مسلم دورمیں پارسی تہذیب،علوم و فنون کی تباہی کا افسانہ-ایک تحقیقی جائزہ

 پارسی تہذیب اور علوم فنون کی تباہی کا افسانہ

قدیم ایرانی تہذیب و زبانِ کا تاریخی جائزہ

قدیم پارسی زبان اور رسم الخط

مذہب ، ادبیات اور معاشرت ایران پر سامی/عربی اثر

پارسیوں کا علمی و روحانی بخل

مسلمانوں کے پارسیوں پر احسانات

فاتحین عرب کا پارسیوں کے ساتھ برتاو

فیضان اسلام

مسلم دور میں پارسی تہذیب اور علوم فنون کی تباہی کا افسانہ

پارسی روایات میں كیانیوں اور ساسانیوں كی حكومت كے افسانے اُن كی فتوحات، جاہ و جلال اور عیش و عشرت كے لیے ضرب المثل چلے آتے ھیں۔ جمشید كے جشن، اُس كے تخت، جام، آئینہ، انگشتری كی داستانوں نے دربارِ سلیمانی كی كہانی دلوں سے بھلا دی۔كیانیوں كی طاقت و اقتدار اور تہذیب و تمدّن پر عام ساسانیوں كی حالت كو قیاس كركے یہ فیصلہ صادر كردیا جاتا ہے كہ اُن كے پاس بھی علوم و فنون كا ایك عظیم الشان ذخیرہ ہوگا جسے فاتحینِ مابعد نے غارت كردیا ہوگا۔ چنانچہ اِسی ظن پر افراسیاب اور اسكندر اعظم كے ساتھ فاتحینِ اسلام پر بھی غارتگری كا الزام عائد كیا جاتا ہے۔ اِسی قیاس كی بنیاد پر بعض تذكرہ نویسوں نے پارسی علوم و فنون كی خیالی رفیع الشان عمارتیں كھڑی كرلی ہیں۔ بعض مورخین نے مخصوص اغراض سے قصداً اس قسم كی غلط فہمی پھیلائی ہے۔اس تخیل پردازی میں مورخین سیاسی اگربانی نہیں تو شریك غالب كی حیثیت ضرور ركھتے ہیں۔ ان كے اعجازِ مسیحی سے صرف ہندوستان كی اسلامی تاریخ كا نہیں بلكہ تمام تاریخ اسلام کا رنگ کچھ سے کچھ ہوگیا ۔
پارسی ادبیات كی غارتگری كا الزام عرب فاتحین پر زیادہ تر مجمل اور غیر معیّن طور پر لگایا گیا ہے۔۔ مثلا محمد حسین آزاد حسبِ عادت بلاحوالہ و سند عرب فاتحین كی وحشت كا ماتم كرتے ہیں. ان كا توسن خامہ ہوائی میدان میں یوں طرارے بھرتا ہے۔
’’ ریگستانِ عرب سے ایك آندھی اُٹھی، اِس كے پیچھے گرجتا بادل بجلی چمكاتا تھا….. خلاصہ یہ كہ ساسانی سلطنت كا اقبال شمشیر اسلام كی قربانی ہوگیا۔….. عالیشان آتش خانے ڈھائے گئے۔ دینی و دنیاوی كتابیں ورق ورق اڑیں اور جل كر خاك در خاك ہوگئیں۔ اس وقت میں میرے پارسی بھائی وہاں سے بھاگے اور جانوروں كے ساتھ ایمانوں كو بھی بچا لائے…..تحقیق كی آنكھیں روتی ہیں اُس گئے وقت پر جو كسی طرح نہیں آ سكتا…..ان خانہ بربادوں كے ہاں بھی تاریخ، اخلاق، افسانے، نظم و نثر سب كچھ ہوں گے۔ كیا ان كی عبارتوں كا بھی یہی سیدھا سادہ بے تكلف رنگ تھا۔ افسوس افسوس آج اُس عہد كو كہاں سے لائیں اور جو كچھ فنا ہوگیا كیونكر پائیں كہ دوستوں كو دكھائیں اور كچھ فائدہ اٹھائیں۔‘‘

ہم اِس بھیانك منظر كو تاریخ كی روشنی میں دیكھ كر فیصلہ كریں گے آیا اس كی كوئی اصلیت ہے یا محض انشا پردازانہ طلسم بندی۔ اِس بحث كی تنقیح كے لیے ہم نے ذیل كے چار پوائنٹس كا استقصا كیا ہے۔
(1) اسلام كی فتحِ ایران كے وقت ایران دولتِ علم سے تہی دست تھا۔
(2) قدیم ایرانی تہذیب اور زبان ہمیشہ سے سامی تہذیب و زبان كے زیرِاثر رہی ہے۔ خود ایرانی زبان نہایت ناقص تھی اور علوم كی متحمل نہ تھی۔
(3) پہلوی اور فارسی كی قدیم ترین کتابیں / نمونے اور ان كی كیفیت و كمیت۔
(4) اسلام کے پارسی/زرتشت مذہب اور اہل مذہب پر احسانات
(5) عربوں نے اہلِ ایران اور اُن كے علم و مذہب كے ساتھ حقیقت كیا برتاؤ كیا؟ خود پارسی اور غیرمسلم مورخین كی معتبر شہادتیں۔

