کیا زرتشت/ پارسی /مجوسی مذہب ایک توحیدی مذہب ہے ؟

1

زرتشت/ پارسی / آتش پرست/مجوسی مذہب کے ماننے والوں کا دعوٰی ہے کہ زرتشت مذہب کو غلط فہمی سے آتش پرستی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور مذہب زرتشت ہی دراصل دنیا کا پہلا عقیدہ توحید پر مبنی مذہب ہے۔ پارسی اکثر آتش پرست قرار دینے پر سیخ پا ہوتے ہیں ۔ہم  ایک اہم اور مستند  پارسی ویب سائٹ کے حوالوں سے  اس کی حقیقت پیش کررہے ہیں ۔

پارسی  سکالر لکھتا ہے  :

 “آگ کی پرستش کرنا انسان کے لئے ایک قدرتی فعل ہے ۔ کیوں کہ یہ کائنات کے چار بنیادی  اجزاء میں سے ایک جز ہے جس سے انسانی تہذیب کے ارتقاء میں مدد ملی۔ آگ ہی نے انسان کی سردی اور جنگلی جانوروں سے حفاظت کی، کھانے کو پکایا اور گندگی اور غلاظت کو ختم کیا۔ مسافروں کو راستہ دکھایا اور انسانوں کو آتش دان کے گرد اکٹھا کیا۔ آگ ہی روشنی حرارت اور طاقت کا منبع ہے۔ “

اسی طرح عیسائیوں کا ماننا ہے کہ تثلیث کا عقیدہ قدرتی ہے۔ بدھ مذہب کے نزدیک گوتم بدھ کی پوجا قدرتی اور ہندوؤں کے نزدیک ان گنت خداؤں کی پرستش قدرتی قرار پاتی ہے۔ یہ اسلام کا امتیاز ہے کہ اس نے انسانیت کو کسی غیر کی پرستش سے ازاد کرکے ایک اللہ کی عبادت کا درس دیا۔

زرتشت مذہب کے ماننے والے اکثر اپنی آگ کی عبادت کو اس طرح معنوی قرار دیتے ہیں جیسا کہ    نمرود   کے معبد میں ہمیشہ روشن رہنے والی آگ یا گرجا گھر میں روشن کئے جانے والی موم بتیاں۔  یہ محض  ایک  دھوکہ دینے کی کوشش ہے کہ گرجا گھروں میں  روشنی کے لیے جلنی والی موم بتی کی آگ  کو پارسیوں کے ہاں جلائی جانے والی آگ سے مشابہت دی جائے۔   حقیقت میں پارسی کے ہاں  اپنی عبادتوں میں آگ کی پرستش کرتے ہیں، یہ انکا بنیادی نشان ہے اور خدا کا  تعارف کہ وہ روشنی ، گرمی اور توانائی ہے۔ ہم آگے اسکا حوالہ پیش کریں گے کہ کیسے پارسی   اسکو تسلیم کرتے ہیں کہ وہ آگ کی پرستش کرتے ہیں ۔

زارادشترا (زرتشت مذہب کے بانی) نے اپنے پیغمبری صحیفے میں آگ  کو ایک نیا مطلب دیا ۔ یہ محض آتش کدے کی آگ نہیں یا یہ ایک مخصوص خدا سے متعلق نہیں بلکہ یہ ایک عالمگیر اور روحانی آگ ہے۔ زردشت کی بیان کردہ آگ کا اب ایک اخلاقی اور الوہی  مطلب بھی ہے۔ یہ انصاف کی آگ ہے۔ یہ آگ “آشا” کی ایک خُدائ صفت  کا نشان ہے۔ اس کی تطہیری صفات اب عالمگیر ہیں اور یہ آگ ذریعہ ہے جس کے ذریعے ابدی زندگی میں گناہگاروں کی تطہیر کی جائے گی ۔ یہ دانش اور آگہی کی آگ ہے۔ زردشت کا اپنے صحیفے(Gathas, Yasna 31.3) میں کہنا ہے، “جس خوشی کا تو نے وعدہ کیا ہےوہ تیری باطنی آگ اور نیکی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے(گھتاس) ۔ایوستان میں “باطنی آگ اور نیکی” کے لئے جو الفاظ  استعمال ہوئے ہیں (mainyu athra-cha asha-cha)انکا لفظی مفہوم ہے “بذریعہ ذہن وفہم ، بذریعہ آگ، اور بذریعہ آشا(نیکی)”۔ پس جب زردشت آگ کا ذکر کرتے ہیں انکی مراد خود آگہی سے بھی ہوتی ہے۔ کیوں کہ یہ روشن خیالی کی آگ ہی ہے جس کے ذریعے خدا علم اور ہمت لوگوں کو دیتا ہے۔”

