نبی ﷺ کی رحمت اللعالمینی، مکی دور کے توہین کے واقعات اورتوہین رسالت کی سزا

photo_1736482119921746

جہاں کہیں توہین رسالت کی سزا کی بات ہوتی ہے تو کچھ لوگ خصوصا سیکولرزیہ کہتے ہیں آپ ﷺ کی سیرت سے ہمیں معلوم ہوتا ہےکہ آپ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کومعاف کردیا کرتے تھے۔ آپ پر بہت طعنہ زنی کی جاتی رہی، آپ کو ایذا دی گئی اور طائف کی وادی میں آپ پر پتھراؤ تک کیا گیا،حتیٰ کہ خونِ مبارک آپ کے جوتوں میں جم گیا، آپ نے تب بھی کسی کو سزا نہ دی تو پھر ایسے رحمۃ للعالمین اور محسن انسانیت ﷺ کی توہین پر قتل کی سزا کی ٹھیک نہیں، ایسے چند اعتراضات کی حقیقت کو ہم اس تحریر میں زیر بحث لارہے ہیں۔

اعتراض1: وہ عورت جو( نبی صلی اللہ علیہ وسلم )پر کوڑا پھینکتی تھی اسے ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم )نے گستاخی کی سزا کیوں نہیں دی؟؟؟جب عملی گستاخ کو سزا نہیں تو پھر قولی گستاخ کو سزا کیسے دی جاسکتی ہے ۔ کچرا پھینکنے والی عورت واحد نہ تھی بلکہ شاتم کیلئے کوئی سزا خاص کر قتل کرنا ہے ہی نہیں ۔ آپ ؐنے عبداللہ بن ابی کے قتل کی اجازت نہیں دی جبکہ خود انکے فرزند اور عمر فاروق ؒ نے اسکی اجازت طلب بھی کی ۔ اسی طرح ابو لہب اور اسکی عورت ہندہ ۔ بلکہ سارے اہل مکہ تو اعلانیہ شاتم تھے کسی کو سزا نہ دی گئی ۔ اہل طائف کیلئے تو جبرائیل ؑ سزاء کی پیشگی اجازت لیکر آئے تھے مگر آپ ؐ نے نہ صرف منع کیا بلکہ ان کے لئے دعا بھی کی ۔ آج سارے اہل طائف مسلمان ہے ۔
اعتراض 2: آپ ﷺ کی سیرت سے ہمیں معلوم ہوتا ہےکہ آپ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کومعاف کردیا کرتے تھے۔ آپ پر بہت طعنہ زنی کی جاتی رہی، آپ کو ایذا دی گئی اور طائف کی وادی میں آپ پر پتھراؤ تک کیا گیا،حتیٰ کہ خونِ مبارک آپ کے جوتوں میں جم گیا، آپ نے تب بھی کسی کو سزا نہ دی تو پھر ایسے رحمۃ للعالمین اور محسن انسانیت ﷺ کی توہین پر قتل کی سزا کی ٹھیک نہیں .
جواب:
سیرتِ مطہرہ کا رحمت و درگزر کا پہلو بڑا ہی واضح ہے جس کا اعتراف مسلمانوں کےعلاوہ غیر مسلموں نے بھی کیا ہے، تاہم قرآن وسنت کی نصوص اور صحابہ کرام کے واقعات سے یہ امر ایک مسلمہ اُصول کے طورپر ثابت شدہ ہے کہ نہ صرف شانِ رسالت میں گستاخی کی سزا قتل ہی ہےبلکہ نبی کریمﷺ نے خود مدینہ منورہ میں اپنے بہت سے گستاخان کو قتل کرنے کا براہِ راست حکم صادر فرمایا ۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات کے دفاع کے لیے حساس تھے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس ذات سے دین صادر ہو رہا ہے، اس کے داغدار ہونے کا مطلب پورے دین کا داغدار ہو جانا ہے اور یہی تو وجہ ہے کہ مشرکین مکہ دین اسلام کو کرپٹ دین ثابت کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر طعن کرتے تھے کہ آپ شاعر ہیں، مجنون ہیں وغیرہ وغیرہ
جہاں تک سیرتِ نبوی کے اس پہلو کا تعلق ہے جس میں آپ نے اپنے دشمنوں کو معاف فرمایا، تو اس کی وضاحت کیلئےدو کیفیات کو الگ الگ دیکھنا ضروری ہے ۔
1. پہلی وہ کیفیت جب آپ دعوت اسلامی کے ابتدائی دور میں ہوں اور ایک ابتدائی اسلامی معاشرت کی تشکیل ہونے جا رہی ہو چونکہ یہ دین کا ابتدائی دور ہے اور اس دور میں آپ کے پاس کوئی بھی قوت موجود نہ تھی اسلئے الله کے رسول علیہ سلام نے درگزر سے کام لیا ایسے تمام واقعات مکے کے ابتدائی دور سے متعلق ہیں ۔
2. دوسری وہ کیفیت ہے جب اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آ چکا ہو اور شریعت کا قانون نافذ ہو اس کیفیت میں ریاست کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ ریاست کے اور مسلمانوں کے حکمران اور ان کے مذہبی پیشوا کی ناموس کی حفاظت قوت کے ساتھ کرے.
