حضرت حمزہ اور آنحضرتﷺ کی عمر میں فرق پر اعتراض (سیدامجدملحد کیساتھ مکالمہ )

fd

کچھ عرصہ پہلے ایک ملحد نے چند تاریخی روایات جن میں حضرت عبداللہ اور حضرت عبدالمطلب کی اکٹھی شادی ہونے کا ذکر ہے ‘ سے یہ نتیجہ نکالتے ہوئے ایک تحریر لکھی کہ شادی چونکہ اکٹھی ہوئی اس لیے حمل بھی اکٹھا ٹھہرا ، حمل جب اکھٹا ٹھہرا تو پیدا ہونے والے محمد ﷺ اور حضرت حمزہ کی عمر ایک ہونی چاہیے تھی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حضرت حمزہ حضور سے تین چار سال بڑے تھے، اس لیے حضرت عبداللہ حضور کے والد نہیں ۔ نعوذبااللہ۔ اس کے بعد اس پوسٹ پر سب ملحدوں نے ملکر حضور ﷺ کے متعلق انتہائی غلیظ زبان استعمال کی اور تین دن تک طوفان بدتمیزی اٹھائے رکھا۔
ملحدین کی فطرت ہے کہ تاریخی روایات کو مرضی سے توڑ موڑ کر ان میں اپنا جھوٹ شامل کرتے ہیں اور پھر خود ہی ان روایات سے جھوٹے نتائج نکالتے اور پھر انہیں سچا ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں -ملحد نے جن تاریخی حوالوں سے غلط نتائج نکالے انکا خلاصہ یہ ہے کہ نبی ص کے دادا حضرت عبدالمطلب نے جب اپنے بیٹے کی شادی قبیلہ بنی زاہرہ کی آمنہ بنت وہب سے کی تو اسی وقت اسی قبیلے کی ایک لڑکی ہالہ کو اپنے لئے بھی منتخب کیا اور پھر دونوں کی شادی ایک ہی مجلس میں طے پائی ۔ملحد نے اس واقعے کی بنیاد پر اپنی طرف سے یہ نتیجہ نکالا کہ اگر شادی ایک ہی وقت ہوئی تھی تو دونوں خواتین کو حمل بھی ایک ہی وقت ٹھہرا ۔
ملحدین کی چستی ملاحظہ فرمائیے خود ہی ایک اصول بناتے اور پھر اس سے نتائج بھی خود اخذ کرتے ہیں ۔ کیا یہ لازمی ہے کہ اکٹھی ہونے والی شادیوں میں سب کا حمل بھی ایک ہی دن ٹھہرے ؟یہ ایک عام بات ہے اور سائنسی اور عقلی طور پر بھی یہ ضروری نہیں کہ ایک ہی وقت شادی ہو اور پھر اس کے نتیجے میں حمل بھی اکھٹا ٹھہر جائے ، یہ معجزات یا اتفاقات کا نتیجہ ہو سکتا ہے مگر کتب سیر و تاریخ میں ایسے کسی اتفاق کا بھی ذکر موجود نہیں ۔ یہ بات بھی خود ملحد صاحب کے خبث باطن کا نتیجہ ہے ۔
کتب سیر میں اگرچہ ایک ہی وقت میں حاملہ ہونے کے خلاف روایات موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ مقام نکاح اور سہاگ رات بھلے ایک ہی رات ہوئی مگر نور نبوی کی منتقلی اسی مقام پر نہیں ہوئی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اسی ملحد ہی نے یہ حوالے پیش کیے ہیں اورانہی روایات سے اس نے اپنی مرضے کے نتائج نکالے ۔ ملاحظہ فرمائیے
