تہذیبی نرگسیت -ایک تہذیبی مرعوب کی سرگذشت کا اصولی جواب – حصہ دوئم

2

گزشتہ حصہ میں ہم نے’تہذیبی نرگسیت’  کے بنیادی تضادات اور نصوص قطعیہ پر اس کے اعترضات پراجمالی روشنی ڈالی تھی ۔ اس قسط میں اس قسط  میں ہماری کوشش یہ ہوگی کہ معروضی شکل میں اس کتاب کے اہم نکات کو بھی بیان کردیں۔اس ‘فتنہ نرگسیت’ کی بنیادی اغلاط کا احاطہ ان پانچ نکات سے کیا جاسکتا ہے۔ راقم کا اس کتاب کے چیدہ چیدہ نکات نکال کر سیاق و سباق کے بغیر نقل کر کہ اس کی تضحیک کرنا مقصد نہیں لہذا اپنی تشفی کے لئے کتاب کا ملاحظہ ضرور کریں۔

  1. اسلام مکمل ضابطہ حیات نہیں ہے – ‘ایک بنیادی دعوی جس پر کئی دوسرے دعووں کے محل تعمیر کئے گئے ہیں، یہ ہے کہ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہےحالانکہ قران اور حدیث نے ایسا کوئی دعوی نہیں کیا ہے۔ یہ دعوی تہذیبی فخر کاے لئے قائم کئے گئے مفروضوں میں سے ہے۔۔۔’ صفحہ 96۔
  2. “قران نے نظام مملکت پر کوئی ضابطہ نہیں دیا جو بے حد اہم موضوع ہے۔” صفحہ 97
  3. ‘دوسرا بڑا مفروضہ جس پر تہذیبی نرگسیت کی بنیاد ہے، یہ ہے کہ اسلام کو ہر دوسرے دین پر غالب کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ قران و حدیث میں اس مفروضہ کی بھی کوئی بنیاد نہیں’ صفحہ 100
  4. نصوص میں تبدیلی کی اجازت:’۔۔۔عملا اسلامی معاشرہ شدید دباو اور دو دلی کا شکار ہے- جس کے باعث ریا کاری زوروں پر ہے۔ ۔ ایک طرف اسلامی قوانین اور اعتقاد ہیں جن میں‌علما کہ بقول کسی تبدیلی یا ترمیم کی گنجایش نہیں مثلا قتل، زنا، چوری اور دیگر فوجداری جرائم اور غلام لونڈی کی اجازت۔’ صفحہ 65
  5. وحدت ادیان اور تہذیبوں کے ملاپ کا فلسفہ ‘حکمت اور پارسائی کا دعوی اگر تھوڑی دیر کے لئے چھوٹ دیا چاے تو لگے گا کہ یہ ترانہ سننے یا گانے سے کسی تہذیب یا دین کا تختی نہیں الٹ جاتا’ ص 86
  6. ‘انسان کو روح کی کتنی غذا چاھئے؟ یعنی اگر عبادت ہی روح کی خوراک ہے تو کتنی عبادت؟ اسلام کے مطابق دن میں پانچ مرتبہ ایک مقررہ معمول کے مطابق عبادت اور رمضان میں اس سے کچھ اور زیادہ؟ ۔۔لیکن مسیحت میں ہفتہ وار اور ہندوں میں دن میں ایک بار دیوی دیوتا کے آگے حاضری یا پرنام روح کو تروتازہ کر دیتا ہے ص 114 ۔
  7. “مذہب پر عمل کرنا اگر روحانیت ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کہ چاروں مستعد مذاہب کے عقائد اور عملیات میں اتنی شدید تفاوت کے کیا معنی ہیں؟۔۔۔ص 118

اگر قاری نےقران و حدیث کا سمجھ کر مطالعہ کیا ہو تو یہ تمام مفروضات آن واحد میں باطل نظرآتے ہیں ۔ راقم انشااللہ ان باطل عقائد و اعتراضات کا مرحلہ وار جواب دینے کی سعی کرئے گا
ہم پہلے نقطہ اعتراض پر بات کریں گے جس کے بارے میں صاحب کتاب کا کہنا ہے کہ ۔