جب تک قوت اور اقتدار نہیں تھا تو یہ سزا نافذ نہیں کی گئی یعنی مکہ میں اور وہاں صبر کا رویہ اختیار کرنے کے عمومی حکم پر عمل کیا جاتا رہا البتہ جب قوت اور اقتدار حاصل ہو گیا تو پھر مدینہ میں جا کر اس سزا کا نفاذ ہوا۔ہم ان دونوں ادوار کا مختصر جائزہ لیتے ہیں ۔
1۔پہلا دور :
بعض آیاتِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان اس دور میں شاتمانِ رسالت کی سرکوبی کی قوت نہ رکھتے تھے، حتیٰ کہ بیت اللہ میں نماز سرعام پڑھنے سے بھی بعض اوقات گریز کرنا پڑتا تھا، سو اُس دور میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس اذیت پر صبر وتحمل کی تلقین کی اورنبی کریمﷺ کو خود دلاسہ دیا کہ آپ کی شان میں دریدہ دہنی کرنے والے دراصل اللہ کی تکذیب کرتے ہیں جنہیں اللہ ہی خوب کافی ہے ۔
قَدْ نَعْلَمُ إِنَّهُ لَيَحْزُنُکَ الَّذِي يَقُولُونَ ۖ فَإِنَّهُمْ لَا يُکَذِّبُونَکَ وَلَٰکِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ (33) وَلَقَدْ کُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّن قَبْلِکَ فَصَبَرُوا عَلَىٰ مَا کُذِّبُوا وَأُوذُوا حَتَّىٰ أَتَاهُمْ نَصْرُنَا ۚ وَلَا مُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِ اللَّهِ ۚ وَلَقَدْ جَاءَکَ مِن نَّبَإِ الْمُرْسَلِينَ (34)
ترجمہ : ہمیں معلوم ہے کہ ان کی باتیں تمہیں غم میں ڈالتی ہیں سو وہ تجھے نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم الله کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں (۳۳) اور بہت سے رسول تم سے پہلے جھٹلائے گئے پھر انہوں نےجھٹلائے جانے پر صبر کیا اور ایذا دیے گئے یہاں تک کہ ان کو ہماری مدد پہنچی اور الله کے فیصلے کوئی بدل نہیں سکتا اور تمہیں پیغمبروں کے حالات کچھ پہنچ چکے ہیں (( سورت الانعام آیت ، ٣٣ ،۳۴)
إِنَّا کَفَيْنَاکَ الْمُسْتَهْزِئِينَ ۔ ترجمہ : بے شک ہم تیری طرف سے ٹھٹھا کرنے والوں کے لیے کافی ہیں ۔(سورت الحجر آیت٩٥)
چنانچہ مکہ مکرمہ اور مدینہ کے ابتدائی سالوں میں قرآنِ کریم میں صحابہ کو ایسے وقت صبر وتحمل کی ہدایت کی گئی:
﴿لَتُبلَوُنَّ فى أَمو‌ٰلِکُم وَأَنفُسِکُم وَلَتَسمَعُنَّ مِنَ الَّذينَ أوتُوا الکِتـٰبَ مِن قَبلِکُم وَمِنَ الَّذينَ أَشرَ‌کوا أَذًى کَثيرً‌ا وَإِن تَصبِر‌وا وَتَتَّقوا فَإِنَّ ذ‌ٰلِکَ مِن عَزمِ الأُمورِ‌ ١٨٦ ﴾
”البتہ ضرور تم اپنے مالوں اور جانوں کے بارے میں آزمائے جاؤگے اور تم اہل کتاب اور مشرکین سے اذیت کی بہت سی باتیں سنو گے۔ اگر تم صبر کرو او راللہ کا تقویٰ اختیار کرو تو یہ بڑے حوصلہ کا کام ہے۔”(سورة آل عمران)
سیدنا اُسامہ بن زید روایت کرتے ہیں کہ’نبی ﷺ اللہ تعالیٰ کے حکم کی بنا پر ان کے بارے میں درگذر سے کام لیتے تھے حتیٰ کہ اللہ نے آپ کو ان کے بارے اجازت دے دی۔ پھر جب آپ نے غزوۂ بدر لڑا اور اللہ تعالیٰ نے اس غزوے میں قریش کے جن کافر سرداروں کو قتل کرنا تھا، قتل کرا دیا۔”(صحيح بخاری: رقم 5739)