ایک دعا جومخلص پارسی  روزانہ پڑھتے ہیں (گھتاس سے اقتباس شدہ) ” ، اے عقل والے، کون مجھے  مجھے پناہ دے جب کہ دغاباز مجھے نقصان پہنچانے کے درپے ہوں، سوائے تیری آگ اور دانش کے (جعفری ترجمہ)” اس  سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آگ دراصل انسان کو خدا کی طرف مرتکز کرنے والی بنیادی قوت ہے۔

پارسیوں کے ان عقائد کی روشنی میں اگر ہم انہیں توحیدی قرار دیں تو یہودی، عیسائی اور ہندو بھی توحیدی قرار پاتے ہیں۔ پارسیوں نے آگ کو خُدائ صفات کا حامل قرار دیاجیسا کہ عیسائی  عیسٰی علیہ السلام کو قرار دیتے ہیں ۔اور وہ دعاؤں میں آگ سے مدد مانگتے ہیں جیسا کہ ہندو دیوی دیوتاؤں سے مدد مانگتے ہیں اور وہ یہ دعوی کرتے ہیں کہ  انسان کو خدا سے ملانے والی قوت آگ ہے۔ یہ تمام عقائد توحید کے بجائے شرک کے مظاہر ہیں اور تمام شرکیہ مذاہب انسانیت کو خالق سے دور کرکے مخلوق کی عبادت پر مجبور کرتے ہیں۔

مذہب زرتشت میں آگ کو خدا تک پہنچنے کا ذریعہ ہی شرک کا دروازہ ہے جو عیسائیت میں حضرت عیسٰی علیہ السلام اور حضرت مریم علیہ السلام سے دعا اور  مدد مانگنے کا ہے۔

آگے چلتے ہیں :

“مقدس آگ کے تین درجے ہیں۔ زمانہ قدیم میں ہر آگ کا درجہ ایک معاشرے کے طبقے سے متعلق تھا اور ہر درجے کی الگ روحانیت اور عظمت ہے۔”

“آگ پاک اور خالص کیسے ہوسکتی ہے؟ ہر پارسی کا یہ روحانی فرض ہے کہ کائنات کے تمام اجزائے ترکیبی کو خالص رکھیں چاہے وہ مٹی ہو، ہوا ہو پانی ہو یا آگ۔ مقدس آگ وہ پاک آگ ہے جس نے کسی مردہ انسان یا کتے کو نہیں چھوا ہو۔ نہ ہی کسی انسانی مقصد مثلاً کھانا پکانے کے لئے اسکو استعمال کیا گیا ہو۔ باربی کیو کے لئے لگائ گئی آگ درحقیقت محض ایک آگ ہے پاک اور مقدس آگ نہیں۔ ایک پاک آگ،  معبد کی آگ  صرف  اک مخصوص مقصد اور  مذہبی علامت کے طور پر موجود ہوتی ہے۔ اس طرح یہ پاک قرار پاتی ہے اور مختلف رسومات کے ذریعے آگ کے تین درجوں کا تعین کیا جاتا ہے۔”

یہی دراصل شرک کی ابتداء اور انتہا ہے۔انکی  عبادت کا محور آگ ہے، یہ  اسے مقدس اور پاک گردانتے ہیں اور  انسان کو خدا سے ملا دینے والی   والی قوت قراردیتے ہیں، اس لیے یہ بات حیرت کا باعث نہیں  ہے کہ یہ  آگ کی  خوشنودی کے لیے   مختلف قسم کی  عبادات  کرتے ہیں ۔

