اسلام اور لونڈی غلام-اخلاقی جواز کی بحث

f

 

 

۔

اس موضوع پر چار بنیادی سوالات ایک عام آدمی کے ذہن میں ہوسکتے ہیں
۱۔ اسلام کے ابتدائی دور میں غلامی کا کیا اخلاقی جواز تھا۔؟
۲۔ لونڈی سے مباشرت کا کیا اخلاقی جواز ہے۔؟
۳۔ آج کے دور میں غلامی کا کیا جواز ہے۔؟
۴۔ اسلام نے غلامی کو مکمل طور پر ختم کیوں نہیں کیا جبکہ امریکہ نے کیا۔؟

۱۔ اسلام کے ابتدائی دور میں غلامی کا اخلاقی جواز
۱۔ اسلام کے ابتدائی دور میں غلامی تھی اور غلام پائے جاتے تھے۔ اسلام نے اس کو شروع نہیں کیا۔ لیکن اسلام نے اس پر اس اعتبار سے پابندی لگادی کے صرف جنگی قیدیوں کو غلام بنایا جاسکے۔تو یہاں پر اگر کسی قسم کا اعتراض ہو تو صرف اس اعتبار سے ہوسکتا ہے کہ جنگی قیدیوں کو کیوں غلام بنایا جائے۔؟
اب بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کہیں پر جنگ ہو اور اسلام کے اعتبار سے وہ جنگ جائز ہو تو قیدیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔؟
اس بارے میں مندرجہ ذیل امکانات ہیں۔

  1. قیدیوں کو قتل کردیا جائے۔ اسلام میں یہ منع ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ خاص قیدیوں کو کسی مصلحت کی وجہ سے قتل کیا جائے۔ لیکن عمومی اعتبار سے قیدیوں کو قتل کرنا جائز نہیں ہے۔
  2. قیدیوں کو فدیہ دے کر رہا کردیا جائے۔ یہ کرنا جائز ہے۔ اگر اس بات کو خدشہ ہو کہ یہ قیدی رہا ہو کر پھر دوبارہ جمع ہوکر مسلمانوں کے خلاف جنگ کریں گے تو پھر یہ ایک غلط حکمت علمی ہوگی جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی جان و مال خطرے میں پڑ جائے گی۔
  3. انہیں قیدیوں کے تبادلے میں رہا کردیا جائے۔ یہ بھی جائز ہے اور ایک طرح سے دوسری کیٹگری کی ہی توسیع ہے۔
  4. انہیں احسان کر یوں ہی رہا کردیا جائے، یا تو ذمی بنا کر مسلم معاشرے کا ایک فرد بنادیا جائے یا اپنے علاقے میں جانے کی اجازت دی جائے۔ یہاں پر وہی خدشہ ہے کہ جو کہ میں نے کیٹگری “ب” میں بیان کیا۔ اس صورت میں ایک اور خدشہ یہ تھا کہ اگر کفار کو یہ معلوم ہوجائے کہ مسلمان جنگی قیدیوں کو یوں ہی رہا کرتے ہیں تو وہ مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے کے معاملے اور زیادہ جری اور بے خوف ہوجاتے۔ یہ مسلمانوں کو اور زیادہ خطرے میں ڈالنے والی بات ہوجاتی۔
  5. انہیں غلام بناکر اسلامی معاشرے کے تیسرے درجے کا شہری بنا دیا جائے۔ غلاموں کو انفرادی ملکیت میں دے کر ان کے مالک کو اختیار دیا جائے کہ مکاتبہ کر کے یا احسان کر کے انہیں رہا کردیا جائے۔ یا پھر مالک کو یہ بھی اختیار ہو کہ انہیں غلام ہی بنا کر رکھے یا دوسروں کو بیچ دے۔ اس سے ان کی آزادی چھین لی جاتی ہے، لیکن دھیرے دھیرے دب کر یہ اسلامی معاشرتی ڈھانچے کا حصہ بن جاتے ہیں۔
  6. انہیں ساری عمر قیدی بنا کر رکھا جائے۔ اس طرح انسانوں کی ایک بڑی تعداد بے کار اور ان پروڈکٹیو ہوجاتی ہے۔ ایسے لوگ مسلم معاشرے پر ایک معاشی بوجھ بن جاتے۔ ایک انسان کو پورے معاشرے سے کاٹنا ایک غیر انسانی سلوک ہے۔