مسور بن حخرمہ اور ابو جعفر محمد بن علی بن الحسین کہتے ہیں :آمنہ بنت وہب بن عبدالمناف بن زہرہ بن کلاب اپنے چچا وہب بن عبدالمناف کی تربیت میں تھیں ۔ عبدالمطلب بن ھاشم بن عبدالمناف بن قصی اپنے بیٹے عبداللہ ابو النبی ص کو لے کر ان کے ہاں آئے اور عبداللہ کے لئے آمنہ بنت وہب کی خواستگاری کی- چناچہ نکاح ہوگیا۔ اسی مجلس میں خود اپنے لئے عبدالمطلب بن ھاشم نے وہیب کی بیٹی ہالہ کی خواستگاری کی اور یہ نکاح بھی ہوگیا یہ دونوں عقد یعنی عبداللہ بن عبدالمطب اور عبدالمطلب بن ھاشم کے ازدواج ایک ہی مجلس میں اور ایک ہی نشست میں ہوئے-ہالہ بنت وہب کے بطن سے تو حمزہ پیدا ہوئے جونسب میں تو رسول اللہ ص کے چچا تھے مگر سن و عمر میں آنحضرت کے رضاعی بھائی ۔( طبقات ابن سعد حصہ اول باب اخبار النبی اردو ترجمہ صفحہ 115)
آگے اسی صفحے پر لکھا ہے کہ” محمد بن السائب اور ابوالغیاض الخشعمی کہتے ہیں : عبداللہ بن عبدالمطلب نے جب آمنہ سے نکاح کیا تو وہیں تین دن بسر کئے ان لوگوں کا قاعدہ تھا کہ نکاح کے بعد بیوی کے پاس جاتے تو تین دن اسی گھر میں رہتے”۔( طبقات ابن سعد حصہ اول باب اخبار النبی اردو ترجمہ صفحہ 115)
یہاں نکاح تو ایک مجلس میں ہونا مزکور ہے یہ کہ حمل بھی اکٹھے ٹھہرے کہیں مذکور نہیں
دوسری روایت جو ملحد نے پیش کی
عنوان : نور نبوی کی منتقلی :-
ایک روایت یہ بھی ہے کہ عبدالمطلب بن وہب ابن عبدالمناف کے پاس ہی پہنچے تھے یعنی ان کا انتقال نہیں ہوا تھا بلکہ شادی کے وقت وہ زندہ تھے اور انہوں نے ہی اپنی بیٹی کی حضرت عبداللہ سے شادی کی ۔ یہ استعیاب گزرا ہے کہ انہوں نے حضرت آمنہ کو حضرت عبداللہ سے بیاہ دیا۔ اپنے وقت میں حضرت آمنہ قریشی عورتوں میں نسب اور مقام کے اعتبار سے سب سے افضل خاتون تھیں ۔ شادی کے بعد حضرت عبداللہ جب ان کے مالک بن گئے تو ان سے ملے اور ہم بستری کی جس کے نتیجہ میں آنحضرت ص بصورت حمل ان کے پیٹ میں اور حضرت عبداللہ سے یہ نور ان میں منتقل ہوگیا۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت عبداللہ نے پیر کے دن شعب ابو طالب میں جمرہ وسطی کے مقام پر صحبت کی تھی شعب ابو طالب ایک گھاٹی کا نام ہے جس میں کفار نے مسلمانوں کا بائیکاٹ کیا تھا ۔( سیرت حلبیہ جلد اول نصف اول صفحہ 130 اردو ترجمہ)
اس روایت میں ہم دیکھتے ہیں کہ سب سے پہلے تو یہ بیان ہوا کہ رشتہ خود نبی ص کے نانا وہب بن عبدالمناف نے دیا دوسری بات آمنہ قریشی عورتوں کی سردار تھی تیسری بات جب حضرت عبداللہ ان سے ملے یہ لفظ واقعہ کو اختصار کی صورت میں بیان کرنے کے لئے استعمال ہورہے ہیں اور یہ خصوصا نور نبوی کی منقلی والے حمل کے بارے میں ہیں جو آپ نے اپنے آبائی گھر یا قبیلے میں بمقام شعب ابی طالب جمعرہ وسطی میں صحبت کی ۔
اس روایت سے ملحدین کا یہ دعوی بھی غلط ثابت ہوجاتا ہے کہ حمل پہلی ہی ملاقات میں ٹھہر گیا تھا کیونکہ پہلی ملاقات تو سہاگ رات والے دن قبیلے بنی زہرہ میں ہوئی تھی کیونکہ یہی ان کی رسم رواج تھا اسی طرح حضرت حمزہ کی والدہ کب کہاں حاملہ ہوئی یہ اس بارے میں بھی کوئی روایت نہیں اس لئے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ دونوں ایک وقت حاملہ ہوئی یہ کسی خبیث کا ہی کام ہوسکتا ہے تحقیق کار کا نہیں۔