قدیم ایرانی تہذیب و زبانِ کا تاریخی جائزہ

ایران قدیم نسلاً ہندو یورپ سے خواہ كچھ ہی واسطہ ركھتا ہو مگر اِس كی تہذیب و تمدّن كا رشتہ ناطہ عہدِ قبل التاریخ سےدورِ جدید تك سامی اقوام كے ساتھ رہا ہے [سامی اقوام میں اہلِ اشوریہ كلدانی، یہودی، اہلِ فینشیا، اراصی، عرب اہلِ اتھوپیا (شمالی افریقہ) داخل ہیں]۔ بالخصوص علوم و فنون میں تو ہمیشہ اِسے سامی دماغ ہی كا منّت كش رہنا پڑا ہے۔ حضرت مسیح سے آٹھ سو (800) سال پیشتر سے جب اشوریہ كلدان اور بابل كی تہذیب و تمدن كے نقارے دور دراز ممالك تك گونج رہے تھے، ایران اِن كے اثر سے محفوظ نہ رہا۔ اشوری كتبوں سے ہمیں پتہ ملتا ہے كہ آٹھ سو سال قبلِ مسیح سے چھ سو سال قبلِ مسیح تك تقریباً دو صدی ایران پر ملوك ماہ (اہل میڈیا) كے دور میں اہلِ اشوریہ كا قبضہ رہا ہے۔ پھر پیشدادی دور میں ایران غلامی كا جوا كندھے سے اتار كر نہ صرف آزاد ہوگیا بلكہ 539 قبلِ مسیح تك بابل پر قابض ہوگیا اور سلطنتِ كلدانی اور شام و فلسطین اس كے وسیع مفتوحات میں داخل ہوگئے۔ لہٰذا ایران دو صدی تك بحیثیت مفتوح اور شاید اسی قدر یا كم بحیثیت فاتح سامی تہذیب و تمدن سے متاثر ہوتا رہا۔ اِسی لیے پروفیسر براؤن صاحب پارسی قدیم كی تحقیق اور پہلوی كی تحصیل كے لیے سنسكرت كے مقابلہ میں عربی و ارامی كی اہمیت پر زور دیتے ہیں ۔(لٹریری ہسٹری آف پرشیا، جلد 1 باب 3)
پانچ صدیوں كی خاموشی:
اسكندر كے فتح ایران كے بعد سے تقریباً ساڑھے پانچ سو سال تك ہمیں زبانِ پارسی كی كوئی تحریر نہیں ملتی۔ جھوٹ یا سچ اس فاتح پر بھی یہی الزام چلا آتا ہے كہ اس نے شرفاء و علماء ایران كو قتل كردیا، شہر مسمار كرائے، تمام كتابوں كو آگ لگادی، اس كے ساتھ ہی موسیٰ بن عیسیٰ الكسروی خدائے نامہ سے ناقل ہے كہ اسكندر اپنے مطلب كی كتبِ نجوم، طب، فلسفہ، زراعت اسكندریہ اُٹھوا لے گیا اور یونانی و قبطی زبانوں میں ان كے ترجمے كرائے۔ اس كے بعد ایران علم سے خالی ہوگیا اور جلوس اروشیر تك تمام عہد اشكانی یا ملوك الطوائف میں ایران میں كوئی ایسا شخص پیدا نہ ہوا جو علم كو زندہ كرتا یا حكمت كی كوئی بات بھی سمجھ سكتا۔ (تاریخ سنی ملوك الارض – حمزہ صفہانی مطبوعہ برلن 1340ھ، صفحات 18-30-32)
یونانی تسلّط كے زمانہ میں مصنفینِ یونان نے جو كچھ ہمارے لیے چھوڑا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ اسكندر نے ایرانی مردوں كو اپنی فوج میں بھرتی كركے اور ایرانی عورتوں كو اپنے سپاہیوں، امیروں اور تمام یونانی باشندوں كے تصرّف میں دیكر ایران كی قوم كو یونان میں جذب كرلیا تھا۔ یونانی عصمت فروش عورتیں بھی كثرت سے ایران میں پڑی پھرتی تھیں (ملاحظہ ہو مضمون پروفیسر ایتھے مندرجہ ’انسائیكلوپیڈیا بریٹانیكا پرشیا، پروفیسر نوریكی تخت پہلوی)
اس تبادلہ اور تجاذب نے ایران كی ہستی من حیث القوم باقی نہ چھوڑی۔ نہ ان كا خون ایرانی رہا تھا۔ نہ ہڈی، نہ دماغ۔ پھر وہ زبان كیونكر خالص ایرانی باقی رہتی جو زمانہء حكمرانی میں ناقص رہی تھی۔
ایرانی مذہبی كتاب كھو بیٹھے:
اشوریہ كے براہِ راست اثر كے زائل ہوتے ہی ایران جہل كی تاریكی میں مبتلا ہوگیا۔ اہلِ مشرق كو مذہب دنیا كی ہر چیز سے زیادہ عزیز رہا ہے مگر ایرانی اپنی مذہبی كتاب كی حفاظت بھی نہ كرسكے اور بہت جلد اوستھا كی زبان سے ناآشنا ہوگئے۔ محققین كا اِس امر پر اتفاق ہے كہ ساری اوستھا زرتشت كا كلام نہیں۔ بعض تو یہاں تك قائل ہیں كہ اوستھا میں ایك لفظ بھی زرتشت كا نہیں۔ یہ تو شاید مبالغہ ہو، مگر اتنا مسلّم ہے كہ یہ ایك مصنف یا ایك عہد كا كلام نہیں بلكہ جرمن مستشرق گیلڈنر كی تحقیق كے مطابق عہدِ شاپور دوم یعنی 379ء تك اس میں اضافے ہوتے رہے ہیں۔ اس میں صرف ایك مختصر حصہ گاتھا جو كچھ مناجاتوں كا مجموعہ ہے، اغلباً زرتشت ہی كا كلام ہے، باقی الحاق۔
الغرض، ہمارے پاس ایران كی عہدِ عتیق كی تہا یادگار اوستھا كے اكیس ابواب میں سے صرف ایك باب گاتھا ھے۔ مگر ہم تمام الحاقاتِ مابعد كو بھی اوستھا میں شامل سمجھیں تو جو لٹریچر ہمارے پیشِ نظر ہوتا ہے وہ ایك قوم كی دماغی ترقی كا اندازہ لگانے كے لیے كافی ہونا چاہیے۔ افسوس ہے كہ ہم بلكہ پارسی حضرات بھی اوستھا كو اصل زبان میں نہیں پڑھ سكتے لہٰذا پروفیسر براؤن صاحب كی شہادت پر اكفتا كرتے ہیں۔
’’تاریخی حیثیت سے یا زرتشت كے عقائد كا مرفع اور قدیم مذہب كی یادگار ہونے كے لحاظ سے یہ كیسی ہی كارآمد كتاب ہو، مگر نہ تو یہ خوشگوار ہے نہ دلكش۔ میں اپنی نسبت تو یہ كہہ سكتا ہوں كہ ایك طرف قرآن كو جوں جوں آگے پڑھتا جاتا ہوں، لطف بڑھتا جاتا ہے اور شوق سے اُس كا مطالعہ كرتا اور اس كے مدعا كو سمجھنے كی كوشش كرتا ہوں۔ دوسری طرف اوستھا كا مطالعہ بدمزگی اور تنقس پیدا كرتا ہے اور یہ كیفیت مزید مطالعہ كے ساتھ بڑھتی جاتی ہے۔ كچھ لوگ تحصیلِ زبان، تحقیقِ مذاہب، دریافتِ آثارِ قدیمہ كی غرض سے اور بعض لوگ الہامی كتاب سمجھ كر اِسے پڑھ تو لیا كریں گے مگر مجھے تو یقین نہیں كہ اس كا ترجمہ خواہ كیسا ہی دلچسپ كیا جائے، معمولی طبیعت كے كتب بیں جو كتابیں دلچسپی كے لیے پڑھا كرتے ہیں، شروع سے آخر تك پڑھنے كی زحمت گوارا كریں گے۔‘‘(لٹریری ہسٹری آف پرشیا)
خود اوستھا پر ایمان ركھنے والے مجوسی تھوڑے ھی عرصہ میں اوستھا كے سمجھنے سے عاجز نظر آنے لگے۔ نظام الملك طوسی ’سیاست نامہ‘ میں مزدك كی بحث میں كہتا ہے ’’مزدك گفت مرا فراستادہ اند تا دین زردشت تازہ گر دانم كہ خلق معنی ژمذ د اوستا فراموش كردہ اند….. موبدان گفتند….. در ژند و اوستھا سخنان است كہ ہر سخن دہ (١٠) معنی دارد و ہر موبدے و دانائے را درا و قولے و تعبیرے بیست (٢٠)۔‘‘ {صفحہ 167، مطبوعہ پیرس 12}
اس كا سبب تاخت اسكندری كے علاوہ زیادہ تر ایرانی طرزِ تحریر كا نقص اور اہلِ ایران كی علم سے بے نیازی تھا۔ عہدِ اسكندری سے حكمتِ یونان كی جو كچھ روشنی ایران میں پہنچنے لگی تھی وہ بھی بہت جلد حكومتِ یونان كے زوال كے ساتھ زائل ہوگئی۔

