مستشرقین کی اسلام کے متعلق تحقیقات اور کوششوں کا جائزہ

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مستشرین نے بالعموم اسلام کا معروضی مطالعہ پیش نہیں کیا۔ وہ اپنے مخصوص مقاصد کے لئے اسلام کی ایک غیر حقیقی اور مسخ شدہ تصویر پیش کرتے ہیں۔ ان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ اسلام کو لوگوں کے سامنے اس انداز سے پیش کیا جائے کہ وہ ان کو غیر معمولی اور خاص وقعت کی چیر محسوص نا ہو،بلکہ اسکے برعکس انسانی ترقی و تمدن کی راہ میں مزاحم دکھائی دے۔

اس سلسلے میں وہ کئی جہتوں سے کام کرتے رہے اور مختلف نتائج سامنے لاتے ہیں، عالم اسلام کے تناظر میں دیکھیں تو ان کی کوشش کا اہم مقصد مسلمانوں کو اپنے دین کے متعلق متشکک و متردد بنانا، اسلامی اقدار و تہذیب کو مغربی اقدرار و تہذیب کے مقابلے میں کم تر ثابت کرنا ہے اور ان کو یہ بتانا ہے کہ وہ مغربی تہذیب و اقدار سے بیگانہ روایتی اسلام سے جس میں دقیانوسیت اور بہت سے مسائل و نقائص ہیں ، ان سے چمٹے رہ کر ترقی حاصل نہیں کی جا سکتی۔  اس مقالہ میں ہمارے پیش نگاہ مذکورہ مقصد کے حوالے سے مستشرقین کی کاوشوں اور ان کے نتائج کے مطالعہ کریں گے۔

استشراقی مساعی کی نوعیتیں:

موضوع کے حوالے سے مستشرقیں کی بہت سے کوششیں کئی نوعیت کی ہیں،  کبھی وہ اسلام کے خلاف ایسا مواد پیش کرنے کے کوشش کرتے ہیں جو اہل اسلام میں روایتی اسلامی عقاعد و تصورات سے متعلق شکوک و شبہات اور بیزاری و نفرت پیدا کرے ،  کبھی تجدد کے طرف بلاتے ہیں تو کبھی جدید تصورات و نظریات کو اپنانے کو مسلمانوں کی ترقی و کامیابی کا  راز قرار دیتے ہیں، اور کبھی اسلامی تہذیب و تاریخ کی تحقیر کرتے ہیں، سطور ذیل میں ان کی مساعی کو قدرے تفصیل سے بیان کیا جائے گا۔

اساسی اسلامی عقائد پر نقد:

  مستشرقین اسلام کے اساسی عقائد و تصورات کو جدید افکار و نظریات کے تناظر میں اس طرح سے ہدف تنقید بناتے اور ایسے نتائج سامنے لاتے ہیں کہ سطحی دینی علم کے حامل مسلمان ان عقائد و تصورات سے متعلق طرح طرح کے شکوک و شبہات کا شکار ہو جاتے ہیں۔

مثلا وحی پر کلام کو کرتے ہوئے کبھی عقل اور کبھی تجربے کے خلاف بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں1؎۔کبھی اس کی محض صورت کو قبول گردانتے ہیں، جس میں کوئی چیز عقل سے ماورا نا ہو۔ ؎2 کبھی محمد ﷺ پر نزول وحی کی تعبیر (نعوذباللہ) مرگی کے دوروں سے کرتے ہیں۔3 ؎تو کبھی آپ ﷺ کے زمانے کے حالات کے فطری ردعمل اور آپ کی داخلی کیفیت  سے تعبیر کرتے ہوئے اس کے خارج سے نزول وحی کی نفی کرتے ہیں۔4 ؎معجزات پر بحث کرتے ہیں اور ان کو جہالت و ہم پرستی اور لاعلمی قرار دیتے ہیں۔ 5؎  انہیں خلاف قانوں قدرت ؎6 ناممکن الواقع ؎7 اور سائنسی نقطہ نظر سے غلط بتاتے ہیں، ؎8 اور بائبل ؎9 اور قرآن ؎10 میں معجزات کے مزکور ہونے کا انکار کرتے ہیں۔

