معیشت نبویﷺ مکی عہد میں :
9. اصحاب رضوان اللہ کے ہدایا اور خدمات
معیشت نبوی ﷺ مدنی عہد میں
اہل مدینہ کے ہدایا اور میزبانی
حضور ﷺ کے ذاتی وسائل اور ذرائع معاش
(ا)مال غنیمت اور لوٹ مار میں فرق
4.لباس نبوی ﷺ کی فراہمی کے کچھ ذرائع
6.اراضی و جائیداد کی ملکیت رسول
حضورﷺ کے اپنے گھر میں کھانے پینے کے انتظامات
حضور ﷺ کا لوگوں کی دعوت کرنا اور کھانا کھلانا
حضور ﷺ کے دعوتوں پر ذاتی اخراجات
معیشت نبوی ﷺ مدنی عہد میں –خلاصہ بحث
اسلام میں دین و دنیا کی تفریق کا دار و مدار نیت پر ہے، نیت رضائے الٰہی کی ہو تو دنیا بھی دین اور طلب کسی اور شے کی ہو تو دین بھی غیر مقبول۔ دنیا میں زندگی بسر کرنے کے بھی اسلامی اصول ہیں۔ ان سے انحراف کی سرِمواجازت نہیں۔ انسان کی معاشی زندگی کے لیے وسائل و ذرائع کا ایک مخصوص طریقہ مقرر کیا گیا ہے ۔ بعض وسائل کا حصول لازمی اور فرض قرار دیا گیا ہے اور بعض کا جائز و مباح۔ باعزت اور بافراغت زندگی گزارنے کے وسائلِ معاش کا حصول اکلِ حلال کے زمرہ میں آتا ہے۔ اس لیئے لازمی اور دینی فریضہ ہے۔ دولت و مالداری کا حصول مباح و جائز ہے اور کسی طرح غیر اسلامی یا اسلام کے تصور تقویٰ کے خلاف نہیں ہے، بلکہ بعض حالات میں جبکہ اسلامی معاشرہ کو ضرورت ہو دولت کا حصول لازمی اور ناگزیر درجہ میں آ جاتا ہے۔ اسی طرح انفرادی اور اجتماعی زندگی میں معاشی فارغ البالی اور فور و فاقہ سے اجتناب و حفاظت اسلام میں پسندیدہ ہے۔ اصل یہ ہے کہ وسائلِ دولت کا حصول و استعمال ناپسندیدہ نہیں بلکہ انکا ارتکاز و استحصال اور استحصالی استعمال ممنوع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم اور احادیثِ نبوی میں صحیح غنا اور جائز دولت مندی کو فضلِ الٰہی قرار دیا گیا ہے اور کہیں بھی فقر و فاقہ کو بطور اصولِ معاش ممدوح نہیں سمجھا گیا۔
لیکن غیر اسلامی اثرات اور انسانی فطرت کے تجاوزات نے تقریباً تمام انسانی معاشروں میں معاش کے باب میں افراط و تفریط پر مبنی رویہ پیدا کیا۔ لہٰذا دولت کا حصول و استعمال خواہ صحیح دنیاوی اور دینی مقاصد کے لیئے ہو قابلِ نفریں اور فور و فاقہ کی زندگی کو نصب العین گردانا گیا ۔ یہاں اسباب و عوامل اور محرکات و مقاصد سے بحث نہیں، مگر یہ غیر اسلامی رویہ اسلامی معاشرہ میں در آیا۔ متاخر مسلمانوں نے بھی فقیرانہ زندگی کو مطلوبِ اسلام بنا کر اور سمجھ کر رسولِ اکرم صلی الّلہ علیہ وسلم معشیت نبوی اور صحابہ کرام اور قرون خیر کے مسلمانوں کی معاشی زندگی کو اسی پیمانہ غیر سے ناپنا شروع کیا اور اسلام کے کلاسیکی دور کو فقیری و درویشی کا اوجِ کمال سمجھ لیا. معاشی فارغ البالی کو ناپسندیدہ، اقتصادی بہبود کو غیر مطلوب اور دولتمندی کے حصول کو ناجائز و غیر اسلامی سمجھا. ان کے اس تصور و نظریہ کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں تھا اور نہ ہے مگر اس خود ساختہ نظریہ و تصور کے برعکس جب کسی اسلامی معاشرہ میں یا اس کے برعکس افراد میں فارغ البالی اور دولتمندی کا عکس بھی نظر آیا تو یا تو اس کی تاویل کی کہ ان کے خود ساختہ نظریہ و تصور کی زد ایسے اسلاف و ارکان پر پڑ جاتی ہے جن کی عملی زندگی اسلام کی صحیح مادی تفسیر ہے یا اس کو شاذونادر روایت کہہ کر دل کو تسلی دے کہ اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں اس کا کوئی ناطہ نہیں( فقروغنا پر صوفیہ کرام اور بعض دوسرے مکاتیب فکر کی رائیں ملاحظہ ہوں)۔
اس ذہنی رجحان اور عملی میلان کا یہ نتیجہ نکلا کہ چند روایات کی بنا پر قطعی فیصلہ صادر کر دیا گیا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بالخصوص اور صدرِ اسلامی کے مسلمان بالعموم فقروفاقہ کی زندگی گزارنا مطلوب اور عین تقاضائے اسلام سمجھتے تھے اور دولتمندی اور فارغ البالی سے عمداََ اجتناب کرتے تھے.( مثلاً مولانا شبلی نعمانی،سیرت النبی، دارالمصنفین اعظم گڑھ، 1983ء ، اول ص 282-283۔ سید سلیمان ندوی،سیرت النبی، اعظم گڑھ 1984ء ،دوم، ص437، پر ازواج مطہرات اور اہل و عیال کی سادہ زندگی کے ذیلی عنوان سے جو مختصر بحث کی ہے اس کا سارا زور فقر و زہد متقیانہ زندگی پر ہے۔) یہ عقیدہ و خیال ایسا دلوں میں واضح ہوا کہ اس برعکس جو کثیرروایات ملیں ان کو سرے سے نظر اندار کر دیا گیا یا ان کی کوئی کمزور سی تاویل کر لی گئی.. عملی و تحقیقی دنیا میں یہ خلا پیدا ہوا کہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام اور بعض متاخر ادوار کے بہترین مسلمانوں کی معاشی زندگی اور اقتصادی وسائل پر خاطر خواہ کام نہیں ہوا. ایک اور منفی نتیجہ یہ بھی نکلا کہ خلفائے اسلام کو قائدین و امراء ملت اسلامی کی زندگی میں معاشی فارغ البالی اور دولت مندی کا ثبوت ملا تو ان کو ہدفِ ملامت بنا لیا گیا. ان حضرات کے خیال میں یہ عیش و عشرت کی زندگی تھی اس لئیے غیر اسلامی اور لائق اجتناب-حیرت ہوتی ہے کہ سوادِ اعظم کے اجماعی اور اجتماعی فیصلہ اور طرزِ زندگی کے خلاف اگر کوئی شاذونادر انفرادی مثال ملتی ہے تو موخر الزکر کو اسلامی، قابل تعریف اور نصب العین اسلامی قرار دے کر امتِ اسلامی کے سوادِ اعظم اور غالب اکثریت کو معرضِ نقد و ملامت میں ڈال دیا جاتا ہے حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کی طرزِ زندگی و تعلیم کو تمام صحابہ اکرام کے مجموعی طریقہ حیات و خیال کے بالمقابل رشک و تعریف قرار دینے کا عملی رجحان۔
معاش نبوی ﷺ کے بارے میں بالعموم دو نقطہء نظر سامنے آتے ہیں، لیکن دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں کا ایک ہی نتیجہ پر اتفاق ہے۔ ایک نظریہ مستشرقین اور ان کے پیروکار شاگرد جدید مؤرخین کا ہے جس کے مطابق رسول اکرمﷺ کا تعلق ایک کمزور معاشی طبقہ سے تھا کیونکہ ان کے خیال ِخام میں آپ ﷺ کا بنوہاشم کے جس خاندان سے تعلق تھا وہ سماجی لحاظ سے بھی کمزور تھا۔ ان کے اس نظریہ کے پیچھے یہ خیال کارفرما ہے کہ معاشی اور اقتصادی خوشحالی نہ صرف سماجی مرتبہ و مقام کی ضامن ہوتی ہے، بلکہ معاشرتی شرف و عزت کانشان بھی ہوتی ہے۔( بطور مثال ونمائندہ مؤلف ملاحظہ ہو: ڈی ایس مارگولیتھ، محمد اینڈ دی رائز آف اسلام، لندن 1905ء ،ص47 پر لکھتے ہیں کہ “محمد( ﷺ )ایک بے وقار خاندان سے تھے”مولانا شبلی، (سیرت النبی ، اعظم گڑھ،1983ء ، اول ص176) نےاس کی بھر پور تردید کی ہے، نیز ملاحظہ ہو عبدالحمید صدیقی کی تردید ، لائف آف محمد ، ہلال پبلیکیشنز کلکتہ 1982 ص40 اور ص ،55، 54)
دوسرا نقطہءِنظر ہمارے بیشتر مسلمان اور مشرقی سیرت نگاروں کا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ آپ نسبی اور معاشرتی اعتبار سے اعلیٰ خاندان کے فرد تھے لیکن متعدد اسباب سے جن میں آپ کی یتیمی ویسیری کو خاصی اہمیت بلکہ بنیادی حیثیت حاصل تھی ،آپ کی معاشی حالت بہتر نہ تھی، بلکہ بعض حضرات کے ہاں کچھ ایسا تاثر پایا جاتا ہے کہ اقتصادی ابتری منشائے الٰہی کا سبب تھی۔ اس نقطہءِ نظر کے پسِ پشت وہ راہبانہ خیال و عقیدہ کارفرما ہے کہ دولت مندی یا خوش حالی معیار تقویٰ اور میزان طہارت پر صحیح نہیں تلتی بلکہ وہاں فقروفاقہ کا وزن اور اس کی قیمت تولی جاتی ہے۔( یہ نقطہء نظر وضاحت سے یا مضمر طور سے تقریباً تمام مسلمان مؤرخین کی کتابوں میں پایا جاتا ہے۔ مثلاً مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ، تفہیم القرآن ،مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی 1982ء ششم ص 373 اور 374 پر فرماتے ہیں کہ ۔۔۔۔” آپ کی زندگی کی ابتدا افلاس کی حالت میں ہوئی۔” علامہ عبداللہ یوسف علی دی ہولی قرآن، امانہ کارپوریشن ، پرنٹ وڈ،میری لینڈ 1979ء ، ص1663 ، حاشیہ 6184 نے لکھا ہے :”The Holy Prophet was poor”. نور محمد غفاری ،نبی کریم ﷺ کی معاشی زندگی ، مرکز تحقیق ، دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری، لاہور 1988ء ، ص 65 پر لکھتے ہیں ” وہ بچہ جس نے آگے چل کرخاتم النبین بننا تھا …..عالم امکان میں تشریف لایا تو والدین اعتبار سے مفلس تھے۔ والد عبداللہ بن عبدالمطلب آپ ﷺ کی پیدائش سے قبل ہی وفات پاگئے تھے،یوں غربت کے ساتھ یتاامت کا بندھن ….. بندھ گیا۔” نعیم صدیقی ،”محسنِ انسانیت “،مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی ، غیر مورخہ ، والدین اور دادا کے انتقال کا ذکر کرکے لکھتے ہیں:” یہ گویا مادی سہاروں سے بے نیاز ہوکر ایک آقائے حقیقی کے سہارے گراں بہا فرائض سے عہدہ برآ ہونے کی تیاری ہورہی تھی۔” یہ چند مثالیں ہیں ورنہ یہ نقطہ ِ نظر پوشیدہ یا علانیہ تقریباً بیشتر مسلم سیرت نگاروں کے ہاں پایا جاتا ہے۔ نیز مولانا مودودی ، سیرت سرور عالم لاہور 1980ء،دوم، ص95 نے “غربت سے زندگی کی ابتداء”کے تحت آپ کی غریبانہ زندگی کا ذکر کیا ہے۔)
ان دونوں نظریات کا خالص نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ رسول اکرم ﷺ کی معاشی حالت شروع سے دگرگوں اور کمزور تھی ، اور وہ چند مراحل کے سوا فقروفاقہ کی زندگی میں ڈھلتی گئی۔اسی غیر معتدل و غیر متوازن فکر و نظر کا نا پسندیدہ نتیجہ ہے. ضرورت اس بات کی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے معاش و اقتصاد کی صحیح تحقیق کی جائے کہ نبوی معاشی زندگی ہی اسلام کی اقتصادی و معاشی حیات کے اصول فراہم کرتی ہے.
مضمون میں اس علمی ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اس کے مآخز میں قران مجید، احادیثِ رسول ﷺ اور سیرت کے مآخذ شامل ہیں۔ تاریخ اسلام کے مصادراور بعض ثانوی کتابوں سے بھی مدد لی گئی ہے۔ مضمون کی اصل بنیاد سیرتِ نبوی کی عملی اور واقعاتی شہادتوں پر قائم ہے۔ نظریاتی اور اصولی بحثوں اور روایتوں سے بھی اجتناب نہیں کیا گیا، مگر اصل زور تاریخی واقعات پر ہے۔
مقصود یہ ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ اور آپ ک اہل و عیال کی نجی معاشی زندگی، وسائلِ حیات کی فراہمی اور استعمال پر روشی ڈالی جاۓ اور ان سے تاریخی ٹھوس نتائج اخذ کیے جائیں۔ اس تحریر میں صحابہ ء کرام کی انفرادی اور اجتماعی معیشت سے کلیتہََ گریز کیا گیا ہے تاکہ نقطہ نظر خالص حیاتِ نبوی پر مرکوز رہے اور غیر منضبط تجاوزات سے مطمح نظر محفوظ رہے۔ معیشتِ نبوی کے وسائل کی فراہمی اور ان کے استعمال پر بحث کو چند ذیلی سرخیوں کے تحت تقسیم کیا گیا ہے تاکہ پوری تصویرِ حیات ابھر کر سامنے اور کوئی گوشہ روشنی سے محفوظ نہ رہے۔ اس مضمون میں آپﷺ کی مکی و مدنی زندگی کی معاشی حالت کاتاریخی شواہد وروایات کی اساس پر ایک تجزیہ پیش کیا جارہا ہے، جس میں تقریباً تمام بنیادی نکات خصوصا ان مفروضوں پر تفصیل آئے گی ۔
رسول اکرمﷺ کا تعلق ایک کمزور معاشی طبقہ سے تھا
رسول اکرم ﷺ کی معاشی حالت شروع سے دگرگوں اور کمزور تھی
آپ نے کسمپرسی میں اور دوسرے کے سہارے زندگی گزاری
حضرت خدیجہ سے شادی کے بعد ان کی دولت سے آپ کی معاشی زندگی بہتر ہوئی
رسول اللہﷺ کے ذرائع معاش صرف مالِ غنیمت تھا
رسول اکرم ﷺ کی اقتصادی زندگی کا جائزہ لیتے وقت پہلا اہم سوال یہ ہے کہ آپ کو اپنے والدین یا خاندان کے دوسرے بزرگوں سے کیا ترکہ / عطیہ ملا تھا؟
قدیم مؤرخین میں ابنِ سعد نے اپنے شیخ واقدی کی روایت بیان کی ہے کہ “عبداللہ بن عبدالمطلب نے ایک باندی ام ایمن ، پانچ اراک کھانے والے اونٹ (اجمال اوارک) اور بکریوں کا ایک ریوڑ (قطعۃ غنم ) چھوڑا جس کے رسول ﷺ وارث ہوئے ۔”( ابن سعد الطبقات الکبریٰ ، دارھا در، بیروت،1957 اول ص100۔ نیز ملاحظہ ہو: نور محمد غفاری، مذکورہ بالا، ص65،66 نے “قطعۃ غنم “کا ترجمہ” چند بھیڑیں” کیا ہے)
مختلف مآخذ میں یہ ذکر کئی مقامات پر ملتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو اپنے پدری ترکہ میں یہ یہ چیزیں ملی تھیں۔ اس کے علاوہ کچھ ایسے قرائن اور روایات بھی ملتی ہیں جن کی بناء پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ والدین کی منقولہ جائداد بھی ان کی وفات کے بعد آپ ﷺ کوملی تھی۔ مثال کے طور پر ابنِ اسحاق کا بیان ہے کہ شادی کے بعد “جناب عبداللہ نے سیدۃ آمنہ کو مکان مہیا کیا اور دونوں نے ازدواجی زندگی کاآغاز کیا۔( ابن اسحاق (اردو) ص33)” ظاہر ہے کہ یہ “پدری اور مادری مکان” آپ کو ترکہ میں ملا تھا۔ اِس قیاس کی تصدیق کئی روایات سے ہوتی ہے جو حدیث وسیرت کے مآخذ میں ملتی ہیں۔ صحاح کی کئی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کو اپنے ترکہ میں قدیم مکان بھی ملا تھا۔ جسے آپ کے عم زاد بھائی حضرت عقیل بن ابی طالب ہاشمی نے اپنے زمانہءِ کفر میں غالباً آپ کی ہجرت مدینہ کے فوراً بعد ابوسفیان بن احرب موسیٰ کے ہاتھوں بیچ ڈالا تھا۔( بخاری ، الجامع الصحیح، باب این رکز النبی ﷺ یوم الفتیٰ مسلم، الجامع الصحیح ، کتاب الحج ، باب النزول مکتۃ للحاج و توریث دورھا، ابو داؤد ،سنن ، کتاب المناسک ، باب التحصیب اور کتاب الفرائض، باب ھل یرث المسلم الکافر) واقدی اور ابن سعد نے اس روایت کو بھی بیان کیا ہے مگر اس میں آپﷺ کے مکان (منزلک) اور آپ کے استفہام کہ ” عقیل نے ہمارے لیے کوئی مکان کہاں چھوڑا ہے” کا حوالہ ہے ۔مگر بلاذری کی روایت اور واضح ہے کہ حضرت عقیل نے اپنے حقیقی بھائی بہنوں جو مسلمان ہوکر ہجرت کرگئے تھے کے مکانات کے علاوہ رسول اللہ ﷺ کا مکان بھی بیچ ڈالا تھا۔ ابن اسحاق وغیرہ کے ہاں آپ کے مکان (بیت/دار) کا حوالہ متعدد مواقع پر آیا ہے۔ ان کے علاوہ بعض اور مآخذ میں بھی اس کی تصریح ملتی ہے۔ ان تمام بیانات و روایات سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط نہ ہوگا کہ آپ ﷺ کو ایک مکان ترکہ میں ملا تھا، جس کے آپﷺ مالک تھے اور غالباً اسی میں تا ہجرت قیام فرما رہے۔
جناب عبداللہ بن عبدالمطلب کی وفات کے ضمن میں یہ ذکر بھی آتا ہے کہ وہ برائے تجارت گئے تھے اور قریشی قافلہ میں اہل ِ مکہ کے کچھ لوگوں کا سامانِ تجارت لے کر گئے تھے۔ واپسی پر مدینہ منورہ کے قریب بیمار ہوئے اور ان کی درخواست پر ان کو کارواں کے رفقاء ان کے ننھیالی رشتہ داروں بنو نجّار /خزرج کے ہاں چھوڑ گئے تا کہ صحت یابی کے بعد سفر کرسکیں مگر وہ بیماری سے جانبر نہ ہوسکے اور جب ان کی خبر گیری کے لیے ان کے والد مکرم نے ان کے بڑے بھائی کو بھیجا تو وہ اللہ کو پیارے ہوکر مدینہ منورہ کی خاک میں مدفون ہوچکے تھے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ نہ صرف ان کے آخری سفرِ تجارت کامال اور نفع ان کےیتیم ویسیر فرزند کے حصہ میں آیا ہوگا بلکہ انکی تجارت سے حاصل کردہ نقد وجنس پر مشتمل کمائی بھی ملی ہوگی۔ اس کی تائید بعض اور روایات و قرائن سے ہوتی ہے۔
روایاتِ حدیث وسیرت کا اتفاق ہے کہ آپ کی اولین رضاعت کافریضہ آپ کی والدہ ماجدہ نے ادا فرمایا۔ آپ کی والدہ ماجدہ اور جد امجد نے یہ بار خوشگوار ومسرت آگیں اٹھایا تھا۔ ثوبیہ کا معاملہ بتاتا ہے کہ اس مسرت وسعادت میں آپ کے چچاؤں بے بھی حصہ لیا تھا۔ ابولہب نے تو اپنی باندی کوآزادی جیسی نعمت عطا کردی تھی۔ (ابن ہشام ، اول ص160-165 ، ابن سعد ،اول ص108-115،) جب کہ عبدالمطلب اور بی بی آمنہ نے بھی ان کے ساتھ اور خاص کر بی بی حلیمہ سعدیہ کے ساتھ حسنِ سلوک کیا تھا۔ یہاں ایک شبہہ کا ازالہ کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے جو متعدد سیرت نگاروں کی تحریروں میں دانستہ یا غیر دانستہ در آیا ہے کہ آپ کی یتیمی و یسیری کے سبب نہیں بلکہ آپ کی اس کے نتیجہ میں معاشی کمزوری کے سبب بی بی حلیمہ سعدیہ اور ان سے پہلے دوسری تمام دودھ پلائیاں آپ کی رضاعت کی سعادت حاصل کرنے سے گریزاں تھیں۔ (ابن اسحاق ، ص43: “لیکن جب یہ کہا جاتا کہ آپ یتیم ہیں تو کوئی عورت بھی آنحضرت ﷺ کو لینے پر راضی نہ ہوتی، کیونکہ ہم لوگ کہتے تھے کہ بچے کی ماں سے حسن سلوک کی کیا امید ہوسکتی ہے اگر بچے کا باپ ہوتا تو اس سے نیک سلوک کی توقع کی جاسکتی تھی۔” نیز ابن ہشام،اول ص163:” اِذَاقِیل لھا انہ یتیم، وذالک اناانما کنا نرجوا المعروف من ابی القبی…..وباعسی ان تصنع امہ و عبدہ فکنا نکرو الذالک…..نیزبلاذری،انساب الاشراف اول ص93 ابن کثیر،اول،مذکورہ بالا)
ابنِ اسحاق و ابنِ ہشام اور ان کے پیروکار سیرت نگاروں کے بیانات و روایات سے واضح ہوتا ہے کہ وہ سب فطری طور سے نومولود کے باپ سے بہتر حسنِ سلوک اور عزیز تر معاوضہ کی توقع رکھتی تھیں اور بقول ابنِ اسحاق ان کو یہ خیال تھا کہ ماں اور دادا کیا سلوک کرسکیں گے۔ اس لیے آپ کی یتیمی ان کی راہ میں رکاوٹ اور وجہ گریز بنتی تھی۔ بہرحال دادا عبدالمطلب اور ماں بی بی آمنہ کی خاندانی وجاہت وتمول اور سماجی قدرومنزلت نے ان کو بہتر معاوضہ کا یقین دلادیا ہوگا اور بعد کے واقعات ِ سعادت نے ان کو دنیاوی مال ودولت سے زیادہ خیر کثیر حاصل کرنے کاموقعہ فراہم کردیا۔
بی بی حلیمہ سعدیہ کے علاقہ (بنوسعد بن بکر کےمقام توطن) سے واپسی کے بعد رسول اللہ ﷺ اپنی والدہ ماجدہ بی بی آمنہ کی محبت بھری پرورش اور شفیق جد امجد عبدالمطلب کی لطف انگیز پرداخت سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ ہمارے تمام قدیم مآخذ ومصادر اور سیرت وحدیث متفقہ طور سے یہ بتاتے ہیں کہ چھ سال کی عمر شریف تک یعنی تقریباً سال سوا سال آپ والدہ ء ماجدہ کے زیرِ پرورش رہے ۔ (صفی الرحمٰن مبارکپوری ص87-88۔شبلی نعمانی ،اول ص175-176 ان کا مختصر ذکر کیا ہے اور اسی طرح مختصر ذکر مولانا مودودی ، سیرت ،دوم ص99-100)
والدہ ماجدہ کے مقابلہ میں رسول اکرم ﷺ کے جدامجد عبدالمطلب بن ہاشم کی کفالت نبوی کے زیادہ واقعات ،روایات یا تفصیلات دستیاب ہیں ۔ تقریباً تمام مآخذِ حدیث ومصادر ِ سیرت کا اتفاق ہے کہ والدہ ماجدہ کی وفات کے بعد آپ براہِ راست اپنے جد امجد کی کفالت میں آگئے،اور دو برس تک اس سے لطف اندوز ہوتے رہے۔
