سبعہ احرف – مختلف اقوال کا جائزہ

12963444_1751811081722183_5026454090679540233_n

سبعۃ احرف ‘ کی ایک تشریح یہ کی گئی ہے کہ اس سے مراد سات وجوہِ اختلاف ہیں ۔ ابن قتیبہ رحمہ اللہ نے ان میں سے درج ذیل گنائے ہیں :
۱۔لفظ کا اختلاف ،یعنی دوسری قراء ت میں کسی لفظ جگہ دوسرا معنی لفظ ہو مثلاً ان کانت الا صیحۃایس۔۲۹)کے بجائے ان کانت الا زقیۃ
۲۔تقدیم وتاخیر کا اختلاف ۔ مثلاًو جا ء ت سکرۃ الموت بالحق (ق ۔۱۹)دوسری قراء ت میں سکرۃ الحق بالموت ہے
۳۔کمی وزیادتی کا اختلاف ،مثلاًان ھذا احی لہ تسع وتسعون نعجۃ (ص :۲۳)کے بعد دوسری قراء ت میں انثیٰ کا اضافہ ہے۔۶۶؂( ملاخط کیجئے تاویل مشکل القرآن۔ ابن قتیبہ ۳۷۔۳۸ تحقیق السید صقر
امام فخر الدین زازی نے ایک وجہ اختلاف ’ابدال‘ کا ذکر کرلیاہے۔ یعنی ایک لفظ لانامثلاً: ٖفا سعوالی ذکر اللہ (جمعہ ۔ ۹) کے بجائے فامضو الی ذکر اللہ۔
ابن الجر زی نے اختلاف کی ایک صورت یہ بتائی ہے کہ کسی لفظ کی جگہ دوسری قراء ت میں ایسا لفظ ہوجو صورت اور معنی دونوں اعتبار سے اس سے مختلف ہو۔مثلاًوامضواحیث تو مرون(الحجر:۳۵) کی جگہ واسعواحیث تومرون
ابو بکر بن الطیب نے ایک وجہ اختلاف یہ بیان کیا ہے کہ اس لفظ کی جگہ دوسری قرائت میں ایسا لفظ ہوجو صوۃُ مختلف لیکن ہم معنی ہومثلاًکلا لعھن امنفوش (القارعۃ۔۵)کے بجائے کا الصوف المنفوش ۱؂ ( ملاخط کیجئے مباحص فی علوم القرآن۔ ڈاکٹر صبحی الصالح ص۔۱۱)
یہی بات ڈاکٹر صبحی صالح نے بھی لکھی ہے کہ وجہِ اختلاف یہ ہے کہ ایک لفظ کی جگہ دوسرا لفظ ہومثلاً کالعھن المنفوش(القارعۃ:۵)کی جگہ اس تقسیم کے ذریعہ یہ حضرت ان تمام متقابل وجود کو وحی منزل میں سے شمار کرتے ہیں اور حدیث نبوی ’’نزل القران علی سبعۃ احرف‘‘ (قرآن سات حروف پر نازل ہواہے )کی رو،سے ان سب میں قراء ت قِرآن جائز قرار دیتے ہیں ۔حالانکہ ان میں سے بعض وجود واضح طور پر ترادف کے قبیل سے ہیں ۔

یہاں یہ واضح ہو کہ علامہ الجزری ،جنھوں نے وجوداختلاف ذکر کیے ہیں ، نے اپنی کتاب’’النشرفی القراء ات العشر ‘‘میں لکھا ہے کہ ’’جوشخص کہتا ہے کہ بعض صحابہ مثلاً حضرت ابن مسعودؓ وغیرہ قراء ت بالمعنی کو جائز قرار دیتے تھے ،وہ جھوٹا ہے۔۔۔ہاں بسا اوقات وہ قراء ت میں تو ضیح وتبیین کے لیے تفسیر داخل کردیتے تھے۔ اس لیے کہ نبی صلی اللہ وسلم سے براہ راست اخذ استفادہ کی بناپر وہ قرآن کو اچھی کو اچھی طرح جانتے تھے۔ اس لیے ان کے تعلق سے قرآن اور غیر قرآن میں التبا س کا اندیشہ نہیں تھا، بسا اوقات وہ قرآن کے ساتھ اس کی تفسیری لکھ لیا کرتے تھے۔ ۲؂( النشر فی القرأت العشر، ابن الجزری ۱۰/۳۲)