قرآن سے متعلق گفتگو میں  اسے محمد ﷺ کا اپنا کلام کہتے اور ؎11 قصص قرآنی کو بائبل پر منحصر قرار دیتے 12 ؎قرآن کو آپﷺ کے الہامات کی حیثیت سے آپ کے ساتھیوں کے پاس جمع کردہ نامکمل مواد ؎14 کا نام دیتے ہیں۔ ناسخ و منسوخ پر معترض ہوتے ہوئے 15 ؎اور اعجاز القرآن کا انکار کرتے ہیں16؎۔

حدیث کے متعلق تنقید کرتے ہوئے اسے ذخیرہ احادیث کو جعلی و فرضی اور پیغمبر اسلام اور آپ ﷺ کے عہد سے متعلق معلومات کا ناقابل اعتبار ماخذ قرار دیتے ہیں،17 ؎ آپﷺ کے اخلاق و کردار کو ہدف تنقید بناتے ؎18 آپ ﷺ کے پیغام کی بسرعت اشاعت اور آپﷺ کی غیر معمولی کامیابیوں کو اللہ کی مدد اور آپ کی حقانیت پر محمول کرنے کے بجائے وقت کا تقاضا اور حالات کی سازگاری کا نتیجہ قرار دیتے 19؎ تعداد ازواج کے حوالے سے آپﷺ کی سیرت پر بے داغ دھبے ظاہر کرنے کی کوشش کرے ہیں۔

اور آپ پر تشدد پسندی اور دین اسلام کو بزور شمشیر قائم کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔

21؎ معاد اور جنت و دوزخ سے متعلق عقائد کو یہود و نصاری وغیرہ سے اخذکرنے کے، بے آب و بنجر زمین کے باسی عربوں کو متاثر کرنے کی غرض سے مادی و حسی اشاعت کو تلوار پر منحصر بتاتے ہیں۔ ؎22 جہاد کو عربوں کے ہاں رواج ڈاکہ زنی کا تبدیل شدہ نام 23 ؎اور اسلام کی ترقی اور اشاعت کو تلوار پر منحصر بتاتے ہیں۔ 24؎

اسلامی قانون کی تعداد ازواج کو اختراع کہتے25  ؎اور اس سے متعلق طرح طرح کی قیاس آرائیاں کرتے اور افسانے گھڑتے ہیں۔

 ؎26اسلامی قانون کو غیر عقلی ، قدیم، عربی روایات پر مبنی، اور جادوئی و افسانوی قرار دیتے 27 ؎اسلامی سزاؤں کو غیر ضروری طور پر سخت ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

28 ؎کتب مقدسہ کے نظریہ تخلیق انسانی کو مسترد کرتے ہوئے انسانی ارتقا کا ایسا تصور پیش کرتے ہیں جس میں خدائی منصوبے کو بے دخل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