اسلام مکمل ضابطہ حیات نہیں ہے – ‘ایک بنیادی دعوی جس پر کئی دوسرے دعووں کے محل تعمیر کئے گئے ہیں، یہ ہے کہ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہےحالانکہ قران اور حدیث نے ایسا کوئی دعوی نہیں کیا ہے۔ یہ دعوی تہذیبی فخرکے لئے قائم کئے گئے مفروضوں میں سے ہے۔۔۔’ صفحہ 96۔
نیز مزید  آپ کہتے ہیں کہ ‘مسلمانوں کو بھی یہ حق حاصل تھا کہ فاتح تہذیب کی حیثیت سے اپنے نظریہ حیات کو مکمل ضابطہ حیات کہتے – لیکن یہ سب زراعتی معاشروں کے دور تک ممکن تھا’صفحہ 96۔
یہ باتیں ایسے دیوانے کی بڑ سے زیادہ نہیں کہ جو اسلام کا مارٹن لوتھر کنگ بننا چاھتا ہو لیکن اسے اسلام کی بنیادی اصطلاحات سے کوئی غرض نہ ہو۔
اسلام دین اور مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اس بات میں قران مجید کی تصریحات بالکل صاف ہیں۔ مکمل ضابطہ حیات ہونے کا دعوی کرنے والا ہی یہ بات کہ سکتا ہے کہ جب کسی معاملہ میں خدا اور رسول کا حکم آجائے تو مومنوں کو ماننے یا نہ ماننے کا اختیار باقی نہیں رہتا۔
ترجمہ: کسی مومن مرد اور عورت کو یہ حق نہیں کہ جب کسی معاملہ میں اللہ اور اس کا رسول فیصلہ کردے تو ان کے لیے اپنے اس معاملہ میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار باقی رہے۔ جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی وہ کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہوگیا (الاحزاب 36)
ایک ایسا دین ہی جو مکمل ضابطہ حیات ہونے کا مدعی ہو کہتا ہے کہ فیصلہ صرف کتاب الہیٰ کے مطابق ہونا چاہیئے۔ خواہ وہاں لوگوں کی خواہشات کے مطابق ہو یا نہ ہو۔
ترجمہ: تو ان کے درمیان اسی کتاب کے مطابق فیصلہ کر جو اللہ نے اتاری ہے اور جو حق تیرے پاس اللہ کی طرف سے آیا ہے اس کو چھوڑ کر ان کی خواہشات کی پیروی نہ کر۔ (المائدہ 56)
اور وہی دین‌ کہتا ہے کہ کتاب اللہ میں سے کچھ کو ماننا اور کچھ کو رد کردینا۔ دنیا اور آخرت میں رسوا کن ہے۔
ترجمہ: کیا تم کتاب کی بعض باتوں کو مانتے ہو اور بعض کو نہیں مانتے؟ تم میں سے جو کوئی ایسا کرتا ہے اس کی سزا بجزا اس کے اور کچھ نہیں ہے کہ دنیا کی زندگی میں اس کے رسوائی ہو اور آخرت میں ایسے لوگ شدید ترین عذاب کی طرف پھیردئیے جائیں گے۔ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے غافل نہیں ہے۔ (البقرہ 85)
مزید براں فرمایا کہ
وہ کہتا ہے کہ اے ایمان لانے والو‘ اللہ اور اس کے رسول اور اپنے اولی الامر کی اطاعت کرو اور اگر تم حقیقت میں اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو تو جس کسی معاملہ میں تمہارے درمیان نزاع پیدا ہو، اس کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرو۔ یہی بہتر طریقہ ہے اور انجام کے اعتبارسے بھی یہی اچھا ہے۔ کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ایمان لائے ہیں اس کتاب پر جو تیری جانب بھیجی گئی ہے اور ان کتابوں پر جو تجھ سے پہلے بھیجی گئی تھیں مگر چاہتے ہیں کہ خدا کے نافرمان انسان کو اپنے معاملہ میں حکم بنائیں حالاں کہ انہیں اس کے چھوڑدینے کا حکم دیا گیا ہے اور شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ انہیں بھٹکا کر راہ راست سے دور ہٹالے جائے۔ جب کبھی ان سے کہا گیا کہ آﺅ اس کتاب کی طرف جو اللہ نے ا تاری ہے اور آﺅ رسول کی طرف تو تو نے منافقین کو دیکھا کہ وہ تجھ سے کنی کاٹا جاتے ہیں…. ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے، اس لیے بھیجا ہے کہ کہ حکم الہیٰ کے مطابق اس کی اطاعت کی جائے…. نہیں! تیرے پردوردگار کی قسم وہ ہرگز بھی کافی نہیں ہے۔ ضروری ہے کہ جو فیصلہ تو کرے اس پر وہ اپنے دل میں کسی قسم کی تنگی بھی محسوس نہ کریں اور بے چون و چرا اس کےآگے سرجھکادیں۔“ (النساء۸‘۹)
اب کوئی یہ کہے کہ ان تمام منقولات سے کتاب کی اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذندگی میں تو ثابت ہوتی ہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد نہیں تو پھر اس فرد کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے کہ اس نے اسلام کی آفاقیت اور ہمیشگی کی دلیل نہیں دیکھی۔۱:… ”الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا۔“ (المائدہ:۳)
ترجمہ:… ”آج کے دن میں نے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر نعمت تمام کردی اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کیا۔“۲:… ”و من یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ‘ و ھو فی الآخرة من الخاسرین۔“ (آل عمران:۸۵)
ترجمہ:… ”اور جو شخص اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین و مذہب کو اپنائے گا‘ اللہ کے ہاں اسے قبولیت نصیب نہیں ہوگی اور وہ آخرت میں خسارہ میں ہوگا۔“یہ فکر کہ اسلام مکمل ضابطہ حیات نہیں صرف مبارک حیدر صاحب پر ہی منتج نہیں بلکہ دیگر تجدد پسند مرعوبیت اور لبرل نرگسیت کے علمبرداروں میں‌بھی یہ رواج عام ہے۔ مثلا اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر خالد مسعودفرماتے ہیں کہ اسلام مکمل ضابطہ حیات نہیں ہے یہ مولانا مودودی کی فکر تھی‘ اسلام صرف مکمل دین ہے اسے مکمل ضابطہ حیات کہنا درست نہیں اس کے معنی دوسرے ہیں‘ (روز نامہ نوائے وقت کراچی، ۷ /نومبر ۲۰۰۷ء ص:۸)
تو اگراسلام مکمل ضابطہٴ حیات نہیں ہے تو وہ مکمل دین کیونکر ہوسکتا ہے؟ اسلئے کہ خود اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:
”ان الدین عنداللہ الاسلام“ (آلِ عمران: ۱۹)
بے شک دین اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسلام ہے