قدیم پارسی زبان اور رسم الخط

پروفیسر ایتھے لکھتے ہیں 164ء تك یونانی تہذیب و تمدن كا نشان ایران سے مٹ گیا اور اس كی جگہ پھر ارامی نے لے لی۔ اسی زبان میں سكے ڈھالے جاتے تھے۔ یہ ساسانی دور تھا۔ اس عہد میں اہلِ ایران اپنے طویل خوابِ جہالت سے كچھ بیدار ہوئے۔ پہلے انسان كو مذہب كی فكر ہوتی ہے۔ انھوں نے دیكھا كہ اوستھا سمجھ میں نہیں آتی تو موبدوں كو ڈھونڈ ڈھونڈ كر اُن سے پہلوی میں اوستھا كا ترجمہ اور شرح لكھوائی جسے ژند كہتے ہیں۔ بقول پروفیسر گیلڈنر ترجمہ اصل زبان سے اُن كی ناواقفیت و جہالت كا پتہ دیتا ہے۔ تھوڑے ہی عرصہ كے بعد ژند بھی اوستھا كی چیستان بن گئی اور شرح و متن میں كوئی فرق نہ رہا۔ آخر ژند كا ترجمہ جدید پہلوی میں كرنا پڑا جسے پاژند كہتے ہیں۔
جس پہلوی میں ژند لكھی گئی ہے اور جس میں اردشیر كے كتبے پائے جاتے ہیں اس كی ایك عجیب و غریب خصوصیت یہ ہے كہ لكھتے كچھ ہیں اور پڑھتے كچھ ہیں۔ تحریر میں كثرت سے ارامی الاصل الفاظ ملتے ہیں جو صرف اسم و فعل تك محدود نہیں بلكہ حروف، اسماء اشارہ ضمائر و اعداد تك كو شامل ہیں۔ مگر پڑھنے والے اسے اور طرح پڑھتے تھے۔ مثلاً نقشِ رستم میں اردشیر بابكان بانیِ خانداں ساسانی كا یہ كتبہ جو دو قسم كی پہلوی كلدانی و ساسانی تراجم سمیت درج ہے۔
’’پنكری زنا مزدیسن بگی ارتخشتر ملكان ملكا ایران منوچتری من یزتان برا پاپكی ملكا‘‘
ترجمہ :شبیہ اوس مزدا پرست دیوتا اردشیر شاہنشاہ ایران دیوتاؤں كی روحانی اصل ركھنے والے شاہِ پاپك كے بیٹے كی۔
ایسی مثالیں برسبیل استثنا ہیں مگر پہلوی میں ارامی الفاظ كی بھرمار ہے۔
پانچ زبانیں اور سات رسم الخط:
ابن المقفع متوفی 760ء (139ھ) جو مجوسی سے مسلمان ہوا تھا، پہلوی كا بہت بڑا عالم تھا اور بہت سی مہتم بالشان كتابیں پہلوی سے عربی میں ترجمہ كیں۔ ایران كے متعلق علوم و فنون مذاہب و رسوم اور تمام معلوماتِ تاریخی و علمی كے لیے اس شخص كا كلام سند مانا جاتا ہے۔ اس كے بیان سے معلوم ہوتا ہے كہ ایران میں پانچ مختلف زبانوں اور سات مختلف رسمِ خط كا خلط مبحث تھا ہر طبقہ كے لیے علیحدہ علیحدہ زبانیں مخصوص تھیں۔ الفہرست ابن الندیم سے ہم ان كی تفصیل ہدیہِ ناظرین كرتے ہیں۔عبداللہ ابن المقفع كا بیان ہے كہ فارسی زبانیں یہ ہیں۔ پہلوی: جو پہلو كی طرف منسوب ہے۔ اس نام كا اطلاق پانچ شہروں اصفہان، ہمدان، ماہ نہاوند اور آذربیجان پر ہوتا ہے۔
دری: مداین كے شہروں كی زبان ہے۔
فارسی: زبان میں موبد اور علماء وغیرہ كے قبیل كے لوگ كلام كرتے ہیں اور یہ اہلِ فارس كی زبان ہے۔
خوذی، سلاطین اور رؤساء كی تنہائی اور عیش و جشن كی زبان ہے۔
سریانی میں غلام گفتگو كرتے تھے۔
ابن المقفع كہتا ہے كہ اہلِ فارس كے ہاں سات تحریریں جاری تھیں۔ ایك دینی رسمِ خط جس میں اوستا كے تمام حصص لكھے جاتے تھے۔ اس كا نمونہ یہ ہے….. دوسری دیش دبیریہ كہتے تھے یہ 365 حرفوں پر مشتمل تھی۔ یہ سحر، شعبدہ، فال اور رمز و معمّے لكھنے كے لیے مخصوص تھی۔ اس كا نمونہ میری نظر سے نہیں گذرا۔ تیسری كتابت كستہ میں 38 حروف تھے۔ دستاویز اور وثیقے اسی تحریر میں لكھے جاتے تھے۔ مہرون كپڑوں، پردوں، فرشوں، سكوں پر یہی منقوش ہوتی تھی۔ اس كا نمونہ یہ ہے…… چوتھی كتابت نیم كستہ تھی جس میں 68 حروف تھے۔ طب و حكمت كے لیے مخصوص تھی۔ اس كا نمونہ یہ ہے….. پانچویں كتابت شاہ دبیریہ پادشاہوں كی گفتگو كے لیے مخصوص تھی اور تمام بقایا ملك كے لیے ممنوع تھی تاكہ پادشاہوں كے راز كھلنے نہ پائیں۔ اس كا نمونہ میری نظر سے نہیں گذرا۔ چھٹی تحریر نامہ دبیریہ كہلاتی تھی۔ یہ بے نقط تھی۔ اس كے اكثر الفاظ سریانی میں لكھے جاتے تھے جو اہلِ بابل كی زبان تھی اور فارسی میں پڑھے جاتے تھے۔ اس میں 33 حروف تھے۔ یہ رعایا كے لیے عام تھی اور نمونہ یہ ہے….. ساتویں تحریر راز سہریہ تھی جس میں سلاطین اپنے راز كی باتیں لكھا كرتے تھے۔ اس كے حروف اور آوازوں كی تعداد 40 ہے۔
ان سات كے علاوہ ان كی ایك تحریر تھی راس سہریہ جس میں منطق اور فلسفہ لكھے جاتے تھے اور 24 حروف منقوط تھے۔ اس كا نمونہ میری نظر سے نہیں گذرا۔ {الفہرست ایضاً صفحہ 13}
اسی طرح حمزہ اصفہانی كا بیان ہے كہ مجوس كی تمام كتب تاریخ محرف ہوئیں’ اس لیے كہ وہ ڈیڑھ سو برس كے بعد ایك زبان سے دوسری زبان میں اور ایك خط سے جو اعداد سے مشابہ تھا دوسرے خط (پہلوی) میں نقل كی گئیں۔ اور اسی كا نتیجہ تھا كہ ایك كتاب كے ترجمے مختلف نظر آتے ہیں چنانچہ مجھے ایك خدائے ناسہ كے آٹھ مختلف ترجمے ملے۔ {سنی ملوك الارض حمزہ اصفہانی مطبوعہ برلن 1340ھ صفحہ 9}
خلاصہ یہ ہے كہ ایك ملك ایران كے مختلف علاقوں اور جدا جدا سوسائٹیوں میں علیحدہ علیحدہ مقاصد كے لیے الگ الگ پانچ زبانیں اور آٹھ رسم الخط جاری تھے اور یہی راز ہے اس عہد كے ایران كی قومی پراگندگی و تشتت اور علمی تہی دستی كا۔
اس ناقص تحریر كی دشواریاں خود ساسانی عہد میں محسوس ہوئیں اسی لیے ژند كا ترجمہ پاژند كی صورت میں كرنا پرا اور اسی سبب سے ایران كے كتبوں میں پہلوی متن كے نیچے كئی كئی ترجمے پائے جاتے ہیں۔ واقعہ یہ معلوم ہوتا ہے كہ اہلِ ایران نے فنِ تحریر (ارامی) سیكھ تو لیا مگر اس طرح ارامی الفاظ كے صرف نقوش اتار لیتے اور ان كے معنی اپنی زبان میں سیكھ لیتے تھے۔ ان كے مرادف الفاظ ان كی زبان میں ہوتے بھی ہوں گے تو ان كو لكھنا نہ آتا تھا۔ اس لیے بجنسہ ارامی الفاظ لكھتے اور پہلوی میں پڑھتے تھے۔ ایسی تحریر جس میں دو سطر كتبہ بھی بغیر دو تین ترجموں كے پڑھا جانا متعین نہ سمجھا گیا ہو، كسی لٹریچر كی حامل كیونكر ہوسكتی تھی؟ اس كو فنا ہونا تھا اور فنا ہوگئی۔ اس كے مٹانے كے لیے نہ عربوں كی تلوار كی ضرورت تھی، نہ عبداللہ بن طاہر كی آتش زنی و غرقابی كی۔
جس طور پر انہوں نے ارامی الفاظ پہلوی میں استعمال كیے ہیں اُن سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے كہ وہ ان كے صرف و اشتقاق سے ناواقف تھے كیونكہ وہ ’’لوؔ‘‘ ضمیر حاضر مرفوع كے لیے، ’’لك‘‘ ضمیر حاضر مجرور اور ’’ما‘‘ (پہلوی اما) ضمیر متكلم مرفوع كے لیے، ’’لنہ‘‘ (عربی لنا) ضمیر متكلم مجرور استعمال كرتے تھے۔ نوشتن یا بنشتن كے لیے وہ یكتبوؔن تن لكھتے تھے۔ گویا یكتبون مادّہ ہے جس میں تن علامت مصدر لگاكر مصدر بنالیا۔ اسی طرح فارسی میں رشتوں كے ناموں میں دؔر (پہلوی تر) مشترك پایا۔ جیسے پدر (پہلوی پتر) برادر (پہلوی براتر) دختر وغیرہ۔ اُنھوں نے باپ كے لیے ارابی ابؔ میں بھی تر لگادیا اور ابر بمعنی پدر لكھنے لگے۔ (ملاحظہ ہو مضمون پروفیسر نولدیكی مندرجہ انسائكلوپیڈیا بریٹانیكا بہ تحت ’’پہلوی‘‘ 12)
علیٰ ہذالقیاس بہتیرے الفاظ كے طریق استعمال سے یہ قدرتی نتیجہ نكلتا ہے كہ وہ ارامی لٹریچر سے جو یونانی علوم كا حامل تھا بالكل كورے تھے۔ فتح اسكندری سے ساڑھے پانچ سو سال تك كسی ایرانی علمی تحریر كا پتہ یا تہذیب و تمدن كا نشان نہ ملنا اور یہ حیرت انگیز تاریخی سناٹا زیادہ تر ایران كے اس نقصِ زبان و تحریر ہی كا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔
زبان كا اثر تہذیب و مذہب پر:
پروفیسر براؤن نے اس مسئلے پر بحث كرتے ہوئے نكتہ سنجی كی ہے:
’’كیانیوں كے سب سے پچھلے كتبوں كے مطالعہ سے ایك عجیب سوال پیدا ہوتا ہے۔ كیا زبان كے زوال كو قوم كے زوال سے كوئی لطیف واسطہ ہے؟ انگریزی زبان كے فاضلوں كو میں نے كہتے سنا ہے كہ اینگلوسیكسن (قدیم انگریزی زبان) كا جنگ ہیسٹنگز (1066ء) سے پہلے ہی صحیح لكھا جانا موقوف ہوگیا تھا اور نارمن حملہ سے پہلے ہی حالتِ زوال میں تھی۔ قدیم پارسی زبان كا حال بھی یہی تھا۔ چنانچہ كتبوں كی تحریر میں صیغوں تك كی غلطیاں پائی جاتی ہیں۔ زبان كے زوال كے ساتھ مذہب كے بگاڑ كے آثار بھی شروع ہوگئے۔ دارا كے كتبوں میں اہرمن خدائے واحد و قادرِ مطلق بتایا جاتا ہے مگر بعد كو وہ متھرا (مہر، سورج) اور انہتہ (ناہید:زہرہ) كے ساتھ جذب ہوگیا۔‘‘(تاریخ علوم ایران جلد 1)

مذہب ، ادبیات اور معاشرت ایران پر سامی/عربی اثر

ایرانِ قدیم پر سامی اثرات صرف زبان تك محدود نہ تھے بلكہ دینِ زرتشتی كے غائر مطالعہ سے مغربی نكتہ پردازوں نے خود اوستھا، ژند اور پاژند میں سامی اصنام پرستوں كے عقائد كی آمیزش پائی ہے۔ چنانچہ مہرلشیت 13 میں خدائے نور متھرا (مہر:سورج) كی جو تشریح ہے وہ عہدِ مسیحی میں بابل سے ماخوذ بتائی جاتی ہے۔ اسی طرح خدائے آب انہیت (ناہید،زہرہ) كو بھی جس كا بت ارنخشتہ مینمن نے نصب كركے اس كی پرستش مجوسیوں میں جاری كردی تھی۔ بابلی دیوی میلما كی نقل كہا جاتا ہے۔ (ملاحظہ ہو ژند اوستھا از ڈاكٹر میچل صفحہ 11-15، 80 الیسیز ڈاكٹر ہاگ صفحہ 176، 303، 307 یسنا (اوستھا) باب 35، 53)
انہیں فضلاءِ یورپ نے اہلِ ایران كی بت پرستی كی طرح ان كی توحید پر بھی سامی ہی اثر تسلیم كیا ہے۔ آثار عجم كے مشہور ماہر مسٹر طامس نے 1868ء میں حاجی آباد كے تمام پہلوی كتبوں كو شائع كیا اور ان سے یہ مسئلہ ثابت كیا كہ اكثر مملوك ساسانی یہود و نصاریٰ كے رب پر ایمان ركھتے تھے۔
تیسری صدی عیسوی كے آغاز كا مشہور مدعی نبوت مانی جس كی تعلیم و عقائد دسویں صدی عیسوی كے وسط تك ایران میں علانیہ و خفیہ كام كرتے رہے، 215ء میں بابل میں پیدا ہوا جہاں اس كا باپ ہمدان سے جا بسا تھا اور بابل ہی میں اس نے پرورش پائی۔ بقول البیرونی، یہ ایك شامی مسیحی راہب فادرون كا شاگرد تھا۔ مانی نے جس طرح اپنے مذہب كو مجوسی اور نصرانی ادیان سے اخذ كیا اُسی طرح اپنا مخصوص رسم خط بھی جس میں اس كے صحیفے مرقوم ہیں، سریانی اور فارسی سے استخراج كیا۔ چنانچہ ابن الندیم كا بیان ہے۔
استخرج ما فی مذھبا من المجوسیة والنصرانیة وكذالك القلم الذی یكتب الدیانات مستخرج من السریانی والفارسی… وبھذا القلم یكتبون انا جیلھم وكتب شرائع (الفہرست مطبوعہ لیزك صفحہ 328)

