فیمنزم- مختصر مگر جامع

دوائیاں، ہتھیار اور عورتیں

ان تینوں چیزوں کو سرمایہ دارانہ نظام کی مکمل حمایت، پشت پناہی اور تحفظ حاصل ہے۔
وہ دوائی جس کی تیاری پر شاید چار آنے بھی لاگت نہ آتی ہو، غریبوں کو سینکڑوں روپوں میں ملتی ہیں۔ اگر یقین نہ آئے تو ایک ہی دوائی کی قیمت، پاکستان، ہندوستان، یورپ اور امریکہ میں چیک کر کے دیکھ لیں۔
ہتھیاروں کی تیاری اور فروخت بھی ان کا بہت اہم بزنس ہے اور جن کا یہ بزنس ہے وہ کیوں چاہیں گے کہ دنیا میں امن ہو۔ لہٰذا ہم دیکھ رہے ہیں کہ ملکوں کو آپس میں لڑایا جا رہا ہے، قوموں کو ایک دوسرے کے مدمقابل لایا جا رہا ہے اور وہ مہلک ہتھیار بھی یوں ہی نہیں، بلکہ انسانی بستیوں پر استعمال کرکے، باقاعدہ تجربہ کرنے کے بعد فروخت کیے جا رہے ہیں۔

اسی طرح عورت کا معاملہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سچ یہ ہے کہ دنیا کی ساحلی پٹیوں پر موجود تمام کے تمام شہر محض جنس کے کاروبار پر چل رہے ہیں۔ ہوٹل ہوں یا کیفے، بار ہوں یا نائٹ کلب، مساج سینٹر ہوں یا پارلر ہاؤس، ٹور انڈسٹری ہو یا سفاری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب کے سب عورت کے سوا پھیکے اور ماند ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لہٰذا غریب و نادار ملکوں میں بسنے والی حوا کی لاچار و بے بس بیٹیوں کو ورغلا کر، بہلا پھسلا کر یا پھر زبردستی بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس آگ میں جھونکا جا رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ انڈسٹری بھی کیوں چاہے گی کہ عورت پردہ کرے، گھر میں بیٹھے یا پھر کم از کم مخلوط محفلوں ہی سے دور رہے۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جدید فلسفہ معاشرت کی رو سے جنسی جذبات کو انگیخت کرنے اور اس کے علاوہ تشہیری مقصد کے لیے نسوانی حسن کو سامان تجارت کے طور پر استعمال کرنے کے لیے پوری پوری صنعتوں کو منظم کرنا ایک بالکل جائز بلکہ مطلوب سرگرمی ہے، لیکن اس سارے بندوبست کے ناگزیر نتیجے کے طور پر جب خواتین کو عدم تحفظ اور جنسی ہراسانی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اس کی قانونی روک تھام کی کوشش کی جاتی ہے جو کبھی مطلوب سطح پر موثر نہیں ہو سکتی۔مرد کے مزاج میں جنسی جارحیت اپنی جگہ ایک مسئلہ ہے۔ حریت نسواں کے نام سے اس جارحیت کو انگیخت کرنے کے جن طریقوں کا جواز مانا جاتا، لیکن ان کے لازمی نتائج ومضمرات سے نظریں چرائی جاتی ہیں، وہ سادہ فکری اور غیر حقیقت پسندانہ سوچ ہے جس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ یہ طرز فکر اس تضاد فکری بلکہ ایک لحاظ سے منافقانہ ذہنی رویے کا ایک مظہر ہے جسے جدید فلسفہ معاشرت کی خصوصیت شمار کیا جا سکتا ہے۔
جنسی ہراسانی کا تعلق صرف مرد کی جارحیت سے نہیں ہے، اس کو تقویت دینے والے اسباب میں بنیادی کردار عورت سے متعلق اس عمومی ذہنی واخلاقی تصور کا ہے جو کسی معاشرے میں پایا جاتا ہے۔ اگر عمومی معاشرتی ماحول اور اس میں ذہنی واخلاقی تربیت کے ذرائع عورت کے متعلق احترام، ہمدردی اور تحفظ کا رویہ پیدا کریں گے (جس کے لیے مرد وزن کے اختلاط اور نسوانی حسن کی نمائش کے حدود وآداب کی اہمیت بنیادی ہے) تو اس کے نتائج اور ہوں گے، لیکن اس پہلو کو نظر انداز کیا جائے گا تو ایسے ماحول میں جنسی ہراسانی اور خواتین کے عدم تحفظ جیسے مسائل مستقل طور پر حل طلب رہیں گے۔ جدید فلسفہ حیات، معیشت کے دائرے میں سرمایہ داری اور معاشرتی اقدار کے دائرے میں فرد کی مطلق حریت جیسے تصورات پر اندھے ایمان کی وجہ سے معاملے کے اس پہلو سے نظریں چرانے پر مجبور ہے اور اسی وجہ سے اس طرح کے مسائل کے حل میں ناکام بھی ہے۔
عمار خان ناصر

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ایک صاحب نے پوچھا کہ آخر ایک عورت کس طرح گھریلو زندگی کی جکڑ بندیوں پر راضی ہوسکتی ہے، یہ تو انسانیت کی تذلیل ہے، آپ کو حیرانی نہیں ہوتی؟ عرض کی بالکل اسی طرح جیسے “ماڈرن عورت” اشیاء بیچنے کے لئے خوشی خوشی اشتہاروں میں نسوانیت کی تذلیل کرانے پر راضی ہے۔ جس طرح آپ کو یہاں حیرانی نہیں ہوتی اور اس عورت کو عجیب نہیں لگتا ہمیں بھی اول الذکر پر نہ تو حیرانی ہوتی ہے اور نہ ہی ہماری خواتین کو یہ عجیب لگتا ہے۔ یہ اپنا اپنا زوایہ نگاہ ہے۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سرمایہ دارانہ نظام میں ہر چیز چاہے وہ معدنیات ہو، موسم ہو، جنگی حالات ہوں، سائنسی ترقی اور ایجادات ہوں حتی کہ انسان بھی ہو صرف پیسے بڑھانے کے وسائل ہوتے ہیں۔ اسی لئے Corporate- world میں انسانوں کی دو ہی اقسام ہو تی ہیں؛ انسانی وسائل(Humam-resources) اور صارف (Consumer)۔ چاہے مرد ہویا عورت ، ایک سرمایہ دار انسان اس کو صرف اس نظر سے دیکھتا ہے کہ معاشی ترقی میں یہ کس طرح سود مند ہوسکتا ہے۔
یہاں پر سرمایہ دار انسان سے ہماری مراد ہر وہ شخص ہے جس کی ذہنی ساخت سرمایہ دارانہ نظام کے تحت تشکیل پائی ہو۔ آپ مشرق کے ایک سنجیدہ اور پڑھے لکھے شخص کو بھی یہ کہتا سنیں گے کہ “وہ قوم کیسے ترقی کر سکتی ہے جس کی آدھی آبادی (عورتیں) گھروں میں بیٹھی ہوں”۔یعنی یہ ذہن ترقی سے مراد صرف معاشی ترقی لیتا ہے اور خاندانی نظام جو کہ ترقی سے بھی پہلے کسی بھی قوم کی بقاء کا ضامن ہے اس کے ٹوٹنے میں کوئی حرج نہیں جانتا۔ اس نظام کے تحت مرد اور عورت دونوں سامان تجارت ہیں اور معاشی ترقی کا ذریعہ ہیں اور بس۔ جبکہ اسلامی نظام کے تحت اگر ایک مرد کسب حلال کمانے کے لئے محنت کرتا ہے تو وہ اس لئے کہ اس کا خاندانی نظام اس سے اسکا تقاضا کرتا ہے، یہاں پر معاشی ترقی ثانوی چیز ہوتی ہے۔اور اگر ایک عورت گھر کی چہار دیواری میں رہتی ہے تو بھی اس لئے کہ اسلام کا خاندانی نظام اس سے اس کا تقاضا کرتا ہے نہ کہ اس لئے کہ اس کے نزدیک معاشی ترقی کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔
مختصراً یہاں یہ سمجھ لیجئے کہ اصل سوال مرد اور عورت کے برابری کا نہیں ہے، کہ اپنی نفسیاتی اور جسمانی ساخت کی بنا پر مردوعورت برابر ہو ہی نہیں سکتے۔ یہاں اصل مقابلہ اس بات کاہے کہ کسی قوم کے لئے سرمایہ داری زیادہ اہمیت رکھتی ہے یا اس کا خاندانی نظام۔
(ابوزید، سہ ماہی ایقاظ)

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جدید لبرل مارکیٹ عورت کا سب سے بڑا سوداگر ہے۔ اس مارکیٹ میں روز عورت کی ہر ادا اور ہر اندام کی بولی لگتی ہے۔ اور اسی عورت کا استعمال کرکے نئے صارفین کو اس مارکیٹ کی طرف مائل کیا جاتا ہے۔ عورت کو بنیادی حق اور آزادی کے نام پر سبز باغ دکھا کر اس کو مارکیٹ میں بطور پراڈکٹ بیچنے کے لئے تیار کرکے لایا جاتا ہے۔اس بزنس میں عورت کی برہنگی کو مرکزی کردار حاصل ہے۔ اس کے لئے سماجی سطح پر مختلف مہمات اور ریاست کی سطح پر رفارمز متعارف کیے جاتے ہیں، تا کہ روایتی عورت کی برہنگی یقینی بنائی جا سکے۔ تدریسی نصاب ان کا بنیادی ٹارگٹ ہے۔ فی الحال ڈراموں، فلموں اور میڈیا کے لیول پر اس کے لئے ذہن سازی کیا جارہا ہے، تا کہ یہ برہنگی نارملائز ہو جائے۔ یہ کاروبار شرق و غرب میں بلا تفریق چل رہا ہے، البتہ مغرب میں ترقی یافتہ شکل میں موجود ہے اور مشرق میں مستحکم ہونے کی اب کوشش ہورہی ہے۔
خالد جامعی

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

بلاشبہ پاکستان میں خواتین کی حق تلفی ہوتی ہے‘ انہیں وراثت میں حصہ نہیں ملتا‘ جہالت‘ پسماندگی‘ کم مواقع اور معاشی بدحالی کی وجہ سے لڑکیوں کو لڑکوں کی طرح تعلیم اور روزگار کے مساوی حقوق حاصل نہیں‘ خواتین صنفی امتیاز کا نشانہ بنتی ہیں اور انہیں گلی محلے‘ دفاتر اور کاروباری مراکز میں ہراساں کیا جاتا ہے اگر کوئی مرد یا عورت ‘ ادارہ یا گروہ اس پر آواز بلند کرتا ہے تو پوری قوم کی طرف سے تعریف کا مستحق ہے۔ ہماری سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو اسی حوالے سے زور دار مہم چلانے کے علاوہ مساوی حقوق اور مواقع کے لئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے لیکن حقوق نسواں کے نام پر اخلاقی حدود اور اسلامی اقدار سے بغاوت؟ یہ سوچی سمجھی شرارت ہے خواتین بالخصوص ناپختہ ذہن کی نوعمر بچیوں کو باپ‘ بھائی‘ شوہر کے رشتے سے متنفر کرکے خاندان کی بنیادی اکائی کو توڑنے اور بے حیائی‘ مادر پدر آزادی اور فحاشی کے کلچر کو فروغ دینے کی تدبیر۔ حقوق نسواں کے نام پر معاشرے کو مذہب‘ مذہبی روایات و مشرقی اخلاقیات اور سوشل فیبرک کو توڑنے والی اس مہم کو محض چند خواتین اور ایک آدھ فارن فنڈڈ این جی او کا کیا دھرا قرار دے کر چشم پوشی نہیں کی جا سکتی۔
بینر پر درج نعروں سے یہ تاثر ملتا ہے کہ جنسی زیادتی سے زیادہ انہیں نکاح ناپسند ہے‘ رشتے بنانا اور بچانا نہیں بلکہ بگاڑنا مقصد اولین ہے اور ستروحجاب سے انہیں نفرت‘ عریانی ‘ فحاشی اور فحش گوئی سے انہیں پیار ہے ’’ورنہ میں اکیلی‘ آوارہ‘ بدچلن‘‘ کا کتبہ اٹھا کر کوئی شریف خاتون سڑک پر کھڑی نہیں ہو سکتی۔ اس معاشرے میں نہیں دنیا کے کسی دوسرے مہذب ملک میں بھی اگر ایک نوجوان لڑکا ’’میں اکیلا‘ آوارہ اور بدچلن‘‘ کا کتبہ لے کر کھڑا ہو تو اسے ذہنی امراض کے ہسپتال لے جایا جائے گا یا والدین ‘ محلے داروں اور راہگیروں سے وہ جوتیاں پڑیں کہ خدا کی پناہ۔ان مظاہروں سے خواتین کی مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں۔ حقوق و تعلیم نسواں کے مخالف پسماندہ ذہن اسے ہتھیار کے طور پر استعمال کریں گے اور شریف زادیاں منفی ردعمل کا شکار ہوں گی۔
ارشاد احمد عارف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

مرد عورت کے جھگڑوں میں دونوں کا برابر کا نقصان ہے . سرمایہ دارانہ نظام کو یہ دوریاں سوٹ کرتی ہیں . جتنی تنہائ اور نفرت بڑھتی ہے کاروبار دنیا میں اضافہ ہوتا ہے . پیسے پر جھگڑا معیشت کو طاقت بخشتا ہے . مغرب کی دنیا میں فرد کو تنہا کرکے اسے معاشی جدوجہد کا گدھا بنادیا گیا . اسی سے ڈرگ کا کاروبار بھی فروغ پاتا ہے . ہر فرد کی ضروریات جب الگ الگ ہوجاتی ہیں تو مارکیٹ خریدوفروخت میں نئے کسٹمرز پاتی ہیں . فرد کی تنہائ کو صرف اپنے ذات کے امکانات تک محدود رکھ کر نہ سوچئے . محبوب کی رفاقت آپ کو بھی بچاتی ہے اور آپ کے پیسوں کو بھی . سرمایہ دارانہ نظام فرد کو تنہائ بیچ کر اپنے دام کھرے کررہا ہے . گے اور لیزبین سرمایہ دارانہ نظام کے روبوٹ ہیں . یقین نہ آئے تو 20 سال بعد میری بات کو دوبارہ پڑھ لیجئے گا
(مرزا یاسین بیگ)

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

فیمنسٹ سکالر امینہ جمال نے جماعت اسلامی کی خواتین کا مطالعہ کرنے کے بعد کہا کہ لبرل فیمنسٹ تو مذہبی قسم کی خواتین کو صرف مظلوم، مجبور اور مردوں کی خادمائیں قرار دیتے ہیں لیکن یہ انکی بہت بڑی غلطی ہے وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ان خواتین کی اپنے عقائد اور ایمان کے ساتھ کس قسم کی وابستگی ہےاور پاکستان میں مذہبی خواتین جس طرح منظم اندا ز سے کام کررہی ہیں فیمنسٹ حلقے اپنی بیش بہا فارن فنڈنگ کے باوجود انکو کبھی بھی شکست نہیں دے سکتے۔ اسی طرح حمیرا اقتدار نے بھی جماعت اسلامی اور جماعت الدعوۃ کے وومن ونگز کا مطالعہ کیا اوراپنے ریسرچ پیپر میں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ سیاسی تجزیہ کیلئے مذہبی بیانیہ ایک جائز کیٹیگری ہے اور اس میں خواتین کا کردار قابل فہم ہے اور مذہبی خواتین، فیمنسٹ خواتین سے کسی طور پر کم باشعور نہیں ہیں۔ خواتین کے حقوق اور موجودہ دور کی تہذیب و ثقافت میں وہ اپنا بھرپور کردار ادا کرنے سے بخوبی واقف ہیں لیکن وہ مشرقی تہذیبی فریم ورک کے اندر رہ کر کام کر رہے ہیں لیکن خواتین کے حقوق کی وہ تنظمیں جو باہر کے فنڈز سے چلتی ہیں ان پر یہ پریشر ڈالا جاتا ہے کہ وہ باہر کے ایجنڈے پر کام کریں اور انہیں بار بار ڈو مور کیلئے کہا جاتا ہے۔ (وحید مراد)

