انسان مجبور یا بااختیار؟ مثنوی مولاناروم

2

مولانا روم نے اپنی مشہور کتاب مثنوی میں جس طرح تقدیر کے پیچیدہ مسئلہ کو اشعار (فارسی) میں بیان فرمایا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی. طرز بیان بہت دل آویز ہے اور طریق استدلال ایسا عجیب وغریب کہ دل میں اثر کرتا چلا جاتا. احباب کی خدمت میں مولاناے روم کے ان اشعار کا ترجمہ بطور ہدیہ پیش ہے.
0. بندہ کا تردد میں ہونا خود اس کے مختار ہونے کی دلیل ہے تردو اختیاری ہی چیز میں ہو سکتا ھے تردو کا مطلب ہی یہ ہے کہ اس کو یہ سوچ ہے کہ میں کس جانب کو اختیار کروں۔

1. امرونہی اور اعزازواکرام کے لیے انسان کو مخصوص کر لینا اور پتھروں کو کسی قسم کا امرو نہی یا اعزاز و اکرام نہ کرنا یہ بھی دلیل ہے کہ انسان مختار ہے اور پتھر مجبور محض .

2. دشمن پر غصہ آنا اور چھت سے اگر لکڑی گر جاے اس پر غصے کا خیال تک نہ آنا یہ بھی اس کی دلیل ہے کہ آپ دشمن کو مختار اور لکڑی کو مجبور محض سمجھتے ہیں۔

3. جبر و اختیار کا مسلہ اس قدر بد یہی ہے کہ جانور بھی اس سے بے خبر نہیں اونٹ کو اگر لکڑی مار دی جائے تو وہ بھی مارنے والے کی جانب توجہ کرتا ہے۔ لکڑی کی طرف توجہ نہیں کرتا۔کتے کو اگر پتھر مارا جاے تو وہ مارنے والے پر حملہ کرتا ھے۔پتھر پر حملہ نہیں کرتا جس سے صاف ظاہر ہے کہ کتا اور اونٹ مارنے والے کومختار سمجھ کر اس سے طرز کرتے ہیں اور پتھر اور لکڑی کو مجبور محض سمجھ کر اس سے کوئی تعریض نہیں کرتے۔

4. بندہ کا یہ کہنا کہ میرا ارادہ یہ ھے کہ کل کو یہ کروں گا اور پرسوں کو یہ کروں گا۔یہ بھی اس کے مختار ہونے کی صریح دلیل ہے.

5. انسان کا اپنے کیے ہوے پر پشیمان اور ندامت ہونا یہ بھی اس کے مختار ہونے کی دلیل ہے.

6. بحالت بیماری آہ زاری کرنا، اپنے کیے ہوے پر پشیمان ہونا،گناہوں سے توبہ اور استفغار کرنا۔آیندہ کے لیے عہدوپیمان کرنا یہ اختیار کی علامتیں ہیں۔ اگر وہ معاصی قدرت و اختیار میں نہ تھے تو ان پر یہ شرم اور ندامت، حسرت وجحالت کس لیے؟ ؟

7. اگر مخلوق اور بندے کا فعل درمیان میں ہو تو پھر کسی کو ہر گز نہ کہنا چاہیے کہ تو نے یہ کام کیوں کیا۔

8. اگر بندہ اور اجہتاد کو تقصیر میں کوئی دخل نہ ہوتا تو حضرت آدم علیہ السلام” ربنا ظلمنا انفسناالخ” کہہ کر اپنی تقصیر کا اعتراف کیسے فرماتے”

9. بلکہ یہ کہتے ہیں کہ یہ گناہ تو قسمت اور تقدیر سے تھا۔جب قضا ہی ایسی تھی تو ہماری احتیاط کیا نفع دیتی”۔

10. قضا پر بہانہ مت رکھو اپنا جرم دوسرں پر کیوں ڈالتے ہو”۔

11. خون تو کرے زید اور قصاص کیا جاے عمرو سے ، شراب تو پیے بکر اور حد خمر جاری ہواحمد پر۔ گناہ تو کرے آپ اپنی کوشش اور جدو جہد سے اور بہانہ رکھیں قضا و قدر پر۔

12. تو نے کس کام میں کو شش کی تھی اس کا نتیجہ تجھ کو حاصل نہ ہوا تو نے کب کاشت کی تھی اور اس کاثمر تجھ کو نہ ملا ہو”۔ یعنی جس کام میں بھی تو نے کو شش کی اس کا نتیجہ اور ثمرہ تجھ کو ضرور ملا اسی طرح اپنے برے اور اچھے اعمال کے اخروی نتاہج ثمرات کو بھی سمجھو۔

13. جو فعل تیری جان اور تن سے پیدا ہوتا ھے وہ قیامت کے دن فرزند کی طرح تیرا دامن گیر ہو گا”۔
جس طرح دنیا میں ایک مجازی حاکم کی سزا عین عدل و انصاف ھے تو اس احکم الحاکمین کی جزا کیسے عدل اور انصاف کے خلاف ہو سکتی ھے

تمثیل :۔

1. اے دل ایک مثال بیان کرتا ہوں کہ جبرو اختیار کا فرق معلوم ہو سکے۔

2. ہاتھ کی ایک ارتعاشی اور اضطراری حرکت ھے اور ایک اختیاری اور ارادی حرکت ھے۔دونوں حرکتیں حق تعالی کی پیدا کی ہوئی ہیں مگر ایک کو دوسرے پر قیاس نہیں کر سکتے ہو شخص جانتا ھے کہ ارتعاشی حرکت میں بندہ کا اختیار و ارادہ کو دخل نہیں۔اور جب ہاتھ کو اپنے ارادہ سے حرکت اور جنبش دی جاے تو وہ حرکت اختیاری حرکت سمجھی جاتی ھے۔

3. یہی وجہ ھے اختیاری حرکت پر کبھی پشمانی اور ندامت ہوتی ھے مگر ارتعاشی حرکت والا کبھی نادم اور پشمان نہیں دیکھا گیا۔انسان نادم اس فعل پر ہوتا ھے کہ جس کو اپنے اختیاری و ارادہ سے کیا ہو۔اضطراری فعل پر کبھی نادم نہیں ہوتا۔پس انسان کا اپنے افعال پر نادم اور پشمان ہونا اس کے مختار ہونے کی دلیل ھے ۔

4. ہماری یہ زاری الیل اضطرار کی ھے اور شرمندگی کی دلیل اختیار کی ھے۔

5. اگر اختیار نہ ہوتا تو یہ شرم اور حسرت اور ندامت اور ذلت کیوں ہوتی۔

6. جس کام میں تیری خواہش ہوتی ھے اس میں اپنی قدرت اور اختیار کو خوب ظاہر دیکھتا ہے”۔

7. اور جس کام میں تیری خواہش نہیں ہوتی اس کام میں تو جبری بن جاتا ھے اور کہتا ھے کہ یہ خدا کی جانب ھے”۔

(( مثنوی دفتر اول صفحہ 54, مثنوی دفتر ششم جلد 2 صفہ 40

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password