اعتراض:میں ایسے خدا کو کیوں پکاروں جو مصیبت میں مدد نہیں کرتا؟

11

اعتراض :میں ایسے خدا کو کیوں پکاروں جو مصیبت میں میری مدد ہی نہیں کرتا؟ ۔ ؟ میں اسکی نمازیں پڑھتا رہوں اور جب کوئی ضرورت پڑھ جائے تو دعا بھی قبول نا کرے۔
جواب :یہاں معاملہ دو اشخاص کی آپس کی ڈیلینگ کا نہیں ہے کہ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر چلے ، بلکہ خالق اور مخلوق کا ہے۔ اگر کسی کو رب خالق، خدا مانا ہے تو پھر یہ کاروباری شرائط اس معاملے میں بے فائدہ ہیں ۔ حق تو یہ ہے کہ ایسی ذات رب ہوہی نہیں سکتی جو عبادت کے لیے بندے کی شرائط کی محتاج ہو۔۔ اللہ بے نیاز ہے ان خواہشوں سے، ان شرائط سے، کوئی اس کو مانے یا نا مانے اسے فرق نہیں پڑتا۔۔
بظاہر دعا کی قبولیت کے آثار نظر نا آنے کی کچھ وجوہات گزشتہ تحاریر میں بھی بیان کی گئی تھیں ۔ ۔ ان میں سے کچھ اہم کمزوریوں کی نشاندہی کی جاتی ہے۔

1. اسباب کی لائن سے مکمل کوشش کا نا کیا جانا۔
آپ نے خدا سے کیا مانگنا ہے، اس سوال سے پہلے آپ نے یہ طے کرنا ہوگا کہ جو کچھ آپ مانگنے والے ہیں اس کے لیے آپ نے کیا کیا اسباب و حکمتِ عملی اختیار کی ہے۔
جب تک آپ کسی بھی چیز کے حصول کے لیے معقول اسباب اور ضروریات کا احاطہ کرنے کی مکمل سعی نہ کرلیں تب تک ہر دعا رائگاں ہی رہے گی۔
بعض حضرات لوگ اسباب کے ہوتے ہوئے بھی انہیں اختیار نہیں کرتے اور دعاوں سے معجزے چاہتے.. یہ شریعت کی تعلیم نہیں. ۔۔!
اس لیے اگر مسئلہ حل ہوتا نظر نا آرہا ہوتو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ کیا اسباب کی لائن سے بھی کوشش کی گئی ؟ جائز اسباب اختیار کیے گئے؟ کہیں اسباب کی لائن سے ہی کمی تو نہیں رہ رہی ۔ ۔
سنت طریقہ یہ ہے کہ اسباب کی لائن سے جائز حد تک مکمل کوشش کی جائے پھر اللہ سے دعا کی جائے اور اچھے کی امید رکھی جائے ۔ غور کریے کہیں یہی کمی تو نہیں ؟ بیماری ہے تو علاج کروایے ، محنت کوشش کیجیے پھر کامیابی کی دعا اللہ سے کیجیے ، خود انبیاء کا عمل بھی یہی تھا ۔حضورﷺ چاہتے تو کعبہ کے سامنے کھڑے ہو کر دعا مانگتے اور سب لوگ خود بخود مسلمان ہوجاتے، سارے دشمن مر جاتے۔ ۔ لیکن یہ دنیا میں اللہ کی سنت نہیں ہے یہاں دنیا میں کھپنا پڑے گا، ہر کوشش کرنی پڑے گی۔ ۔ جیسے حضور ﷺ نے غزوہ بدر کی ساری رات دعا مانگی ، صبح میدان میں بھی آئے ، پھر اللہ کی مدد بھی آئی ۔.. !!

یاد رکھیں
دعا ایک مجرد سبب (abstract cause) کی صورت میں کام کرتی ہے۔ مادی سبب کی صورت میں کام نہیں کرتی۔ مادی اسباب آپ ہی کو اختیار کرنے پڑیں گے۔

2. کسی بڑی غلطی کی دنیاوی سزا:
بعض اوقات کچھ مسائل میں پھنسنا، بیماریوں، مصیبتوں میں مبتلا ہونا کچھ غلطیوں کی دنیاوی سزا بهی ہوتی ہے ،اس سے اس دنیا میں ہی ان گناہوں کی معافی ہوجاتی ہے۔

3. اسی میں دنیا آخرت کی بہتری کا ہونا:
بندہ کئی ایسے لوگوں کو جانتا ہے جنکی دعائیں پندرہ پندرہ سال بعد جاکے قبول ہوئیں، اولاد، صحت کے حوالے سے ۔ جن کی قبول نہیں ہوئی انکو بھی بعد میں شکر کرتے دیکھا۔
ایک دوست جنکی پانچ بیٹیاں ہیں ، چند سال پہلے اللہ نے بیٹا دیا لیکن اب وہ اس سے سخت تنگ ہیں ۔ چند دن پہلے اسکا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ یہ میں اور میری بیوی نے اللہ سے زبردستی لیا ہے۔ ہماری حیرانگی پر بتایا کہ ہم کئی سالوں سے تہجد میں بیٹے کے لیے دعائیں کرتے رہے، نہیں ملا۔ ایک دن میری بیوی نے دعا میں اتنی ضد کی کہ اللہ نے بیٹا دے ہی دیا۔ وہ ایسے الفاظ دوہراتی رہی جو مجھے بھی گستاخی محسوس ہوئے۔ ۔
اب ہمارا بیٹا تو ہے لیکن سکون ختم ہوگیا ہے، اسے ایک ایسی بیماری ہے کہ وہ دن رات روتا رہتا ہے، ہزاروں روپے لگاچکے، کئی ڈاکٹروں ، حکیموں کو دکھایا لیکن مسئلہ سمجھ نہیں آتا۔ ۔اب حال یہ ہے کہ ہم دعا یہ کرتے ہیں کہ یہ مرجائے۔ ۔ !!پھر کہنے لگے یہ اللہ کی حکمت/ فیصلے پر راضی نا ہونے کی ہمیں سزا مل رہی ہے، اسباب کی دنیا میں ہمیں جو بیٹا ملنا تھا اس سے ہمیں تنگی ہونی تھی، اللہ نے ہمیں پریشانی سے بچانے کے لیے اسے روکا ہم نے زبردستی لے لیا۔ ۔ !!