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جو سادہ لوح خواتین این جی اوز کو خواتین کے حقوق کی ضامن سجھتی ہیں وہ اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ این جی اوز ہی ہیں جنہوں نے خواتین کے حقوق کی تحریکوں اور تنظیموں کو غلط راستے پر ڈال کر گہرا نقصان پہنچایا ہے۔ سب مشہور اور بااثر فیمنسٹ خواتین نے اپنی اپنی این جی اوز بنا لیں اور دنیا بھر سے فنڈز اکھٹے کرکے اس شعبے کو ایک بزنس اور انڈسٹری بنا دیا۔ اب انکا کل کام یہ ہے کہ فنڈز کو حلال کرنے کیلئےڈونرز کو ہر ماہ سچی جھوٹی رپورٹیں بھیجتی رہیں اور انکے کہنے پر سوشل میڈیا پر واویلا مچاتی رہیں۔ کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے کے مصداق، ڈونرز انکے فنڈز تو نہیں روکتے لیکن ہمیشہ ان پر” ڈبل گیم” کا الزام لگاتے رہتے ہیں اور انہیں”ڈو مور” کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ جب ڈونرز کی طرف سے فنڈز استعمال کرنے کے معاملے میں سختی کی جاتی ہے تو ان این جی اوز کے اندر آپس میں بھی مسابقت دیکھنے میں آتی ہے اور یہ ایک دوسرے کے پول بھی کھول دیتے ہیں اس طرح کئی این جی اوز کو اب تک مالی بے ضابطگیوں کے الزام میں بلیک لسٹ کیا جا چکا ہے۔
Jeffery Weeks یورپ کا ایک مشہور سوشل سائنٹسٹ ہے جو مغرب کے ایجنڈے پر مسلم ممالک کے اندر جدیدیت، سیکولرازم، فیمنزم، صنفی اور جنسی آزادی کے حوالے سے ہونے والے کام پر بہت گہری نظر رکھتا ہے اور اسکے مطابق ان امور کو سرانجام دینے اور انکو فروغ دینے کے پیچھے بہت بھاری مالی وظائف کارفرما ہیں اور جنکو حلال کرنے کیلئے زیادہ تر زبانی جمع خرچ ہی کیا جاتا ہے اور عملی طور پر کوئی ٹھوس کام نہیں کیا جاتا۔
وحید مراد

٭٭٭٭٭٭٭٭

میرے معلومات میں برابری کے نعرے لگانے اور برابری پر اکسانے والی ایسی کوئی خاتون موجود نہیں ہیں جنہوں نے مرد حضرات کی طرح تعلیم مکمل کرنے کے بعد کوئی نوکری یا کاروبار کیا ہو، گھر بنایا ہو اور پوری طرح سیٹل اور سٹیبلش ہونے کے بعد شادی کے بارے سوچا ہو۔ بلکہ دیکھنے کو یہی ملتا ہے کہ ایسی تمام خواتین نے ہمیشہ سیٹل اور سٹیبلش مردوں سے شادیاں کیں اور پھر ان کے پیسے سے اپنے فارغ وقت کو گزارنے کے لیے این جی اوز بناکر یہ سارے ڈرامے بنا نے میں لگ گئیں۔ ہم بھی چاہیں گے کہ برابری کرنے والی خواتین پہلے اپنے دم پر پیسہ کمائیں، گھر بنائیں اور پھر شادی کریں تاکہ برابری کا اصل مفہوم ہمیں بھی سمجھنے میں آسانی ہو۔
خرم شہزاد

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

حقوق نسواں کے علم برداروں کو یہ ظلم تو نظر آتا ہے کہ نابالغی کی عمر میں بچیوں کی شادیاں کر دی جاتی ہیں،لیکن یہ ظلم کسی کو محسوس تک نہیں ہوتا کہ کچی عمر کی بچیوں کو موبائل اور انٹرنیٹ کی سہولتیں دے کر مخلوط ماحول میں بھیج دیا جاتا اور میڈیا کے متعارف کردہ کلچر کے زیر اثر مخالف صنف سے دوستی کے نام پر جذباتی، نفسیاتی اور بسا اوقات جسمانی استحصال کا شکار ہونے کے لیے بے یار ومددگار چھوڑ دیا جاتا ہے۔اگر مسئلہ واقعی خواتین کو استحصال اور زیادتی سے بچانا ہے تو اس صورت حال کا واحد ماخذ روایتی معاشرہ نہیں۔ جدید لبرل اور سرمایہ دارانہ معاشرت اس استحصال اور تذلیل کے شاید اس سے بھی سنگین مواقع اور صورتیں پیدا کر رہی ہے اور بدقسمتی سے ان کی طرف کسی کی توجہ نہیں۔میری نظر میں یہ چند مظاہر بہت دردمندانہ اور سنجیدہ توجہ کے مستحق ہیں۔
۱) خواتین کو معاشی سرگرمیوں میں شریک کرنے کا ایسا رجحان جس کا نتیجہ آخر یہ نکلے کہ انھیں اپنا معاشی بوجھ خود اٹھانے کا ذمہ دار سمجھا جائے اور مرد ان کی کفالت کی ذمہ داری سے بالکل دست بردار ہو جائیں اور اس سب کا خمیازہ نہ صرف خواتین بلکہ اولاد کو بھی بھگتنا پڑے۔ (ڈے کیئر سنٹرز اس کا صرف ایک مظہر ہیں)۔
۲) کچی عمر میں، جب صنف مخالف کی کشش ایک ہیجان کی صورت اختیار کیے ہوئے ہوتی ہے، بچیوں کو مخلوط تعلیم کے اداروں میں بھیج دینا جہاں آداب اختلاط کی کوئی پاس داری نہ ہو۔
۳) نسوانی حسن کو کاروباری مقاصد کے لیے ایک ذریعہ بنانے کا رجحان جس کا اظہار ماڈلنگ کی مختلف صورتوں میں ہوتا ہے (اور برا نہ مانا جائے تو ٹاک شوز کی مروجہ اینکرنگ اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں)۔
۴) فیمنزم کے عنوان سے مرد اور عورت کے مابین منافرت کے رجحانات اور تصورات کا فروغ جو خواتین کو یہ باور کراتے ہیں کہ مرد دراصل ان کے ’’زوج’’ نہیں، بلکہ دشمن اور حریف ہیں۔ اس کا نتیجہ جس نفسیاتی اور ذہنی وفکری عدم توازن کی صورت میں نکلتا ہے، وہ واقعتاً‌ ایک عبرت کا سامان ہے۔
۵) روزگار اور معاش کے سلسلے میں ملازمت یا تجارت کے لیے میاں بیوی کے درمیان ایسی طویل جدائی کہ میاں بیوی اور بچوں کے ایک جگہ اور اکٹھے رہنے کا تصور بس ایک خیال بن کر رہ جائے۔
۶) خاندانی نظام میں مرد کی برتری اور اختیار کو اس طرح چیلنج کرنا کہ مرد خود کو corner ہوتا ہوا محسوس کرے اور نتیجتاً‌ یا تو خود کو ان ذمہ داریوں سے ہی بری سمجھے جو اختیار کے ساتھ اسے حاصل تھیں اور یا رفتہ رفتہ گھر بسانے میں ہی دلچسپی ختم ہوتی چلی جائے۔
یہ تمام مظاہر کسی تخیل کی پیداوار نہیں ہیں، بلکہ مغربی معاشروں میں ان سب کو بچشم سر دیکھا جا سکتا ہے اور مغربی معاشرہ چلا چلا کر ہمیں یہ دعوت دے رہا ہے کہ
دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو
میری سنو جو گوش نصیحت نیوش ہے
عمار خان ناصر

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

تحریک آزادیٔ نسواں کے اثرات اب مغربی معاشروں میں کھلے عام ظاہر ہونے لگے ہیں۔ خاندان کا شیرازہ بری طرح منتشر ہوگیا ہے ۔بن بیاہی ماؤں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے ۔ اور یہ رجحان اب نو عمر لڑکیوں میں بھی فروغ پارہا ہے۔ ازداجی رشتہ شکست و ریخت سے دو چار ہے ۔ عورتوں کے خود کفیل ہوجانے اور مردوں پر ان کا انحصار کم سے کم ہوجانے کی بنا پر بہت معمولی باتوں پر طلاق کی نوبت آجاتی ہے۔بلکہ اس سے آگے بڑھ کر اب رشتۂ ازدواج ہی کی ضرورت کا انکار کیا جانے لگاہے۔ جب شادی کے بغیر بھی ہر کام ہوسکتا اور ہر خواہش پوری کی جاسکتی ہے تو اس کے بکھیڑوں میں پڑنے کی ضرورت کیا ہے ۔ چنانچہ اب ایسے جوڑوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جو بغیر شادی کے میاں بیوی کی طرح ایک فلیٹ میں رہتے ہیں اور جب چاہتے ہیں ایک دوسرے سے قطع تعلق کرلیتے ہیں۔
ایسا بھی نہیں ہے کہ آزادی کی اس صورت حال سے عورت کو کچھ فائدہ پہنچاہو، بلکہ دیکھا جائے تو وہ سراسر خسارہ میں رہی ہے ۔ خاندان کا ادارہ (Institution) متزلزل ہوجانے اور شادی کا بندھن ڈھیلا پڑجانے ، بلکہ شادی کے بغیر جنسی تعلقات عام ہوجانے کا راست اثر عورت پر پڑاہے۔ مردوں کو ان ذمہ داریوں سے نجات مل گئی جو شادی کے نتیجے میں ان پر عائد ہوتی تھیں اور عورتوں کے سر دوہری ذمہ داریاں آگئیں۔ انھیں وہ بوجھ تو اٹھانا ہی تھا جو فطرت نے ان کے ذمے کیا ہے اور جس میں کوئی دوسرا شریک و سہیم نہیں ہوسکتا، بچوں کی پیدائش کے بعد ان کی پرورش و پرداخت کی ذمہ داری بھی تنِ تنہا ان پر آگئی اور وہ کسی دوسرے کے تعاون سے محروم ہوگئیں۔ ان گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ انھیں اپنی اور اپنے بچوں کی کفالت کے لیے گھر سے نکلنا اور معاشی جدّو جہد کرنا لازم ٹھہرا۔ متعدد سروے رپورٹوں سے پتا چلتا ہے کہ اس صورت حال نے عورتوں کے جسموں ، ذہنوں اور نفسیات پر گہرا اثر ڈالا ہے اور ان میں امراض اور اموات کا تناسب بڑھاہے ۔ بن بیاہی ماؤں سے پیدا ہونے والی نسل کی مناسب پرورش اور تربیت کا مسئلہ اس پر مستزاد ہے ۔ شفقتِ پدری سے محروم ہونے کی وجہ سے اس کی متوازن ذہنی اور نفسیاتی اٹھان نہیں ہوپارہی ہے جس کی بنا پر یہ نسل مغربی معاشروں کے لیے طرح طرح کے مسائل پیدا کررہی ہے ۔
ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سماجی نر مادگی (Social Androgyny)

‎ایک سماجی تبدیلی کا نام ہے جس کا بانی اور مبلغ جدید صارفی سرمایہ دارانہ نظام یعنی Modern Consumer Capitalism ہے. جو ملٹی نیشنل کمپنیز کی شکل میں ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ یہ تبدیلی ان کثیر جہتی پلانٹڈ تبدیلیوں میں سے ایک ہے جن کا بنیادی مقصد معاشروں میں تقافتی اور معاشرتی سطح پر ایسی تبدیلیاں لانا جن سے معاشرتی و ثقافتی روایات ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اشیا کی فروخت میں رکاوٹ نہ بن سکیں یعنی وہ معاشرہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے ایک آسان منڈی ثابت ہو. مندرجہ بالا تبدیلی کے چند بنیادی نکات یہ ہیں….

‎1. صنفی اختلافات کی معاشرتی زندگی میں اہمیت کو کم کرتے کرتے اسے صرف حیاتیاتی اختلاف تک محدود کرنا۔

‎2. ہر اس سماجی روایت جس کی اساس صنفی اختلاف پر قائم کی گئی تھی کو بالکل ختم کرنے کی کوشش کرنا اور اس مقصد کے لیےمرد اور عورت کو اُن کی حیاتیاتی اختلافات پر دیئے گئے سماجی کرداروں کو تبدیل کرنے کی طرف راغب کرنا۔

‎3. ایسی متبادل روایات کو معاشرے میں پروان چڑھانا جن کی وجه سے مرد اور عورت کے اچھا صارف بننے کی راہ میں ان کا صنفی معاشرتی کردار رکاوٹ نہ بنے۔

‎4. ایسے مرداور عورتوں کو میڈیا کے ذریعے مثالی انسانوں کےروپ میں پیش کرنا جو معاشرے کے صنفی اختلافات پر دئیے گئے کرداروں کی بندش سے آزاد ہوتے ہیں یعنی وہ نظریاتی یا عملی طور پر ذوجنسی خاصیتوں کا اظہار کرتے ہیں۔

‎امریکہ اور یورپ میں ہم جنس شادیوں کی قانونی اجازت کے پیچھے ملٹی نیشنل کمپینز کا پریشر شامل تھا.. کیونکہ روایتی شادی سے متعلقہ پروڈکٹس کی مارکیٹ سیچوریٹ ہوچکی تھی اور کمپنیز بزنس کی گروتھ کے لیے لوگوں میں “آلڑنیٹیو لائف سٹائل” کے فروغ کی ضرورت محسوس کر رہی تھیں تاکہ ہم جنس پرست “خاندانوں” کی شکل میں نئ قسم کی پروڈکٹس کی فروخت کا مارکیٹ کھلے..

علی احمد

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

فیمن ازم کی اس فکر کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ عورت ایک مرد سے آزادی کے نام پر دوسرے مرد کے استحصال کا شکار ہو جاتی ہے اور سمجھتی ہے کہ اس نے بڑا معرکہ مار لیا، یعنی جو عورت گھر کے مرد کی ”چاکری“ سے تنگ آ کر مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے باہر نکلے گی، تو وہ مجموعی طور پر معاشرے میں مردوں کے کرنے کے کام اپنے ذمے لے کر انکا بوجھ ہلکا کرے گی. ممکن ہے فی نفسہ اس عمل میں کوئی برائی نہ ہو، لیکن اس کو مردوں پر اپنی فتح قرار دینا اور ”لڑ کر“ اپنے حقوق کا حصول سمجھنا، نہایت مضحکہ خیز بات ہے. حقیقت تو یہ ہے کہ مرد نے نہایت چالاکی سے آپ سے اپنا کام نکلوا لیا اور آپ کو پتہ بھی نہ چلا،چلیں آپ فرماتی ہیں کہ آپ کے سکرٹ کی لمبائی آپ کے کردار کا پیمانہ نہ سمجھی جائے. مان لیا. لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ اس لمبائی کے تعین سے لے کر، اس سے ”لطف اندوز ہونے“ تک پس پردہ ہاتھ مرد کا ہی ہے. جن فیشن ٹرینڈز کو آپ فالو کرتی ہیں وہ زیادہ تر کسی مرد کے تخلیق کردہ ہوتے ہیں اور اس کے مطابق ہوتے ہیں جس طرح وہ آپ کو دیکھنا چاہتا ہے. دھوکا ہے وہ آزادی جس پر فخر کر کے آپ ”اپنی مرضی کا“ لباس خریدتی ہیں.
ڈاکٹر رضوان اسد خان

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

کسی صحت مند معاشرے کی بنیاد، مساوات اور ایثار کی بنیاد ہی پر کھڑی ہے۔ دانہ، دانہ پرو کر ایک تسبیح یا مالا بنتی ہے۔ اینٹ، اینٹ جوڑ کر ہی کسی عمارت کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ فرد اکیلا کچھ نہیں۔ خواہشات کا پالنا کوئی بری بات نہیں لیکن ان کی تکمیل کے لیے شارٹ کٹ ہی کیوں؟ محنت، ایمان داری اور قناعت سے بھی تو زندگی گزاری جا سکتی ہے۔ یہ ہمارا چلن ہو چکا ہے کہ جو میسر ہے اسے ” یہ تو جیب ہی میں ہے” سمجھ کر فار گرانٹڈ لیا جائے اور وہ جو دست رس میں نہیں اس کے حصول کی دوڑ میں تمام سماجی، خانگی اور اخلاقی اقدار کی دھجیاں اڑا دی جائیں۔ زندگی کا حسن اعتدال اور مثبت فکر و عمل میں ہے۔ منفی فکر کا دروازہ کبھی سکون کی وادی میں نہیں کھل سکتا۔
فیمن ازم دراصل حسد، تکبر، غصے، انتقام اور ردعمل کی نفسیات پر قائم ایک فلسفہ ہے. اور دنیا کے تمام ماہرین اس پر متفق ہیں کہ غصے اور ردعمل میں کیا گیا کوئی بھی کام کبھی بھی تعمیری اور دیرپا نہیں ہوتا.Patriarchy and misogynyکے خود ساختہ تصورات پر مبنی مردانہ رویوں کا.میں ہرگز مردوں کی عورتوں پر زیادتیوں کی وکالت نہیں کر رہا. صرف اسکو غلط رنگ دینے اور اسکو جنرلائز کر کے ایک تحریک بپا کرنے کے خلاف ہوں. جو کہ اب مکمل طور پر ایک مذہب مخالف تحریک بن چکی ہے.
رضوان اسد خان