ادبیات و معاشرت ایران پر عربی اثر:
آخیر ساسانی دور میں بھی ایران عربی ادبیات كے اثر سے خالی نظر نہیں آتا۔ بہرام گور 438-430ء كو منذر فرمانروائے حیرہ نے فارسی، عربی، یونانی زبانوں كی تعلیم دلوائی تھی۔ وہ عربی میں بے تكلف شعر كہتا تھا۔ محمد عوفی نے اس كا عربی دیوان شعر دیكھا تھا اور لباب الالباب میں اس كے چند شعر بھی نقل كیے ہیں اور كلام عرب كے تتبع میں فارسی شعر كا موجد اسی كو قرار دیا ہے۔ (جلد 1، صفحہ 19)
بعض دفعہ عربی زبان اور معاشرت كا اثر عشق كے درجہ تك پہنچ جاتا تھا اور شانِ حكمرانی بھی اس تاثیر سے مانع نہ ہوتی تھی۔ عصرِ نبویﷺ میں مملكتِ ایران كی طرف سے یمن كا عامل خرہّ خسرو بالكل متعرب بن گیا تھا۔ عربی شعر و سخن كا چرچا اور مذاكرہ ركھتا۔ عربی طرز پر تعلیم حاصل كی۔ عربی معاشرت اختیار كرلی۔ یہاں تك كہ ایران سے اپنے تعلقات بھی منقطع كرلیے۔ آخر اسی تعرب كے جرم پر وہ معزول كیا گیا۔
ایران كا تلمذ شام و عراق سے:
پروفیسر براؤن جرمن محقق كارل بروكلمان سے ناقل ہیں كہ:
’’شام و عراق اسكندر اعظم ہی كے زمانے سے یونانی تہذیب كے زیرِ اثر رہے۔ پھر شام میں رومیوں اور بازنطینیوں كے اقتدار نے بھی اس تاثر كو جاری ركھا۔ اہلِ شام طبع زاد تصانیف كی طرف تو زیادہ مائل نہ تھے مگر اجنبی علوم و فنون پر حیرت انگیز طور سے حاوی ہو جاتے تھے چنانچہ شامی خانقاہیں ہپوكرٹیز اور گیلن وغیرہ تمام نامور مصنفین كے علوم حكمیہ كا مخزن تھیں۔ساسانی عہد میں نوشیرواں نے انھیں شامیوں سے استفادہ كركے 550ء میں جندی شاپور میں علوم حكمت و طب كی درسگاہ كھولی تھی۔ یہ گویا یونانی و شامی اشجار كا ایك پیوند تھا جو عباسی دور تك بارآور رہا۔
علوم یونان كا تیسرا مركز عراق كا شہر حرّان تھا جہاں كے باشندے مسیحی آبادی سے محصور رہنے كے باوجود اپنی قدیم سامی اصنام پرستی پر قائم رہے۔ ریاضی اور ہئیت میں یہ خاص مہارت ركھتے تھے۔ زیادہ تر قدیم شامی و بابلی علوم كے حامل تھے اور تازہ یونانی اثر بھی اسے جلا دیے بغیر نہ رہا۔
یہ تین ذرائع ہیں جن سے یونانی علوم كے ترجمے عربوں تك پہنچے۔ المنصور عباسی كے دربار میں تعلیم گاہ جندشاپور كا ایك طبیب تھا جس كے بارے میں خیال كیا جاتا ہے كہ اس نے عربی میں طب كی كتابیں ترجمہ كی تھیں۔ ہارون كے زمانے میں مشہور مترجم یوحنا بن ماسویہ خاص منزلت ركھتا تھا۔ یہ سب وہی حرّانی عرب تھے….. مگر جو ترقی علم و حكمت كی مامون كے زمانے میں ہوئی ہے اور اس كے اخلافِ قریبہ كے عہد میں جو ترجمے ہوئے ہیں انھوں نے تمام سابق كاموں كو ہیچ بنادیا اور ہمارے پاس اب صرف وہی تو رہ گئے ہیں۔‘‘(تاریخ علوم ایران )
اس عبارت سے ظاہر ہے كہ عربوں كو فتح عرب و عجم كے بعد جو قدیم علم و فن ہاتھ آیا وہ زیادہ تر ان كے سامی النسل بھائیوں ہی كے ذریعہ سے نہ كہ ایرانیوں سے۔ فتح اسكندری كے بعد تقریباً دس صدیوں تك ایك نوشیرواں كے مدرسہء جندشاپور كے سوا ایران میں كسی تعلیمی حركت كا پتہ نہیں ملتا۔ اغلباً یہاں تعلیم و تعلّم ارامی زبان ہی كے واسطے سے جاری تھا۔ پہلوی زبان ان علوم كی متحمل نہ تھی۔ اس سائنٹیفك تعلیم گاہ كا كوئی فیضان ایرانی دماغ پر تصنیف و تالیف و ترجمہ یا ایجاد و اختراع كی صورت میں نظر نہیں آتا۔ معلوم ہوتا ہے كہ ساسانیوں نے رومی اور عرب فاتحین كی طرح ابتداءً جوشِ فتوحات میں اور انتہاءً غفلتِ تعیش میں علم و حكمت میں حصہ لینا كبھی گوارا نہ كیا اور 550ء (زمانہ مدرسہء جندشاپور) اور مابعد تو ایران كے انحطاط كا دور ہے۔ اس تمدنی و اخلاقی زوال كے زمانے میں ان سے كسبِ علم كی كیا توقع ہوسكتی ہے؟(اوستھا كے پچھلے حصوں سے قریب ترین رشتہ داروں (بھائی، بہن، باپ، بیٹی وغیرہ) كے درمیان مناكحت كا جواز ثابت ہے اور مجوسیوں كا اس پر عمل رہا ہے۔ شاہی خاندانوں میں یہ رسم خصوصیت كے ساتھ جاری تھی چنانچہ خود پارسی روایات كے مطابق اردشیر بابكان كے باپ ساسان (جس سے ساسانی خاندان منسوب ہے) کا ایك بھائی بہمن اردشیر اور ایك بہن ہمائے تھی۔ ان دونوں بھائی بہنوں كی آپس میں شادی ہوگئی جس سے دارا پیدا ہوا۔ چھٹی اور نویں صدی عیسوی كے درمیان پارسی قاضی و مفتی ایسی شادیوں كی خاص ترغیب دیتے تھے۔ ملاحظہ ہو ڈاكٹر میچیل كی كتاب ’’ژند اوستھا و مذہب پارسیان‘‘ 12۔)

