مرد اور عورت میں مساوات ہونی چاہیے یا عدل ؟

۔

صنفی عدل (Gender -Justice) کا موجودہ دور میں پوری دنیا میں غلغلہ بلند ہے۔ اسے طبقۂ نسواں کی معراج سمجھ لیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ مرد کو برتراور عورت کو کم تر سمجھنا غلط ہے۔ عورت کو زندگی کے تمام معاملات میں مرد کے برابر حق ملنا چاہیے۔ تعلیم کا میدان ہو یا کاروبار اور ملازمت کا، صحت اور علاج معالجہ کے معاملات ہوں یا سیاسی بااختیاری کے، وہ ہر وہ کام کر سکتی ہے جسے مرد انجام دیتا ہے۔ گویا ’عدل‘ کا مطلب ہر معاملے میں برابری لے لیا گیا ہے۔ چوں کہ عملًا عورت کو یہ مقام حاصل نہیں تھا، اس لیے اسے اس تک پہنچانے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ اس کے لیے مختلف تدابیر اختیار کی گئیں ۔ ترغیب و تلقین کے مختلف ذرائع اپنائے گئے۔ اقوام متحدہ کا ایک ادارہ یو این ویمن کے نام سے ہے، جو پوری دنیا میں مردوں اور عورتوں کے درمیان مساوات قائم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
اب مساوات كا تقاضا تو یہ  ہے كہ ہر انسان خواہ وہ مرد ہو یا عورت  کو  ہر حق اور فرض میں  برابر ٹھہرایا جائے اس سے یہ مساوات بعض جگہ ظلم بن جاتی ہے ۔  جیسے كيمونسٹ نے کہا  كہ حاكم اور محكوم كے مابين كونسا فرق ہے ؟ يہ ممكن ہى نہيں كہ كوئى ايك دوسرے پر تسلط رکھے اور حكمرانى كرے، حتى كہ والد اور بيٹا بھى، والد كو اپنے بيٹے پر بھى تسلط اور طاقت نہيں ہے، اسى طرح آگے بڑھے اور سماج کی ہر ترتیب کو درہم برہم کرکے رکھ دیا ۔۔فیمنسٹ کا بھی مرد عورت کو برابر کرنے کا  مطالبہ ایسا ہی ہے ۔
دوسری طرف عدل كا معنى ہے كہ ہر مستحق كو اس كا حق دينا اور اس پر اسکی استطاعت کے مطابق فرائض ڈالنا  ۔ اسى ليے قرآن مجيد ميں كبھى يہ لفظ نہيں آئے كہ اللہ تعالى تمہيں مساوات يعنى برابرى كرنے كا حكم ديتا ہے بلکہ :{ اللہ تعالى تمہيں عدل و انصاف كا حكم ديا ہے } النحل ( 91 ).
{ اور جب تم لوگوں ميں كے درميان فيصلہ كرو تو عدل و انصاف كے ساتھ فيصلہ كرو }النساء ( 58 ).
اورقرآن مجيد ميں اكثر مساوات كى نفى کی گئی .
{ كہہ ديجئے كيا وہ لوگ جو جانتے ہيں اور جو لوگ نہيں جانتے برابر ہيں ؟}الزمر ( 9 ).
{ كہہ ديجئے كيا اندھا اور ديكھنے والا برابر ہو سكتے ہيں؟ يا كيا اندھيرے اور روشنى برابر ہو سكتے ہيں ؟}الرعد ( 16 ).
{ تم ميں سے جس نے فتح سے پہلے خرچ كيا اور جھاد كيا برابر نہيں، يہ ان لوگوں سے زيادہ درجے والے ہيں جنہوں نے اس كے بعد خرچ كيا اور جہاد كيا }الحديد ( 10 ).
مرد و عورت کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے اسلام انکے مابين مساوات اور برابرى نہيں انصاف کرتا ہے ۔ اگر مساوات و برابرى كى جائے تو ان ميں ايك پر ظلم ہوگا۔. دونوں کی اپنی اپنی ذمہ داریاں ، کمزوریاں ، صلاحیتیں ہیں انہی کی بناء پر ان میں حقوق و فرائض کی بھی تقسیم ہے۔
البتہ شریعت کی نظر میں بحثیت انسان مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے۔اكثر شريعت اسلاميہ كے احكام مرد و عورت پر برابر لاگو ہوتے ، عورت بھى مرد كى طرح ہى وضوء ،غسل كرتى ، مرد كى طرح روزہ ركھتى ، زكاۃ ادا كرتى، حج كرتى ، خريد و فروخت ، صدقہ كرتى ہے ۔  دونوں جنسوں ميں جہاں  فرق آيا ہے ، وہاں اسلام عورت كى فطری صلاحیتوں اور كمزورى كو بھی دیکھتے ہوئے ذمہ داریاں لاگو کرتا ہے ، مثلا مردوں پر اپنے بیوی بچوں کی کفالت فرض ہے اسی طرح جہاد فرض ہے، ليكن عورتوں پر نا کمانے کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے اور نا مسلمانوں کے لیے جہاد و قتال کے لیے نکلنے کی۔۔ یہاں مساوات سے عورت پر ظلم ہوتا ، اسی طرح باقی معاملات میں بھی عدل کے تقاضے کے تحت اک کو دوسرے پر فوقیت دی گئی.
مستفاد: صالح المنجد،

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password