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

یہ مولوی ہوتے ہی بڑے دقیانوسی ہیں۔ زمانے میں کہاں جا رہا ہے، کیا چل رہا ہے، انہیں کبھی اس سے غرض نہیں ہوتی۔ یہ کسی بھی چیز کو اٹھائیں گے اور چودہ سو سال پیچھے لے جائیں گے۔ او بھائی! زمانہ کہیں کا کہیں پہنچ گیا اور آپ ہیں کہ ایک اپنی جگہ سے ایک انچ آگے جانے کو تیار نہیں۔ اب بھلا کام دیکھو ان کے، ساری دنیا میں مرد و زن کی مساوات کی بات چل رہی ہے، جتنے ترقی یافتہ ممالک ہیں سب میں عورتیں ہر جگہ مردوں کے شانہ بشانہ دکھائی دیتی ہیں لیکن یہ ہیں کہ ایک ہی رٹ کہ انہیں گھر میں بند رہنا چاہئے۔ اچھی بھلی پوری عورت کو آدھی کیسے کیا جاتا ہے یہ تو کوئی ان سے سیکھے، آدھی گواہی باپ کی جائیداد میں آدھا حصہ۔ کہا جاتا ہے میاں بیوی ایک گاڑی کے دو پہیے ہوتے ہیں لیکن مولوی ان پہیوں کو بھی چھوٹا بڑا کرکے گاڑی کا بیلنس خراب کرنے کے چکر میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کی مانیں تو سارے حقوق مرد کو ہی حاصل ہوجائیں۔ بھائی شادی ہوئی ہے، اگر آپس میں نہیں بنی تو کیا ضروری ہے کہ طلاق مرد ہی دے گا؟ اختلاف عورت کو بھی تو ہوسکتا ہے اسے بھی حق ہونا چاہئے کہ مرد کو طلاق دے سکے۔
یہ وہ گفتگو ہے جو اکثر آپ کو الحادی ذہن رکھنے والے حضرات سے سننے کو ملتی ہوگی۔ وہ یہ سب کچھ حقیقت میں تو کسی اور کو کہنا چاہتے ہیں لیکن ردعمل کے شدید امکان کے پیش نظر آسان ہدف کا انتخاب کرتے ہیں اور وہ ہے مولوی! اب ان حضرات سے پوچھا جائے بھیا چودہ سو سال پہلے کون سا معاشرہ تھا کہ جس کی جانب مولوی ساری دنیا کو لے جانا چاہتا ہے؟ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کے لیے ہادی و راہبر و راہنما اللہ نے بنایا ہے یا کسی مولوی نے؟ عورت کا جائیداد میں آدھا حصہ یا اس کی آدھی گواہی مولوی کی خواہش ہے یا رب العالمین کا قانون؟ طلاق کا حق مرد کو تفویض کرنا اللہ کا فیصلہ ہے یا مولوی کی اختراع؟
کیا یہ حقیقت نہیں کہ جس عورت کو اللہ رب العزت نے ماں بہن بیٹی اور بیوی کی صورت میں کسی بھی گھر میں اعلیٰ ترین مقام عنایت فرمایا تھا، آج حقوق کے نام پر گھر سے باہر لاکر زینتِ بازار بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ آج دنیامیں مظلوم وہ عورت نہیں ہے جو اپنے گھر میں گھریلو ذمہ داریاں ادا کرنے کے بعد باہر کے جھمیلوں سے بالکل آزاد ہے بلکہ وہ عورت ہے جسے عورتوں کے حقوق کے نام پر گھر سے باہر ہے اور بچے پالنے کے ساتھ ساتھ غم روزگار میں پھنسنے پر بھی مجبور ہے۔ دراصل کسی گھر میں عورت کی مستقل موجودگی ہی گھر کو گھر بناتی ہے۔ غیر موجودگی میں گھر کا سارا نظام آیاؤں اور ملازمین کے ہاتھوں میں ہوتا ہے جس کا نتیجہ سوائے گھر کی تباہی اور بربادی کے کچھ نہیں نکلتا۔
اس ساری بحث کا حقیقی مقصد خواتین کے حقوق پر روشنی ڈالنا نہیں بلکہ الحادی قوتوں کے اللہ اور رسولؐ کے قوانین سے بغض کو واضح کرنا ہے۔ اس تحریر کے ذریعہ ہم پاکستان سمیت دنیا بھر کی مسلمان نما الحادی قوتوں سےیہ مطالبہ بھی کرنا چاہتے ہیں کہ وہ منافقت چھوڑ کر بیچارے مولوی کو رگیدنے کے بجائے براہ راست مولوی کے رب کو ہدف تنقید بنائیں تاکہ عوام الناس بھی آپ کے اصل رنگ و روپ سے واقف ہوجائیں۔ امید ہے کہ آپ اس حوالہ سے بھینسا، موچی وغیرہ بننے کے بجائے سلمان حیدر، وقاص گورا یہ اور جبران ناصر رہنا ہی پسند فرمائیں گے۔
فیصل ندیم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

مغرب میں آج بھی عورت کی خرید وفروخت ہو تی ہے:
مغرب میں عورت کی باقاعدہ تجارت ہو تی ہے 1997 میں مغربی محقق”کریس ڈی اسٹوب” نے یورپ میں عورتوں کی تجارت پر تحقیق کی اورانکشاف کیا کہ” مغرب میں عورت کی زندگی جہنم ہے، صرف اسپین مین 5 لاکھ خواتین جسم فروشی پر مجبور ہیں، ڈنمارک جس کو ملحدین کا گڑھ کہا جاتا ہے اب اس کو بے غیر نکاح کے شادی کی جنت کہا جا رہا ہے، سوٹزرلینڈ کو اب کلب کی لڑکیوں کا ملک کہا جاتا ہے”۔
مصدر: کریس ڈی اسٹوب/ یورپ میں عورت کی تجارت
دوسری طرف امریکی نیوز چینل CNN نے ایک اخباری رپورٹ نشر کی کہ جس میں Maryland (امریکہ) میں johns Hopkins یونیورسٹی کے اہم تحقیقات پراعتماد کیا گیا ہے جس کے مطابق امریکہ میں ہر سال 2 لاکھ بچوں اورعورتوں کی باقاعدہ غلام کے طور پرخرید و فروخت ہو تی ہے اور ایک لاکھ 20 ہزارعورتیں مشرقی یورپ(روس اور اس کے آس پاس غریب ممالک) سے جسم فروشی کے لیے مغربی یورپ سمگل کی جاتی ہیں ۔
15 ہزارعورتوں کو جسم فروشی کے لیے امریکہ بھیج دیا جاتا ہے جن سے اکثریت کا تعلق میکسیو سے ہو تا ہے۔ مشرقی ایشاء سے لائی جانے والی عورت کو امریکہ میں 16 ہزار ڈالر میں بیچا جاتا ہے جن کو بے حیائی کے اڈوں کے سپرد کیا جاتا ہے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس سے بھی بڑی مصیبت ہو سکتی ہے جواب یہ ہے کہ جی اس سے بھی بڑی مصیبت یہ ہے کہ یورپ اور امریکہ میں ان عورتوں کو بیچتے وقت نمبر اور اسٹمپ لگا یا جاتا ہے۔ برطانوی اخبار” انڈیپنڈنٹ” نے 30 ستمبر 2014 کو ایک رپورٹ شائع کی جس کا عنوان تھا”Human Traffickers Victims branded like cattle ” جسم فروشی کی غرض سے برطانیہ سے غلاموں کو ٹرکوں میں بھر دیا جاتا ہے پھران کو 200 سے 6000 پاونڈ کے درمیان فروخت کیا جاتا ہے۔
اخبار نے اس کو عورت کی غلامی کہا ہے جس کو جانوروں کی طرح امریکہ اور یورپ میں فروخت کیا جاتا ہے باقاعدہ کمشن والے دلال ہیں جو اس میں ہزاروں ڈالرز کماتے ہیں۔
مگر میڈیا کو مغرب کی برائی نظر نہیں آتی صرف اسلامی دنیا میں تیزاب پھینکنے کے واقعات اور شوہر کی طرف سے تشدد کے واقعات ہی توجہ کا مرکز ہیں کیونکہ مغرب کے ایمج کو خراب نہیں کرنا ہے اسلام کا ایمج خرب بھی ہو جائے کونسی بڑی بات ہے!!

کاشف اقبال خان

٭٭٭٭٭٭

حقوق فرائض کی ادائیگی کے لئے تفویض کئے جاتے ہیں، فرائض مختلف ہونگے تو حقوق لازما مختلف ہونگے۔ متنوع و متفرق فرائض مان لینے کے بعد مساوی حقوق کا مطالبہ کرنا حماقت کے سواء کچھ نہیں۔ چنانچہ اصل ظلم یہ نہیں ہے کہ مردوں کے بعض حقوق خواتین سے مختلف ہوں بلکہ اصل ظلم مساوی حقوق کا نعرہ لگا کر خواتین کے فرائض کی لسٹ میں مردوں کے فرائض کو شامل کرنا ہے۔ عورتوں پر مردوں کے فرائض لادنے اور انہیں defeminize کرکے مرد بنانے والی تہذیب کے خلاف جدوجہد لازم ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ عورت پر ایسا ظلم کسی تہذیب نے نہیں کیا۔
مساوی حقوق” کی بحث میں مساوات کا مطلب یہ کیوں فرض کیا جاتا ہے کہ ایسا نظام بنایا جائے جو ہر عورت کو وہ کرسکنے لائق بنائے جو تاریخی و روایتی طور پر مرد کرتا رہا ہے؟ اس کے برعکس کو فروغ دینا مساوات کیوں نہیں؟ کیا صرف مرد کی تاریخ ہی انسانیت کا معتبر اظہار ہے؟ مساوات کے نام پر پھیلائی جانے والی یہ فکر عورت سے یہ تقاضا کرکے کہ “تم وہ بنو جو تاریخی طور پر مرد رہا ہے” کیا عورت اور اس کی تاریخ کی تذلیل نہیں کرتی؟
ڈاکٹر زاہد مغل

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

پچھلے کئی سالوں سے مشہور اور خوبصورت اداکاراؤں کی گھریلو زندگیاں ناکام ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ مثلاً مشہور و معروف مارننگ شوز کی میزبان نادیہ خان ،ریحام خان، شائستہ لودھی، اور فرح حسین کو ہی لے لیں۔ ان کی ذہانت ، خوبصورتی اور تعلیم بے مثال ہے مگر ایک، ایک مرتبہ ان کا گھر ضرور ٹوٹ چکا ہے۔

اسی طرح سال 2017 کے شروع میں ہی چند مشہور اداکاراؤں وینا ملک، نور اور جاناں ملک کی طلاق کی خبروں نے میڈیا اور پاکستان میں کافی سنسنی پھیلائی۔ مردوں میں ٹینس سٹار اعصام الحق اور میکال حسن کے گھر ٹوٹنے کی خبروں نے بھی کافی شہرت حاصل کی۔ اس کے علاوہ سینکڑوں مثالیں اور بھی موجود ہیں، جہاں مال و دولت ، تعلیم اور خوبصورتی خاندانی نظام کو قائم رکھنے میں ناکام نظر آئے۔

سوشل میڈیا کے ذریعے مشہور لوگوں کی شادیوں اور علیحدگیوں سے متعلق خبریں پھیلتی ہیں تو عام پاکستانیوں کے بیانات یا تو ہمدردانہ ہوتے ہیں یا پھر انتہائی زہریلے اور اخلاق سے گرے ہوئے۔ شادی کی خبروں پہ تقریباً ہر کوئی خوشی کا اظہار کرتا ہے، مگر طلاق جیسی خبروں پہ چند لوگ تو ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں مگرکچھ لوگ ان خواتین کو ایسے ایسے الزامات دیتے ہیں ہیں کہ خدا کی پناہ۔ ایسے لوگوں کے لیے اخلاقی اور مذہبی تعلیم کی ضرورت ہے کہ جب کوئی عورت نکاح میں بندھن میں بندھ جاتی ہے تو وہ طوائف نہیں رہتی۔ دوسرا، صرف میڈیا میں کام کرنے والی خواتین ہی گناہ گار نہیں ہوتیں، بلکہ کسی بھی شعبے کی خواتین کے پاکباز ہونے کی گارنٹی نہیں۔ پردہ نہ کرنے والیوں کے بارے میں بے ہودہ آراء قائم کرنا ، بہتان لگانے کے زمرے میں آتا ہے۔

دوسری طرف، وہ اداکارائیں جو عوام کے لیے اپنی عزتیں بیچ کر ان کے لیے پروگرامز کرتی ہیں، ان کے لیے بھی عبرت کا مقام ہے کہ ان کے دکھوں کے وقت بھی عوام ان سے نفرت ہی کرتی ہے۔ لہٰذا ملک میں بے حیائی پھیلا کے ا وراپنے گھروں کی جھوٹی خوشیوں کی داستانیں سنا کے لوگوں کو احساسِ کمتری میں مبتلا نہ کریں۔ حلال روزی ، مقدار میں کم مگر قلبی سکون اور گھر بھر کی خوشیوں کا باعث بنتی ہے۔