قرآنی احکامات کے مطابق پہلا اور آخری آپشن اختیار نہیں کیا جاسکتا یعنی عمومی طور پر قتل کرنا یا عمر قید کرنا جائز نہیں ہے۔(جبکہ باقی اقوام میں یہی دو آپشن اختیار کیے جاتے رہے اور کیے جاتے ہیں ) اسلامی شوری کو اس بات کی اجازت ہوگی کہ باقی امکانات میں جو بھی ممکنہ صورت ہو اسے اختیار کرے۔
اس پوری صورت حال میں ایک بات ذہن میں رکھنی ہے کہ اوپر مذکورہ لوگ وہ مجرم ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے ساتھ جنگ کی اور اگر وہ جیت جاتے تو اس بات کو پورا امکان تھا کہ مسلمان قیدیوں کو قتل کرتے یا انہیں غلام بناتے۔
مسلمانوں کی شوری ان تمام امکانات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات کا فیصلہ کرسکتی ہے کہ 2 ،3، 4 ، 5 میں جو بھی چاہے صورت اختیار کرسکتی ہے۔
اب ان مذکورہ امکانات کو دیکھ کر کوئی ہمیں بتائے کہ جنگی قیدیوں کو غلام بنانا کیوں غلط ہے۔
ویسے اس میں ایک انتہائی حیرت انگیز چیز بھی ہے۔ جن لوگوں کو غلامی پر اعتراض ہے ان لوگوں کو عمر قید پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ گویا کہ ان کو لگتا کہ کسی کو چار بائی چار کے کمرے میں پوری زندگی پابندرکھنا غلامی نہیں بلکہ آزادی ہے۔ ہے نا حیرت کی بات؟؟ حالانکہ ایک اسلامی معاشرہ ایک غلام کو باقاعدہ فیملی لائف گزارنے کا ماحول فراہم کرتا ہے۔
ایک صاحب نے یہ سوال پوچھا تھا کہ “جو چیز ایک انسان اپنے لئے گوارا نهیں کرتا اسے کسی دوسرے انسان کے لئے کیسے گوارا کرے ؟” عرض ہے کہ جناب آپ خود بتائیں کہ اگر میں خدا نہ خواستہ جنگی قیدی بن گیا تو کیا کوئی یہ پوچھے گا کہ میں کس چیز کو گوارا کرتا ہوں؟؟ جب ایک بندہ جنگ میں حصہ لے ہی رہا ہے تو اسے پتہ ہے کیا کیا نتائج بھگتنے کے امکانات ہے اور وہ جان کر ہی اس جنگ میں حصہ لے رہا ہوتا ہے۔ تو ایسے میں میرا گورار کرنا اور نہ کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟

۲۔ لونڈی سے مباشرت کا اخلاقی جواز کیا ہے۔
میں اس بحث کو دو حصوں میں تقسیم کروں گا۔

  1. لونڈی سے مباشرت کا اخلاقی جواز۔ قرون اولی کے دور میں
  2. لونڈی سے مباشرت کا اخلاقی جواز۔ موجودہ دور میں

فی الحال قرون اولی والی بحث کرتا ہوں۔ موجودہ دور سے متعلق بحث تیسرے نکتے آج کے دور میں غلامی کا کیا جواز ہے’پر بحث کرنے کے بعد کروں گا۔
یہ معاملہ تھوڑا بہت حساس ہے یا موجودہ دور کے ذہن کی تربیت کچھ ایسی ہوئی ہے کہ یہ حساس بن گیا ہے ورنہ پہلے یہ سرے سے کوئی اعتراض نہیں تھا۔چونکہ معاملہ جنسی ملاپ سے متعلق ہے اس لئے کچھ باتیں کھل کر کرنی ضروری ہے اور نہ کرنے کی صورت میں بہت ساروں کے ذہن میں اُٹھنے والے سوالات تشنہ رہ جائیں گے۔
صحیح تجزیہ کرنے کے لئے پہلے اس نکتہ پر بحث کرتے ہیں کہ مختلف تہذیبوں میں عورت اور مرد کے جنسی ملاپ کے کیا کیا اخلاقی جوازات رہے ہیں اور لونڈی سے جنسی ملاپ ان اخلاقی جوازات کے تناظر میں کیا حیثیت رکھتی ہے۔؟جنسی ملاپ کے ویسے تو بہت سارے شرائط یا جوازات ہوسکتے ہیں، لیکن دو چیزیں بالکل ہی بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔
۱۔ شادی یا نکاح۔
۲۔ آپسی رضامندی

