اسلام کے تعزیری قوانین اور بے رحمی کا اعتراض

1

اسلام کے تعزیری قوانین کی حکمت و معنویت سے جو حضرات واقف نہیں ہیں وہ ان پر مختلف پہلوؤں سے اعتراض کرتے ہیں۔ انھیں یہ سزائیں وحشیانہ اور سفّاکانہ دکھائی دیتی ہیں اور ان سے ان کی نظر میں بنیادی انسانی حقوق کی پامالی ہوتی ہے۔ ایک اعتراض بہت زور شور سے یہ کیا جاتا ہے کہ اسلام نے مختلف جرائم پر جو سزائیں تجویز کی ہیں وہ انتہائی بے رحمی اور سنگ دلی کی مظہر ہیں۔ آج کا ترقی یافتہ اور متمدن دور ان کا متحمل نہیں ہوسکتا۔اسلام کے بہت سے احکامات قدامت کے مظہر ہیں۔ اور آج کی مہذب اور شائستہ دنیا میں ان پر عمل در آمد کرنا ممکن نہیں ہوسکتا۔ پھر یہ اعتراضات مخالفوں ہی کی طرف سے نہیں کیے جاتے بلکہ آج جو مسلمان شائستہ اور ترقی پسند کہلاتے ہیں اور جنہوں نے اسلام کا مطالعہ براہ راست نہیں بلکہ مغربی اہل قلم کے توسط سے کیا ہے، وہ بھی محض غلط فہی کی بنا پر اس قسم کے اعتراضات کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی پوری تعلیم میں کوئی ایک بات بھی ایسی نہیں ملتی جسے قدامت یا تاریک خیالی کا مظہر کیا جاسکے۔
اصل میں یہ اعتراض کرنے والوں کی نظر مسئلے کے صرف ایک پہلو پر رہتی ہے۔وہ دوسرے پہلو کی طرف نہیں دیکھتے کہ یہ مجرمین معاشرہ میں کتنے فساد کا باعث بنتے ہیں اور ان کا وجود پاکیزہ سماج میں کتنا تعفّن پیدا کرتا ہے۔ جب جسمِ انسانی کے کسی عضو میں پھوڑا بن رہا ہو تو اس کے علاج کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پھوڑا پک گیا ہو تو اسے چیر پھاڑ کر گندا مواد باہر نکال دیا جاتا ہے۔ تعفّن (Septic) دوسرے عضو میں سرایت کررہا ہو یا زخم کینسر بن گیا ہو تو اس عضو کو کاٹ کر پھینک دینے ہی میں عافیت سمجھی جاتی ہے اور مریض سے ہمدردی اور بھلائی کا یہی تقاضا سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح جو مجرم اپنے جرم کی وجہ سے صحت مند معاشرہ کو بیمار کررہا ہو اور قوی اندیشہ ہو کہ اس کا فساد دوسرے افراد میں بھی سرایت کرجائے گا تو اس کا علاج کرنا اور اور اگر وہ لاعلاج ہو تو اسے سماج سے کاٹ کر پھینک دینا ہی تقاضائے دانش مندی اور قرین عقل ہے۔
ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ اسلام نے جو سزائیں تجویز کی ہیں وہ بڑی اہانت آمیز اور رسوا کن ہیں۔ اگر ان سزاؤں کی معقولیت تسلیم کرلی جائے تو بھی ان کے نفاذ کے طریقوں کو کسی طرح پسندیدہ نہیں قرار دیا جاسکتا۔ اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ سزا کوئی بھی ہو اور کتنے ہی آسان سے آسان طریقے سے دی جائے وہ بہ ہر حال اہانت آمیز اور رسوا کن ہوتی ہے۔ اگر کسی فرد یا سماج کا مزاج نہیں بگڑا ہے تو وہ سزا کی کسی صورت کو بھی لائقِ فخر اور باعثِ عزّ و شرف نہیں سمجھ سکتا۔ دوسری بات یہ کہ اسلامی تعزیرات میں وہ صورتیں خاص طور پر اسی لیے اختیار کی گئی ہیں ، تاکہ ان کی اہانت انگیزی اور ذلت آمیزی دیکھ کر دوسرے لوگ، جن کے اندر جرم کے جراثیم پنپ رہے ہوں،ان جرائم کے ارتکاب سے باز آجائیں۔
اسلامی تعزیرات کے بارے میں ایک اعتراض یہ بھی عام ہے کہ ان سے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔کوئی شخص بڑے سے بڑا مجرم ہو ،لیکن اس کی جان محترم ہے اور کسی دوسرے انسان کو اس کی جان لینے کا حق نہیں ہے۔اسی دلیل کی بنیاد پر پھانسی کی سزا کو کالعدم کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ اس طرح کے دلائل سے یہ حضرات مجرم کے بنیادی حقوق کی تو پر زور وکالت کرتے ہیں،لیکن مظلوم اور مقتول کے انسانی حقوق ان کی نگاہوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔یقیناً انسانی جان محترم ہے،لیکن جتنی محترم قاتل کی جان ہے اتنی ہی محترم مقتول کی بھی جا ن تھی۔اگر قاتل نے اس احترام اور تقدس کو پامال کیا ہے تو اسے بھی زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں (اگر مقتول کے ورثا اسکو معاف نا کریں) ۔
