مذہب و عقل کی معرکہ آرائیوں کی داستان توں تو ہمیشہ کہی اور سنی گئی ہے، لیکن پچھلی صدی میں عقلیات نے جو ترقی حاصل کی ہے اس کی بناء پر کہا جاتا ہے کہ مذہب آخری شکست کھا کر اکھاڑہ سے نکل چکا ہے، ہم (اہلِ سائنس) نے خدا کی عارضی خدمات کا شکریہ ادا کرکے اس کو سرحد پر پہنچا دیا ہے۔ (کیروؔ کا مقولہ ہے، دیباچہ مترجم ’’معمۂ کائنات‘‘:۱۲) عجائب سائنس سے ہیبت زدہ اور تقلیدی پرستارانِ یورپ کے حلقوں میں پہنچ کر یہ آوازیں اور زیادہ پُر شور بن جاتی ہیں۔
آغازِ جنگ میں جرمنی کی عجائب کاریوں اور حربی اختراعات نے اس درجہ مبالغہ آمیز شہرت حاصل کی تھی کہ طلسمِ ہوش رُبا کے افسانے واقعات و مشاہدات معلوم ہونے لگے تھے، ایک اچھے خاصے پڑھے لکھے بزرگ نے نہایت یقین و سنجیدگی سے بیان کیا کہ ’’جرمنی کی فوج کے تمام سپاہی لوہے اور کاٹھ کی پتلیاں ہوتے ہیں‘‘، عوام کی نفسی حالت یہ ہوگئی تھی کہ جرمنی کی نسبت بے سوچے سمجھے ہر بے سر و پا بات کے مان لینے پر آمادہ تھے۔
ہندوستان میں انگریزی حکومت کے ساتھ ساتھ یورپ کے سائنٹیفک ایجادات بھی آئیں جن میں سے ایک ریل، تار اور الکٹریسٹی وغیرہ اچھے اچھوں کی عقل کو حیران بنادینے کے لئے کافی تھی، اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ سائنس نے زمین کو تول کر وزن معلوم کرلیا، روشنی کی شرح رفتار بتادی، مریخ میں دریاء، پہاڑ اور آبادی کا سراغ لگالیا، اب جو اسکول اور کالجوں میں ہمارے فرزندانِ تعلیمِ جدید نے کہیں یہ سن پایا کہ سائنس نے ’’خدا کو سرحد باہر کردیا‘‘ تو بے چارے سمجھے کہ جو چیز ایسے حیرت انگیز اور سمجھ میں نہ آنے والے معجزے دکھا سکتی ہے، جب اسی نے خدا اور مذہب کو باطل ٹھہرادیا تو پھر اب کیا رہا، اس مرعوبیت کا آج تک یہ عالم ہے کہ نفس یورپ یا سائنس کا نام لے لینا کسی بات کے منوانے کے لئے مؤثر استدلال ثابت ہوتا ہے۔
غلط فہمی وجوہات:
غرض برادرانِ اسکول و کالج کو سنجیدگی کے ساتھ ’’مذہب و عقلیات‘ کے مطالعہ اور ان کے باہمی تعلق پر کبھی غور و فکر کی فرصت تو میسر نہ ہوئی اور نہ یہ سوچا کہ دونوں ایک میدان میں اُتر سکتے ہیں یا نہیں؟ لیکن عقل و سائنس کی فتح کے نقّارچی بن گئے، اگرچہ مصر اور ہندوستان وغیرہ میں یہ وباء زیادہ تر اسی طرح پھیلی، تاہم اس کی ذمہ دار ہمارے نئے تعلیم یافتہ احباب کی تنہاء مرعوبیت اور و نادانی نہیں ہے، اس کے اور اسباب بھی ہیں جنہوں نے اس خیال کو عالمگیر بنادیا۔
(۱) اولاًبعض مقبول و مستند فلاسفہ اور سائنس دانوں کی زبان و قلم سے ایسے الفاظ نکلے کہ عوام کا تو کیا ذکر خواص تک اس دھوکہ اور غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے کہ مذہب و سائنس کی دشمن کا خیال کوئی بازاری گپ نہیں ہے،۔