۱۔ شادی:

معاشرتی، قانونی اور مذہبی منظوری کے لئے جو لفظ عام طور مشہور ہے وہ نکاح یا شادی ہے۔ ایک مرد اور عورت جب شادی کرتے ہیں تو گویا کہ وہ پورے معاشرے میں اعلان کرتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے میاں بیوی ہیں اور ان کے جنسی ملاپ کے حق کو پورا معاشرہ، میاں بیوی کے رشتہ دار، حکومت اور مذہب تسلیم کرتا ہے۔ اور عورت کا جو بچہ ہوگا اس کے بارے میں تسلیم کیا جائے گا کہ وہ اس کے میاں کا بچہ ہے اور اس بچے کی کفالت کی ذمہ داری اس کے میاں کی ہوگی۔ یہ ایک ایسا نکتہ ہے جس پر زیادہ بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور اس پر تقریباً دنیا کی تمام تہذیوں میں اتفاق رائے پایا جاتا تھا۔ یعنی یہ اتفاق پہلے پایا جاتا تھا۔ آج کے دور میں مغربی تہذیب نے اس کے معنی مکمل طور پر بدل دئے ہیں۔
آج کے مغرب میں جنسی ملاپ کے لئے معاشرتی اور مذہبی منظوری ضروری نہیں ہے۔ اور قانون کی طرف سے سرے سے کوئی پابندی نہیں ہے۔ مغرب میں شادی کے بغیر بھی جنسی ملاپ کو جائز سمجھا جاتا ہے، شادی کا مطلب وہاں پر یہ ہوتا ہے کہ جو شخص شادی کرلے وہ صرف اپنے پارٹنر کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرسکتا ہے، اسے کسی اور کے ساتھ جنسی ملاپ کی اجازت نہیں ہے۔ اور شادی شدہ نہ ہونے کی صورت میں اسے جس سے چاہے جنسی ملاپ کی آزادی ہوتی ہے۔
پرانی تہذیبوں میں، آج کے مشرق میں اور خاص طور پر اسلام کے معاملے میں معاملہ الٹا ہے۔ یہاں پر جنسی ملاپ بغیر شادی کے جائز ہی نہیں ہے۔ شادی کے بعد اسے جنسی ملاپ کا لائسنس مل سکتا ہے لیکن صرف اس کے ساتھ جس سے نکاح ہوا ہے۔
اس اعتبار سے شادی کا مطلب ہی مغرب اور اسلام میں الگ ہے۔
اسلام میں شادی کے ذریعے ایک پابندی ہٹا کر جنسی ملاپ کی آزادی دی جاتی ہے۔ اور یہ آزادی صرف ان کے درمیان ہوگی جو آپس میں شادی شدہ ہیں۔ یعنی مکمل پابندی سے ایک یا زیادہ سے زیادہ چار کی پابندی لاگو ہوتی ہے۔
مغرب میں شادی سے پہلے ہر قسم کی جنسی آزادی ہوتی ہے، لیکن شادی کے ذریعے اس کو پابند کیا جاتا ہے کہ وہ صرف ایک سے جنسی ملاپ قائم کرے۔ یعنی لامحدود سے ایک کی پابندی ڈالی جاتی ہے۔
میں نے شادی کے بارے میں جو تشریح کی تھی اس میں بنیادی طور پر تین اداروں کا ذکر کیا تھا۔ معاشرہ، حکومت اور مذہب۔ عام طور پر یہ شادی کے بارے میں یہ تینوں ادارے ہم آہنگی کے ساتھ کا کرتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھی ان کے درمیان تنازعہ ہوتا ہے۔ مثلاً لڑکی کی شادی کی عمر پر یہ تینوں ادارے متفق نہیں ہوتے۔ کزن میریج ان تینوں ادارے خاص طور پر مذہب اور حکومت متفق نہیں ہوتے۔ بھارت میں ایک کونسپٹ ہوتا ہے جسے گوتر کہتے ہیں جو کہ وہاں پر خاندانوں کی تقسیم کا ایک نظام ہے۔ بھارتی قانون ایک ہی گوتر کے لڑکا لڑکی کے درمیان شادی کی اجازت دیتا ہے لیکن معاشرہ اسے قبول نہیں کرتا۔