دعوت تجددو اصلاح مذہب: 
یہ اہل اسلام کو تجدد و مغربیت اور اصلاح مذہب کی دعوت دیتے اور ان کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کی فلاح و ترقی اس کے بغیر ممکن نہیں ہے وہ جدید مغربی تہذیب کو اپنائیں اور اپنے مذہب کو نئے حالات کے مطابق ڈھالیں۔ان کے نزدیک مسلم معاشروں میں اٹھنے والی ایسے تحریکیں اور اشخاص حوصلہ افزائی اور تعریف و ستائش کی مستحق ہیں جو اسلام کو دور جدید کے مطابق بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مزکورہ استشراقی کاوش کی وضاحت کے لیے چند ایک کے خیالات ملاحظہ ہوں۔
یہ ثابت کرنے کے لیئے کہ زمانے کا ساتھ دینے کے لیئے اسلام کو اپنی روح میں تبدیلی پیدا کرنا لازم ہے،
Cragg kennetb لکھتا ہے،
either baptize “ the modren mind is right is its instinctive awareness that islam must since It cannot do the later, it change its spirit or reonounce its own relecance to life.must somehow do the former”(30)
Cragg محمد کامل حسین کو اس بات کی بنا پر داد دیتا ہے کہ اس نے اس بات پر اصرار کیا کہ خود اسلام ہی سے اسلام کا غیر معتبر ہونا ثابت ہوتا ہے،31؎ وہ ایک اور مقام پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ مسلمان وقت کے مطابق اسلامی احکامات میں ازخود تبدیلی کرتے رہیں جس سے ایک طرف یہ بات واضح ہو جاتی ہہ کہ اسلام کوئی مستقل دین نہیں ہے تو دوسری طرف یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اسلام کو ضرورت کے مطابق تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ 32 ؎
فلپ کے ہٹی کے مطابق تعداد ازواج، چوری، جوا، شراب وغیرہ سے متعلق اسلامی سزائیں اور جدید اسلامی سوسائیٹی میں قابل عمل نہیں ہیں،
یہی سبب ہے کہ آج مسلم معاشرے میں ان کو درخور اعتنا نہیں سمجھا جاتا۔
He says” modern Islamic society has practically outgrown the koranic legislation” (33)
کینٹ ویل سمتھ مصطفٰی کمال کی اصلاحات کی تحسین کرتے ہوئے دوسرے مسلمانوں کو بھی ایسا کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔
اس کا کہنا تھا کہ ترکوں نے بجا طور پر محسوس کیا کہ اسلام اپنے وقت پر پروگریسو تھا مگر اب نہیں، اب اسلام اور کسی بھی دوسرے انسان کو زندہ رہنے کے لیئے جدید تعلیم یافتہ انسان کے لیے قابل فہم ہونا چاہئے اور اسکا طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو نئے حالات کے مطابق ڈھال لے ،سمتھ کے نزدیک ایسی اصلاحات کا مطلب عیسائی بننا نہیں ہے بلکہ ماڈرن بننا ہے،؎34، وہ ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل کا حل سیکولرازم کو بتاتا ہے، وہ کانگریسی مسلمانوں کی تعریف کرتا ہے ور تخلیق پاکستان کو ایک برائی بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ پاکستان جتنا زیادہ اسلامی ہو گا ہندوستانی مسلمان اتنے ہی زیادہ غیر محفوظ ہوتے جائیں گے۔
S.D. Goitien 35 کا کہنا ہے کہ قرآن جدید سوسائٹی کی ضرورت کو پورا کرنے سے قاصر ہے وہ اسلام کو یہودیت سے مستعار بتاتا اور عربوں کو مقابی زبانیں اپنانے کا شعور دیتا ہے۔ Nadve Safran 36؎یہودی مستشرق اسلام کو ناقابل اور غیر حقیقی قرار دیتا ہے ، وہ رشید رضا کی خلافت سے متعلق کتاب پر گفتگو کرتے ہوئے کہتا ہے کہ
رشید رضا کو مسلمانوں کے سابقہ تجربات سے کچھ سبق نا مل سکا 37؎مصری قومیت پسند سید لطفی سے اظہار ہمدردی کرتا ہوئے جو تجدد کا بہت بڑا نقیب اور اسلام کی بجائے فرعونیوں کی تقلید پر ابھارنے اور مصر میں نئے معتقدات اختیارات کرنے اور پرانے اسلامی تصور کو جھوڑنے کی ضرورت پے زور دیتا ہے۔
الغرٖض مستشرقین سر توڑ کوشش کرتے ہیں کہ اہل اسلام کو اپنے مذہب سے دور ہٹا کر زمانہ کے مطابق ڈھالنے اور مغربی تہذیب کو اپنانے ، مذہبی تصورات کو چھوڑنے کی طرف مائل کیا جاسکے۔ یہاں تک کہ بعض یونیورسٹیوں کہ ذمہ باقاعدہ طور پر ایسے اسلامسٹ تیار کرنے کا ٹھیکہ ہے جو اسلام سے متعلق جدید افکار کے ہوالے سے سمجھوتے کی فضا پیدا کریں۔ 39؎

اسلامی تاریخ و تہذیب کی تحقیر: 