اپنے اس اکھٹا حمل ٹھہرنے کے مفروضے کو ثابت کرنے کے لیے جناب نے ایک اور بغیر ثبوت کے دعوی گڑھا کہ حضرت محمد ص کے والد حضرت عبداللہ شادی ہونے کے فوراَ ہی بعد وفات پائے گئے تھے ۔ اسکا ثبوت کسی کتاب میں موجود نہیں تھا اس لیے ملحد صاحب نے بھی نہیں دیا ۔ اس متعلق جو روایات ہیں وہ یہ کہتی ہیں کہ شادی ہونے کے بعد نہیں بلکہ عبداللہ حمل (جس سے حضورﷺ پیدا ہوئے) ٹھہرنے کے دو ماہ بعد وفات پاگئے تھے ، کچھ روایات کے الفاظ ہیں کچھ ماہ بعد ، کچھ کے مطابق جب آپ دودھ پیتے بچے تھے چھ ماہ یا نو ماہ کے یا پھر آپ پالنے میں تھے دو سے اڑھائی سال کے تھے تب آپ کے والد وفات پاگئے ۔ حوالہ دیکھیے
“اسی پر اکثر علما کا اتفاق ہے کہ آپ ص کے حضرت عبداللہ کا انتقال آپ کی ولادت سے پہلے ہوگیا تھا اگر چہ کچھ روایات ایسی بھی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ آنحضرت ص کی ولادت کے بعد فوت ہوئے اسی طرح ایک روایت ہے کہ آنحضرت ص کے والد کا انتقال اس وقت ہوا جب آپ صرف دو مہینے کے حمل کی صورت میں تھے ایک روایت ہے آپ ص کی پیدائیش سے دو مہینے پہلے اور ایک روایت ہے آپ کی عمر اس وقت دو ماہ ہوچکی تھی اور آپ ص پالنے میں جھولتے تھے جب آپ کے والد کا انتقال ہوا علامہ سہیلی نے روف الانف میں لکھا ہے کہ اسی قول پر علماء کا اتفاق ہے”۔( سیرت حلبیہ جلد اول نصف اول صفحہ 170اردو ترجمہ)
اسی کتاب میں آگے صفحہ 177 پر اسقاط حمل کے باب میں لکھا ہے کہ حضرت عبداللہ کا انتقال اس وقت نہیں ہوا جبکہ آنحضرت حمل کی صورت آمنہ کے پیٹ میں تھے بلکہ ان کا انتقال ولادت کے بعد ہوا جیسا کہ پچھلی سطروں میں یہ روایتیں گزر چکی ہیں کہ آنحضرت کی عمر اپنے والد کی وفات کے وقت سات مہینے نو مہینے یا اٹھارہ مہینے یا اٹھائیس مہینے کی تھی ۔