اسماء اقبال خان

******

نیو لبرل کیپٹل ازم کے “پیغمبر” ملٹن فرائیڈمین کے مطابق “مارکیٹ” ہی اس “دین” کا “بھگوان” ہے. اور یہ “خدا” خوش ہوتا ہے زیادہ بِکری سے، زیادہ صارفین سے….. یعنی اسکے چرنوں میں زیادہ سے زیادہ “پیسہ” لٹانے سے.اسکے “پنڈت” جانتے ہیں کہ پیسہ اسی صورت میں لٹایا جاتا ہے جب “مال” میں کشش ہو. اسی لئیے اسکی “تبلیغ” کیلئے نہ صرف یہ کہ مال کو پرکشش بنا کر پیش کیا جاتا ہے بلکہ پرکشش چیزوں کو بھی “مال” بنا کر بیچا جاتا ہے.یعنی کرسمس، نیو ائیر، ویلنٹائن ڈے، عید، ہولی، وغیرہ پر تحفتاً دی جانے والی چیزوں کو ہی دیدہ زیب بنانا کافی نہیں، بلکہ ان تہواروں کو ہی اس انداز میں پیش کرنا ضروری ہے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ تحائف خریدیں.
لیکن “پنڈت” کہتے ہیں کہ مارکیٹ کے دیوتا کو بازاروں تک کیوں محدود رکھا جائے. کیوں نہ پوری دنیا کو ہی بازار بنا دیا جائے اور ہر شخص کے دل میں اس خدا کا مجسمہ نصب ہو. ہر چیز پر “پرائیس ٹیگ” ہو اور سب کچھ برائے فروخت ہو. لہٰذا اب صرف گھر، گاڑی، خوراک، پوشاک ہی نہیں بلکہ دین، ایمان، جذبات، جسم، وفا،……..، سب بکتا ہے. بس آپکو خریدار کو “لبھانے” کا “فن” آنا چاہیے.
اسی لئیے آج کی دنیا میں کھیل بھی بکتا ہے اور کھلاڑی بھی. اور کھیلوں کو بیچنے کیلئے انکے تہواروں، مثلاً اولمپکس، ورلڈ کپ ٹورنامنٹس، ومبلیڈن، سوپر بول وغیرہ کے بعد اب “کرکٹ سوپر لیگز” کو بھی “مارکیٹ” کے چرنوں میں سجدہ ریز کروا دیا گیا ہے. اور “تماشائی” کو “گاہک” بنانے کا عمل جاری ہے.”مارکیٹنگ” کا بہت بڑا میدان آجکل کھیل کا میدان ہے…!!!اور اگر سٹیڈیم ایک بہت بڑا “اشتہار” ہے تو “ماڈلز” کے بغیر ادھورا ہے. اور ماڈلنگ کا کام اب لیا جاتا ہے کھلاڑیوں سے اور “چئیر لیڈرز” سے.جی وہی عورت جسکے اپنے “مال” سے پردہ ہٹا کر، اسے مارکیٹ کے مال میں کشش پیدا کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے. یہ وہ لڑکیاں ہوتی ہیں جنکا کام تماشائیوں کو کھیل کے اہم لمحات میں کھلاڑی کی اچھی کارکردگی کی طرف توجہ دلا کر ایک منظم طریقے سے داد دلوانا ہوتا ہے.
توجہ مبذول کروانا اور پھر اسے برقرار رکھنا کوئی آسان کام نہیں. یہ وہ طوطا ہے جس میں کیپٹل ازم کے دیو کی جان ہے. اس پر بے تحاشہ تحقیقات ہوئی ہیں اور سینکڑوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں.اور توجہ حاصل کرنے کیلئے آجتک عورت کے استعمال سے زیادہ مؤثر طریقہ دریافت نہیں ہوا.
آپ کو کچھ بھی “بیچنا” ہو،عورت کو ننگا کر کے اسکے اشتہار میں پیش کر دیں.
1950 کی دہائی میں پہلی بار امریکہ میں نیشنل فٹبال لیگ کے میچوں میں تماشائیوں کی توجہ کو مرکوز کرنے کیلئے تربیت یافتہ، نیم برہنہ لڑکیوں، یعنی چئیر لیڈرز، کو استعمال کیا گیا جو اچھلتی، کودتی، رقص کرتی، “شائقین” کے “شوق” کی تمام جہتوں کو انگیخت کرتی انہیں کھیل میں مگن رکھتیں.
جی ہاں، رقص میں مہارت اور جنسی کشش انکے لئے لازمی شرط ہے. تب سے اب تک وہاں کے تمام تعلیمی اداروں میں چئیر لیڈرز کا باقاعدہ شعبہ ہوتا ہے جس میں بچیاں اور لڑکیاں فخر سے اپنی جسمانی ساخت اور خوبصورتی کے بل بوتے پر حصہ لیتی ہیں. بلکہ اب تو اس “فن” میں کمال کے مظاہرے کیلئے بین الاقوامی سطح پر مقابلے بھی منعقد کئیے جاتے ہیں.
آج دنیا میں فٹبال، باسکٹبال، بیس بال، ہاکی، اتھلیٹکس کے بعد اب کرکٹ میں بھی انکا رواج عام ہے. دنیائے کرکٹ میں 2007 کے آئی سی سی ٹی 20 ٹورنامنٹ میں پہلی بار چئیر لیڈرز کے استعمال کے بعد سے اب یہ ہر ٹی20 ٹورنامنٹ کا لازمی جزو بن چکی ہیں اور آج پی ایس ایل کے فائنل میں بھی آپکو بور نہیں ہونے دینگی اور “کھیل میں” دلچسپی برقرار رکھیں گی.
نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم نے قیامت کی نشانیوں میں بتایا تھا کہ گانے بجانے والیاں عام ہو جائیں گی. اور پھر انہیں حلال کرنے والوں پر عذاب نازل ہو گا.کیا ہمارا عملی رویہ بالکل مشرکین مکہ جیسا نہیں؟ شرک اور سود سے لیکر فحاشی تک ان جیسے تمام گناہوں میں لتھڑ کر زبان حال سے ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ لے آؤ ہم پر وہ عذاب جس سے ہمیں ڈراتے رہتے ہو، اگر تم سچے ہو…..!!!
ڈاکٹر رضوان اسد خان

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ہم (عورتیں) حقوق کی جنگ لڑ رہی ہیں”۔اچھا تو عورت یہ جنگ کس کے خلاف لڑرہی ہے؟- مرد کے خلاف۔یہ مجرد مرد کون ہے ہمارے معاشرے میں؟ یعنی عملا عورت کو یہ جنگ لڑنے کے لئے آپ کس کے خلاف تیار کررہے ہیں؟- جواب: باپ، بھائی، بیٹا اور شوہر کے خلاف۔ جی ہاں جناب، ہمارے معاشرے میں مرد کے یہی عنوانات ہیں جن کے ساتھ عورت کو پالا پڑتا ہے، یہ جسے مجرد “مرد” نامی بلا کہتے ہیں اس کا وجود نہیں۔فیمینسٹ تحریک کا مقدمہ و مشن یہی ہے کہ اپنے مخصوص فحش مقاصد کے حصول کے لئے ہمارے یہاں رحمی رشتوں کو جنگ و جدل کا موضوع اور گھر کو میدان جنگ بنا دیا جائے۔پھر ذرا غور کیجئے کہ یہ باپ، بھائی، بیٹا اور شوہر ہمارے یہاں ہزاروں نہیں، لاکھوں بھی نہیں بلکہ کروڑوں خواتین کا پرسان حال ہے، اس کے ناز و نعم اٹھاتا ہے، اس کی پرورش، تعلیم، نکاح و زندگی بھر کے اخراجات اٹھانے پر عمر بھر کی کمائی خرچ کررہا ہے۔ “میرا جسم میری مرضی” والوں کا کہنا دراصل یہ ہے کہ یہ جو باپ اپنی بیٹی کے تحفظ و بقا کے لئے خود کو تیاگ رہا ہے، اس باپ کی کمائی پر تعلیم حاصل کرچکنے کے بعد یہ بیٹی اپنے باپ کے سامنے سینہ تان کر کہے: “میرا جسم میری مرضی”۔
حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے مشن اور نعرے والوں کے پاس ہمارے معاشرے کی خواتین کے کسی بھی مسئلے کا حل موجود نہیں ہے۔ یقین مانو کہ اگر ان لوگوں کی تحریک آج کامیاب ہوجائے اور یہ باپ، بھائی، شوہر اور بیٹا آج “مرد” بننے کا فیصلہ کرلے تو کروڑوں عورتیں یکا یک بے آسرا ہوکر سڑکوں پر رلتی پھریں گی اور یہ نعرہ لگانے والے انہیں پہچاننے سے بھی انکار کردیں گے اور انہیں پھر سے “مرد” ہی کے پاس جانے پر مجبور کریں گی۔ یہ لوگ دراصل چاہتے یہ ہیں کہ مرد کو باپ، بھائی، بیٹا اور شوہر بنا کر بیوقوف بنائے رکھا جائے یہاں تک کہ یہ اپنی بغاوت میں کامیاب ہوجائیں۔
ڈاکٹر زاہد مغل

*****

این جی او (نہ جنو اولاد)
کہاں تم قید ہو اِس چار دیواری اور چادر میں؟
بہت اچھا تھا یہ سب گرچہ دورِ”گرینڈ فادر“ میں!
مگر جو اَب زمانہ ہے اسے ”ایڈوانس“ کہتے ہیں
کبھی تقدیر ہوتی تھی، جسےاب ”چانس“ کہتے ہیں
ضروری ہے ترقی کا کوئی اِک ”چانس“ تم لے لو
جہاں پہنچی ہیں لندن والیاں، تم بھی وہاں پہنچو
پتہ بھی ہے! کہ بنتِ حوا اڑتی ہے ہواؤں میں
زمانہ لد گیا جب کھیلتی تھی گھر کی چھاؤں میں
بندھی چولھے سے لیکن، تم ابھی تک جاں جلاتی ہو
وہ پہنچیں چاند پر اور تم یہیں چمچہ چلاتی ہو
اڑاتی ہیں وہ ”جیٹ“ اور تم بس بچے کھلاتی ہو
وہ دنیا گھوم آئیں، تم فقط جھاڑو گھماتی ہو
یہ درجن بھر جو بچے ہیں بھلا کیسے سنبھالو گی؟
اگر ”ڈیڈ“ ہو گئے ”ڈیڈی“ ہی ان کے، کیسے پالو گی؟
کبھی سوچو کہ مرد وزن تو ہیں گاڑی کے پہیے دو
برابر ان کو چلنے دو، ذرا کچھ ”لوڈ“ تم بھی لو!
تم اس کا ساتھ دو، ”کھاؤ“ کماؤ، دل بڑا رکھو
نئی دنیا بھی دیکھو۔۔۔ ”آؤٹنگ“ کا بھی مزا چکھو!
جو ”یو۔این۔او“ نے بخشے ہیں وہ ”رائٹس“ بھی ”شیئر“ کر لو
کچھ اپنے حق کو پہچانو، کچھ اپنی بھی ”کیئر“ کر لو
ہمارا ساتھ دو تو ہم تمہیں آزاد کر دیں گے
”سول سوسائٹی“ میں بیٹھو گی، دل شاد کر دیں گے
کوئی مشکل ہوئی، پردیس میں آباد کر دیں گے
رکاوٹ جو بنے گا اس کو مردہ باد کر دیں گے
وگرنہ، مذہب و ناموس کے جو قید خانے ہیں
تمہارے سارے ”ٹیلنٹ“ کو یونہی برباد کر دیں گے!
محلے ہی کے بچوں کو الف، با، تا، پڑھاؤ گی؟!
بتاؤ تو؟ تم ”اسٹیٹس“ خود اپنا کب بناؤ گی؟
پرانی سوچ کو چھوڑو، نئی آواز پر لپکو
اور اپنے دامنوں سے ہر بندھی زنجیر کو جھٹکو
قدم گھر سے نکالو۔۔۔۔ ”ویل فیئر“ کا ”چارم“ تو لے لو!
ذرا آگے بڑھو، یہ این۔جی۔او کا ”فارم“ تو لے لو!
جو ولدیت کا خانہ ہے، بس اس میں گم شدہ لکھ دو!
جہاں مذہب کا ہے پوچھا، وہاں پر بے خدا لکھ دو!
احسن عزیز ؒ

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

لبرل ازم اور فیمنزم کے نام پر عورت کی تذلیل کرنے والوں اور اپنی چیزیں بیچنے کے لیے اس کے جسم کی نمائش کرنے والوں کا سخت محاسبہ ضرور کریں۔لیکن اس آزادی کے فریب میں آنے والی ان چند عورتوں سے نفرت نہ کریں جو آج پلے کارڈ اُٹھائے، اپنے عورت ہونے پر شرمندہ ہوں گیں. ان کی ہدایت کے لیے دعا کریں. وہ ہماری ہی قوم کی بیٹیاں ہیں۔ کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ اپنے گھر کی عورتوں کو محبت، تحمل اور فکری تربیت سے اس جال میں پھنسنے سے بچائیں. یہ بڑے دل فریب پھندے ہیں جو آج گھر، سکول، کالج، یونیورسٹی، میڈیا اور بازاروں میں ہر جگہ سجے ہیں.یہ آزادی نہیں، عورت کی تذلیل ہے.یہ اسے آزاد بنانے کے نام پر اس کے جسم تک رسائی کے دھندے ہیں.یہ اسے ننگا کرکے اپنی پراڈکٹ بیچنے کے بہانے ہیں.یہ اسے برابر لاکر پچھاڑنے کے حیلے ہیں.یہ من مرضی کے نام پر گناہ کے کاروبار ہیں.انہیں پیار سے، محبت سے، اللہ رسول کی باتوں سے مضبوط کریں. ان کے اصل مقام اور کردار سے انھیں خوب صورت بنائیں. شرم، حیا، پاکیزگی اور عفت کے مفہوم سمجھائیں.
مسئلہ یہ ہے کہ آج اپنے عورت ہونے پر شرمندہ ہونے والی عورتیں تعداد میں تھوڑی ضرور ہیں لیکن انھیں شیطان، میڈیا اور ریاست کی پوری پوری سپورٹ ہے. ان کی پہنچ ہمارے گھروں کے اندر تک ہے. اس لیے اس معاملے کو آسان مت لیں. یہ محض ایک دن کا معاملہ نہیں بلکہ دو تہذیبوں کا تصادم ہے جو پوری شدت سے جاری ہے. اللہ کرے کہ ایک اسلامی ریاست جلد از جلد قائم ہو جو عورت کو اس کی حقیقی عزت، مقام اور وقار واپس لوٹا سکے ورنہ تو تباہی ہی مقدر ہے، جلد یا بدیر. جو عورت سے شروع ہو کر خاندان اور معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لی گی.
عاطف الیاس

٭٭٭٭٭

بعض فیمینسٹ “مردوں” کا کہنا ہے کہ مرد جابر و ظالم ہے، اس نے عورت کو دبا کر رکھا جس کے لئے مذھب کو بطور ھتھیار استعمال کیا گیا۔ لہذا لازم ہے کہ ایسی قانون سازی کی جائے جو مرد کی اس صلاحیت کو کم کردے۔انسانی تاریخ میں مرد و عورت کی مخاصمت سے متعلق فیمینزم کا یہ مقدمہ جھوٹ پر مبنی ہے اور اسے پڑھنے کے لئے پہلے مغرب کے تصور آزادی کا چشمہ لگانا پڑتا ہے تاکہ پوری تاریخ آزادی کی تاریخ نظر آنے لگے۔ خیر یہ الگ موضوع ہے۔ ایک لمحے کے لئے ان حضرات کا یہ مقدمہ مان لیتے ہیں کہ چلو ایسا ہی ہے۔ مگر اب سوال یہ ہے کہ آخر فطری طور پر ایک جابر، ظالم و غاصب مرد نامی مخلوق کو ایسے کسی نظرئیے و قانون کو کیونکر قبول کرنا چاہئے جو اس کے غلبے کے امکانات کو کم کردے، بالخصوص تب کہ جب غلبہ عین مقصود ہو اور مد مقابل بھی اسی کا خواہاں ہو؟ کیا خواتین یہ چاھتی ہیں کہ مرد اپنی فطرت کے خلاف کام کرے؟ اور اگر یہ ایسا ہی چاھتی ہیں تو مرد کو کیا پڑی ہے کہ وہ ایسا کرے؟ ایسی کسی قانون سازی کو قبول کرنا کوئی قانون فطرت نہیں ہے بلکہ اسے بنانا اور قبول کرنا یہ اسی مرد کا خود اختیاری فیصلہ ہوگا جو آپ کے بقول ظالم و جابر ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ مرد ایسا کیوں کرے؟ کیا حیاتیاتی طور پر عورت مرد سے زیادہ طاقت ور ہے کہ وہ مرد کو دبا لے؟ اگر تاریخ سے متعلق آپ کا نظریہ درست ہے تو مرد کے عورت کو دبا لینے کی وجہ یہ نہیں کہ وہ ظالم و جابر ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ حیاتیاتی طور پر زیادہ طاقتور جنس ہے۔ تو اگر مرد دب جاتا ہے تو یا یہ اس کی شرافت اورعورت پر اس کا احسان ہوگا اور یا اس کی بیوقوفی۔ اس قسم کی قانون سازی کے بھروسے مرد کے ظلم کو اپنے زور بازو سے کم کرنے کی بات تو ایسی ہی ہے جیسے زیبرا اور ہرن جمع ہوکر شیر کو کہیں کہ تم ہمارا شکار نہ کیا کرو، ہمیں اس حوالے سے فلاں فلاں قانون سازی سمجھ آتی ہے اور تم اسے مان لو۔ اور اگر شیر اسے مان بھی لے تو ہرن و زیبرا اسے اپنی کارگزاری سمجھیں۔کم از کم خود اپنے مقدمات اور ان کے مضمرات کو تو اچھی طرح سمجھ لو۔
ڈاکٹر زاہد مغل

٭٭٭٭٭٭

عورتوں پر جو ظلم ہمارے یہاں عورتیں کررہی ہیں ان کا ذکر کسی میڈیا پر نہیں حالانکہ وہ مرد کے مظالم سے زیادہ ہیں۔ ساس کے بہو خلاف اور بہو کے ساس کے خلاف، نند کی بھابی اور بھابھی کی نند کے خلاف سازشیں اور ایک دوسرے کی زندگی کو اجیرن کردینا عام ہیں، اور تو اور ماں اکثر و بیشتر بیٹے کو اکسا کر بیوی کو پٹواتی ہے۔ “بیٹی کی پیدائش منحوس ہے”، “یہ تو بیٹیاں ہی پیدا کررہی ہے”، یہ طعنے عورت کو مرد نہیں بلکہ عورتیں دیتی ہیں۔ تو یہ ہیں ہمارے معاشرے کے اکثر گھروں کے مسائل لیکن یہاں ظلم عورت کرتی ہے تو اس پر خاموشی ہے۔ ایک سروے کر دیکھئے کہ گھروں پر بیٹھی خواتین، جن کی اکثریت ہے، کو زیادہ مسائل مردوں سے ہیں یا عورتوں سے تو سارا پول کھل جائے گا۔ لیکن عورتوں کے مسائل حل کرنے سے دلچسپی ہے کسے، یہاں تو ڈالروں کے عوض ایجنڈے بیچنا مقصود ہے۔
ڈاکٹر زاہد مغل

