تہذیبی نرگسیت -ایک تہذیبی مرعوب کی سرگذشت کا اصولی جواب – حصہ سوم

3

گذشتہ کچھ عرصے سے مشاہدے میں آیا ہے کہ تہذیبی نرگسیت کا باطل نظریہ خام ذہنوں میں مستقل شکوک و شبہات کا باعث بن رہا ہے۔ خصوصا لبرل اور لادینی عناصر اپنی تحاریر اور گفتگو میں اس کتاب کا اکثر حوالہ دیتے رہتے ہیں۔ نئے ناپختہ اذہان اس فتنے سے متاثر نا ہوں، اس لئے ہم نے پچھلے دو حصوں میں بتدریج اس فتنے کے بنیادی تضادات، نصوص قطعیہ پر مصنف کے اعترضات اور اسلام کے مکمل ضابطہ حیات ہونے کے متعلق قران و حدیث سے دلائل پیش کئے ہیں ۔ اس تیسرے حصے میں ہماری کوشش ہوگی کہ اس خود ساختہ ‘نرگسیت’ کی حقیقت اور غلبہ اسلام کے بارے میں‌ نصوص قطعیہ سے اتمام حجت کریں اور اس فتنے کے علمی سرقے پر کچھ روشنی ڈالیں ۔ نیز ہم یہ بات واضع کرتے چلیں کہ اس مضمون اور اس کے پہلے دو حصوں کے مخاطب وہ شعوری مسلمان ہیں جو اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کو تہ دل سے تسلیم کرتے ہیں اور اس نرگسی فتنے کے اسباب و حقایق پر اپنی تشفی قلب کے لئے مزید معلومات کے خواہاں ہیں۔ آپ نے اگر پچھلے دو حصوں کا پہلے مطالعہ نہیں کیا تو برائے مہربانی اس مضمون کو شروع کرنے سے پہلے ان دونوں حصوں کو ضرور پڑھ لیں۔

تہذیبی نرگسیت -ایک تہذیبی مرعوب کی سرگذشت کا اصولی جواب –حصہ اول
تہذیبی نرگسیت -ایک تہذیبی مرعوب کی سرگذشت کا اصولی جواب – حصہ دوم

کئی لوگوں نے اس کتاب کے حصول کے لئے پوچھا تھا، تو ان سے گذارش ہے کہ اس زمن میں اپنے لوکل کتب فروش سے رابطہ کریں، یہ کتاب سانجھ پبلیشرز نے شائع کی تھی اور یہ ایمیزون پر موجود نہیں لیکن آپ دکاندار ڈاٹ کام سے رابطہ کر کے آرڈر کر سکتے ہیں۔ حالانکہ میں اس کے متن سے شدید اختلاف رکھتا ہوں،لیکن اس کتاب کا ٹارنٹ ڈاونلوڈ چوری کے زمن میں آئے گا جو کہ ایک مسلمان کے قطعی شایان شان نہیں اور شرعا موجب گناہ ہے۔
پاکستان میں سیکولر اور لبرل طبقے کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ ہر انسانی مسئلے، پریشانی اور ناکامی کی بنیادیں مذہب سے جوڑنے پرمصر ہوتے ہیں اور اس کے لئے نت نئے اعتراضات تراشتے رہتے ہیں، نرگسیت کا بے معنی اعتراض بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ کیونکہ اس طبقے کی اپنی سوچ مغرب سے مستعار لی ہوئی ہوتی ہے، اسی لئے وہ علمی سرقے سے بھی گریز نہیں کرتے اور لی ہاورڈ ہاجزکے 2002 کے ‘دی ایرانین’ میں چھپنے والے مضمون ‘وکٹمالوجی’ میں میں تصرف کر کے کتابی شکل دے دیتے ہیں اور بیشتر پیراگراف من و عن ترجمے کر کے بغیر حوالے کے چھاپ دیتے ہیں۔ سرخے سے سرقے کا سفر شاید اتنا طویل نہیں۔ مزید تفصیل کے لیئے حوالہ جات ملاحظہ ہوں۔