اس ملحد کے ساتھ ہمارے ایک دوست خواجہ عباس بٹ صاحب کا اسی کے فورم میں مناظرہ ہوا ۔ اس خبیث سے یہی سوال پوچھتے رہے کہ :
پہلے ثابت تو کرو کسی بھی حوالے سے کہ وہ دونوں اکٹھی ہی حاملہ ہوئیں ۔اگر کسی روایت سے یہ نتیجہ نکل رہا ہے کہ شادی اکٹھی ہی ہوئی تو اس سے یہ کیسے ثابت ھوگیا کہ وہ حاملہ بھی اکٹھی ہوئیں ؟
اسکا جواب دینے کے بجائے ملحد اپنی ہی پوسٹ کاپی پیسٹ کرتا رہا اور بلاوجہ بات کو بڑھانے کی کوشش کرتا رہا، مثلا اپنی طرف سے ہی یہ دعوی کیا کہ اگر ہالہ بعد میں حاملہ ہوئی تو پھر حمزہ کی عمر محمد سے کم ہونی چاہیے۔ اسکا جواب خواجہ صاحب نے دیا کہ ” بلکل درست کہ اگر ہالہ بعد میں حاملہ ہوں تو حضرت حمزہ کی عمر کم ہی ہونی چاہیئے مگر کوئی ٹھوس حوالہ کوئی دلیل تو دو کیونکہ حمزہ رض کے بڑے ہونے کی روایات تو بتا رہی ہیں کہ ہالہ بعد میں نہیں بلکہ پہلے حاملہ ہوئی تھی اور حضرت آمنہ بعد میں جبکہ روایات اور اس پر علماء کی جرح کی رو سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت آمنہ کے اس حمل جس سے نبی ص پیدا ہوئے اس سے پہلے بھی نامکمل حمل ٹھہرتے رہے جو کہ ضائع ہوتے رہے اور یہ ایک خاص بیماری ہے خواتین میں کہ پہلے تو انہیں حمل ٹھہرتا نہیں اور اگر ٹھہرے بھی تکمیل کو نہیں پہنچتا اس کے لئے باقاعدہ علاج کی ضرورت پڑتی ہے جبکہ ملحد صاحب وہ پہلی سہاگ رات کے معاملے کو ہی یہاں فٹ کئے بیٹھے ہیں اور پھر اسی سے دونوں کے حمل بھی اکٹھے ہونے کا نتیجہ نکال رہے ہیں ۔ ہم نے جو لکھا اسکا حوالہ یہ ہے
” اسحاق بن عبداللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ص کی والدہ فرماتی تھی کہ بارہار مجھے حمل ہوئے اور لڑکے ہوئے مگر اس یعنی محمد ص سے بھیڑ بکریوں کا کوئی بچہ ہی بھاری نہ رہا ہوگا”
( طبقات ابن سعد حصہ اول باب اخبار النی ص اردو ترجمہ صفعہ نمبر 119)
اس حوالے پر جب ہم غور کرتے ہیں تو یہ باتیں سامنے آتی ہے کہ حضرت آمنہ کے چونکہ نبی ص سے علاوہ کوئی اولاد نہ تھی اس لئے آپ نے یہاں جو پہلے لڑکوں کے ہونے کی بات کی ہے تو وہ یہی ہے کہ آپ کو جو حمل ہوئے وہ ضائع ہوتے رہے اور چونکہ وہ تھے بھی لڑکے تو یہ علامات ایک مخصوص زنانہ بیماری کی طرف اشارہ کرتی ہے جس میں حمل تکلیف دہ اور اگر لڑکا ہو تو وہ حمل ضائع ہوجاتا ہے جبکہ نبی ص کے وقت جب آپ حاملہ ہوئی تو کوئی تکلیف محسوس نہ کی ۔
پھر ملحد نے لکھا ” محمد ، حمزہ سے اس لیے چھوٹے نہیں ہوسکتے کیوں کہ محمد کے والد عبداللہ اس وقت انتقال کرگئے تھے جب وہ اپنی والدہ کے پیٹ ہی میں موجود تھے۔”
جواب دیا گیا کہ اس سے یہ کیسے ثابت ہوگیا کہ چھوٹے نہیں ہوسکتے ؟جبکہ آپ اپنی بات بھی ثابت نہیں کرپارہے کہ حمل اکٹھے اور پہلی رات کو ہی ہوگئے تھے اور دونوں کے حمل کے بیچ میں کتنا وقفہ گزرا ہیں؟ تاریخی روایات میں مذکور ہے کہ کہ شادی جب حضرت عبداللہ کی عمر اٹھارہ سال تھی تب ہوئی اور حضرت عبداللہ کی وفات پچیس سال کی عمر میں ہوئی مطلب زوجین نے ایک دوسرے کے ساتھ کم از کم سات سے آٹھ سال گزارے ۔اسی میں کئی حمل ضائع بھی ہوتے رہے اور حضور جس حمل سے پیدا ہوئے اسکے ٹھہرنے کے کچھ عرصہ بعد حضرت عبداللہ وفات پاگئے ۔
ملحد نے اپنی رٹ جاری رکھی کہ سیرت کی کتابوں میں لکھا ہے کہ حمزہ بن عبدالمطلب ، رسول اللہ سے دو یا چار سال بڑے تھے۔ جنگ احد میں جس وقت حمزہ شہید ہوئے، ان کی عمر 56 سال تھی، اور رسول اللہ سے چار سال بڑے تھے۔ اگر محمد ، حمزہ سے چھوٹے تھے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آمنہ اپنے شوہر کی موت کے کچھ سال بعد حاملہ ہوئیں۔
خواجہ عباس بٹ صاحب اسکو پھر اسی بنیاد پر لاتے رہے کہ جب تم اپنے بنیادی دعوی کے ثبوت ہی نہیں دے پارہے پھر یہ نتیجہ کیسے نکال رہے ہو کہ آمنہ اپنے شوہر کی وفات کے بعد حاملہ ہوئی ؟کیا حمزہ سے چھوٹا ہونا اس چیز کا ثبوت ہوسکتا ہے ؟ تمہارے بنیادی دعویے یہ ہیں پہلے انہیں ثابت کرو:
1۔شادی چونکہ اکٹھی ہوئی اس لیے حمل بھی اکٹھا ٹھہرا۔
2۔حضرت عبداللہ شادی کےفورا بعد فوت ہوگئے ۔
اس پر بھی ملحد آئیں بائیں شائیں ہی کرتا رہا ۔ آخر کھسیانی ہنسی ہنستے بات ختم کردی لیکن اپنی مکاری پر معافی نہیں مانگی ۔
یہ ملحدین کا طریقہ تحقیق اور واردات ہے جس سے اسلامی شرعی ماخذ اور تاریخ کا ذیادہ علم نا رکھنے عام مسلمان جلد کنفیوز ہوجاتے ہیں ،ضروری ہے کہ ان ملحدین کے روایات سے مرضی کے نکالے گئے نتائج سے اثر لینے سے پہلے انکی پیش کردہ روایات، آیات اور حدیث کو اور انکے بیک گراؤنڈ کو خود چیک کرلیاجائے یا علم والوں سے رہنمائی لے لی جائے۔
ملحد کے ساتھ ہونے والی مکمل ڈیبیٹ اس لنک سے ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔
https://www.scribd.com/doc/299517686/Munazra-on-difference-bw-prophet-Muhamad-and-Hamza-age

  • انجم
    October 28, 2016 at 5:56 am

    بہت عمدہ اللہ جزائے خیر دے..

Leave a Reply to انجم Cancel Reply

Your email address will not be published.*

Forgot Password