٭٭٭٭٭٭

پاکستان میں عورت کے مسائل کیا ہیں؟ اس سوال کا جواب اس وقت تک نہیں مل سکتا جب تک پاکستانی معاشرے کی ساخت کو نہ سمجھ لیا جائے ۔ یہاں غالب اکثریت دیہی علاقوں میں رہتی ہیں ان کے مسائل مختلف ہیں ۔ غریب ، متوسط اور مالدار پس منظر میں مسائل کی نوعیت ایک دوسرے سے جدا ہے۔کیا عورت مارچ کے منتظمین نے سماج کا مطالعہ کر کے اپنے مطالبات کے حوالے سے کوئی توازن پیدا کر رکھا ہے تا کہ جب یہ مطالبات سامنے آئیں تو یہ کسی ایک طبقے ، ایک کلاس اور ایک گروہ کے مطالبات نہ ہوں بلکہ یہ پاکستانی معاشرے کی خواتین کے عمومی مسائل سے متعلق بھی ہوں؟کسی بھی معاشرے میں کام کرنے کا حکیمانہ ا صول یہ ہے کہ اس معاشرے کی حساسیت کو مجروح نہ کیا جائے۔ ہر سماج کی کچھ بنیادی قدریں ہوتی ہیں اور وہ ان کے باب میں حساس ہوتا ہے۔ لیڈی ڈیانا پاکستان آئیں تو ان کے سر پر دوپٹہ تھا تو یہ اسی حساسیت کا احترام تھا، ان سے کسی نے دوپٹہ لینے کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔ بالعموم ہر سماج کی حساسیت کا احترام کیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ کام کرنے میں قدر مشترک کو تلاش کر کے اسی کو مخاطب بنا کر آگے بڑھا جاتا ہے۔
پاکستان میں عورت کے حقوق کے معاملے میں قدر مشترکات کا دائرہ کافی وسیع ہے۔ مذہبی اور سیکولر ہر حلقے میں اس بات پر اتفاق ہے کہ عورت کو اس کے حقوق ملنے چاہیں اور حکومتی سطح پر بھی اس کا اعتراف موجود ہے۔اس کا تازہ ترین مظہرہراسیت کے قوانین ہیں۔اس قدر مشترک کو مخاطب بنا کر آگے بڑھا جائے تو عورت کے حقوق کے باب میں با معنی پیش رفت ہو سکتی ہے اور اگر محض رد عمل کی نفسیات کا اظہار کیا جائے گا تو سماج کی پولرائزیشن بڑھنے اور صف آرائی کے امکانات روشن ہو نے کے سوا کسی بات کا کوئی امکان نہیں۔سوال وہی ہے: مقصود کیا ہے؟ اس سوال کا جو بھی جواب ہو ضروری ہے کہ حکمت عملی اسی کی روشنی میں تیار کی جائے۔
مشترکات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ عورت کو تعلیم کا حق حاصل ہے، شادی اس کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتی ، عورت کو وراثت کے حق سے محروم نہیں کیا جانا چاہیے ، قرآن سے شادی کی رسم کا مکمل طور پر خاتمہ ہونا چاہیے ، غیرت کے نام پر اس کا قتل نہیں ہونا چاہیے ، کاروکاری کی رسم کو ختم ہونا چاہیے ، کم عمری کی شادی نہیں ہونی چاہیے ، ونی ، سوارا ، ساک ، اور سنگ چتی کی رسموں کا خاتمہ ہونا چاہیے ، پبلک ٹرانسپورٹ میں خواتین کو درپیش مسائل کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
اسی طرح عورت کی نسائیت اور خاندانی نظام کا تحفظ بھی اس کا حق ہے۔وہ ایک انسانی وجود ہے ، سرمایہ دارانہ مارکیٹ کی کوئی پراڈکٹ نہیں۔ ایشوز پر فوکس کیا جائے گا تو یہ ایک لمبی فہرست بن سکتی ہے جہاں سب مل کر عورت کے مسائل کے حل کے لیے آواز بھی بلند کر سکتے ہیں اور عملی اقدامات بھی کیے جا سکتے ہیں۔ مشترکات کی بجائے اگر ترجیحات میں سر فہرست رد عمل ، غصہ ، تضحیک یا دیگر عوامل ہوں گے تو پھر ایسے ہی بینرز اور نعرے سامنے آئیں گے جو پہلے بھی آئے اور انہوں نے اختلاف اور مزید رد عمل کو جنم دیا۔ اسے اقدار اور روایات پر حملہ قرار دیا گیا۔ یہ کیفیت ملک میں پولرائزیشن اور نفرت کو تو فروغ دے سکتی ہے یہ کسی با مقصد مشق میں نہیں ڈھل سکتی۔ رد عمل ایک اور رد عمل کو فروغ دیتا ہے اور نفرتوں کا دائرہ پھیلتا جاتا ہے۔ سوال پھر وہی ہے : ترجیح کیا ہے ، مطالبات کیا ہیں؟ مسائل کو حل کر نا ہے یا رد عمل اور نفرت کے دائروں کا حجم بڑھاتے چلے جانا ہے؟
جہاں عورت مارچ کے ناقدین کو سمجھنا چاہیے کہ چند نا مناسب بینرز اور نعروں کی بنیاد پر کسی تحریک کے بارے میں حکم نافذ نہیں کیا جا سکتا وہیں مارچ کے منتظمین کو بھی سمجھنا چاہیے کہ سماج کی ایک عمومی اخلاقیات ہوتی ہیں ، اپنی بات ضرور کہنی چاہیے لیکن انہیں پامال نہیں کرنا چاہیے۔ اس سے صرف تنائو اور نفرت پھیلتی ہے ۔اس صورت حال سے خود حقوق نسواں کا سفر متاثر ہوگا۔ کیونکہ جب آپ سماج سے کٹ کر اور اس کی اخلاقی مبادیات کو چیلنج کر تے ہوئے ایک کام کرتے ہیں تو آپ کا دائرہ اثر سکڑ جاتا ہے ۔
سماج کیا ہوتا ہے؟یہ ایک مالا ہے جس میں ہم سب پروئے ہوئے ہیں۔یہاں عورت کے بھی حقوق ہیں ، مرد کے بھی، لیکن کسی کے حق کا یہ مطلب نہیں کہ دوسرے کا حق پامال کر دیا جائے۔ عورت اور مرد کی طرح سماج کے اجتماعی حقوق بھی ہیں۔ مذہبی اور اخلاقی اقدار کے بارے میں ایک معاشرہ اگر حساس ہے اور اس نے آئین کی صورت میں اپنے عہد اجتماعی میں کچھ اصول طے کر رکھے ہیں تو یہ اس کا حق ہے کہ کوئی ان اصولوں کی سر عام تضحیک نہ کرے۔ ہمارے مزاج کی اتنی تہذیب ضرور ہو جانی چاہیے کہ اختلافات کے ساتھ جینا سیکھ لیں اور اختلافات کے اظہار کے شائستہ طریقوں سے ہماری کچھ شناسائی ہوجائے۔
آصف محمود

٭٭٭٭٭

عورت کے بنیادی حقوق معاشرے کی اٹھانوے فیصد ناخواندہ آبادی میں بھی سلب ہوتے ہیں، اور دو فیصد ایلیٹ میں بھی وہی حال ہے۔میری مرضی کا نعرہ اس سماج میں کنونسنگ رول ادا نہیں کر سکتا، اور اگر انہیں پتا چل جائے کہ یہ ابارشن رائٹ کی تحریک سے اخذ کیا گیا ہے تو وہ حقوق دینے کی بجائے الٹا چپیڑیں بھی ماریں گے۔
ایلیٹ کلاس کی دو فیصد آبادی جب اپنے ذوق کے مطابق اٹھانوے فیصد کا مطالبہ اٹھائے گی تو وہی حشر کرے گی جو کیا ہے، کیونکہ یہ اس ماحول اور سائیکی سے واقف ہی نہیں جہاں یہ مطالبہ رکھنا ہے، اسیلئے کہتے ہیں کہ کنونسنگ میں حکمت کی ضرورت ہوتی ہے، مگر ان لوگوں میں وزڈم کہاں سے ہوگی جن کیلئے ایسے کام محض ہابیز (مشغلے)کی حیثیت رکھتے ہیں۔
حقوق نسواں پر بہت بڑے دائرے میں کام کی ضرورت ہے، مگر اس کیلئے مغرب سے کچھ بھی الٹا پلٹا کاپی پیسٹ کرنے کی بجائے اپراپرئیٹ کنونسنگ سٹیٹمنٹ پیش کرنا بہت ضروری ہے، ورنہ سماجی خلفشار سے زیادہ کچھ بھی حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ہمارے پاس کنونسنگ سٹیٹمنٹ کیلئے مکمل دینی ورڈکٹ موجود ہے، دیسی انگریزوں کے پیچھے لگنے کی بجائے اس ورڈکٹ کو سامنے رکھیں اور خدا کے سامنے جوابدہی کا احساس دلائیں تو کافی ہے۔مگر ان لوگوں کا مسئلہ سوپیرئیریٹی کومپلیکس ہے، خود کو باقی سماج سے اعلیٰ ثابت کرنا ہے، جس کیلئے یہ ڈیوائن ورڈکٹ کا سہارا کبھی نہیں لیں گے کیونکہ کریڈٹ ہاتھ سے چلا جائے گا، کریڈٹ اسی میں ہے کہ اپنا اپنا لچ تلا جائے اور اسے اینجوائے کیا جائے اور دوسروں کو چیخ چیخ ہے بتایا جائے کہ ہم اعلیٰ سوچ سے تعلق رکھتے ہیں۔
لالہ صحرائی

٭٭٭٭٭

عورت کو دنیا کے سارے مہذب معاشرے اس کے مناصب کے لحاظ سے پہچان دیتے ہیں. اسے ماں، بہن، بیٹی، بیوی جیسے معزز رشتوں کے ساتھ ساتھ استاد، طبیب، وکیل، سیاستدان اور دیگر کئی شعبوں میں اپنے کام کی وجہ سے عزت میسر آتی ہے. کوئی بھی تہذیب عورت کو اس کے جسم کی مناسبت سے پہچان نہیں دیتی کیونکہ یہ اس کے انسان ہونے اور ایک قابل عزت انسان ہونے کے ماتھے پر داغ ہے. اسلام نے تو اس معاملے میں مزید احتیاط سے کام لیتے ہوئے عورت کی پہچان کے کوائف سے جسم کو بالکل ہی منہا کردیا. عورت کو حکم ملا کہ جسم کو صرف اپنے آپ تک رکھو اسے نمودونمائش اور پہچان کا ذریعہ مت بناؤ. تمہیں تمہارے رشتے، رتبے اور قابلیت سے پہچانا جائے گا.
لیکن ظاہر ہے بد تہذیبی کا تصور بھی تہذیب کے وجود سے ہی ماخوذ ہے. عورت کے معاملے میں جس قدر تہذیبیں خود محتاط رہی ہیں اس قدر ہی بد تہذیبی کا اظہار ہوتا آیا ہے. کبھی مردوں کی طرف سے عورتوں کو صرف جسم سمجھا گیا اور کبھی خود عورتوں نے خود کو صرف جسم کے طور پر متعارف کروانا ضروری سمجھا. یہ دونوں عناصر ہی دراصل اس ساری برائی کی جڑ ہیں جس کی کالک بالآخر پوری تہذیب کے منہ پر ملی جاتی ہے.
پاکستانی فیمنسٹ نے میرا جسم میری مرضی کا نعرہ لگا کر عورت کے سارے مناصب، سارے مدارج اور ساری قابلیت کی شدید نفی کرتے ہوئے اسے صرف ایک جسم کے طور پر پیش کیا ہے. ایک جسم جس کا کام صرف دوسری جنس کے جسم کی بھوک مٹانا ہے. اور جو اپنے جسم پر اپنی مرضی کا حق صرف اس لیے جتارہی ہیں کہ طلب اور رسد کا بُعد زیادہ ہو تاکہ جنس کا بھاؤ بڑھے.
کچھ مرد بلکہ بہت سے مرد بھی افراد کی اسی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں جن کے نزدیک عورت محض ایک جسم ہے. جو ہر عورت کو صرف بھوکی نظر سے ٹٹولتے ہیں حتی کہ ان کے لیے شادی بھی ایک جسم کو مالکانہ حقوق پر حاصل کر لینے کا نام ہے. ایسے لوگ عورت کو دو کوڑی کی چیز سمجھتے ہیں، اسے بطور جسم کسی نہ کسی آسان طریقے سے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں. اس مقصد کے لیے عورت کے اس حفاظتی حصار کو توڑنے کی کوشش بھی کرتے ہیں جو معاشرہ یا مذہب انھیں فراہم کرتا ہے. عورت کو گھر گرہستی، نکاح، خاندان اور چاردیواری سے باہر نکال کر انھیں اپنی آسان دسترس میں لانے کے لیے یہ مردوزن ایک دوسرے کا ہاتھ بٹا رہے ہیں. آپ نے میرے پاس تم ہو بڑے جوش و خروش سے دیکھا ہوگا. عورت دو کوڑی کی نہ صرف کہی گئی بلکہ ثابت کی گئی. عورت کو صرف ایک جسم باور کروایا گیا جسے خریدا یا بیچا جا سکتا ہے اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے یہی کافی ہے کہ اس کی قیمت ادا کی جائے. عورت کے رشتوں، رتبوں اور منصبوں کی پامالی شاید اس سے بڑھ کر ممکن نہ ہو.یہ عورتیں اور یہ مرد ایک دوسرے کے دست و بازو ہیں جو ایک دوسرے کے عزم کو نبھانے کے لیے اپنے اپنے دائرے میں برسرعمل ہیں.
اکرام اللہ اعظم

٭٭٭٭٭

کیا میرا جسم میری مرضی نعرے کا پس منظر بینر اٹھا کر پھرنے والی بیگمات اور ان کے تقلید میں چلنے والی عام خواتین کے علم میں ہے؟ جن ممالک کے سماجوں سے آپ نے چھومنتر سمجھ کے یہ نعرہ اڑا لیا اور مشرقی عورت کی تعلیمی آزادی سے قبل جنسی آزادی اور جنسی مساوات طلب کی، کیا ان ممالک کی حقوقِ نسواں کی جدو جہد کی خوں چکاں داستان کبھی پڑھی بھی ہے؟ان میں سے کتنوں کو معلوم ہے کہ بدن کی ریاست کی حاکمیت کا دعوی کرنے سے بہت پہلے یورپ کی عورت نے تعلیم کا حق مانگا۔ پھر اس علم کی روشنی میں جائیداد کا حق، پھر روزگار کا، پھر مساوی تنخواہ کا حق طلب کیا۔ تب کہیں جا کے ایک تعلیم یافتہ، آزاد،خودمختار عورت نے اپنے بدن کے ساتھ جبر و زیادتی، نادانی یا نا پسندیدہ حمل سے نجات کے لیے اسقاط کا حق مانگا ۔تقلید کے لیے بھی عقلِ سلیم کی ضرورت ہے۔
کیا فرانسیسی فیمنسٹ سیمون ڈی بوار کی کتاب کا ترجمہ کرنے والوں نے اس کی ذاتی زندگی کی تصویر کشی کی؟ برطانیہ کی میری وول سٹون کرافٹ کی زندگی کی بے ثمر محبتوں اور خود کشی کی کہانیاں سنیں؟ آخر میں مرد کی آغوش کو پناہ بنا لینے والی عورتوں کےافسانے پڑھے؟ نہیں نا، بس چند ادھ کچے لبرلز نے تانیثیت کا پھریرا لہرایا، مالی منفعت کا بیج بویا، علمی، ادبی اور ثقافتی نشستیں سنبھالیں اور فیمنسٹ کا بیج لگا کے اختیار کی دوڑ لگا دی۔ اپنے ہی مقتدر طبقے کے حصار میں قلعہ بند یہ بزعمِ خود تانیثیت کی محقق اور علمبردار عورتیں کروڑوں محنت کش عورتوں کا نمائندہ کیسے ہو سکتی ہیں؟ انہوں نے مردوں سے مسابقت کی تگ و دو میں عام عورت کی زندگی مزید اجیرن کی اور خود ہاتھ جھاڑ کر کونے پر ہو گئیں ۔ اسی فیصد آبادی کے حالات سے واقف ہوئے بغیر، جلتی پر تیل گراتے نعرے لکھے، بینر کا لال کپڑا تہہ کر کے گاڑی کی ڈکی میں رکھا اور ملازمہ سے کھانا لگانے کا کہہ کر ہاٹ شاور لینے دنیا کی کلی ضروریات سے مزین باتھ میں روم جا گھسیں اور یوں ایکٹوٹی کے نام پر ایک دن اور اچھا گزر کیا ۔
صدف مرزا