بہرحال، یہ توہے ان لوگوں کے علمی دیوالیےپن کا حال ۔ مجھے غالب گمان ہے کہ اس نظریے کے حامی افراد ضرور کہیں گے کہ چلیں سرقہ ہی سہی، بات تو درست ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ لبرل تعصب کی پٹی ہٹا کر دیکھا جاے تو یہ باتیں علمی،عقلی و عملی بنیادوں پر بلکل پورا نہیں اترتیں۔ ہم مندرجہ زیل دس نکات میں یہ بات واضع کرتے چلیں گے۔
اولا – جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا تھا، درحقیقت اسلامی نرگسیت یا ‘مسلم  نارسسززم’ کی اصطلاح اسلام دشمن مستشرقین کی اختراع ہے، گوگل کی اس تکنیکی دنیا میں اس دعوی کی تصدیق کرنا کوئی مشکل نہیں، مسلم نارسسززم واوین ‘کوٹس’ میں لکھیں اور جو نتائج آئیں ان مضامین اور ان کے مصنفین کی جانبداری علمی پیرائے میں پرکھیں، آپ کو میرے ‘سازشی نظریات’ پر شائد یقین آجائے۔ اس اصطلاح کا استعمال اسلام دشمنی کے لئے تو نہیایت موزوں ہے، تجدد، خود تنقیدی اور بہتری کے لئے نہیں۔ نیز اس اصطلاح کا کریڈٹ بھی گمان  غالب ہے کہ لی ہاورڈ ہاجز ہی کو جائے گا، مبارک حیدر یا انکے حوارین کو نہیں۔
ثانیا – بقول مصنف نارسززم اپنے آپ کو، اپنے نظریات کو یا اپنے مذہب کو دیوانگی کی حد تک چاہنے کا نام ہے۔ مغرب میں مثل مشہور ہے کہ نرگسی فرد اپنے آپ سے اس قدر محبت کرتا ہے کہ اس کا بس نہیں چلتا کہ اپنی جنس تبدیل کرکے اپنے آپ ہی سے شادی کرلے۔ آج مصنف جس تہذیبی نرگسیت کو ام الخبایث قرار دے رہے ہیں، کیا وہ اس پیمانے پر پورا اترتی ہے؟ اسلامی تہذیب کی اساس توحید، رسالت، عبادت، پاکیزگی، تقوی،حسن سلوک، ایمانداری، اور اسوہ حسنہ پر عمل کرنے میں ہے۔ آج جن افراد کو آپ تہذیبی نرگسیت کا منبع قرار دینے پر مصر ہیں، کیا ان میں اسلامی تہذیبی رویوں کی کوئی ہلکی سی رمق بھی دکھائی دیتی ہے؟ اگر یہ حقیقتا اپنی تہذیب پر فخرواعزاز کا معاملہ ہوتا تویہ لوگ پہلےاپنی تہذیب کو اپناتے اور اس پر عمل کرتےنہ کہ اس کے قطعی مخالف اعمال کو اپنا وطیرہ بناتے۔
درحقیقت فکر و استنبطاط کی صلاحیتوں سے یکسر محروم مصنف اور انکی صنف کے لبرل تشدد پسند لوگ جابر و کرپٹ حکمرانوں، سماجی ومعاشرتی تفاوت سے پیدا ہونے والےرجحانات، نیو امپیریلزم اور بیرونی حملہ آوروں جیسے بڑے مسائل کے متشددانہ رد عمل کو فورا مذہب سے جوڑ دیتے ہیں کیونکہ شائد یہ آسان ترین شکار ہے۔نیز اگر کوئی مذہب کے نام پر تشدد کا درس دیتا ہے تو وہ وہ ایک قبیح فعل کر رہا ہے اور ہر مذہب اور معاشرے میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں، اس کے لئے پوری مسلم امہ کو مورد الزام لگانا کیا معنی رکھتا ہے۔ اسی طرح جرائم یا قانون شکنی کے باعث ہونے والے واقعات کو بھی تہذیبی نرگسیت کے کھاتے میں ڈالنا ان لبرل متشددین کا نیا حربہ ہے جس کی کوئی منطقی وجہ ہماری عقل سے بالاتر ٹھری۔
ثالثا – غیرت دین، اپنے نظریے، وطن اور آبا سے محبت انسان کی فطرت میں شامل ہے، اس کو نرگسیت قرار دینا نہایت بے اصل بات ہے۔ اگر مسلمان اپنے ماضی اور اپنی تہذیب پر فخر کرتے ہیں تو یہ کس قاعدے کی رو سے جرم ہے؟ مصنف مزید لکھتے ہیں