گستاخانِ رسول کو نظرانداز کرنے کا دور مدینہ منورہ کے ابتدائی سالوں تک رہا، اس دور کے بہت سے واقعات جن میں آپ کو رَاعِنَا وغیرہ کہنا بھی شامل ہیں۔
معترضین کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ مکے کے ابتدائی دور کے واقعات کی مثالیں دیتے ہین اور اسلامی ریاست کے قیام عمل میں آنے کے بعد کے واقعات کو نظر انداز کردیتے ہیں ۔ مسلمانوں کو قوت مل جانے کے بعد کے ایسے واقعات پر حضور ﷺ کے ردعمل کی مثالیں حاضر ہیں۔

2۔دوسرا دور:
قوت ملنے کے بعد کے کچھ تاریخی حوالے قرآن کریم کی آیت کی تشریح کے ساتھ :
”اور اگر وہ اپنے عہد کے بعد اپنی قسمیں توڑ دیں اور تمہارے دین میں طعن کریں تو کفر کے سرداروں سے قتال کرو۔ بے شک ان لوگوں کی کوئی قسمیں نہیں تاکہ وہ باز آجائیں۔ کیا تم ان لوگوں سے نہیں لڑوگے جنہوں نے اپنی قسمیں توڑ دیں اوررسولﷺکو نکالنے کا ارادہ کیا اور اُنہوں نے ہی پہلی بار تم سے ابتدا کی۔ کیا تم ان سے ڈرتے ہو تو اللہ زیادہ حقدار ہے کہ تم اس سے ڈرو اگر تم مؤمن ہو۔ ان سے قتال کرو، اللہ اِنہیں تمہارے ہاتھوں سے عذاب دے گا اور اُنہیں رسوا کرے گا او ران کے خلاف تمہاری مدد کرے گا اور مؤمنوں کے سینوں کو شفا دے گا او ران کے دلوں کا غصہ دور کرے گا اور اللہ جسے چاہتا ہے توبہ کی توفیق دیتا ہے اور اللہ سب کچھ جاننے اور کمال حکمت والا ہے۔” التوبةآیت 14، 15
آیت میں وَطَعَنوا فى دينِکُم کے الفاظ میں انتہائی وضاحت کے ساتھ حکم ربی بیان کر دیا گیا ہے
امام ابن ابی حاتم رازی نے اُسامہ بن زیدسےمختصراً یہی روایت بیان کی ہے:”نبی اکرمﷺ اور آپ کے صحابہ کرام مشرکوں اور یہود و نصاریٰ سے اللہ کے حکم کے مطابق عفو و درگزر کرتے اوران کی تکالیف پر صبر کیا کرتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اور آپ یقیناً ان لوگوں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور اُن لوگوں سے جنہوں نے شرک کیا ، ایذا اور تکلیف دہ باتیں سنو گے۔”اُسامہ نے کہا: رسول اللہﷺ ان سے عفو و درگزر سے کام لیتے تھے جس کا اللہ نے آپ کو حکم دیا تھا، یہاں تک کہ ان کے بارے اللہ نے اجازت دے دی۔” ( تفسیر ابن أبی حاتم الرازي:3‎ ‎‎/834(4618) تفسیر ابن کثیر:2‎ ‎‎/160))
امام ابن کثیر فرماتے ہیں: وهٰذا إسناد صحیح یہ سند صحیح ہے۔
تفسیر ابن کثیر میں حتی أذن الله فیهم کے بعد یہ الفاظ ہیں ”یہاں تک کہ اللہ نے ان کےمتعلق قتل کی اجازت دے دی پھر قریش کے سرداروں میں سے جن کو قتل کرنا تھا، اللہ نے قتل کردیا۔”