بعض صحابہ کے مصاحف میں تفسیری اضافات ہونے کی تائید شہا ب خفاجی کی ایک روایت سے ہوتی ہے ۔ وہ کہتے ہیں :مصحف ابن عباس میں النبی اولی بالمومنین من الفسھم (الاخراب۔۶) کے بعد وھواب لھم کا اضافہ تھا،ایک مرتبہ ایک غلام اس آیت کو مذکورہ اضافہ کے ساتھ پڑھ رہا تھا ۔ حضرت عمرؓ وہاں سے گزرے اورغلام کو اضافہ کے ساتھ پڑ ھتے ہوئے سنا تو فرمایا:’’اسے اپنے صحیفے سے مٹادو‘‘ راوی کہتے ہیں : غلام قرآن اور تفسیرمیں فرق نہیں کرسکا تھا۔‘‘ ۳ ؂( ملاخط کیجئے نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض ۱۰/ ۳۰۳
اسی طرح بہت سے علما ء نے ان مترادفات کو وحی میں شمار کرنے سے انکار کیا ہے اوربعض علماء نے انھیں قبول کرنے میں تردّ د کا اظہار کیا ہے ۔
امام سیو طی نے اس قضیہ کی مزید وضاحت کی ہے۔ انھوں نے قرآن کی کئی قسمیں بیان کی ہیں : متواتر ،مشہور ،آحاد،شاذ،موضوع ،پھر لکھا ہے: ایک چھٹی قسم بھی میری سمجھ میں آئی ہے اور وہ ہے مُدرَج ،یعنی جس کا اضافہ نصّ قرآن میں بطور تفسیر کرلیا گیا ہو۔ مثلاً آیت ولہ اخ اواخت(النساء۔۱۲) کے بعد حضرت سعدبن ابی وقاصؓ کی قراء ت میں من امّ کا اضافہ ہے اور آیت لیس علیکم جناح ان تبتغو افضلامن ربکم( البقرہ۔۱۹۸) کے بعد حضر ت حسنؒ آیت وان منکم الاوارھا( مریم:۷۱) کے آگے الورود الد خول کا اضافہ کرتے تھے۔ الانباری کہتے ہیں : حضرت حسن کی جانب سے لورودالدخول کا اضافہ بطور تِفسیر تھا۔ لیکن بعض راویوں نے غلطی سے اسے قرآن میں شامل کردیا۔( الاتقان ۱/۷۷)
ہمیں حیرت ہے ان وجوہِ اختلاف کو ’’سبعہ احرف‘‘ میں سے شمار کیا جاتا ہے ۔ حالانکہ ان کا ان سے دورکا بھی تعلق نہیں ہے ۔
پھر جن لوگوں نے ’’سبعۃ احرف ‘‘ کا اطلاق سات وجوہِ اختلاف پر کیا ہے ان میں وجوہ کے سلسلے میں اختلاف ہے ۔ ایسا معلوم ہوتاکہ پہلے کے علماء نے استقراء کے ذریعہ وجوہ بیان کیے ہیں،بعد کے لوگوں کو ان پر اطمینان نہیں ہوا اور ان میں کمی محسو س ہوئی ،اس لیے انھوں نے متقد مین نے مختلف انداز پر وجودِ اختلاف شمارکرائے۔۱؂( ملاخط کیجئے ہماری کتاب من قضایا القرآن ص ۲۶۔۳۱)
