قانون ختم نبوت اور اقلیتوں کے حقوق کا معاملہ

4

ہمارے ہاں یہ اکثر کہا جاتا ہے کہ اقلیتیوں کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے، ان کے حقوق کا خیال نہیں رکھا جاتا وغیرہ وغیرہ۔ ایسی مثالیں پیش کی جاتی ہیں جن کے مطابق فلاں اقلیتی برادری کے اتنے لوگ پاکستان چھوڑ کر چلے گئے ، وغیرہ وغیرہ۔ کہیں پر کسی قادیانی یا مسیحی فرد کے ساتھ کوئی مسئلہ ہوجائے، ایک منظم مہم فوری چلنا شروع ہوجاتی ہے ۔
بھائی جی پہلے تو یہ واضح ہوجائے کہ قادیانیوں کے ساتھ کیا زیادتی ہوتی ہے یا کسی دوسری اقلیت کے ساتھ کیا مسائل درپیش ہیں اور کیا عام مسلمان ان کا نشانہ نہیں بن رہے؟
ایمانداری سے جائزہ لیا جائے تو اصل وجہ ہمارا سسٹم ہے، جو طاقتور افراد کی پشت پنائی کرتا اور کمزور کو استحصال کا نشانہ بناتا ہے۔ زیادہ تر لوگ پولیس کا نشانہ بنتے ہیں۔ تھانہ کچہری ہمارے ہاں ظلم کا گڑھ ہیں۔ وہاں کیا مسیحٰی، کیا مسلمان، کیا ہندو سب ہی نشانہ بنتے ہیں۔ جو کمزور یعنی ماڑا بندہ ہوتا ہے، وہ زیادہ آسانی سے شکار ہوجاتا اور نشانہ بنتا ہے۔ اب آواری ہوٹل کے مالک بہرام ڈی آواری کے ساتھ کون پولیس والا زیادتی کر سکتا ہے؟ ایک عام پارسی البتہ پولیس کی گرفت میں آجائے تو اس کی کھال اتار دیں گے وہ ، جس طرح مسلمانوں کے ساتھ ہوتا ہے، کم وبیش ان کے ساتھ بھی ویسا ہی ہوتا ہے۔ اس میں قصور وار وہ سسٹم ہے جو کمزور کے ساتھ ظلم کرتا اور ظالم کا ہاتھ نہیں پکڑتا۔
یہ البتہ ہوسکتا ہے کہ کوئی احمدی یا کوئی اور شخص دہشت گردی کا نشانہ بن جائے، یعنی ٹارگٹ کلنگ۔ مگر اس میں ظاہر ہے مسلمان آبادی کا کیا قصور ۔ دہشت گردی کا نشانہ تو کوئی بھی بن سکتا ہے۔ پاکستان میں شیعہ برادری سب سے زیادہ نشانہ بنی ہے۔ خود مذہبی حلقوں میں سے کتنے دہشت گردی کا نشانہ بنے ہیں، مفتی نظام الدین شامزئی سے لے کر مولانا یوسف لدھیانوی اور جانے کتنے ہی کراچی کے عالم دین، مدارس کے طلبہ ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے۔ دہشت گردی کا خاتمہ ہونا چاہیے ، ہرحال میں ۔ آپریشن ضرب عضب سے اس میں بہت کمی آئی ہے، ان شااللہ یہ ختم ہو کر رہے گی۔
ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ کسی غیر مسلم کے خلاف توہین رسالت قانون کے تحت جھوٹا یا غلط مقدمہ درج ہو۔ یہ صریحاً زیادتی ہے ، نہیں ہونی چاہیے۔ اس قانون کے غلط استعمال کو ہر صورت روکنا چاہیے۔ اس کے لئے جو کچھ ہو سکتا ہے کیا جائے، مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ اس قانون کے تحت سب سے زیادہ مقدمات خود مسلمانوں پر ہیں۔ غیر مسلموں سے کئی گنا زیادہ ۔ اگر قانون کا غلط استعمال ہو رہا ہے تو اس کا نشانہ مسلمان بھی بن رہے ہیں، دینی حلقے ہمیشہ اس قانون کو بہتر سے بہتر بنانے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل بھی اس کی پیش کش کر چکی ہے، مگر پھر یہ بھی لازمی ہونا چاہیے کہ جن لوگوں کو دس دس پندرہ پندرہ سالوں سے اس قانون کے تحت سزائیں سنائی جا چکی ہیں، ان پر عمل درآمد بھی کیا جائے ۔