ان احادیث ِصحیحہ میں حتی أذن الله فیهم یہاں تک کہ ان کے متعلق اللہ نے اجازت دے دی، سے مراد قتال کی اجازت ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں: » ”حدیث میں حتی أذن الله فیهم سے مراد ان کے ساتھ عفو و درگزر کو ترک کرکے قتال کرنے کی اجازت مراد ہے ۔”( فتح الباري:10‎ ‎‎/20)
شیخ الاسلام زکریا انصاری رقم طراز ہیں: ” اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کو ان کفار یہود و نصاری اور مشرکین کے بارے میں قتال کی اجازت دے دی تو آپﷺ نے ان کے ساتھ معافی و درگزر کو ترک کردیا۔”( تحفة الباري بشرح صحیح البخاري :5‎ ‎‎/48)
چند واقعات :
1۔کعب بن اشرف کا قتل :اس کے قتل کا سب سے قوی سبب آپ ﷺ کی شان اقدس میں دریدہ دہنی اور سب و شتم اور آپ کی ہجو میں اشعار کہنا ہے۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ نے اپنی کتاب الصارم المسلول علی شاتم الرسول میں اس پر مفصل کلام کیا ہے۔
2۔ کعب بن اشرف کے قاتل محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء رضی اللہ عنہم چونکہ سب قبیلہ اوس کے تھے، اس لئے قبیلہ خزرج کو یہ خیال ہوا کہ قبیلہ اوس نے تو رسول اللہ ﷺ کے ایک جانی دشمن اور بارگاہ رسالت کے ایک گستاخ اور دریدہ دہن کعب بن اشرف کو قتل کر کے سعادت اور شرف حاصل کر لیا ،لہذا ہم کو بھی چاہیے کہ بارگاہ نبوت کے دوسرے گستاخ اور دریدہ دہن ابو رافع کو قتل کر کے دارین کی عزت و رفعت حاصل کریں، چنانچہ آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر ابو رافع کے قتل کی اجازت چاہی۔آپ نے اجازت دی۔
3۔عبد اللہ بن عتیک،مسعود بن سنان، عبد اللہ بن انیس،ابو قتادہ حارث بن ربعی اور خزاعی بن اسود رضی اللہ عنہم کو اس کے قتل کے لئے روانہ فرمایا اور عبد اللہ عتیک کو ان کا امیر بنایا اور یہ تاکید فرمائی کہ کسی بچہ اور عورت کو ہرگز قتل نہ کریں۔(ملخصاً سیرت المصطفیٰﷺاز مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ) اس موذی کو بھی ان صحابہ کرام نے عجیب تدبیر سے اس کے قلعے میں گھس کر واصل جہنم کیا اور نبی کریم ﷺ سے دعا پائی۔
4۔عمیر بن اُمیہ کی ایک بہن تھی اور عمیرجب نبی کریمﷺ کی طرف نکلتے تو وہ اُنہیں رسول اللہﷺکے بارے اذیت دیتی اور نبی کریمﷺ کو گالیاں بکتی اور وہ مشرکہ تھی۔ اُنہوں نے ایک دن تلوار اُٹھائی پھر اس بہن کے پاس آئے، اسے تلوار کا وار کرکے قتل کردیا۔ اس کے بیٹے اُٹھے، اُنہوں نے چیخ و پکار کی اور کہنے لگے کہ ہمیں معلوم ہے، کس نے اسے قتل کیا ہے؟ کیا ہمیں امن و امان دے کرقتل کیا گیا ہے؟ اور اس قوم کے آباء و اجداد اور مائیں مشرک ہیں۔ جب عمیر کو یہ خوف لاحق ہوا کہ وہ اپنی ماں کے بدلے میں کسی کو ناجائز قتل کردیں گے تو وہ نبی کریمﷺکے پاس گئے اور آپ کوخبر دی تو آپﷺنے فرمایا: «أقتلت أختک»کیا تم نے اپنی بہن کوقتل کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہاں۔