پارسیوں کا علمی و روحانی بخل

برہمنوں اور قرونِ وسطیٰ كے مسیحی پادریوں كی طرح علومِ ایران موبدوں اور دوسرے مذہبی پیشواؤں كے طبقے میں محدود رہے۔ بقول پروفیسر براؤن ’’ساسانی حكومت كے زوال كے زمانہ تك موبدوں كی غفلت ورزی نے اكثر غیر مذہبی و عقلی علوم كے ساتھ اوستھا كے فلسفیانہ و حكیمانہ اجزاء كو بھی دنیا سے مٹادیا۔‘‘
پروفیسر براؤن اپنی معركة الآرا تاریخ علومِ ایران میں اوستھا كی قدامت پر بحث كرتے ہوئے اسی آرین و سامی تعصب كی نسبت ایك حیرت انگیز حقیقت كو منكشف كرتے ھیں۔
’’ایك دن میں نے موسیو ہلیوی سے (جوزف ہلیوی وہ فرانسیسی مستشرق ھے جو 1870ء میں یہودی كے بھیس میں صنعاء كے مشرقی مقام جوف میں جا پہنچا جہاں 24 قبلِ مسیح سے لیكر اُس وقت تك كسی یورپی كے قدم نہیں پہنچے تھے۔ بیشمار تكالیف، خطرات و مصائب جھیلنے كے بعد یہ تقریباً سات سو نمبری كتبوں كی نقلیں لے آیا جن سے نہایت قیمتی معلوماتِ تاریخی حاصل ہوئیں) اوستھا كے تذكرے كے موقع پر سوال كیا كہ حضرت اتنے فضلاء جو اوستھا كی اتنی قدامت كے مدعی ہیں، اپنے دعویٰ پر كوئی دلیل نہیں ركھتے؟
انھوں نے جواب دیا ’’ہاں! سب سے بڑی اور كافی دلیل سامی اقوام سے اُن كی نفرت اور آریہ نژادی پر اُن كا فخر و مباہات ہے۔ یہودیوں كو آریہ نسل پر كسی قسم كی اوّلیت یا فضیلت دینے سے وہ اس قدر كارہ ہیں كہ زرتشت كے چمكانے کے لیے وہ موسیٰ پر خاك ڈالتے ہیں۔ ایك ہاتھ سے وہ صحف بنی اسرائیل كو دباتے دوسرے ہاتھ سے وہ اوستھا كو اچھالتے ہیں۔‘‘ (لٹریری ہسٹری آف پرشیا)
اگر یہ صحیح ہے تو نہایت حسرت كا مقام ہے كہ منحوس جذبہ نسلی جو دنیا میں بے شمار جرائم كا موجب رہ چكا ہے، اُس رفیع منزل كو بھی سالم نہ رہنے دے جہاں ان شہواتِ رذیلہ كو كوئی دخل نہ ہونا تھا۔ ان نسلی تعصب ركھنے والے مسیحی یا لامذہب مصنفوں سے زیادہ قابلِ تاسف ہمارے وہ مسلمان اہلِ قلم ہیں جو اپنی نسلی عصبیت كے جوش میں اپنے مذہب كی روایاتِ تاریخی پر داغِ تہمت لگانے اور جھوٹے جذبہ نسلی پر سچی حرمتِ دینی كو قربان كرنے میں تامل نہیں كرتے۔
مذہبی اجزاء كو ان كے بادشاہوں كے بخل نے بھی كچھ كم نقصان نہ پہنچایا۔ یہ قبیح رسم اخفا خود زرتشت كے زمانہ سے لیكر نوشیرواں جیسے عاقل بادشاہ كے عہد تك نظر آتی ہے۔ طبری ناقل ہے كہ زرتشت نے ایك كتاب عجیب و غریب خط میں بارہ ہزار گائے كے چمڑوں پر لكھی ہوئی پشتاسپ بادشاہِ وقت كے حضور پیش كی اور اس كے منزّل من اللہ ہونے كا دعویٰ كیا۔ بادشاہ نے اسے پایہء تخت اصطخر میں محفوظ ركھوادیا اور عام لوگوں كے لیے اس كا مطالعہ ممنوع قرار دے دیا۔ ابنِ حزم كتاب الملل والنحل میں ایك پہلوی كتاب ’’خداے نامہ‘‘ كے حوالہ سے لكھتے ہیں كہ بادشاہ نوشیرواں نے شہر اردشیر خرّہ كے سوا تمام شہروں میں مذہبی تعلیم روك دی تھی (ملاحظہ ہو مسٹر بی كے نریمان كی كتاب ’اثراتِ ایران بر ادبیاتِ مسلمانان)۔
اسی اخفا كی غرض سے مختلف طبقاتِ ملك كے لیے مختلف رسمِ خط كے شیوع كا حال ابن مقفع جیسے مستند فاضل و عاشق فہلویات كی زبان سے بھی پڑھ چكے ہیں۔ (دوبارہ ملاحظہ ہو: صفحہ 16 تا 20)

مسلمانوں کے پارسیوں پر احسانات

اوپر زبان پہلوی کی ناداری و نقائص ، قدیم علوم پارسی کی کیفیت و کمیت، ان پر عرب کی لسانی و ادبی تاثیرات و احسانات سے بحث کی گئی تھی، سطور ذیل میں عہد اسلام میں ( ساتویں صدی ہجری تک ) پہلوی اوبیات کی موجودگی اور مسلمانوں کے ہاتھ سے ان کی خدمت و حفاظت بذریعہ تراجم و اقتباس ثابت کی گئی ہے، اور مجوسیوں پر اسلام کے ورد انگیز مظالم کی حقیقت کے انکشاف پر خاتمہ کیا گیا۔
پارسی علم ساتویں صدی ہجری تک
قدیم پارسی لٹریچر جو کچھ بھی تھا اور جیسا کچھ بھی تھا ساتویں صدی ہجری تک ایران میں موجود تھا، جس کا ثبوت ہمیں عربی کی تاریخوں سے ملتا ہے، مصنفین اسلام نے ان سے استفادہ کیا ہے، ساتویں صدی کے تاتاری فتنوں میں جہاں سینکڑوں جلیل القدر فضلا اور ان کے بے بہا تصانیف تلف ہوگئیں اگر اِن کے ساتھ پارسی کی گنتی کی دس بیس کتابیں بھی ناپید ہوگئیں تو ان کا کیا شمار، مگر یہ کہنا بالکل مبالغہ نہ ہوگا کہ پارسی میں جو کچھ مواد قابل اعتنا تھا عربی میں منتقل کیا گیا تھا، فتح ایران سے ایک صدی کے اندر اندر فارسی کی، اکثر کتابیں عربی میں ترجمہ ہوچکی تھیں۔
تراجم،
ہشام بن مالک اسوی نے جو 105ھ میں تخت نشین ہوا، اپنے میر منشی جبلہ بن سالم سے جنگ رستم و اسفندیاد، داستان بہرام چوبیں اور فارسی کی بہت سی کتابیں ترجمہ کرائیں۔ اس نے 113ھ میں ایک تاریخ عجم کا ترجمہ بھی کرایا جو ایران کی مفصل و مبسوط مصور تاریخ تھی اور مسعودی نے اسے 303ھ میں شہر اصطخر میں دیکھا تھا۔
خلافت عباسیہ کے مترجم بہرام بن مروان شاہ نے خداے نامہ جو شاہنامہ کا ایک اہم ماخذ ہے حاصل کرنا چاہا تو اسے اس کتاب کے بیس نسخے مل گئے، عربی میں اس کتاب کے آٹھ مختلف ترجمے حمزہ اصفہانی کی نظر سے گذرے ہیں۔ عبداللہ بن الففع مشہور فاضل و مترجم کتب پہلوی نے بھی اس کتاب کا اور آئین نامہ ، سکیران، اور بہت سی کتابوں کا عربی ترجمہ کیا، خداے نامہ کے پانچ ترجمے پانچ شخصوں نے کیے تاریخ دولت ساسانی کا ترجمہ ہشام بن قاسم اصفہانی نے کیا اور نیشا پور کے مشہور معہ بد بہرام بن مروان شاہ سے اس کی اصلاح و تصحیح کرائی۔
دیگر کتب پارسی:
ان عربی ترجموں کے علاوہ ہمیں عرب مصنفین کی کتابوں سے بہتیری قدیم پارسی کتابوں کا پتہ ملتا ہے اشکانی دور ( 300ء قبل مسیح لغایۃ 226ء ) تک کا سرمایہ علم حمزہ اصفہانی کے زمانہ تک یعنی 350ھ تک ایران میں موجود تھا۔ وہ کہتا ہے کہ عہد ملوک الطوائف ( اشکانیاں ) میں کتاب فردک،کتاب سند باد، کتاب برسناس، کتاب شیماس وغیرہ لکھی گئیں جو آج لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں اور ان کا شمار ستر کے قریب پہنچتا ہے اس کے الفاظ میں” ففی ایامھم و کتاب سند باد و کتاب برسناس و کتاب شیماس وما اشبھم من الکتٰب التی تبلغ عددھا قریبا من سبعین کتاباً ”جب اشکانیوں کے عہد قحط الرجال و طوائف ملوکی کی ستر کتاب چوتھی صدی ہجری میں موجود تھیں تو اس سے قریب تر عہد ساسانی کے علوم کیوں غارت ہونے لگے تھے ۔
دوسرے پارسی اجزاء و رسائل جو عہد اسلام میں موجود تھے اور اسلامی کتابوں میں مذکور ہیں ان میں سے چند کے نام یہ ہیں۔
شہر زادہ پرویز ( ارد شیر کے خود نوشت و قائع )، کارنامہ ، نوشیرواں، مذدک نامہ، بہرام وزسی نامہ، کتاب التاج، کارنامہ ارد شیر، بابکان ( شاہنامہ کا دوسرا اہم ترماخذ)، جاما سپ نامہ، آئیں بہمن، واراب نامہ، دانش افزائے نوشیروانی، مؤلفہ بزرگ مہر ( بزر چمہر ) پاستان نامہ ، دانشور نامہ، خرد نامہ، بقول صاحب مجمر الفصحا، فردوسی آثار و افعال ملوک عجم راازاں نامہا بدست آوردہ”
(سنی ملوک الارض صفحۃ 1-30 اس دعوے کا ذمہ دار حمزہ اصفہانی، تمام مؤرخن متفق ہیں کہ اس تاریک عہد میں کوئی علمی حرکت ظاہر نہیں ہوئی۔ )
پارسی ادبیات کی اس لمبی فہرست سے یہ نہ سمجھ لینا چاہیئے کہ یہ سب عہد ساسانی کا سرمایہ تھیں، معدودے چند کے سوا جن کی تصریح پچھلے اوراق میں کی جاچکی ہے اکثر کتابیں عہد اسلام کی تالیفات ہیں، اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اسلام کی عالم افروز روشنی سے مجوس بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہے، ایک طرف نو مسلم ایرانی عربی تصنیفات میں مصروف ہوئے تو دوسری غیر مسلم ایرانی پہلوی جدید میں تالیفات کی طرف متوجہ ہوئے، جن پر اسلام کا اثر نمایاں نظر آیا ہے، ان پارسی تصنیفات کا سلسلہ آٹھویں صدی ہجری تک جاری رہا۔
تاریخ ایران کا یہ ذخیرہ عہد غزنوی تک ایران میں عام تھا، مؤرخین اسلام طبری، مسعودی، دینوری، یعقوبی، حمزہ اصفہانی، ابو معشر، موسٰی ابن عیسٰی الکسروی اور ابن حقول نے ان سے استفادہ کرکے ایران کی تاریخیں مرتب کیں، ان میں سے اکثر فردوسی کے وقت تک تصنیف ہوچکی تھیں۔ اور اس نے ان سے پورا پورا استفادہ کیا ہے اگرچہ اقرار نہیں کرتا۔ (اوراق ماسبق، میں تفصیل گذرچکی اس مسئلہ پر شعر العجم حصہ 4، اور زیادہ تر تاریخ علوم ایران پروفیسر ہراون جلد اول میں محققانہ بحث کی گئی ہے۔)
خود سرجان ملکم جو فاتحین عرب پر ادبیات عجم کی وحشیانہ تباہی کا الزام عائد کرتے ہیں، شاید یہ بھولے سے ایک جگہ فرماجاتے ہیں۔
” اجزائیکہ مضامین شاہنامہ ازاں گرفتہ شدہ است در زبان پہلوی بود ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بعد از تالیف و ترتیب شاہانہ نسخہائے قدیم بہ بے اعتنائی از میان رفتہ است و اگر ہم احیاناً حفظ شدہ باشد محتمل است کہ در خزانہ سلاطین غزنوی بودہ است ، دریں صورت باید در فتنہ غوریاں کہ غزیں بیاد نہب و تاراج رفت ایں اجزاء، تیراز دست رفتہ و ضائع شدہ باشد۔”( تاریخ ایران جلد اول صفحہ 65)
اوپر کی تفصیل ایک اشارہ ہے اس طرف کے مسلمانوں نے پارسی ادبیات کی کیسی خدمت کی، کس طرح تراجم و التقاط و استفادہ سے ان کو محفوظ کیا جس کے بغیر شاید آج پارسی کی کتابوں کے نام سے بھی دنیا آشنا نہ ہوتی، اس حقیقت پر نظر کیجیئے، خود معترض کے فقرہ بالا کو پڑھیئے، پھر فاتحین اسلام کے خلاف ان کی وہ ہنگامہ آرائی ملاحظہ فرمائیے جو تمہید میں مذکور ہوئی، اور فیصلہ کیئے کہ سرجان ملکم کا یہ کہنا کہاں تک صحیح ہے کہ جاہل فاتحین اسلام نے پارسیوں کے تمام علوم ملیامیٹ کردیئے۔