اعتراض : میرا مسئلہ ازدواجی ہے۔ میں نے سال جماعت کے ساتھ نماز پڑھی، وظیفے کیے، ہزاروں روپے صدقات دیے لیکن میری دعا قبول نہیں ہوئی، بہت تکلیف ہوتی ہے کہ زندگی کے ایک پرسنٹ مسائل کے لیے کبھی بندہ اللہ کو پکارے اور وہ دعا قبول نا کرے۔
جواب : نیت ٹهیک ہو تو نیک اعمال کبهی لاحاصل یا رائیگاں نہیں جاتے ، یہ دنیا کی آنکھ بند ہونے کے بعد ہی پتا چلے ۔گزشتہ ایک تحریر میں بھی ہم نے دعا سے مسئلہ حل نا ہونے کی وجوہات کے ذیل میں بے عملی /معجزے چاہنا/غلط طریقہ کار /جائز اسباب کواختیار نا کرنا لکھی تهیں . یہ بات سمجھنے کی ہے کہ دعا کا مطلب اسباب کا انکار بالکل نہیں بلکہ جائز اسباب کو اختیار کرنا ضروری ہے۔ بغیر اسباب کے مدد چاہنا ایسے ہی ہے جیسے بغیر شادی کے کوئی اولاد کی جستجو کرے ، ایسا کرنے والے سے ہم کہیں گے کہ بھائی پہلے شادی کرو پھر یہ دعا کرو کہ اللہ تمہیں اولاد دے اور نیک اور صالح دے۔۔

علاج
توکل /ایمان کے خلاف بهی نہیں بلکہ شریعت کا حکم ہے ، سنت ہے، اللہ کی طرف سے ہی مہیا کیے گیے اسباب میں سے ہے ۔
آپ دعا کے ساتھ مکمل علاج معالجے کی سبب کے درجے میں ضرور کوشش کریں ،ساتھ اللہ سے مدد مانگتے رہیں آسانی ہوگی ،انشاء اللہ

دعائیں ضرور فائدہ پہنچاتی ہیں مگر انہی کو پہنچاتی ہیں جو عزم و ہمت رکھتے ہیں۔ بے ہمتوں کے لیے تو وہ ترکِ عمل اور تعطلِ قویٰ کا حیلہ بن جاتی ہیں۔”

باقی ایک پرسنت مسائل کی بات ٹھیک نہیں ہے ۔کیا اللہ اس ایک پرسنٹ مسئلے میں ہی انسان کی مدد کررہا ہوتا ہے ؟
کیا باقی مسائل خود بخود حل ہورہے ہوتے ہیں ؟
انسان کی بہتری کے انتظامات، اسکا جسمانی اور معاشی نظام خود بخود چل رہا ہوتا ہے ؟
سخت حالات، مصیبتیں خود بخود ٹل رہی ہوتی ہیں۔؟
آپکی بات کا مطلب یہ ہے کہ ویسے تو سارے مسائل کوئی اور حل کرتا رہتا ہے یا خودبخود حل ہوتے جاتے ہیں ہمارا خدا نعوذ بااللہ سویا رہتا ہے، جب ہم کسی ایک پرسنٹ مسئلے میں پھنستے ہیں تو اس سے مانگتے اور اسے جگاتے ہیں کہ یہ کام تو کردے وہ کرتا ہی نہیں ۔۔ نعوذ بااللہ

  • hafiz hafiz hafiz
    March 17, 2021 at 11:06 am

    خدا کا واسطہ ہے جہالت مت پھیلائیں
    تھوڑی دیر کے لیئے زہن میں کسی الحادی ریاست کا تصور لائیں جہاں لوگوں کی اکثریت خدا کو نہیں مانتی ۔۔۔ کیا ان کے کام نہیں ہوتے ، کیا وہاں کسی جوڑے کے درجنوں بیٹیوں کے بعد بیٹے پیدا نہیں ہوتے ؟ کون کرتا ہے ؟ انہوں نے تو
    کبھی دعا نہیں کی ہوتی !!!

    وقت آ چکا ہے کہ لوگوں کو ملائیت کی پھیلائی جہل زدہ باتوں کی بجائے قوانین فطرت کو سمجھنے کی تعلیم دی جائے ۔۔۔
    انہیں بتایا جائے کہ ہر کام فطری قوانین کے تحت ہوتا ہے دعا کا مقصد صرف خدا کیساتھ قلبی تعلق اور اطمینان سے ہے نہ کہ کام ہونے سے (کا ان کے نہیں ہوتے جو دعا نہیں مانگتے؟)
    کام صرف مادی وسائل سے ہی ہو گا
    اگر میری بات غلط ہے تو بتائیں کہ سب سے زیادہ ھم ہی دعائیں مانگتے ہیں اور پوری دنیا میں ذلیل و خوار بھی ھم ہی ہیں کیوں ؟

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password