مرے حاجی مراد۔۔۔

1488866_1590943611142265_249933276259806551_n

انیسویں صدی میں قفقاز کی سر زمین پر گوریلا لڑائی کے امام امام شامل سے شاید ہی کوئی آگاہ مسلمان ناواقف ہو ۔۔ جب سرزمین ہند پر مکتب شاہ والی اللہ کے سپوت سکھوں اور فرنگیوں کے خلاف لڑ رہے تھے اسی زمانے میں قفقاز ( جو آج تک ہماری ذہنی دیو مالا میں کوہ قاف ہے اور ایک تحقیق کے مطابق مہمند قبیلہ اور اس کی شاخ محسود کے اجداد قفقاز ہی سے آئے تھے ) میں زار روس کے خلاف حریت کی لڑائی لر رہے تھے ۔۔۔ گوریلا لڑائی میں پوری معلوم تاریخ میں شاید ہی اتنے طویل عرصے تک کسی نےمزاحمت کی ہو ۔۔
امام شامل کے ایک ساتھی حاٍٍٍٍٍجی مراد تھے ۔۔ حاجی مراد کا امام شامل کے ساتھ ملنے کا واقعہ بھی بہت دلچسپ ہے ۔۔ حاجی مراد پہلے زار روس کی فوجوں کے ساتھ تھے ۔۔۔ جہاں وہ اایک طویل مدت تک زار روس کی وفاداری میں داد شجاعت دیتے رہے ۔۔ لیکن ان کے ازلی دشمن احمد خان نے ان پر یہ الزام لگایا کہ یہ امام شامل کے ساتھی ہیں ۔۔ اور وجہ یہ بتائی کہ ان کی پگڑی اور داڑھی بالکل شامل جیسی ہے ۔۔ زار روس کی فوج احمد خان کی باتوں میں آ گئی اور حاجی مراد کو چالیس آدمیوں کی معیت میں قتل کرنے کے لئے بھیجا ۔۔ جہاں راستے میں وہ ڈرامائی طور پر چالیس فوجیوں کو تن تنہا مار کر بھاگ نکلے اور واقعتا امام شامل کے ساتھ مل گئے ۔۔ اور ایسے ملے کہ جب جب امام شامل کی مقاومت کا ذکر آتا ہے اس میں حاجی مراد کی کئی دہائیوں پر پھیلی ہوئی بہادری اور شجاعت کی داستانیں بھی ساتھ آتی ہیں ۔۔۔۔ آخر میں اٹھارا سو باون کے قریب کسی غلط فہمی کی بنا پر وہ امام شامل سے علیحدہ ہو کر دوبارہ لشکر زار روس میں چلے گئے ۔۔ لیکن کچھ مدت بعد احساس ہونے پر جب واپس آنے لگے تو روسی فوج کے ساتھ طویل مڈ بھیڑ ہوئی اور اپنے چار ساتھیوں سمیت شہید ہوگئے
حاجی مراد کو ادب میں بہت ذکر کیا گیا خاص طور پر مشہور ناول نگار ٹالسٹائی نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں حاجی مراد پر ناول لکھا ۔۔۔ ٹالسٹائی کو اپنے باقی ناولوں کی طرح اس ناول کی ایڈٹنگ کا موقع نہیں مل سکا ۔۔
آج کی صورتحال کے تناظر میں میں حاجی مراد پہ ایک نظم

مرے حاجی مراد
بدل جانے کا موسم آگیا ہے
تجھے تیری طبیعت اور جرات ہی سے کب کوئی وفاداری کا حامل جانتے ہیں
یہ احمد خان
زار روس حاضر کے غلام ابن غلام
تجھے تو تیری داڑھی اور پگڑی ہی کے بل بوتے پہ شامل کی صفوں میں کب کا شامل جانتے ہیں
وفا کا مسئلہ کب ہے
یہاں پہچان ہی کی ظاہری پرتوں سے سب فکرونظر کے مصدروں کو نامزد کرنا ہی عصر نو کے علمی اور تحقیقی کلیثوں کا تقاضا ہے
یہی بندوق کی سنگین سے لکھے ہوئے آئین کا اکیسواں روشن اشارہ ہے
غلامی اب نئے ناموں سے آئی ہے
سبھی اچھے برے سارے پرانے نام و نقش زندگی باطل ہیں
اک ترمیم عجلت سے
نگر میں بےجوازی رقص کرتی پھر رہی ہے
اور خرد کے ٹھیکے داروں کو ہر اک ابلاغ کی بدرو فتاوی جات سے بہتے کنستر دے رہی ہے
روایت کے بجائے ان فتاوی میں حکایت پر بھروسہ کرتے سرمایے کے تشریحی مکاتب کے اماموں کے حوالے ہیں
تماشائی رہے ہیں جو وہ خود اک دن تماشہ بننے والے ہیں
تجھے آئے گا یاد
ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍبدل جانے کا موسم آگیا ہے

رفاقت راضی

 

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password