’’سبعۃ احرف‘‘ کے سلسلے میں ایک دوسری رائے یہ ہے کہ ان سے مراد عرب کی سات زبانیں ہیں ۔ اس رائے کے قائلین میں اس چیز میں اختلاف ہے کہ وہ زبانیں کون کون سی ہیں اور نصّ قرآنی میں ان کے وقوع کی نوعیت کیا ہے؟ابن جریر طبری فرماتے ہیں :
’’اس سے مراد ایک حرف اور ایک لفظ میں سات زبانیں ہیں ،۔یعنی الفاظ مختلف ہوں لیکن ان کے معانی ایک ہو ں مثلاً۔ ھلّم ،اقیل، تعال،الّی،قصدی، نحری، قربی کہ یہ سب الفاظ مختلف لیکن ہم معنیٰ ہیں۔جیسا کہ ابوبکرۃ ثقفی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جبرئیلؑ نے کہا : قرآن کو ایک حرف پر پڑھو۔ میکائیل ؑ نے کہا: ایک سے زائد حروف پرپڑھنے کی اجازت لے لیجئے۔ جبرئیل نے کہا: اچھا دو حروف پر پڑھ سکتے ہویہاں تک کہ انھوں نے چھ یاسات حروف پر پڑھنے کی اجازت دے دی ۔پھر فرمایا: اتنا کافی ہے ۔ان میں سے کسی حرف پر بھی قرآن پڑھا جاسکتا ہے۔ بشرطیکہ آیتِ عذاب کا ذکر نہ ہوجائے۔مثلاً ھلمّ اور تعال کہ دونوں الفاظ کے معنیٰ ایک ہی ہیں ۔( دیکھئے مقدمہ تفسیر طبری ۱/۵۷ و مابعد)
اس قول سے بظاہر معلوم ہوتاہے کہ قرآن کی قراء ت بالمعنی جائز ہے لیکن اس کے رد میں کہاگیا ہے کہ اس حدیث کے مضمون میں حصرنہیں ہے کہ اس سے اس قول پراستدلال کیا جاسکے، بلکہ جیسا کہ ابن عبدلبرؒ نے فرمایا ہے۔ اس میں ان حروف کی (جن پر قرآن نازل ہواہے) تمثیل بیان کی گئی ہے کہ ان سے مراد ایسے مضامین ہیں جن کہ الفاظ اگرچہ مختلف ہوں لیکن ان کے معنی ومفہوم میں اختلاف نہیں ہے یعنی وہ متضاد معانی اور متعارض وجود پر دلالت نہیں کرتے کہ مثلاً ایک ہی آیت میں رحمت کا بھی ذکر ہو اور عذاب کا بھی‘‘( دیکھئے البرہان ۱/۲۲۱۔الاتقان ۱/۱۶۸)
مذکورہ بالا نصوص کے ذریعہ مستشرقین نے ’’قراء ت بالمعنی ‘‘ کے اپنے نظریے کو تقویت دی ہے۔ ان روایات سے جہاں ایک طرف مستشرقین نے خوب فائدہ اٹھا یا ہے وہیں بہت سے محققین انھیں مطلق خاطر میں نہیں لاتے ، بلکہ انھیں ’’خرافات ‘‘ قرار دیتے ہیں جنھیں قرآن اعجاز الفاظ اور بلاغت معانی کے احترام میں تاریخ تدوین قرآن سے خارج کردینا چاہیے۔
جس شخص کو بھی عقل اور ذوق سلیم کا تھوڑا ساحصہ ملا ہے‘ وہ نجوبی جانتا ہے کہ لفظ’’ھلّم‘‘ کی دلالت ان الفاظ کے مثل نہیں ہے جنھیں ابن جریرؒ نے اس کے مترادف کی حیثیت سے پیش کیا ہے یعنی اقبل، تعال،الّی، قصدی، نحری ،قربی ۔ ان الفاظ کے معانی میں فرق پایا جاتا ہے ، لفظ ’’قربی ‘‘ سے معلوم ہوتاہے کہ وہ چیزیں یا دو اشخاص ایک دوسرے سے قریب ہیں ۔’الّی ‘ میں فریاد کے ساتھ مذاء کا مفہوم پایا جاتا ہے۔’تعال‘ اور’نحوی‘ بھی ہم معنی ہوسکتے کیونکہ ہم بسا اوقات دونوں الفاظ کا ایک ساتھ استعمال کرکے اس سے مختلف مفہوم مراد لیتے ہے جو صرف لفظ’تعال‘سے حاصل ہوتاہے۔(ملاخطہ کیجئے عن القرآن صبیح ص ۱۲۴)