ایک دین کو ماننے والے فرد یا معاشرے کے لئے خدا کا حکم اور اس کی اجازت فائنل آتھارٹی ہوتی ہے۔ یعنی، معاشرہ جو چاہے کرے یا حکومت جیسا چاہے زبردستی قانون نافذ کرے، بہرحال اگر یہ شادی خدا کے حکم کے مطابق ہے تو پھر جنسی تعلق کا اخلاقی جواز موجود ہے ورنہ نہیں۔ ہاں خواہ مخواہ کے تنازعوں سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ حکومتی قانون اسلام کے مطابق بنایا جائے تاکہ اسلام پر بھی عمل ہو اور قانون کی بھی مخالفت نہ ہو۔
اب لونڈی سے مباشرت کا معاملہ لیں۔ جب اسلام لونڈی اور آقا کے درمیان جنسی ملاپ کی منظوری دے رہا ہے اور جب اس پر قرآن واضح ہے۔ تو پھر اعتراض کی بنیاد کیا ہے؟ جس طرح میاں بیوی کے درمیان جنسی ملاپ کا اخلاقی جواز موجود ہے بالکل ہی اسی طرح لونڈی اور آقا کے درمیان اخلاقی جواز موجود ہے۔
تاریخی اعتبار سے تو حکومت اور معاشرہ بھی اس کو منظور کر رہا تھا اور مذہب تو کر ہی رہا ہے۔ اس لئے اس پر اعتراض کی بنیاد پوری طرح سے ڈہ جاتی ہے۔
۲۔ آپسی رضامندی
اب رہ جاتا ہے رضامندی والا اعتراض۔ مغربی معاشرے میں کسی بھی چیز کے صحیح یا غلط ہونے میں رضامندی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اس رضامندی کے نظریے کو مغرب میں کونسٹ (Consent) کہتے ہیں۔ جیسا کہ اوپر واضح ہوگیا پرانی تہذیبوں میں اور آج کی مشرقی تہذیبوں میں اور خصوصاً اسلام میں جنسی ملاپ کے اخلاقی جواز کے لئے نکاح یا شادی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ لیکن آج کے مغربی معاشرے یا جن علاقوں میں مغربی تہذیب کو پوری طرح قبول کیا گیا ہے وہاں پر جنسی ملاپ کے جواز کے لئے شادی کے بجائے کونسنٹ بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اس معاملے میں شادی کی سرے سے کوئی اہمیت نہیں ہے۔
لونڈی سے جنسی ملاپ کو اس فرق کے تناظر میں بھی دیکھنا چاہئے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ اسلام کو اپنی اصول کے لئے ایک مغرب کے عقیدے کو کیوں تسلیم کرنے کی ضرورت ہے؟
اس معاملے ایک اور بنیادی سوال ذہن میں آتا ہے۔ نکاح کے معاملے میں باقاعدہ ایجاب و قبول ہوتا ہے۔ لیکن لونڈی بنانے کے معاملے میں یہ نہیں ہوتا۔ میرا خیال ہے کہ لونڈی کے معاملے میں بھی یہ ہوتا ہے۔
ایک عورت دو طرح سے لونڈی بن سکتی ہے۔
۱۔ ایک یہ کہ وہ باقاعدہ جنگ میں حصہ لے رہی ہو اور جنگ کے دوران مسلمانوں کی قیدی بن گئی۔ جب وہ جنگ میں حصہ لے رہی تھی تو اسے پتہ تھا کہ اگر وہ قید ہوگی تو لونڈی بنائے جانے کا پورا امکان ہے۔ اور اسے یہ بھی پتہ تھا کہ اگر مسلمانوں کو شکست ہوئی اور مسلمان عورتوں کو قید کیا گیا تو اس بات کی بہت کچھ گنجائش ہے کہ مسلمان عورتوں کو بھی لونڈی بنایا جائے۔ وہ جب جنگ میں حصہ لے رہی تھی تو وہ اس پوری انڈرسٹینڈنگ کے ساتھ میں فوج کا حصہ بنی۔ اگر اس کو پکڑے جانے کی صورت میں لونڈی نہیں بننا تھا تو اس کے پاس پورا آپشن موجود تھا کہ وہ لونڈی نہ بنے یعنی جنگ میں حصہ نہ لے۔ جب لونڈی بننے کے ایک پورے پراسس کا حصہ خود اپنی مرضی سے بن چکی ہے تو پھر یہ کہنا ہے کہ اس کی مرضی نہیں تھی کا کیا مطلب ہے؟
