تین احادیث اور ملحدین کے قرآن کے متعلق تین مغالطے

حضرت ابی بن کعب ؓ کا غلطی کرنا:

 حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ حضرت عمر  ؓنے فرمایا: ابی بن کعب ہم میں سب سے بڑے قاری ہیں لیکن جہاں حضرت ابی بن کعب غلطی کرتے ہیں اس کو ہم چھوڑ دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں نے تو قرآن مجید کو رسول اللّٰه کے دہن مبارک سے سنا ہے، اس لئے میں تو کسی کے کہنے پر اسے چھوڑنے والا نہیں ہوں، حالانکہ اللّٰه تعالیٰ نے خود فرمایا ہے: “ہم جو بھی آیت منسوخ کر دیتے ہیں یا اسے بھلا دیتے ہیں تو اس سے بہتر یا اس جیسی اور لے آتے ہیں۔”
(صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن،باب القراء من اصحاب رسول اللّٰه ، حدیث:۵۰۰۵)

جواب

حافظ ابن حجرؒ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ ” من لحن ابی” سے مراد “من قول ابی” ہے، یعنی قراءت میں جو قول حضرت ابی بن کعب اختیار فرماتے تھے وہ مراد ہے، اور اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے جب خود آنحضرت ﷺ سے کسی قراء ت کو سنا ، اور کوئی اور انہیں یہ کہتا کہ اس کی تلاوت منسوخ ہوچکی ہے تو وہ اپنی قراء ت سے رجوع نہیں کرتے تھے، کیونکہ انہوں نے بذات خود نبیﷺ سے سنی ہوتی۔ قرآن کو عربی زبان کے سات لہجوں پر پڑھنے کی اجازت تھی سبعہ احرف کی حدیث معروف ہے ۔ جیسے مَلک یوم الدین اور مٰلک یوم الدین ایک قراءت پر میم پر زبر ہے اور ایک قراءت پر کھڑی زبر یہ دونوں ہی قراءات نبیﷺ سے ثابت ہے۔ اب ابی بن کعب رضی اللہ عنہ جو قراءت کو تلاوت کر رھے تھے وہ عمر رضی اللہ عنہ کے مطابق منسوخ ہوچکی تھی لیکن پھر بھی وہ غلطی کر رھے تھے اور عمر رضی اللہ عنہ نے ان پر کوئی گمراہ کا فتوا نہیں لگایا بلکہ بھول جانے کا نرم فتوا فرمایا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ کوئی بہت بڑی بات نہیں تھی بلکہ قراءت کا چھوٹا موٹا اختلاف تھا حافظ ابن حجرؒ نے ایک نکتہ یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ یہاں ان کی منسوخ قراءت مراد ہیں، تبھی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے استدلال میں ” ماننسخ من اٰیۃ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الآیۃ” تلاوت فرمائی

 تو خلاصہ یہ نکلا کہ حدیث عمر میں جو “من لحن ابی ” میں لحن سے غلطی مراد نہیں ہے، بلکہ حضرت ابی کی قراءت مراد ہے، یہاں لحن کو غلطی کے معنی میں بیان کرنا ملحدین کا دجل ہے۔۔

اللہ الواحد الصمد:

محمد صلعم نے خود بیان کیا کہ “اَللّٰهُ الوَاحِدُ الصَّمَدُ” قرآن مجید کا ایک تہائی حصہ ہے۔”
(صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب فضل قل ھو اللّٰه احد، حدیث:۵۰۱۵)
اب صرف اتنا غور فرمائیے کہ “اَللّٰهُ الوَاحِدُ الصَّمَدُ” کون سی سورت کی آیت ہے؟ دوسری روایات سے پتا چلتا ہے کہ یہ فضیلت سورہ اخلاص کی ہے تو پھر سورۃ اخلاص میں یہ آیت کہاں گئی جس کی طرف محمد صلعم) نے بطور خاص اشارہ کیا؟ کیا یہ بھی تو انہیں آیات میں سے نہیں جو تدوینِ قرآن کے وقت لکھنے سے رہ گئیں؟

تبصرہ :