(۲)حقیقت میں غلط فہمی کا سب سے بڑا منشاء اہل سائنس اور علماءِ مذہب کی عداوت کا مغالطہ ہے، جس کا بہت کچھ ذمہ دار یورپ کا محکمۂ احتساب (انکوینریشن) ہے، جس کی قربان گاہ پر قرونِ وسطیٰ میں پاپاؤں کے ہاتھ بیسیوں محققینِ سائنس انکشافاتِ علمی کے گناہ میں نذر چڑھ گئے، پادری سمجھتے تھے کہ زمین کا گول کہنا بھی مذہب کی تردید ہے، کوپرنیکسؔ نے حرکتِ ارض و مرکزیتِ شمس کے اثبات یا نظامِ فیساغورسؔ کی تائید میں کتاب لکھی تو اس کا پڑھنا کفر قرار پایا، گلیلیوؔ نے دور بین کی ایجاد سے کوپرنیکسؔ کے اکتشافات کی تائید کی، تو اس کو قید کی سزاء ملی اور قید ہی میں مرگیا، برونوؔ اس جرم میں جلادیا گیا کہ وہ ’’تعددِ عوالم‘‘ کا قائل تھا۔
غرض اس محکمہ نے سینکڑوں آدمیوں کو مذہب کے نام سے ستایا اور برباد کیا، اس کا لازمی نتیجہ یہی ہونا تھا کہ لوگ علم و مذہب کو حریف سمجھنے لگے، اس مغالطہ نے اتنا تسلط حاصل کیا کہ ڈریپرؔ نے ایک کتاب ہی ’’معرکۂ مذہب و سائنس‘‘ کے نام سے لکھ ڈالی، حالانکہ اس کا ماحصل تمام تر وہی اہلِ سائنس اور علماءِ مذہب کا معرکہ ہے۔
(۳) تیسرا بڑا سبب وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس پر تو غور نہ کیا کہ مذہب و عقلیات میں اصولاً کوئی تصادم ہے یا نہیں؟ اگر کسی جگہ کوئی اختلاف ہے تو اسکی نوعیت کیا ہے؟ پھر بھی مذہب کی مخالفت اور فلسفہ و سائنس کی زبان سے جو بات بھی نکلی اس کی تائید اپنا فرضِ مذہبی سمجھ لیا۔
غرض سائنس و مذہب کے باہمی عناد و تصادم کا افسانہ جس قدر دراز اور عالمگیر ہے اس سے بدرجہا زیادہ بے بنیاد اور غلط ہے، اگلی تحاریر میں اس نقطے پر وضاحت پیش کی جائیگی ۔
آغازِ جنگ میں جرمنی کی عجائب کاریوں اور حربی اختراعات نے اس درجہ مبالغہ آمیز شہرت حاصل کی تھی کہ طلسمِ ہوش رُبا کے افسانے واقعات و مشاہدات معلوم ہونے لگے تھے، ایک اچھے خاصے پڑھے لکھے بزرگ نے نہایت یقین و سنجیدگی سے بیان کیا کہ ’’جرمنی کی فوج کے تمام سپاہی لوہے اور کاٹھ کی پتلیاں ہوتے ہیں‘‘، عوام کی نفسی حالت یہ ہوگئی تھی کہ جرمنی کی نسبت بے سوچے سمجھے ہر بے سر و پا بات کے مان لینے پر آمادہ تھے۔
ہندوستان میں انگریزی حکومت کے ساتھ ساتھ یورپ کے سائنٹیفک ایجادات بھی آئیں جن میں سے ایک ریل، تار اور الکٹریسٹی وغیرہ اچھے اچھوں کی عقل کو حیران بنادینے کے لئے کافی تھی، اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ سائنس نے زمین کو تول کر وزن معلوم کرلیا، روشنی کی شرح رفتار بتادی، مریخ میں دریاء، پہاڑ اور آبادی کا سراغ لگالیا، اب جو اسکول اور کالجوں میں ہمارے فرزندانِ تعلیمِ جدید نے کہیں یہ سن پایا کہ سائنس نے ’’خدا کو سرحد باہر کردیا‘‘ تو بے چارے سمجھے کہ جو چیز ایسے حیرت انگیز اور سمجھ میں نہ آنے والے معجزے دکھا سکتی ہے، جب اسی نے خدا اور مذہب کو باطل ٹھہرادیا تو پھر اب کیا رہا، اس مرعوبیت کا آج تک یہ عالم ہے کہ نفس یورپ یا سائنس کا نام لے لینا کسی بات کے منوانے کے لئے مؤثر استدلال ثابت ہوتا ہے۔