آپ کے دادا آپ سے غیر معمولی شفقت و محبت کرتے تھے۔ مسجد حرام میں سایہ کعبہ تلے ان کےلیے مخصوص فرش لگایا جاتا۔ ان کے اجلال و اکرام میں اس پر کوئی نہ بیٹھتا۔ آپ بچپن سے جب والدہ ء محترمہ زندہ تھیں ‘ دادا کی اس مجلسِ خاص میں ان کی مسند اجلال پر تشریف فرما ہوتے تھے۔ اور جب آپ کے چچا جو مسندِ خاص کے کنارے بیٹھتے تھے آپ کو منع کرتے تو شفیق دادا ان کو روکتے ، اپنے فرش بلکہ اپنے زانوؤں پر محبت کی گود میں بٹھاتے اور شفقت سے آپ کی پشت مبارک پر ہاتھ پھیرتے۔ ابنِ سعد نے کئی سندوں سے نقل کیا ہے کہ والدہ کے انتقال کے بعد عبدالمطلب نے آپ کو اپنے گھر میں ساتھ رکھا اور آپ پر اتنی شفقت کرتے تھے کہ اتنی اولاد پر یا کسی بچے (ولدہ) پر نہیں کرتے تھے۔ ہمیشہ ساتھ رکھتے اور پاس بٹھاتے، خلوت و جلوت میں ان کو آنے کی اجازت تھی، حتیٰ کہ سوتے وقت بھی آپ دادا کے پاس چلے جاتے تھے اور رہتے تھے۔ دادا محبت سے آپ کو اپنے فرش پر بٹھا لیتے تھے۔ وہ جب کھانا کھاتے تھے تو آپ کو ہمیشہ ساتھ بٹھاتے بلکہ آپ کے بغیر کھانا نہیں کھاتے تھے۔ اپ کی دیکھ بھال کے لیے حضرت ایمن روز اوّل سے مامور تھیں۔ ان کو عبدالمطلب ہمیشہ نصیحت کرتے رہتے کہ آپ کی طرف سے کبھی ذرا بھی غفلت و کوتاہی نہ برتیں کہ آپ کی الگ شان اور آن بان ہے۔
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عبدالمطلب نے اپنی وفات کے قریب رسول اکرمﷺ کے دو حقیقی اعمام زبیر بن عبدالمطلب اور ابوطالب کو کفالت و حفاظت ِ رسول اکرمﷺ کی بظاہر وصیت کی تھی کہ دونوں آپ کے والد مرحوم عبداللہ کے حقیقی بھائی تھے۔ بعض دوسرے شواہد وقرائن سے یہ بات سچی اور حقیقی معلوم ہوتی ہے کہ دونوں چچاؤں نے آپ کی کفالت کی تھی اور زبیر کی وفات کے بعد ہی ابوطالب نے تنہا یہ سعادت پائی تھی۔
ابنِ سعد کا بیان زیادہ مفصل ہے۔ ابو طالب آپ سے اتنی محبت کرتے تھے جتنی وہ اپنی کسی اولاد سے نہ کرتے ۔ آپﷺ کو اپنے پہلو میں سلاتے اور جہاں جاتے ساتھ لے جاتے۔ اور آپ پر غایت شفقت کرتے۔اور آپ کے کھانے پینے کا خاص اہتمام کرتے ۔ روایت ہے کہ ابوطالب کے اہل وعیال جب ساتھ یا اکیلے کھاتے تو ان کو سیرابی نہ ہوتی، مگر جب آپ شریک ِ طعام ہوتے تو سب سیر ہوجاتے۔ اسی لیے ابوطالب ان کو ہمیشہ تاکید کرتے کہ میرے بیٹے کو آجانے دو تب اس کےساتھ کھانا کھاؤ ۔
شفیق و کریم چچا کے گھر میں قیام اور ان کی کفالت و محبت سے فیض یاب ہونے کےساتھ ساتھ آپ نے ان کا ہاتھ بٹانے کی کوشش کی خواہ وہ کتنی حقیر و معمولی کیوں نہ رہی ہو۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے بکریاں چرائیں۔
امام بخاری اور امام ابن ماجہ کی ایک روایت ہے کہ آپ نے خود ایک بار ارشاد فرمایا تھا کہ میں بکریاں (غنم) قراریط پر مکہ والوں کے لیے چرایا کرتا تھا۔ بخاری اور ابن ماجہ نے اس کو بالترتیب “کتاب الاجارۃ” اور “کتاب البخارات” میں نقل کیاہے ۔ اور ان دونوں کے متعلقہ ابواب “باب رعی الغنم علی قراریط” اور “باب الصنایات” بھی اس کی مزید تائید کرتے ہیں کہ آپ یہ خدمت اجرت پر انجام دیا کرتے تھے۔ اہلِ قلم واقف ہیں کہ امام بخاری کے تراجم ابواب فقہ حدیث میں حرف آخر کا درجہ رکھتے ہیں۔ پھر لاھل سکہ(اہل ِسکہ کےلیے) کافقرہ مزید ثابت کرتا ہے کہ آپ اجرت پر یہ کام کیا کرتے تھے۔ورنہ مکہ والوں کے لیے بلا اجرت خدمت انجام دینے کا مفہوم ہی خبط ہوجاتاہے۔ دوسرے بہت سے علماء و محققین نے اجرت پر بکریاں چرانے ہی کی تائید و تصدیق کی ہےاور بہت قوی دلائل دیے ہیں۔ اور ان سے بحث کرنا ہمارے موجودہ مسئلہ سے تعلق نہیں رکھتا۔ بہرحال یہ محنت کا معاملہ تھا اور آپ نے اسی سے اپنی معاشی زندگی کا آغاز کیا۔
جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی آپ نے نوجوانانِ قریش کی مانند تجارت کا مشغلہ اپنایاکہ یہی قبیلہ کی روایت اور شہروخاندان کی ریت تھی۔ اپنے بچپن میں آپ نے اپنے چچا زبیر بن عبدالمطلب اور ابو طالب کےساتھ کم از کم یمن و شام کے دو سفر کیے تھے اور ابن ِسعد وغیرہ کی بعض اور روایات سے آپ کے اپنے چچا ابوطالب کےساتھ یا دوسرے رفقاء کے بازاروں میں موجودگی معلوم ہوتی ہے۔ ان کے ذریعہ تجارت و کاروبار سے ابتدائی تعارف تو حاصل کرہی لیا تھا۔ حضرت خدیجہ کا سامانِ تجارت لے کر شام جانے تک آپ بطور تاجر اپنی حیثیت مسلم اور اپنی مہارت و محنت اور ذہانت منوا چکے تھے۔
مکہ مکرمہ کے مالدار یا جو دور دراز کے سفر اور بازاروں کی مصروفیات سے گریز کرتے تھے یا بعض وجوہ سے خود نہیں کرسکتے تھے وہ دوسرے محنتی اور کارگزار و امانت دار اشخاص کو اپنا مالِ تجارت دے کر مختلف عرب کے بازاروں اور قریبی ممالک شام ویمن وغیرہ بھیجاکرتے تھے اور نفع کا ایک تناسب جو فریقین میں طے پاجاتا تھا”مضاربون” کو ادا کردیتے تھے اس طرح دونوں کو فائدہ ہوتا تھا۔(مضاربت کے طریقے کےلیے حضرت خدیجہ اور ابوسفیان کےساتھ تجارت کے واقعات شاہد ہیں۔ قدیم و جدید تمام سیرت نگاروں نے مضاربت کے طریقے کا ذکر کیا ہے ۔مثلاً ابن ہشام ، اول ص188 نے حضرت خدیجہ کے بارے میں کہا ہے کہ وہ لوگوں کواپنے مال کےلیے اجرت پر لیتی تھیں اور ان کےساتھ مضاربت کا معاملہ کرتی تھیں اور ان کو کچھ معاوضہ دیتی تھیں۔ نسناجر الرجال فی مالھا وتضاربھم اتباہ بشئ تجعلہ لھم۔) یہ تقریباً یقینی ہے کہ رسولﷺ نے اپنی تجارت کا آغاز اسی اصول مضاربت کےمطابق کیا تھا اور حضرت خدیجہ رض کے مال ِتجارت کوشام لے جانے سے قبل متعدد حضرات کےساتھ تجارتی روابط قائم کرکے اپنی ساکھ بناچکے تھے۔ بعثت و نبوت سے قبل رسول اکرمﷺ کے جن شرکاء تجارت کا ذکر ملتا ہے ان میں حضرات سائب،قیس بن سائب مخزومی اور عبداللہ بن ابی الحماد شامل ہیں۔ وہ آپ کےمعاملہ کی صفائی ،راست گوئی ، وعدہ وفائی اور حسن معاملہ کا اعتراف کرتے تھے۔
ان سب میں تفصیلات کے لحاظ سے آپ کا وہ سفر تجارت ہے جو حضرت خدیجہ کے مال کے ساتھ اور ان کے غلام میسرہ کی معیت میں آپ نے شام /بصریٰ کاکیا تھا۔ آپ نے دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ نفع کمایا اور حضرت خدیجہ نے آپ کو حسبِ وعدہ دوسروں سے زیادہ دیا۔ اور اپنے غلام میسرہ کے زبانی آپ کی معاملہ فہمی ،راست بازی، محنت و دیانت کے واقعات سن کر خاصی متاثر ہوئیں۔ اکثر روایات یہ تاثر دیتی ہیں کہ اس سفر کے بعد حضرت خدیجہ سے آپ کی شادی ان کی یا اپنی تحریک سے ہوگئی۔(ابن اسحاق (اردو) ص86-87،ابن ہشام،اول ص187-190،ابن سعد،اول ص 130-133،بلاذری،اول ص97،ابن کثیر،اول ص262-267) اسی طرح یہ تاثر بھی عام ہے کہ حضرت خدیجہ سے شادی کے بعد آپ ان کی دولت و تجارت پر گویا تکیہ و انحصار کرکے بیٹھ گئے تھے اور زمانہ ِ بعثت تک بلکہ اس کے بعد ہجرت مدینہ یا ان کی وفات 9ھ تک اپنا آزاد تجارتی مشغلہ ترک کردیاتھا۔ چند روایات و شواہد ایسے ہیں جو یہ ثابت و واضح کرتے ہیں کہ شغل ِ تجارت بعثت نبوی کے بعد میں بھی جاری رکھا
ابن کثیر نے مشہور جاہلی شاعر امیہ بن ابی الصلت کے ذکر کےلیے اپنی مخصوص فصل میں ایک طویل روایت طبرانی سے ایمن کی سند پر بیان کی ہے جو مرفوع ہے۔ اس کا لب ِ لباب یہ ہے کہ ابوسفیان بن حرب اموی اپنے دوست امیہ بن ابی الصلت ثقفی کےساتھ برائے تجارت شام گئے اور وہاں دو ماہ قیام کرکے مکہ واپس آئے اور پھر یمن کے سفر تجارت پر چلے گئے جہاں پانچ ماہ قیام کیا اور پھر مکہ مکرمہ واپس آئے۔ ابوسفیان اس کے بعد طواف ِ کعبہ کے لیے گئے تو آپ سے ملاقات ہوئی اور آپ سے کہا کہ آپ کا سامان اتنا اتنا ہوگیا ہے اور اس میں نفع ہوا ہے ( وکان فیھا خیر) ۔ آپ کسی کوبھیج کر اسے منگوا لیں اور آپ سے وہ بھی نہ لیں گے جو اپنی قوم سے لیتے ہیں۔ یہ سن کر آپ نے انکار کردیا اور فرمایا کہ تب تو نہ لوں گا ۔ ابو سفیان نے یہ سن کر کہا کہ اچھا آپ کسی کو بھیج دیں اور میں اتنا ہی لوں گا جو اپنی قوم سے لیتا ہوں۔چنانچہ آپ نے اپنا سامانِ تجارت منگوالیا اور ابو سفیان نے دوسروں کی مانند آپ سے بھی اپنا معاوضہ لے لیا۔ ابنِ کثیر نے اس کے بعد دوسرے واقعات بیان کیے ہیں جن کا امیہ بن ابی الصلت سے تعلق ہے اور آخر میں طبرانی کی تجارت نبوی سے متعلق یہی روایت دوسری سند سے بیان کی ہے اور کہا ہےکہ حافظ بیہقی نے بھی اس کو کتاب الدلائل میں اسماعیل بن طریح کی سند سے بیان کیا ہے مگر ہم نے طبرانی کی روایت و سیاق کو اس لیے ترجیح دی ہے کہ وہ سب سے زیادہ مکمل ہے۔ یہ روایت واضح طور سے بعثت سے ذرا قبل وبعد آپ کی تجارت میں فعال دلچسپی کا بیان پیش کرتی ہے جو مضاربت کے اصولوں پر مبنی تھی۔ گویا آپ نے وہ مقام حاصل کرلیاتھا جب آپ اپنا مال دوسروں کو مضاربت پر دیتے تھے۔
ترتیب زمانی کےاعتبار سے ایک اور روایت بلاذری نے انساب الاشراف میں بیان کی ہے جو مختصر ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اہم بھی ہے۔ اس کا اتفاق سے تعلق ابوسفیان بن حرب اموی ہی سے ہے۔ اور اس کا خلاصہ یہ ہےکہ جب رسول اکرمﷺ خفیہ طور سے اسلام کی دعوت دے رہے تھے توابوسفیان شام سے ایک تجارتی سفر سے واپس آئے اور ان کے ساتھ رسول اکرمﷺ کی تجارت کا سامان بھی تھا اور آپ نے ان سے اس کی بابت فرمایا تھا کہ “انشاءاللہ آپ اس میں امانت ادا کریں گے۔” طبرانی ، بیہقی اور بلاذری کی ان دو روایات سے کم از کم ثابت معلوم ہوجاتا ہے کہ رسول اکرم ﷺ کی تجارت کاسلسلہ بعثت کے بعد بھی جاری رہا تھا۔ کارِنبوت کی گرانباری اور ہمہ وقت مصروفیات کی بنا پر ظاہر ہے کہ آپ کو خود براہ ِ راست تجارتی اسفار کرنے کی مہلت نہ ملتی تھی۔اور اس کی ضرورت بھی نہ تھی کہ دوسرے تجار مکہ کی مانند آپ مضاربت کی بنا پر اپنی تجارت کو جاری رکھ سکتے تھے۔
یہ صحیح ہے کہ اسلام کی مخالفت اور آپ کی عداوت کے بدترین زمانہ میں آپ کی تجارت سے بہت سے تاجرانِ مکہ نے پہلوتہی بھی کی ہوگی مگر کچھ ایسے بھی ہوں گے جنہوں نے دوستی ،تعلقات اور مالی منافع وغیرہ جیسے متعدد اسباب کےسبب آپ کےلیے مضاربت پر تجارت کرنی مفید بھی سمجھی ہوگی۔ پھر آپ کے بہت سے جانثار صحابہ کرام میں سے متعدد حضرات تاجر تھے۔ اور انہوں نے اس خدمت ِ نبوی کو اپنے لیے سعادت دارین سمجھا ہوگا۔
ان روایات میں اس خیال و نظریہ اور تاثر کی تردید ہوتی ہے جو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ حضرت خدیجہ سے شادی کے بعد آپ نے ان کی دولت و تجارت پر تکیہ کرکے وسائل ِ حیات فراہم کیے تھے۔
رسول اکرمﷺ کی معیشت مکی کے باب میں حضرت خدیجہ کی تجارت و دولت کو کافی اہمیت حاصل ہے اور اس سے انکار کرنا ناانصافی بھی ہوگا اور تاریخی معروضیت اور اسلامی اصول پسندی کا خون کرنا بھی۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اس وسیلہء حیات اور وجہ معاش کا اس کے صحیح تاریخی تناظر اور واقعاتِ سیرت کے واقعی پسِ منظر میں اور ان سب سے بڑھ کر رسول اکرمﷺ کی عظیم المرتبت شخصیت کے اعتبار سے جائزہ لیں۔
رسولِ اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے حضرت خدیجہ کی زندگی میں کسی سے شادی نہیں کی، یہ امر ہی ان تمام نفس پرستی کے الزامات کی تردید کرتا ہے۔ کچھ یرقان زدہ آنکھوں والے ناقدین یہاں تک کہہ گئے کہ یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کی معاشی مجبوریاں تھیں جنہوں نے خدیجه (رضی اللہ تعالی عنہہ) کی زندگی میں آپکو مزید شادی سے روکے رکھا۔
Stanely Lane Pool نے اسلام کا تلخ ناقد ہونے کے باوجود، ایسے دعوے کی نامعقولیت کو تسلیم کیا۔ وہ لکھتا ہے؛
” خدیجه کیلئے محمد کی صداقت و وفاداری کی وجہ مال و دولت قرار دی گئی ہے۔ وہ(معترضین) کہتے ہیں کہ محمد ایک غریب شخص تھا جبکہ خدیجه دولتمند اور اثر و رسوخ والی خاتون تھی؛ خاوند کی جانب سے کہیں اور کسی بھی طرح کی ‘دل لگی’ طلاق کا سبب بنتی اور ساتھ ہی ساتھ جائیداد اور مقام کو بھی نقصان پہنچتا۔ اس بات کی نشاندہی کی ضرورت نہیں ہے کہ غربت کا خوف ( اس وقت عرب میں رہنے والے کیلئے ایک معمولی انجام ہوگا )ایک حقیقی نفس پرست آدمی کو پچیس سال تک نہیں روکا جا سکتا؛ بلخصوص جب کسی بھی اعتبار سے لازم بھی نہیں کہ خدیجه جو اسکو پورے دل سے محبت کرتی تھی’کبھی اس وجہ سے طلاق کا سوچتی بھی۔ اور ابھی اس وضاحت میں محمد کا محبت میں اپنی بوڑھی بیوی خدیجه کو(اسکی وفات کے بعد ) یاد کرنا شامل نہیں ہے۔ اگر محض اسکی دولت ہی نے پچیس سال تک اسکو روکے رکھا ہوتا، تو کوئی بھی یہ امید کر سکتا ہے کہ اسکی موت کے بعد وہ یہ لبادہ اتار پھینکتا، اور شکر شکر کرتے پھر سے یہی سب دہراتا۔ مگر محمد نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا۔ ”
-(Studies in a Mosque p.79, pub. W. H. Allen & Co. London, 1883)
پھر دولت ، حسین لڑکی سے شادی، سرداری کی آفرین تو قریش کئی دفعہ انکو پیش کرچکے تھے کہ شاید یہ یہی کچھ چاہتے ہیں ۔ پہلے ڈائریکٹ پھر حضرت ابوطالب کے سامنے آفر دی گئی جس کا تذکرہ تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے ، آپ نے جواب میں فرمایا تھا کہ اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ پر چاند دوسرے پر سورج بھی رکھ دیں میں یہ دعوت کا کام نہیں چھوڑ سکتا۔
ہمارے مؤرخین و سیرت نگاروں سے زیادہ ہمارے قدیم و جدید مفسرین نے یہ خیال و نظریہ عام کرنے میں حصہ لیا ہے کہ حضرت خدیجہ کی دولت آپ کی مالداری اور خوشحالی کی ذمہ دار تھی اور اللہ تعالیٰ نے یہ دنیاوی وسیلہ اسی لیے فراہم کیا تھا کہ آپ دنیاوی مشاغل سے بالاتر و آزاد ہوکر اللہ کے دین کو پھیلانے اور لوگوں کو صحیح راستہ دکھانے کےلیے ہمہ وقت اور ہمہ جہت مصروف ہوجائیں ۔ اس خیال و نظریہ کی حمایت میں مفسرین نے “ووجدک عائلاً فاغنیٰ” کو پیش کیا ۔ ابن ِ کثیر نے مفہوم بیان کیا ہے کہ ” آپ فقر اور عیال والے تھے تو اللہ نے آپ کو اپنے سوا سب سے غنی کردیا اسی طرح”عیال والے فقیر”تنگدست” ،مفلس”،”نادار”،”محتاج”اور انگریزی میں “ضرورت مند ” کے مختلف ترجمے ملتے ہیں۔
ان کے علاوہ بھی کئی تعبیرات مل سکتی ہیں۔ ان میں سے کسی کو ترجیح و تجریح کے خیال سے نہیں بلکہ عربی زبان کے اعتبار سے یہ کہاجاسکتا ہے کہ “عائل” اس ضرورت مند ومحتاج کے لیے استعمال ہوتا ہے جوعائلی ذمہ داریوں کے سبب تنگدست ہواہو۔ خالص فقر کےلیے قرآن مجید نے فقر ہی کا لفظ استعمال کیا ہے اور اس کے متضاد غنی کا لفظ ۔ لہٰذا یہ تنگدستی تھی فقر نہ تھا۔ بہرکیف یہ بحث طویل ہے۔ لہٰذا اسے نظر انداز کرکے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس آیت کریمہ سے رسول اکرمﷺ کے فقر و مفلسی پر استدلال نہیں کیا جاسکتا۔ آپ کی احتیاج و ضرورت اور تنگدستی پر کیاجاسکتاہے۔
ہمارے متعین کردہ مفہوم کی تائید بعض تاریخی روایات و سیرتی واقعات سے ہوتی ہے۔ اوپر کی بحث سے یہ معلوم ہوچکا ہے کہ رسول کریم ﷺ کو والدین کی وراثت میں اچھا خاصہ سامان اور غیر منقولہ مکان ملا تھا۔ جو خوشحالی کے لیے کافی نہ تھا۔ تاہم بقدر کفاف تھا۔ اور ضروریات کے لیے کافی تھا۔ پھر والدہ کی پرورش ،جد امجد و اعمام نبوی کی کفالت کےبعد آپ کی محنت کی کمائی اور تجارت تھی۔ اور اسی تجارت نے آپ کو بقدر کفاف سے اوپر اٹھا کر “غنا” کے درجہ تک پہنچایا تھا۔ اور بعد میں حضرت خدیجہ کی دولت و تجارت نے آپ کی اپنی تجارت سے مل کر آپ کو مادی فراغت نصیب کردی۔ ان حقائق کے علاوہ سیرت نبوی کے مختلف مراحل ارتقاء سے کچھ اور معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ جو آپ کے “مال”، سامان” یا جو کچھ سے نام دیا جائے کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
ابنِ اسحاق وغیرہ کے مطابق آپ ہر سال رمضان المبارک میں غارِ حرا ء میں مجاورہ و مراقبہ کیا کرتے تھے اور یہ سلسلہ بہت ابتداء سے جاری تھا۔ اور مجاورہ کےخاتمہ پر طواف ِ کعبہ کرتے اور اس کے بعد بلاناغہ مساکین کوکھانا کھلایا کرتے تھے۔(ابن ہشام،اول ص236 یہی روایت و تفصیل ابن اسحاق ، ابن کثیر کےہاں بھی پائی جاتی ہے۔ ملاحظہ ہو ابن اسحاق ، (اردو) ص121 کا بیان” آپ کی عبادت میں یہ بھی شامل تھا کہ آپ کےپاس قریش کےجو مساکین آتے تھے آپ ان کو کھانا کھلاتے تھے) آپ کے جودوسخا ، مہمان داری اور فیاضی ،کمزوروں کے ساتھ حسنِ سلوک ، ناداروں کی امداد اور اجنبیوں اور بیگانوں مادی راحت رسانی کوئی بعد کی بات نہیں تھی اور نہ کسی اور کی دولت ومال کی محتاج تھی۔ یہ آپ کی فطرت و طبیعت میں شروع سے تھی اور اس کا اظہار برابر ہر مرحلہ ء حیات پر ہوتا رہا۔ حضرت خدیجہ رض نے اولین وحی قرآن کے نزول کے بعد آپ کی انہیں صفات کو یاد دلا کر آپ کی دلجوئی اور اپنی تصدیق و ایمان کی شہادت دی تھی۔ (بخاری، الجامع الصحیح،باب کیف کان بدء الوحی،ابن اسحاق(اردو)ص123)
حضرت خدیجہ سے شادی کی تھی تو کھانے پینے کے انتظام کے علاوہ اپنے سسرالی رشتہ داروں کو حلہ/لباس پہنائے اور حضرت خدیجہ کو بیس “بکرہ” (اونٹنیاں) مہر میں دیں۔(ابن ہشام اول ص190،دومص643،ابن کثیر،السیرۃ النبویۃ ،اول ص263۔مہر خدیجہ کے لیے اور کفالت حضرت علی کےلیے ملاحظہ ہو ، ابن ہشام،اول ص246 ،اور دوسرے متعدد قدیم و جدید مآخذ)
بعد میں ہجرت مدینہ کے قریب حضرت سودہ اور حضرت عائشہ سے نکاح کیا تو ان کو فی کس چار سو پانچ سو درہم مہر دیا تھا اور ظاہر ہے کہ ولیمہ بھی کیا تھا اور ان کے کفاف کا انتظام بھی ۔(ابن ہشام ،دوم ص643 میں چار سودرہم ہےجبکہ مسلم ،کتاب النکاح ،باب الصداق اور ابن ماجہ،کتاب النکاح،باب صداق النساء میں ساڑھے بارہ اوقیہ جس کی قیمت بقول حضرت عائشہ پانچ سو درہم ہوتی ہے۔بیان ہوا ہے۔ ابن ماجہ نے ایک اور روایت یہ بیان کی ہےکہ حضرت عائشہ کا مہر “متاع بیت”تھا جس کی مالیت پچاس درہم تھی۔ مگر روایت اس کے ایک راوی عطیہ عوفی کے سبب ضعیف قرار دی گئی ہے) ان کے علاوہ آپ کے کپڑوں ، کھانے ، اسلحہ وغیرہ کے کبھی کبھی اکا دکا حوالے مل جاتے ہیں۔ مثلاً ابن ِ کثیر کی روایت ہے کہ عہدِ جاہلیت میں آپ کے ساتھ حضرت زید بن حارثہ دسترخوان پر بیٹھے کھانا کھا رہے تھے اور آپ نے مشہور حنیف زید بن عمر کو بھی مدعو کیا تھا۔
اسی طرح آپ نے اپنی بنات مطہرات کی شادیاں کی تھیں تو تین مخدرات کےلیے سامان جہیز وغیرہ کا انتظام کیا تھا۔ کھانا بھی کیا تھا۔ آپ کے لباس /کپڑوں کا بھی مکی عہد میں مختصر حوالہ آتا ہے اور ظاہر ہے کہ آپ اس کی ضرورت بھی اپنے مال سے پوری کرتے رہے تھے۔ مثلا بوقت ہجرت آپ نے حضرت علی کو اپنے بستر پر اپنی چادر (برد حضرمی) اوڑھ کر سوجانے کےلیے کہاتھا جو آپ نے کی مخصوص چادر تھی۔ اور وہ حضرموت کی بنی ہوئی سبز رنگ کی تھی۔ ظاہر ہے کہ گھرداری کے اسباب بھی تھے اور ان میں سے آپ کی ایک ہانڈی( برمتہ) کا ذکر بدقماش پڑوسیوں کے ستانے کے ضمن میں آتا ہے ۔لباس میں آپ کے ازار کا دوجگہ کم از کم ذکر آیا ہے۔ اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ہمیشہ دولباس زیب تن فرمائے ایک ازار اور ایک رداء /حلہ وغیرہ اوپر کا لباس۔