اگر اسلام دین مکمل نہیں تو پھر ناقص ٹھرا کہ اسے اپنے نفاذ کے لئے کسی اور دین یا نظریہ حیات کا سہارا لینا پڑے گا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ دین مغرب، دین پادشاہی یا دین الحاد یا کوئی بھی اور نظام اس بات کی اجازت دے کہ اسلام کو مکمل طور پراختیار کیا جاے؟ اس سے بڑا سوال یہ اٹھتا ہے کہ دین و مذہب، اپنے ماننے والوں کو مکمل ضابطہٴ حیات فراہم نہ کرتا ہو وہ قابلِ تقلید اور لائقِ اقتداء ہے؟  بالفرض اگر اسلام مکمل ضابطہٴ حیات نہیں تھا تو کیا یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرض نہ تھا کہ وہ اپنی امت کو بتلاتے کہ اسلام میں فلاں فلاں جگہ نقص اور کمی ہے، اور اس کی تکمیل کے لئے فلاں فلاں دین و مذہب اور قانون و دستور سے مدد لی جائے؟ مگر دنیائے اسلام جانتی ہے کہ آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی کسی قسم کی کوئی نشاندہی نہیں فرمائی، تو کیا کہا جائے کہ …نعوذباللہ… آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے ساتھ خیانت کی ہے؟ کیا ایسا کہنا سمجھنا یا سوچنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت و نبوت کے انکار کے مترادف نہیں؟
(‬۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, ذوالحجہ۱۴۲۸ھ جنوری۲۰۰۸ء, جلد 70, شمارہ

اس حصہ کا اختتام سید مودودی کے مندرجہ زیل اقتباس سے کرتا ہوں جو کہ اس ‘فتنہ نرگسیت’ کے تجدد پر اتمام حجت کرتا ہے اور راقم کو ‘ری انونٹنگ دی وہیل’ کی حاجت نہیں ۔انشااللہ اگلے حصہ میں غلبہ اسلام کے متعلق اٹھا ئے گئے سوالات پر گفتگو کی جائے گی۔

ہمارے روشن خیال اور تجدد پسند” حضرات جب کسی مسئلہ پر گفتگو فرماتے ہیں تو ان کی آخری حجت جو ان کے نزدیک سب سے قوی حجت ہوتی ہے یہ ہوتی ہے کہ زمانے کا رنگ یہی ہے۔ ہوا کا رخ اسی طرف ہے۔ دنیا میں ایسا ہی ہورہا ہے۔ پھر ہم اس کی مخالفت کیسے کرسکتے ہیں۔ اور مخالفت کرکے زندہ کیسے رہ سکتے ہیں۔ اخلاق کا سوال ہو ۔ وہ کہیں گے کہ دنیا کا معیار اخلاق بدل چکا ہے۔ مطلب یہ نکلا کہ مسلمان اس پرانے معیار اخلاق پر کیسے قائم رہیں؟ پردے پر بحث ہو ارشاد ہوگاکہ دنیا سے پردہ اٹھ چکا ہے۔ مراد یہ ہوئی کہ جو چیز دنیا سے اٹھ چکی اس کو مسلمان کیسے نہ اٹھائیں۔ تعلیم پر گفتگو ہو۔ ان کی آخری دلیل یہ ہوگی کہ دنیا میں اسلامی تعلیم کی مانگ ہی نہیں۔ مدعا یہ کھلا کہ مسلمان بچے وہ جنس بن کر کیسے نکلیں جس کی مانگ ہی نہیں۔ اور وہ مال کیوں نہ بنیں جس کی مانگ ہے۔ سود پر تقریر ہو۔ ٹیپ کا بند یہ ہوگا کہ اب دنیا کاکام اس کے بغیر نہیں چل سکتا۔ گویا مسلمان کسی ایسی چیز سے احتراز کیسے کرسکتے ہیں جو اب دنیا کا کام چلانے کے لیے ضروری ہوگئی ہے۔ غرض یہ کہ تمدن‘ معاشرت‘ اخلاق‘ تعلیم‘ معیشت‘ قانون‘ سیاست اور زندگی کے دوسرے شعبوںمیں سی جس شعبے میں بھی وہ اصول اسلام سے ہٹ کر فرنگیت کا اتباع کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے زمانے کا رنگ اور ہوا کا رخ اور دنیا کی رفتار وہ آخری حجت ہوتی ہے جو اس تقلید مغربی یا درحقیقت اس جزوی ارتداد کے جوار پر برہان قاطع سمجھ کر پیش کی جاتی ہے۔ اور خیال کیا جاتا ہے کہ عمارت اسلامی کے اجزاءمیں سے ہر اس جز کوساقط کردینا فرض ہے جس پر اس دلیل سے حملہ کیا جائے۔