غلط فہمی وجوہات:
غرض برادرانِ اسکول و کالج کو سنجیدگی کے ساتھ ’’مذہب و عقلیات‘ کے مطالعہ اور ان کے باہمی تعلق پر کبھی غور و فکر کی فرصت تو میسر نہ ہوئی اور نہ یہ سوچا کہ دونوں ایک میدان میں اُتر سکتے ہیں یا نہیں؟ لیکن عقل و سائنس کی فتح کے نقّارچی بن گئے، اگرچہ مصر اور ہندوستان وغیرہ میں یہ وباء زیادہ تر اسی طرح پھیلی، تاہم اس کی ذمہ دار ہمارے نئے تعلیم یافتہ احباب کی تنہاء مرعوبیت اور و نادانی نہیں ہے، اس کے اور اسباب بھی ہیں جنہوں نے اس خیال کو عالمگیر بنادیا۔
(۱) اولاًبعض مقبول و مستند فلاسفہ اور سائنس دانوں کی زبان و قلم سے ایسے الفاظ نکلے کہ عوام کا تو کیا ذکر خواص تک اس دھوکہ اور غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے کہ مذہب و سائنس کی دشمن کا خیال کوئی بازاری گپ نہیں ہے،۔
(۲)حقیقت میں غلط فہمی کا سب سے بڑا منشاء اہل سائنس اور علماءِ مذہب کی عداوت کا مغالطہ ہے، جس کا بہت کچھ ذمہ دار یورپ کا محکمۂ احتساب (انکوینریشن) ہے، جس کی قربان گاہ پر قرونِ وسطیٰ میں پاپاؤں کے ہاتھ بیسیوں محققینِ سائنس انکشافاتِ علمی کے گناہ میں نذر چڑھ گئے، پادری سمجھتے تھے کہ زمین کا گول کہنا بھی مذہب کی تردید ہے، کوپرنیکسؔ نے حرکتِ ارض و مرکزیتِ شمس کے اثبات یا نظامِ فیساغورسؔ کی تائید میں کتاب لکھی تو اس کا پڑھنا کفر قرار پایا، گلیلیوؔ نے دور بین کی ایجاد سے کوپرنیکسؔ کے اکتشافات کی تائید کی، تو اس کو قید کی سزاء ملی اور قید ہی میں مرگیا، برونوؔ اس جرم میں جلادیا گیا کہ وہ ’’تعددِ عوالم‘‘ کا قائل تھا۔
غرض اس محکمہ نے سینکڑوں آدمیوں کو مذہب کے نام سے ستایا اور برباد کیا، اس کا لازمی نتیجہ یہی ہونا تھا کہ لوگ علم و مذہب کو حریف سمجھنے لگے، اس مغالطہ نے اتنا تسلط حاصل کیا کہ ڈریپرؔ نے ایک کتاب ہی ’’معرکۂ مذہب و سائنس‘‘ کے نام سے لکھ ڈالی، حالانکہ اس کا ماحصل تمام تر وہی اہلِ سائنس اور علماءِ مذہب کا معرکہ ہے۔
(۳) تیسرا بڑا سبب وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس پر تو غور نہ کیا کہ مذہب و عقلیات میں اصولاً کوئی تصادم ہے یا نہیں؟ اگر کسی جگہ کوئی اختلاف ہے تو اسکی نوعیت کیا ہے؟ پھر بھی مذہب کی مخالفت اور فلسفہ و سائنس کی زبان سے جو بات بھی نکلی اس کی تائید اپنا فرضِ مذہبی سمجھ لیا۔
غرض سائنس و مذہب کے باہمی عناد و تصادم کا افسانہ جس قدر دراز اور عالمگیر ہے اس سے بدرجہا زیادہ بے بنیاد اور غلط ہے، اگلی تحاریر میں اس نقطے پر وضاحت پیش کی جائیگی ۔
دائرہ کار کا فرق:
مذہب و سائنس کی بے تعلقی کو پوری طرح سمجھنے کے لئے پہلے ان کے باہمی فرق اور بعدِ کی حقیقت کو اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہئے، آپ سائنس کے دائرہ کار پر غور کریں۔ سائنس کی بحث و تحقیق کا تعلق تمام تر فطرت (نیچر) کے واقعات، مشاہدات اور تجربات سے ہے جبکہ مذہب کا میدان فوق الفطرت اور تجربہ و مشاہدہ کی دسترس سے ماوراء چیزوں پر ہے، مثلاً خدا، روح، حشر و نشر وغیرہ۔
مذہب جن سوالات کا جواب دیتا وہ سائنس کا موضوع ہی نہیں ، مثلا نیوٹنؔ قانونِ کشش دنیائے سائنس کا عظیم ترین اکتشاف قرار پایا
لیکن خود یہ قانونِ کشش کیا ہے؟ کیسے وجود میں آیا ہے؟ ازلی ہے یا کسی کا مخلوق؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب میں علماءِ سائنس کی زبانیں گنگ ہیں، سائنسدانوں کے مطابق عالم کی اس مشین کے اندر بھی ایک مخفی مشین کارفرما ھے لیکن کارخانہ عالم کی یہ اندرونی مشین خود کیا ھے اور کیسے بنی اس کو چلانے والی قوت کیسے اور کہاں سے آئی؟ علمی زبان میں یوں کہیں کہ سائنس صرف ثانوی اور قریبی علل و اسباب پر سے پردہ اٹھا کر واقعاتِ عالم کی یک گونہ توجیہہ و تشریح کرسکتی ہے، عللِ اولیٰ کا پتہ لگانا سائنس کے دائرۂ بحث سے قطعاً خارج ہے ۔ ہکسلے کے بقول ’’کسی شئے کی بھی کامل توجیہ و تعلیل نہیں ہوسکتی کیونکہ انسان کا اعلیٰ سے اعلیٰ علم بھی سلسلۂ توجیہ میں آغاز اشیاء کی جانب چند قدم سے آگے نہیں بڑھ سکتا‘‘، اب خدایا علت اولیٰ کے ابطال و اثبات کا بوجھ سائنس پر ڈالنا کیا سائنس کی حقیقت سے جہل اور بما لایرضی بہ القائل نہیں ہے؟
کیا بوالعجبی ہے کہ جس ذمہ داری سے سائنس کی کتاب ’’ابجد‘‘ اس صراحت کے ساتھ اباء و انکار کرتی ہے اسی کا ہم اپنے جہل سے اس کو مدعی بتاتے ہیں! عقل و دانش کے مدعی انسان کی بے عقلی اور گمراہی کا سب سے زیادہ حسرت ناک منظر وہ ہوتا ہے کہ بعض خارجی اتفاقات و حالات کی بناء پر وہ بہت سی ایسی چیزوں کو مسلم سمجھ بیٹھتا ہے جو واقفیت کے لحاظ سے اسی قدر بے سر و پا ہوتی ہیں جس قدر کہ مشہور و مقبولِ عام ہوتی ہیں۔
سائنس کے ہزاروں طلباء اس کے مختلف شعبوں میں تحصیل کرتے ہیں اور ایک ایک شعبہ پر بیسیوں کتابیں نظر سے گذرتی ہیں جن میں ایک باب بھی ایسا نہیں ہوتا جس میں خدا، روح، حشر و نشر وغیرہ کے ابطال و اثبات سے ایک سائینٹفک واقعہ و حقیقت کی حیثیت سے بحث ہو، پھر بھی یہ غوغا ہے کہ ’’بے اعتقادی نے اعتقاد کی جگہ لے لی ہے، اسی طرح عقل نے صحیفۂ آسمانی کی، سیاست نے مذہب کی، زمین نے آسمان کی، عمل نے عبادت کی، مادّی احتیاج نے دوزح کی اور انسان نے دیندار کی‘‘۔ (مقدمہ فلسفہ، از:پاکن:۳۱۷)