آپ کے مکی غلاموں میں حضرت زید بن حارثہ اور ان کی اہلیہ محترمہ حضرت ایمن مشہور ہیں ۔ حضرت زید کو آپ نے حضرت خدیجہ سے مانگ لیا تھا اور آزاد کرکے حضرت امِ ایمن سے بیاہ دیا تھا جن سے حضرت اسامہ پیدا ہوئے اور اس پورے خاندان کی کفالت آپ ہی کرتے رہے۔ دوسرے غلاموں میں حضرات ابوکبشہ،انسہ ، صالح شقران اور سفینہ تھے۔ ان سب کو آپ نے غالباً خریدا اور آزاد کردیا تھا مگر وہ آپ ہی کے زیرِ کفالت رہے تھے۔ غالباً ان کے علاوہ بھی کچھ مکی غلام تھے۔
اسی طرح ہجرت کے وقت آپ کو اپنے تمام جانور اور اثاثہ چھوڑنا پڑا تھا تو حضرت ابوبکر کی فراہم کردہ اونٹنی قصوائ خرید لی تھی جس کی قیمت چارسودرہم تھی۔(ابن ہشام،اول ص487،ابن سعد ،اول ص492 کا واضح بیان ہےکہ آپ نے چار سو درہم میں وہ حضرت ابوبکر سے خرید لی تھی)
ابنِ اسحاق نے اسلام کے لیے آپ کی دو دعوتوں کے انتظام کرنے کا ذکر کیا ہے۔ اس کاخلاصہ یہ ہے کہ جب قرآن مجید کی سورۃ شعراء کی آیت 214 “وَاَنذِر عَشیرَتَکَ الاَقرَبِین ؕ (اور اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو باخبر کرو) نازل ہوئی تو آپ نے حضرت علی کے ذریعہ ایک صاع کا کھانا تیار کرایا، اور اس پر سالم بکری کاپکا ہوا گوشت رکھوادیا اور دودھ سے بھرا ہوا ایک لگن رکھوایا اور بنوعبدالمطلب کودعوت اکل وشرب دی جس کے لیے چالیس مرد جمع ہوئے اور انہوں نے کھانا پیٹ بھر کھایا لیکن ابولہب کے بہکاوے میں آکر مجلس خراب ہوگئی اور آپ دعوت پیش نہ کرسکے۔ آپ نے پہلے دن کی مانند دوسرے دن دعوت اکل و شرب کا انتظام کیا اور اس بار مختصراً اپنی دعوت پیش کی۔ ان دونوں دعوتوں پر آپ کے مال کے خرچ ہونے کا معاملہ ظاہر ہے۔
ابن ِ اسحاق ہی کی ایک اور روایت بھی اس ضمن میں بیان کردی جائے جو انہوں نے نزول وحی کے بعد آپ کےمعمول کے عنوان کے تحت درج کی ہے اور جس میں آپ نے فرمایا تھا:” اے اولاد ِ عبدمناف ! اے اولادِ عبدالمطلب! اے فاطمہ محمد کی بیٹی ! اے صفیہ رسول اللہ کی پھوپھی! تم لوگ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچاؤ کیونکہ میں اللہ کی گرفت سے تم کو بچانے کا کوئی اختیار نہیں رکھتا۔ البتہ میرے مال میں سے تم جو چاہو مجھ سے مانگ سکتے ہو۔۔” روایت میں آپ کی حدیث اور آگے چلتی ہے مگر ہمارے موضوع سے متعلق مذکورہ بالا ٹکڑے کا آخری فقرہ ہے جو مکی دور میں آپ کے مال کا صاف ذکر کرتا ہے۔(ابن اسحاق (اردو) ص149-151 نیز ملاحظہ ہو ابن کثیر،السیرۃ النبویۃ،اول ص455-460 جنہوں نے اس پر مکمل فصل باندھی ہے اور متعدد روایات حدیث وسیرت کے مآخذ سے نقل کی ہیں۔آپ کےمال والی حدیث کے الفاظ صحیح مسلم سے یوں نقل کیے ہیں:….”……….لا املک لکم من اللہ سیا سلونی من مالی ماستم۔” دو دعوتوں والی روایات ابوبکر بیہقی کی کتاب الدلائل سے نقل کی ہیں۔ اور دوسری روایات نقل کی ہیں جن میں وہ روایت بھی جو مولانا شبلی ،اول ص210 نے نقل کی ہے اور ابن کثیر نے نقد کرتے ہوئے اسے وضاع حدیث عبدالغفار بن قاسم ابو مریم کا کارنامہ بتایا ہے اور جس پر خود جامع سیرت النبی ﷺ سید سلیمان ندوی نے بھی نقد کیا ہے ملاحظہ ہو ان کا حاشیہ 1۔ روایت کا اصل حصہ صحیح ہے اس کا آخری حصہ شیعی وضاع حدیث کا الحاق ہے جس میں صرف حضرت علی کو آپ کا ساتھ دینے کا شرف دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ نیز ملاحظہ ہو سید مودودی ،سیرت سرورعالم ،دوم ص495)
اگر تمام روایات ذکر کی جائیں اور سب کا تخصص کیا جائے تو مکی دورِ حیات نبوی میں آپ کے وسائل معاش کے اور بھی ثبوت مل سکتے ہیں لیکن اس بحث کو جو پہلے ہی کافی طویل ہوچکی ہے اسی پر ختم کیا جاتا ہے ۔
9. اصحاب رضوان اللہ کے ہدایا اور خدمات
مدنی دورِ حیات طیبہ کی مانند مکی زمانہء سیرت میں بھی رسول اکرمﷺ کی معاش کے تعلق سے اس ضمن میں کچھ روایات ملتی ہیں۔ وہ خواہ کتنی حقیر اور عارضی نوعیت کی رہی ہوں بہرحال آپ کی مسرت وشادمانی ، سہولت و آسانی اور اس سے بڑھ کر صحابہ کرام کی سعادت و خوش بختی کی ذمہ داری رہی تھیں۔ مکمل تجزیہ تو کافی وقت و جگہ کامتقاضی ہے ، صرف چند مثالوں پر اکتفا کی جاتی ہے تاکہ معاش نبوی مکی کا یہ باب سرے سے خالی نہ رہ جائے ۔
رسول اکرمﷺ کے سب سے قریبی صحابی، جانی دوست اور جاں نثار رفیق حضرت ابوبکرؓ رہے تھے۔ وہ صدیق اکبر محض اس لیے قرار نہیں دیے گئے تھے کہ انہوں نے آپ کی بلاجھجھک تصدیق و تائید کی تھی بلکہ انہوں نے اپنی جان و مال اور خدمت سے اپنے ایمان و محبت کی ہر ہر قدم پر تصدیق کی تھی۔ خود رسول اکرمﷺ نے فرمایا تھا کہ مجھے ابوبکر کے مال و خدمت سے جتنا فائدہ پہنچا اتنا کسی سے نہیں پہنچا۔
ہجرت مدینہ کے سفر کے لیے سارے انتظامات یعنی زادِ سفر ، سواری ، خادم و رہبر کی خدمات اسی خاندان صدیقی کے محبت کرنے والے افراد نے کی تھی۔ اور اس سفرِ ہجرت کے دوران مکی مسلمانوں میں حضرات طلحہ و زبیر نے آپ کو کپڑے بطور ہدیہ پیش کیے تھے۔ مکہ کے طویل قیام کے دوران صحابہ کرام نے بالخصوص اور بعض ہمدردانِ خاندان نے بالعموم آپ کی براہ ِ راست یا بالواسطہ مدد کی تھی۔ دعوتِ اسلام کے خفیہ تبلیغ کے دور میں حضرت رقم بن ابی ارقم مخزومی نے اپنا مقام آپ کے صدر مقام تحریک کےلیے پیش کیا تھا اور ظاہر ہےکہ اس قیام کے دوران آپ کی دوسری خدمات اہل ِ بیت کے علاوہ آپ کے یہی جاں نثار انجام دیتے تھے۔
بنوہاشم اور مسلمانوں کے مقاطعہ کے دوران حضرت حکیم بن حزام جیسے بعض ہمدردوں کی امداد و رسد رسانی کا ذکر ملتا ہے۔ طائف سے واپسی پر دشمنان ِ قریش میں سے عتبہ بن ربیعہ اور اس کا بھائی شیبہ نے آپ کی انگوروں سے ضیافت کی تھی۔ یہ چند مثالیں بطور نمونہ پیش کردی گئیں ورنہ تلاش و جستجو سے ایسی اور بھی کافی مثالیں اور روایات پیش کی جاسکتی ہیں۔ ان سے معاش نبوی کے اس پہلو پر روشنی پڑتی ہے جو سماج و معاشرہ کے اجتماعی سلوک سے تعلق رکھتا ہے۔ پھر مکی معاشرہ میں جہاں صحابہ کرام زندگی کے سخت ترین اور تحریک کےمشکل ترین دورسے گزر رہے تھے یگانگت و الفت ، جاں نثاری و قربانی اور ایک دوسرے کے کام آنے کےجذبات بہت گہرے اور فراواں تھے۔ اور انہوں نے مل کر اپنی اور رسول اکرمﷺ کی معاشی مشکلات کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی۔
مکی عہد کی معیشت نبوی کے اس نامکمل اور مختصر تجزیہ سے جو تصویر ابھرتی ہے وہ یہ ہے کہ رسول اکرمﷺ کی مکی زندگی ابتداء ہی سے افلاس و غربت کی شکار نہ تھی کیونکہ آپ کا تعلق بہرحال “اشرافِ مکہ” کے چیدہ اور معاشی لحاظ سے خاصے متمول گھرانے سے تھا۔ اگرچہ آپ کو یتیمی کا داغ اور اس کی پیدا کردہ محرومی کا سامنا اپنی پیدائش کےروز سے ہی کرنا تھا۔ تاہم آپ کے والد مرحوم کے چھوڑے ہوئے اثاثے اور ترکہ نے آپ کی زندگی کے سفر کی ابتدا کو خوشگوار بنانے میں کافی حصہ لیاتھا۔پھر آپ کو حد سے زیادہ پیار کرنے والے دادا اور والدہ ماجدہ کی محبت اور دولت کا بھی سہارا تھا۔ جد امجد عبدالمطلب نے اپنے یتیم پوتے کو کسی قسم کی معاشی تنگی یا محرومی کا احساس نہیں ہونے دیا اور اسی طرح آپ کی پرورش وپرداخت کا انتظام کیا جس طرح آپ کے والد عبداللہ کے زمانہ میں ہوتا۔ دادا کے علاوہ آپ کو اپنی والدہ ماجدہ کی محبت و نگہداشت کی دولت حاصل تھی اور اپنے ددھیالی اور ننہالی خاندانوں کے دوسرے بزرگوں اور عزیزوں کی بھی۔والدہ کی وفات کے بعد جس طرح دادا نے دیکھ بھال کی وہ مثالی تھی اور دادا کی موت کے بعد آپ کی کفالت کی پوری ذمہ داری آپ کے دو چچاؤں زبیر بن عبدالمطلب اور ابوطالب نے بالخصوص سنبھال لی اور اپنے مرتے دم تک خوب نبھائی۔
لڑکپن ہی سے آپ نے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوشش کی اور گلہ بانی کا نبوی پیشہ اختیار کیا جو مالی یافت کا معمولی سہارا تھا۔ مگر اس نے آپ کو تجربات سے نوازا اور جب سن شعور کو پہنچے تو تجارت کا خاندانی اور قومی پیشہ اختیار کرنے میں لڑکپن کے بعض تجارتی اسفار کےساتھ دلیل راہ ثابت ہوا۔ مضاربت کے اصول پر آپ نے اپنی تجارت کا آغاز کیا اور مقامی تجارت سے رفتہ رفتہ ترقی کرکے قومی تجارت کے دھارے میں شریک ہوگئے اور مکہ مکرمہ میں اپنی محنت ، مہارت ، امانت و صلابت کے سبب ایک ممتاز جگہ بنالی اور ایک ابھرتے ہوئے خوشحال تاجر بن گئے۔
پچیس سال کی عمر شریف میں حضرت خدیجہ جیسی مالدار ترین اور خوشحال خصال عورت سے شادی کی تو ایک کامیاب تاجر تھے اور پھر اپنی تجارت کو اپنی نیک نہاد اور جاں نثار اہلیہ کی تجارت کے ساتھ مدغم کرکے “غنی” کے اس درجہ تک پہنچ گئے جس کا حوالہ قرآن مجید میں آیا ہے۔ یہ مشترکہ تجارت آخر مکی عہد تک جاری رہی۔ بس اس فرق کے ساتھ کہ بعثت کے بعد آپ نے دوسروں کو مضاربت پر مال دے کر تجارت کا سلسلہ جاری رکھا۔ آپ کی تجارت اور غنا حضرت خدیجہ کی دولت و تجارت کی محتاج اور اس پر مبنی نہ تھی۔ بلکہ خود مختار و آزاد تھی۔ البتہ آپ کی دولت وتجارت کو اس سے بہت فیض پہنچا تھا۔ جس طرح متعدد صحابہ کرام کی جاں نثاری اور ہمدردانِ قریش کی مدد سے زیست کا سامان کسی حد تک فراہم ہوا تھا۔ آپ کی مکّی معیشت انہیں مختلف عناصر سے مرکب تھی۔
معیشت نبوی ﷺ مدنی عہد میں :
معیشتِ نبوی کے مدنی دور پر اس مضمون میں بحث کی گئی ہے۔ اس کے مآخز میں قران مجید، احادیثِ رسول ﷺ اور سیرت کے مآخذ شامل ہیں۔ تاریخ اسلام کے مصادراور بعض ثانوی کتابوں سے بھی مدد لی گئی ہے۔ مضمون کی اصل بنیاد سیرتِ نبوی کی عملی اور واقعاتی شہادتوں پر قائم ہے۔ نظریاتی اور اصولی بحثوں اور روایتوں سے بھی اجتناب نہیں کیا گیا، مگر اصل زور تاریخی واقعات پر ہے۔ مقصود یہ ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ اور آپ کے اہل و عیال کی نجی معاشی زندگی، وسائلِ حیات کی فراہمی اور استعمال پر روشی ڈالی جاۓ اور ان سے تاریخی ٹھوس نتائج اخذ کیے جائیں
سیرتِ نبوی کے گہرے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نبوی معیشت کے وسائل کی فراہمی کے موٹے طور پر دو طریقے تھے: ایک آپ کی اپنی انفرادی کوششوں پر مبنی تھا اور ان میں خریداری اہم ترین زریعہ تھا۔ دوسرا طریقہ اجتماعی کوششوں پر مبنی تھا جس میں غنیمت و فے اہم ترین وسیلہ تھا اور دوسرے ہدیہ وغیرہ کے بعض اور ذرائع بھی تھے۔ مکی دور میں معاش پہلے طریقے سے ہی رہی۔ مدینہ میں حضور ﷺ کی مصروفیت اور ذمہ داریاں بڑھ گئی تھیں ۔یہاں بحیثیت سربراہِ امت و مملکت آپ کو یکے بعد دیگرے ایسے مسائل اور مشاغل کا سامنا تھا کہ آپ کے لیے اپنی تجارت اور کاروبار کے لیے ٹائم نکالنا ممکن نا تھا، اس دور کے شروع میں اس ذمہ داری کا ذیادہ بوجھ اہل مدینہ اور آپ ؐ کے صحابہ و معاونین نے ہی اٹھائے رکھا آپ کے صحابہ آپ پر مال و جان سے فدا تھے،ہر کسی کی یہی کوشش ہوتی تھی کہ اسکا مال حضور ﷺ کے استعمال میں آجائے۔آپ کو کبھی معاش کا مسئلہ درپیش نا ہوا پھر بعد میں اپنے وسائل و ذرائع اور مال غنیمت میں سے حصہ سے اپنے اہل و عیال کے لیے سامانِ زیست فراہم کرتے رہے ۔ہم پہلے صحابہ کے ہدایہ و تحائف خدمات کا اور پھر ذاتی کوششوں وسائل کا تذکرہ پیش کریں گے۔
چونکہ انسانی معاش میں اولیت و ترجیح جسم و روح کے رشتہ کو قائم رکھنے والے ذریعہ کو حاصل ہے اس لیے سب سے پہلے روزی روٹی کی فراہمی کے ذرائع سے بحث کی جارہی ہے اس کے ساتھ ہی دوسری بنیادی ضروریات جیسے لباس و مکان وغیرہ بھی زیرِ بحث آتی رہیں گی۔
ہجرت کے بعد رسولِ اکرم ﷺ نے قبا میں قیام کیا۔ روایات کے مطابق آپ نے یہاں چودہ دن قیام فرمایا اور بنو عمرو بن عوف کے بزرگ سردار حضرت کلثوم بن ہِدم کو آپ کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا۔ یہی وہ بزرگ ہیں جنہوں نے آپ کی تشریف آوری سے قبل اور بعد میں متعدد صحابہء کرام کی میزبانی کی تھی۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ حضرت سعد بن خشیمہ رض کے کاشانہ پر آپ اترے اور قیام پزیر ہوۓ تھے مگر سیرت نگاروں کا تقریباََ اتفاق ہے کہ مہمانی رسول ﷺ کا شرف حضرت کلثوم رض کو حاصل ہوا تھا۔ خواہ کوئی روایت تسلیم کی جاۓ یہ حقیقت بہرحال نہیں بدلتی کہ مدینہ منورہ کے ابتدائی قیام میں آپ کی معیشت و معاش کا مدار ضیافتِ انصار و سخاوتِ اہلِ مدینہ پر تھا۔ قیام و طعام کی دوسری تفصیلات ہمارے مآخذ میں مذکور نہیں ہیں مگر ظاہر ہے کہ آپ کی تمام ضروریات کی کفالت حضرت کلثوم بن ہِدم نے کی تھی ۔( ابن ہشام، السیرۃ النبویہ، مرتبہ مصطفٰی السقا ابراہیم الابیاری، عبدالحفیظ شبلی، مصطفٰی البابی الحلبی قاہرہ 1955ء اول ص 493 ۔بخاری، الجامع الصحیح، طبع مصطفٰی البابی الحلبی،جلد پنجم ص86-87)
خاص شہرِ مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد آپ نے حضرت ابو ایوب خالد بن زید نجاری انصاری کے گھر قیام فرمایا۔ روایات میں آتا ہے کہ جب آپ کی اونٹنی حضرت ابو ایوب انصاری رض کے گھر کے قریب بیٹھ گئی اور آپ نے ان کے مکان میں قیام کا ارادہ فرما لیا تو آپ کا سامان آپ کے انصاری مہمان اپنے گھر لے گئے۔ سامانِ رسول ﷺ کی تفصیلات مآخذ میں اگرچہ مذکور نہیں تاہم قیاس کیا جا سکتا ہے کہ کپڑے، برتن وغیرہ ضروری اشیاء اس میں شامل رہی ہوں گی۔
آپ کی اونٹنی حضرت اسعد بن زرارہ رض اپنے گھر لے گئے اور اس کی دیکھ بھال اور کھانے پینے کا انتظام انہیں کے سپرد ہوا۔ اگرچہ آپ کے کھانے پینے کا انتظام آپ کے میزبان حضرت ابو ایوب انصاری رض کے یہاں رہتا تھا اور دونوں میزبان میاں بیوی اس وقت تک لقمہ نہیں توڑتے تھے جب تک آپ تناول نہ فرما لیں بلکہ اسی برتن میں اسی جگہ کھانا شروع کرتے تھے جہاں آپ کی انگلیوں کے نشان ہوتے تھے تاہم دوسرے صحابہ کرام بھی آپ کےلیے برابر کھانا بھیجتے رہتے تھے۔ حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کا معمول یہ تھا کہ بالائی منزل سے آپ کی قیام گاہ زیریں منزل میں کھانے کے اوقات میں خوان بھیجتے تھے، آپ اس میں جو چاہتے اور جتنا چاہتے کھا لیتے اور بقیہ واپس کر دیتے جس سے میزبان لذتِ کام و دہن کرتے۔ ایک بار میزبان نے ایسا کھانا بھیجا جس میں لہسن کی بو تھی آپ نے کھایا تو میزبان کو پریشانی ہوئی مگر آپ کی وضاحت کے بعد ان کی تشویش جاتی رہی۔ عام طور پر آپ کے ساتھ شام کے کھانے پر حضرت ابو ایوب انصاری اوردوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمٰعین ضرورموجود ہوتے تھے۔ (ابن ہشام، اول ص 497-499۔ بلاذری، انساب الاشراف،مرتبہ محمد اللہ، دارالمعارف مصر قاہرہ 1959ء، اول ص266-267۔ مسلم ، الجامع الصحیح، کتاب الاشربہ، باب اباحۃ اکل الثوم الخ)
حضرت ابو ایوب انصاری رض کے مہمان خانے میں آپ کا قیام روایات کے مطابق تقریباََ سات ماہ رہا اور ابنِ سعد کی روایت کے مطابق اس دوران کوئی ایسا دن نہیں گزرا جب تین چار صحابہ کرام کے گھروں سے آپ کےلیے کھانا نا آیا ہو۔ ظاہر ہے کہ آپ وہ سب تناول نہیں فرما سکتے تھے۔ ضرورت و پسند کے مطابق لے کر باقی واپس کر دیتے تھے۔ بلاذری کی روایت میں یہ تصریح ہے کہ بنو نجار باری باری سے آپ کےلیے حضرت ابو ایوب رض کے گھر میں قیام کے دوران کھانا بھیجا کرتے تھے۔ ان میں حضرت ام یزید بن ثابت نے دودھ اور گھی سے بنا ہوا ثرید ایک بار بھیجا تھا۔ دوسرے بزرگ حضرت سعد بن عبادہ تھے جنہوں نے ایک بار پیالہ بھیجا جس میں طَفَیشل نامی شوربہ تھا۔ آپ نے اسے بڑی رغبت سے تناول فرمایا۔ حضرت ابو ایوب انصاری رض آپ کے ساتھ کھانے میں شریک تھے لہذا بعد میں آپ کےلیے وہی مخصوص و محبوب کھانا گھر میں تیار کرانا شروع کر دیا۔ اسی طرح آپ کےلیے ہریس (گوشت اور گہیوں ملا کر پکایا ہوا) نامی کھانا بھی تیار کرتے تھے۔ رات کے کھانے میں آپ کے ساتھ پانچ سے دس حضرات شریک ہوا کرتے تھے۔ دوسرے خوش نصیبوں میں حضرت اسعد بن زرارہ رض کا نام آتا ہے جو ایک دن کے ناغہ سے ایک بڑا پیالہ بھیجا کرتے تھے اور آپ کو اس کا انتظار رہتا تھا اور گھر والوں سے فرمائش کر کے منگواتے تھے۔ آپ کو ان کا بھیجا ہوا کھانا بہت پسند آتا تھا۔( انساب الاشراف، اول ص267)
اہل مدینہ کے ہدایا اور میزبانی
سات ماہ بعد میزبانی ء ابو ایوب انصاری کا زمانہ ختم ہوا اور آپ نے پہلے مسجدِ نبوی اور پھر اپنی دو ازواج حضرت عائشہ رض اور حضرت سودہ رض کےلیے حجرے تعمیر کیے۔ مسجد کی زمین آپ نے انصار سے خریدی تھی اور اس کی نقد قیمت دس دینار ایک سو بیس درہم حضرت ابو بکررض نے اپنی جیب سے ادا کی تھی۔ تعمیری سامان مدینہ کے صاحبِ خیر صحابہ ء کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے فراہم کیا تھا اور آپ نے بہ نفسِ نفیس اس کی تعمیر میں حصہ لیا تھا۔ مسجد سے متصل آپ کےلیے دو مکان/حجرے بناۓ گئے تھے ۔( ابن ہشام، اول ص496-497۔ بخاری ،کتاب بدءالخلق،باب علامات النبوۃ، باب ہجرۃ النبیﷺ ۔ کتاب مواقیت الصلاۃ، باب اذاکان بین الامام….الخ شبلی نعمانی، اول ص 280-283) روایات میں ان کی جزئیات کی تصریح نہیں ملتی مگر عام شہادتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ حجروں کی زمین اور ان کا ضروری تعمیری سامان بھی صحابہ ء کرام کے عطیہ سے آیا تھا۔ جہاں تک زمین/آراضی کا تعلق ہے تو مدینہ منورہ میں آپ کی آمد کے بعد انصار نے اپنی تمام افتادہ آراضی آپ کے قدموں میں ڈال دی تھی اور آپ نے بحیثیت سربراہِ امت و مملکت اس آراضی کی تقسیم اپنی صوابدید اور صحابہء کرام کی ضروریات کے مطابق کی تھی۔ (انساب الاشراف اول ص270) اس پر مفصل بحث بعد میں ہوگی۔
حجروں کی تعمیر کے بعد آپ نے اپنے دو آزاد کردہ غلاموں (موالی) حضرات زید بن حارثہ اورابو رافع کو پانچ سو درہم اور دو اونٹ دے کر مکہ مکرمہ بھیجا کہ وہ آپ کے اہل و اعیال کو جو بوقت ہجرت وہاں رہ گئے تھے مدینہ لے آئیں۔ چنانچہ حضرات زید و ابورافع آپ کی اہلکہ حضرت سودہ اور دو بناتِ مطہرات حضرتِ امِ کلثوم اور حضرت فاطمہ کو لے کر مدینہ پہونچے جبکہ آپ کی دوسری اہلیہ حضرت عائشہ رض اپنے خآندان والوں کے ساتھ مدینہ آئیں حضرت زید بن حارثہ اپنی اہلیہ حضرت امِ ایمن اور صاحبزادے حضرت اسامہ کو بھی ساتھ لاۓ تھے۔ بلاذری نے تصریح کی ہے کہ آپ نے پانچ سو درہم حضرت ابو بکر رض سے قرض لیے تھے۔ جس طرح آپ نے ہجرت کے سفر کےلیے اپنی مشہور اونٹنی قرض خریدی تھی۔ ظاہر ہے کہ یہ دونوں رقوم آپ نے بعد میں اپنے مال سے ادا کی ہو گی۔ ـ(ابن سعد بحوالہ سیرت النبی ص280۔انساب الاشراف اول،ص511)
روایات میں آتا ہے کہ جوں جوں آپ نے مزید نکاح کیے ازواج مظہرات کی رہائش کےلیے حجرے بھی تعمیر ہوتے گئے۔ یہ سب ترتیب وار مسجد سے متصل چھ ساتھ ہاتھ چوڑے اور دس ہاتھ لمبے تھے ان کی زمینیں اور تعمیراتی سامان صحابہ کرام بالخصوص انصارِ مدینہ کے ہدیہ و عطیہ سے آیا تھا۔ ان کے باہری دروازوں پر کمبل کے پردے ہوتے تھے۔ ۔ (شبلی نعمانی، اول ص281-282)
