دینی احکامات کی عقلی حکمتوں کی بنیاد پر ردوقبول

 

اس میں کوئی شک نہیں کہ عصرحاضر میں نوجوانوں کی دین سے دلچسپی بڑھی ہے اور وہ دینی امور کی جانب راغب ہونے لگے ہیں۔ کالج کے طلبہ اوراعلیٰ تعلیم پانے والے افراد دینی امور میں دلچسپی لیتے ہیں اورنماز ودیگر عبادات کو انجام دیتے ہیں۔اسی کے ساتھ یہ بات بھی بہت خوش آئند ہے کہ مذہبی احکام کے علاوہ لباس ،وضع قطع میں بھی بہت سارے نوجوان مذہبی رنگ کو پسند کرنے بلکہ اختیار کرنے لگے ہیں لیکن اسی کے ساتھ تشویش کا دوسرارخ یہ ہے کہ ہماراوہ طبقہ جو روشن خیال ہے جس نے اعلیٰ تعلیم پائی ہے وہ یہ سوچتے ہیں کہ اسلام کے تمام احکام عقل اورفہم پر مبنی ہیں کوئی بات ایسی نہیں ہے جو عقل کے دائرے سے باہر ہو۔ اسی لیے وہ ہرحکم کی حکمت جانناچاہتے ہیں ،عقلی وجہ اورسبب معلوم کرناچاہتے ہیں دوسرے لفظوں میں انکے ہاں عقل کو مذہب پر حاکم بنایاجاتاہے۔یعنی اگرکوئی حکم عقل کے دائرہ میں آرہاہے اس کی حکمت سمجھ میں آرہی ہے تواسے تسلیم کریں گے ورنہ تسلیم نہیں کریں گے۔
اس بات میں دو رائے نہیں ہیں کہ اسلام دین فطرت ہے اور اسکے احکام انسانی نیچر سے مطابقت رکهتے ہیں ۔ عقل پسندی کو پسند کرتا ہے لیکن عقل پرستی کو نہیں ۔۔ عقل پرستی سے مراد یہ ہے کہ ہر حکم کو عقل پر پرکھنا۔ عقل کو ہر معاملے میں رد و قبول کا معیار بنا لینا ..
توازن اور اعتدال ہی اسلام کی خوبی ہے اور یہی اعتدال عقل کے معاملے میں بھی رکھا گیا ہے۔ شریعت کے عام ظاہری احکام کے متعلق عقل کے استعمال سے منع نہیں کیا گیا بلکہ حق تو یہ ہے کہ قرآن و سنت سے فقہی احکام عقل کو ہی استعمال کرکے ترتیب دیے گئے ہیں۔ لیکن احکام وحی اور وہ معلومات جن کو جاننے کے لیے عقل کام نہیں کرسکتی تھی اور انکو عقل کے ذریعے سمجھایا نہیں جاسکتا تھا ، انکو خالق کائنات نے اپنے مخصوص نمائندوں کے ذریعے انسانوں تک پہنچایا ان میں عقل کے استعمال سے منع کیا گیا ہے کیونکہ ان میں مشاہدہ کام نہیں کرسکتا ان پر اعتبار کے لیے سند اور نشانیاں کافی ہے۔ ۔!
یہ اک سمجه آنے والی بات بهی ہے . اب دنیا میں ہرایک کی عقل متفاوت ہے توکیاکسی قانون کی حکمت اگرکسی کی سمجھ میں نہ آئے تو وہ صرف اس لئے ماننے سے انکار کردے کہ اس کی حکمت اس کی سمجھ سے باہر ہے۔ اگرکوئی ایساکرے کہ ملک کے کسی قانون کی یہ کہہ کرخلاف ورزی کرے کہ اس قانون کی حکمت اس کی سمجھ میں نہیں آئی لہذا وہ اس کے ماننے کا پابند نہیں تواسے لوگ احمق اوردیوانہ قراردیں گے لیکن اسی چیز کو مذہب کے باب میں ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلیاجاتاہےاوراس مذہبی حکم کو تسلیم کرنے والوں پر طعنے کسے جاتے ہیں۔
یہ کیسی دوہری روش ہے کہ ملکی قانون جو ہم جیسے انسانوںنے بنایاہے وہ اگرسمجھ میں نہ آئے پھر بھی اس کی تعمیل ضروری لیکن خداجوقادرمطلق ہے اس کے قانون کو ہم اپنی عقل پر تولتے ہیں اوراگرہماری عقل کی حدود سے وہ قانون باہر ہواتوپھرہم انکار کرنے میں دیر نہیں کرتے ۔دوسرے لفظوں میں کہیں تو گویاہم اپنی عقل کو اللہ میاں پر نافذ کرناچاہتے ہیں کہ اللہ میاںوہی قانون بنائیں جو ہماری عقل میں سماتی ہو،یہ کتنی بڑی گستاخی ہے۔
ہم اپنی ناقص اورمحدود عقل کی بنیاد پر اللہ کے احکام کی حکمت متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں اوریہ سوچنے کی زحمت گوارانہیں کرتے کہ ہماری ناقص عقل میں حکمت سمجھ میں نہیں آتی تو لازمی نہیں کہ وہ غلط بھی ہو۔ پھرجس چیز کی جوحد ہواس حد سے اس کو آگے بڑھانااس کی تکریم نہیں بلکہ توہین ہے۔ ابن خلدون نے اچھی مثال دی ہے کہ جس ترازو میں سونے اورچاندے تولے جاتے ہوں اس میں پہاڑ نہیں تولے جاسکتے، جس عقل میں ابھی ہم نے روز مرہ کی چیزوں کی حقیقت وماہیت دریافت نہیں کی ہے اس عقل سے احکام الہی کی حکمت جاننے اورنہ جاننے پر ماننے سے انکار کرنے لگیں توکیایہ عقل کی بات ہے؟
ہوسکتاہے کہ آپ یہ کہیں کہ یہ تومذہبی ملاکی بات ہے اس کی تودن رات کی گردان ہی یہی ہے لیکن یہ صرف مذہبی دیوانے کی بات نہیں ہے ادیبوں نے بھی اسی کو تسلیم کیاہے۔اقبال کاحوالہ دوں توآپ کہیں کہ وہ توخود نیم ملانے تھے اس لئے ہم دوسرے ادیب ممتاز مفتی کا حوالہ دے رہے ہیں۔ ممتاز مفتی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں۔
’’ڈاکٹر عفت سے ایک غیرملکی کرنل نے پوپوچھا’’آپ کے مذہب میں سورکھاناکیوں حرام ہے‘‘؟ڈاکٹرعفت نے کہایہ ایک حکم ہے میراکام حکم کی تعمیل کرناہے۔ کرنل صاحب،حکم کی وجہ جانناضروری نہیں، اسے مانناضروری ہے۔
کرنل ہنسا اوربولاجس حکم کوآپ سمجھتی نہیں،اس پر عمل کرنے کا مقصد
ڈاکٹرعفت ہنسیں ،بولیں حیرت ہے کرنل صاحب کہ آپ فوجی افسر ہوتے ہوئے حکم کے مفہوم سے واقف نہیں، کرنل کھسیاناہوگیا۔
عفت بولیں کرنل صاحب،ہرکلب کے اصول ہوتے ہیں جن کی پابندی لازمی ہوتی ہے۔مذہب بھی ایک کلب ہے یاتوآپ کلب کے ممبربنیں یانہ بنیں یہ آپ کی مرضی پرموقوف ہے لیکن رکن بن جائیں توپھر چوں وچراکی گنجائش نہیں رہتی۔
ہماری مشکل یہ ہے کہ مغرب کے زیراثرہم عقل کے اس قدردیوانے بنے بیٹھے ہیں کہ کچھ حد نہیں، حالانکہ ہرفرد جسے تھوڑی سے سوجھ بوجھ بھی حاصل ہے اس حقیقت کو جانتاہے کہ زندگی میں بہت کم باتیں ایسی ہیں جن پر عقل حاوی ہے اوربہت زیادہ باتیں ایسی ہیں جوعقل کی دسترس سے باہر ہیں۔ عقل کو ہم نے بت بنارکھاہے اس حد تک کہ یہ مانتے ہوئے کہ اللہ قدرمطلق ہے ہم عقل کے معیار کو اللہ تعالیٰ پربھی عائد کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ہم سوچتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو یوں نہیں کرناچاہئے تھااللہ تعالیٰ کے حکم کے پیچھےضرورکوئی ایسی حکمت ہوگی جوہم عقل کے زورپرسمجھ سکتے ہیں اس لئے ہم اس کی تلاش کرنے لگتے ہیں اوراگرکامیاب نہ ہوںتوحکم پر شک کرنے لگتے ہیں‘‘۔
(رام دین ،ممتاز مفتی، جلد اول صفحہ14)