بے شک ایک سائنسدان ہیئت اجرام سماوی ان کی باہمی کشش اور قوانینِ حرکت سے بحث کرتا ہے اور کرسکتا ہے، لیکن کیا وہ اس کشش و حرکت کی ماہیت اور انتہائی علت بھی بتاتا ہے یا بتاسکتا ہے؟ ریاضیات کا ماہر اور عدد اور مکان (اسپیس) کے علائق کا پتہ لگاسکتا ہے، لیکن کیا وہ مکان کی اصل حقیقت کا بھی کوئی نشان دے سکتا ہے؟ اتنا بھی تو نہیں معلوم کہ یہ کوئی ذہنی شئے ہے یا خارجی؟ علم الحیات کے اکتشافات سے یہ معلوم ہوگیا ہے کہ جاندار اجسام کاربن، آکسیجن، ہائیڈروجن اور نائٹروجن سے مرکب ہوتے ہیں، لیکن کیا کوئی حیاتیات کا محقق اس کا سراغ لگا سکتا ہے کہ ان مختلف مواد کی کیمیاوی ترکیب و تعامل سے زندگی اور اس کے افعال احساس و شعور وغیرہ خودبخود کیونکر اور کیسے پیدا ہوجاتے ہیں؟ عالم کیمیاء و طبعیات، ایٹم، الیکٹرک کے وجود کا اعویٰ کرسکتا ہے، لیکن کیا وہ بجلی اور ایتھر کی حقیقت کے علم کا بھی دعویدار بن سکتا ہے؟ الحاصل علم و حکمت کی جس صنف کو بھی دیکھو یہ بیک نظر معلوم ہوجاتا ہے کہ ’’توجیہ و تعلیل کا سلسلۂ آغاز اشیاء کی طرف چند قدم سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔
کم از کم یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ سائنس مذہب کے بنیادی مقدمے کی نفی نہیں کرتی۔ ہاں یہ درست ہے کہ سائنس کا تحقیقی طریقہ کار مذہبی “طریقہ کار” سے مختلف ہوتا ہے۔ اگر رچرڈ ڈاکن یا سٹیفن ہاکنگ خدا کے تصور کو سائنسی تحقیق کے لیے لازمی نہیں سمجھتا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ خدا کا تصور سائنس کی باطنی احتیاج سے جنم لے رہا ہے۔ سائنس نتائج کو تو سامنے لاتی ہے مگر ان نتائج پر جو احکامات صادر کیے جاتے ہیں وہ سائنسی نہیں ہوتے، نہ ہی سائنس کی ضرورت ہوتے ہیں، بلکہ عقائد کی توثیق یا نفی کے لیے ان کا استعمال انہی عقائد کے اندر سے سائنسدانوں کی خواہش کے تحت جنم لیتا ہے۔
مذہب جن سوالات کا جواب دیتا وہ سائنس کا موضوع ہی نہیں ، مثلا نیوٹنؔ قانونِ کشش دنیائے سائنس کا عظیم ترین اکتشاف قرار پایا
لیکن خود یہ قانونِ کشش کیا ہے؟ کیسے وجود میں آیا ہے؟ ازلی ہے یا کسی کا مخلوق؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب میں علماءِ سائنس کی زبانیں گنگ ہیں، سائنسدانوں کے مطابق عالم کی اس مشین کے اندر بھی ایک مخفی مشین کارفرما ھے لیکن کارخانہ عالم کی یہ اندرونی مشین خود کیا ھے اور کیسے بنی اس کو چلانے والی قوت کیسے اور کہاں سے آئی؟ علمی زبان میں یوں کہیں کہ سائنس صرف ثانوی اور قریبی علل و اسباب پر سے پردہ اٹھا کر واقعاتِ عالم کی یک گونہ توجیہہ و تشریح کرسکتی ہے، عللِ اولیٰ کا پتہ لگانا سائنس کے دائرۂ بحث سے قطعاً خارج ہے ۔ ہکسلے کے بقول ’’کسی شئے کی بھی کامل توجیہ و تعلیل نہیں ہوسکتی کیونکہ انسان کا اعلیٰ سے اعلیٰ علم بھی سلسلۂ توجیہ میں آغاز اشیاء کی جانب چند قدم سے آگے نہیں بڑھ سکتا‘‘، اب خدایا علت اولیٰ کے ابطال و اثبات کا بوجھ سائنس پر ڈالنا کیا سائنس کی حقیقت سے جہل اور بما لایرضی بہ القائل نہیں ہے؟