اس استدلال میں مکمل دھوکہ دہی سے کام لیا گیاہے، صغرے کبرے جوڑ کر نتیجہ نکالنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ایسی  روایات موجود ہیں جن میں  حضور ﷺ نے قل ھواللہ احد کو  قرآن کا ایک تہائی حصہ قرار دیا ۔  اسی حدیث کی تشریح میں حافظ ابن حجرؒ نے وہ روایات بھی ذکر کی ہیں جن میں ((قل ھو اللہ احد)) کے الفاظ کے ساتھ اس سورت کو قرآن کریم کاتہائی فرمایا گیا۔اس حدیث میں ((اللہ الواحد الصمد)) سے قطعا یہ مطلب نہیں (جیسا کہ ملحدین نے نکالنے کی کوشش کی ہے )کہ اس سورت کی آیت اس طرح تھی، بلکہ حافظ ابن حجرؒ نے صراحت فرمائی ہے کہ یہاں ((الواحد)) اور ((الصمد)) صفات کو خاص وجہ سے ذکر کیاگیاہے، جس سے مطلوب بطور ِ خاص شرک سے نفی  ہے۔ آپ نے  اس سورہ مبارکہ کی طرف اشارہ کیا اور اس سورہ مبارکہ کی  آیت (اللہ الصمد ) کی تشریح و توضیح میں ایک الفاظ  بھی ساتھ کہہ دیا۔یہ واضح بات تھی اس لیے  کسی  صحابی نے ان الفاظ کو آیت قرار نہیں  دیا  اور نا تدوین قرآن کے وقت  کسی صحابی نے ان الفاظ کو بھی مصحف میں شامل کیا جائے ۔

سورۃ النساء کی آیت” لَّا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ۔۔ “

وجودہ قرآن میں سورۃ النساء کی ایک آیت کچھ یوں درج ہے: لَّا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ

مگرکچھ راویوں کےنزدیک یہ آیت اس طرح نازل ہوہئی تھی : لاَّيَسْتَوِيٱلْقَٰعِدُون َمِنَٱلْمُؤْمِنِينَ وَٱلْمُجَٰهِدُونَ فِي سَبِيلِٱللَّه ِغَيْرُأُوْلِيٱلضَّرَرِ (صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب کاتب النبی، حدیث:۴۹۹۰) یعنی “غَيْرُ أُوْلِي ٱلضَّرَرِ”کےالفاظ کچھ ثقہ رواۃکےنزدیک آیت کےدرمیان میں نہیں بلکہ آخر میں تھے۔ صحیح بخاری ، کتاب التفسیر، باب لایستوی القاعدون۔۔۔ الآیۃ، حدیث (4594)

تبصرہ:

ملحد نے اس استدلال میں جو یہ بات کی ہے کہ بعض راویوں کے نزدیک آیت اس طرح نازل ہوئی تھی، یہاں ملحد نے جھوٹ بولا ہے  کسی راوی کے نزدیک آیت ایسی نہیں ہے، اس آیت میں قراء ت کا جو اختلاف ہے وہ ((غیر)) کے فتح اورضمہ پڑھنے میں ہے۔

حقیقت یہ ہے  جب قرآن کریم کی یہ اآیت نازل ہوئی تو پہلی مرتبہ یہ ((غیر اولی الضرر)) کے بغیر نازل ہوئی تھی، اس وقت حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نے فرمایا یارسول اللہ میں تو نابینا ہوں ، میرے لئے کیاحکم ہے؟ اس پر آیت کا یہ ٹکڑا ((غیر اولی الٖضرر))نازل ہوا، راوی کی مراد یہ ہے کہ ((غیر اولی الضرر))یہ بعد میں نازل ہوا، اور  (فنزلت مکانھا) سے پوری آیت کا دوبارہ نازل ہونا مراد نہیں، جیسا کہ حافظ ابن حجر ؒ کی کتاب التفسیر کی اس آیت کے تحت تشریح سے صاف واضح ہے،اور ایسے ہی صحیح بخاری کی حدیث 4594 میں (فنزلت مکانھا)کے الفاظ کے بعد آیت موجودہ ترتیب کے مطابق ہے، ایک روایت میں تو یوں بھی وارد ہوا، کہ آپﷺ پر جب آیت کا یہ ٹکڑا نازل ہوا، توآپﷺ نے کاتب وحی سے فرمایاکہ پڑھو ، انہوں نے پڑھی، پھرآپﷺ نے یہ آخری ٹکڑا تلاوت فرمایا، اسی طرح حافظ ابن حجرؒ کی تصریح کے مطابق جب یہ ٹکڑا نازل ہوا تو دوبارہ یہ آیت دوہرائی گئی، جس میں ((غیر اولی الضرر)) ، ((من المومنین)) کے بعد تھا، یعنی آیت کے درمیان میں۔

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password