‘مسلمان کا ایمان اعلی، اخلاق اعلی، اس کی عبادت اعلی۔ اس کی دنیا داری اعلی۔ یہ دنیا اس کی، اگلا جہان بھی اس کا۔ باقی ساری دنیا جہنمی۔ باقی سارے انسان کفر اور جاہلیت پر رکے ہوے ‘ صفحہ 91
اپنے ایمان و ایقان پر اعلی و ارفعی ہونے کا گمان کرنا مصنف کے نزدیک نرگسیت کی علامت ہے جبکہ یہ بات مسلمان قران و حدیث کی تائید میں سمجھتے ہیں کہ ان کا ایمان اور انکا دین ہی واحد درست دین ہے (ان الدین عنداللہ السلام)۔ لبرلزم کی جس تحریک سے مصنف کا تعلق ہے اسکے نزدیک ایک کافر، ایک ہمجنس پرست، ایک بت پرست اور ایک موحد میں کوئی فرق نہیں۔ اگر ان سب کے دنیوی اعمال درست ہوں اور انہوں نے دنیا میں لوگوں کو نفع پہنچایا ہو یہ اس ‘خیالی’ جنت میں جانے کے برابر کے حقدار ہیں چاہے وہ اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے باغی ہی کیوں نا ہوں۔ ان نام نہاد جدت پسندوں کی سمجھ میں یہ سیدھی سی  بات نہیں آسکتی کہ اگر خالق کائنات پر ایمان رکھتے ہو تو جنت و دوزخ کے بارے میں اپنے گمان پر نا جاو بلکہ اللہ اور اسکے رسول کے فرمان کو درست جانو۔
“یقین جانو کہ کافروں کے لیے جوکچھ زمین میں ہے بلکہ اسی طرح اتنا ہی اوربھی ہو اور وہ اس سب کو قیامت کے دن عذاب کے بدلے فدیہ میں دینا چاہیں توبھی یہ ناممکن ہے کہ ان کا یہ فدیہ قبول کرلیا جاۓ ، ان کے لیے تو دردناک عذاب ہی ہے ۔ وہ چاہیں گہ وہ جہنم سے نکل بھاگیں لیکن وہ ہرگز اس میں نہیں نکل سکيں گے اوران کے لیے ہمیشگی والا عذاب ہوگا ” المائدۃ ( 36 – 37 )
اس ضمن میں میرا یہ ہرگز مقصد نہیں کہ مسلمانوں کو جنت کا کوئی ‘فری پاس’ مل گیا ہے بلکہ قران و‌حدیث کا مطالعہ رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ حقیقت اس سے بعید ہے۔ لیکن اگر مسلم امہ اپنی الہامی کتب کے مطابق اپنے عقیدہ توحید کی بنا پر اعمال کی بارگاہ الہیہ میں‌قبولیت  پر یقین رکھتی ہے تو اس سے لبرلزم کے ایوان کیوں لرزنے لگتے ہیں؟ کوئی باشعور مسلمان اس بات کو تسلیم نہیں کرے گا کہ بے گناہوں کی جان لینے والےایک خودکش حملہ آور کا ‘ایمان اعلی، اخلاق اعلی، اس کی عبادت اعلی۔ اس کی دنیا داری اعلی۔ یہ دنیا اس کی، اگلا جہان بھی اس کا’ ہے بلکہ وہ ببانگ دہل یہ کہے گا کہ ایک مسلمان ایسا فعل کر ہی نہیں سکتا کیونکہ یہ اسلامی تہذیب کے سراسر خلاف ہے۔ تہذیبی نرگسیت کا الزام لگانے والوں کو ایک مسلمان یہ ضرور یاد دلاے گا کہ اسلامی تہذیب کے اصول و مبادی ہمیں سکھاتے ہیں کہ ایک انسان کا قتل تمام انسانیت کا قتل اور ایک انسان کی جان بچانا تمام انسانیت کو بچانے کے مترادف ہے۔