پارسی رائٹر لکھتا ہے کہ

“پارسیوں کو شروع  سے آتش پرست تعبیر کیا جاتا رہا ہے جو کہ ایک تاریخی غلط فہمی ہے۔ اگر کوئ پارسیوں کو آگ کے گرد چکر لگاتے دیکھے تو لازمی سوچے گا یہ کیا عبادت کر رہے ہیں۔ مگر یہ حقیقت نہیں ہے۔ ہر پارسی یہ جانتا ہے کہ مقدس آگ محض ایک استعارہ /علامت  ہے۔ ایک بنیادی اعلٰی اور خوبصورت استعارہ/علامت جو کہ عبادت کے قابل ہے مگر بذات خود خدا نہیں ہے۔”

واقعی محض ایک علامت ؟

غور کریں تو بعینہ یہی عقیدہ ہمیں عیسائ مذہب میں ملتا ہے کہ مسیح اور مریم علیہم السلام کے مجسموں کے آگے سجود محض ایک علامت ہے۔ جبکہ اسکو علامت کہنا محض دھوکے بازی اور جھوٹ ہے۔ یہ خود ساختہ تعلق جو کہ مذہب زرتشت اور توحید کے مابین بنایا گیا ہے  انتہائی  بودا ہے درحقیقت زرتشت مذہب میں آگ محض ایک علامت نہیں ہے  بلکہ    پارسیوں کی مستند کتابوں کے مطابق  یہ مقدس، الوہی     اور خدا اور بندے کے درمیان ایک بنیادی  رابطے کی قوت ہے اس  لیے یہ اس قابل ہے کہ اسکی پرستش کی جائے   ، یہی وہ مبالغہ آرائی ہے  جو اسکی  فطری وجہ ہے  کہ پارسیوں کے ہاں  عبادت کا نچوڑ یعنی  دعا  آگ سے ہی مانگی جاتی ہے ۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ خود یہ  پارسی ریسرچر جس کے ہم نے اوپر حوالے پیش کیے ‘  بھی  اپنے مضمون کا اختتام اس دعا سے کرتا ہے ۔

I close this essay with one of the most beautiful of Zoroastrian prayers, an excerpt from the Atash Nyayesh, or “Reverence to Fire.” Though this prayer is not from the Gathas of Zarathushtra, it is still used by all the various groups of Zoroastrians, from reformers to traditionalists.(Darmesteter translation)

“…I bless this sacrifice and invocation, and the good offering, the beneficent offering, the offering of assistance offered unto thee, O fire, son of Ahura Mazda… may you have the right wood – may you have the right incense – may you have the right food – may you have the right fuel! May you burn in this house, may you ever burn in this house, may you blaze in this house, may you increase in this house, even for a long time, till the powerful restoration of the world, till the time of the good powerful restoration of this world.

Give me, O fire, son of Ahura Mazda, lively welfare, lively maintenance, lively living, fulness of welfare, fulness of maintenance, fulness of life; Knowledge, sagacity, quickness of tongue, holiness of soul, a good memory, and the understanding that goes on growing and the understanding that is not acquired through learning…

Give me, O fire, son of Ahura Mazda, however unworthy I am, now and forever, a seat in the bright, all-happy, blissful abode of the holy Ones. May I obtain the good reward, a good renown,and long cheerfulness for my soul.”

Nemase-te Atarsh Mazdao Ahurahe hudhao mazishta yazata!

(Hail unto you, O fire of Ahura Mazda, O beneficent and most great guardian spirit.)

دعا  کا سرسری ترجمہ:

“میں اس تحریر کا اختتام ایک مشہور پارسی دعا سے کرنا چاہتا ہوں جو کہ “آگ کی عبادت ” کا ایک حصہ ہے۔ گو یہ دعا گھتاس کا حصہ نہیں مگر یہ تمام پارسیوں میں بے حد مقبول ہے۔

میں پیش کرتا ہوں یہ عبادت، یہ قربانی، یہ اچھی پیشکش یہ رحمتوں بھری پیشکش تمھارے سامنے۔ اے آگ، اے اھورا مژدا کے بیٹے،  ہماری دعا ہے کہ تمھیں ہمیشہ درست لکڑی ملے، ہمیشہ تمھیں خوب خوشبو ملے، تمھیں ہمیشہ درست کھانا ملے، تمھیں ہمیشہ درست ایندھن ملے۔ تم ہمیشہ اس گھر میں جلتی رہو۔ تم ہمیشہ اس گھر میں بڑھتی رہو۔ ایک لمبے عرصے تک اس دنیا کی طاقتور بحالی تک۔ اس وقت تک جب تک یہ دنیا خوب طاقتور حالت پر بحال نہیں ہوجاتی۔