سوچنایہ چاہئے کہ کیا اسلامی شریعت کے کسی حکم میں صرف وہی حکمت کارفرماہے جو ہماری سمجھ میں آئی ہے اس کے علاوہ دوسری حکمتیں کارفرمانہیں ہیں۔ایک انسان ایک کام کرتاہے توایک مقصد پیش نظررہتاہے اس سےزیادہ عقل مندشخص ایک کام کرتاہے اورایک پنتھ دوکاج اس کے پیش نظررہتے ہیں اس سے بھی زیادہ عقل مند شخص ایک کام کرتاہے اورکئی مقاصد اس کے پیش نظررہتے ہیں توپھر وہ ذات جو حکیم ،علیم اورخبیر ہے اپنے بندوں کے تمام مصالح اورفوائد کو بخوبی جانتاہے ،وہ ذات جو حکمت کاسرچشمہ ہے اورعقل کاخالق ہے توکیااس کے حکم میں صرف اتنی ہی مصلحت ہوگی جوہماری سمجھ میں آرہی ہے؟
جب ایک انسان کے کسی کام میں کئی حکمتیں پوشیدہ ہوسکتی ہیں اورسبھی کاذہن اس جانب نہیں جاسکتاتوپھر اللہ تبارک وتعالیٰ کے احکام کی حکمتوں کا انسانی عقل کیسے احاطہ کرسکتی ہے جب کہ انسانی عقل روزمرہ پیش آنے والے حالات اورمعاملات کاہی احاطہ نہیں کرسکتی۔حد تویہ ہے کہ اس نے ابھی جوکچھ جاناہے سمجھاہے وہ اس کے مقابلے میں کچھ نہیں جواس نے نہیں جاناہے اور چیز وں کے بارے میں ظاہری اور سطحی معلومات ہی حاصل کی گئی ہیں ۔حقیقت تک رسائی کسی چیز میں بھی نہیں ہوسکی ہے۔کرنٹ سے ہم کام لیتے ہیں لیکن کرنٹ کی حقیقت کیاہے یہ معلوم نہیں،انسانی جسم میں روح کی حقیقت کوتسلیم کرتے ہیں لیکن روح کیاہے ہم نہیں جانتے، دماغ کے بے شمار خانے ایسے ہیں جہاں تک ہماری رسائی نہیں ہوسکی ہے کہ اس کا کام کیاہے اوروہ کیسے کام کرتاہے۔
وہ لوگ جو بزعم خود کسی حکم الہی کی حکمت سمجھتے ہیں اورپھر خود ہی موجودہ دور میں اس کی ضرورت کے نہ ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں ان کی روش نہایت خطرناک ہے۔ان کاحال اسی نادان لڑکے جیساہوگا جس کی مثال شیخ شرف الدین منیری نے بیان کی ہے۔
’’اس کو ایساسمجھوکہ ایک شخص نے ایک پہاڑ کی چوٹی پر محل تعمیر کیا،وہاں انواع واقسام کی نعمتیں جمع کیں جب اس کا اخیر وقت ہوا تواس نے لڑکے کو وصیت کی کہ اس محل میں جو ترمہم وتصرف چاہناکرنالیکن ایک خوشبودار گھاس کاایک حصہ جو میں چھوڑ کر جارہاہوں وہ چاہے خشک ہوجائے اس کو باہر نہ کرنا،جب پہاڑ کی چوٹی پر بہارآئی تو پہاڑ ومیدان سب سرسبز ہوگئے،بہت سی تازہ اورخوشبودارگھانس پیداہوگئی جو اس پرانی گھانس سے زیادہ تروزتاہ تھی، اس میں بہت سی گھانس اورپھول اس محل میں آئے جن کی خوشبو نے سارے محل کو معطر کردیااوران کے سامنے اس پرانی سوکھی گھانس کی خوشبودب گئی،لڑکے نے سوچاکہ میرے والد نے یہ پرانی گھانس اس محل میں اس لئے رکھی تھی کہ اس کی خوشبوپھیلے اوریہ جگہ اس سے معطر ہو ،اب یہ سوکھی گھاس کام آئے گی اس نے حکم دیاکہ اس گھاس کو باہر پھینک دیاجائے،جس وقت محل اس گھاس سے خالی ہوگیا،ایک کالے سانپ نے سوراخ سے سرنکااورلڑکے کو ڈس لیااوراس کاکام تمام ہوگیا، سبب اس کایہ تھاکہ اس گھاس کےدوفائدے تھے ایک یہ کہ وہ خوشبودے اوردوسرے اس میں خاصیت تھی کہ وہ جہاں ہوتی ہے سانپ اس کے قریب نہیں جاسکتاگویاوہ سانپ کا تریاق تھی یہ خاصیت کسی کو معلوم نہیں تھی۔لڑکے کو اپنی ذہانت پر ناز تھا،وہ سمجھاکہ جواس کےمعلومات کے دائرہ میں نہ ہو گویاکہ قدرت خداوندی کے خزانہ میں موجود نہیں،اس کو اس آیت کامفہوم نہیں معلوم تھاومااوتیتم من العلم الاقلیلاوہ اپنی ذہانت کے غرہ میں ماراگیا۔‘‘(تاریخ دعوت وعزیمت صفحہ3/155)