2 ۔دوسری صورت یہ ہے کہ جنگ میں پورا قبیلہ ملوث تھا اور جنگ کے نتیجے میں پورا قبیلہ بکھر گیا اور عورتوں اور بچوں کا نگران کوئی نہیں رہا۔ اُس دور میں ایسی صورت حال میں عورت کا پاس کوئی چوائس ہوتی ہی نہ تھی۔ اگر ان عورتوں کو نظر انداز کر کے چھوڑ دیا جاتا تو اس بات کا امکان تھا کہ انہں کوئی اور قبیلہ غلام اور لونڈی بنالیتا یا پھر بصورت مجبوری وہ عورتیں خود طوائف بن کر زندگی گزار لیتی۔ اور پھر جب وہ خود لونڈی بن گئی اور انہیں پتہ ہے کہ ملکیت میں آنے کے بعد ان کا کوئی اختیار نہیں ہے تو جس معشرتی جبر میں وہ رہتی ہے وہاں پر کونسٹ خود سے پیدا ہوجاتا ہے۔ اس کی مزید تفصیل آگے آئے گی۔
جنسی معاملے میں کونسنٹ کی پوری حقیقت کو سمجھنے کے لئے میں یہاں پر کچھ مثالیں پیش کرتا ہوں جس سے پتہ چلے گا کہ لونڈی کے معاملے میں کونسنٹ ایک غیر اہم مسئلہ ہے۔
ا۔ مغربی یا مشرقی معاشرے میں ایک عورت اپنی معاشی ضرورت پوری کرنے کے لئے طوائف کا پیشہ اختیار کرتی ہے۔ اس نے اپنی خوشی سے نہیں بلکہ مجبوری کی وجہ سے طوائف کے پیشے کو اختیار کیا۔ وہ ہر روز ایک نئے مرد کے ساتھ سوتی ہے اور اس کا مقصد جنسی لذت حاصل کرنا نہیں بلکہ مرد کو خوش کر کے پیسے کمانا ہوتا ہے۔ کیا یہاں پر کونسنٹ پایا جاتا ہے؟
ب۔ ایک جوان عورت زیادہ عمر والے مالدار مرد سے شادی کرتی ہے۔ مقصد اس مرد کے پیسے سے فائدہ اُٹھانا ہے۔ اس عورت کو اس مرد سے جنسی تعلق قائم کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ لیکن اس مرد کی جنسی خواہش پوری نہ کرنے کی صورت میں جو مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے اس کے پیش نظر وہ مجبوری میں اس کے ہر جنسی مطالبہ کو پوری کرتی ہے۔ کیا یہاں پر کونسنٹ پایا جاتا ہے؟
ج۔ مشرقی معاشرے میں کچھ خاص حالات کی وجہ سے ایک ایک لڑکے اور لڑکی کی شادی ہوجاتی ہے۔ لڑکی کو لڑکے سے کوئی خاص لگاؤ نہیں ہے۔ لیکن چونکہ شادی ہوچکی ہے اور طلاق کی صورت میں کئی قسم کی سماجی پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہے اس لئے وہ لڑکی اپنے ناپسندیدہ شوہر کے جنسی مطالبات کو مجبوری میں تسلیم کر لیتی ہے اور اس کے بچوں کی ماں بھی بن جاتی ہے۔ کیا یہاں پر کونسنٹ پایا جاتا ہے؟
د۔ ایک مغربی معاشرے میں لڑکا لڑکی کی دوستی ہوجاتی ہے جس کو بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ کہا جاتا ہے۔ لڑکی صرف دوستی رکھنا چاہتی ہے اور ابھی جنسی تعلق کے لئے ذہنی طور پر تیار نہیں ہے۔ لیکن لڑکا جنسی تعلق کا مطالبہ کر رہا ہے۔ انکار کی صورت میں بریک اپ یعنی دوستی ٹوٹنے کا پورا امکان ہے۔ نتیجتا لڑکی اپنے بوائے فرینڈ کے مطالبے کے آگے ہتھیار ڈال دیتی ہے۔ کیا یہاں پر کونسنٹ پایا جاتا ہے؟