مجھے بخش دے اے آگ اے ایھور مژدا کے بیٹے،  گوکہ میں اس قابل نہیں ہوں ‘ ابھی اور ہمیشہ کے لیے ایک بھرپور زندگی،  فلاح اور عافیت سے بھرپور ،  ایک سرگرم زندگی، مکمل فلاح، مکمل حفاظت مکمل زندگی، علم، زیرکی، فقایت، روح کی پاکیزگی،  اچھا حافظہ اور سمجھ جو بڑھتی رہے اور سمجھ جو کہ سیکھنے سے حاصل نہیں ہوسکتی۔

 مجھے بخش دے اے آگ، اے ایھور مژدا کے بیٹے، اگر چہ میں  اس قابل نہیں ہوں ، آج  اور ہمیشہ کے لیے ،  ایک خوش، فرحت بخش اور روشن ٹھکانہ پاؤں پاکیزہ بندوں کے مسکن میں۔  مجھے ایک عمدہ انعام ملے، ایک اچھا وقار اور شہرت اور میری روح کے لئے ایک پر مسرت ٹھکانہ۔

سلام اے ایھور مژدا کی آگ، اے مہربان سب سے بڑی محافظ روح۔”

مجھے بخش دے ، اے عیسٰی، ، اے مریم، اے جبرائیل، اے رام، اے کرشنا، اے امام، اے آگ، اے ایھور مژدا….

اگر یہ سب توحید ہے تو  پھر  دنیا میں شرک نام کی کوئ چیز نہیں۔  عقل اور سمجھ والے یہی نشانیاں پارسی مذہب کی شرکیہ رسومات (بلخصوص نئے سال کے  نوروز کے میلے کے  موقع پر کی جاتی ہیں) میں بھی  دیکھ سکتے ہیں۔

 کچھ مشنریز سے جواب بن نہیں پاتا تو  جواب  میں یہ جھوٹ بولتے ہیں کہ مسلمان بھی تو کعبہ کی پوجا کرتے ہیں ، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ  اسلام میں  عیسائیوں ، ہندوؤں ، پارسیوں کی طرح کی عبادت کا کوئی سسسٹم موجود نہیں ، یہاں ڈائریکٹ  ایک اللہ کو پکارا جاتا ہے ، مثلا مسلمانوں کے ہاں اس طرح کا کوئی جملہ نہیں بولا جاتا

اومقدس آگ ، مجھے بخش دے

او پیاری مریم /مسیح میری مدد کر

آپ نے کبھی ایسا جملہ نہیں سنا ہوگا حتی کہ کعبہ کے طواف کے دوران بھی نہیں کہ

او کعبہ میری حفاظت فرما، او کعبہ مجھے بخش دے ۔

اس موضوع پر اردو میں  مکمل  تحقیق جواب  یہاں لنک سے  ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔

آخری بات  :ہم یہ واضح کردیں کہ  ہماری اس تحریر کا مقصد پارسی یا عیسائی  مذہب کی توہین کرنا نہیں  ،  ممکن ہے کہ  زردشت اللہ کا پیغمبرہو اور پارسیوں نے بھی  زردشت کی توحیدی تعلیمات کو عیسائیوں کی طرح شرک سے آلودہ کردیا ہو۔ (  زردشت مذہب کی بعض تعلیمات آسمانی مذہب کی تعلیمات سے مشابہت رکھتی ہیں  اس لیے بھی یہ بات  قرین قیاس  لگتی ہے)۔ اللہ کے تمام پیغمبروں نے یہ ہی تعلیم دی ہے کہ اللہ کے سوا کوئ اور عبادت کے لائق نہیں ہے۔

پس تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں اور سلام ہو تمام انبیاء و رسل علیہم السلام پر۔

استفادہ تحریر  ویب سائیٹ :

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password