جب آپ اپنی ازواج و اولاد کے ساتھ اپنے مکانات میں سکونت پزیر ہو گئے تو بھی صحآبہ کرام بالخصوص انصاری صحابہ کے عطایا کا سلسلہ جاری رہا۔ جب تک حضرت اسعد بن زرارہ زندہ رہے برابر اپنے معمول کے مطابق کھانے کا بڑا پیالیہ بھیجتے رہے تھے اور یہی معمول حضرت سعد بن عبادہ کا آپ کی وفات تک جاری رہا۔ (انساب الاشراف ص267۔ ابن سعد ،الطبقات الکبرٰی،دار صادر بیروت 1956ء،سوم ص614) حضرت عائشہ چونکہ آپ کی محبوب بیوی تھیں اور بعد میں حضرت سودہ کے اپنی باری انہیں عطا کرنے کے بعد آپ کا قیام ان کے گھر میں کیا کرتے تھے۔ (بخاری،کتاب الہبہ،باب قبول الہدیۃ،ابن ہشام،دوم ص644۔شبلی نعمانی،دوم ص404-409)
امام مالک کی روایت ہے کہ ایک بار حضرت عائشہ کے گھر میں صرف ایک روٹی تھی جو انہوں نے افطار کےلیے رکھ لی تھی مگر ایک مسکین کو مانگنے پر دے دیا مگر شام کو کسی صاحب خانہ نے ان کے پاس گوشت کا ہدیہ بھیجا، ایک اور روایت میں مزکور ہے کہ ایک بار انگور کھا رہی تھیں اور ان میں سے ایک دانہ ایک فقیر کو صدقہ کیا تھا۔ امام مالک ہی نے بیان کیا ہے کہ ایک حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ دونوں روزے سے تھیں مگر جب کھانے کا ہدیہ آیا تو دونوں نے افطار کر لیا۔ آپ نے دونوں کو قضا کرنے کا حکم دیا۔ مسلم کی روایت ہے کہ ایک بار حضرت عائشہ سے کھانا طلب کیا اور نہ ملنے پر روزہ رکھ لیا۔آپ کے گھر سے نکلتے ہی ہدیہ میں پڑوسیوں نے حیس نامی کھانا بھیجا۔ آپ کی واپسی پر حضرت عائشہ نے اسے پیش کیا اور آپ نے تناول فرمایا۔ (الموطا،جلد سوم ص185۔نیزکتاب الصیام، قضاء التطوع)
روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ متعدد دوسری ازواج کے گھروں میں کھانے وغیرہ کے ہدیے آتے رہتے تھے۔ امام مالک فرماتے ہیں کہ ایک بار حضرت میمونہ بنت الحارث ام المومنین کی بہن ہُنریلہ نے گوہ (ضب) اور دودھ کا ہدیہ بھیجا۔ آپ کے ساتھ آنے والے حضرات خالدبن الولید اور عبداللہ بن عباس نے گوہ تناول کیا مگر آپ نے نفاستِ طبع کے سبب صرف دودھ نوش فرمانے پر اکتفا کیا۔ (الموطا،کتاب الجامع، باب ماجاءفی اکل الضب)
اسی طرح حضرت ابن عباس کی خالہ ام حفید نے آپ کے لیے اقط (پنیر) سمن(گھی/مکھن) اور اضب(گوہوں) کا ہدیہ بھیجا ،آپ نے اقط وسمن تو تناول فرمایا، مگر اضب سے اس کی گندگی کے سبب احتراز کیا۔ (بخاری ،کتاب الہبہ، باب قبول الہدیہ کتاب الاطعمۃ، باب ماکان النبیﷺ لایاکل الخ۔ ترمذی ،ابواب الاطعمہ،باب فی اکل الضب)
یہ دونوں روایات غالباً ایک ہی واقعہ سے متعلق امام مالک اور امام بخاری کے یہاں نقل ہوئی ہیں۔ امام بخاری ہی کی نقل کردہ حدیث ہے کہ جب آپ نے حضرت زینب سے شادی کی تو ام سلیم نے حضرت انسؓ سے کہا کہ ہمیں آپ کے لیے ہدیہ بھیجنا چاہیے۔ پھر انہوں نے کھجور(تمر) گھی(سمن) اور پنیر(اقط) کو ملاکر ایک بڑی ہانڈی میں حیسہ بنایا اور آپ کو ہدیہ بھیجا۔ آپ نے اصحاب میں سے نام بنام لوگوں کو بلایا اور اس میں سب کو شریک کیا۔ (بخاری،کتاب النکاح،باب الہدیۃ للعروس)
امام مسلم کی دو روایات میں ہے کہ حضرت جویریہ ام المومنین کے گھر بکری کے گوشت کا صدقہ ان کی باندی کے لیے آیا تو آپ نے اسے نوش فرمایا کہ وہ باندی کےلیے صدقہ اور آپ کےلیے ہدیہ تھا۔( مسلم، کتاب الزکوٰۃ،باب اباحۃ الہدیۃ للنبیﷺ)
امام مسلم کی روایت میں ہے کہ حضرت ام مالک آپ کو عموماً سمن(گھی) ہدیہ میں بھیجا کرتی تھیں۔ (مسلم،کتاب الفضائل)
متعدد دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے صحابہ کرام آپ کے لیے ہدیہ میں کھانے پینے کی اشیاء بھیجا کرتے تھے اور ظاہر ہے کہ آپ کسی نہ کسی زوجہ مطہرہ کے گھر میں قیام پذیر بھی ہوا کرتےتھے۔ (انساب الاشراف اول ص۔267،بخاری،کتاب الہبہ و فضلہا، مسلم، کتاب الزہد و الرقائق۔ ترمذی، ابواب صفۃ القیامہ ،باب سنن ابن ماجہ،کتاب الزہد،باب معیشت آلِ محمد)
ابنِ ماجہ کی متعدد احادیث میں آیا ہے کہ آپ کےلیے پرانی کھجوروں (تمر عتیق) کاہدیہ کبھی آیا تو کبھی طائف کے انگور کا اور کبھی طعام سخن(گرم پکا ہوا کھانا) کا۔ آپ نے آخرالذکر کھانے کو تناول فرما کر اللہ تعالٰی کا شکریہ ادا کیا کہ مدت کے بعد ایسا کھانا عطا کیا۔ (سنن ابن ماجہ،کتاب الاطعمہ،باب تفتیش التمر،باب اکل الثمار، کتاب الزہد،باب معیشت آلِ محمد)
حضرت سعدبن عبادہ کے ہدیہ طعام کا حوالہ اوپر آچکا ہے۔ اس کے باب میں ابنِ سعد کی روایت سے تصریح ہوتی ہے کہ صحابی موصوف آپ کے لیے روزانہ گوشت یا دودھ یا سرکہ تیل یا گھی کا ثرید بھرا بڑا پیالہ (جفنۃ) بھیجا کرتے تھے۔ اکثر اس میں گوشت کا ثرید ہوتا تھااور یہ پیالہ دلنوازی آپ کے ساتھ تمام ازواجِ مطہرات کے ہاں گردش کیا کرتا تھا۔ (ابن سعد،سوم ، ص۔614 انساب الاشراف، اول ،ص۔267)
ایک دلچسپ روایت یہ ہے کہ مدنی اصحابِ زراعت اور مالکانِ باغ اپنی کھجور کی پیداوار میں سے اس کے کچھ گچھے/خوشے مسجد میں نادار نمازیوں کےلیے لٹکا دیا کرتے تھے۔ ایک بار آپ نے ردی کھجوروں کے خوشے کو دیکھ کر اس کے ہدیہ وصدقہ کرنے والوں کو سخت سست کہاتھا کہ وہ اللہ کی راہ میں ردی مال ہدیہ کیا کرتے ہیں، جبکہ عمدہ مال اور بہترین شے کا مطالبہ الٰہی ہے۔( ابوداؤد ، سنن ،کتاب الزکوٰۃ،باب
مالایجوز من الثمرۃفی الصدقۃ)
ایک سنتِ نبوی یہ بھی تھی کہ آپ مختلف صحابہ کرام کے ہاں ان کے گھروں کی وقتاً فوقتاً زیارت بھی کیا کرتے اور جب کسی کے ہاں جاتے تو وہ حتیٰ الوسع آپ کی خدمت کیاکرتا۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ان زیارتوں کےدوران اکثروبیشتر صحابہ کرام آپ کو اور آپ کے ہمراہ ساتھیوں کی کھانے پینے کی دعوت بھی کیا کرتے تھے۔ ایسی ہی ایک زیارت کے دوران آپ کو کتف(شانہ) کا گوشت پیش کیاگیا اور آپ نے برغبت کھایا۔ بخاری،کتاب مواقیت الصلاۃ و فضلہا، باب اذا دعی الامام الی الصلاۃ اور دوسرے ابواب۔ موطا، 1/48۔ مسلم ، کتاب الحیض،باب نسخ الوضو، ممانست النار، متعدد احادیث / روایات مروی ہیں
ایک اور زیارت میں کسی نے دودھ پیش کیا اور آپ نے قبول فرمالیا۔ (بخاری،کتاب الوضو، باب ہل یمضمض عن البن۔ ابوداؤد ، کتاب الطہارۃ، باب فی الوضو من اللبن۔ باب الرخصۃ فی ذالک)
ایک اور موقعہ پر آپ کو ذراع(دست) کا گوشت پیش کیاگیا اور آپ نے پسندیدگی سے تناول کیا۔ (بخاری، کتاب التفسیر، باب سورۃ بنی اسرائیل اور دوسرے کتب و ابواب)
روایات کا اتفاق ہےکہ آپ جب کبھی قبا تشریف لے جاتے تو حضرت امِ حرام بنتِ ملحان کےگھر ضرور جاتے اور وہاں استراحت فرماتے اور وہ آپ کو کھانا کھلائے بغیر نہیں آنے دیتیں۔( مؤطا، کتاب الجہاد، الترغیب فی الجہاد)
ترمذی کی روایت ہے کہ آپ نے ایک انصاریہ کے گھر زیارت کی تو انھوں نے بکری ذبح کرکے گوشت کھلایا اور بعد میں کھجوروں سے ضیافت کی ۔( ترمذی، ابواب الطہارہ، باب فی ترک الوضو مما غیرت النار)
مسلم میں ہے کہ ایک بار حضرت عبداللہ بن بسر کے گھر گئے تو انھوں نے کھانے(طعام) دودھ (وطبہ) اور کھجور(تمر) سے آپ کی ضیافت کی۔ (مسلم، کتاب الاشربہ، باب استحباب وضع النویٰ خارج التمر الخ۔ ابن ماجہ ،کتاب الاطعمہ باب التمر بالزبد)
حضرت سعد بن عبادہ نہ صرف آپ کے مختلف مکانات پر آپ کےلیے مستقل خوانِ نعمت بھیجا کرتے تھے بلکہ آپ جب ان گھر جاتے اور آپ اکثر ان کی زیارت کیا کرتے تھے تو وہ آپ کو عمدہ کھانوں سے نوازے بغیر نہیں آنے دیتے تھے۔( ابو داؤد، کتاب الادب، باب کم مرۃ یسلم الرجل فی الاستیذان)
فتح مکہ میں حضرت ام ہانی کے گھر تشریف لے گئے تو انھوں نے روٹی اور سرکہ سے ضیافت کی۔ (ترمذی، کتاب الاطعمۃ،باب فی الخل)
بسا اوقات ایسا بھی ہوا کہ آپ کسی اور مقصد سے کسی کے ہاں گئے اور اس نے آپ کی مہمانداری کی کہ عرب مہمان نوازی کھلائے پلائے بغیر مہمان وزائر کو اجازتِ رخصت نہیں دیتی تھی۔ اسی سلسلہ میں ایک واقعہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ پر ان کے والد کے زمانے سے یہودی کا قرضہ چلا آرہاتھا۔ آپ یہودی سے مہلت دلانے کےلیے جابر کے باغِ نخل میں گئے تو صحابی موصوف نے عمدہ کھجوروں (رطب) سے آپ کی تواضع کی اور پھر جب فصل آنے پرآپ ان کا قرض چکانے اور یہودی قرض خواہ کا حصہ دلانے کےلیےگئے تو بھی آپ کی تواضع کی گئی۔( بخاری،کتاب الاطعمہ،باب الرطب والتمر)
موطاء مسلم اور ترمذی وغیرہ کی روایت ہےکہ ایک بار حضرات شیخین کے ساتھ آپ بھوک سے بیتاب ہوکرنکلے تو تینوں بزرگ باقاعدہ طے کرکے حضرت ابوالہیثم بن التیہان کے گھر کھانے کی غرض سے گئے۔ صحابی مذکور گھر میں نہ تھے مگر ان کے اہل وعیال نے ان اکابر کی خاطرتواضع کی اور جب صاحبِ مکان آئے تو انھوں نے باقاعدہ بکری ذبح کرکے تینوں کی شاندار دعوت کی۔ گوشت کے علاوہ مختلف اقسام کی کھجوریں اور ٹھنڈا پانی بھی ان نعمتوں میں شامل تھا۔ امام مالک کے ہاں جَو(شعیر) کی روٹی بھی مذکور ہے جو اس دعوت میں پیش کی گئی تھی۔ غالباً یہ واقعہ مدینہ منورہ کےابتدائی عہد کا ہے اور عین ممکن ہے کہ بعد میں زمانہء قحط سے اس کا تعلق رہاہو۔ (مؤطا،کتاب الجامع، جامع ماجاء فی الطعام و الشراب۔ مسلم ،کتاب الاشربہ، باب جواز استتباعہ غیرہ الخ۔ ترمذی ، ابواب الزہد،باب فی معیشۃ اصحاب النبیﷺ)
زیارتوں کے علاوہ اہلِ مدینہ اکثر و بیشتر اپنے محبوب رسول اکرمﷺ کو راہ چلتے بھی برکت کے حصول یا محبت وتعلق کے اظہار کےلیے اپنےگھر بلا کر لذتِ کام ودہن کا نظم کرتے تھے۔ ذکر آچکا ہے کہ ایک مسلم کے جنازہ کی تدفین سے واپسی پر آپ کو ایک عورت نے کھاناکھلایا تھا۔ ابوداؤد کی ایک روایت ہے کہ راہ سے آپ گزر رہے تھے اور راستہ میں ایک شخص ہانڈی چڑھائے کھانا پکارہا تھا۔ آپ نے پوچھا : کھانا پک گیا؟ اس نے بطیب خاطر پیش کردیا اور آپ اس میں سے ایک ٹکڑا نکال کر کھاتے ہوئے مسجد چلے گئے۔( ابوداؤد ، کتاب الطہارۃ،باب فی ترک الوضو، مماست النار)
ظاہر ہے کہ ایسے واقعات کی بھی کمی نہیں، تلاش و جستجو سے ان کی بہت سی مثالیں جمع کی جاسکتی ہیں۔
عام دعوتوں اور زیارتوں کے علاوہ شادی بیاہ وغیرہ کے مخصوص مواقع پر بھی آپ کو اکثر و بیشتر دعوتِ طعام وشرب دی جاتی تھی اور اگر کوئی شرعی مصلحت مانع نہ ہوتی تو آپ ہردعوت ضرور قبول فرماتے تھے۔ ایسی مخصوص دعوتوں میں سے چند کا ذکر کیاجاتا ہے جن میں آپ نے شرکت فرمائی۔ روایات میں ایک دلچسپ واقعہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت ابواسید ساعدی کی شادی ہوئی توانھوں نے آپ کو چند دوسرے رفقائے کرام کے ساتھ دعوت دی۔ گھر میں میاں بیوی کے سوا کوئی خادم نہ تھا لٰہذا نئی نویلی دلہن نے اپنے ہاتھوں سے اپنے رسول کےلیے کھانا پکایا اور پھر خود آپ کو اور اصحاب کی خدمت میں پیش کیا۔ کھانے کے بعدانھوں نے پتھر کے برتن میں تیارکردہ کھجور کی نبیذ بھی آپ کو پلائی۔( بخاری ، کتاب الاشربتہ،باب الانتباذفی الاوعیۃ و التور، دوسرے کتب و ابواب۔ بالخصوص کتاب النکاح۔ باب النقیع و الشراب الذی لایسکر فی العرس، وباب قیام المراۃ علی الرجال فی العرس….)
ایسے ہی ایک موقع پر آپ کے ایک فارسی پڑوسی نے آپ کی اور حضرت عائشہ کی دعوت کی۔ دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ پڑوسی صرف آپ کوبلانا چاہتا تھا مگر آپ نے حضرت عائشہ کے لیے بھی پوچھا اس نے ہامی نہ بھری۔ بالآخر تیسری بار اس نے حضرت عائشہ کی بھی دعوت کی اور آپ نے تب قبول کی۔( مسلم ، کتاب الاشربۃ،باب مایفعل الضیف اذا تبعہ غیر…الخ)
اگرچہ شادی بیاہ اور دوسرے خاص مواقع پر آپ کی شرکت کاذکر ملتاہے تاہم دعوتِ طعام و لذتِ کام ودہن کا صاف حوالہ نہیں ملتا، مگر یہ قرینِ قیاس ہے کہ ایسے بہت سے مواقع پر آپ نے کھانا یا مشروب تناول و نوش فرمایاتھا۔
ہدایائے طعام کا قبول کرنے کے بارے میں جو روایات اوپر مذکور ہوئی ہیں ان سے یہ تاثر قطعی ہرگز نہ لیاجائے کہ آپؐ کے معاش کا انحصار ان ہی عطایا پر تھا۔ یہ خلافِ حقیقت تاثر ہوگا کیوں کہ تصویر کا دوسرا رخ ابھی پیش کرنا باقی ہے۔
اوپر کی روایات میں ٹھوس کھانے (طعام) کے ساتھ بعض مشروبات کا بھی حوالہ آیا ہے لیکن مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان پر مشتمل ہدایا کا الگ سے بھی ذکر کیا جائے۔ کیونکہ اس سے معیشت ِ نبوی کے بعض غیر معروف یا کم معروف پہلو روشن ہوں گے۔حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ ایک بار دودھ میں پانی ملا کر آپ کو پیالہ ہدیہ کیا گیا۔ آپ نے نوش فرما کر پہلے ایک اعرابی کو دیا جو داہنے ہاتھ بیٹھا تھا کہ سنتِ نبویؐ یہی ہے اور پھر حضرت ابوبکر کو عطا فرمایا جو بائیں جانب نشست رکھتے تھے۔ (مسلم،کتاب الاشربہ،باب استحباب ادارۃ الماءواللبن ونحوھاعن یمین المبتدی)
بلاذری نے ان کنوؤں پر ایک الگ فصل قائم کی ہے جن کا پانی آپ کوپسند تھا اور عموماً پیاکرتے تھے۔ اس فصل میں کافی اہم تفصیلات موجود ہیں۔ ملاحظہ ہو انساب الاشراف،اول ص ۔538-535
بلاذری میں ایک دلچسپ روایت یہ ہے کہ حضرت ابوایوب انصاری وغیرہ متعدد صحابہ کرام آپ کےلیے اور آپ کے گھر والوں کےلیے پانی سے بھرے مٹکے فراہم کیا کرتے تھے۔ (انساب الاشراف،اول ص۔535)
واقعہ تحریم میں یہ ذکر کافی معروف ہے کہ آپ کی ایک زوجہ مطہرہ کو ان کی ایک ہم قوم عورت نے شہد کی ایک بڑی مشک ہدیہ کی تھی اور آپ روزانہ ان کے گھر عصر کے بعد جاتے تو تناول فرمایاکرتے اس میں اکثر تاخیر ہوجایاکرتی تھی۔ (بخاری ،کتاب الطلاق ، باب یا ایہا النبی لم تحرم الخ۔ مسلم ، کتاب الطلاق باب وجوب الکفارۃ علی مِن حرم امراء ولم ینو الطلاق۔ ابو داؤد ، کتاب الاشربۃ،باب فی شراب العسل)
ایک بار دودھ کا ہدیہ آیا تو آپ نے پی کر کلی کی اور پھر نماز پڑھی اور فرمایا کہ اس میں چکنائی ہوتی ہے اس لیے وضو(کلی) ضروری ہے۔ (بخاری، کتاب الاشربہ،باب شرب اللبن)
معیشتِ نبوی کے ضمن میں ایک حدیث اکثر بیان کی جاتی ہے مگر زہدوفقر کی فضیلت ثابت کرنے کے لیے اس کے صرف ایک حصہ پر زور دیا جاتا ہے۔ متعدد ائمہ ءِ حدیث کی روایت ہے کہ حضرت عائشہ نےایک بار اپنے بھانجے حضرت عروہ بن زبیر سے کہا کہ ہم ایک چاند سے دوسرا چاند اور دوماہ میں تین چاند دیکھ لیاکرتے تھے اور رسول اللہ ﷺ کے گھروں میں آگ نہیں جلاکرتی تھی۔ عروہ نے خالہ سے پوچھا کہ پھر سامانِ زیست کیا تھا؟ حضرت عائشہ نے فرمایا: عموماً دوسیاہ(اسود) چیزوں یعنی کھجور اور پانی پر گذارا ہوتا تھا۔ البتہ آپ کے انصاری پڑوسی اپنے دودھاری جانوروں یعنی اونٹنیوں کا دودھ آپ کےلیے ہدیہ بھیجا کرتے تھے۔ اور آپ ہم کوبھی پلاتے تھے۔ (بخاری ،کتاب الہبہ و فضلہا، وغیرہ۔ ملاحظہ ہوں حوالے حاشیہ نمبر 18 کے۔ شبلی نعمانی ،دوم مذکورہ بالا)
دودھ کے معیشتِ نبوی میں حصہ پر ایک اور بحث آگے آرہی ہے۔
بارگاہِ رسالت میں ہدایا بھیجنے کے علاوہ آپ کے محبت کرنے والے اصحاب آپ کو اکثر و بیشتر اپنے گھروں پر دعوت بھی دیاکرتے تھے۔ بلاذری کے مطابق حضرت براء بن معرور کی اہلیہ حضرت ام لبر نے تحویلِ قبلہ بروز سہ شنبہ 15شعبان2 ھ سے قبل آپ کی شاندار دعوت کی تھی۔( انساب الاشراف ، اول ص۔246)
معیشتِ نبوی کا یہ باب بھی کافی دل آویز اور مفصل ہے۔ امام بخاری وغیرہ کی روایت ہےکہ حضرت ابوطلحہ انصاری نے آپ کو مع آپ کے صحابہ کرام کے کھانے پر اپنے گھر بلایا اور آپ نے دعوت قبول کی ۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوطلحہ انصاری کے گھر آپ نے کئی بار کھانا تناول فرمایا۔ صرف غزوہ خندق کے دوران ہی نہیں جس کاذکر روایات میں زیادہ آیا ہے۔( بخاری کتاب الصلاۃ، باب من وعالطعام فی المسجد ومن اجاب فیہ)
ان کے علاوہ آپ نے حضرت عتبان بن مالک انصاری کے گھر پر ان کی گھریلومسجد کا نماز پڑھ کر افتتاح کیا اور پھر ان کی دعوت پر خزیرہ کی دعوت اپنے چند اصحاب کے ساتھ کھائی۔( بخاری ، کتاب الصلاۃ ، باب المساجد فی الدور۔نیز مسلم،کتاب المساجدومواضع الصلاۃ، باب الرخصۃ فی التخلف عن الجماعۃ بعذر)
حضرت ابو شعیب گوشت کے تاجر /دوکاندار تھے۔ انھوں نے ایک بار آپ کی چند اصحاب کےساتھ دعوت کی اور عمدہ کھانا کھلایا۔( بخاری ، کتاب البیوع،باب فی اجتناب الشبہات)
ابو داؤد کی روایت ہے کہ ایک بار حضرات علیؓ و فاطمہؓ کے یہاں ایک مہمان وارد ہوا۔ ان کی ضیافت کے لیے کھانا تیار ہوا تو آپ کو بھی دعوت دی اور آپ نے قبول فرمایا۔ (ابوداؤد ، کتاب الاطعمہ۔ باب فی طعام المتباریین)
غزوہ خندق کے دوران ایک دن حضرت جابر نے گوشت اور جو کی روٹی سے آپ کے صحابہ کرام سمیت آپ کی دعوت کی۔ آپ کے معجزہ سے ہانڈی سے ہزار اصحاب نے پیٹ بھر کھایا اور وہ پھر بھی اسی طرح کھانے سے بھری رہی۔( بخاری،باب غزوۃ الخندق)
حضرت انس کی روایت ہے کہ ایک خیاط نے آپ کی دعوت کی اور میں بھی آپ کے ساتھ شریکِ طعام ہوا تو دیکھا کہ آپ پیالہ کے کنارے لو کی کے ٹکڑے سے ڈھونڈتے تھے۔ پیالہ میں دراصل لوکی کے سالن پر مشتمل ثرید تھی اور اس دن سے حضرت انس کو بھی لوکی پسند آنے لگی ۔( بخاری،کتاب الاطعمہ، باب من یتبع حوالی القصعۃ،…. باب الثوید وغیرہ دوسرے ابواب)
مسلم کی حدیث میں ہے کہ بنو سلمہ کے ایک شخص نے جزور (اونٹ) ذبح کرکے آپ کو گوشت کی دعوت دی۔ (مسلم ، کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ، باب استحباب التبکیر بالعصر)
حضرت مغیرہ بن شعبہ نے دعوت کی تو پہلو(جنب) کا گوشت بھون کر کھلایا۔( ابوداؤد، کتاب الطہارہ، باب فی ترک الوضو ممانست النار)
حضرت ام المنذر نے آپ کو حضرت علی کے ساتھ دعوت پر بلایا تو دوال(سوکھی کھجور کاخوشہ) کھلایا۔( ترمذی، کتاب الاطعمہ، ابواب الطب، باب فی الحمیۃ، نیز ابو داؤد ، کتاب الطب، باب فی الحمیۃ)
دعوتوں کا سلسلہ انھیں مثالوں اور تاریخی واقعات پر ختم نہیں ہوتا۔ تلاش کرنے سے مزید مثالیں اور واقعات مل جائیں گے۔
حضور ﷺ کے ذاتی وسائل اور ذرائع معاش
اب تک جو بحث کی گئی ہے وہ صحابہ کرام کے ہدایا، دعوتوں ، اجتماعی کھانوں، میزبانوں کی سخاوت یعنی دوسروں کے سامانِ خوردونوش ، لباس اور سواری فراہم کرنے پر مبنی تھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تمام ذرائع جزوی یا وقتی تدارک کےتھے اور پھر دوسروں کی کمائی پر مبنی تھے۔ آخر آپ نے اپنی ضروریات اور اہل وعیال بالخصوص ازواجِ مطہرات کےلیے کیا انتظام کیا تھا؟
کیا ان سب کا گذارا محض عطایائے غیر پر تھا یا آپ نے اکلِ حلال کےلیے کوئی مستقل انتظام بھی کیا تھا؟