اسی لیے قرآن کریم نے کوئی بھی حکم دیاہے تویہ نہیں کہاہے کہ اس کوجانواورسمجھوبلکہ صرف اتناہے کہ اس کومانو،ہرجگہ قرآن کریم کا یہی انداز تخاطب ہے اے لوگوں جنہوں نے مانااورتسلیم کیاہے(یاایھاالذین آمنو)لیکن بدقسمتی یہ رہی ہے کہ بعض لوگوں نے جاننے اورماننے کا یہ فرق نظروں سے اوجھل کردیا۔قرآن یہ کہتاہے کہ یہ حکم ہے اسے مانو اورتسلیم کرو(یاایھاالذین آمنوآمنو)لیکن ہمارااصرار اورمطالبہ ہوتاہے کہ ہم سمجھیں گے تو مانیں گے ہم جانیں گے تومانیں گے۔
مولانامناظراحسن گیلانی اسی تعلق سے لکھتے ہیں
مذہب اورمذہبی حقائق وامور کے متعلق مذکورہ بالااصول ایک ایسی جانی پہچانی بات ہے کہ مختلف مذاہب کے مقابلہ وموازنہ میں عمومادنیااسی اصول سے کام لیتی رہی ہے ۔پچھلے دنوں یورپ کے ارباب فکرونظرنے اسی سلسلے میں غلو سے کام لیتے ہوئے مذہبی حلقوں میں کچھ ایسی باتیں پھیلادیں کہ جاننے اورماننے کافرق خام کاروں کے سامنے سے کچھ ہٹ ساگیا اورمذہب جس کی طرف سےہمیشہ آمنو یعنی ماننے کا مطالبہ پیش ہوتارہایعنی دنیا سے کہاجاتاتھاکہ مانو لیکن سننے والے کہنے لگے کہ ہم تو ان چیزوں کونہیں جانتے،گویاگلاب کے پھول کو پیش کرکے کہاجائے کہ اس کو سونگھواورجواب میں کہہ دیاجائے کہ گلاب کی خوشبو کوہم سن نہیں رہے ہیں۔پچھلے دنوں مغربی خیالات سے متاثرذہنیتوں میں الملائکۃ،الجنۃ،النار،البر زخ ،یہ اوراسی قسم کے مذہبی حقائق کے متعلق تذبذ ب اورشک کی جوکیفیت پیداکی گئی اس کی بنیاد جاننے اورماننے کے اس خلط مبحث ہی پر قائم تھی ،مذہب توکہتاتھاکہ فرشتوں کو مانو لیکن خواہ مخواہ کی عقلیت کے مدعیوںکی طرف سے کچھ ایسی باتیں پیش ہونے لگیں جن سے معلوم ہوتاہے کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم فرشتوں کو دیکھ نہیں رہے ہیں حالانکہ ان سے دیکھنے کامطالبہ ہی کب کیاگیاتھا۔
(دجال کا فتنہ اوراس کے خدوخال،مولانا مناظراحسن گیلانی)

آخر میں ایک بات جونہایت ضروری ہے وہ بتاناضروری ہے کہ پوری دنیا میں قانون کایہی انداز ہے کہ قانون کی بنیاد علت پر ہے حکم پر نہیں ہے۔ یعنی قانون کی وجہ کیاہے اگر وہ وجہ پائی جائے گی توحکم بھی پایاجائے گا۔ حکمت پر دنیا میں کہیں بھی قانون کی بنیاد نہیں رکھی جاتی ہے۔ اوریہی اسلامی شریعت میں بھی ہے۔ مثلاسفرکے دوران نماز میں قصریعنی چار رکعت کی جگہ دورکعت پڑھاجانا،توقصر کی علت سفر ہے۔ سفرپایاجائے گا تو قصر بھی ہوگا،اگرسفر نہیں ہوگاتوقصر بھی نہیں ہوگا۔ اب اگرکوئی کہے کہ چونکہ اب سفر آسان ہوگیاہے اس لئے قصرختم کردیناچاہئے تواس کی بات غیرمعقول ہوگی، کیونکہ حکمت مقصود نہیں تھی ۔۔!! اسی طرح وضوکیلئے نماز ضروری ہے تو وضو کی علت نماز ہوئی جب نماز کا وقت ہوگااورانسان بے وضوہوگاتواس کیلئے وضوکرنالازمی ہوگا۔ اب کوئی کہے کہ پہلے بندے پاک صاف نہیں رہتے تھے اب پاک صاف رہتے ہیں اس لئے وضوکی ضرورت نہیں تویہ بات غیرمعقول ہوگی کیونکہ صرف صفائی کی حکمت ہی مقصود نہیں ۔۔
ابن جمال

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password