ایک صورت سوشل ناپسندیدگی کی ہے۔ ہمارے ہاں سوئپر کلاس کے ساتھ ایک خاص قسم کا عوامی تعصب موجود ہے۔ گھروں کی خواتین اس کا زیادہ شکار ہیں۔ خاکروب کے لئے الگ برتن وغیرہ رکھے جاتے ہیں۔ بدقسمتی یا اتفاق سے چونکہ زیادہ تر خاکروب مسیحٰی ہیں تو ان کو اس تعصب کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ ان گھرانوں کے جو بچے پڑھ لکھ کر اچھی ملازمتوں پر چلے جاتے ہیں، بدقسمتی اور جہالت کے تحت انہیں بھی اس عوامی تعصب یا ناپسندیدگی کا کہیں نہ کہیں نشانہ بننا پڑتا ہے۔ یہ ناپسندیدہ امر ہے، اسلام کے اصولوں کے منافی۔ یہ سوچ بدلنے کی کوشش کرنا چاہیے، مگر اس قسم کے تصورات بدلنے میں وقت لگتا ہے۔ ویسے یہ بتاتا چلوں کہ بہاولپور اورخاص طور پر میرے اپنے شہر احمد پورشرقیہ میں خاکروب طبقہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ سو فیصد لوگ مسلمان ہیں۔ یہ دین دار کہلاتے ہیں۔ مسلمان ہونے کے باوجود انہیں اسی عوامی تعصب کا نشانہ بننا پڑتا ہے ۔ یہ امر واقعہ ہے۔ مگر اس غلط تصور کو بدلنے کی ہم سب کو کوشش کرنا چاہیے، نسلیں لگ جاتی ہیں ایسے تعصبات کو دور کرتے۔
یہ عوامی ناپسندیدگی قادیانیوں کے حوالے سے بھی موجود ہے۔ کسی دفتر میں کوئی احمدی موجود ہو تو لاشعوری طور پر لوگ اس سے قدرے کھنچ جاتے ہیں۔ اس میں مسلمانوں یا ریاست کا کوئی قصور نہیں۔ دراصل قادیانی حضرات نے اس آئینی ترمیم کو قبول نہیں کیا اور ان کی حمایت ہمیشہ پاکستان سے زیادہ جماعت احمدیہ سے رہتی ہے۔ جیسا کہ ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے بھی اپنے ایک انٹرویو میں صاف کہا کہ ڈاکٹر عبدالسلام کی ہمدردی پاکستان سے ثانوی اور جماعت احمدیہ سے پہلے درجے پر تھی۔ احمدی حضرات یہ تاثر بدل سکتے ہیں، آئینی ترمیم کو قبول کرتے ہوئے خود کو مسلمان آبادی سے الگ ایک غیر مسلم طبقے کے طور پر اسٹیبلش کر کے۔ جب تک وہ دھکے سے مسلمان بننے کی کوششیں کرتے رہیں گے، اسلام کے لئے پوٹینشل تھریٹ کے طور پر سرگرم رہیں گے، عوامی تعصب کی یہ شکل کم نہیں ہوسکتی۔ تاہم ریاست کو اس تعصب کا نشانہ کسی صورت نہیں بننا چاہیے۔ ہمیں انہیں وہی حقوق دینے چاہئیں جو دوسری اقلیتوں کو حاصل ہیں۔
قادیانی حضرات کو چھوڑ کر مسیحٰی، سکھ اور ہندو آبادی کے اس قدر مسائل نہیں۔ ویسے اس پر غور کیا جائے کہ پاکستان میں سکھ کمیونٹی کیوں شکایت نہیں کرتی؟ وہ بھی غیر مسلم ہیں۔ بلکہ پنجاب میں تقسیم کے موقعہ پر سکھوں کے مظالم کی خوفناک تاریخ بھی موجود ہے۔ ننکانہ صاحب چلے جائیں، کسی بھی سکھ سے رائے پوچھ لیں، وہ پاکستانی ریاست کے حوالے سے بری بات نہیں کہے گا۔ آخر کیوں ؟ جبکہ ہماری مسیحی آبادی کے بھی بیشتر لوگوں کو یہ شکایت نہیں، البتہ ایک خاص سیاسی انداز میں ضرور اکا دکا واقعات کواچھالا جاتا ہے۔ سندھ میں ہندو لڑکیوں کے جبری مذہب تبدیل کرنے کی بات میں نوے فیصد سے زیادہ جھوٹ ہے۔ جتنے بھی کیسز رپورٹ ہوئے، عدالتوں میں لڑکیوں نے آ کر خود کہا کہ ہم نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے۔ حتیٰ کہ بعض کیسز میں ہیومن رائٹس ایکٹوسٹس کو شرمندہ ہونا پڑا۔ سندھ میں البتہ ہندو شادی ایکٹ کے نہ ہونے سے خود طاقتور ہندو جاگیرداروں کی جانب سے غریب ہندو لڑکیوں کے نشانہ بننے کے بہت سے واقعات ہیں، خود اقلیتی ارکان اسمبلی سے مجھے یہ باتیں سننے کو ملی ہیں۔ بہرحال اصولی طور پر ہم سب اس پر متفق ہیں کہ کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہونی چاہیے، اسلامی نظریاتی کونسل نے تو زبردستی مذہب تبدیل کرنے پر سزا بھی تجویز کی ہے ۔