ان تمام اور ان جیسے دوسرے متعدد سوالات کا جواب بھی ہماری روایاتِ سیرت وتاریخ اور احادیث ِ رسول ﷺ میں پایا جاتا ہے۔ ان سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ رسولِ اکرمﷺ نے محض توکلِ الٰہی ، عطائے احباء واصدقاء اور فتوح پر تکیہ نہیں کیاتھا بلکہ اپنے خاص وسائل و ذرائع سے اپنے اہل و عیال کے لیے سامانِ زیست فراہم کرتے تھے۔ ذیل میں ہم اسی موضوع پر مفصل بحث کرتے ہیں تاکہ معیشتِ نبوی کے اس اہم ترین باب کو بھی روشنی میں لایا جاسکے۔ یہاں ہم ان مرویات و احادیث کا حوالہ نہیں دیں گے جو معیشتِ نبوی میں عطائے غیر کی حصہ داری دکھاتی ہیں۔ بلکہ ان کا بیان کریں گے جو آپ کے اپنے وسائل و ذرائع کی قطعی تصریح کرتی ہیں یا ان کے قرائن کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ بعض ایسی مرویات کا بھی حوالہ آئے گا جن میں نجی وسائل کا اشارہ پایاجاتا ہے اور نہ قرینہ۔
روزی روٹی کی فراہمی کا مستقل ذرائع میں سب سے اہم ذریعہ غالباً دودھاری جانوروں کا پالنا تھا جن کی موجودگی میں دووقت پیٹ بھرنے اور بھوک کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی سبیل نکلتی تھی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کابیان ہے کہ بیس سالہ رفاقت نبوی میں آپ کا بیشتر کھانا پانی اور ستو تھا جبکہ حضرت ام سلمہ ؓ کا بیان ہے کہ ہمارا اور آپؐ کا اکثر کھانا دودھ پر مشمل ہوتا تھا۔ (شبلی نعمانی،سیرت النبی،اول ص 471-3)
یہ دونوں بیانات اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں۔ احادیث وسیرت وتاریخ کے مآخذ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ مدنی زندگی کی ابتدا ہی سے دودھاری جانوروں بالخصوص عمدہ اونٹنیوں کو باقاعدہ پالا تھا اور ان کو کئی مقامات پر باڑوں میں رکھا تھا۔ ان کی دیکھ بھال کے لیے باقاعدہ چرواہے رکھے تھے اور ان کے چارہ کی فراہمی کےلیے چراگاہیں مخصوص کی تھیں۔
بلاذری کا بیان ہے کہ غابہ کی چراگاہ میں آپؐ کی کئی اونٹنیاں (لقائح) تھیں اور آپؐ نے اپنی تمام ازواجِ مطہراتؓ میں سے ہر ایک کو الگ الگ اونٹنی عطا کررکھی تھی۔ حضرت ام سلمہؓ کی اونٹنی کا نام ” العریس” تھا جبکہ حضرت عائشہؓ کےلیے مخصوص کی گئی اونٹنی کا نام السمراء تھا۔ اول الذکر فرماتی تھیں کہ ہمارے لیے ضرورت بھر دودھ ان سے مِل جاتا تھا۔ ایک روایت کے مطابق ان کی تعداد دس تھی۔ بلاذری نے ان کے ذریعہ حصول کابھی ذکر کیا ہے۔ اس کے مطابق ان میں سے تین حضرت سعد بن عبادہؓ نے بنوعقیل کی اونٹنیوں میں سے خرید کر آپؐ کو ہدیہ کی تھیں۔ وہ جمار کی چراگاہ میں چراکرتی تھیں جبکہ بقیہ سات جن کے اپنے مخصوص نام تھے۔ جیسے الحنّا ، السعدیۃ ، البغوم،الیسیرۃ وغیرہ۔ وہ مدینہ سے چھ میل کے فاصلہ پر قبار کے قریب ذوالجدر میں رہتی اور چرتی تھیں۔ بعض مدنی اہلِ علم کا خیال ہے کہ ان میں البغوم نامی اونٹنی آپؐ نے حضرت سودہ ؓ کو عنایت کی تھی ایک اور روایت کے مطابق حضرت سعد بن عبادہؓ نے صرف ایک اونٹنی ہدیہ کی تھی جس کا نام مہرۃ تھا اور جو بنوعقیل کے جانوروں میں سے خریدی گئی تھی۔ آپؐ کی خرید کردہ اونٹنیوں کے نام الریاء اور الشقراء تھے۔ وہ سب دودھاری(غزر) تھیں اور ان کا دودھ روزانہ دوہ کر ہر رات دو بڑی مشکوں میں آپؐ کےلیے لایا جاتاتھا۔
حضرت ابن عباس کی سند پر مروی ہے کہ آپؐ کی سات اونٹنیاں تھیں جن کو حضرت ام ایمن چرایا کرتی تھیں محمد بن عبداللہ بن حصین کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی اونٹنیا احد میں چرائی جاتی تھیں اور ہر شام اپنے باڑے میں لائی جاتی تھیں جہاں وہ رات گزارتی تھیں۔ ان اونٹنیوں کے نام تھے: عجوۃ،زمزم،سُقیا،برکۃ،ورستہ،اطراف اور اطلال۔
حضرت ام سلمہ ؓ کی باندی/آزادکردہ/آزاد مولاۃ کا بھی یہی بیان ہے کہ آپؐ کی سات دودھاری اونٹنیاں تھیں چرواہا ان کو چرانے کےلیے کبھی الجماء لے جاتا اور کبھی احد، اور شام کو ہمارے پاس واپس لاتا۔ ذوالجدر میں آپؐ کی جو اونٹنیاں تھیں ان کا دودھ رات میں لایاجاتاتھا اور غابہ کی اونٹنیوں کا دودھ بھی رات ہی میں آتاتھا۔ ہمارا زیادہ ترکھانا(عیش) اونٹ اور غنم(بکری بھیڑ وغیرہ) کا دودھ ہی پر مشتمل ہوتاتھا۔
بلاذری ہی کی ایک اور روایت ہے جس کے مطابق ضحاک بن سفیان کلابی ؓ نے آپ کو بردۃ نامی اونٹنی ہدیہ کی تھی۔ حضرت ام سلمہ کا بیان ہے کہ میں نے اونٹنیوں میں اس سے زیادہ خوبصورت اور دودھاری نہیں دیکھی۔ وہ دو اونٹنیوں کے برابر دودھ دیتی تھی۔ کبھی کبھی رسول اللہ ﷺ کے مہمانوں کے لیے اسے صبح وشام دونوں وقت دوہا جاتا تھا۔
مورخ موصوف کی ایک اور روایت میں یہ بیان کیاگیا ہے کہ آپ کی اونٹنیوں کے علاوہ غنم (بھیڑ بکریوں) کا ایک ریوڑ بھی تھا جن کےدودھ پر حضرت ماریہ قبطیہ اور ان کے فرزند گرامی حضرت ابراہیم کی پرورش وپرداخت ہوتی تھی۔ دودھاری جانوروں کے بارے میں بلاذری کےبیانات کی تصدیق واقدی وغیرہ دوسرے مورخین و ارباب سیرت سے بھی ہوتی ہے۔ مثلاً واقدی نے 6ھ کے واقعات اور عریسہ کے حملے کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ دشمنوں نے ذوالجدر کی چراگاہ پر حملہ کر کے آپؐ کے پندرہ دودھاری اونٹنیاں بھگالے گئے تھے جنھیں بعد میں تعاقب کرکے ان کے قبضہ سے چھڑا لیاگیا تھا۔
ابن ہشام کا بیان ہے کہ غزوہ ذوقرد 6ھ میں عینیہ بن حصین فرازی نے غابہ میں رہنے والی آپؐ کی اونٹنیوں پر حملہ کرکے ساتھ لے گیا تھا اور ان کے چرواہے کو جودوسری روایات کےمطابق حضرت ابوذرغفاری کے فرزند تھے ، قتل کردیاتھا اور ان کی اہلیہ کو بھی اٹھا لے گیا تھا۔ حضرت سلمہ بن الاکوع کی بہادری اور آپ کا بروقت تعاقب نے بعض اونٹنیوں کوواپس لے لینے کا موقع فراہم کردیاتھا۔ غفاری عورت بھی بچ کر آگئی تھیں۔ دوسری روایات سے بھی آپ کے دودھاری مویشیوں اور ان کے دودھ کا مستقل غذا کے طور پر استعمال کرنے کا علم ہوتاہے۔ (اس پوری بحث کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو۔ انساب الاشراف،اول ص449-50، ص512-4، واقدی ص 568-70،ابن ہشام دوم ص 681-7، مختلف مجموعہ ہائے احادیث میں آپ کی لقاح (اونٹنیوں) کا ذکر جابجاآیاہے۔ ملاحظہ ہو ں: بخاری،کتاب الجہاد،باب من رای العدو فنادیٰ باعلی موتہ یا صباحاۃ،باب غزوۃ ذات القرد،کتاب الوضو،باب ابوال الابل الخ)
نبوی اخراجات ومصارف کا ایک ذریعہ ازواجِ مطہراتؓ کا مال بھی تھا۔ تقریباً تمام ازواجِ مطہرات ہی بہترین اور مالی لحاظ سے آسودہ خاندانوں سے تعلق رکھتی تھیں، ان کے والدین اور بھائی بہن دولت مند اور صاحبِ حیثیت تھے۔ جن سے ان کو ہدایا اور تحفوں کے علاوہ کبھی کبھی مال وجنس بھی ملاکرتی تھی۔ بعض ازواجِ مطہرات کو اپنے والدین یا سابق شوہروں کا ترکہ بھی ملا تھا اور وہ جائداد و اراضی پر مشتمل تھا جن کی مستقل آمدنی یا پیداوار تھی۔ (ازواج مطہرات پر مخصوص ابواب/تراجم ملاحظہ ہوں)
مثلاً حضرت ام سلمہؓ کو اپنی خاندانی جائداد سے جو طائف میں باغوں پر مشتمل تھی، مدینہ منورہ کے قیام کے زمانے میں برابر ان کی پیداوار کاپہنچاکرتی تھی۔ اس میں سب سے پسندیدہ شے شہد تھی جو آپؐ کو بہت مرغوب تھی اور حضرت ام سلمہؓ آپؐ کےلیے اسے بچابچاکر رکھتی تھیں۔ (انساب الاشراف اول ص427، شہد کے متعلق احادیث کی تمام کتابوں میں اس کا حوالہ آتا ہے اگرچہ ان کی جائداد کا صاف ذکر نہیں)
اوپر ازواجِ مطہرات کےآپؐ کےلیے حضرت عائشہؓ کے گھر ہدیہ طعام بھیجنے کا حوالہ آچکا ہے۔ یہاں صرف حوالہ دینا کافی ہے کہ حضرت خدیجہؓ کے اموال نے مکی زندگی میں آپؐ کے معاشی تنگ دستی کو دور کرنے میں کافی حصہ لیا تھا۔ (ابن ہشام اول ، ص 187-90، شبلی نعمانی،سیرت النبی،اول 185-8، دوم ص 402-4 وغیرہ)
حضرت ام حبیبہؓ نجاشی حبشہ کےپاس سے آپؐ کے لیے تحفے اور نذرانے کے علاوہ مہر کی رقم بھی وصول کرکے لائیں تھیں۔ (ابن ہشام ، دوم ص 362-3 اور ص 643-5)
اسی طرح حضرت ماریہؓ قبطیہ بھی مقوقسِ مصر سے کافی ہدایا اور تحفے بشکل نقدوجنس لے کرآئی تھیں۔ (شبلی نعمانی،سیرت النبی،اول ص 471-3)
ظاہر ہے یہ وسیلہ حیات کچھ زیادہ مستقل اور اہم نہیں تھا تاہم آپؐ کی معاشی زندگی میں اس کے کردار وحصہ سے یکسر انکار نہیں کیاجاسکتا۔ اس نے بسا اوقات آپؐ کے لیے کافی آسانی فراہم کی تھی یا کم ازکم متعدد مواقع پر آپ کو مسرت و شادمانی اور طبیب خاطر کی دولت سے لطفِ اندوز کیا تھا۔
ملحدین و مستشرقین مال غنیمت کو لوٹ مار قرار دیتے ہیں ، معاش نبوی کے وسیلے پر تفصیل سے پہلے ہم اس کے فرق پر مختصر وضاحت پیش کردیتے ہیں۔
غنيمت سے مراد اورمقصود وہ نقدى اور بعينہ مال وغيرہ ہے جس سے نفع حاصل كيا جائے، اور اسے مجاہدين اللہ تعالى كے راستے ميں كفار سے لڑائى كرتے ہوئے حاصل كرتے ہيں،
(ا)مال غنیمت اور لوٹ مار میں فرق
يہ حاصل كردہ مال كئى ايك وجوہات كى بنا پر چوری/ لوٹ مار ميں شامل نہيں ہوتا مثلا چورى معصوم اور محترم مال ميں ہوتى ہے، اور جنگ کرنے والے كفار كا مال وجان معصوم اور محترم نہيں ہوتا.بعض جگہ يہ برابرى كے باب ميں شامل ہوتا ہے اس ليے كہ مسلمانوں كے مال سلب كيے گئے اور ان كے حقوق غصب ہوئے اوران كے گھر چھين ليے گئے، تو يہ ان كے حقوق كى واپسى ہے، اور جو كچھ ان كے ہاتھوں سے چھينا گيا ہے اسے واپس لينا ہے، لھذا يہ ان كے حقوق كى واپسى ميں شامل ہوتا ہے.
اس کی تقسیم اور استعمال بھی لوٹ مار کے مال کی طرح بے دریغ یا عیاشی کے لیے نہیں ہوتا بلکہ اسکے احکام ہیں مثلا فرمان بارى تعالى ہے:
{جان لو كہ تم جس قسم كى جو بھى غنيمت حاصل كرو اس ميں سے پانچواں حصہ تو اللہ تعالى اور رسول كا اور رشتہ داروں كا اور يتيموں كا اور مسكينوں كا اور مسافروں كا} الانفال ( 41 ).
اور باقى چار حصے لڑائى كرنے والے مجاہدين كے درميان اس طرح تقسيم كيے جائيں گے كہ گھڑ سوار كو تين حصے؛ ( ايك اس كا اور دو گھوڑے كے يہ اس وقت ہے جب لڑائى ميں گھوڑے استعمال ہوں ) اور پيدل كو ايك حصہ ديا جائےگا.يہ مال مسلمان لشكر اور فوج كے ليے حلال اور پاكيزہ ہے،
اسلام نے جنگ و جہاد کو ان تمام وحشیانہ افعال سے پاک کر دیا جو اس عہد میں جنگ کا ایک غیر منفک جزو بنے ہوئے تھے، وحشیانہ افعال اور یہ سب کچھ آئین جنگ کے خلاف قرار دیا گیا،اسلام میں جہاں وحشیانہ افعال, بد عہدی, تبا ہ کاری, غفلت میں حملہ کرنے, آگ میں جلانے کی ممانعت اور غیر اہل قتال کی حرمت ہے وہاں ” لوٹ مار “کی بھی ممانعت ہے۔کچھ روایات پیش ہیں
جنگ ِخیبر میں صلح ہو جانے کے بعد جب اسلامی فوج کے نئے نوجوان بے قابوہو گئے اور اُنہوں نے غار ت گری شروع کردی تو آپ نے عبدالرحمن بن عوف کو حکم دیا :لشکر کو نماز کے لیے جمع کرو ۔جب لوگ جمع ہو گئے ، تو آپ ﷺنے خطبہ دیا اور فرمایا
”تمہارے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ اہل کتاب کے گھروں میں بلااجازت داخل ہو جاؤ ،ان کی عورتوں کو مارو پیٹو اور ان کے پھل کھا جاؤ حالانکہ جو اُن پر واجب تھا،وہ تم کو دے چکے۔”
عبد اللہ بن یزید روایت کرتے ہیں :«نهی النبي ﷺعن النهبٰی والمثلة»9”نبی ﷺ نے لوٹ مار اور مثلہ سے روکا ہے۔”
ایک دفعہ سفر جہاد میں اہل لشکر نے کچھ بکریاں لوٹ لیں اور ان کا گوشت پکا کر کھانا چاہا، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو علم ہوا تو آپ نے دیگچیاں الٹ دینے کا حکم دیا اور فرمایا : لوٹ کا مال مردار سے زیادہ حلال نہیں ۔(سنن ابی داؤد، کتاب الجھاد)
مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے تفسير ابن كثير ( 2 / 269 ) اور ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كى زاد المعاد ( 3 / 100 – 105 ) ديكھيں.
نبوی معاشی وسائل وذرائع میں ایک اہم ترین اور وسیع ترین ذریعہ و وسیلہ جہاد اسلامی کے نتیجہ میں حاصل ہونے والے اموالِ غنیمت (غنائم) تھے۔ وہ دو قسم کے تھے۔ اول منقولہ اموال واسباب اور دوم غیرمنقولہ جائداد و آراضی۔ ان دونوں وسائل کی دستیابی سے نہ صرف معیشتِ رسول اکرم ﷺ میں بہتری پیدا ہوئی تھی بلکہ مدینہ منورہ کے مسلمانوں کی بالخصوص اور دوسرے مجاہدین کی بالعموم معاشی حالت سدھری تھی۔
عام طور سے اس وسیلہ معاش پر اتنا زیادہ اور ناجائز زور دیاجاتا ہے کہ مذکورہ بالا تمام وسائل و ذرائع اور کچھ دوسرے بھی یکسر نظر انداز کردئیے جاتے ہیں اور ان کی اصل اِقتصادی اہمیت اورمدنی معیشت میں ان کی صحیح کارفرمائی بھلادی جاتی ہے۔ اس موضوع پر تفصیل کے ساتھ گزشتہ تحاریر میں تفصیل سے لکھاجاچکا ہے۔ یہاں اس کی طرف ایک ضروری انتباہی اشارہ کرکے معاشِ نبوی میں غنائم کے اصلی کردار اور متناسب حصہ رسدی پر بحث کی جارہی ہے۔
غنائم میں حاصل ہونے والے اموال واسبابِ منقولہ میں کھانے پینے کا سامان ، روزمرہ ضرورت کا اسباب ، پہننے بچھانے اور اوڑھنے کے کپڑے،نقد میں سونا چاندی یا اس کی بنی ہوئی اشیاء اور مختلف تجارتی سامان اور بہت سادوسرا اسباب مسلمان مجاہدین کے ہاتھ لگتاتھا۔ اسلامی اصولِ تقسیم کے لحاظ سے رسول اللہ ﷺ کو بصورت شرکتِ جہاد ایک مجاہد کے حصہ ء رسدی کے علاوہ صفی کا حق تھا۔ اور ریاست ومعاشرہ اسلامی کےسربراہ کی حیثیت سے خمس یعنی اموالِ غنیمت کا پانچواں حصہ ملتاتھا۔ خمس کو آپؐ تین حصوں میں پھر منقسم فرماتے تھے اور ان میں سے ایک حصہ آپؐ کے اہل وعیال کی ضروریات کے لیے مخصوص تھا، دوسرا آپ کے خاندان بنو عبدالمطلب وبنوہاشم کے لیے اور تیسرا عام غریب مسلمانوں اور اسلامی ریاست کے باشندوں پر صرف ہوتاتھا۔ (صفی اور خمس پر بحث کے لیے ملاحظہ ہومذکورہ بالا مقالہ کے صفحات ص402 اور ص 448 کے حاشیے 31، 32)
غنیمت میں ملنے والے سامانِ خوردونوش کے بارے میں اوپر حوالہ آچکا ہے کہ وہ اکثر وبیشتر مجاہدین کی ضروریات پر بلاتقسیم کیے ہوئے صرف ہوجاتا تھا تاہم یہ قیاس عین قرین صواب ہے کہ مجاہدین اپنے محبوب رسول ﷺ کی لذتِ کام ودہن کے لیے اس میں سے کچھ ضرور لاتے ہوں گے اور مقدار کے زیادہ ہونے کی صورت میں اس کی تقسیم بھی عمل میں آتی ہوگی۔
سریہ نخلہ (رجب 2ھ / جنوری 624ء) میں جو مالِ غنیمت ملا اس میں کچھ شراب کے مشکیزے(خمر) سوکھی کھجوریں(زبیب) اور کھالیں(ادم) اور قریش کا تجارتی سامان شامل تھا۔ (ابن ہشام ،دوم ص 240، واقدی ص 15،16، ابن سعد ،دوم ص 11، یعقوبی تاریخ، وارصادر بیروت 1960ء روم ص70، طبری،تاریخ دارالمعارف مصر قاہرہ 1961ء،دوم ص411)
غزوہ بدر (17رمضان 2ھ/ 24مارچ 624ء ) میں مختلف قسم کے اسلحہ کے علاوہ ایک سو پچاس اونٹ دس گھوڑے،کچھ سامان ضرورت (متاع) کپڑے(ثیاب) چٹائیاں(الطاع) اور تجارتی کھالیں شامل تھیں۔ اسیرانِ بدر سے مجاہدین کو زرِ فدیہ کی شکل میں خاصی آمدنی ہوئی تھی۔ (ابن ہشام ،دوم ص 304-308، ص 355-367 وغیرہ، واقدی ص 115،116 وغیرہ،ابن سعد،دوم ص17-18)
غزوہ بنی قینقاع میں اسلحہ اور اوزارِ زرگری ہی منقولہ اموالِ غنیمت میں شامل تھے اور سامانِ خوردونوش یا اسباب ضرورت کا کوئی حوالہ نہیں ملتا۔ غزوہ بدر میں آپ کی صفی مشہور تلوار ذوالفقار پر اور مجاہدانہ حصہ رسدی ابوجہل کے قیمتی اونٹ (جمل) پر مشتمل تھا جبکہ غزوہ بنی قینقاع میں آپؐ کی صفی تین کمانوں ،تین نیزوں اور تین تلواروں کے علاوہ دو زرہ بکتروں پر مشتمل تھی۔ البتہ اس غزوہ میں غیر منقولہ جائداد جو بنوقینقاع کی دکانوں اور مکانوں اور شاید کچھ زمینوں پر مشتمل تھی، مسلمانوں کے قبضہ میں آئی تھی اور عام روایات کے تحت وہ آپ کی آراضی تھی جو امت مسلمہ کی ضروریات کے ساتھ ساتھ آپ کے حوائج کے لیے مخصوص تھی۔ آپ نے جسے چاہا اسے عطا کردیا۔ اس میں آپ کے اپنے حصہ کا پتہ نہیں چلتا۔( واقدی ص 178-179، ابن سعد،دوم ص 29-30، انساب الاشراف،اول ص309،طبری دوم ص 481)
غزوہ سویق میں ستو(سویق) کے تھیلے ملے تھے اور ان میں سے آپ کا حصہ رسدی رہاہوگا۔ (ابن ہشام ،دوم ص 423،واقدی،ص181-183،ابن سعد ،دوم،ص30،انساب الاشراف،اول ص310)
تیسرے برس کی کل مہمات میں سے صرف تین میں اموال غنیمت حاصل ہوئے۔ غزوہ الکدر میں پانچ سو اونٹ ملے تھے۔ (واقدی ،ص 183، ابن سعد،ص 31، انساب،اول ص310)
حضرت زید بن حارثہ کے سریہ القردہ میں قریشی کارواں سے چاندی کثیر مقدار میں ملی تھی۔ (واقدی،ص 197-198، ابن سعد ،دوم ص36،انساب،اول ص 374،ابن ہشام،دوم ص 429)
اور غزوہ احد میں جو کچھ ملاتھا وہ کھوگیا یا پانے والوں کومل گیاتھا۔ آپؐ کے حصہ میں زخموں کے سوا اور کچھ نہ آیاتھا۔( واقدی،ص321-322)
پہلی دو مہموں میں آپ کو خمس،صفی کی صورت میں حصہ ملاتھا اور غزوہ مذکورہ میں مجاہد کا حصہ رسدی بھی۔ سریہ قطن میں آپ کو صفی اور خمس ملاتھا جو اونٹوں پر مشتمل تھا اور ان کی کل تعداد کافی تھی مگر وہ ایک دو کے سوا باقی مسلمانوں میں تقسیم ہوگئے تھے۔ کچھ غلام بھی ہاتھ لگے تھے۔ (واقدی ص 343-345،ابن سعد،دوم ص50،انساب الاشراف،اول ص 374-375)
غزوہ بنی النضیر میں ہتھیاروں کے علاوہ آراضی ملی تھی۔ ہتھیاروں میں پچاس زرہ بکتر، پچاس آہنی خود اور تین سوچالیس تلواریں شامل تھیں۔ ان میں سے آپ کو مجاہد کا حصہ خمس اور صفی ملی تھی۔ مالِ بنی النضیر بھی آراضی میں شامل تھا اور اس میں آپ کا اپنا حصہ بھی تھا۔ مگر وہ بہ شکلِ آراضی کم اور بہ شکل پیداوار زیادہ تھا۔ کھجور،اناج،شہد اور سبزی وغیرہ اس میں شامل تھی۔ ان میں سے جن لوگوں کو عطایائے نبوی ملے تھے وہ روایات کےمطابق ان کی سال بھر کی ضروریات کے لیے کافی ہوتے تھے۔ آپ کی اپنی ضروریات بھی ان سے پوری ہوتی تھیں یا نہیں اور پوری ہوتی تھیں تو کِس قدر، اس کا تصفیہ کرنا خاصا مشکل ہے۔ روایات سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ آپؐ بھی کسی نہ کسی حد تک متمتع ہوتے تھے۔ (ابن ہشام دوم ص 192-93، واقدی،ص373-380۔ابن سعد ،دوم ص58،انساب الاشراف،اول 339 نیز ملاحظہ ہو ابویوسف،کتاب الخراج،ص36۔یحیٰ بن آدم،کتاب الخراج،ص21،انساب اولص518-19)
غزوہ الجندل میں صرف مویشی ملے تھے، البتہ غزوہ مریسیع میں بنو المصطلق سے دوہزار اونٹ،پانچ ہزار بھیڑ،بکریاں،خاصی تعداد میں ہتھیار،مال واسباب اور کچھ قیدی ہاتھ لگے تھے۔ (واقدی ،ص 403-404، 411،ابن سعد،دوم ص62-64، انساب،اول ص341)
غزوہ بنی قریظہ سے نقدوجنس میں مال و اسباب اور زرعی اور رہائشی جائدادیں ملی تھیں۔ ہتھیاروں میں پندرہ سو تلواریں،تین سو زرہ بکتر، دو ہزار نیزے اور پندرہ سو آہنی اور پارچہ جاتی ڈھالیں شامل تھیں۔ ایک روایت کے مطابق حصہ مجاہد کی مالیت کل پینتالیس دینار تھی۔ اس کے علاوہ آپ کو خمس اور صفی بھی ملی تھی۔( واقدی،ص510-524۔ابن سعد دوم ص75، انساب،اول ص 347)