آپﷺنے کہا: «ولم؟» تم نے اسے کیوں قتل کیا تو اُنہوں نے کہا: «إنها کانت تؤذینی فیک» ”یہ مجھے آپ کے بارے میں تکلیف دیتی تھی۔” تو نبی ﷺنےاس کے بیٹوں کی طرف پیغام بھیجا اور ان سے پوچھا تو اُنہوں نے کسی اور کو قاتل بنایا۔ پھر آپﷺنے ان کو خبر دی اور اس کا خون رائیگاں قراردیا تو اُنہوں نے کہا: ہم نے سنا اور مان لیا۔” ( المعجم الکبیر17‎ ‎‎/64(124)، مجمع الزوائد:6‎ ‎‎/398 (10570)، أسد الغابة:4‎ ‎‎/273، الإصابة:4‎‎ ‎/590))
5۔ آپﷺ نے ابن خطل کی مذکورہ دو لونڈیوں کے علاوہ دو اور عورتوں کے بارے میں بھی جو آپﷺ کے حق میں بدزبانی کی مرتکب تھیں، قتل کا حکم جاری کیا تھا۔(الصارم) فتح مکّہ کے موقع پر باقی شاتمین کو بھی تہ تیغ کیا گیا ، معافی صرف ان کو مل سکی جو کفر اور گستاخی سےتائب ہوکر الله کے رسول علیہ سلام کے سامنے حاضر ہوے۔ اصول یہ ہے کہ ایمان اپنے سے پہلے تمام گناہوں کو معاف کروا دیتا ہے۔
6۔ ایک اور گستاخ ملعونہ اسماء بنت مروان کو اسکے ایک اپنے رشتہ دار غیرت مند صحابی نے قتل کیا تو آپﷺ نے فرمایا لوگو! اگر تم کسی ایسے شخص کی زیارت کرنا چاہتے ہو جو اللہ اور اسکے رسولﷺ کی نصرت و امداد کرنیوالا ہے تو میرے اس جانثارکو دیکھ لو۔ یہ غیرت مند صحابی عمیر بن عدیؓ جب اس ملعونہ کے قتل سے فارغ ہوئے تو انکے قبیلہ کے بعض سرکردہ افراد نے ان سے پوچھا تھا کہ تم نے یہ قتل کیا ہے؟ انہوں نے بلاتامل کہا، ہاں اور اگر تم سب گستاخی کا وہ جرم کرو جو اس نے کیا تھا تو تم سب کو بھی قتل کردوں گا۔ (الصارم)
7۔حضور انورﷺ مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو شہرنور میں ایک بوڑھا جس کی عمر ایک سو بیس سال تھی اور نام اس کا ابو عفک تھا۔ اس نے انتہائی دشمنی کا اظہار کیا۔ لوگوں کووہ حضورﷺ کے خلاف بھڑکاتا، نظمیں لکھتا جن میں اپنی بدباطنی کا اظہار کرتا۔ جب حارث بن سوید کو موت کی سزا سنائی گئی تو اس ملعون نے ایک نظم لکھی جس میں حضورﷺ کو گالیاں بکیں۔ حضورﷺ نے جب اس کی گستاخیاں سنیں تو فرمایا: ’’تم میں سے کون ہے جو اس غلیظ اور بدکردار آدمی کو ختم کردے‘‘سالم بن عمیر نے اپنی خدمات پیش کیں۔ وہ ابو عفک کے پاس گئے دراں حالیکہ وہ سورہا تھا۔ سالم نے اس کے جگر میں تلوار زور سے کھبو دی۔ ابو عفک چیخا اور آنجہانی ہوگیا۔(کتاب المغازی، للواقدی، سریۃ قتل ابی عفک، 163/1)
دورِ نبوت کے ان مذکورہ بالا واقعات سے یہ بات بالکل بے غبار ہو کر سامنے آتی ہے کہ توہین رسالت کوئی معمولی جرم نہیں کہ جس سے چشم پوشی اختیار کی جائے، اس کی کم از کم سزا موت ہے، چنانچہ عہد نبوت سے لے کر آج تک پوری امت مسلمہ کا اس پر اتفاق ہے کہ شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم واجب القتل ہے، علامہ شامی رحمہ اللہ نے ائمہ اربعہ کا یہی مذہب نقل کیاہے۔مزید واقعات کی تفصیل کے لیے دیکھیے الصارم المسئول ابن تیمیہ رحمہ اللہ۔