کیا بوالعجبی ہے کہ جس ذمہ داری سے سائنس کی کتاب ’’ابجد‘‘ اس صراحت کے ساتھ اباء و انکار کرتی ہے اسی کا ہم اپنے جہل سے اس کو مدعی بتاتے ہیں! عقل و دانش کے مدعی انسان کی بے عقلی اور گمراہی کا سب سے زیادہ حسرت ناک منظر وہ ہوتا ہے کہ بعض خارجی اتفاقات و حالات کی بناء پر وہ بہت سی ایسی چیزوں کو مسلم سمجھ بیٹھتا ہے جو واقفیت کے لحاظ سے اسی قدر بے سر و پا ہوتی ہیں جس قدر کہ مشہور و مقبولِ عام ہوتی ہیں۔
سائنس کے ہزاروں طلباء اس کے مختلف شعبوں میں تحصیل کرتے ہیں اور ایک ایک شعبہ پر بیسیوں کتابیں نظر سے گذرتی ہیں جن میں ایک باب بھی ایسا نہیں ہوتا جس میں خدا، روح، حشر و نشر وغیرہ کے ابطال و اثبات سے ایک سائینٹفک واقعہ و حقیقت کی حیثیت سے بحث ہو، پھر بھی یہ غوغا ہے کہ ’’بے اعتقادی نے اعتقاد کی جگہ لے لی ہے، اسی طرح عقل نے صحیفۂ آسمانی کی، سیاست نے مذہب کی، زمین نے آسمان کی، عمل نے عبادت کی، مادّی احتیاج نے دوزح کی اور انسان نے دیندار کی‘‘۔ (مقدمہ فلسفہ، از:پاکن:۳۱۷)
بے شک ایک سائنسدان ہیئت اجرام سماوی ان کی باہمی کشش اور قوانینِ حرکت سے بحث کرتا ہے اور کرسکتا ہے، لیکن کیا وہ اس کشش و حرکت کی ماہیت اور انتہائی علت بھی بتاتا ہے یا بتاسکتا ہے؟ ریاضیات کا ماہر اور عدد اور مکان (اسپیس) کے علائق کا پتہ لگاسکتا ہے، لیکن کیا وہ مکان کی اصل حقیقت کا بھی کوئی نشان دے سکتا ہے؟ اتنا بھی تو نہیں معلوم کہ یہ کوئی ذہنی شئے ہے یا خارجی؟ علم الحیات کے اکتشافات سے یہ معلوم ہوگیا ہے کہ جاندار اجسام کاربن، آکسیجن، ہائیڈروجن اور نائٹروجن سے مرکب ہوتے ہیں، لیکن کیا کوئی حیاتیات کا محقق اس کا سراغ لگا سکتا ہے کہ ان مختلف مواد کی کیمیاوی ترکیب و تعامل سے زندگی اور اس کے افعال احساس و شعور وغیرہ خودبخود کیونکر اور کیسے پیدا ہوجاتے ہیں؟ عالم کیمیاء و طبعیات، ایٹم، الیکٹرک کے وجود کا اعویٰ کرسکتا ہے، لیکن کیا وہ بجلی اور ایتھر کی حقیقت کے علم کا بھی دعویدار بن سکتا ہے؟ الحاصل علم و حکمت کی جس صنف کو بھی دیکھو یہ بیک نظر معلوم ہوجاتا ہے کہ ’’توجیہ و تعلیل کا سلسلۂ آغاز اشیاء کی طرف چند قدم سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔
کم از کم یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ سائنس مذہب کے بنیادی مقدمے کی نفی نہیں کرتی۔ ہاں یہ درست ہے کہ سائنس کا تحقیقی طریقہ کار مذہبی “طریقہ کار” سے مختلف ہوتا ہے۔ اگر رچرڈ ڈاکن یا سٹیفن ہاکنگ خدا کے تصور کو سائنسی تحقیق کے لیے لازمی نہیں سمجھتا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ خدا کا تصور سائنس کی باطنی احتیاج سے جنم لے رہا ہے۔ سائنس نتائج کو تو سامنے لاتی ہے مگر ان نتائج پر جو احکامات صادر کیے جاتے ہیں وہ سائنسی نہیں ہوتے، نہ ہی سائنس کی ضرورت ہوتے ہیں، بلکہ عقائد کی توثیق یا نفی کے لیے ان کا استعمال انہی عقائد کے اندر سے سائنسدانوں کی خواہش کے تحت جنم لیتا ہے۔