یہ درست ہے کہ جس اقلیتی برادری کے لوگوں کو باہر جانے کا موقعہ ملتا ہے، وہ چلا جاتا ہے۔ مگر خود پچھلے بیس برسوں میں لاکھوں مسلمان باہر گئے ہیں، جب ملکی سسٹم ایسا گلا سڑا ہو، ترقی کے راستے مسدود ہوں تو پھر جس کو موقعہ ملے گا ،و ہ چلا جائے گا۔ ہزاروں ڈاکٹر باہر گئے ہیں، انجینئر، آئی ٹی پروفیشنل اور دوسرے شعبوں کے لوگ ، جسے ایمیگریشن مل گئی وہ باہر چلا گیا۔ اسے اقلیتیوں کے ساتھ بدسلوکی کی دلیل نہیں بنا سکتے۔
ایک صاحب کہنے لگے کہ اقلیتیوں سے پوچھ لیں کہ وہ کیا پاکستان میں رہنا چاہتے ہیں۔ میں نے جواب دیا کہ پاکستانی مسلمانوں سے پوچھ لیں، نوے فیصد نہیں رہنا چاہئیں گے ، پھر ؟ دراصل یہ تو ملکی سسٹم، ترقی کی آپشنز موجود ہونے، نہ ہونے کی بات ہوتی ہے ۔
ایک دوست نے لکھا کہ دو سو بوہرے بھارت چلے گئے۔ بھائی بوہری برادری کا بھارت ویسے بھی گڑھ ہے، مگر وہ تجارتی لوگ ہیں، دنیا بھر میں جاتے رہتے ہیں۔
بھائی لوگو! سادہ سی بات ہے ، جس کو یہاں رہنا ہے ، رہے، جس کو نہیں رہنا، کل کی بجائے آج ہی باہر چلا جائے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ چونکہ پاکستان میں شراب عام نہیں ملتی، بار موجود نہیں، کیبرے رقص والے ہوٹل نہیں ہیں، آزاد ماحول نہیں ہے، اس لئے اب پاکستان غیر مسلموں کے رہنے کے قابل نہیں رہا۔ تو بھائی ایسے لوگ ضرور جائیں، کہیں تو ہم انہیں ائیر پورٹ پر سی آف کرنے بھی آئیں گے۔
پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے، اگرچہ ہم اسلام کو نافذ کر سکے نہ ہی معاشرے میں اس کا نفوذ ہوسکا،اس میں بے شمار خرابیاں ہیں، ہم تو مگر اس کشتی کے مسافر ہیں، آخری دم تک اس میں رہ کر لڑیں گے ۔ ان شااللہ ہار نہیں مانیں گے۔ جس نے رہنا ہے بصد شوق رہے، ہم پوری کوشش کریں گے کہ اس کے لئے زندگی خوبصورت اور بہترین ہو۔ اس کوشش میں، اس خواب کی تکمیل میں وہ بھی ہمارا ساتھ دے۔ اگر کوئی نہیں رہنا چاہتا، اس کے پاس آپشن ہیں تو وہ بے شک چلا جائے۔ خواہ وہ مسلمان ہے یا غیر مسلم۔ غیر مسلموں کو خوش کرنے کے لئے ہم یہ نہیں کر سکتے کہ ایک اسلامی ریاست کا سربراہ غیر مسلم بنا دیں۔ ایسی منافقت ہم سے نہیں ہوسکتی بھائی۔ اس سے کسی کی دل آزاری ہوتی ہے تو ہم معذرت خواہ ہیں، مگر جو کام ہم نہیں کر سکتے، اس کا مطالبہ بھی نہ کریں۔ جو ہمارے بس میں ہے، ضرور کریں گے، کرنا چاہیے۔ اگر اب تک نہیں کر پائے تو یہ ہمارے سسٹم کی کمزوری ہے، ہم اس سے لڑ رہے ہیں، ان شااللہ یہ سب چیزیں بہتر ہوں گی۔ ایسا ہو کر رہے گا ، خدا ہمیں یہ دن ضرور دکھائے گا۔
تحریر عامر ہاشم خاکوانی

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password