چھٹے برس کی سرایا سے آپؐ کو خمس اور صفی ہی ملے جو زیادہ تر مویشیوں ،بھیڑبکریوں اور اونٹوں پر مشتمل تھے۔ صفی کے علاوہ آپ کو خمس میں تقریباً چودہ ہزار درہم کی مالیت ملی تھی جو آپ اپنے علاوہ مسلمانوں پر خرچ کرتے تھے۔( واقدی ص 467-68،ص664-680)
غزوہ خیبر سے نقد وجنس میں کافی مال ملاتھا اس میں ہتھیاروں کی کافی بڑی تعداد شامل تھی۔ سامانِ رسد میں جو،گھی/مکھن،شہد، تیل/روغن، پکاہواکھانا اور سامانِ ضرورت میں (اثاث/متاع) چمڑے کی چٹائیاں مختلف قسم کی،کافی مقدار میں کپڑے شامل تھے۔ نقد اموال میں طلائی و نقرئی سکے، زیورات اور مدفون دفینے شامل تھے۔ آپؐ کو ان سب میں سے صفی،خمس اور مجاہد کا حصہ ملاتھا۔ خیبر کی کل مفتوحہ آراضی کی کل پیداوار کا نصف یعنی بیس ہزار وسق کھجور،ساڑھے سات ہزار وسق جو اور ڈھائی ہزار وسق نویٰ مسلمانوں کا حصہ تھا۔ یہ کل اٹھارہ سومسلم حصوں میں تقسیم ہوتاتھا۔ خمس اور صفی پہلے نکال کر جوآپؐ کے حصے تھے اور ایک حصہ مجاہد بھی آپ کاتھا۔( ابن سعد،دوم ص 109-112،مذکورہ بالامقالہ راقم کے صفحات ص416-420 اور ص463-7کے حاشیے)
فدک،یتماءاور وادی القریٰ سے ان کی زمینوں کی پیداوار کا نصف مسلمانوں کا حصہ تھا اور موخرالذکر میں سے خمس اور حصہ مجاہد آپ کے پاس تھا۔ (واقدی،ص710-11 وغیرہ) بعض دوسری مہموں میں کچھ مویشی اور سامان ملاتھا۔ (مذکورہ بالا مقالہ راقم ص 421-422،ص467-468)
آٹھویں برس کی مہموں میں سرایا میں زیادہ تر مویشی ملے اور آپؐ کو صرف خمس یا صفی۔ البتہ غزوہ حنین میں بہت زیادہ مال غنیمت ملاتھا جس میں مویشی ،سامانِ ضرورت،چاندی وغیرہ شامل تھی اور رسول اللہﷺ کو مجاہد کے حصہ کے علاوہ صفی اور خمس ملاتھا۔ آخری دو برسوں میں زیادہ تر سرایا میں سے آپ کو صفی اور خمس ملاتھا۔ غزوہ تبوک میں جنگ ہی نہیں ہوئی لہٰذا کوئی مالِ غنیمت نہیں ملاتھا۔ (ملاحظہ ہو مذکورہ بالا مقالہ،ص421-425اور ان کے حواشی)
البتہ غزوات اور سرایا اور وفود عرب سے معاہدات کے نتیجے میں مختلف علاقوں سے جیسے ایلہ،مقنا،اذرح،جرباء، دومۃ الجندل،یمامہ،نجران،بحرین، عمان،حضرموت،ہجر اور یمن وغیرہ سے جزیہ و خراج میں خاصی بڑی رقوم آنے لگی تھیں۔ ایک ذریعہ یہ بھی تھا۔ (جزیہ پر ملاحظہ ہو: بخاری،باب الجزیۃ والموادعۃ مع اہل الحرب،ترمذی ابواب السیر،باب فی اخذ الجزیۃ من المجوس،ابوداؤد،کتاب الخراج والامارۃ والفی،باب فی اخذ الجزیۃ،اور دوسرے متعلقہ ابواب)
اس عمومی تجزیہ سے ایسا بظاہر معلوم ہوتاہے کہ آپؐ کو اموالِ غنیمت سے حصہ مجاہد،خمس کے ایک حصہ اور صفی کی شکل میں کافی یافت ہوئی تھی مگر درحقیقت ایسا نہیں تھا۔ سنتِ نبوی یہ تھی کہ آپ اپنے آپ اور اپنے اہلِ بیت پر دوسرے مسلمانوں کو ترجیح دیتے تھے اور خمس و صفی کو اکثر وبیشتر پوراکاپورا صحابہ کرام میں بانٹ دیتے تھے اور خود کے لیے کچھ نہ رکھتے تھے اور اگر کبھی کچھ رکھ لیاکرتے تھے تو اس کی مقدار وتعداد بہت معمولی ہوتی تھی۔ چند مثالیں بطور ثبوت حاضر ہیں۔
سامانِ خورد ونوش کےبارے میں پہلے بھی یہ صریح بیان مآخذ کا آچکا ہے کہ جو کچھ ملتا تھا وہ مجاہدین اپنی اپنی ضرورت وطلب بھر لے لیتے تھے۔ عموماً وہ بچا کر اپنے گھروں کو نہیں لے جاتے تھے اس ضمن میں صرف ایک مثال ۔ فتح مکہ کے بعد جب حضرت حلیمہ کی بہن اور ان کے شوہر کی بہن خدمت میں حاضر ہوئیں تو آپؐ نے اقط(پنیر) اور سمن(گھی) ان کو غنیمت سے دیا۔ (انساب،اول ص95)
جائدادوں اور آراضی کی پیداوار سے جو طُعَم(اناج کا حصہ رسدی) آپ مختلف خاندانوں اورافراد کو مستقل دیتے تھے اس کی پوری تفصیل سیرت وحدیث کی کتابوں میں موجود ہے۔ (طعمہ پر ملاحظہ ہو: واقدی،ص693،بحث کتاب عہد نبوی میں تنظیم ریاست وحکومت،ص 376-80) غنائم میں جو کپڑے ہاتھ لگتے تھے وہ بھی آپؐ صحابہ کرام میں بالعموم تقسیم کردیاکرتے تھے۔ مثلاً حلہ دیباج آئے تو آپ نے منجملہ دوسرے حضرات کے حضرات عمرؓ و علیؓ کودئیے تھے۔ (ابن ماجہ،کتاب اللباس،باب لبس الحریروالذہب للنساء۔ نیز بخاری ،مسلم وغیرہ کے حوالے) خمیصہ (چادر/کپڑے) آئے تو ان میں سے ایک حضرت ام خالد بنت خالد بن سعید بن العاص کودیا۔ (بخاری،کتاب بدءالخلق،باب ہجرۃ الحبشۃ) بہت سے قبا بانٹ دئیے اور ایک حضرت مخرمہ بن نوفل کودیاتھا۔ ان میں سے اپنے لیے کوئی نہیں رکھا۔ اسی طرح قباطی (قبطی قبائیں) اور قمیصیں آئیں تو دوسرے صحابہ کرام کے علاوہ ایک حضرت وحیہ کلبی کے حصہ میں بھی آئی۔( بخاری،کتاب الہبہ،باب کیف یقبض العبد المتاع،مسلم،کتاب الزکوٰۃ،باب اعطاء من سائل…الخ، ابوداؤد،کتاب اللباس،باب فی لبس القباطی)
یہی سنتِ نبوی اسلحہ وغیرہ کے بارے میں تھی۔ غزوہ بدر میں ذوالفقار نامی تلوار ملی۔ وہ آپؐ نے حضرت علیؓ کو عطاکردی۔ (انساب الاشراف،اول ص521)
الغرض صفی اور خمس میں جو کچھ ملتاتھا خواہ وہ نقدوجنس کی صورت میں ہویا آراضی وجائداد کی شکل میں آپ اپنے لیے ان میں سے کچھ بھی نہ رکھتے بلکہ دوسروں کو دےدیتے ۔ اس کا اعتراف تو آپؐ کے ناقدین ومنکرین تک نے کیاہے۔ (ولیم میور (William Muir), LIFE of MOHAMMAD,ایڈبزا 1923ء ،ص 229 وغیرہ) آپؐ نے جو سنتِ نبوی اپنی حیات ِ مبارکہ میں قائم کی تھی اسی کو بشکلِ دیگر اس اصول میں ڈھال دیا کہ انبیاء کی وراثت نہیں ہوتی نہ وہ وارث ہوتے ہیں۔ (بخاری،کتاب الجہاد،باب فرض الخمس اور متعدد محدثین کے کتب وابواب مختلفہ)
4.لباس نبوی ﷺ کی فراہمی کے کچھ ذرائع
جس طرح سامانِ خورد ونوش کی فراہمی کے مختلف ذرائع و وسائل تھے اسی طرح دوسری ضروریات وحاجات کے پورا کرنے کے مختلف ذرائع تھے۔ سیرت وتاریخ کی روایات اور رسول کریمﷺ کی احادیث اور صحابہ کرامؓ کے آثار میں انسانی زندگی کے لیے ضروری اسباب سے متعلق متعدد اور گوناگوں چیزوں کا ذکرآتاہے اگر ان پر علیحدہ علیحدہ تفصیل کے ساتھ لکھا جائے تو دفتر کادفتر تیار ہوجائے۔ یہاں اختصار کے ساتھ چند ضروری اشیاء کے حوالے دیئے جارہے ہیں تاکہ معیشتِ نبویؐ کی تصویر مکمل ہوجائے۔
لباس نبویؐ کی فراہمی کے سلسلہ میں ایک اہم ذریعہ ہدیہ غیرمسلم و مسلم تھا۔ ایسے ہدایا عموماً تیار شدہ لباس کے ہوتے تھے۔
مسلم ہدایا:
میں حضرت وحیہ کلبی کا ہدیہ تھا جو ایک روایت کے مطابق دو موزوں پر مشتمل تھا اور دوسری روایت میں ایک جبہ کا اضافہ ہے۔ آپ نے ان کو اتنا پہنا کہ وہ پرانے ہوگئے۔( ترمذی،ابواب اللباس،باب فی لبس الجبۃ)
اسی طرح نجاشی حبشہ کے بارے میں بیان کیا گیا ہے کہ انھوں نے بھی آپؐ کی خدمت میں سیاہ سادہ موزے بھیجے تھے۔ ان کے علاوہ دوسرے ہدایا الگ تھے۔ (ترمذی ،ابواب الاستیذان والآداب،باب فی الخف الاسود۔ دوسرے ہدایا کےلیے ملاحظہ ہو ابن ہشام و واقدی وغیرہ)
کئی محدثین کے ہاں یہ روایات ہے کہ حضرت ابوجہم بن حذیفہؓ نے آپ کو ایک خمیصۃ شامیۃ (شامی جبہ نما لباس) ہدیہ کیا۔ جس کے عَلَمَُ(نقش) تھے۔ اس کو پہن کرنماز پڑھی تو توجہ بٹ گئی تو آپ نے اسے واپس کردیا۔ چونکہ آپ ہدایا واپس کرنے کے خلاف تھے، اس لیے آپؐ نے اس کے بدلہ میں ایک ابنجانیۃ (ابنجان کابناہواموٹے کپڑے کا لباس) لے لیا۔( مؤطا،کتاب الصلٰوۃ،النظرفی الصلوٰۃ الی مایشغلک عنہا۔بخاری،کتاب الصلٰوۃ،باب اذا صلی فی ثوب لہ اعلام الخ)
حضرت سہیلؓ کی روایت ہے کہ ایک عورت نے آپؐ کی خدمت میں ایک بنی ہوئی چادر پیش کی جس کا حاشیہ بھی تھا۔ بعد میں اس کو شملہ کے نام سے جانا جانے لگا۔ اس عورت نے ہدیہ دیتے وقت یہ بھی کہا کہ اس نے اپنے ہاتھ سے آپؐ کو پہنانے کےلیے بُنا ہے۔ آپؐ نے قبول فرمالیا کہ آپؐ کو اس کی ضرورت تھی اور آپؐ نے بطور ازار اسے استعمال کیا۔ مگر ایک شخص نے حسنِ طلب میں اس کی تعریف کی اور آپؐ نے اسے وہ چادر ہدیہ کردی۔ لوگوں نے اسے ملامت کی کہ آپ کو ضرورت تھی مگر اس نے جان بوجھ کر مانگ لیا جبکہ جانتاتھا کہ آپ سوال رد نہیں کرتے۔ اس نے کہاکہ میں نے اپنے کفن کےلیے مانگاہے اور سچ مچ وہ اس کا کفن ہی بنا۔( بخاری ،کتاب الصلوٰۃ ،باب من استعد الکفن فی زمن النبی ﷺ ،کتاب البیوع،باب ذکر الناج،کتاب اللباس ،باب البرودوالعبدۃ الشملۃ)
ان کے علاوہ بھی متعدد مسلم ہدایاتھے جو کئی حضرات نے خدمتِ نبوی میں پیش کیے تھے۔
(مثلاً ابن سعد،سوم ص215، بخاری،باب مناقب المہاجرین،باب ہجرۃ النبیؐ واصحابۃ الخ)
غیرمسلم ہدایا :
اسکی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ دومۃ الجندل کے بادشاہ اکیدربن عبدالملک نے ریشم کاجبہ آپ کے لیے بطور تحفہ بھیجا۔ روایات میں اس کو جبۃ سندس ،جبۃ دیباج ریشم سے کڑھا ہوا/ڈھکاہوا حلہ اور فروُّجِ حریر وغیرہ کہاگیاہے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے اسے کچھ دیر پہنا پھر کراہت سے اتار ڈالا کہ وہ متقیوں کے لیے ٹھیک نہیں۔ غالباً بعد میں وہی آپؐ نے حضرت علیؓ کو دے دیا اور وہ پہنے ہوئے آئے تو آپؐ نے ناراضگی ظاہر کی کہ تمھارے پہننے کے لیے نہیں دیا تھا بلکہ اس کو اپنے گھر کی خواتین کو جو فاطمہؓ نام کی تھیں،پہنادیں،اور انھوں نے اسے پھاڑ کر تقسیم کردیا۔( بخاری ،کتاب الہبۃ،باب قبول الہدیۃ من المشرکین،اور دوسرے محدثین کرام کے حوالے)
دوسرے حکمرانوں نے بھی آپ کے پیغام وفرمان کے جواب میں ہدایا بھیجے تھے اور ان میں مختلف قسم کے لباس شامل تھے۔ شاہ ایلہ نے آپ کے لیے ایک چادر بھیجی تھی۔شاہ روم کا ہدیہ ریشم کا لباس تھا جس کو روایت میں مستقۃ کہاگیا ہے۔ (ابوداؤد،کتاب اللباس،باب من کرہہ)
ذویزن کے حکمراں نے آپ کی خدمت میں ایک ایسا حلہ روانہ کیا جو تینتیس اونٹوں یا اونٹنیوں کو عوض خریدا گیاتھا۔ آپ ہمیشہ ہدیہ پیش کرنے والے کو اپنی طرف سے بھی ہدیہ دیاکرتے تھے۔ اس سنت کے مطابق آپ نے شاہ ذویزن کو جوحلہ عنایت کیا وہ پچیس قلوص (جوان اونٹنیوں) کے عوض خریدا تھا۔ (ابوداؤد،کتاب اللباس،باب اللبس للجمعۃ)
ایسی کئی اور روایات بھی ہیں۔ مثلاً مقوقس کی طرف سے ثیاب مصلعۃ (دھاری دار کپڑے) آئے تھے۔ بقیہ روایات کو نظر انداز کیا جاتاہے۔( بخاری،کتاب اللباس،باب لبس القسی)
متعدد احادیث وروایات میں آپ کے مختلف لباسوں کا ذکر ملتاہے مگر ان کے حصول کے ذریعہ /ذرائع کا حوالہ نہیں آتا۔ ظاہر ہے کہ ان میں سے کچھ ہدیہ سے آئے ہوں گے تو کچھ آپؐ کے خرید کردہ یا گھر کے بنے ہوئے ہوں گے یا غنیمت میں ملے ہوں گے۔ یہی عام ذرائع حصول تھے۔
ایک دلچسپ اور اہم روایت یہ ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے اون کی ایک سیاہ چادر آپؐ کے لیے بطور خاص بُنی تھی اور آپ نے اس کو پہنا بھی لیکن جب پسینہ نکلا تو اس میں سے اون کی بو نکلی جو آپؐ کو ناگوار ہوئی اس لیے اسے اتار دیا۔ (ابوداؤد،کتاب اللباس،باب فی السوداء)
آپؐ کے دوسرے لباسوں میں جن کا ذکر روایات میں بکثرت آتا ہے حسب ذیل ہیں: متعدد روایات میں ازار کا ذکر ملتاہے۔ اس کے علاوہ بہت سی روایات میں آپ کے حلہ ،حلہ حمراء ، برد بردۃ اور اس کی اقسام جیسے بردنجرانی ، برد احمر ، بردین اخضرین ، رداء ، جبۃ شامیۃ،جبۃ رومیۃ،جبۃ طیالسۃ کسر وانیۃ(سبز رنگ کا جبہ جس کا نام کسروانی تھا اور جو ایران میں بنایاجاتا تھا اور جس میں ریشم(دیباج) سے کہیں کہیں رنگ وروغن کیاجاتاتھا۔) اون کا جبۃ، ملحقۃ ورسیۃ(ورس سے رنگاہوا لپیٹنے کا کپڑا) ، خضین(موزے) جوربین(چمڑے کے بڑے موزے) ، خمیصۃ ،خمیصۃ حوتیۃ(حوتیہ نامی مقام پر بنی ہوئی چادر) یا خمیصۃ حرثیۃ ( حُریث نامی مقام پر تیار کردہ چادر) اور سیاہ خمیصۃ ، آپؐ کی پسندیدہ حبرہ، عباء/عبادہ،عمامہ،مختلف رنگوں کا بالخصوص سیاہ عمامہ، قطیفہ (چھوردارچادر) اس کی مختلف اقسام جیسے فدک کی بنی ہوئی قطیفہ، سرح قطیفہ وغیرہ، قلنسوہ(ٹوپی) ، قمیص اور اس کی قسمیں اور بعض دوسرے لباسوں کا ذکر ملتاہے۔
(مؤطا،کتاب الصلوٰۃ،العمل فی الاستسقاء،کتاب الجامع،مختلف ابواب،بخاری،کتاب الصلوٰۃ،باب مایذکرفی الفخذ وغیرہ،کتاب الوضو،باب بول الصبیان،کتاب الجہاد،باب الجبۃ فی السفروالحرب،کتاب الصلوٰۃ باب الصلوٰۃ فی الثوب الاحمر،وغیرہ مجموعہ ہائے احادیث اور ان کے کتب وابواب)
روایات سے لباس نبویؐ کے بارے میں جو حقائق ثابت ہوتے ہیں وہ یہ ہیں کہ ابتداء میں دوسرے مسلمانوں کی طرح رسول اکرمﷺ کو بھی لباس کی تنگی تھی اور عموماً ایک ہی کپڑا پہناجاتاتھا۔ رسول اکرم ﷺ کے بارے میں کوئی ایسا حوالہ نظر سے اب تک نہیں گزرا کہ آپؐ صرف ایک کپڑا ہی پہنتے تھے، قیاس یہی کہتا ہے کہ عموماً آپ نے شروع سے دو کپڑے پہنے تھے ایک بالائی جسم پر جو چادر ،قمیص ، جبہ ، حلہ وغیرہ پر مشتمل ہوتاتھا اور دوسرا زیریں بدن پر جو ازار پر مشتمل ہوتاتھا۔ دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ آپؐ نے موٹے جھوٹے کپڑے بھی پہنے ہیں اور عمدہ بلکہ بہترین لباس بھی زیب تن فرمایا ہے کہ دونوں نعمت الٰہی تھے۔ (ابتدائی عہد میں لباس کی تنگی اور بعد میں فراخی کےلیے ملاحظہ ہو بخاری،کتاب الصلوٰۃ،باب الصلوٰۃ فی القمص والسراویل والتسبان والقباء)
آپ کے علاوہ ازواج مطہرات کے مختلف لباسوں جیسے قمیص،درع (عورت کی گھریلو قمیص) خمار،خمرۃ(اوڑھنی اور دوپٹہ)ملحفۃ(اوپر کی چادر) رداء، ازار، مرط/ مروط(اون/ریشم کی چادریں) حلہ سیراء(سیراء کا ریشمی حلہ) ، جلباب (چادر/ دوپٹہ) حقوہ(اوڑھنی) وغیرہ متعدد عام سادہ اور قیمتی لباسوں کا بھی روایات میں کئی جگہ آیاہے۔
(بخاری،کتاب النفقات،باب کسوۃ المراۃ بالمعروف،کتاب اللباس باب الحریر للنساء۔ کتاب التفسیر،سورۃ النور،کتاب الحیض،باب ،کتاب الصلوۃ،باب فی کم تصلی المراۃ فی الثیاب،کتاب الحیض باب من سمی النفاس حیضاء،کتاب الادب،باالہجرۃ،وغیرہ متعدد دوسرے کتب وابواب۔ نیز مؤطا،کتاب الصلوۃ الرخصۃ فی ملاۃ المراۃ فی الدرع والخمار)
ان کی فراہمی کے بھی وہی وسائل رہے ہوں گے جن کا اوپر ذکر کیاگیا ہے۔ ان میں سے بیشتر کے بارے میں یہ معلوم ہوتا ہے یا استنباط کیاجاسکتاہے کہ وہ زیادہ تر ہدیہ کے وسیلہ سے آئے تھے۔ دوسرے وسائل و ذرائع کا ان کی فراہمی میں کتنا حصہ تھا اس کے بارے میں کچھ یقین کے ساتھ کہنا مشکل ہے اس لیے کہ روایات و احادیث سے ان کے بارے میں کوئی حوالہ یا قرینہ نہیں ملتا۔
لباس اور کپڑوں کے علاوہ دوسرے سامانِ ضرورت کی فراہمی کا بھی ایک اہم وسیلہ ہدیہ مسلم و نذرانہ غیر مسلم ہی تھا۔ اس سلسلہ میں زیادہ حوالے سواری کے جانوروں سے متعلق ہیں۔ ابن سعد کی روایت ہے کہ فروہ بن نفاثہ جذامی نے ایک سفید خچر ہدیہ کیاتھا جس پر آپؐ غزوہ حنین کے میدانِ کارزار میں سوار موجود تھے۔
بلاذری کے مطابق فروہ نے ایک یعفور نامی خچر اور ایک فضہ نامی خچر بھی ہدیہ کیاتھا اور انطرب نامی گھوڑا بھی۔ اس پر راویوں کا اختلاف ہے کہ دلدل نامی خچر یا گھوڑے کا ہدیہ فروہ جذامی کا تھا یا مقوقس مصر کا۔ البتہ یہ ثابت ہے کہ مقوقس نے لذار نامی اور ربیعہ بن السبراء کلابی لُحیف نامی اور حضرت تمیم داری نے الورد نامی گھوڑا آپ کی خدمت میں بطور ہدیہ پیش کیا تھا۔ ان میں سے آخر الذکر آپ نے حضرت عمرؓ کو ہدیہ کردیاتھا اور انھوں نے اسے اللہ کی راہ میں ایک مجاہد کو صدقہ کردیاتھا۔ باقی تین گھوڑوں کے بارے میں روایات میں آتاہے کہ ان کی دیکھ بھال حضرت سعد بن مالک ساعدیکے سپرد تھی ۔ ان کے علاوہ بھی کئی جانور اور مویشی آپ کو بطور ہدیہ پیش کیے گئے تھے۔
(جانوروں کے ہدایا کے لیے ملاحظہ ہو: ابن سعد ،چہارم،ص18اور ص150-2،انساب الاشراف،اول ص 509-511)
دوسرے سامانِ ضرورت میں بیان کیاجاتا ہے کہ حضرت ابو ایوب انصاری کے گھر میں سر یر (تخت) نہیں تھا لہٰذا حضرت اسعد بن زرارہؓ نے ایک سریر ہدیہ کیاتھا جو آپ کے پاس تا عمر رہا۔ اسی پر آپ استراحت فرماتے اور اسی پر آپ نے آخری سانس لی۔ (انساب الاشراف ،اول ص 525)
سواری کے جانوروں کے سلسلہ میں دوسرے وسائل کی کارفرمائی میں ذکر آچکا ہے کہ غزوہ بدر میں آپؐ کو دشمن اسلام ابوجہل کا اونٹ (جمل) بطور مالِ غنیمت ملاتھا جسے بعد میں آپ نے صلح حدیبیہ کے موقع پر عمرہ کی ہدی کے طور پر اللہ تعالیٰ کی جناب میں پیش کردیاتھا۔
اس کے علاوہ اموالِ غنیمت پر بحث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو متعدد جانور اور مویشی بھی ملے تھے مگر ان کے استعمال کے سلسلہ میں زیادہ تفصیلات دستیاب نہیں ہوتیں۔ اس لیے ان کی تعداد وغیرہ پر کچھ یقینی طور سے کہنا مشکل ہے زیادہ تر یہی خیال ہے کہ آپ نے ضرورت مند مسلمانوں بالخصوص مجاہدوں کودے دیاہوگا اور بعض غیرمسلموں کوبھی ہدیہ کیے ہوں گے۔
خریداری کا ایک بہت اہم حوالہ آپؐ کی مشہور ومحبوب اونٹنی (ناقہ) القصواء کے بارے میں آتاہے ۔ اس کے دوسرے متعدد نام بھی روایات میں آئے ہیں۔ ایک روایت کے مطابق وہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کا ہدیہ تھی۔ انھوں نے وہ ناقہ بنوقشیر یابنوحریش کے مویشیوں میں سے چارسودرہم میں خریدی تھی اور آپ کو بوقتِ ہجرتِ مدینہ سفر کےل یے ہدیہ کرنی چاہی مگر آپ نے اسے ادھار خرید لیاتھا۔( انساب ،اول ص51) اور ظاہر ہے بعد کو مدینہ میں اس کی قیمت ادا کی تھی۔ ذکر ہوچکا ہے کہ آپؐ نے حضرت ابوبکر سے قرض لے کر دواونٹ بھی خریدے تھے جن کو اپنے اہل وعیال کو مکہ مکرمہ سے لانے کے لیے بھیجاتھا۔ ایک غزوہ میں حضرت جابر سے بھی ایک اونٹ چالیس درہم کا خریدا تھا جو انھیں کو دےدیا۔( واقدی،ص400، بخاری،کتاب الشروط،باب اذا اشرط البائع الخ)
بلاذری کے مطابق مدینہ منورہ میں آپؐ نے پہلا گھوڑا ایک بنوفزارہ کے اعرابی سے دس اوقیہ (چارسودرہم) میں خریدا تھا اور اس کا نام الفرس سے بدل کر الکباء رکھاتھا۔ وہ غزوہ کا پہلاگھوڑا تھا۔ (انساب الاشراف ،اول ص509) جانوروں کے حصول کے ان مختلف ذرائع کے اور بھی ثبوت ملتے ہیں۔ (عہد نبوی میں تنظیم ریاست وحکومت، القاضی پبلشرزوڈسٹری بیوٹرز دہلی 1988ء بحث برحصول فرس)
6.اراضی و جائیداد کی ملکیت رسول
بحث کافی مفصل اور طویل ہوچکی ہے مگر آخر میں آراضی /جائداد کی ملکیت ِ رسولﷺ کے بارے میں الگ سے کچھ لکھنا ضروری معلوم ہوتاہے۔ اگرچہ اس کے بعض حوالے اوپر ضمناً آچکے ہیں۔ یہ ذکر بھی آچکا ہے کہ مدینہ منورہ میں آپؐ کی تشریف آوری کے بعد انصارِ کرامؓ نے اپنی تمام افتادہ آراضی آپ کے حوالے کردی تھی۔ اور آپؐ نے وہ اپنے اور اپنی ازواجِ مطہرات و صاحبزادیوں کے علاوہ تمام مہاجرین میں تقسیم کردی تھی جس پر انھوں نے اپنے گھر بنالیے تھے یا ان پر پیداوار شروع کردی تھی ۔ بعض نے ان میں صنعت وحرفت / دستکاری کے کارخانے لگالیے تھے۔ (شبلی نعمانی،اول ، ص 285-288)