مستشرقین اسلامی تاریخ سے متعلق متعصبانہ 40 ؎انداز نظر اختیار کرتے ہوئے ان کے بارے میں بدگمانیاں پیدا کرتے ہیں،ان کی تحقیر کرتے ہیں اور وہ اسلامی واقعات کی خلاف حقیقت توجیہات پیش کر کے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام کا ظہور فروٖغ عالم انسانیت اور بلخصوص عیسائیت کے لیئے فال بد ثابت ہو گا۔اسلام شروع سے ہی یہودیوں اور عیسائیوں کا دشمن بن گیا اور مسلمانوں نے ہمیشہ جارحیت کا ارتکاب کیا
مثلا: تھامس رائیٹ ابرہہ کے حملے کے دو ماہ بعد حضور ﷺ کی پیدائش کو عیسایوں کے لئے بدتریں آفت قرار دیا اور آپﷺ کو مسیحیوں کا سب سے بڑا دشمن قرار دیا۔41 ؎فلپ کے ہٹی الزام لگاتا ہے کہ حضور ﷺ نے جنگ موتہ شروع کر کے اسلام اور عیسائیت میں طویل جنگ کا آغاز کیا 42 ؎اسلامی تہذیب کی قدرو منزلت کو گھٹانے کے لیئے اور اسکی تحقیر کرنے اور عرب مسلمانوں کے تمدنی محاسن کے استخفاف کی خاطر مستشرقن اپنے طلبہ کو تر بیت دیتے ہیں اور وہ مذہبی و ثقافتی مظاہرہ کو عربی الاصل ثابت کرنے کی کوشش کریں تا کہ علم و فکر کے رشتے اور عقیدت و محبت کے جذبات مسلمانوں سے کٹ کر قدیم لاطینی اور یونانی اقوام کے ساتھ منسلک ہو جائیں،43:؎ وہ اسلامی تہذیب کو اپنانے والوں کو تو رجعت پسندی اور دقیانوسیت کے طعنے دیتے ہیں لیکن اس کے برعکس اسلامی تہذیب سے قدیم تر تہاذیب جو زندگی کی صلاحیت اور ہر طرح کی افادیت سے محروم اور سینکڑوں ہزار برس سے ماضی کے ملبے تلے دبی ہیں’ کے احیا کی دعوت دیتے ہیں۔وہ مسلمانوں اور اسلامی علمی زخیرے سے لاتعلقی بنانے کے لیئے نئے زمانے کے تقاضوں کا واسطہ دے کر قرآنی عربی زبان اور عربی رسم الخط کی بجائے مقامی زبانوں اور لاطینی رسم الخط اپنے پر مائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں 44؎۔

ترتیب وار حوالہ جات :

1: See: “supernatural Religion”, Published by longman , London, 1874, Vol II, pp. 491,492.

2:See for Detail: kant, ummanuel, “ Religion within the limits of Reason Alone”,  New York , 1960.

3: Vide, Munier , William, “ Muhammad and Islam”, London Religion Tracket society, N.D, pp 22-24. Mohammad Khalifa, The sublime Quran and Orientalisam” London and new York , 1983, p112.

سرسید احمد خاں، سیرت محمدی، لاہور، مقبول اکیڈمی، 1997، ص232، 233۔

4: Waat, W.Monrgomery, “Muhammad: Prophet and Statesman”, Oxford Universty press, 1958, pp 14-17.

5: Hume, Dabid, “Enquiries concerning the Human Understanding”, Edited by L.A selly bigge 2nd  Ed; Oxford 1983, p119.

6: Lbid.p.114

  1. Lawton, J.S Dr, “Miracles and Revelation”, London, 1959, p.84.

8:Lbid p.100

9: “Supernatural Religion”, Op. Cit, vol.II p.486.

10:Bashir Ahmad siddiqi, Dr. Professor “Modren Trends in Tafsir  Literature-Miracles”, Lahore, Facility of Islamic and oriental Learning, University of the Punjab, 1988, p.8.

11: Sale George, “the Koran”, New York 1890, p , 50.

12: Waat w.Montgomery, op. cit. p39. “Encyclopedia of Religion and Ethics, Edited by James Hastings, New york Charles Scribers sons, 1930, Vol.X, 540. Brown, Daniel,  “A New introduction to islam”, United Kingdom, Blackwell 2004, p65. “The New Encyclopedia Britannica”, 15th Edition, 1986, Vol.22, p9. Bell, Richard, “Introduction to the Quran” , Edinburgh University press, 1963, pp.161-163.

13: Jeffery, Arthur, “Muhammad and his Religion”, Indiana polus, 1979, p47.

14: Idem, “materials for History of the texts of the quran”, Leiden, E.J..Brill, 1937, p3-10.

15: Palmer, E : The Koran With an Introduction” By R Nicholsson, London, Oxford University press, 1928,p,53.

16:رحمت اللہ کیرانوی، بائبل سے قرآن تک(مترجم، اکبر علی) کراچی، مکتبہ دارلعلوم، 1389ھ، جلد دوم، ص 365۔

17: Goldziher, ignaz, “Muslim Studies”, Translated by C.R.Barber and s.m.stem,

Chicago; IL Aldine Publishing, 1973, vol.II 18. Guillaume, Alferd, “The Traditions of Islam”,

Beirut, Khayats, 1960, p15.