اربعا – مصنف کے وضع کردہ اصول کی بنا پر کہ کسی تہذیب نے ساینسی و تخلیقی میدان میں سودو سو سال سے اگر کوئی سرگرمی نہ دکھائی ہو اسے ‘ترقی یافتہ’ تہذیب کا دین‌(طریقہ) اختیار کر لینا چاہئے، افریقہ کی تمام اقوام کو عرصہ دراز پہلے اپنے سفید فام حکمرانوں کی تہذیب و تمدن کا اپنا لینا لازم ٹھرا۔اپنی تہذیب اور شناخت پر فخر کرنا نرگسیت ٹہرا تودنیا کی ہر قوم اس ‘گروپ نارسسزم’ کا شکار قرار پائے گی۔ یہ مصنف کی خام خیالی ہے کہ یہ فطری رجحان ‘مردہ اقوام’ میں پایا جاتا ہے۔ اقوام عالم کی تاریخ اس فخروناز سے عبارت ہے۔
خامسا– یہ تمام کتاب ‘اینکڈوٹل ایوڈنسز’ یا واقعاتی شہادتوں سے بھرپور ہے جن کی کوئی علمی وتجرباتی اہمیت ہنیں۔ مثلا کسی مدرسے میں پڑھانے والے فرد کی کسی طالبعلم سےدست درازی کو ‘بلینکٹ اسٹیٹمنٹ’ بنا کر تمام علما، اساتذہ اور دینی مدارس کو رگیدنا ایک عام مثال ہے۔ مصنف کے مطابق چونکہ کچھ مفاد پرست لوگ غریب ملازمین کا استحصال کرتے ہیں اور اسوقت انہیں خدا یاد نہیں آتا، یہ تو یقینا اسلام و مسلمانوں کی مجموعی خامی ہے۔ اگر عرب ممالک اپنے مسلمان بھائیوں کو رہایش یا شہریت کا حق نہیں دیتے تو یہ مسلم اخوت کے نظریے کی خامی ہے (یہ نکتہ ہاورڈ ہاجز نے بھی بعینہ اٹھایا ہے) – اس طرح کی غیر حقیقت پسندانہ سوچ بڑی محرومی ہے اور کوئی باشعور مسلمان ان باتوں پراسلامی تہذیب کو مورد الزام نہیں ٹہرا سکتا۔
ستتہ– آحادیث مبارکہ کی روشنی میں یہ بات واضع ہے کہ مسلمان ایک جسد کی طرح ہیں‌ جس کا ایک عضو تکلیف میں ہو تو دوسرا اس درد کو محسوس کرتا ہے۔ یہ امت مسلمہ کا خاصہ ہے کہ چین و عرب سے لیکر افریقہ اور جزائر پولینیشیا تک کے مسلمان ایک امت واحد کی لڑی میں پروے ہوے ہیں۔ جس نرگسیت کی طرف مبارک حیدر صاحب کا اشارہ ہے اور جو فکر ان کی سیکیولر ذہنیت میں کھٹکتی ہے وہ ملت بیضا کی اجتماعیت کا تصور ہے۔ انکی مرعوبانہ سوچ اس بات کا ادراک نہیں رکھتی کہ مسلمانوں کا عروج و زوال مادی ترقی سے نہیں بلکہ اسلام کے اصولوں پر عمل کرنے سے وابستہ ہے۔ اپنا قبلہ لندن و واشنگٹن کو بنانے اور حرم سے رشتہ کاٹنے کے بجاے ہمیں حکم ہے کہ ‘ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے، اس لیے بھیجا ہے کہ کہ حکم الہیٰ کے مطابق اس کی اطاعت کی جائے’  النسا۔ لیکن حیدر صاحب تو حج و عمرہ کو ‘ایک منافع بخش کاروبار’ اور نماز کو ‘میکانیکی حرکات’ سے کچھ زیادہ گرداننے سے سخت گریزاں ہیں۔
سبعہ۔ یہ فتنہ نرگسیت اور اس کے حوارین غلبہ اسلام کی اہمیت اور اقامت دین کی فرضیت پر اعتراض کرتے ہوئے اسے ایک من گھڑت بات قرار دیتے ہیں ۔ اس زمن میں مصنف نے ‘غلبہ اسلام کےمفروضے’ کے تحت ایک مستقل باب باندھا ہے؛ قران و حدیث کا بنیادی علم رکھنے والا ہر فرد یہ بات جانتا ہے کہ یہ بات نصوص قطعیہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے متواتر فعل سے ثابت ہے کہ اللہ کے نظام کے نفاذ کے لئے دامے درمے سخنے جدوجہد کرنا مسلمان پر لازم ہے۔
وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلّهِ فَإِنِ انتَهَوْاْ فَإِنَّ اللّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