خلاصہ یہ کہ ایک چیز ابھی دین میں آئی ہی نہیں تھی اسکو مثال بنانا کیسے درست ہے؟۔ ہم تو بات کر رہے ہیں اس وقت کی جب ایک چیز دین میں آ چکی ہے۔ یہاں ’’مکہ‘‘ کو دلیل بنانا وہ روٹ ہوگا جو بہت سے فرائض کے اسقاط پر پہنچا کر دم لے گا، کچھ لوگوں کا ’’حالتِ مکہ‘‘ کی سحرانگیزی طاری کرکے ہمیں عین وہاں پہنچا آنا باقاعدہ مقصود بھی نظر آتا ہے۔ واضح رہے: ہمارے ائمہ و فقہاء ’’حالتِ مکہ‘‘ کو کئی ایک معاملہ میں دلیل کے طور پر لیتے ضرور ہیں مگر ’’استطاعت و عدم استطاعت‘‘ کا تعین کرنے کے باب سے نہ کہ ’’تشریع‘‘ کے باب سے۔ ’’تشریع‘‘ کے باب میں، ’’حالتِ مکہ‘‘ پر ضد کرنا، البتہ اِسقاطِ فرائض، تعطیلِ شریعت اور الحاد تک جا سکتا ہے۔ یہ ایک معلوم امر ہے کہ ’’تشریعات‘‘ کا ایک بڑا حصہ اترا ہی مدینہ میں ہے۔ اِس ’’تشریع‘‘ کی سوئی کو ’’مکہ‘‘ پر روک دینا اور ’’مدینہ‘‘ پر اس کو صرف وہاں جانے دینا جہاں آپ کی فکری اھواء اجازت دیں، اسقاطِ شریعت کی شاہراہ ہے۔
٭عبداللہ بن ابی کو سزا کیوں نہیں دی گئی ؟
1. اصول یہ ہے کہ وہ شخصیت جس کی شان میں گستاخی کی جاوے اسے یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنے گستاخ کی خود معاف کر دے لیکن بطور امتی ناموس رسالت کی حفاظت ہمارے ذمے ہے ۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ’’الصارم المسلول ‘‘میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تو یہ اختیار حاصل تھا کہ اپنی زندگی میں سب وشتم کرنے والوں سے درگزر کریں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اس جرم کو معاف کرے”۔آپ ؐ نے کسی امتی کو یہ حق تفویض نہیں فرمایاتھا کہ جو میری توہین کرے تو اسے مناسب سمجھو تو معاف کر دیا کرو۔ کیا خلفائے راشدین یا بعد میں خیر القرون میں کوئی ایک بھی ایسی مثال ملتی ہے کہ اسلامی ریاست کے کسی بھی شخص نے اللہ کے رسول کی توہین کی ہو تو اسے معاف کردیا گیا ہو؟الله کے رسول کے دور میں اصحاب رسول رض آپ کے ظاہری حکم کے پابند تھے اسلئے انہوں نے کبھی ازخود کاروائی نہ کی لیکن الله کے رسول علیہ سلام کی منشاء یہی رہی کہ گستاخان کو معاف نہ کیا جاوے جس کی ایک واضح مثال اس واقعے میں ملتی ہے:
عبد اللہ بن ابی سرح کے قتل سے متعلق ذکر کردہ حدیث : سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ جب فتح مکہ کا دن تھا کہ رسول اللہ نے سب لوگوں کو امن دیا سواے چار مردوں اور دو عورتوں کے اور ان کا نام لیا،تو ابن ابی سرح حضرت عثمان بن عفان کے پاس چھپ گئے۔ جب رسول اللہ نے لوگوں کو بیعت کے لئے بلایا تو حضرت عثمان نے ابن ابی سرح کو آپ کے سامنے لا کھڑا کیا اور کہا کہ اے اللہ کے رسول! عبد اللہ سے بیعت کریں،آپ نے اپنا سر اُٹھاکر اس کی طرف دیکھا اور بیعت نہ کی،تین بار ایسا ہی کیا ۔