افتادہ آراضی کے علاوہ بعض انصاری صحابہ کرامؓ نے آپؐ کو بنے بنائے مکانات بھی ہدیہ کیے تھے۔ حضرت امِ انسؓ نے آپؐ کو جو جائداد پیش کی وہ آپؐ نے حضرت ام ایمن کو عنایت کردی۔ حضرت حارثہ بن نعمان انصاری نے اپنے کئی مکانات آپؐ کو نذر کیے تھے۔ بعد میں حضرت فاطمہ زہراؓ کی شادی خانہ آبادی پر ایک مکان آپؐ کی دختر کے رہنے کے لیے ہدیہ کیا۔ (ایضاً ص 282،283۔ بحوالہ صحیح بخاری،باب فضل المنیحہ،اول ص 367)
حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ انصار میں کئی حضرات نے آپ کے لیے کھجوروں کے درخت (نخلات) مخصوص کردیے تھے یا ہدیہ کردیے تھے کہ ان کی پیداوار سے آپؐ سامان زیست کریں۔ مالِ غنیمت میں آراضی اور باغات ملنے کے بعد آپؐ نے ان کی جائدادیں / باغات واپس کردیے۔ یہودی جائدادوں کے ملنے سے قبل آپؐ کے ایک جاں نثار یہودی نومسلم حضرت مخیریقؓ نے غزوہ احد سے قبل اپنے سات باغ (حوائط) آپؐ کو ہبہ کردئیے تھے۔ بلاذری نے جو تفصیل فراہم کی ہے اس کے مطابق ان کے نام المبیت ، الصافیۃ،الدلال،حسنی،برقۃ،الاہواف اور مشربہ ام ابراہیم تھے۔ آخر الذکر وہ باغ نخل تھا جہاں ایک علیحدہ مکان میں حضرت ماریہ قبطیہؓ اپنے فرزند کے ساتھ رہتی تھیں اس لیے وہ ان کی کنیت سے موسوم ہوا۔ ایک باغ حدیقہ نامی بھی آپ کے صدقات میں سے تھا۔ معلوم نہیں کہ وہ مخیریق کے عطایا میں سے تھا یا نہیں۔ آپ نے ان ساتوں باغوں کو عام مسلمانوں کے لیے صدقہ کردیاتھا۔ اس کی کچھ پیداوار آپؐ کے مصارف کے لیے بھی آتی تھی لیکن جس مدنی جائداد نے آپؐ کےلیے متواتر پیداوار فراہم کی وہ 3ھ میں بنو نضیر کی مفتوحہ آراضی تھی جس سے آپؐ کو اور آپ کے اہل و عیال وازواج مطہرات کو سال بھر کی روزی مل جاتی تھی۔ مدینہ منورہ اور دوسرے عرب علاقوں میں زراعت کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ کھجور کے باغوں میں اناج وسبزی بھی کاشت کی جاتی تھی۔ بنو النضیر کی جائدادوں سے کھجور کے علاوہ اسی طریقہ پر کاشت کی ہوئی اناج وسبزی وغیرہ کی پیداوار بھی آپؐ کے لیے آتی تھی۔ (انساب الاشراف،اول ص 518۔ واقدی ،ص 377-380وغیرہ)
اگرچہ بنوالنضیر کے اموال / آراضی رسول اللہﷺ کی خالصہ زمین تھیں اور یہی حال بنوقریظہ کی آراضی کاتھا تاہم ان کی ملکیت آپؐ کی ذاتِ رسالت مآب تک محدود تھی اور ان زمینوں سے طُعمہ(پیداوار سے لطف اندوزی کا حق) آپ کے اہل وعیال اور دوسرے مقطعوں کو حاصل تھا مگر ان پر مالکانہ حقوق ان کو حاصل نہ تھے۔ شاید اسی بنا پر حضرت عائشہ ؓ اور دوسرے بزرگ صحابہ کرامؓ نے یہ تاثر وبیان دیاتھا۔
کہ خیبر کی فتح تک آلِ محمدﷺ نے پیٹ بھر کر روٹی نہیں کھائی۔ اس کا ایک اور عامل بھی ہوسکتاہے اور وہ یہ کہ فتحِ خیبر تک امتِ مسلمہ کی ضروریات پر آراضی مدینہ منورہ کی پیداوار زیادہ خرچ ہوتی تھی اور اہل بیت نبوی پر کم۔ البتہ فتحِ خیبر کے بعد مسلمان مجاہدین کو جس طرح اس کی اس کی ملحقہ بستیوں فدک،وادی القرٰی اور تیماء کی آراضی میں اپنے اپنے حصہ کے مالکانہ حقوق حاصل ہوئے تھے اسی طرح خمس وصفیِ رسول میں سے ان سے عطا پانے والوں کو بھی ملکیت کے حقوق ملے تھے۔
روایات سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ازواجِ مطہرات میں سے ہر ایک کے لیے اسی80 وسق کھجور اور بیس20 وسق جو سالانہ مقرر کردیاتھا اور اسی سے ان کے گھروں کے خورد ونوش کا سامان اور دوسرا اسباب بھی مہیا ہوتاتھا۔ ان عطایائے نبوی پر ان کے پانے والوں کے مالکانہ حقوق نہ صرف پیداوار پر تھے بلکہ آراضی پر بھی تھے۔ چنانچہ وفاتِ نبوی کے بعد کئی ازواج مطہرات نے جن ام المومنین حضرت عائشہؓ بھی شامل وشریک تھیں اپنے حصہ کی زمین پر مالکانہ تصرف حاصل کرلیاتھا یا ان کو بیچ کر دوسری جگہ آراضی حاصل کرلی تھی۔ (بخاری،کتاب المزارعۃ بحوالہ سیرت النبی،دوم ص 440)
خود نبی کریم ﷺ اور دوسرے صحابہ کرامؓ نے فتح کے فوراً بعد کئی حصے ان کے مالکوں سے خرید لیے تھے۔ آپؐ نے جوحصہ خریدا تھا وہ ایک غفاری مجاہد کا تھا۔ جو دو اونٹوں (بعیر) کے عوض لیاگیاتھا۔( واقدی،ص 690) فتح خیبر کے بعد ایسا معلوم ہوتاہے کہ مدینہ منورہ کی تمام آراضی مسلمانوں کے لیے صدقہ/ وقف کردی گئی تھی اور غالباً ان کی پیداوار سے آپؐ کے گھر والوں کو کوئی حصہ نہیں ملتاتھا۔ بہرحال آراضی/جائداد اور مکانات کی یہی ملکیتِ رسول تھی جو اوپر بیان کی گئی اور ان سے آپؐ کے اور آپؐ کے ازواج مطہرات اور دوسرے متوسلین جیسے غلاموں / باندیوں وغیرہ کے اخراجات کے لیے نقدوجنس کی مستقل فراہمی ہوتی تھی۔
حضورﷺ کے اپنے گھر میں کھانے پینے کے انتظامات
گزشتہ کچھ تحاریر میں مدنی دور میں اصحاب کے عطایا، دعوات،تحائف کا تفصیل سے ذکر آیا ، مآخذ میں متعدد روایات ایسی مذکور ہیں جن میں آپ کے اپنے گھر میں کھانے اور مشروب نوش کرنے کی تصریح ملتی ہے۔ اس سے قبل ذرا ان روایات کا ذکر جن کی بنیاد پر فقروفاقہ کو اسلامی زندگی کا آدرش قرار دیاجاتا ہے۔
امام بخاری نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی سند سے حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہﷺ کے اہلِ خانہ(آل) اور ازواج مطہرات نے تین دن پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا تاآنکہ آپ کی وفات ہوگئی۔ انھیں کی ایک اور روایت ہے کہ محمد ﷺ نے دنیا سے سفر آخرت اختیار کیا مگر جو کی روٹی پیٹ بھر نہیں کھائی۔ حضرت عائشہ کی روایت میں گیہوں کے کھانےکے تین رات مسلسل کھانے کا حوالہ ہے۔ ام المومنین کی سند سے ایک اور روایت یہ مروی ہے کہ آلِ محمدﷺ نے دو دن مسلسل جو کی روٹی نہیں کھائی تاآنکہ آپ کی وفات ہوگئی۔
ایسی اور کئی روایات ہیں اور ان سب مرویات و احادیث کے اور بھی متابعات اور شکلیں ہیں مگر ان سب کا مقصود یہ ہے کہ مسلسل آپ کے خاندان والوں نے جو یا گیہوں کی روٹی اور سالن وغیرہ نہیں کھایا۔ (بخاری، کتاب الاطعمۃ،وقول اللہ تعالیٰ: کلو ا من طیبات مارزقناکم۔ باب من اکل حتیٰ شبع اور کتاب الزہد کی مذکورہ بالا احادیث)
ظاہر ہے کہ بسا اوقات خاندانِ رسالت پر پیغمبری وقت بھی پڑا تھا اور فقروفاقہ سے واسطہ بھی۔ مگر یہ بھی واقعہ ہے کہ فقروفاقہ ہی کا وہاں ڈیرا نہ تھا۔ اسکے ثبوت میں کچھ روایات پیش ہیں
جن روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنے گھر میں کھانا اور مشروب تناول کرتے تھے ان میں سے ایک وہ ہے جس کے مطابق آپ اپنے ربیب اور سوتیلے بیٹے حضرت عمر بن ابی سلمہ کے ساتھ کھانا کھارہے تھے اور ان کا ہاتھ پیالے میں اِدھر اُدھر بھٹک رہا تھا۔ آپ نے ان کونصیحت کی کہ بسم اللہ کہہ کر اپنے سامنےسے کھانا کھایا کرو۔( بخاری، کتاب الاطعمۃ،باب التسمیۃ علی الطعام والاکل بالیمین۔ ابو داؤد ،کتاب الاطعمۃ، باب الاکل بالیمین۔ ترمذی،ابواب الاطعمۃ باب فی التسمیۃ علی الطعام)
مشہور روایت ہے کہ آپ کا پسندیدہ کھانا ثرید (روٹی/شوربہ/یاکسی سالن میں توڑکر) ہوتا جو آپ زیادہ تر تناول کرتے تھے۔( بخاری، کتاب یدءالخلق، باب قول اللہ تعالیٰ: وضرب اللہ مثلا الخ۔ کتاب الاطعمۃ، باب الثرید)
بعض روایات میں آتا ہے کہ آپ کھجور اور ککڑی(رطب،تثاء) کھجور کے ساتھ کھائی۔( بخاری، کتاب الاطعمہ،باب الرطب بالعشاء،ابو داؤد ،کتاب الاطعمہ،باب فی الجمع بین لونین فی الاکل)
دوسری روایت کے مطابق آپ نے حضرت عائشہ کے ساتھ گوشت تناول فرمایا اور بوٹی ہڈی سے چھڑا کرنوش فرمائی۔ (ابوداؤد ، کتاب الطہارۃ،باب فی مواکلۃ الحائض ومجامعتہا)
حضرت جابر بن عبداللہ کا بیان ہے کہ آپ نے گھر والوں(اہل) سے شوربہ(اُدم) مانگا۔ انھوں نے کہا کہ صرف سرکہ موجود ہے۔ اسی کومنگوایا اور کھانا کھاتے ہوئے فرماتے رہے بہترین شوربہ سرکہ ہوتا ہے۔ صحابی موصوف کی اِس روایت کے دوسرے انداز میں اضافہ ہے کہ سرکہ سے روٹی کا ٹکڑا کھایا۔ ایک اور ان کی روایت ہے کہ ایک دن میں اپنے گھر بیٹھا ہوا تھاآپ گزرے تو مجھے اشارہ کیا اور میں آیا تو آپ میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر (بعض ازواج کے حضرے) لے گئے۔ میرے لیے اجازت لی جو پردہ کرکے دی گئی۔ آپ نے دوپہر/صبح کا کھانا (غداء) مانگا۔ چنانچہ تین ٹکیاں(اقرضہ) لاکر رکھی گئیں اور ان دونوں حضرات نے ڈیڑھ ڈیڑھ روٹی کی ٹکیاں سرکہ کے ساتھ نوشِ جاں کیں۔( مسلم ،کتاب الاشربہ،باب فضیلۃ الخل والتادم بہ۔ متعدد احادیث۔ ترمذی،ابواب الاطعمۃ،باب فی الخل، ابوداؤد کتاب الاطعمہ،باب فی الخل)
واقعہء تحریم کا سبب آپ کا حضرت زینب بنتِ حجش کے گھر میں شہد نوش فرمانے اس کی وجہ سے زیادہ دیر ان کے ہاں قیام کرنے کا شاخسانہ تھا۔ ازواجِ مطہرات آپ کے لیے کھانے کا ہدیہ ایک دوسرے کے گھر جہاں آپ کا قیام ہوتا بھیجا کرتی تھیں۔ سوتیاڈاہ کا ایک دلچسپ اور بشری فطرت کا عکاس واقعہ یہ بیان کیاجاتا ہےکہ ایک بار آپ ایک زوجہ مطہرہ کے گھرقیام پذیر تھے کہ کسی دوسری ام المومنین نے آپ کے لیے خادم کے ہمراہ کھانے کا پیالہ بھیجا۔ زوجہ محترمہ کوغصہ وغیرت نے پیالہ ہاتھ مار کر گرانے پر مجبور کردیا۔ پیالہ ٹوٹ گیا۔ آپ نے کھانا اٹھا لیا اور خادم سے کہا کہ تمہاری ماں نے گڑبڑ کردی۔ پھر ٹوٹا پیالہ اسی گھر میں روک لیا اور اس کے بدلہ سالم و ثابت پیالہ واپس کردیا۔ شارحین وراوۃ نے یہ واقعہ حضرت عائشہ کےگھر بتایا ہے۔( بخاری، کتاب النکاح،باب الغیرۃ)
انھیں کے بارے میں ایک اور روایت ہے کہ آپ حضرت عائشہؓ کا جھوٹا کھانا کھالیتے تھے اور پارچہ/پیالہ میں اسی جگہ سے دانت سے کاٹتے یا منہ سے پیتے تھے جہاں سے انھوں نے کھایا پیا ہوتا تھا حالانکہ وہ پاک نہیں ہوتی تھیں۔( ابوداؤد ، کتاب الطہارۃ،باب فی مواکلۃ الحائض ومجامعتہا)
حضرت عائشہ کے پاس آپ نے روٹی ، سرکہ اور کھجور کھائی۔ وہ آپ کوپندرہ بقر عید کے بعد بھی کراع(پائے/بونگ)کھلایا کرتی تھیں۔ دوسری ازواج کا بھی قربانی کے دنوں میں یہی معمول تھا۔( ابن ماجہ، کتاب الاطعمہ،باب القدیر۔ باب الائتدام بالخل)
حضرت میمونہ کے گھر آپ نے ایک بکری کے شانے کا گوشت کھایا اور اپنے ہی کسی گھر میں بکری کا دودھ دوہ کر خود پیا۔( بخاری،کتاب الوضوء،باب من مضمض من السویق ولم یتوضا۔ ترمذی،ابواب الدعوات، باب مایقول اذا اکل طعاما)
مسلم وغیرہ کی روایت ہے کہ ایک بار شوربہ اور گوشت کھایا اور پھر وضو نہیں کیا۔ ایک بار آپ بیت الخلاء سے باہر آئے تو کھانا پیش کیا گیا اور بلا وضو کیے آپ نے اسے تناول فرمالیا۔ انھیں کی روایت حضرت ابورافع کے بارے میں یہ ہے کہ صحابی موصوف جو کہ خادمِ نبوی تھے آپ کےلیے بطن الشاۃ (بکری کا پیٹ/کلیجی وغیرہ) بھونتے تھے کہ آپ کوبہت پسند تھی۔( مسلم،کتاب الایمان،باب نسخ الوضوءممامست النار، کتاب الحیض،باب جواز اکل المحدث الطعام)
روایت ہے کہ حضرت میمونہ کے گھر میں دودھ نوش کیا اور حضرات خالدبن ولید اور ابن عباس کو شریک کیا۔ ابن ماجہ وغیرہ کی روایت ہے کہ آپ چھ اصحاب کے ساتھ کھانا تناول فرما رہے تھے کہ ایک اعرابی آیا اور سارا کھانا دولقموں میں چٹ کرگیا۔( ابن ماجہ ،کتاب الاطعمۃ،باب التسمیہ غد الطعام)
آپ گھر میں کھانا(غداء) تناول فرما رہے تھے کہ انس بن مالک کعبی آگئے، آپ نے ان کو دعوتِ طعام دی۔ آپ کا معمول تھا کہ کھاتے وقت اگر کوئی آجاتا تو آپ اسے شرکت کی ضرور دعوت دیتے تھے۔ چنانچہ ایک بار اسماء بنت ِ یزید آئیں تو آپ نے کھانے میں شریک کرنے کے لیے بلایا۔( ترمذی، ابواب الصوم،باب ماجاء فی الصوم فی الرخصۃ فی الافطار الخ۔ ابن ماجہ،کتاب الاطعمۃ،باب عرض الطعام)
حضرت جابر کے دو واقعے اوپر گزر چکے ، انھیں کی ایک اور روایت ہے کہ گھر میں آپ دباء (لوکی) کا سالن کھارہے تھے اور آخر میں وہ روایت جو متعدد محدثین نے بیان کی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور دوسری ازواج اپنے اپنے گھروں میں آپ کے لیے نبید بنایا کرتی تھیں ۔( ابن ماجہ،کتاب الاشربہ،باب صنقہ النبیذوشربہ، مسلم،کتاب الاشربہ،باب النہی عن الاشاذ الخ۔ ترمذی،باب فی الرخصۃ ان نیتبد فی الظروف۔ ابو داؤد کتاب الاشربہ،باب فی الادعیہ۔ وغیرہ دوسرے ابواب)
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ منورہ می بھی دوسرے علاقوں کی مانند ہر گھر میں روٹی نہیں پکائی جاتی تھی بلکہ محلے میں سانجھا چولہا/تنور ہوتا تھا جہاں ضرورت مند آکر روٹیاں پکالیتے تھے ۔ اس مضمون کی آگاہی ابوداؤد کی اس روایت سے ہوتی ہے جس کے مطابق حضرت حارث بن نعمان کی صاحبزادی کا بیان ہے کہ ہمارا اور رسول اللہ ﷺ کا تنور ایک تھا۔ ابن اسحاق نے انکا پورا ام ہشام بنت حارثہ النعمان بتایا ہے۔( ابوداؤد،کتاب الطہارۃ،باب الرجل یخطب علی قوس)
روایات میں آتا ہے کہ حضرت صفیہ بہت عمدہ کھانا پکانا جانتی تھیں اور آپ کو انکے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا بہت پسند آتا تھا ۔( بخاری،کتاب النکاح ونسائی بحوالہ سیرت النبی دوم ص435)
محدثین کے مطابق حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ جب بھی بکری وغیرہ ذبح کرتے تو اس کے مختلف ٹکڑے/ پارچے کرکے اپنی مرحومہ بیوی حضرت خدیجہ کی سہیلیوں اور رشتہ داروں اور بہنوں وغیرہ کے لیے ضرور بھیجا کرتے تھے اور غالبا کبھی پکا ہوا کھانا بھی ضرور بھیجتے ہونگے ۔( بخاری،کتاب فضائل اصحاب النبی۔ باب تزویج النبیﷺ خدیجۃ وفضلہا۔ترمذی،ابواب البروالصلۃ،باب فی حق الجوار میں ایک یہودی پڑوسی کو بھی گوشت کاہدیہ بھیجاگیا۔ بکری آپ کے اہل میں ذبح کی گئی تھی) اس قسم کی بعض اور روایات اور قرآئن کا حوالہ آئندہ بھی آئے گا۔
اسی طرح گھریلو اسباب میں لباس کے علاوہ اوڑھنے اور بچھانے کے کپڑوں کا ذکر اور پردے ،دری وغیرہ قسم کی چیزوں کا حوالہ بھی بہت آتاہے۔ ازواجِ مطہرات کے گھروں / حجروں میں اکثر حالات میں سریر تھے اور اوڑھنے کے لیے لحاف اور ان پر بچھانے کے لیے گدے/بچھونے تھے جو چمڑے کے بنے ہوئے اور کھجور کی چھال اور پتی سے بھرے ہوئے تھے یا بوریاں اور چٹائیاںہوتی تھیں۔ (بخاری،ابواب سترۃ المصلی،باب الصلوٰۃ الی السریر، کتاب الجہاد،باب غزاۃ اوطاس،کتاب بدر الخلق،باب مناقب ابی بکر،مسلم کتاب الصلوٰۃ،باب الاعتراض بین یدی المصلی،باب مایقال فی لرکوع والسجود،ترمذی،ابواب الصلوٰۃ،باب کراہیۃ الصلوٰۃ فی لحف النساء،نسائی کتاب الزینۃ،اللحف،ابوداؤد،کتاب الطہارۃ،باب الصلوٰۃ فی شعر النساء)
سرہانے کےلیے تکیے تھے اور ان میں کھجور کی پتی بھری ہوتی تھی۔ (بخاری،کتاب بدءالخلق،باب اذاقال احد کم آمین الخ۔ مسلم ،کتاب اللعان،ترمذی،ابواب تفسیر القرآن،سورۃ النور،ابوداؤد،کتاب اللباس والزینۃ،باب التواضع فی اللباس) حجروں پر پردوے عموماً کمبل کے ہوتے تھے اور کبھی کبھی اچھے کپڑوں کےبھی (مسلم،کتاب الصلوٰۃ،باب النہی عن قراۃ القرآن فی الرکوع والسجود)
کھانے پینے کے دستر خوان کے لیے انطاع (چٹائیاں) استعمال ہوتی تھیں اور دوسرے دسترخوان بھی تھے۔ (بخاری،کتاب مواقیت الصلوٰۃ،باب صلاۃ اللیل،ترمذی،ابواب الزہد،باب ابواب الدعوات،باب مایقول اذا فرغ من الطعام)
ریش وبال سنوارنے کی قینچیوں(مشاقص) کا بھی ذکر آیاہے۔ (بخاری ،کتاب الاستیذان،باب الاستیذان من اجل البصر،مسلم ،کتاب الطب ولمرض والرتی،ترمذی،ابواب الاستیذان،باب من اطلع فی دار قوم الخ)
اشیاء کوڈھونے اور اٹھانے والے برتنوں (مسکاتل وکرازین) کا حوالہ خاص کر غزوہ خندق کے ضمن میں ملتاہے اور ان میں سے کچھ بنوقریظہ سے ادھار مانگے گئے تھے۔( بخاری،کتاب بدءالاذان،باب مایُحقن بالاذان …الخ،کتاب الجہاد حفرالخندق)
گھریلو استعمال کے برتنوں میں پیالوں،لگنوں،طباقوں،پلیٹوں، دیگچیوں اور ہانڈیوں،طشتوں،لوٹوں اور عام برتنوں کا حوالہ ملتاہے۔ یہ برتن لکڑی ،دھات اور پتھر وغیرہ کے ہوتے تھے۔ پانی نکالنے کے لیے ڈول رسی کا حوالہ آتاہے جوکئی قسم کے ہوتے تھے۔ پانی رکھنے کے برتنوں میں مٹکے ، مشکیزے،بڑے پیالے اور ان کے دوسرے مترادفات کا بھی ذکر آتاہے۔ (بخاری،کتاب الجمعۃ، باب من قال فی الخطبۃ بعد الثناء، کتاب الجہاد، باب غزوۃ النساء الخ)
لکھنے پڑھنے کے اسباب میں قلم دوات،روشنائی اور کاغذ وکتاب کا ذکر بہت جگہ آیاہے۔ (مسلم،کتاب العمق،باب تحریم توالی العتق غیر موالیہ) وفود عرب اور غزوات وجنگوں کے حوالے سے خیموں اور دوسرے متعلقہ اسباب کا حوالہ کئی جگہ آیاہے۔( بخاری،کتاب الصلوٰۃ،باب نوم المراۃ فی المسجد،باب الخیمۃ فی المسجد للمرضٰی وغیرہم، کتاب الاعتکاف،باب اعتکاف النساء،کتاب الجزیۃ،باب مایحذرمن العذر)
ازواج مطہرات اور نواسوں اور بیٹیوں کے ذکر میں ان کے زیورات ، سنگھار کے سامان اور خوشبو وغیرہ کابھی حوالہ ملتاہے۔ خوشبو آپؐ کو بہت پسند تھی اور اگر ہدیہ میں آتی تو آپ کبھی انکار نہ کرتے۔( بخاری،کتاب التیمم،باب کتاب اللباس،باب استعارۃ القلائد،کتاب الجہاد،باب مایکرہ من التنازع،باب غزوۃ احد۔ مؤطا،کتاب الصلوٰۃ،التیمم،خود رسول اکرمﷺ نے اپنے لیےپہلے سونے کی پھر چاندی کی انگوٹھی بنوائی تھی)
وزن کرنے کے بانٹ اور ماپنے کے برتن بھی مذکور ہیں۔ (مؤطا، کتاب الجامع،الدعا،للمدینۃ واہلہ) تنور کا ذکر گزرچکا۔ بعض مقامات پر چولہے کا بھی ذکر آیا ہے۔ اسی طرح چکی،کلہاڑی،کجاوہ،ہودج،عورتوں کےلیے مخصوص ہودج، کرسی،چھری،چاقو،لوہار کی دھونکنی،استرا وغیرہ متعدد اسباب زیست کا حوالہ ملتاہے۔ (بخاری،باب قرض الخمس،باب الدلیل علیٰ ان الخمس الخ۔ نسائی ،کتاب النکاح، جہاد الرجل انبۃ،مسلم،کتاب الجمعہ باب حدیث التعلیم فی الخطبۃ،کتاب القسامۃ،باب صحۃ الاقراربالقتل)
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ان میں سے بیشتر کے وسائلِ حصول کا ذکر نہیں ملتا اور ظاہر ہے کہ وہ ترکہ ،ہدیہ ، نذرانہ،غنیمہ،خرید وغیرہ کے معروف ذرائع سے ملے ہوں گے۔
اس تفصیل سے یہ واضح ہے کہ آپؐ کا فقروفاقہ دراصل قناعت وتوکل تھا اور وہ اختیاری تھا نہ کہ اضطراری۔دراصل آپؐ کا جودو سخا آپؐ کی تنگی معاش کا سبب تھا۔ یہ امت اور اس کے مجبورو معذور افراد کے حوائح وضروریات پوری کرنے کی تمنائے دلی تھی جو نانِ شبینہ سے بھی آپؐ کو اور آپؐ کے اہلِ خاندان کو محروم کردیاکرتی تھی۔ خوردونوش پر مشتمل ومتعلق عطایائے نبوی میں سے کئی کا ذکر اوپر کسی نہ کسی حوالے سے آچکا ہے۔ بعض اور واقعات کا اس مخصوص باب کے تحت ذکر کیاجاتاہے۔
حضور ﷺ کا لوگوں کی دعوت کرنا اور کھانا کھلانا
محدثین واربابِ سیر سب کا اتفاق ہے کہ رسول اکرم ﷺ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ سخی اور فیاض تھے اگر آپ ہدایا اور تحفے قبول کرتے تو خود بھی کسی سے پیچھے رہنا پسند نہ فرماتے تھے۔ (بخاری ،کتاب الادب،باب حسن الخلق،باب بدالوحی وغیرہ)