ہ۔ ایک بیوی ہے جو کہ اپنے شوہر سے محبت بھی کرتی ہے اور اس کی خواہشات کا احترام کرتی ہے اور اس سے جنسی تعلق قائم کرنا پسند بھی کرتی ہے۔ لیکن مرد کی جنسی طلب عورت سے زیادہ ہے۔ اس لئے کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مرد جنسی ملاپ کا مطالبہ کرتا ہے لیکن عورت کا “موڈ” نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود عورت صرف اپنے شوہر کی خاطر اس کے مطالبے کو تسلیم کر لیتی ہے۔ کیا یہاں پر کونسنٹ پایا جاتا ہے؟
و۔ ایک مسلمان دین دار عورت اپنے شوہر کے جنسی مطالبے کو صرف اس وجہ سے تسلیم کرتی ہے کیوں کہ بلاوجہ شوہر کو انکار کرنے کی صورت میں فرشتے اس پر لعنت کریں گے۔ کیا یہاں پر کونسٹ پایا جاتا ہے؟
ان تمام مثالوں میں آپ دیکھتے ہیں کہ کونسنٹ کتنی غیر حقیقی اور غیر متعین شئے ہے۔ میں نے ہر سوال کے آخر میں ایک سوال پوچھا ہے کہ آیا یہاں پر کونسٹ پایا جاتا ہے یا نہیں۔ میرے پاس اس کا جواب نہیں ہے۔ اگر ان مثالوں میں کونسنٹ پایا جاتا ہے تو آپ دیکھیں گے کہ معاشی ضرورت، سماجی مجبوری، نفسیادی دباؤ اور مذہبی اصول ایک عورت کے اندر خود سے کونسنٹ پیدا کرتے ہے۔ کونسنٹ فی نفسہ اندر سے پیدا ہونا والی چیز نہیں ہے۔ بلکہ یہ انسان کا بیرون ہے جو کونسنٹ پیدا کرتا ہے۔ جب ایک عورت لونڈی بنتی ہے اور جب اس کو خود معاشرتی اور سیاسی حالات کا پتہ ہوتا ہے تو اس کے حالات خود اس کے اندر کونسنٹ پیدا کر لیتے ہیں۔
اگر کوئی یہ کہے کہ یہ سب غلط ہے اور یہاں پر پونسنٹ نہیں پایا جاتا تو مغرب کے اصول کے مطابق، پہلی، دوسری اور چوتھی صورت مغرب میں بالکل جائز اور عام ہے۔ تو پھر ماننا پڑے گا کہ مغرب میں بھی کونسنٹ ایک غیر ضروری چیز ہے۔
اب ذرا صورت حال دیکھیں۔ ایک عورت ہے جو کہ کسی صورت حال کی وجہ سے لونڈی بن گئی۔ اسے پتہ ہے کہ وہ آزاد نہیں ہے۔ اسے پتہ ہے کہ جس معاشرے میں وہ رہ رہی ہے وہاں پر آقا کا اپنی لونڈی سے مباشرت کرنا قابل قبول ہے۔ اور اسے یہ بھی پتہ ہے کہ مزاحمت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، اور اسے یہ بھی پتہ ہے کہ(مسلم معاشرے میں ) آقا کا اس کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے کی صورت میں وہ اپنے آقا کی بیوی کا شیر حاصل کر رہی ہے اور بچہ ہونے کی صورت میں اسے بیچا نہیں جاسکتا۔
اور ذرا سیاسی پس منظر بھی ملاحظہ فرمائیں کہ اس عورت کو یہ بھی پتہ ہے کہ جس ماحول میں وہ رہ رہی ہے وہاں پر جنگی قیدیوں کو غلام اور لونڈی بنانا قابل قبول ہے اور اگر اس کی اپنی سائڈ والے جییتے تو اس کا اپنا شوہر بھی ایک ادھ لونڈی گھر لے آتا۔
اس پورے منظر کو سامنے رکھتے ہوئے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہاں پر کونسنٹ کا مسئلہ پیدا ہی کہاں ہوتا ہے؟ کیا ایسا ہوتا ہے کہ لونڈی سے جنسی ملاپ کرتے ہوئے مرد اس کا ہاتھ پاؤ باندھتا ہے یا دو چار ہٹے کٹے مردوں کو اندر لے کر جاتا ہے کہ اس کے ہاتھ اور پاؤں کو مضبوطی سے پکڑے رکھے؟ ایسا قطعی نہیں ہے۔ حالات اور معاشرہ اس کے اندر خود سے کونسنٹ پیدا کرتا ہے بالکل اسی طرح جس طرح اوپر کی مثالوں میں یہ کونسنٹ پیدا ہوجاتا ہے۔