یہ تہذیب انسانی اور حقوق انسانی کے دعویدار جرائم پیشہ لوگوں پر تو رحم کھاتے ہیں مگر پوری عالم انسانیت پر رحم نہیں کھاتے‘ جن کی زندگیوں کو ان جرائم پیشہ لوگوں نے اجیرن بنارکھا ہے۔یہ روش تو سراسر عقل کے خلاف اور انصاف سے بھی متصادم ہے‘ کیونکہ ایک مجرم پر ترس کھانا پوری انسانیت پر ظلم کے مترادف ہے‘ جب کہ امن عامہ کو مختل کرنے کا سب سے بڑا سبب بھی یہی ہے۔
پھر اسلامی سزاؤں کے مقابلے میں نام نہاد انسانی حقوق کی پرواہ کرتے ہوئے جو قوانین لائے گئے ہیں ان میں یہ سقم ہے کہ وہ جرائم پیشہ لوگوں کی نظر میں ایک کھیل سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے‘ اس لئے وہ جیل خانہ میں بیٹھے ہوئے بھی آئندہ اس جرم کو خوبصورتی سے کرنے کے پروگرام بناتے رہتے ہیں۔ جن اسلامی ممالک میں جرائم پر حدود نافذ ہیں ان کا جائزہ لینے سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح کھل کر سامنے آتی ہے کہ وہاں نہ بہت سے افراد ہاتھ کٹے نظر آتے ہیں نہ برسہا برس تک سنگساری کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے‘ اسلامی سزاؤں کا مسلمانوں کے قلوب پر اس قدر رعب اور دبدبہ ہے کہ وہاں چوری ‘ ڈاکہ اور بے حیائی کا نام نظر نہیں آتا‘ اس کی ایک مثال سعودیہ عربیہ کو پیش کیا جاسکتا ہے کہ وہاں دن میں پانچ مرتبہ ہر شخص دیکھتا ہے کہ دکانیں کھلی ہوئی ہیں‘ لاکھوں کا سامان ان میں پڑا ہوا ہے اور دکان کا مالک بغیر دکان بند کئے ہوئے نماز کے لئے حرم میں پہنچ جاتا ہے‘ اس کو یہ وسوسہ بھی نہیں ہوتا کہ اس کا مال دکان سے غائب ہوجائے گا‘ اس کی مثال دنیا کے کسی متمدن اور مہذب ملک میں پیش نہیں کی جاسکتی۔
جہاں تک رحمت وشفقت کا معاملہ ہے وہ شریعت اسلام سے زیادہ کوئی نہیں سکھا سکتا‘ جس نے عین میدان جنگ میں اپنے قاتل دشمنوں کا حق پہچانا اور حکم دیا کہ عورت اگر سامنے آجائے تو ہاتھ روک لو‘ اسی طرح بچہ سامنے آجائے تو بھی ہاتھ روک لیا جائے‘ بوڑھا سامنے آجائے تب بھی یہی حکم ہے‘ اسی طرح مذہبی عالم جو تمہارے مقابلہ پر قتل میں شریک نہ ہو‘ بلکہ اپنے طرز کی عبادت میں مشغول ہو‘ اس کو قتل نہ کرو۔ سید ابو الاعلی مودودی لکھتے ہیں
اس زمانے کی لادینی تہذیب کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کی ساری ہمدردیاں مجرموں کے ساتھ ہیں اس لئے یہ نقطہ نظر بڑے زور وشور سے پیش کیاجاتاہے کہ اسلامی سزائیں وحشیانہ ہیں
اس کادوسرا مطلب یہ ہواکہ چوری کرنا کوئی وحشیانہ کام نہیں البتہ اس پر ہاتھ کاٹنا وحشیانہ مجرمانہ اور غیر انسانی کام ہے
اور زناکاری تو کوئی جرم نہیں لیکن زناکار کو کھلی چھوٹ دلوانا الحادی تہذیب کی دنیا کے اندر سستی تفریح ہے۔

مستفاد :
ریپ کی سزا کے لئے چار گواہ! حقیقت کیا ہے؟ ازابوزید، سہ ماہی ایقاظ
ڈاکٹرمحمد رضی الاسلام ندوی. اسلام کے تعزیری قوانین کی معنویت.
شرعی سزاؤں کی تعریف اور ان کی اقسام مولانا مفتی سید عبد القدوس ترمذی
اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارش بسلسلہ ڈی این اے از حسن مدنی
اسلام میں جرائم کو روکنے کے ضوابط ایم اے زیدی

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password