کئی روایات میں آتا ہے کہ اصحابِ صفّہ پر آپؐ کی عنایت خاص تھی۔ کیوں کہ ان کی زندگی تنگدستی اور عسرت کی زندگی تھی اور مختلف اسباب سے وہ محرومِ غذا رہتے تھے یا کم لطف اندوز ہوپاتے تھے۔ بلاذری کی ایک روایت ہے کہ ایک بار ان میں سے بیس اصحاب کو اپنے گھر لائے اور ان کی روٹی کے ٹکڑے دودھ میں ملاکر ثرید بناکر کھلائی۔ ایک بار حضرت ابوہریرہؓ اور ان کے بعض دوسرے صفہ کے ساتھیوں کو بلا کر خالص دودھ پلایا۔ ایک مرتبہ صرف ابوہریرہؓ کو اپنے ڈیرے (رحل) پر لے جاکر دودھ سے ضیافت کی ۔( بلاذری ،انساب الاشراف ، اول ص 272-3، بخاری ،کتاب الادب،کتاب الاستیذان،باب اذا دُعی الرجل الخ،کتاب الاطعمۃ،باب قول اللہ تعالیٰ: کلوامن طیبات مارزقناکم)
امام مالک کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوہریرہؓ معمولاً آپؐ کے گھر دوپہر/صبح کا کھانا (عذاء) کھایاکرتے تھے۔ اس کا دِل چسپ واقعہ یوں ہے کہ حضرت ابوہریرہ رسول ﷺ کے ہمراہ مسجد پہنچے اور ایک شخص کو قُل ہواللہ احد پڑھتے ہوئے سنا۔ آپؐ نے فرمایا:”واجب ہوگئی۔” انھوں نے دریافت کیا” کیاچیز یارسول اللہ؟” فرمایا: “جنت” ۔ ابوہریرہؓ کا بیان ہے کہ میں چاہا کہ جاکر اس شخص کو بشارت دے دوں۔ پھر مجھے خدشہ ہواکہ آپؐ کے ساتھ غداء (دوپہرکےکھانے) کا موقع نہ جاتا رہے لہٰذا میں نے آپؐ کے ساتھ غداء کو ترجیح دی اور پھر جب اس آدمی کی تلاش میں گیا تو وہ جاچکاتھا۔( موطاء،ماجاء فی قراۃ قل ھو اللہ احد)
بسم اللہ کے بغیر کھانا کھانے کی جوروایات اعرابی و عورت کے بارے میں اوپر آئی ہے اس میں یہ بھی مذکور ہے کہ آپ کے ساتھ اس دسترخوان پر حضرت حذیفہؓ وغیرہ کئی اصحاب تھے۔ اسی طرح حضرت سمرہ بن جندبؓ نے بھی کئی اصحاب کے ساتھ آپؐ کے گھر کھاناکھایا تھا۔ (ترمذی،ابواب المناقب،باب ماجاء فی آیات نبوۃ النبیﷺ ،ابوداؤد،کتاب الاطعمۃ)
ابوداؤد کے روایت ہے کہ ایک بار آپؐ نے اصحابِ صفہ کے کئی حضرات کو حضرت عائشہؓ کے حجرے میں خشیشہ نامی کھانا کھلایا تھا۔ (ابوداؤد ،کتاب الادب ،باب فی الرجل ینبطح علی بطنہ،ابن ماجہ ،کتاب الساجدوالجماعات،باب النوم فی المسجد)
ایک مرتبہ حضرت مقداد اور ان کے دو بھوکے ساتھیوں کے لیے تین اونٹنیوں کا دودھ مخصوص کردیا تھا اور وہ تینوں ان سے شکم پری کیاکرتے تھے۔ (مسلم کتاب الاشربۃ،باب اکرام الضیف وفضل ایثارہ،ترمذی،ابواب الاستیذان،باب کیف السلام)
اسی طرح آپ اپنے ہاں آنے والوں/زائروں اور حاجت مندوں کوبھی کھانے پینے کے ہدیے سے نوازا کرتے تھے۔چنانچہ جب حضرات عباد بن بشیر اور اسید بن حصیر ایک دینی وفقہی مسئلہ پر آپؐ سے بحث کے بعد اپنے گمان میں آپؐ کوناراض کرکے مجلسِ نبوی سے روانہ ہوئے تو پیچھے پیچھے دودھ کا ہدیہ نبوی ان کو ملا اور اس کو نوش کرکے انھوں نے جانا کہ آپؐ ناراض نہ تھے۔ (ترمذی،ابواب تفسیرالقرآن،من سورۃ البقرۃ،ابوداؤد،کتاب الطہارۃ،باب فی مواکلۃ الحائض وحجامعۃ)
گھر میں ایک بار کھجوروں کی مقدار کم رہ گئی تھی مگر ضروریات مند صحابہ کرام میں اس مقدارِ قلیل کو بھی سخی رسولؐ نے تقسیم کردیا۔ (بخاری ،کتاب الاطعمۃ، باب الرطب والتمر)
نبوی ہدایائے طعام وشراب کی اگر مکمل شرح وتفصیل کی جائے تو خاصا بڑا دفتر جمع کیا جاسکتاہے۔
سنتِ نبوی تھی کہ مقامی مہمانوں ،قریب ودور کے صحابہ اور اہلِ مدینہ کے علاوہ آپؐ باہر سے آنے والے تمام وفود اور ان کے اراکین کی مہمانداری کیاکرتے تھے اور اس کے لیے حضرت بلالؓ باقاعدہ نگراں افسر مقرر کیے گئے تھے۔ ان کا بیان ہے کہ وہ آپؐ کے تمام گھروں کے لیے نہ صرف سودا سلف لاتے تھے بلکہ ان کے وسائل وذرائع کا انتظام بھی کیا کرتے تھے اور اسی طرح وفود کی ضیافت نہ صرف ان کی ذمہ داری تھی بلکہ اس کے لیے سامان کی فراہمی اور اس کے وسائل کا انصرام بھی انھیں کا فریضہ تھا۔
اس ضمن میں دوعام ذرائع ہمارے علم میں آتے ہیں: اول یہ کہ حضرت بلالؓ حوائح وضروریات نبوی کےلیے چاندی وغیرہ پر مشتمل ایک رقم ہمیشہ اپنے پاس رکھا کرتے تھے یا اشیاء ضرورت اور اسلحے وغیرہ رہن رکھ کر سامانِ خوردونوش فراہم کیا کرتے تھے۔( حضرت بلالِ حبشی کے افسرحاجات نبوی کےلیے ملاحظہ ہوابن اسحاق ،انگریزی ترجمہ گیوم،ص446، واقدی،ص 400-1، اسدالغابہ اول ص 206-9، سوانحی خاکہ حضرت بلال)
چنانچہ اسی سلسلہ واقعات کی ایک کڑی وہ حدیث ہے جس کے مطابق آپؐ نے آخری زمانہ حیات میں اپنی ایک زرہ ایک یہودی کے ہاں رہن رکھ کر جو(شعیر) اور پگھلی ہوئی گرم چربی) ادھار لی تھی۔( بخاری ،کتاب الرہن،باب الرہن فی الحضر)
اس طریقہ فراہمی کی بعض اور مثالیں بعد میں بھی آئیں گی۔ یہاں ضمناً اس کا ذکر آگیا۔ بات ہورہی تھی وفودِ عرب اور مہمانوں کی ضیافت کی۔ امام مالکؒ وغیرہ کی روایت ہے کہ ایک بارآپؐ کا ایک کافر مہمان ایسا آیا کہ اس نے یکے بعد دیگرے سات بکریوں کا دودھ پی لیا تب سیراب ہوا۔ صبح کو وہ اسلام لایا اور اب اس کو دودھ پلایا تو دوسری بکری کا پورا دودھ بھی نہ پی سکا۔ اسی پسِ منظر میں آپؐ نے فرمایا تھا کہ کافر سات آنتوں میں پیتا ہے اورمومن ایک آنت میں۔ (مؤطا،کتاب الجامع باب ماجاءفی معی الکافر،مسلم،کتاب الاشربۃ،باب المومن یاکل الخ)
مسلم کے مطابق حضرت عبداللہ بن سرجس نے اپنی ایک زیارت کے دوران آپؐ کےساتھ روٹی اور گوشت کھایا۔ بعض راویوں کا بیان ہے کہ اس کی ثرید کھائی۔( مسلم،کتاب الفضائل)
ابوداؤد میں حضرت لقیط بن صبرہ کی عینی شہادت ہے کہ بنوالمنشفق کے وفد میں جب ہم لوگ مدینہ حاضر ہوئے تو آپؐ گھر میں تشریف فرمانہ تھے۔ حضرت عائشہؓ نے ہمارے لیے خزیرہ(گوشت آٹا پانی میں ملاکر) بنانے کا حکم دیا اور جب وہ بن گیا تو اس کے ساتھ بڑے طبق میں کھجوریں بھی پیش کی گئیں۔ ہم نے خوب کھایا۔ بعد میں جب آپ آئے تو آپؐ نے ان کے کھانے پینے کا پوچھا اور انھوں نے سارا ماجرا بتایا۔ اسی دوران کہ ہم بیٹھے ہوئے تھے ایک چرواہا اپنی بکریوں کا ریوڑ لے کر نکلا۔ آپؐ نے اس سے ایک بکری ذبح کروائی اور ظاہر ہے کہ وہ آپؐ کے مہمانوں کی ضیافت ہی کہ لیے تھی۔ (ابوداؤد،کتاب الطہارۃ،باب فی الاستنشار)
حکم بن حزن کلفی کی روایت ہے کہ میں اپنی قوم کے وفد میں سات /نو آدمیوں کے ساتھ حاضر خدمت ہوا تو آپؐ نے سب کی خاطر تواضع کھجوروں سے کی۔ (ایضاً، باب الرجل یخطب علی قوس)
ابن سعد اور دوسرے سیرت نگاروں نے وفود عرب کی ضیافتِ نبوی کے باب میں خاصی معلومات فراہم کی ہیں۔ (ابن سعد،اول باب بر وفود عرب)اور ان سے یہ حقیقت پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ مہمانوں اور زائروں کی ضیافت آپؐ کی ذمہ داری تھی جسے کبھی آپؐ اپنے وسائل سے اور کبھی صحابہ کرامؓ کے ذرائع سے انجام دیاکرتے تھے۔
سامانِ زیست آپ نے نقد بھی خرید فرمایا ہے اور بطور قرض بھی۔ قرض کی ادائیگی جنس کی جنس کے ذریعہ یا جنس کی مال/ نقد کے ذریعہ ہوئی ہے۔ ایک یہودی کے ہاں زرہ رہن رکھ کر سامان خورد ونوش کی خریداری کاذکر آچکا ہے اور وفودِ عرب کی مہمان داری کے ضمن میں نقدواُدھار خریداری کے بعض واقعات کا بھی۔ اسی ذریعہ کےبارے میں چند اور مثالیں پیش ہیں۔
ترمذی میں حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ آپؐ کے پاس صرف دوقطری موٹے کپڑے تھے جنھیں مسلسل پہنے رہتےاور جب بیٹھتے تو پسینہ نکلتا اور وہ بھاری ہوجاتے۔ ایک یہودی تاجر کے پاس اسی دوران شامی بز(کتاں/سوتی) کپڑا آیا تو حضرت عائشہؓ نے اس سے اُدھار ایک جوڑا خریدنے کا مشورہ دیا۔ آپؐ نے آدمی بھیج کر منگوایا تو اس بدبخت نے کہا: میں جانتاہوں کہ آپ میرا مال یا میرے دراہم ہڑپ کرنا چاہتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: جھوٹاہے ،خوب جانتاہے۔کہ میں لوگوں میں اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا اور سب سے زیادہ امانت ادا کرنے والا ہوں۔( ترمذی،کتاب البیوع،باب ماجاءفی الرخصۃ فی الشراءالیٰ اجل)
حضور ﷺ کے دعوتوں پر ذاتی اخراجات
خریداری کے ذریعہ سامانِ زیست کی فراہمی کے بعض واقعات آگے آرہے ہیں۔ اگرچہ سامانِ خوردونوش اور دوسری اشیائے ضرورت کی فراہمی کا ذریعہ و وسیلہ کا صراحتاً ذکر نہیں ملتا تاہم یہ یقینی ہے کہ وہ آپؐ کی جیب خاص سے ہی آتا تھا۔ اس باب میں ہم ان واقعات و مثالوں کوبیان کررہے ہیں جن کا تعلق مخصوص تیوہاروں یا شادی غمی کے کھانوں سے ہے۔
سب سے پہلے ازواجِ مطہرات سے شادی کی تقاریب اور ان کے ولیمہ کی دعوتوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ آپؐ نے تمام ازواجِ مطہرات ؓ کی شادی پر ولیمہ کیاتھا۔ کیوں کہ آپؐ کا فرمان ہے ولیمہ کرو خواہ ایک بکری کا ہو اور آپؐ اپنے حکم کے خلاف نہیں کرسکتے تھے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے جب ایک عورت سے مدینہ میں شادی کی اور خدمتِ نبوی میں حاضر ہوئے تو ان کے آپؐ نے حکم دیا تھا کہ ولیمہ کرو خواہ ایک بکری پر کیوں نہ ہو۔ ملاحظہ ہو بخاری ،کتاب النکاح،باب الولیمۃ ولوبشاۃ۔ ازواج مطہراتؓ سے اپنی شادیوں پر ولیمہ کے بارے میں بعض متناقض روایات ملتی ہیں،سب پر کرنے یاکچھ پر نہ کرنے کی۔ بخاری،ایضاً اور دوسرے بیانات ملاحظہ ہوں
اس عمومی تبصرہ کے بعد چند ولیموں کا ذکر کیاجاتا ہے۔ متعدد محدثین و اربابِ سیرت نے حضرت زینبؓ بنت حجش کی شادی کے ولیمہ کا بوجوہ خاص ذکر کیاہے۔ ان تمام روایات کاخلاصہ یہ ہے کہ آپؐ نے مہمانوں کو ولیمہ میں روٹی اور گوشت کھلایا۔ ان کے ولیمہ پر حضرت ام سلیم نے بھی کھانا پکاکربھیجاتھا وہ الگ تھا۔ حضرت انسؓ وغیرہ کابیان ہے کہ خود آپؐ نے ایک بکری ذبح کی تھی۔ حضرت زینب کی شاید اور ولیمہ سے متعلق احادیث وسیرت میں بہت سی روایات ملتی ہیں۔ بخاری،کتاب التفسیر،سورۃ الاحزاب میں چار روایات ہیں۔ تین اور روایات کتاب الستیذان،باب من قام من مجلسہ ادبیۃ،کتاب الاطعمۃ،باب قول اللہ تعالیٰ: فاذاطعمتم فانتشروا، اور کتاب التوحید،باب وکان عرشہ علی الماء میں ہیں۔ اس کے علاوہ دوسری کتابوں میں بھی متعدد جگہ اس کا ذکر ہے۔ مسلم ،کتاب النکاح،باب فضیلۃ اعتاقہ الامۃ،باب زواج زینب بنت، حجش میں کئی روایات ہیں۔ نیز ملاحظہ ہو: ترمذی ،ابواب تفسیر القرآن،سورۃ الحجرات،انساب الاشراف،اول ص434
حضرت صفیہ کی شادی کے ولیمہ میں گھی ، ستّو اور کھجور سے آپؐ نے مہمانوں کی ضیافت کی تھی۔ بخاری ،کتاب الجہاد والسیر،باب من غزالصبی للخدمۃ،کتاب النکاح،باب الیٰ من ینکح…وغیرہ،مسلم ،کتاب النکاح،مختلف ابواب،ترمذی،ابواب النکاح،باب فی الولیمۃ،انساب الاشراف ،اول ص443۔
بلاذری کا بیان ہے کہ حضرت ام سلمہؓ سے شادی پر آپؐ بیت المساکین میں جو کھانا ولیمہ میں کھلایا تھا وہ جو اور گھی وغیرہ پر مشتمل تھا۔ انساب الاشراف،اول ص431
اسی طرح خوشی کے دوسرے مواقع جیسے عقیقہ وغیرہ پر بھی آپؐ نے قربانی کی۔ مثلاً حضرات حسنینؓ کے عقیقہ پر آپؐ نے نہ صرف بکری کی قربانی کی بلکہ ان کے مونڈن پر بالوں کے برابر چاندی بھی صدقہ کی۔ (مؤطا،کتاب العقیقۃ، ماجاء فی العقیقۃ،انساب الاشراف،اول ص404)
یہی معمول وسنت نبوی آپؐ کی اولاد بالخصوص حضرت ابراہیم کے بارے میں تھی جن کے بارے میں صراحت ملتی ہے کہ آپؐ نے بکرا/مینڈھا(کبش) ذبح کیاتھا۔ آپؐ کی باندی حضرت سلمیٰ کے شوہر حضرت ابورافع نے آپ کو فرزند کی ولادت کی خوشخبری سنائی تو آپ نے ان کو ایک غلام عطا کیا اور ان کے عقیقہ میں قربانی کےعلاوہ بالوں کے وزن کےبرابر چاندی صدقہ کی۔( انساب الاشراف،اول،ص449)
سنت نبوی تھی کہ عیدالاضحیٰ میں آپؐ اپنی طرف سےاور اپنی ازواجِ مطہراتؓ کی طرف سے قربانی کرتے تھے اور اس کا گوشت غریبوں،عزیزوں اور محلہ والوں میں تقسیم کیاکرتےتھے۔ یہی سنتِ نبوی چاروں عمروں اور اکلوتے حج کی قربانی کے ضمن میں تھی۔ ایسے مواقع پر آپؐ نے ایک سے زائد جانور قربان کیے تھے۔ ازواجِ ازواج ِ مطہرات کی طرف سے ایک گائے ذبح کیے جانے کا حوالہ آتاہے۔ (مؤطا،کتاب الضحایا، مایستحب من الضحایا۔ الشرکۃ فی الضحایا، نیز بخاری،مسلم وغیرہ کی کتاب الضحایا/الذبایح ملاحظہ ہوں،ابوداؤد،کتاب الاضاحی،باب مایستحب من االضحایا، اور دوسرے ابواب)
بسا اوقات آپؐ کسی سفر/غزوہ سے مدینہ واپسی پر ایک یا زیادہ جانوروں کو ذبح کرکے اپنے اہلِ خانہ اور دوستوں عزیزوں کی ضیافت کرتے تھے یا ان کو گوشت بھیجاکرتے تھے۔ (بخاری ،کتاب الجہاد،باب الطعام عندالقدوم،ابوداؤد،کتاب الاطعمۃ،باب الاطعام عند القدوم من السفر)
شادی و خوشی کی تقاریب کے علاوہ بعض غمی کے مواقع پر بھی آپؐ نے یا آپ کے اہلِ خانہ نے کھانا پکوا کر غم زدوں کی دل جوئی کی اور مہمانوں کو کھلایا تھا۔ دو ایک مثالیں پیش ہیں۔ غزوہءموتہ میں حضرت جعفر بن ابی طالب کی شہادت کی خبر آئی تو ان کے گھر والوں کو غم ہوا اور آپؐ نے اس غمی کے موقع پر اپنے اہلِ خانہ سے غم زدوں کے لیے کھانا پکوا کر بھیجا۔ (ابوداؤد،کتاب الجنائز،باب منعۃ الطعام لاہل المیت، ترمذی،ابواب الجنائز،باب فی الطعام یصنع لاہل المیت)
بلاذری کی ایک کمزور روایت ہے کہ ام المومنین حضرت ام سلمہ ؓ نے اپنے بھائی ولید کی دیارغیر میں مرنے پر آپؐ سے اجازت لی کہ ان کا ماتم کریں۔ آپؐ کی اجازت کے بعد انھوں نے عورتوں کو جمع کیا اور ان کےلیےکھانا پکایا۔ (انساب الاشراف اول ص211)
شادی وغمی کی ایسی تقاریب اور ان پر نبوی اخراجات کی اور بھی مثالیں ملتی ہیں لیکن ان سے صرفِ نظر کیا جاتا ہے۔
معیشت نبوی ﷺ مدنی عہد میں –خلاصہ بحث
اگرچہ بحث بہت مفصل اور طویل ہوگئی اور ایک مضمون ومقالہ کے مختصر حدود سے تجاوز بھی کرگئی تاہم اتنی تفصیل وتشریح ضروری تھی تاکہ معیشتِ نبوی کے مدنی دور کی مکمل تصویر پیش کی جاسکے۔ یہاں یہ اعتراف کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ابھی بہت سے پہلو اور ضمنی مباحث اور دوسری ضروری جزئیات بیان کرنے سے رہ گئی ہیں جن کو اِن شَاء اللہ پھر کبھی پیش کیاجائے گا،مگر ان کے رہ جانے سے اصل بحث اپنی جگہ مکمل ہے اور اس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ :
ابتدائی دور ہجری میں رسول کریمﷺ کی معاشی و اقتصادی ضروریات کی تکمیل کا سب سے بڑا ذریعہ مدنی صحابہ کرام کا بالخصوص اور صاحبِ حیثیت مکی ومہاجر صحابہ کرامؓ کا بالعموم ایثار بھرا ہدیہ ونذرانہ تھا۔ اسی وسیلہ نے آپؐ اور آپؐ کے متعلقین اور اہل وعیال کے لیے تین بنیادی ضرورتوں روٹی،کپڑا اور مکان کی سبیل پیدا کی تھی۔ اور اسی نے دوسرے اسبابِ زیست فراہم کرکے حیات نبویؐ میں خوش گواری اور کسی قدر سہولت پیدا کی اور زندگی کو زیادہ خوش گوار بنایا۔
یہ اہم ترین ذریعہ معاش تھا مگر یہ واضح رہنا چاہیے کہ یہ محض ایک ذریعہ ہی تھا۔ ترکہ و وراثت ،ازواجِ مطہرات کے اپنے اموال ،خرید وبیع اور تجارت ،کسی حد تک زراعت وباغبانی اور مویشی پالنا، تھوڑی سی دستکاری ، مال غنیمت وغیرہ دوسرے وسائل ِ معاش تھے۔ ان سے جو سامانِ زیست فراہم ہوتاتھا وہ اتنا کافی تھا کہ آپؐ اور آپؐ کے اہل وعیال عیش وعشرت کی زندگی بسر کرتے تھے۔ اور دنیاوی نعمتیں ہی مقصود ہوتیں تو انھیں اسباب سے آپؐ دولت کےانبار اور تنعم کی فروانی پیدا کرسکتےتھے مگر آپؐ نے اس دنیاوی زندگی میں غریبانہ وشریفانہ زندگی بسرکی۔ نہ زہد وفقر کی وہ زندگی اختیار کی جو رہبانیت کی طرف لے جاتی ہے اور نہ عیش وعشرت کی جو آخرت پر دنیا کو ترجیح دیتی ہے۔
نبوی معیشت اعتدال کے جادہء قرآنی پر مبنی تھی۔ اللہ کی پیدا کردہ نعمتوں سے لطف اندوزی کے ساتھ شکر گزاری کی زندگی ،اور فقروفاقہ سے پناہ مانگنے کی دعائے نبوی کی زندگی ۔ دراصل وہ قناعت وصبروتوکل پر مبنی معیشت تھی جو بقدر کفالت ضروریات کی تکمیل کرتی ہے اور ہر مسلم ومومن کےلیے دنیائے دنی کو آخرت علی کے لیے ایک عمل گاہ بناتی ہے۔
استفادہ کتاب: معاش نبویﷺ از مولانا ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی
کیا محمد ﷺذیادہ شادیوں کے شوقین تھے ؟ | الحاد جدید کا علمی محاکمہ
April 13, 2016 at 10:17 am[…] 1- خدیجه (رضی اللہ تعالی عنہہ) سے آپکی شادی نے اس بات کو واضح کیا کہ ایک کنوارہ ایک بیوہ سے شادی کر سکتا ہے، اپنے سے بڑی عمر کی خاتون سے شادی کر سکتا ہے، ایک غریب یتیم مرد کیلئے ایک مالدار خاتون سے شادی کرنا یا ایک ملازم کا اپنی مالکن سے، شادی کرنا جائز ہے۔ رسولِ اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے آپکی زندگی میں کسی سے شادی نہیں کی، یہ امر ہی ان تمام نفس پرستی کے الزامات کی تردید کرتا ہے۔ کچھ یرقان زدہ آنکھوں والے ناقدین یہاں تک کہہ گئے کہ یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کی معاشی مجبوریاں تھیں جنہوں نے خدیجه (رضی اللہ تعالی عنہہ) کی زندگی میں آپکو مزید شادی سے روکے رکھا۔ Stanely Lane Pool نے اسلام کا تلخ ناقد ہونے کے باوجود، ایسے دعوے کی نامعقولیت کو تسلیم کیا۔ وہ لکھتا ہے؛ ” خدیجه کیلئے محمد کی صداقت و وفاداری کی وجہ مال و دولت قرار دی گئی ہے۔ وہ(معترضین) کہتے ہیں کہ محمد ایک غریب شخص تھا جبکہ خدیجه دولتمند اور اثر و رسوخ والی خاتون تھی؛ خاوند کی جانب سے کہیں اور کسی بھی طرح کی ‘دل لگی’ طلاق کا سبب بنتی اور ساتھ ہی ساتھ جائیداد اور مقام کو بھی نقصان پہنچتا۔ اس بات کی نشاندہی کی ضرورت نہیں ہے کہ غربت کا خوف ( اس وقت عرب میں رہنے والے کیلئے ایک معمولی انجام ہوگا )ایک حقیقی نفس پرست آدمی کو پچیس سال تک نہیں روکا جا سکتا؛ بلخصوص جب کسی بھی اعتبار سے لازم بھی نہیں کہ خدیجه جو اسکو پورے دل سے محبت کرتی تھی’کبھی اس وجہ سے طلاق کا سوچتی بھی۔ اور ابھی اس وضاحت میں محمد کا محبت میں اپنی بوڑھی بیوی خدیجه کو(اسکی وفات کے بعد ) یاد کرنا شامل نہیں ہے۔ اگر محض اسکی دولت ہی نے پچیس سال تک اسکو روکے رکھا ہوتا، تو کوئی بھی یہ امید کر سکتا ہے کہ اسکی موت کے بعد وہ یہ لبادہ اتار پھینکتا، اور شکر شکر کرتے پھر سے یہی سب دہراتا۔ مگر محمد نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا۔ ” -(Studies in a Mosque p.79, pub. W. H. Allen & Co. London, 1883) پھر دولت ، حسین لڑکی سے شادی، سرداری کی آفرین تو قریش کئی دفعہ انکو پیش کرچکے تھے کہ شاید یہ یہی کچھ چاہتے ہیں ۔ پہلے ڈائریکٹ پھر حضرت ابوطالب کے سامنے آفر دی گئی جس کا تذکرہ تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے ، آپ نے جواب میں فرمایا تھا کہ اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ پر چاند دوسرے پر سورج بھی رکھ دیں میں یہ دعوت کا کام نہیں چھوڑ سکتا۔ تفصیل کے لیے یہ تحریر دیکھیے […]