پھر قرآن کا کیا اعجاز باقی رہ جائے گااگر کوئی انسان ان کی جگہ ایسے الفاظ استعمال کرلے جن سے مفہوم صحیح طور پر ادا نہ ہورہا ہے اور وہ سیاق میں بھی درست نہ ہوں ، مثلاً آیت : ان شجرت الذقوم طعام الثیم ( الد خان :۴۳۔۴۴) میں ’ اثیم ‘ کی جگہ لفظ’’ فاجر‘‘رکھ دے ،جیسا کہ ایک روایت میں کہا گیاہے کہ حضرت ابن مسعودؓ نے ایک بدو کو ایسا کرنے کی اجازت دے دی تھی۔
کیا’’سبعۃ احرف‘‘ اس کھلواڑ اور استخفا ف کی نوعیت کی کوئی چیز ہے جس کا اظہار اس روایت سے ہوتا ہے کہ ایک بدوّ سورۂ نوح کی پہلی آیت کو یوں پڑھ رہاتھا: ‘انابعثنا الی قومہ’ اس سے کہا گیا صحیح آیت یوں ہے:’ انا ارسلنا نوحاالی قومہ’ تو اس نے جواب دیا ۔ دونوں کو ئی فرق نہیں ،سوائے تمہاری کٹ حجیّ کے‘‘
ایسی روایات کیونکر قابل قبول ہوسکتی ہیں جب کہ ایک حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ حضرت براربن عازبؓ کو ایک دعا سکھائی ،اس میں ایک جملہ یہ یہ تھا:
‘ونبیک الذی ارسلت’ حضرت براءؓ نے اس کے بجائے کہا : ‘ورسولاو الذی ارسلت ‘: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ٹو کا اور فرمایا ۔’’یہ نہیں بلکہ نبیّک کہو۔(صحیح بخاری، کتاب الدعوات، باب اذا بات طاہراً)
دونوں الفاظ درست تھے اور ایک کی جگہ دوسرے کواستعمال کرنے سے معنی میں بھی کوئی تبدیل نہیں ہورہی تھی ۔لیکن آپﷺ نے لفظ’’ نبی ‘‘کی جگہ ’’رسول‘‘ استعمال کرنے منع فرمایا ۔اس کی وجہ غالباً بس یہ تھی کہ ا س سیاق میں لفظ ’’نبی ‘‘ہی کا استعمال درست تھا ۔اسی لیے آپﷺ نے اس کے بجائے دوسرا لفظ کہنے سے منع کیا۔( ملاخط کیجئے مناہل العرفان، زرقانی ۱/۱۸۲)

صحیح با ت یہ ہے کہ ’’سبعۃ احرف ‘‘ اس تبدیل کی نوعیت کی کوئی چیز نہیں ہے،اورنہ اسے’قراء ت باالمعنی ‘ کے نظریے کی بنیاد بنا یا جاسکتا ہے ۔ آئندہ تحریر میں ہم ’ سبعۃ احرف ‘ کی جو تو جیہ بیان کرنے جارہے ہیں اس سے حقیقت واضح ہو جائے گی اور توجیہ عقلی اعتبار سے بھی قابل قبول ہوگی اور آثار وروایات سے بھی اس کی مطابقت ہوجائے گی ۔

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password