ہم کہتے ہیں کہ شکست وریخت کی یہ تجویزیں جن کو متفرق طور پر پیش کرتے ہو‘ ان سب کو ملا کر ایک جامع تجویز کیوں نہیں بنالیتے؟ مکان کی ایک ایک دیوار‘ ایک ایک کمرہ اور ایک ایک دالان کو گرانے کی علیحدہ علیحدہ تجویزیں پیش کریں‘ اور ہر ایک پر فرداً فرداً بحث کرنے میں فضول وقت ضائع ہوتا ہے۔ کیوں نہیں کہتے کہ یہ پورا مکان گرا دینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اس کا رنگ زمانے کے رنگ سے مختلف ہے۔ اس کا رخ ہوا کے رخ سے پھرا ہوا ہے اور اس کی وضع ان مکانوں سے کسی طرح نہیں ملتی جواب دنیا میں بن رہے ہیں۔
جن لوگوں کے حقیقی خیالات یہی ہیں ان سے تو بحث کرنا فضول ہے۔ ان کی لیے تو صاف اور سیدھا جواب یہی ہے کہ اس مکان کو گرانے او راس کی جگہ دوسرا مکان بنانے کی آپ زحمت کیوں اٹھاتے ہیں؟ جو دوسرا خوش وضع‘ خوشنما اور خوش رنگ مکان آپ کو پسند آئے اس میں تشریف لے جائیے۔ اگر دریا کے دھارے پر بہنے کا شوق ہے تو اس کشتی کا لیبل کھرچنے کی تکلیف بھی کیوں اٹھائیے۔ جو کشتیاں پہلے سے بہہ رہی ہیں انہی میں سے کسی میں نقل مقام فرما لیجئے جو لوگ اپنے خیالات اپنے اخلاق‘ اپنی معاشرت‘ اپنی معیشت‘ اپنی تعلیم‘ غرض اپنی کسی چیز میں بھی مسلمان نہیں ہیں اور مسلمان رہنا نہیں چاہتی ان کے برائے نام مسلمان رہنے سے اسلام کا قطعاً کوئی فائدہ نہیں بلکہ سراسر نقصان ہے۔ وہ خدا پرست نہیں‘ ہوا پرست ہیں‘ اگر دنیا میں بت پرستی کا غلبہ ہوجائے تو یقیناً وہ بتوں کو پوجیں گے اگر دنیا میں برہنگی کا رواج عام ہوجائے تو یقیناً وہ اپنے کپڑے اتار پھینکیں گے۔ اگر دنیا نجاستیں کھانے لگے تویقیناً وہ کہیں گے کہ نجاست ہی پاکیزگی ہے اور پاکیزگی تو سراسر نجاست ہے۔ ان کے دل اور دماغ غلام ہیں اور غلامی ہی کے لیے گھڑے گئے ہیں۔ آج فرنگیت کا غلبہ ہے اس لیے اپنے باطن سے لے کر ظاہر کے ایک ایک گوشے تک وہ فرنگی بننا چاہتے ہیں۔ کل اگر حبشیوں کا غلبہ ہوجائے تو یقیناً وہ حبشی بنیں گے۔ اپنے چہروں پر سیاہیاں پھیریں گے۔ اپنے ہونٹ موٹے کریں گے۔ اپنے بالوں میں حبشیوں کے سے گھونگھر پیدا کریں گے۔ ہر اس شے کی پوجا کرنے لگیں گے۔ جو حبش سے ان کو پہنچے گی۔ ایسے غلاموں کی اسلام کو قطعاً ضرورت نہیں۔ بخدا اگرکروڑوں کی مردم شماری میں سے ان سب منافقوں اور غلام فطرت لوگوں کے نام کٹ جائیں اور دنیا میں صرف چند ہزار وہ مسلمان رہ جائیں جن کی تعریف یہ ہو کہ یُّحِبُّہُمْ وَیُحِبُّوۡنَہٗۤ ۙ اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیۡنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیۡنَ ۫ یُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ وَلَا یَخَافُوۡنَ لَوْمَۃَ لَآئِمٍ (المائدہ , 54)تو اسلام اب سے بدرجہا زیادہ طاقتور ہوگا اور ان کروڑوں کا نکل جانا اس کے حق میں ایسا ہوگا جیسے کسی مریض کے جسم سے پیپ اور کچ لہو نکل جائے۔