فاتحین عرب کا پارسیوں کے ساتھ برتاو

یہ اعتراض کہ فاتحین عرب نے ایرانیوں کی پامردانہ مدافعت سے طیش میں آکر ایران کے شہروں کو مسمار کردیا، آتشکدوں کو آگ لگا دی پُجاریوں اور موبدوں کو تلوار کے گھاٹ اُتار دیا اور پارسی ادبیات کے ساتھ ان کے قابضوں کو بھی مٹا دیا۔ کیا خوب ہوکہ سنگین الزام کا جواب خود پارسی فاضل کی زبان قلم سے ادا ہو۔ کیونکہ۔الفضل ماشھدت بہ الاعداء
غیر مسلم پارسی محققین کی شہادت:
پروفیسر نریمان:
مسٹر نریمان موصوف الصدر نے ایک روسی مستشرق موسیوانوسٹرانزیو کی محققانہ روسی تصنیف سے انگریزی میں ایک ترجمہ شائع کیا ہے اور آکر میں اصل ماخذوں کا ترجمہ بھی ضم کردیا ہے۔ اس کا نام ہے ادبیات اسلام پر ایرانی اثرات “ایرانین انفوئنس آن مسلم لٹریچر”
ایک طرف سرجان ملکم اور پروفیسرحسین آزاد اپنے ” پارسی بھائیوں کے علوم و فنون اور تہذیب و تمدن ہی نہیں بلکہ ان کا ایمان اور مذہب عربوں کے ہاتھوں غارت ہونے پر رقت انگیز نوحہ خوانی میں مصروف نظر آتے ہیں، دوسری طرح اُن کے ” پارسی بھائی ” فرماتے ہیں:
“غیر محققانہ طلاقتِ لسانی اور دل خوشکن مقری کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ عربوں نے تہذہب ایران کے دماغی اور جسمانی تمام شعبوں پر ایسی جھاڑو پھیر دی کہ مجوسیوں کے متعلق کوئی معتبر ذریعہ معلومات باقی نہیں رہا۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خود ایران پر عربی ادبیات عربوں کے ہاتھوں ایرانی تہذیب و تمدن کے مٹائے جانے کی بے بنیاد کہانی کا ابطال کررہی ہیں۔ تاریخ کے متفرق شعبوں اور جغرافیہ سائنس و فلسفہ پر عربی تصانیف ایرانی تہذیب و تمدن کی تاریخ کے لیے وسیع مواد بہم پہنچاتی ہیں۔”
یہ خود مسٹر زیمان کے مقدمہ یادیباچہ کے الفاظ ہیں، کتاب کے حصہ ترجمہ میں روسی مصنف سے نقل کرتے ہیں۔
ایرانیوں کی فاتحانہ حیثیت مفقود ہونے کے بعد بھی اُن کے پیشوایانِ مذہب کی وقعت و حرمت ایرانیوں اور عربوں کی نظر میں یکساں قائم رہی۔ اسی طرھ دہقانوں کی جماعت کا رتبہ بھی علی حالہ برقرار رہا، اور یہ دہقان ایرانی روایتوں کے حامل تھے، فتح ایران کے بعد سالہا سال تک عرب آثارِ صناوید عجم کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے رہے اور اپنی تصانیف میں وضاحت کے ساتھ اُن کے بیانات چھوڑ گئے ہیں۔ چنانچہ اصطخری و ابن حوقل جو پانچویں صدی کے آغاز کے مصنف ہیں، بتاتے ہیں کہ تمام مدتِ عہد اُموی میں کرمان کے اکثر مقامات کے باشندے کھلم کھلا اپنے دین ( آتش پرستی ) پر قائم تھے، باشندگان فارس کا حصہ غالب آتش پرست تھا اس صوبہ کا کوئی قریہ اور گاؤں تک آتشکدہ سے خالی نہ تھا، قدیم محلات ، قلعے، آتشکرے تمام فارس میں پھیلے ہوئے تھے، مقدسی کا بیان ہے کہ شیراز کا آتش پرستوں کے لباس کے لیے کوئی امتیازی علامت نہ تھی اس سے پتہ چلتا تھا کہ اس زمانہ میں اور مسلمان رعایا میں کوئی فرق نہ تھا، بے شبہہ فتح اسلام کے بعد پارسیوں کی حالت نسبتاً اچھی تھی، کبھی کبھی کوئی چیز انہیں صدمہ پہنچاتی تھی تو وہ اور اور ادیان و مذاہب کا جوش تعصب اور سازشیں ہوتی تھیں، اگرچہ وقتاً فوقتاً امرائے دولت کے مدارج تک پہنچکر بڑے برے کارنامے انجام دے لیتے تھے، مگر بالعموم یہ جماعت الگ تھلگ اور سیدھی سادی زندگی بسر کرنے کی عادی تھی۔ اسی سبب سے یہ اپنے خصائص قومی اور شعار قدیمی پر قائم رہ سکی۔ استداد زمانہ کے بعد ان کی زندگی خراب سے خراب تر ہوتی ئی۔ ان میں سے ایک ٹولی بتدریج مغربی ہند میں جارہی۔ تمام پارسی ادبیات میں صرف ایک مقام پر ہم ترکِ وطن کا ذکر پاتے ہیں مگر وہاں بھی اسقدر مبہم ہی کہ اصل واقعہ کا صرف دھندلا سا نشان معلوم ہوتا ہے۔ اس کتاب کا نام قصہ سنجان ہی اور سولھویں صدی عیسوی کے آخر کی تصنیف ہے۔ لہذا اسے قدیم گپوں کی ایک بقیہ گونج سمجھنا چاہیئے، بہر حال اس کتاب کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے تسلط کے بعد پارسی ایک سو سال تک پہاڑی علاقوں میں بسر کرتے رہے۔ پھر مرکز کو منتقل ہوکے وہاں سے گجرات میں جابسے۔ پھر اور تارکان وطن بھی خراسان سے آملے۔ اس سے بھی اتنا ضرور ثابت ہوتا ہے کہ پارسیوں کا ترک وطن تدریجی تھا۔ ورنہ یکبارگی اجتماعی ترک وطن کی صورت میں عربی تصانیف سے کوئی سراغ ملنا چاہیئے تھا۔ اس کے علاوہ یہ بھی مسلم ہے کہ ان کے معتدبہ تعداد اپنے وطن ہی میں رہی جن کی اولاد ایران ککے موجودہ گبر ہیں۔(اصل تصنیف یعنی متن کمیاب ہی ، فرانسیسی اور پھر انگریزی میں ترجمے ہوئے ہیں، انگریزی ترجمہ اب سے ایک صدی پیشتر سر ولیم اوسلی نے کیا۔)