٭٭٭٭٭

فحش لباس میں فیشن شوز. اور فیشن ویک کا اہتمام اور انعقاد، کارپوریٹ اداروں کے فنڈز کے ذریعے پاکستان میں ہوتا رہا ہے، کارپوریٹ اداروں کے اشتہارات بھی سیکس سمبل کے طور پر عورت کو استعمال کرتے آئے ہیں، سرمایہ دارانہ مخلوط کلبز میں کیا کچھ نہیں ہوتا، لیکن اسے لاشعوری طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے یا دبے دبے انداز میں اشاروں کنایوں میں احتجاج ریکارڈ کرایا جاتا ہے لیکن حیرت ہے اگر یہی عورت سرخ مفکر اور کالے، بھدے، ڈھیلے ڈھالے اور غیر نمایاں نسوانی لباس کے ساتھ سیاسی شعور. اور طلبہ مسائل پر گیان بانٹتی نظر آئے تو ہم سے برداشت نہیں ہو پاتا، اور یکایک تمام کڑے اخلاقی و اسلامی معیارات کی کسوٹیوں پر ہم. انہیں تولنا شروع کر دیتے ہیں. لگتا ہے ہمیں عریاں عورت قبول ہے لیکن ذہین عورت قبول نہیں ہے…

اطہر

*****

کچھ فیمنسٹ اسکالر ز کا خیال ہے کہ خواتین اخلاقی طور پر مردوں کی نسبت زیادہ بلند ہوتی ہیں اور وہ اپنے تخلیق کردہ لٹریچر(ناول، کہانیاں، فلمیں وغیرہ) کی بھرمار میں ہر طرف مردوں کو ظالم، متشدد اور غاصب شکاری ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہوتے ہیں اور اسکے ساتھ ساتھ عورتوں کو معصوم اور مظلوم اور شکار ہونے والی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ لیکن اسکے ساتھ ساتھ انکا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اصناف اور اجناس یکساں طور “مساوی اخلاق Moral equality ” کے حامل ہوتے ہیں اور کسی کو حق نہیں کہ وہ اخلاقی برتری کا دعویٰ کرے یا اس سلسلے میں کسی صنف کو کم تر گردانے۔ اب یہ کس قدر کھلی تضاد بیانی ہے کہ ایک ہی سانس میں دو متضاد دعوے کئے جا رہے ہیں اور ظاہر ہے ان میں ایک ہی درست ہو سکتا ہے۔ اگر اخلاقی مساوات کا دعویٰ ہے تو پھر مرد کو ظالم قرار دے کر عورت کو مظلوم نہیں پیش کرنا چاہیے اور اگر ایسا کرنا ہے تو پھر اخلاقی مساوات کا دعویٰ کیسے درست ہو سکتا ہے۔
ساٹھ کی دہائی سے فیمنسٹ تحریک مسلسل خاندانی نظام پر حملہ آور ہو رہی ہے، انہوں نے امور خانہ داری میں مصرو ف گھریلو خواتین کو باور کرایا کہ انکی ساری زندگی مردوں کی فرمانبرداری، جنسی غلام، اوربچے پیدا کرنے والی مشین سے زیادہ کچھ نہیں . فیمنسٹ تحریک میں نکاح کرنے والی خواتین کو فیمنزم کا غدار تصور کیا جاتا ہے اور ان خواتین کو باشعور ہیروئین کے طور پر لیا جاتا ہے جو پدر سری نظام کے بنیادی جابرانہ ادارے یعنی “شادی” کے خلاف بغاوت کا اعلان کرتی ہیں۔ اب ایک طرف تو فیمنسٹ، خاندانی نظام کے اس قدر خلاف ہیں کہ اسکے وجود کے ہی انکاری ہیں لیکن دوسری طرف اس بات پر بھی اصرار کرتے ہیں کہ خواتین اعلیٰ اخلاق کی حامل ہوتی ہیں، اپنے شوہر اور بچوں کا بہت خیال رکھنے والی اور محبت کرنے والی ہوتی ہیں لیکن شوہروں کی طرف سے انہیں اس محبت کا جواب محبت کی بجائے تشدد اور ظلم کی شکل میں ملتا ہے۔
وحیدمراد

٭٭٭٭٭٭

ہیلری کلنٹن نے الیکشن کے وقت نعرہ لگایا تھا کہ لڑکیاں fun-demental rights چاہتی ہیں( یعنی بنیادی حقوق کی بجائے دل لگی کے حقوق، یا ریڈیکل فیمنزم کا خیال ہے کہ صرف عورتیں ہی انسان ہیں وغیرہ) کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب کوئی نظریہ اور تھیوری سطحیت پر اتر آتی ہے تو وہ سطحیت ہی اسکے زوال کا پیش خیمہ ہوتی ہے مثلاً آج کے دور کی نوجوان خواتین کوئی عملی جدوجہد کرنے کی بجائے اپنی ٹی شرٹس، ہنڈ بیگز، کیپس، جسم کے مختلف حصوں، ڈرائنگ روم میں سجا کر رکھنے والی مختلف چیزوں پر صرف مذکورہ نعرے لکھوا کر سمجھتی ہیں کہ خواتین کے حقوق کیلئے جدوجہد ہو رہی ہے۔ لیبل اور ٹیگ لگانا، یا کاسمیٹک کمپنیوں کی مصنوعات کے برانڈ کے طور پر کسی سلوگن کو پیش کرنا تو بہت آسان ہوتا ہے لیکن عملی جدوجہد بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ اس طرح اس نظریے کو یوزر فرینڈلی بنا رہے ہیں لیکن ان سے سوال ہے کہ کن صارفیں کیلئے؟ ؟ پھر کرسپین فیمنسٹ سیاست پر بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ فیمنزم میں انحراف در انحراف ہو رہا ہے پہلے حقوق کی جدوجہد کو ریڈیکل سیاست میں تبدیل کیا گیا اب سیاسی طاقت کے حصول کا رخ، ذاتی اغراض و مقاصد کی طرف موڑ دیا گیا ہے حالانکہ اس تحریک کا اصل مقصد تو یہ تھا کہ خواتیں کو حقیقی خوشی کیسے فراہم کی جائے اور وہ مقصد فراموش ہو چکا ہے۔ وہ مقصد تو صرف اس صورت میں حاصل ہو سکتا ہے جب خواتین کو بہتر جابز مہیا ہوں، انکی شادیاں ہوں، انکا گھر، خاوند اور بچے ہوں، انہیں ازدواجی مسرت حاصل ہو لیکن یہ آج کے دور کے انقلابی فیمنسٹ جو اصل میں بے وقعت، سطحی، سہل پسند اورہلکے لوگ ہیں جس طرف جا رہے ہیں یہ مذکورہ کسی بھی مسرت کا حصول ناممکن بنا دیں گے۔
(وحیدمراد)
٭٭٭٭٭٭
آج کے دور کی فیمنسٹ تحریک، غیر منصفانہ قوانین یا جنس پسند اداروں کے خلاف اتنا احتجاج نہیں ہے جتنا یہ لوگوں کی اس لاشعوری پسند اور جذبات کے خلاف احتجاج ہے جو وہ صدیوں کے قدرتی ثقافتی اصولوں اور ورثے کے بارے میں رکھتے ہیں۔ انکا مقابلہ اعتقادی نظاموں سے ہے اور یہ لوگوں کو ان چیزوں کو ناپسند کرنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں جنہیں وہ صدیوں سے پسند کرتے ہیں۔ معاشرتی میدان میں یہ ماپنا کہ کیا مساوی ہے اور کیا مساوی نہیں، اتنا آسان نہیں کیونکہ اسکے لئے ہمارے پاس کئی ایسا پیمانہ موجود نہیں جیسے ہمارے پاس وزن، لمبائی، چوڑائی وغیرہ ماپنے کے پیمانے ہوتے ہیں۔ اگر میں تین ملازمین کو برطرف کردوں اور ان میں سے دو خواتین ہوں تو کیا یہ مساوات ہے؟ یا یہ سیکس ازم ہے؟ اس معاملے میں آپ اس وقت تک ٹھیک سے کچھ نہیں کہہ سکتے جب تک آپ میرے دماغ کے اندر جا کر میری نیت، اعتقادات اور محرکات کو نہ سمجھیں۔ اسی طرح اس بات کی پیمائش کرنا توآسان ہے کہ آیا لڑکے اور لڑکیاں اسکولوں میں ایک جیسا وظیفہ وصول کررہے ہیں یا نہیں؟ یا مرد اور عورت کو ایک ہی کام کے لئے مناسب معاوضہ دیا جارہا ہے یا نہیں۔ لیکن آپ معاشرتی انصاف کی پیمائش کیسے کر یں گے؟ اگر کچھ لوگ اپنی بہن سے زیادہ بھائی کو پسند کرتے ہیں تو کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عورت ہے؟ یا یہ کہ وہ بہت منہ پھٹ اور بد تمیز ہے؟اسی طرح فمینسٹ فلاسفی اور نظریے کا یہ مفروضہ ٹھیک معلوم نہیں ہوتا کہ ، اصناف اور جنس سے قطع نظر، تمام انسانوں کو یکساں احترام، فضیلت اور حقوق حاصل ہونے چاہیں۔(وحیدمراد)
٭٭٭٭٭

ہمارے ہاں کے فیمنسٹ خواتین کو فرسودہ سسٹم سے لڑانے کے بجائے شوہر سے لڑانے پر ابھارتے ہیں۔
نور الہد ی شاہین
ابھی بھی ہمارے معاشرے میں یہی ریت اور رواج قائم ہے کہ ایک گھر میں بھلے چھ بھائی ہوں اور ایک کام نہ کرتا ہو تو اسے نکما اور نکھٹو کہا جائے گا، کام نہ کرنے پر شرم دلائی جائے گی لیکن اگر ایک گھر میں گیارہ بہنیں بھی ہیں تو ان کا ایک بھائی سب کو اپنی ذمہ داری سمجھے گا، ان کا والد اپنی ہر بیٹی کی خواہش اور ضرورت پوری کرنے کے لیے اپنی جان لڑا دینا اپنا فرض سمجھتا ہے اور کبھی کہیں کسی لڑکی کو نکمی اور نکھٹو کا طعنہ نہیں دیا جاتا اور نہ ہی لڑکیوں کو والد یا بھائی کا ہاتھ بٹانے کے لیے باہر نکلنے اور نوکریاں کرنے کو کہا جاتا ہے۔ ایسے بھائی بھی ہیں جو اپنی بہن کی عزت کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی بیوی بچوں اور اپنی جوانی تک کو یاد نہیں رکھتے ۔ ایسے باپ ہر گلی ہر بازار میں مل جائیں گے جو اپنی بیٹیوں کی ایک خواہش پوری کرنے کے لیے خجل خوار ہو رہے ہوتے ہیں، مزدوریاں اور اوور ٹائم کرتے ہیں کہ آج میری گڑیا نے بولنے والی گڑیا مانگی ہے اور مجھے وہ لے کر ہی گھر جانا ہے۔
یقینا ہمارے معاشرے میں ایک خاتون جو کسی شخص کی بیوی ہے اس کو بہت سے مسائل اور سخت حالات کا سامنا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ باقی تمام رشتوں کے تقدس پر نشان لگا دیں اور معاشرے کے باقی افراد کو بھی کٹہرے میں کھڑا کر دیں۔ ایک عورت جو بیوی ہے اس سے باقی رشتوں بھائی، باپ اور بیٹے کے بارے سوال کیا جائے تو وہ ان پر اپنی جان نچھاور کرتی نظر آئے گی تو پھر صرف ایک بیوی اور شوہر کے رشتے کے مسائل پر بات کرنے کے بجائے تمام رشتوں اور افراد کو رگڑنا ناانصافی اور مسئلہ حل نہ کرنے کا عمدہ طریقہ ہے۔ آج بھی ہمارے معاشرے میں بھائی اپنی بہنوں کا مان ہوتے ہیں، بیٹیوں کے لیے ان کے والد بادشاہ اور سپر ہیرو ہوتے ہیں اور وہ ان کی شہزادیاں ہوتی ہیں، ماوں کے لیے بہتی ناک والا کالا سیاہ بیٹا بھی چاند جیسا ہوتا ہے۔ اس لیے خدارا اپنی فضول کی برابری کی بحث اور بکواس میں معاشرے میں موجود رشتوں کے تقدس اور خوبصورتی کو گہنانے کی کوشش نہ کریں۔
خرم شہزاد

٭٭٭٭٭٭٭
سوال یہ نہیں کہ معاشرے میں مرد اور عورت برابر سمجھے جاتے ہیں کہ نہیں لیکن سوال یہ ضرور ہے کہ آخر برابری کا شور مچانے والی خواتین نے خود مردوں کی برابری کے لیے کیا کچھ کرنے کی ٹھانی ہے۔ کوئی بل جمع کروانا ہو یا بازار میں کوئی سبزی خریدنی ہو، گھنٹے سے کھڑے دس مردوں کے بجائے ابھی پہنچنے والی خاتون کو اہمیت دی جاتی ہے، دفاتر میں ان کے لیے الگ کاونٹر موجود ہوتے ہیں اوربازار میں انہی عورتوں کی برابری برابری کی باتیں سننے کے باوجود دس میں سے آٹھ مرد اپنی جگہ چھوڑ کر انہیں جگہ دیتے ہیں کہ یہی ہمارے معاشرے کی تہذیب ہے اور یہی طریقہ بھی (جو دو مرد جگہ نہیں دیتے وہ ان خواتین کو برابری کا موقع دے رہے ہوتے ہیں)۔
میرے معلومات میں برابری کے نعرے لگانے اور برابری پر اکسانے والی ایسی کوئی خاتون موجود نہیں ہیں جنہوں نے مرد حضرات کی طرح تعلیم مکمل کرنے کے بعد کوئی نوکری یا کاروبار کیا ہو، گھر بنایا ہو اور پوری طرح سیٹل اور سٹیبلش ہونے کے بعد شادی کے بارے سوچا ہو۔ بلکہ دیکھنے کو یہی ملتا ہے کہ ایسی تمام خواتین نے ہمیشہ سیٹل اور سٹیبلش مردوں سے شادیاں کیں اور پھر ان کے پیسے سے اپنے فارغ وقت کو گزارنے کے لیے این جی اوز بناکر یہ سارے ڈرامے بنا نے میں لگ گئیں۔ ہم بھی چاہیں گے کہ برابری کرنے والی خواتین پہلے اپنے دم پر پیسہ کمائیں، گھر بنائیں اور پھر شادی کریں تاکہ برابری کا اصل مفہوم ہمیں بھی سمجھنے میں آسانی ہو۔
خرم شہزاد
پاکستانی فیمنسٹوں کے لیے
اگر آپ واقعی خواتین کو برابری کا مقام دلانے میں سنجیدہ ہیں تو خواتین کو مردوں سے لڑانے اور سڑکوں پر دوڑانے کے بجائے چند بنیادی اقدامات کی طرف توجہ دیں۔سب سے پہلے مقننہ میں خواتین کے لیے مخصوص نشستوں کا تصور ختم کیا جائے اور خواتین کو یہ باور کرایا جائے کہ جس طرح مرد حضرات الیکشن لڑ کر آتے ہیں ، اسی طرح آپ بھی انتخابات لڑکر ایوان میں آسکتی ہیں۔ آپ کا عورت ہونا اس راستے میں رکاوٹ نہیں بنے گا۔ بینظیر بھٹو الیکشن لڑ کر وزیراعظم منتخب ہوسکتی ہیں تو دوسری خواتین میں کیا کمی ہے کہ آپ ان کے لیے خیراتی سیٹیں مختص کرتے ہیں۔ دوسرا اقدام یہ اٹھایا جائے کہ ملازمتوں میں خواتین کا کوٹہ ختم کرکے خالص میرٹ پر عمل در آمد کیا جائے تاکہ خواتین ہوں یا مرد، محض اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر آگے بڑھ سکیں۔تیسرا اقدام یہ اٹھایا جائے کہ تمام عوامی مقامات سے خواتین کا خصوصی کاونٹر ختم کیا جائے اور لیڈیز فرسٹ کا فرسودہ تصور بھی دفن ہونا چاہیے تاکہ سب برابری کے ساتھ قطار میں کھڑے ہوسکیں۔
کھانا گرم کرنا، کپڑے دھونا، برتن مانجھنا بچگانہ موضوعات ہیں۔ یہ نہ مردوں کا مسئلہ ہے نہ خواتین کا۔ بلکہ یہ اصل موضوع سے توجہ ہٹانے کے مترادف ہے۔ گول روٹی بازار سے مل جاتی ہے۔ کپڑے دھونے کے لیے لانڈری شاپس کی بھرمار ہے۔ برتن دھونے کے لیے بھی ملازم مل جاتے ہیں۔ اس طرح کی باتوں سے خواتین کے حقوق کا مذاق نہ بنایا جائے۔
نور الہد ی شاہین