نَخْشٰۤی اَنۡ تُصِیۡبَنَا دَآئِرَۃٌ ؕ (المائدہ , 52)
ہم کو خوف ہے کہ ہم مصیبت آجائے گی۔
یہ آج کوئی نئی آواز نہیں بہت پرانی آواز ہے۔ جو منافقوں کی زبان سے بلند ہوتی رہی ہے۔ یہی آواز نفاق کی اس بیماری کا پتہ دیتی ہے جو دلوں میں چھپی ہوئی ہے۔ اسی آواز کو بلند کرنے والے ہمیشہ مخالفین اسلام کے کیمپ کی طرف لپکتے رہے ہیں۔ ہمیشہ سے انہوں نے اللہ کی قائم کی ہوئی حدوں کو پاﺅں کی بیڑیاں اور گلے کا طوق ہی سمجھا ہے۔ ہمیشہ سے ان کو احکام خدا و رسول کا اتباع گراں ہی گزرتا ہے۔ اطاعت میں جان ومال کا ضیاع اور نافرمانی میں حیات دنیا کی ساری کامرانیاں ہمیشہ سے ان کو نظر آتی رہی ہیں۔ پس ان کی خاطر خدا کی شریعت کو نہ ابتداءمیں بدلا گیا تھا‘ نہ اب بدلا جاسکتا ہے اور نہ کبھی بدلا جائے گا۔ یہ شریعت بزدلوں اور نامردوں کے لیے نہیں اتری ہے۔ نفس کے بندوں اور دنیا کے غلاموں کے لیے نہیں اتری ہے۔ ہوا کے رخ پر اڑنے والے خش و خاشاک‘ اور پانی کے بہاﺅ پر بہنے والے حشرات الارض اور ہر رنگ میں رنگ جانے والے بے رنگوں کے لیے نہیں اتری ہے۔ یہ ان بہادر شیروں کے لیے اتری ہے جو ہوا کا رخ بدل دینے کا عزم رکھتے ہیں۔ جو دریاﺅں کی روانی سے لڑنے اور اس کے بہاﺅ کو پھیر دینے کی ہمت رکھتے ہیں۔ جو صبغتہ اللہ کو دنیا کے ہر رنگ سے زیادہ محبوب رکھتے ہوں اور اسی رنگ میں تمام دنیا کو رنگ دینے کا حق رکھتے ہوں۔ مسلمان جس کا نام ہے وہ دریا کے بہاﺅ پر بہنے کے لیے پیدا ہی نہیں کیا گیا ہے۔ اس کی آفرینیشن کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ زندگی کے دریا کو اس پر رواں کردے جو اس کے ایمان و اعتقاد میں راہ راست ہے۔ صراط مستقیم ہے۔ اگر دریا نے اپنا رخ اس راستہ سے پھیر دیا تو اسلام کے دعوے میں وہ شخص جھوٹا ہے۔ جو اس بدلے ہوئے رخ پر بہنے ک لیے راضی ہوجائے۔ حقیقت میں جو سچا مسلمان ہے وہ اس غلط رو دریا کی رفتار سے لڑے گا۔ اس کا رخ پھیرنے کی کوشش میں اپنی پوری قوت صرف کردے گا۔ کامیابی اور ناکامی کی اس کو قطعاً پرواہ نہ ہوگی۔ وہ ہر اس شخص کو گوارا کرلے گا جو اس لڑائی میں پہنچے یا پہنچ سکتا ہو۔ حتیٰ کہ اگر دریا کی روانی سے لڑتے لڑتے اس کے بازو ٹوٹ جائیں۔ اس کے جوڑ بند ڈھیلے ہوجائیں اور پانی کی موجیں اس کو نیم جان کرکے کسی کنارے پر پھینک دیں تب بھی اس کی روح ہر گز شکست نہ کھائے گی۔ ایک لمحہ کے لیے بھی اس کے دل میں اپنی اس ظاہری نامرادی پر افسوس یا دریا کی رو پر بہنے والے کافروں یا منافقوں کی کامرانیوں پر رشک کا جذبہ راہ نہ پائے گا۔