طبرستان کے اسپہباد جو خاندان ساسانی کے فوجی گورنر تھے۔ فتح ایران کے بعد پوری ایک صدی 760ء تک آزادانہ اپنے ملک میں خود مختار حکمرانوں کی حیثیت سے حکومت کرتے رہے۔ ان کے سکے آجتک موجود ہیں۔ پھر اس زمانہ میں پارسیوں کا ایک محفوظ پارسی حکومت کو چھوڑ کر ہندوستان میں بیکسانہ و مضطربنانہ ہجرت کرنا قرین قیاس نہیں۔ مصنف موصوف اسی سلسلہ میں رقم طراز ہے۔
“مندرجہ بالا بیان سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ عربوں کی فتح ایران کے بعد کئی صدیوں تک پارسی روایات ادبیہ اپنی قومی شکل میں موجود تھیں۔
عرب مصنفین قدیم فارسی کتابوں کے تلاش میں پارسی موبدون تک پہنچا کرتے، اور کامیاب ہوتے تھے ۔ ۔ محض انہی عرب مصنفین کی بدولت آج علمی مواد دنیا پر باقی رہ گئے ہیں جن مین سے بعض ساسانی عہد کی کتابوں کے ( عربی ) ترجمہ ہیں ۔ ۔
ابن حوفل گیارھویں صدی کے وسط میں گذرا ہے۔ وہ ایک جگہ لکھتا ہے کہ آج فارس میں کوئی صوبہ یا شہر بلکہ گاؤں نہیں جہاں آتشکدے نہ ہوں۔ ۔ یہ بڑے خوشخال ، تجارت پیشہ، اور جہازران ہیں ۔ ۔ یہ آفرید کے نام سے عہد اسلام میں زرتشتی مذہب سے ایک فرقہ قائم ہوگیا تھا۔ اس کے واقعات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں زرتشتیوں کو صرف اپنی مذہب پر قائم رہنے ہی کا اختیار نہ دیا گیا تھا بلکہ البیرونی کے بیان کے مطابق قدیم زرتشتی اور یہ جدید فرقہ دونوں خلفاء کے زیر سایہ دوش بہ دوش شاد و مطمئن زندگیی بسر کرتے تھے۔
حمد اللہ مستونی نزہتہ القلوب میں چودھویں صدی عیسوی کا مشاہدہ بیان کرتا ہے کہ الشتر میں ایک قدیم آتشکدہ ہے جس کا نام اروھش ہے تشیز کے قریب پرانے قلعے ہیں جن میں سے ایک کا نام آتش گاہ ( آتشکدہ ) ہے۔۔مقدسی کا بیان ہے کہ آتش پرست یہود و نصاریٰ کی طرح اہل کتاب کے حقوق رکھتے ہیں۔”
پروفیسر براؤن:
اب ذرا ایران کی قوم اور علوم کے مسلم الثبوت شیدائی پروفیسر براؤن صاحب کی زبان سے بھی پارسیوں کے ساتھ عربوں کے برتاؤ کا حال سُن لیجیئے۔ وہ اپنی مشہور تصنیف تاریخ علوم ایران میں فرماتے ہیں۔
اکثر کہا جاتا ہے کہ غازیان اسلام دو چیزیں پیش کیا کرتے تھے۔ کہ ان میں سے کوئی ایک اختیار کرلو۔ قرآن یا تلوار، مگر حقیقت یہ نہ تھی، مجوسیوں ، عیسائیوں، اور یہودیوں سبب کو اپنے اپنے دین پر قائم رہنے کی آزادی تھی، صرف جزیہ ادا کرنا پڑتا تھا۔ جو بالکل منصفانہ انتظام تھا، کیونکہ خلفا کی غیر مسلم رعایا قانوناً فوجی خدمت اور ادائے صدقات سے بری تھی مگر مسلمانوں پر دونوں چیزیں مذہباً فرض تھیں۔ ۔ بحرین میں پارسی زبان اور اس کے کچھ ہموطن مسلمان ہوگئے اور باقی فی مرد بالغ ایک دینار جزیہ قبول کرکے اپنے دین زرتشتی پر قائم رہے، مجوسی اور یہودی اسلام کے سخت دشمن تھے اور جزیہ دینے کو ترجیح دیتے تھے۔ ۔
” جو شہر مسلمانوں کی مدافعت میں زیادہ مزاحم ہوتے۔ خصوصاً وہ شہر جو ایک دفعہ ہتھیار ڈال دینے کے بعد دوبارہ بغاوت کر بیٹھتے۔ ان کا بچنا آسان نہ تھا۔ بالخصوص، آخر الذکر صورت حال میں قابلِ جنگ مرد یا کم از کم جو مسلح پائے جاتے۔ تہ تیخ کردیئے جاتے اور ان کی عورتیں اور بچے اسیر کر لیے جاتے تھے۔ تاہم یہ نہیں معلوم ہوتا کہ مجوسیوں پر مجوسی ہونے کی بناء پر کوئی ظلم کیا گیا ہو یا ایران کو بزور مسلمان بنایا گیا ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس میں شک نہیں کہ عرب میں نو مسلم اور اسیرِ جنگ ایرانیوں کے غیر محدود ہجوم نے حضرت عمر کو کچھ متفکر کردیا تھا۔ چنانچہ آپ نے فرمایا تھا کہ ” الہی ان اسیران جلولہ کی اولاد سے تیری پناہ! ” اور درحقیقت واقعات نے آپ کے تردد کو بجا ثابت کردیا۔ آپ انہیں ایرانی اسیروں میں سے ایک کے خنجر سے شہید ہوئے جسے عرب ابو لؤلؤ کہتے تھے۔ ایران کےک زیادہ متعصب شیعی آج تک اسی حادثہ کو مسرت کے ساتھ یاد کیا کرتے ہیں اور کچھ ہی عرصہ ہوا کہ ” عمر کشاں ” کے نام سے آپ کی برسی منایا کرتے تھے۔
اب دین زرتشتی اگرچہ دین سلطانی کے رُتبہ سے تو گرگیا تاہم ایران سے بالکل نہ مٹا، جن لوگوں نے دین اسلام قبول نہ کیا اور اپنے آبائی مذہب مجوسیت پر قائم رہے ان کی تعداد صرف اُن تارکان وطن ہی تک محدود نہ تھی جو عرب حملوں سے پہلے جزائر خلیج فارس کو اور وہاں سے ہندوستان بھاگ آئے جہاں اُنھوں نے پارسی نو آبادیاں قائم کرلیں جو اب تک بمبئی اور سورت میں اور اُنکے آس پاس موجود ہیں۔ بلکہ یہ جماعت تو مجموعی پارسی آبادی کا ایک جزو قلیل تھی ۔ ۔ لوبدوں کا اثر اور احترام اب تک قائم تھا۔ عمائدین خلافت سے انکے تعلقات اچھے تھے پارسیوں کو ایک حد تک حکومت خود اختیاری حاصل تھی، آتشکدوں کو ایسی حالت میں بھی جب انکے انہدام کا قانوناً اعلان کردیا جاتا تھا عملاً شاذ و نادر ہی صدمہ پہنچایا جاتا تھا۔ بلکہ بعض اوقات مسلمان حکام کو ایسے لوگوں کو سخت سزائیں دیتے تھے جو نامعقول جوش دینی میں آتشکدوں کو کوئی نقصان پہنچا دیتے یا برباد کردیتے تھے۔
فتح ایران کے بعد تین صدیوں تک قریب قریب ہر صوبہ ایران میں آتشکدے موجود تھے۔ حالانکہ آجکل ہوٹم شینڈلر کے با احتیاط شمار کے موافق ایران کے تمام آتش پرستوں کی مجموعی آبادی صرف ساڑھے آٹھ ہزار کے قریب پہنچتی ہے۔”( تاریخ علوم ایران)