تین بار کے بعد بیعت کرلی پھر اپنے صحابہ سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ کیا تم میں کوئی بھی عقلمند نہیں ہے جو اُٹھتا اوراس کو مار دیتاکہ جب اس نے مجھے دیکھا کہ میں نے اپنا ہاتھ اس کی بیعت سے کھینچ لیا اور بیعت نہ کی۔صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول !ہمیں آپ کے دل کا حال معلوم نہیں تھا،اگر آپ آنکھ سے اشارہ کر دیتے (تو ہم مار دیتے)۔ اللہ کے رسول نے فرمایا کہ رسول کے لئے لائق نہیں کہ وہ چورآنکھوں سے اشارہ کرے. (سنن ابو داؤد:۲۳۳۴)
2.اس سلسلے میں ہمیں شخصی اذیت دینے والے اور آپ کی رسالت پر زبان طعن دراز کرنے والوں میں بھی فرق کرنا ہوگا۔ جن لوگوں نے آپ کو جسمانی اذیت دی آپ نے اپنی وسیع تر رحمت کی بنا پر ان کو معاف فرما دیا، لیکن جو لوگ آپ کے منصب ِرسالت پر حرف گیری کرتے تھے، اس کو طعن وتشنیع کا نشانہ بناتے تھے، اُنہیں آپ نے معاف نہیں کیا کیونکہ منصب ِرسالت میں یہ گستاخی دراصل اللہ تعالیٰ کی ذات پر زبان درازی ہے، جیسا کہ قرآنِ کریم میں بیسیوں مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنا او ر اپنے رسول مکرم کا تذکرہ یکجا کیا ہے.
اسلامی تاریخ سے یہ واضح ہے کہ الله کے رسول ؐ کے بعد خلافت راشدہ اور اس کے بعد کے ادوار میں بھی کبھی بھی گستاخان رسول کو معاف نہیں کیا گیا …اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا الله کے رسول کے بعد تمام اصحاب معاذاللہ ، الله کے رسول صل الله علیہ وسلم کے حکم سے پھر کر اسلام سے دور ہوگئے تھے اور کیا چودہ سو سال سے پوری امت نے ہی اس مسلے کو غلط سمجھا اور آج آپ ایسے جدت پسند اسلام کی حقیقی تعلیمات کی کو درست سمجھ پائے ہیں۔۔ کچھ احمقوں نے طے کر دیا ھے کہ وہ نبی کریم ص کی توہین کے معاملے کو کبھی مسلم غیرت کا مسئلہ نہیں بنائیں گے بلکہ مغرب کے سامنے وہ مسلمانوں کو اس حوالے سے ” نکّو ” بنانے کی پوری کرتے رہیں گے کہ جی ایسے کاموں سے مسلمانوں کی بدنامی ہوتی ہے۔
تمام اقوام میں اپنی مذہبی سیاسی سماجی اور ثقافتی علامات کی حفاظت کے لیے قانون سازی کی جاتی ہے۔ دور جدید میں بھی ایسی قانون سازی ہر ملک میں موجود ہے ہتک عزت کا قانون دنیا کی ہر مملکت میں لاگو ہے جس کے مطابق خاص شخصیات تو چھوڑ کسی عام آدمی کی تذلیل بھی قانونی اعتبار سے شدید جرم ہے ۔آپ کیا چاہتے ہیں وہ آپ کے نبی کی شان میں شدید گستاخی کرتے چلے جائیں اور آپ اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرتے چلے جائیں اور آخر کار نبی کی ناموس ایک مذاق بن کر رہ جاوے .اگر ایسا ہی رویہ تاریخ اسلامی میں اختیار کیا جاتا تو آج دنیا میں اسلام اور الله کے رسول کی کوئی وقعت ہی باقی نہ رہتی ۔اب جب الله کے رسول کی شخصیت معروف ہے اور پوری دنیا اس بات سے اچھی طرح واقف ہے ہے کہ مسلمانوں کی مذہبی عقیدت ہی نہیں بلکہ ان کا دین بھی الله کے رسول کی شخصیت سے منسلک ہے اور انکی محبت ایک مسلمان کے ایمان کا حصہ اور آج مسلمانوں کی دنیا میں تعداد انکے وسائل اور انکی حکومتیں اس بات کی واضح علامت ہیں کہ وہ بے قوت نہیں ہیں ۔سو ایسے میں اس دور کے احکامات لاگو کرنا کہ جب اسلام کی ابتدا تھی اور آپ انتہائی بے قوت تھے انتہائی کم عقلی اور دانش سے دور بات ہے۔