قرآن تمہارے سامنے ہے۔ انبیاءعلیہم السلام کی سیرتیں تمہارے سامنے ہیں ۔ ابتداءسے لے کر آج تک علمبرداران اسلام کی زندگی تمہارے سامنے ہیں۔ کیا ان سب سے تم کو یہی تعلیم ملتی ہے کہ ہوا جد ھر اڑائے ادھر اڑ جاﺅ؟ پانی جدھر بہائے ادھر بہہ جاﺅ؟ زمانہ جو رنگ اختیار کرے اسی رنگ میں رنگ جاﺅ؟ اگر مدعا یہی ہوتا تو کسی کتاب کے نزول اور کسی نبی کی بعث کی ضرورت ہی کیا تھی۔ ہوا کی موجیں تمہاری ہدایت کے لیے اور حیات دنیاکا بہاﺅ تمہاری رہنمائی کے لیے اور زمانے کی نیرنگیاں تمہیں گرگٹ کی روش سکھانے کے لیے کافی تھیں۔ خدا نے کوئی کتاب ایسی ناپاک تعلیم دینے کے لیے نہیں بھیجی اور نہ اس غرض کے لیے کوئی نبی مبعوث کیا۔ ذات حق کی طرف سے تو جو پیغام آیا ہے۔ اس لیے آیا ہے کہ دنیا جن غلط راستوں پر چل رہی ہے ان سب کو چھوڑ کر ایک سیدھا راستہ مقرر کرے۔ اس کے خلاف جتنے راستے ہوں ان کو مٹائے اور دنیا کو ان سے ہٹانے کی کوشش کرے‘ ایمانداروں کی ایک جماعت بنائے جو نہ صرف خود اس سیدھے راستے پر چلیں بلکہ دنیا کو بھی اس کی طرف کھینچ لانے کی کوشش کریں۔ انبیاءعلیہم السلام اور ان کے متبعین نے ہمیشہ اسی غرض سے جہاد کیا ہے۔ اس جہاد میں اذیتیں اٹھائی ہیں۔ نقصان برداشت کیے ہیں۔ اور جانیں دی ہیں۔ ان میں سے کسی نے مصائب کے خوف یا منافع کے لالچ سے رفتار زمانہ کو کبھی اپنا مقتدا نہیں بنایا۔ اب اگر کوئی شخص یا کوئی گروہ ہدایت آسمان کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنے میں نقصان اور مشکلات اور خطرات دیکھتا ہے اور ان سے خوفزدہ ہوکر کسی ایسے راستے پر جانا چاہتا ہے جس پر چلنے والے اس کو خوشحال‘ کامیاب اور سربلند نظر آتے ہیں تو وہ شوق سے اپنے پسندیدہ راستے پر جائے۔ مگر وہ بزدل اور حریص انسان اپنے نفس کو دنیا کو یہ دھوکہ دینے کی کوشش کیوں کرتا ہے کہ وہ خدا کی کتاب اوراس کے نبی کے  بتائے ہوئے طریقے کو چھوڑ کر بھی اس کا پیرو ہے؟ نافرمانی خود ایک بڑا جرم ہے۔ اس پرجھوٹ اور فریب اور منافقت کا اضافہ کرکے آخر کیا فائدہ اٹھانا مقصود ہے۔؟
یہ خیال  کہ زندگی کا دریا جس رخ پربہہ گیا اس سے وہ پھیرا نہیں جاسکتا عقلاً بھی غلط ہے اور تجربہ ومشاہدہ بھی اس کے خلاف گواہی دیتا ہے۔ دنیا میں ایک نہیں سینکڑوں انقلاب ہوئے ہیں اور ہر انقلاب نے اس دریا کے رخ کو بدلا ہے۔ اس کی سب سے زیادہ نمایاں خود اسلام ہی میں موجود ہے۔ محمد جب دنیا میں تشریف لائے تو زندگی کا دریا کس رخ پر بہہ رہا تھا؟ کیا تمام دنیا پر کفرو شرک کا غلبہ نہ تھا؟ کیا استبداد اور ظلم کی حکومت نہ تھی؟ کیا انسانیت کو طبقات کی ظالمانہ تقسیم نے داغدار نہ بنا رکھا تھا؟ کیا اخلاق پر خواحش‘ معاشرت پر نفس پرستی‘ معیشت پر ظالمانہ جاگیرداری و سرمایہ داری اور قانون کی بے اعتدالی کا تسلط نہ تھا۔ مگر ایک تن واحد نے اٹھ کر تمام دنیا کو چلینج دے دیا۔ تمام ان غلط خیالات اور غلط طریقوں کو رد کردیا جو اس وقت دنیا میں رائج تھے۔ ان سب کے مقابلہ میں اپنا ایک عقیدہ اور اپنا ایک طریقہ پیش کیا اور چند سال کی مختصر مدت میں اپنی تبلیغ اور جہاد سے دنیا کے رخ کو پھیر کر اور زمانہ کے رنگ کو بدل کر چھوڑا۔