انسان پیدا ہونے کے بعد بہت طویل عرصہ تک محتاج ہی رہتا ہے غذا کے لئے، لمس کے لئے، محبت کے لئے اور ان جیسی بہت سی بنیادی ضروریات کے لئے۔ ان بنیادی ضروریات کی بآسانی فراہمی سے ملنے والی تسکین ایک کمزور سے گوشت کے لوتھڑے کو خواہشات کا اسیر بنانے میں کچھ زیادہ وقت نہیں لیتی۔ اچھا لباس میسر ہے تو کچھ زیادہ اچھی پوشاک کی خواہش، کھانا میسر ہے تو کچھ زیادہ لذیذ کھانے کی خواہش، بنیادی تعلیم اور ہنر ہاتھ میں ہے تو کچھ اور اعلی تعلیم اور جدید ہنر سے خود کو اپڈیٹ کرنے کی چاہ۔۔۔ یہ اور ان جیسی بہت سی چیزوں کو حاصل کرنے کی مانگ ہر انسان میں وقت کے ساتھ ساتھ جنم لیتی رہتی ہے۔ ایک خواہش پوری ہوتی ہے تو دوسری سر اٹھا لیتی ہے اور یہ سلسلہ تاحیات جاری رہتا ہے اسی لئے انسان کو wanting animal بھی کہا جاتا ہے۔
یہاں ضرورت اور خواہش کے درمیان فرق سمجھنا بھی ضروری ہے۔ ضرورت ایک ایسی حالت کا نام ہے جس کا پورا ہونا بقا کے لیے ضروری ہے، اگر ضرورت پوری نہیں ہوگی تو زندگی کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے، مثال کے طور بھوک کی حالت میں خوراک کی ضرورت، بیماری کی صورت میں علاج کی ضرورت۔ ضرورت کے برعکس خواہش ایک ایسی کیفیت کا نام ہے جس کو پورا اگر نا بھی کیا جائے تو بقا کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا، خوراک کی مثال لے لیجیئے، خوراک جسم کی بنیادی ضرورت ہے لیکن اچھی اور مہنگی خوراک خواہش ہے۔ مہنگی خوراک نہ ملنے کی صورت میں آپ کی بقا کو کوئی خطرہ درپیش نہیں ہوگا۔ خطرہ اسوقت ہوگا جب آپ اپنی خواہش کو ضرورت کی حیثیت دینے لگیں۔ اور جب انسان خواہشات کو سر پر سوار کرلیتا ہے تو ایسے افراد پر مشتمل معاشرہ انتشار کا شکار ہو جاتا ہے۔
ضروریات اور خواہشات کے پس منظر میں اگر ہم آزادی کی دیکھیں، تو وہ کونسی آزادی ہے جو عورت چاہتی ہے ، ایسی خواتین بھی ہیں جو ہر بندش اور بندھن سے آزادی چاہتی ہیں۔ بندشیں اور پابندیاں کلچر کا حصہ ہوتی ہیں، یہ آزادیاں اور بندشیں ایک معاشرے کو مہذب بھی بنا سکتی ہیں اور تباہ بھی کر سکتی ہیں۔ ضرورت سمجھنے کی ہے کہیں ہم تحفظ فراہم کر نے کے چکر میں ظلم تو نہیں کر رہے؟ کہیں عورت آزادی کی آڑ میں خود کو تحفظ سے محروم تو نہیں کر رہی؟
ببلی شیخ

عورت پر ظلم: مسئلہ پدرانہ معاشرہ ہے؟
جدید ذھن اور حقوق نسواں والی این جی اوز خواتین کو مارکیٹ میں ضم کرنے کے لئے یہ دلیل پیش کرتی ہیں کہ پدرانہ معاشرے میں گھریلو سیٹ اپ کے اندر مرد شوہر و باپ کی صورت میں عورت پر ظلم کرتا اور اسکی تذلیل کرتا ہے۔ اس کا حل کیا ہے؟ یہ کہ عورت کو شوھر و باپ کی قید سے آزاد کروایا جائے۔
ایک لمحے کے لئے اس مسئلے کو درست مان لیتے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ جو مرد اس قدر سفاک ہے کہ وہ اپنی بیوی، بہن و بیٹی کے حقوق غصب کرتا ہے اور انکی عزت نہیں کرتا، کیا خیال ہے کہ وہ مرد اپنے ساتھ آفس میں کام کرنے والی ماتحت خواتین کو تنگ نہیں کرے گا؟ کیا ایسا مرد اپنی ساتھی آفس کلیگز کی عزت کرے گا؟ ہرگز بھی نہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ جو شخص باپ و شوھر کے روپ میں تو عورت کے لئے ظالم ہو وہی شخص بطور “مرد” ماشاء اللہ نہایت عمدہ ہو؟ یہی وجہ ہے کہ مغربی دنیا میں ایسے خوشنما نعرے لگا کر خواتین کو مارکیٹ میں جھونک دیا گیا مگر مرد کے ھاتھوں عورت پر ھونے والے مظالم میں کمی آنے کے بجائے دن بدن اس میں اضافہ ہوتا گیا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ نوکری پیشہ خواتین کی ایک اکثریت طرح طرح کے آفس مسائل کا شکار ہوتی ہیں۔ چنانچہ مغربی عورت جس قدر وائلنس کا شکار ہے اس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس لئے کہ مرض کی تشخیص (پدرانہ معاشرے کو قصور وار ٹھرانا) ہی سرے سے غلط تھی۔ مسئلہ مرد کی درست تربیت نہ ہونے کا ہے، جو مرد حسن سلوک کے ساتھ اپنے شرعی فرائض سر انجام دیتے ہیں انکی بیویاں کیسی مزے کی زندگی گزارتی ہیں، مغربی عورت اس کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ اور اگر مرد کی تربیت خراب ہو تو پھر بھلے لاکھ جتن کرلیجئے، عورت کو مرد کے ظلم سے کوئی نہیں بچا سکتا۔
ڈاکٹر زاہد مغل
٭٭٭٭
*****
حالیہ آٹھ مارچ کے دن یوم خواتین کے سلسلے میں نکلنے والی چند مرد مار عورتوں کی ریلیاں اور ان میں پیش کیے جانے والے ذومعنی اور فحش جملے کسی بھی شریف عورت کا سر شرم سے جھکانے کے لیے کافی ہیں۔ ہمارا مقدمہ لڑنے والے یہ اناڑی وکیل کیا جانیں کہ عورتوں کے حقوق کیا ہیں۔ قبیلوں کے اندھے قوانین کی نذر ہونے والی عورتوں کی کسمپرسی پر تو کسی نے نعرہ نہیں لگایا۔ قرآن مجید سے شادی کروائے جانے پر بھی شور نہیں مچا، ونی اور کاری ہونے والی عورتیں بھی توجہ کی طالب ہی رہیں۔ گالی گلوچ میں پروان چڑھنے والی عورتیں بھی انگشت بدنداں ہیں۔ چند بدقماش عورتوں نے عزت دار عورتوں کی چادر اس زور سے سر سے کھینچی کہ بال بال الگ ہو گیا اور تار تار الگ۔ ’’اپنا کھانا خود گرم کرو‘‘ کی توجیح یہ پیش کی گئی کہ ایک عورت صرف اس لیے قتل ہوئی کہ اس نے کھانا وقت پر گرم کیوں نہ کیا۔ نعرے لگانے والیاں اس زیرو زیرو سیون عورت کو بھول گئیں جس نے اپنے شوہر کی بوٹی بوٹی کر کے سالن بنا کر محلے بھر میں تقسیم کیا تھا۔ آخر عورت کی کس بات پر لڑائی ہے؟؟؟ ’’اپنا بستر خود گرم کرو‘‘ لا حول ولاقوۃ، یعنی بیڈ روم سے باہر کھلنے والی کھڑکیاں بیچ چوراہے پر کھول دی گئیں۔ جتنا نظر آتا ہے سب دیکھ لو کہ اس کا نام آزادی رائے ہے، حقوق نسواں ہے۔میں خود سے شرمندہ ہوں کہ میری ہی صنف نے میری ہی عصمت دری کر دی اور میں بدلے میں کوئی بینر لے کر سر بازار نہ نکل سکی۔ نام نہاد این جی اوز کی جانب سے پھینکے جانے والا پیسہ رنگ لے آیا، ملک کے کونے کونے میں تشہیر ہو گئی، ہر زہریلی زبان یک زبان ہو کر بولی کہ ’’ٹائر میں لگا لوں گی‘‘ تو پھر جنازے بھی خود ہی پڑھا لو، بچے بھی ڈاؤن لوڈ کر لو، ڈر کیسا۔
ڈاکٹر مریم عرفان
********
یوم خواتین پر این جی او مافیا نے مشرقی اقدار اور اسلامی روایات کو پامال کرنے کی کوشش میں حقوق نسواں کی تحریک کا جنازہ نکالا ۔ خواتین نے مظاہرے میں جو کتبے اٹھا رکھتے تھے ان پر درج چند نعرے تو ایسے ہیں جو کوئی شریف آدمی دہرا نہیں سکتا۔ بلاشبہ پاکستان میں خواتین کی حق تلفی ہوتی ہے‘ انہیں وراثت میں حصہ نہیں ملتا‘ جہالت‘ پسماندگی‘ کم مواقع اور معاشی بدحالی کی وجہ سے لڑکیوں کو لڑکوں کی طرح تعلیم اور روزگار کے مساوی حقوق حاصل نہیں‘ خواتین صنفی امتیاز کا نشانہ بنتی ہیں اور انہیں گلی محلے‘ دفاتر اور کاروباری مراکز میں ہراساں کیا جاتا ہے اگر کوئی مرد یا عورت ‘ ادارہ یا گروہ اس پر آواز بلند کرتا ہے تو پوری قوم کی طرف سے تعریف کا مستحق ہے۔ ہماری سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو اسی حوالے سے زور دار مہم چلانے کے علاوہ مساوی حقوق اور مواقع کے لئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے لیکن حقوق نسواں کے نام پر اخلاقی حدود اور اسلامی اقدار سے بغاوت؟ یہ سوچی سمجھی شرارت ہے خواتین بالخصوص ناپختہ ذہن کی نوعمر بچیوں کو باپ‘ بھائی‘ شوہر کے رشتے سے متنفر کرکے خاندان کی بنیادی اکائی کو توڑنے اور بے حیائی‘ مادر پدر آزادی اور فحاشی کے کلچر کو فروغ دینے کی تدبیر۔ حقوق نسواں کے نام پر معاشرے کو مذہب‘ مذہبی روایات و مشرقی اخلاقیات اور سوشل فیبرک کو توڑنے والی اس مہم کو محض چند خواتین اور ایک آدھ فارن فنڈڈ این جی او کا کیا دھرا قرار دے کر چشم پوشی نہیں کی جا سکتی۔
بینر پر درج نعروں سے یہ تاثر ملتا ہے کہ جنسی زیادتی سے زیادہ انہیں نکاح ناپسند ہے‘ رشتے بنانا اور بچانا نہیں بلکہ بگاڑنا مقصد اولین ہے اور ستروحجاب سے انہیں نفرت‘ عریانی ‘ فحاشی اور فحش گوئی سے انہیں پیار ہے ’’ورنہ میں اکیلی‘ آوارہ‘ بدچلن‘‘ کا کتبہ اٹھا کر کوئی شریف خاتون سڑک پر کھڑی نہیں ہو سکتی۔ اس معاشرے میں نہیں دنیا کے کسی دوسرے مہذب ملک میں بھی اگر ایک نوجوان لڑکا ’’میں اکیلا‘ آوارہ اور بدچلن‘‘ کا کتبہ لے کر کھڑا ہو تو اسے ذہنی امراض کے ہسپتال لے جایا جائے گا یا والدین ‘ محلے داروں اور راہگیروں سے وہ جوتیاں پڑیں کہ خدا کی پناہ۔ان مظاہروں سے خواتین کی مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں۔ حقوق و تعلیم نسواں کے مخالف پسماندہ ذہن اسے ہتھیار کے طور پر استعمال کریں گے اور شریف زادیاں منفی ردعمل کا شکار ہوں گی۔
ارشاد احمد عارف
********
ہمارے پاکستانی اور اسلامی پس منظر میں ہم کم از کم عورت کو جائیداد میں حصّہ دینے پر تو غور کر ہی سکتے ہیں۔ اس کو اپنی پسند کی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دینے پر تو بات کر ہی سکتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ عورت جسمانی طور پر کمزور ہے اور رہے گی۔ مرد اس پر بری نظر ڈالتا ہے اور ڈالتا رہے گا۔ اس کو گھر کی چاردیواری کا مضبوط تحفظ دینا باپ، بھائی، شوہر اور بیٹے کا فرض ہے اور رہے گا۔ ہم ہرگز یہ نہیں چاہیں گے کہ عورت اپنے آپ کو نادانی سے نقصان پہنچائے۔ صرف اسی کی ذات کا مسئلہ نہیں، اس کی کوئی بھی نادانی یا غلط فیصلہ صرف اس کی ذات پر ہی اثر انداز نہیں ہوتا بلکہ اس کی بہنوں، بیٹیوں، بھائیوں، شوہر اور دوسرے عزیزوں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ اس لیے اس کو خود کو اور اپنے اردگرد کے لوگوں کو تباہ کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، مگر جو حقوق اس کو دین نے دیے ہیں وہ تو دیے جا سکتے ہیں۔ اور روزمرہ کے معاملات میں اس کو عزت اور اہمیت تو دی جا سکتی ہے۔ فقہی معاملات میں آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش تو کی جا سکتی ہے۔ ملازمت یا کاروبار کی صورت میں گھریلو ذمہ داریوں میں اس کا بوجھ تو بانٹا جا سکتا ہے۔
اس ضمن میں ہم اس فضول بحث میں نہیں پڑنا چاہتے کہ مغرب میں کیا ہوا اور کیا نہیں۔ ہم کو اپنے آپ کو دیکھنا ہے اور اپنے مسائل خود حل کرنے ہیں۔ موجودہ دور میں بھی ماں تو عورت کو ہی بننا ہے۔ بچے کو پالنا ابھی بھی انتہائی حد تک، بہت معمولی استثناء کے ساتھ، ماں کا ہی کام ہے۔ خواہ وہ گھر سے باہر کی دنیا میں کتنی ہی مصروف ہو۔ مسئلہ یہی ہے اس پس منظر میں قانونی طور پر تو عورت کو تمام حقوق برابری کی بنیاد پر دیے جا سکتے ہیں مگر عملی طور پر وہ قابلِ دید مستقبل میں بھی کمزور ہی رہے گی۔ ہمیں اس چیز کو بھی مدِّ نظر رکھنا چاہیے کہ جیسے عورت کی خرابی (اور بڑی حد تک مرد کی بھی) خاندان اور معاشرے کو نقصان پہنچا سکتی ہے ویسے ہی اس کی بہتری، صرف اسی کی بہتری نہیں ہے۔ اس میں خاندان اور معاشرے کی بہتری بھی پنہاں ہے۔ اگر عورت جسمانی اور ذہنی طور پر صحتمند ہے تو وہ بچوں کی تربیت اور بڑوں کی خدمت بہتر کر سکتی ہے۔ اگر عورت تعلیم یافتہ اور باشعور ہے تو وہ اپنے بچوں کو اور معاشرے کو زیادہ مہذّب اورباشعور بنانے میں حصّہ لے سکتی ہے۔ اگر عورت معاشی طور پر مستحکم ہے تو وہ خاندان کی معیشت کو بہت اونچائی تک لے جا سکتی ہے۔ اس لیے بات صرف عورت کے حقوق کی نہیں معاشرے کی بہتری کی ہے۔اور معاشرے کو بہتر بنانے کے لیے جہاں تمام طبقات کو انصاف اور خوشگوار زندگی کی سہولتیں فراہم کرنے، وسائل کی معقول تقسیم کرنے اور قانون کی بالا دستی قائم کرنے کی ضرورت ہے وہیں پسے ہوئے طبقات کے لیے خصوصی کوشش کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے، جن میں عورت سرِ فہرست ہے.
حبیبہ طلعت
*****