18: Tor andrae, “Muhammad, The Man and his faith”, Translated from german by theophil menzel, London, George Allen and unwin, 1965, pp.143, 191.

19:  Muir, William, Op.Cit. p47, waat, W.Montgomery, Op. Cit. p14. Gib, H.A.R, “mohammemanism”, London< Oxford, 1964, p25.

20: Muir, William opCit.p.126

21:Tor Andare, op.Cit.p147, Sale, George, Op.Cit.p.38.waat, W.Montgomery, op.Cit.p105

23: waat, W.Montgomery, op.Cit. p108.

24:Tor Andrae , Op.Cit. p147. Sale, George, op.Cit.p38. Menezes, F.J.L, “the life an dreligion of Muhammad, the Prophet Of Arabian Sands”, London 1911, p63, 165. Wollatson, AnN, “The religion of the Koran”, Lahore, Sh. Muhammad Ashraf , 1965, p27.

25: Waat, W.Montomery, “Muhammad At Madina”, Karachi, Oxford University press, 1981, p277.

26: Mohammad Khalifa, Op.Cit. P157.

27: Shacht, J. “Introduction to Islamic Law”, Oxford , 1964, p202.

28: Coulson, N.J . “Conflicts And Tentions in the Islamic Jurisprudence”, London, The University of Chicago press, N.D. p78, “Encyclopedia of crime and justice”, New York , The free press, 1983, Vol.1, p194.

29: “The New encyclopedia Britannica”, Chicago, 1986, Col.18, pp996, 997.
30: Kenneth Cragg, “The Call of Minaret”, New York, Oxford University press, 1956, p17.
31: Idem, “Islamic Surveys03: Counsels in Contemporary Islam”, Edinburgh, Edinburgh University press, 1965, p107.
32:Idem, “The Dome And The Rock: Jerusalem Studies In islam”,
S.P.C.K; London, 1964, p125.
33:Hitti, Philip. K, “islam and the west”, New Jersey, 1962, p21.
34:Smith Welfred Cantwell, “islam in Modren History, New Jersey, Princeton University Press, 1957, p178, 204.
35: Ibid, pp. 273,274.
36: Goitien, S.D. “Jews And Arabs: Their Contacts Trough the ages”, new York schockan books, 1955, pp.129,130.
37: Nadave Safran, “Egypt in search of politicial community: An analysis of the intellectual and political evolution of Egypt”, 180401952.
Cambridge, Hacarad University press 1961, p80.
38: Ibid, pp95-97.
39: Vide , Muhammad Imran moulana, “Distortions About islam in the west”, Lahore, Malik Siraj, sons 1979, p13.

40: اسلامی تاریخ و تہذیب سے متعلق استشراقی تحریروں کے مبنی بتعصط و عناد ہونے کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ خود بہت سے مغربی زعماء اور ایک قلم نے اس ضمن میں استشراقی تحرورں کو مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگوں کے تسلسل کا نام دیا، مثلا ملاحظہ ہو: السباعی محمد مصطفٰی، النت و مکانتھا فبالتشریع الاسلامی، القاہرہ، مکتبہ دار لعروبہ شارع الجمہوریہ 1961، ص32۔
41: Wright, Thomas, “Early Christianity in Arabia”, London, 1855, p152.
42: Hitti, p.K “History of the arabs”, London, Macmillan, 1968, p147.
مذکورہ حوالے سے
J.J. Saunders
بھی ہٹی کا ہمنوا ہے، دیکھیے:
Saunders, “A History Of Medievel Islam” , London, Roultedge And Kegan Paul, 1965, p14.
43:حامدی، خلیل احمد (مرتب)، نظام اسلام مشاہیر اسلام کی نظر میں، لاہور، اسلامک پبلیکہشنز ، 1963، ص452۔
44: ابو الحسن علی ندوی، مولانا، مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش، کراچی، مجلس نشریات اسلام، 1981، ص265، 266۔

تحریر :ڈاکٹر محمد شہباز منج، لیکچرر ، شعبہ اسلامیات ، یونیورسٹی آف سرگودھا، سرگودھا۔

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password