تازہ ترین مثال اشتراکی تحریک کی ہے۔ انیسویں صدی میں سرمایہ داری کا تسلط اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا۔ کوئی بزدل مرغ باد نما اس وقت یہ تصور بھی نہ کرسکتا تھا۔ کہ جو نظام ایسی ہولناک سیاسی اور جنگی قوت کے ساتھ دنیا پر مسلط ہے اس کو الٹ دینا بھی ممکن ہے۔ مگر انہی حالات میں ایک شخص کارل مارکس نامی اٹھا اور اس نے اشتراکیت کی تبلیغ شروع کی۔ حکومت نے اس کی مخالفت کی‘ وطن سے نکالا گیا۔ ملک ملک کی خاک چھانتا پھرا۔ تنگ دستی اور مصیبت سے دوچار ہوا۔ مگر مرنے سے پہلے اشتراکیوں کی ایک طاقت ور جماعت پیدا کرگیا۔ جس نے چالیس سال کے اندر نہ صرف روس کی سب سے زیادہ خوفناک طاقت کو الٹ کر رکھ دیا بلکہ تمام دنیا میں سرمایہ داری کی جڑیں ہلا دیں اور اپنا ایک معاشی اور تمدنی نظریہ اس قوت کے ساتھ پیش کیا کہ آج دنیا میں اس کے متبعین کی تعداد روز بروز بڑھتی چلی جارہی ہے۔ اور ان ممالک کے قوانین بھی اس سے متاثر ہورہے ہیں جن پر سرمایہ داری کی حکومت گہری جڑوں کے ساتھ جمی ہوئی ہے۔
مگر انقلاب یا ارتقاءہمیشہ قوت ہی کے اثر سے رونما ہوا ہے۔ اور قوت ڈھل جانے کا نام نہیں ڈھال دینے کا نام ہے۔ مڑجانے کو قوت نہیں کہتے۔ موڑد ینے کو کہتے ہیں۔ دنیا میں کبھی نامردوں اور بزدلوں نے کوئی انقلاب پیدا نہیں کیا۔ جو لوگ اپنا کوئی اصول‘ کوئی مقصد حیات‘ کوئی نصب العین نہ رکھتے ہوں جو بلند مقصد کے لیے قربانی دینے کا حوصلہ نہ رکھتے ہوں۔ جن کو دنیا میں محض آسائش اور سہولت ہی مطلوب ہو۔ جو ہر سانچے میںڈھل جانے اور ہر دباﺅ سے دب جانے والے ہوں۔ ایسے لوگوں کا کوئی قابل ذکر کارنامہ انسانی تاریخ میں نہیں پایا جاتا۔ تاریخ بنانا بہادر مردوں کاکام ہے۔ انہی نے اپنے جہاد اور اپنی قربانیوں سے زندگی کے دریا کا رخ پھیرا ہے۔ دنیا کے خیالات بدلے ہیں۔ مناہج عمل میں انقلاب برپا کیا ہے۔ زمانے کی رنگ میں رنگ جانے کی بجائے زمانے کو خود اپنے رنگ میں رنگ کر چھوڑا ہے۔
پس یہ نہ کہو کہ دنیا جس راستہ پر جاری ہے اس سے وہ پھیری نہیں جاسکتی اور زمانے کی جو روش ہے اس کا اتباع کیے بغیر چارہ نہیں ۔ مجبوری کا جھوٹا دعویٰ کرنے کی بجائے تم کو خود اپنی کمزوری کا سچا اعتراف کرنا چاہیے اور جب اس کا اعتراف کرلو گے تو تم کو یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ کمزور کے لیے دنیا میں نہ کوئی مذہب ہوسکتا ہے‘ نہ کوئی اصول اور نہ کوئی ضابطہ اس کو تو ہر زور آور سے دبنا پڑے گا۔ ہر طاقتور کے آگے جھکنا پڑے گا۔ ۔ وہ کبھی اپنے کسی اصول اور کسی ضابطہ کا پابند نہیں ہوسکتا۔ اگر کوئی مذہب اس کے لیے اپنے اصول بدلتا چلا جائے تو وہ سرے سے کوئی مذہب ہی نہ رہے گا۔
(جاری ہے)

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password