٭ناموس رسالت اور مسلم سماج کی پالیسی :
معاشرتی اقدار (اچھے و برے کے تصورات) اپنی اہمیت و حساسیت کے اعتبار سے مختلف درجات کی ہوتی ہیں۔ ایک قسم وہ ہے جن کا مقصد زندگی میں حسن پیدا کرنا ہوتا ہے، انکی خلاف ورزی کے نتیجے میں اگرچہ جھرجھری و بدمزگی کا احساس پیدا ہوتا ہے مگر وہ اس درجے کی بری نہیں سمجھی جاتیں کہ اس کے کرنے والے کے خلاف قانونی کاروائی عمل میں لے آئی جائے۔ مثلا اگر کوئی ملاقات کے موقع پر سلام نہ کرے، محلے میں فوتگی کی صورت میں اظہار افسوس نہ کرے، شادی بیاہ کے موقع پر تحفہ نہ دے، نکاح کے فنکشن میں دھوتی پہن کر چلا جائے وغیرہ تو ایسا کرنے والے کو لوگ بدتہذیب (ill mannered) تو کہیں گے مگر اسے پولیس کے حوالے نہیں کریں گے۔ اس کے مقابلے میں کچھ اقدار وہ ہوتی ہیں جنہیں کسی مخصوص معاشرے کے لوگ اپنے تشخص کے بقا کے لئے کلیدی حیثیت دیتے ہیں۔ ہر معاشرہ چاہتا ہے کہ لوگ ایسی اقدار کی خلاف ورزی کے ساتھ اپنے اندر خوف (horror) کے جذبات محسوس کریں، کیونکہ یہ جذبہ ہی ان اقدار و اعمال کی خلاف ورزی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ (deterrence) کا کام کرتا ہے۔ مثلا کسی انسان کی جان کی حرمت کا معاملہ پہلی قسم کی اقدار جیسا نہیں کہ ایسا کرنے والے کو بس بدتہذیب (ill mannered) کہہ کر آگے بڑھ جایا جائے، بلکہ اس حوالے سے ایسی عمومی فضا (بذریعہ تعلیم، تربیت و قانون) برقرار رکھی جاتی ہے کہ لوگ کسی کی جان تلف کرنے کے بارے میں خوف محسوس کریں۔
یاد رکھنا چاھئے کہ مسلم سماج کے لئے ناموس رسالت کا معاملہ اقدار کی پہلی قسم نہیں بلکہ دوسری قسم سے تعلق رکھتا ہے۔ اس معاملے میں اس بات کی گنجائش نہیں دی جاسکتی کہ کوئی منہ کھول کر کچھ بھی کہہ دے اور ھم اسے “بدتہذیب” کا لقب دے کر خاموش ہوجائیں۔ اس بارے میں مسلم سماج یہی چاہتا ہے کہ لوگ اس معاملے میں بکواس کرتے ہوئے خوف محسوس کریں۔ اگر کسی کو لگتا ہے کہ مسلم سماج ایسا کرکے اظہار آزادی رائے کے حق کی خلاف ورزی کرتا ہے تو ہم اسے یہی کہیں گے کہ “اس معاملے میں اظہار رائے کی آزادی: my foot”۔ اظہار رائے کوئی ایسی مقدس گائے نہیں کہ اس کے لئے مسلم سماج اس قدر کو قربان کر دے۔ جدید تہذیب چاہتی ہے کہ اس معاملے کو دوسری قسم سے نکال کر زیادہ سے زیادہ پہلی قسم میں شامل کرلیا جائے
حسیب خان، ڈاکٹر زاہد مغل

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password