۳۔ آج کے دور میں غلامی جواز کیا ہے؟
اصولی طور پر قانون تو ایک ہی ہے چاہے وہ پہلے والا دور ہو یا آج کا دور۔ لیکن علمی صورت حال اس سے مختلف ہے۔ سب سے پہلے تو یہ بات واضح ہو کہ لونڈی یا غلام بنانا دین کا کوئی باقاعدہ حکم نہیں ہے۔(جنگ کے بعد اگر لوگ قید ہوکر آئیں تو) مسلمان حکمرانوں کو باہم مشورے سے اس بات کا اختیار ہوتا ہے کہ وہ چاہیں تو اس چیز کو اختیار کر سکتے ہیں۔ اگر ایسی کوئی صورت حال پیدا نہیں ہوتی جب کسی خاص موقعے پر قیدیوں کو غلام اور لونڈی بنانا ضروری ہوجاتا ہے تو پھر یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ جیسا کہ پہلے واضح کیا گیا کہ اس بات کا فیصلہ حکمران قوتیں پہلے بھی مسلمانوں کے مجموعی فائدے اور نقصان کی بنیاد پر کرتی تھیں۔ اگر آج کے دور میں کسی جنگ میں کافر قیدی ہاتھ آئیں تو بھی بہت زیادہ امکان یہی ہے کہ مسلمان حکمران ان کو غلام نہیں بنائیں گے خاص طور پر ایسی صورت میں جبکہ مسلمان قیدیوں کو غلام بنائے جانے کا امکان نہ ہو۔۔!
اقوام متحدہ کا ایک قانون ہے جسے جنیوا کنونشن کہتے ہیں۔ یہ فوجی قیدیوں، شہری قیدیوں اور جنگی زخمیوں کے ساتھ سلوک کرنے کے کچھ اصول ہیں جن کا اطلاق سب پر ہوتا ہے۔ یہ گویا کہ تمام ممبر ممالک کے درمیان ایک معاہدہ ہے۔ جب ایک مسلم ملک اس معاہدے پر دستخظ کرچکا ہے اور جب اس معاہدے کی بنا پر اس کے قیدیوں کو بھی فائدہ ہورہا ہے تو ایسے میں اس کے لئے جائز نہیں ہوگا کہ وہ اس معاہدے کی خلاف ورزی کرے۔ اس لئے اُس ملک کے لئے عملاً یہ ناجائز ہوگا کہ وہ قیدیوں کو غلام بنائے اگرچیکہ اسلام کا قانون اپنی جگہ پر جوں کا توں رہے گا۔
ایسی جنگ جس میں باقاعدہ کسی ملک کی فوجیں شرکت نہیں کرتی بلکہ غیر منظم فوجیں ہوں جنہیں آج کل دہشت گرد کہا جاتا ہے تو ان پر جنیو کنونشن لاگو نہیں ہوتا۔ اس لئے وہ فوجیں جن پر جنیوا کنونشن لاگو نہیں ہوتا اگر وہ کسی دشمن ملک کے جنگی قیدیوں کو غلام بنالیں تو اس میں کوئی اخلاقی قباحت نہیں ہونی چاہئے۔ عملاً تو صورت حال یہ ہے کہ دنیا کا مہذب ترین ملک جنہیں دہشت قرار دیتا ہے اس کے لئے وہ کسی بھی قانون و ضابطے کو نہیں مانتا۔
اس بارے میں ایک اور چیز کا خیال رکھنا ہوگا۔ جب جنگی قیدیوں کو غلام اور لونڈی بنایا جاتا ہے تو مسلم معاشرہ انہیں اپنے اندر جذب کر لیتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا سچ مچ آج کے مسلم معاشرے اس ابلاغی دور میں غلام اور لونڈیوں کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟

کہیں ایسا تو نہیں اس سے بہت سارے خاندانی مسائل پیدا ہوجائیں؟

اگر مسلم حکمران اس قسم کا کوئی خدشہ محسوس کریں تو انہیں غلام بنانے سے احتراز کرنے کا پورا حق ہے۔
ان باتوں سے تو یہ واضح ہوگیا ہے کہ قانونی اجازت ہونے کے باوجود اس پر عمل فی الحال معطل رہے گا اور اس قانون کو معطل رکھنے میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے۔
ہوسکتا ہے کل کو عالمی حالات ایسے پلٹ جائیں کہ مسلم حکمران محسوس کریں کہ قیدیوں کو غلام بنانا ہی اس وقت مناسب ترین آپشن ہے تو اس پر عمل بھی ہوسکتا ہے۔
یہیں سے اس سوال کا بھی جواب ملتا ہے کہ آج کے دور میں لونڈی سے مباشرت کی کیا گنجائش ہے۔ غلام اور لونڈی کا رکھنا کوئی دین کا باقاعدہ حکم نہیں ہے۔ بلکہ ایک اجازت ہے جس پر جبھی عمل ہوسکتا ہے جب اس دور کی سیاست اور معاشرت اس عمل سے مناسبت رکھتی ہو۔ اور اگر کبھی ایسا دور آیا کہ جب غلام رکھنے کا عمل اس دور کی سیاست اور معاشرت سے مناسبت رکھے تو پھر یہ ماحول اس لونڈی کے اندر بھی کونسنٹ پیدا کردیتا ہے۔

۴۔ اسلام نے غلامی کو مکمل طور پر ختم کیوں نہیں کیا جبکہ امریکہ نے کیا۔
بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اسلام نے اس غلامی کو ختم کردیا تھا جس کا کوئی اخلاقی جواز نہیں بچتا تھا اور صرف اس غلامی کے جواز کو باقی رکھا تھا جس کا اخلاقی جواز بنتا تھا جیسا کہ پہلے پؤائنٹ میں لکھا جاچکا ہے۔ امریکہ میں جو غلام تھے ان کی غلامی کا سرے سے کوئی اخلاقی جواز نہیں بنتا تھا اور اس بارے میں امریکہ یا پورا مغرب اپنی بنائی ہوئی غلامی کے جواز دینے کے موڈ میں بالکل نہیں ہے۔ افریقیوں پر حملہ صرف غلام بنانے کی نیت سے ہی ہوتا تھا اور ان کو جانوروں کی طرح پکڑ کر پنجرے میں ڈال کر جہازوں میں بٹھا کر باقاعدہ غلامی کے لئے ہی لے جایا جاتا تھا۔
اسلام میں غلاموں کو آزاد کرنے کا باقاعدہ نظام تھا جو کہ علمی طور پر نافذ تھا جس کی وجہ سے بنے ہوئے غلام جو کہ مسلم معاشرے میں جذب ہوچکے ہوتے تھے آزاد ہوتے رہتے تھے۔ مغرب میں ایسا کوئی نظام تھا نہیں۔
اگر اسلام نے تمام غلاموں کو بیک وقت آزاد کرنے کا حکم دیا ہوتا تو بہت سارے معاشرتی اور معاشی مسائل پیدا ہوجاتے۔ امریکہ میں جب یک قلم غلاموں کو آزاد کرنے کا حکم نافذ ہوا تو آج تک اس کا جھٹکا امریکہ میں محسوس ہو رہا ہے۔ اس یکدم سے آزاد کرنے کے عمل کی وجہ سے آج بھی امریکہ کی جیلیں کالوں سے بھری ہوئی ہیں۔ وجہ صرف یہ ہے کہ غلاموں کو آزاد کرنے کے بعد معاشرے کے لئے آسان نہیں ہوتا کہ اتنی بڑی آزاد انسانوں کی اخلاقی تربیت کے لئے کوئی انتظام کر سکے۔ اس کی وجہ سے آج بھی امریکہ میں کالے زیادہ غریب اور زیادہ مجرم ہیں۔ مسلمانوں میں جو غلاموں کو آزاد کرنے کا نظام بنا اس کی وجہ سے ایک نسل کے بعد غلام اور آزاد کا فرق ہی مٹ گیا۔
الغرض امریکہ کا غلاموں کو آزاد کرنا مکمل طور پر ایک دوسرا ہی پہلو رکھتا ہے جو کہ ان کے تاریخی مجرمانہ کردار کو چھپانے کی ایک کوشش ہے۔ اسلام نے غلامی کی جو اجازت باقی رکھی اس کے لئے اسلام کے پاس اخلاقی جواز موجود ہے۔

  • ندیم علی
    August 5, 2016 at 11:56 pm

    میرے دل میں جو شکوک و شبھات تھے سب ختم ہوگئے ۔۔۔۔۔شکریہ

  • محمد سفیان
    October 9, 2020 at 12:01 pm

    اسلام نے کوئی انقلابی انسانی جدوجہد نہیں کی وہی پرانی شراب نئے کاسہ میں پیش کر گیا

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password