بنوقریظہ کے واقعے سے نکالے گئے ایک غلط جواز کا جواب

10624703_1571295329773760_4395261164905166145_n

سوشل میڈیا پر ملحدین کا ایک پیج جو اپنے جھوٹ گھڑنے کی وجہ سے مشہور ہے نے سانحہ پشاور کے واقعے کے بعد طالبان کی طرف سے  آرمی اسکول کے بچوں کو قتل کرنے کے حق میں بنو قریظہ کے واقعے سے استدلال کا ایک پوسٹر شائع کیا۔ جس سے اس نے ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کی ۔ یہ پوسٹر بہت جگہ شئیر ہوا اور لوگوں نے اسے طالبان کی طرف سے سمجھ کر  اس پر علمی بحثیں بھی کیں ۔
یہ ایک انتہائی بیہودہ استدلال تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ  بنو قریظہ کے مردان جنگی کے قتل کا فیصلہ خود انہی بنوقریظہ کے مطالبے پر مقرر کردہ حکم (سعد بن معاذ) نے کیا اور وہ تورات کی شریعت کے مطابق تھا۔
بنوقریظہ کے یہودی یہودیوں کے کسی مدرسے میں بیٹھ کر تعلیم حاصل نہیں کر رہے تھے جن پر اچانک جا کر دھاوا بول دیا گیا اور کہا گیا کہ زیر ناف بال دیکھ کر بالغوں اور نابالغوں کو الگ کر دیا جائے اور بالغوں کو قتل کر دیا جائے۔
بنو قریظہ نے مسلمانوں کے ساتھ عہد شکنی کی تھی اور ایک نہایت نازک موقع پر مدینہ پر حملہ آور مشرکین کے ساتھ ساز باز کر کے مسلمانوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی سازش کی تھی۔ ان کا باقاعدہ جنگی قوانین کے مطابق محاصرہ کیا گیا اور پھر انھی کے مطالبے پر انھیں اس شرط پر ہتھیار ڈالنے کی اجازت دی گئی کہ ان کے متعلق فیصلہ ان کے اپنے منتخب کردہ حکم سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے کروایا جائے گا۔
چونکہ بنو قریظہ کی پوری آبادی اس جنگی جرم میں ملوث تھی، اس لیے ان کے عورتوں اور بچوں کوچھوڑ کر تمام مردان جنگی کو یہ سزا دیا جانا کسی بھی لحاظ سے جنگی اخلاقیات کے منافی نہیں تھا۔ اس سے یہ استدلال کرنا کہ دشمن کے کیمپ سے متعلق غیر مقاتلین پر اور وہ بھی ایک تعلیمی ادارے میں جمع ہونے والے معصوم بچوں پر حملہ آور ہو کر انھیں قتل کر دینا، سنت نبوی کی پیروی ہے، جہالت کی ایک عبرت ناک مثال ہے۔

 

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password