اور (اے اہلِ حق!) تم ان (کفر و طاغوت کے سرغنوں) کے ساتھ جنگ کرتے رہو، یہاں تک کہ کوئی فتنہ (باقی) نہ رہ جائے اور سب دین (یعنی نظامِ بندگی و زندگی) اللہ ہی کا ہو جائے، پھر اگر وہ باز آجائیں تو بیشک اللہ اس (عمل) کو جو وہ انجام دے رہے ہیں، خوب دیکھ رہا ہے 08:39
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
عن ابن عمر رضي الله عنهما ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال أمرت أن أقاتل الناس ، حتى يشهدوا أن لا إله إلا الله ، وأن محمدا رسول الله ، ويقيموا الصلاة ، ويؤتوا الزكاة ، فإذا فعلوا ذلك عصموا مني دماءهم وأموالهم إلا بحق الإسلام ، وحسابهم على الله تعالى )  رواه البخاري و مسلم .
مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں نے لوگوں سے لڑتا رہوں یہاں تک کہ وہ اس بات کی شہادت دیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول اللہ ہیں اورنماز قائم کریں اور زکوة ادا کریں جب وہ یہ کام کریں تو انہوں نے مجھ سے اپنے خون اور مال محفوظ کر لئے مگر اسلام کے حق کے ساتھ ان کا حساب اللہ کے ذمے ہے ۔ (بخاری و مسلم )
مصنف خود عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کی شرائط ثلاثہ (اسلام، جزیہ یا جنگ) کو نقل کرتے ہیں لیکن مغربی سوچ سے مرعوبیت کا یہ عالم ہے کہ وہ اسکو اسلامی سلطنت کے پھیلاو کا انسانی نا کہ الہامی رجہان قرار دینے میں دیر نہیں لگاتے جو کہ سراسر ایک بے بنیاد الزام ہے۔ مصنف کو قران کا یہ واضع حکم شائد نظر نہیں آتا کہ
قَاتِلُواْ الَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَلاَ بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلاَ يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَلاَ يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ حَتَّى يُعْطُواْ الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ
(اے مسلمانو!) تم اہلِ کتاب میں سے ان لوگوں کے ساتھ (بھی) جنگ کرو جو نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں نہ یومِ آخرت پر اور نہ ان چیزوں کو حرام جانتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حرام قرار دیا ہے اور نہ ہی دینِ حق (یعنی اسلام) اختیار کرتے ہیں، یہاں تک کہ وہ (حکمِ اسلام کے سامنے) تابع و مغلوب ہو کر اپنے ہاتھ سے خراج ادا کریں۔ 9:29
ثمانیہ – جہاد فی سبیل اللہ کی مختلف اقسام میں دفاعی جنگ، قصاص، مظلوموں کی مدد، معاہدہ توڑنے کی سزا کے لئے لڑنا شامل ہیں لیکن ہر بار اس بات کی تاکید کر دی گئی ہے کہ مسلمان حدود اللہ کو پایمال نا کریں۔
وَقَاتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ
اور ﷲ کی راہ میں ان سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں (ہاں) مگر حد سے نہ بڑھو، بیشک ﷲ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا 2:190
ان واضع قرانی احکامات و آحادیث کے ہوتے ہوئے غلبہ اسلام کے لئے جدوجہد کی فرضیت کو ایک من گھڑت بات وہی کہ سکتا ہے جس کے دل میں نا خوف خدا ہو اور نا عقلی و نقلی دلائل کا کوئی لحاظ۔۔
تسعتہ- تہذیبی نرگسیت سے اگر آپ کی مراد ‘وے آف لایف’ کو بحال رکھنے کی جدوجہد ہے تو یہ تو رحمانی اور شیطانی تہذیبوں کی جنگ ہے جو کہ روز ازل سے جاری ہے اور یوم الدین تک جاری رہے گی۔ ہر تہذیب اپنے وے آف لایف کو برقرار رکھنا چاھتی ہے۔ سابق امریکی صدر بش کا یہ کہنا تھا کہ ‘یہ لوگ ہمارے طریق زندگی، آزادی اور جمہوریت سے نفرت کرتے ہیں’ ، ہر قوم کی طرح امریکی قوم کو بھی اپنے طریق زندگی اور تہذیب سے محبت کرنے اور اس کی بقا کے لئے جان لڑا دینے کا پورا حق ہے۔ مبارک حیدر صاحب کو چاہیے تھا کہ وہ کہتے کہ یہ نرگسیت آپ کو نقصان پہنچا رہی ہے، اسے تبدیل کرنے میں عافیت ہے، لیکن انہوں نے یہ طے کر رکھا ہے کہ سمجھوتا ہمیں نے کرنا ہے۔ لارا انگرم تو لباس کی قید سے آزادی کو اپنا وے آف لایف سمجھ کر اسکا دفاع کرے لیکن اگر ہم پردے کے بارے میں کچھ کہیں تو وہ نرگسیت کہلاے۔ فرانس آزادی رائے کا نام نہاد علمبردار حجاب پر پابندی لگانے میں حق بجانب ٹھرے لیکن اگر ہمارے لوگ شرعی سزاوں کے نفاذ پر زبان کھولیں تو اسے انتہا پسندی اور بربریت کا نام دیا جاے۔ جو نام نہاد نرگسیت ہمارے لئے ذہر قاتل ہے، یوروپ کے لئے اکثیر۔ سبحان اللہ۔
اربعہ۔ مذہب بیزار لوگ جو دین و دنیا کو علیحدہ علیحدہ کرنے کے لئے عرصہ دراز سے سرگرم ہیں‌، ان کی یہ نئی تحریکِ نرگسیت اس بات کے لئے صرف ایک بہانہ ہے کہ مسلمانوں کے مسائل کا منبع ان کی دینی حمیت اور وابستگی کو قرار دیا جائے۔ بے شک امت مسلمہ میں بگاڑ موجود ہے اور من الحیث القوم ہم بے شماربیماریوں کا شکار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تعداد کی اکثریت کے باوجود سمندر کے جھاگ کی مانند ہماری کوئی اہمیت نہیں۔ لیکن اپنے دین سے محبت اور اسلامی تہذیب سے لگاو ان مسائل کی جڑ نہیں بلکہ اس سے نکلنے کا آخری ذریعہ ہے۔ بے شک مسلمانوں کو اپنے مسائل قران و سنت کی روشنی میں حل کرنے اور اپنی ترجیحات متعین کرنےکی ضرورت ہے۔ اسلامی ممالک میں ظالم نا اہل حکمرانوں سے نجات، کرپشن کا خاتمہ،جہالت سے جنگ اور تعلیم کا فروغ،  عصری علوم و فنون، فلسفہ، آرٹ و دیگر علوم کی ترویج اسلامی تہذیب کا حصہ ہیں، اس سے متصادم نہیں۔
یہ (منکرینِ حق) چاہتے ہیں کہ وہ اللہ کے نور کو اپنے منہ (کی پھونکوں) سے بجھا دیں، جبکہ اللہ اپنے نور کو پورا فرمانے والا ہے اگرچہ کافر کتنا ہی ناپسند کریں 61 – الصَّفّ
اللہ سبحان تعالی ہمیں دور جدید کے ان فتنوں سے بچائے۔ آمین

حوالہ جات۔

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password