قرآن میں صرفی نحوی غلطیاں یا۔۔۔

10993404_1597428800493746_6688081204303807120_n

چند سال پہلے چار پانچ جلدوں میں ایک کتاب شائع ہوئی ۔ اس میں قرآنِ پاک کے بارے میں دورِ جدید کے صفِ اوّل کے مستشرقین کے منتخب مضامین شائع ہوئے ۔ ان مضامین میں بہت سی باتیں کہی گئی ہیں۔ ایک عجیب و غریب بات یہ کہی گئی ہے کہ قرآنِ پاک میں صرفی نحوی اغلاط ہیں۔ اس بات کو بہت زور و شور سے بیان کیا گیا۔
کئی سال پہلے جب یہ کتاب نئی نئی شائع ہوئی تھی تو مجھے ایک مغربی ملک جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ وہاں ایک صاحب جو مسلمانوں کے ساتھ دوسروں کے مقابلہ میں قدرے ہمدردی رکھتے تھے، ان سے کئی روز گفتگو رہی۔ انہوں نے ایک دن اس کتاب کا ذکر کیا اور زور دے کر کہا کہ قرآنِ پاک میں صرفی و نحوی اغلاط پائی جاتی ہیں۔ یہ بڑی عجیب بات ہے۔
میں نے ان سے پوچھا کہ انگریزی زبان کی قدیم ترین گرامر کی کتاب کب لکھی گئی تھی؟ انہوں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں۔ میں نے کہا چلیں کسی اور سے معلوم کر لیتے ہیں۔ کسی سے پوچھا تو بتایا گیا کہ دو سو یا سوا دو سو سال پہلے لکھی گئی تھی۔ میں نے کہا اگر انگریزی گرامر کی کسی کتاب میں اور شکسپیئر کے کلام میں کوئی تناقض ہو تو آپ شکسپیئر کو نحوی غلطی کا مرتکب کہیں گے یا اس کتاب کے مصنف کو غلطی کا مرتکب اور اس کے بیان کو غلط قرار دیں گے جس نے گرامر کی کتاب لکھی ہے۔
کہنے لگا کہ یقینا مصنف نے غلط لکھا ہو گا۔ میں نے کہا کہ عربی زبان میں گرامر کی جو قدیم ترین کتابیں لکھی گئیں وہ نزولِ قرآن کے دو سو برس بعد لکھی گئیں اور غیر عربوں نے لکھیں۔ اگر قرآنِ مجید میں گرامیٹیکل مسٹیک ہوتی تو کفارِ مکہ اور مشرکین اور پوری عرب دنیا خاموش نہ رہتی اور اس غلطی کا بتنگڑ بنا دیتی۔ وہ عرب فصحاءجو قرآن کے چیلنج کے جواب میں خاموش تھے، وہ اس غلطی کی نشاندہی کرتے۔ لیکن کبھی بھی کسی بڑے سے بڑے ادیب اور عرب کے بڑے سے بڑے شاعر نے قرآنِ مجید کے کسی اسلوب یا انداز کو عربی زبان اور گرامر سے متعارض نہیں کہا۔
پھر میں نے ان سے عرض کیا کہ اردو زبان میں قدیم ترین گرامر ایک مغربی مصنف ڈاکٹر گِل کرائسٹ نے لکھی تھی۔ گل کرائسٹ کی گرامر اردو کی قدیم ترین گرامر ہے۔ میں نے کہا کہ اردو وہ ہے جو مرزا غالب نے لکھی ہے، خواہ گل کرائسٹ کچھ بھی کہے۔ مرزا غالب کی کوئی تحریر اگر ڈاکٹر گل کرائسٹ کے سارے قواعد کے خلاف بھی ہو گی تو یہی کہا جائے گا کہ گل کرائسٹ کی کتاب غلط ہے، اس نے اردو زبان کے قواعد کو غلط سمجھا ہے۔ گل کرائسٹ کے کسی بیان سے مرزا اسد اللہ غالب کا کلام غلط نہیں ہوگا۔ اور اردو وہ ہے جو ذوق نے لکھی۔ اردو وہ ہے جو میر تقی میر نے لکھی۔ اگر ان اساطینِ اردو کے بر خلاف اردو کے کسی بڑے سے بڑے ماہرِ صرف نے کوئی بات لکھی ہے تو وہ غلط ہے۔
لہٰذا عربی زبان وہ ہے جو قرآنِ پاک میں بیان ہوئی ہے۔ عربی زبان وہ ہے جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زبانِ مبارک سے نکلی۔ جس کو دشمنوں نے، اپنوں پرایوں دونوں نے عربی زبان کا اعلیٰ ترین معیار قرار دیا۔ جنہوں نے قرآنِ مجید کے ادبی اعجاز کے سامنے سرِ تسلیم خم کیا۔ لہٰذا اس اصول کی رو سے قرآنِ مجید اور حدیث رسول کی زبان ہی اصل، معیاری اور ٹکسالی عربی زبان ہو گی اور اگر گرامر کی کسی کتاب میں اس کے خلاف لکھا گیا ہے تو غلط لکھا گیا ہے۔
(از محاضراتِ سیرت۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی، ص 715-716)

 

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password