فیضان اسلام

حضرت مسیح علیہ السلام سے تین چار صدی پیشتر ایرانیوں كی جاہ جلال، جراٴت و بسالت، فتح و ظفر، تہذیب و تمدن سے انكار نہیں۔ آثارِ قدیمہ اور یونانی تحریریں جن میں زمنیوفن كی تحریر سب سے زیادہ مصرح ہے اس حقیقت پر دلالت كر رہی ہیں۔ ہمیں اس سے بھی انكار نہیں كہ مسلمان عجمیوں نے اموی و عباسی خلافتوں میں علم كی خدمت اور ترویج و اشاعت میں مہتمم بالشان حصہ لیا۔ ہمیں اعتراف ہے كہ علوم عقلیہ كے علاوہ خود علومِ مذہبی كی خدمت گذاری میں مسلم علمائے عجم عربوں سے بہت آگے بڑھ گئے تھے مگر صرف ان مقدمات كی بنا پر یہ نتیجہ نكالنا صحیح نہیں كہ اسلامی فتح ایران كے وقت اہلِ عجم كی گرہ میں زرِ علم پہلے سے موجود تھا۔
پارسی روایات كے مطابق اسكندر نے جب ایران فتح كیا تو مجوسیوں كی دینی كتابیں تلف كردیں۔ باقی كتب فلسفہ، نجوم، نجوم، طب، زراعت وغیرہ ڈھونڈ ڈھونڈ كر اسكندریہ اور یونان سے اٹھوا لیا گیا۔ اس طرح ایران كی جو كچھ متاعِ علم تھی مركزِ علم كو منتقل ہوگئی۔ پانچ صدیوں كی گھٹا ٹوپ تاریكی نے قدرةً عجم كا دماغ كند بنا كر اسے وحشت و جہالت كی پستی میں گرادیا اور علوم و فنون تو الگ رہے، مذہب بھی بھول بھلا گئے۔ ساسانی عہد میں بعض اولوالعزم بادشاہوں نے احیاءِ علوم كی كوشش كی مگر وہ نسبتاً ایسی حقیر ہے كہ مصر و یونان كے مقابلہ میں اس كا نام نہیں لیا جاسكتا۔ مزمن جہالت كے علاوہ رسمِ خط كی دقت نے علومِ پارسی كو پنپنے نہ دیا۔
مگر جس دن مالدار مذہب و زبان عربی نے اپنے وسیع خزانے سے ان كو لغات دیے اور لغات كے ساتھ آسان خط مہیا كردیا، ان كے دماغ كی مہر ٹوٹ گئی اور زبان چل پڑی۔ خود قرآن شریف جو ایك عظیم الشان لٹریچر ہے اور عربی شاعری كے اعلیٰ نمونے ان كے سامنے آئے چنانچہ محمد عوفی اپنے مشہور تذكرہ لباب الالباب میں لكھتا ہے:
’’چوں آفتاب ملّت حنیفی و دین محمدی سایہ بر دیار عجم انداخت لطیف طبعانِ فرس رابا فضلاء عرب انفاق محاورہ پدر آمد و از انوار فضائل ایشاں اقتباس كردند و بر اسالیب نعت عرب وقوف گرفتند و اشعار مطبوع ابدار حفظ كرند۔ بغور آن فر در فتند و بر دقائق بحور و دوائرآن اطلاع یا فتند….. وہم برآن منوال نسائج فضائلے كہ نتائج طبع ایشاں بود یا فتن گر فتند۔‘‘
(جلد اوّل صفحہ 30۔ یہ نایاب كتاب پروفیسر براؤن كی ہمت سے دو جلدوں میں لندن سے 1903ء اور 1906ء میں مع حواشی محمد عبدالوہاب قزدینی شائع ہوئی ہے۔ آج دنیا میں یہ فارسی شعراء كا سب سے قدیم و معتبر اور بعد كے تمام تذكروں كا ماخذ ہے۔ 618ھ (1221ء) كے لگ بھگ تالیف ہوا۔)
عباسیوں كی قدر دانی نے تمام اقوام كو صلائے عام دی تو شام و عراق كے یہود و نصاریٰ اور ہندی برہمن، بابلی مصری یونانی اور ہندی علوم كے خوانِ نعمت سروں پر لیے ہوئے حاضر ہوئے اور عباسی دسترخوان پر چن دیئے۔ عربوں نے اگلے ایرانیوں كی طرح شمشیر زنی اور حكمرانی كے ذوق، شوق میں اس سے پورا حظ نہ اٹھایا۔ مفتوح ایرانیوں كے لیے اپنی ہستی كو برقرار ركھنے اور عربوں كے دوش بدوش مسابقہ حیات میں ساتھ دینے كے لیے اس كے سوا كوئی صورت نہیں رہی تھی كہ وہ ملت اسلام كی (جو اب عرب و عجم كے مجموعے سے عبارت تھی) ذہنی خدمت اپنے ذمے لے لیں۔ اس حوصلہ میں قدرت نے بھی ان كی یہ اعانت كی كہ عرب و عجم دو متضاد دماغوں اور قوموں كے اختلاط سے ایك ایسا قوام تیار كردیا جس میں عرب كی عملیت اور عجم كی ذہانت مجتمع ہوگئی۔ اسی نكتہ كو پروفیسر براؤن نے یوں ادا كیا ہے:
’’یہ فرض كرلینا كسی طرح صحیح نہیں كہ مسلمانوں كی فتح ایران كے بعد دو تین صدیاں ایران كی ذہنی تاریخ كا سادہ ورق تھیں۔ اس كے برخلاف یہ نہایت عجیب اور بے نظیر دلچسپیوں كا دور گذرا ہے۔ عہدِ قدیم اور عہدِ جدید كے تداخل، واقعات كی تشكیل اور خیالات كے باہمی تجاذب و اعتدال كا زمانہ تھا۔ كسی معنی میں بھی یہ جمود یا موت كا زمانہ نہ تھا۔ یہ بالكل صحیح ہے كہ سیاسی اعتبار سے كچھ مدت تك كے لیے ایران كی علیحدہ قومی ہستی رك گئی كیونكہ یہ اس عظیم الشان اسلامی سلطنت میں جذب ہوگیا جو جبل الطارق سے لے كر ججون تك وسیع تھی۔ لیكن اقلیم دماغی میں اس نے بہت جلد وہ غلبہ حاصل كرلیا جس كا استحقاق اہلِ ایران كی قابلیت اور فطری جودت و ذكاوت نے اسے دے ركھا تھا۔‘‘ (تاریخ علوم ایران جلد 1، مقالہ دوم كا آخر حصہ)

اكثر اوقات سیاسی انقلاب ملك كے حق میں رحمت ثابت ہوتا ہے۔ مختلف اقوام كا اختلاط دماغوں میں تازگی اور فرسودہ قویٰ میں زندگی بخشتا ہے۔ چنانچہ ایران كا یہ انقلاب بھی اسی قسم كا تھا۔ ساسانی عہد تك ہم ایران میں كوئی قابلِ ذكر آثارِ علمیہ نہیں پاتے۔ اہلِ ایران كا جوہر قابل ان كے دماغوں میں پڑا سوتا ہے۔ یكایك فتح اسلام نے ان كے جوہر كو حركت دے كر بیدار كردیا۔ انہوں نے عہدِ اسلام میں وہ ذہنی كارنامے دكھائے جن سے آج تك اكثر لوگوں كو یہ دھوكا ہو جاتا ہے كہ یہ صدیوں كی مشقِ دماغی كا نتیجہ ہیں۔ مگر تاریخ اس قیاس كی تائید نہیں كرتی۔ دراصل ظہورِ اسلام كے بعد ان كے حیرت انگیز علمی كارناموں كا راز اسی خارجی تحریك و اختلاط اور اس كے قدرتی اثرات میں مضمر ہے۔
ایران كا یہی اسلامی عہد وہ عہد ہے اور ایرانیوں كے یہی كارنامے وہ كارنامے ہیں جن پر وہ جس قدر چاہیں ناز كریں، مگر افسوس ہے كہ جدید ایرانی محبانِ وطن كے سب سے نامور اور محترم افراد بھی اپنی قومی ادبیات میں ایسے محسود روزگار اسلاف پر فخر كرنے كی بجائے افسانہء كیانی و ساسانی كے خیالی تاج گے، مسند جم اور دُرفش كادیانی پر ناز كیا كرتے ہیں۔ (ملاحظہ ہوں سیاحت نامہ ابراہیم بیگ مطبوعہ كلكتہ بورڈ صفحہ 3، 4، 11، 13، اور قومی نظمیں جو پروفیسر براؤن نے صحافت و شاعری ایران جدید كے نام سے شائع كی ہیں۔

استفادہ کتاب” پارسی علوم اور اسلام” از محمد مسلم ، پروفیسر سینٹ کولمباز کالج، بہار

  • کیا اسلام زرتشت/پارسیت/مجوسیت سے کاپی شدہ ہے؟ | الحاد جدید کا علمی محاکمہ
    October 19, 2016 at 9:26 am

    […] مستشرق گولڈ زیہر سے سراغ پکڑ کے بعد کے متعصب مصنفین ٹسڈل، ابن ورق، سٹیون مسود نے یہ دعوی کیا کہ  حضور صلی کے واقعہ معراج کی تفصیل   پارسی کتاب اردہ ویراف سے لی گئی ہے اسکے ساتھ  ان لوگوں نے یہ مفروضہ بھی گھڑا  کہ  یہ ساری تفصیل ہجرت کے چار سو سال  یا مسلمانوں کے دور سے کئی سو سال پہلے  لکھی گئی  تھی ۔ ان باتوں کے انکی طرف سے کوئی ثبوت نہیں دیا گیا تھا۔ انکے دعوں کے برعکس فارسی علوم کے علماء  نے اس کتاب اسکے حوالوں اور اسکی زبان پر مکمل تحقیق کے بعد  یہ ثابت کیا کہ  اردا ویراف نمگ کی موجود ہ کاپی اسلام کے آنے کے سو سال بعد    نویں –دسویں صدی عیسویں میں لکھی گئی ہے،  یہ دور پارس پر مسلمانوں کے حملے کا دور تھا اور  اسکا کہانی کا  مقصد جیسا کہ Gignoux نے لکھا اسلام کے خلاف پراپیگنڈہ کرنا اور پارسی مذہب کو اسلام سے برتر ثابت کرنے کی کوشش کرنا تھا۔ اس موضوع پر ایک تفصیلی تحقیق  ملاحظہ کیجیے۔پارسی علوم و فنون اور اسلام- ایک تحقیقی جائزہ […]

  • تاریخ | الحاد جدید کا علمی محاکمہ
    September 6, 2019 at 3:50 pm

    […] مسلم دورمیں پارسی تہذیب،علوم و فنون کی تباہی کا افسانہ-… […]

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password