوگیا تو حمزہ عباسی سے مزید پروگرام نہیں کرایا جائے گا۔ یہ وہ انتہائی گھٹیا سوچ ہے ہے جو ہمارے چینلز کی عمومی سوچ کو ظاہر کرتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اسے روکا جاتا اور کہا جاتا کہ بھائی تمہیں رمضان کی نشریات کے لئے لایا گیا، خواہ مخواہ دانشور بننے کی کوشش نہ کرو اور سیدھا سادا پروگرام کرو۔ یہ آئینی مسئلہ ہے ، تمہاری عقل وفہم سے بالاتر۔ اگر اس مسئلے پر واقعی سنجیدہ سوال ہیں تمہارے ذہن میں تو پرائیویٹلی اس پر بات کرو اہل علم سے ، ڈسکشن کرو ان سے ۔ ایک بار تفصیلی یہ معاملہ سمجھ لو، پھر کوئی بات کرنا۔ ابھی تو اس ایشو کی الف ب بھی نہیں پتہ۔ یہ کہنے کے بجائے اسے رمضان کے آخری روزے پر تفصیلی بات کرنے کا ٹاسک دے دیا گیا۔

تحریر عامر ہاشم خاکوانی

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password