آزادی کا فریب
کچھ نوکری پیشہ خواتین کا طرز زندگی ۔۔۔۔۔۔ جس پر فی الوقت اعتراض کرنا مقصود نہیں ۔۔۔۔۔۔ یہ ہوتا ہے کہ گھر و بچے صبح سے لے کر رات تک نوکروں کے حوالے ہوتے ہیں۔ جب ان سے پوچھا جائے کہ آپ ایسا کیوں کرتی ہیں جب کہ آپ کے شوہر بھی اچھا کماتے ہیں: تو ان میں سے بعضوں کا جواب ہوتا ہے کہ “ایک خود مختار زندگی گزارنا سب کو اچھا لگتا ہے”۔
اگر آپ انکی زندگی پر ذرا غور کریں تو معلوم ہوگا کہ بیچاری صبح سے شام تک آفس میں باس اور ھائیر مینیجمنٹ کے ڈر سے کاموں میں پسی ہوتی ہے، اپنی کولیگز کے ساتھ ہر وقت آفس مشکلات کا رونا روتی دکھائی دے گی، اور اس سب کے بعد بھی اسے لگتا ہے کہ گھر بار کی ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہوکر “وہ آزاد و خود مختار ہے۔” گھر کے ڈسپلن کو بار گراں سمجھنے والی عین وہی خاتون دن بھر مارکیٹ ڈسپلن اور اس کے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھال رہی ہوتی ہے یہاں تک کہ شام کو گھر بھی اگلے روز کے کام کی ٹنشن کے ساتھ لوٹتی ہے۔ یہ سب کچھ وہ اس احساس کے ساتھ کرتی ہے کہ “میں آزاد ہوں”۔ خاندان کی تمام تر ذمہ داریوں و جکڑ بندیوں کو رد کردینے والی اس خاتون سے اگر پوچھیں کہ ایسا کیوں کیا جارہا ہے، تو جواب ملے گا “اس لئے تاکہ اپنے لئے میرے فری اوقات بڑھ جائیں”۔ لیکن ان مزید فری کئے گئے لمحات میں وہ کہاں ہوتی ہے؟ “مارکیٹ” میں۔ یہ آزادی کا فریب ہے۔
آزادی کا فریب یہ ہے کہ یہ فرد کو روایتی معاشرت کے ڈسپلن و ذمہ داریوں کے خلاف یہ کہہ کر شہ دیتی ہے کہ اس کے بعد تم “کچھ بھی” کرنے کے لئے آزاد ہوگے۔ لیکن حقیقتا اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کے بعد “تم خود کو مارکیٹ ڈسپلن میں سمو کر سرمائے کی خدمت کرنے کے لئے آزاد ہو”۔ اس کے سواء آزادی کا کوئی دوسرا مطلب نہیں۔
ڈاکٹر زاہد مغل
************

مغرب میں برپا کی جانے والی ‘تحریک ِآزادیٴ نسواں’ نے عورت کو جو مراعات اور آزادیاں بخشی ہیں، ان کی افادیت کے متعلق خود اہل مغرب کے درمیان بھی اتفاقِ رائے نہیں ہے، البتہ آزادی کے اس دو سو سالہ سفر کے بعد بلاشبہ عورت ایک ناقابل تلافی نقصان سے دو چار ضرور ہوئی ہے،وہ یہ کہ مغربی عورت اپنے عورت ہونے کے تشخص کو گم کر بیٹھی ہے۔ نسوانیت کا وہ انمول زیور جو فطرت نے عورت کو عطا کیا تھا، وہ برابری اور حقوق کی دھول میں ایسا گم ہوا ہے کہ اب اسے ‘چراغِ رُخِ زیبا’ کا سہارا لے کر بھی ڈھونڈنا چاہیں تو نہیں ڈھونڈ سکیں گے۔ چراغ کی بات ہی الگ ہے، رُخِ زیبا کا وجود ہی باقی نہیں رہا، گھر کی پاکیزہ فضا سے نکل کر بازار، دفتر اور جنسی ہوس ناکی کی منڈیوں میں خوار ہو کرجمال پرور نسوانی چہرہ زمانے کی دھول سے اس قدر اَٹا ہوا ہے کہ حسن و جمال کا پیکر عجب بھبھوکے کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ لیکن واے افسوس !اس عظیم المیہ کا احساسِ زیاں جاتا رہا ہے، مغرب کی عورت اپنی مسخ شدہ فطرت کو بحال کرنے کی بجائے اسے مزید بگاڑنے میں اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لا رہی ہے۔
اُردو زبان میں جس انسان کے لئے لفظ ‘عورت’ استعمال کیاجاتا ہے، وہ مغرب میں لغوی اور اصطلاحی دونوں اعتبار سے اپنی معنویت و مفہوم کھو چکا ہے۔ ‘عورت’ کا لفظ سنتے یا پڑھتے ہی انسانی ذہن میں ایک حیاتیاتی وجود کی شکل و صورت اور پیکر ِظاہری کے علاوہ اس سے وابستہ شرم و حیا، عفت و عصمت، حسن و جمال، نزاکت و لطافت، اُلفت واُمومت، تقدس و نظافت، مروّت و شرافت، ایثار و اخلاص کی رمزیت و ایمائیت کا جو ایک جہانِ حقیقی آباد تھا؛ افسوس! تحریک ِنسواں کے سیلاب نے اسے غارت و تباہ کر دیا ہے۔ اس اعتبار سے گذشتہ تین ہزار برس کے طویل سفر میں دنیا کے مذہبی اور اَدبی لٹریچر اور فنونِ لطیفہ نے عورت کے متعلق علوم وفنون کا جو عظیم محل تعمیر کیا تھا وہ زمین بوس ہوتا دکھائی دیتا ہے اور اس ضمن میں انسانی فکر نے جواہرپاروں کے جو پہاڑ جمع کئے تھے، ان کی حیثیت اب سنگریزوں یا پتھروں کی چٹانوں سے زیادہ نہیں رہی۔ انسانیت نے خدائی تعلیمات اور اپنی عقل کی روشنی میں جو انسانوں کے مفاد میں سماجی اور اخلاقی قدریں تشکیل دیں جو فی الواقع انسانی اجتماعی حکمت کا شاہکار ہیں، وہ اب محض اِضافی اور غیر متعلق ہو کر رہ گئی ہیں، کیونکہ جدید تحریک ِنسواں نے ان سب کی مذمت کی بنیاد پر ہی اپنی عمارت کھڑی کی ہے۔
مغرب کے بعض راست فکر دانشور جو تحریک ِنسواں کے انسانی معاشرے پر خطرناک نتائج کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے، انہوں نے بار بار خبردار کیا کہ ‘عورت کو عورت ہی رہنے دو’ لیکن تحریک ِنسواں کے علمبردار خواتین و حضرات نے نسوانیت کی پرانی قدروں کو مردوں کے ظلم اور استحصال کے لئے ایک ہتھیار قرار دے کر اس طرح کے وعظ و نصیحت کو عورت کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ تصور کیا اور عورتوں کی متواتر ذہن سازی کی کہ اگر وہ مردوں کے ظلم سے نجات چاہتی ہیں تو اس کی واحد صورت یہی ہے کہ وہ ‘مرد’ ہی بن جائیں یا کم از کم اس کی کاربن کاپی؛ نتیجہ معلوم ! عورت’مرد’ تو نہ بن سکی البتہ ‘عورت’ بھی نہ رہی…!!
******
‘تحریک ِآزادیٴ نسواں’
تحریک ‘تحریک ِآوارگی ٴنسواں’ یا ‘تحریک ِبربادیٴ نسواں’
جدید تحریک ِنسواں کی علمبردار ‘عورتوں’ کے لئے کسی مناسب اصطلاح یا لفظ کی تلاش کا مسئلہ صرف ان کے مخالفین کو ہی درپیش نہیں رہا ہے۔ فیمی نزم کے نظریات کے پرچارک بھی اس اُلجھن کا شکار نظر آتے ہیں۔ جیساکہ ایک انقلابی Feministلکھتی ہیں:
” (Judith Evans, Feminist Theory Today, p.11)
“نازن پسندانہ فکر میں ہمیشہ سے یہ مسئلہ رہا ہے کہ آخر جب ‘عورت’ کاذکر کیا جائے تو کون سی اصطلاح استعمال کی جانی چاہیے۔’ویمن’ کے لفظ کا استعمال تو مسئلہ پیدا کرتا ہے، میں جانتی ہوں کہ بعض اوقات میں ‘ویمن’ (عورت) کا لفظ استعمال کرتی ہوں جبکہ اس سے میری مراد ‘تمام عورتیں’ نہیں ہوتیں۔”
گویا یہ جدید انقلابی ‘عورتیں’ بھی عام روایتی عورتوں کو اپنے سے مختلف گردانتی ہیں۔
تحریک ِنازن کے لٹریچر میں’مساوات’ کے ساتھ ایک اصطلاح کثرت سے استعمال کی جاتی ہے، وہ ہے Androgyny۔ چیمبرز ڈکشنری میں اس کے معانی درج ذیل ہیں:
“Having the charateristics of both male and female in one individual.”
یعنی “ایک فرد میں مرد اور عورت دونوں کی خصوصیات کا جمع ہونا۔”
لیکن Judith Even نے جو اس لفظ کے معانی اپنی کتاب میں درج کئے ہیں۔ وہ خاصے چونکا دینے والے ہیں۔ وہ ہیں:
“Neither man, nore women.” (p.29)یعنی “نہ عورت ،نہ مرد”
اُردو زبان میں ایسے فرد کے لئے مخنث کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اکبر الٰہ آبادی کا ایک جملہ ہے : “حضرت مخنث ہیں۔ نہ ‘ہی اوں’ میں؛ نہ ‘شی اوں’ میں۔”
یاد رہے تحریک ِنازن کا ہدف Androgynous معاشرے کا قیام ہے جہاں مرد و زن کے تمام امتیازات مٹا دیئے جائیں گے۔ Gender (صنف) پرمبنی اختلافات کو مٹانا تحریک ِنازن کے اہم اہداف میں شامل ہے۔
پاکستان میں این جی اوز کی بیگمات تمام پاکستانی عورتوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرتی ہیں، وہ یہ حقیقت فراموش کردیتی ہیں کہ وہ مغرب کے اتباع میں پاکستانی عورتوں کو جو حقوق دلوانا چاہتی ہیں، پاکستان خواتین کی اکثریت ان میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ پاکستان کی عام عورت مغربی اقدار کے مقابلے میں اسلامی اور مشرقی اقدار کو زیادہ عزیز رکھتی ہیں۔
مغرب میں آزائ نسواں کی انتہا پسند علمبردار عورتوں کو Manly womanکہا جاتا ہے یعنی وہ عورتیں جو مردانہ اوصاف کی حامل ہیں یا جو نسوانیت سے عاری ہیں۔
عطاء اللہ صدیقی
***********

ہمارا ان فیمینزم کی پرچارک، روشن خیال، لبرل خواتین سے صرف ایک سوال ہے کہ موقع تو ’’عالمی یومِ خواتین‘‘ کا تھا’ تو دنیا بھر کی عورت اور خصوصاً پاکستانی عورت کے اصل مسائل کیوں اُجاگرنہیں کیےگئے ؟ وہ کاروکاری، ونی، وٹہ سٹہ، قرآن سے نکاح، تعلیم کا حق، لڑکیوں کی خرید و فروخت، وراثت میں حصّہ، تیزاب گردی، زیادہ مشقّت، کم اُجرت، بیٹا، بیٹی میں تخصیص، بچّیوں سے زیادتی، جنسی ہراسانی، مرضی پوچھے بغیر رشتہ طے کردینا، علاج معالجے کی مناسب سہولتیں حاصل نہ ہونا اور نان نفقہ جیسے معاملات، مسائل کیا ہوئے؟ کیا اس عورت مارچ کا محور و مرکز، چارٹر محض مَردوں پہ طعنہ زنی، ذمّے داریوں سےآزادی ہی ٹھہرا؟
عورت کا کوئی ایک دیرینہ مسئلہ ہی ہائی لائٹ ہوجاتا۔ کوئی ایک پریشانی کم ہوتی، ایک شکایت دُور ہوجاتی۔ پبلک ٹرانس پورٹ میں ویمن پورشن بڑھانے، دفاتر کے ساتھ ڈے کیئر سینٹر بنانے، اپنی مرضی سے کیریئر کا انتخاب کرنے ہی کی بات کرلی جاتی۔ عجیب و غریب حُلیوں، کھلی باچھوں، ایک کان سے دوسرے تک پھیلی نمائشی مُسکراہٹوں کے ساتھ، بلند ہاتھوں میں بے مقصد، فضول پلے کارڈز اٹھا کر چوکوں، چوراہوں پہ آکے پایا بھی، تو کیا پایا، محض لعنت ملامت، رسوائی، جگ ہنسائی۔’ ایک عالمی دن منایا گیا اور پاکستان کی پسی ہوئی عورت کی عزت کو مزید روند ڈالا گیا۔ اب اس آگ کی لپیٹ میں ہر وہ عورت آرہی ہے، جس نے کبھی بھی زندگی میں حقوقِ نسواں، عورت کی آزادی، مساوات کی بات کی یا عالمی یومِ خواتین کا نام بھی لیا۔ فتور تو چند ایک دماغوں کا ہوتا ہے، مگر بُرے کے ساتھ اچھا بھی دھر لیا جاتا ہے اور سزا کئی بے گناہوں کو بھی بھگتنی پڑجاتی ہے۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

مغرب میں برپا کی جانے والی ‘تحریک ِآزادیٴ نسواں’ نے عورت کو جو مراعات اور آزادیاں بخشی ہیں، ان کی افادیت کے متعلق خود اہل مغرب کے درمیان بھی اتفاقِ رائے نہیں ہے، البتہ آزادی کے اس دو سو سالہ سفر کے بعد بلاشبہ عورت ایک ناقابل تلافی نقصان سے دو چار ضرور ہوئی ہے،وہ یہ کہ مغربی عورت اپنے عورت ہونے کے تشخص کو گم کر بیٹھی ہے۔ نسوانیت کا وہ انمول زیور جو فطرت نے عورت کو عطا کیا تھا، وہ برابری اور حقوق کی دھول میں ایسا گم ہوا ہے کہ اب اسے ‘چراغِ رُخِ زیبا’ کا سہارا لے کر بھی ڈھونڈنا چاہیں تو نہیں ڈھونڈ سکیں گے۔ چراغ کی بات ہی الگ ہے، رُخِ زیبا کا وجود ہی باقی نہیں رہا، گھر کی پاکیزہ فضا سے نکل کر بازار، دفتر اور جنسی ہوس ناکی کی منڈیوں میں خوار ہو کرجمال پرور نسوانی چہرہ زمانے کی دھول سے اس قدر اَٹا ہوا ہے کہ حسن و جمال کا پیکر عجب بھبھوکے کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ لیکن واے افسوس !اس عظیم المیہ کا احساسِ زیاں جاتا رہا ہے، مغرب کی عورت اپنی مسخ شدہ فطرت کو بحال کرنے کی بجائے اسے مزید بگاڑنے میں اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لا رہی ہے۔
‘عورت’ کا لفظ سنتے یا پڑھتے ہی انسانی ذہن میں ایک حیاتیاتی وجود کی شکل و صورت اور پیکر ِظاہری کے علاوہ اس سے وابستہ شرم و حیا، عفت و عصمت، حسن و جمال، نزاکت و لطافت، اُلفت واُمومت، تقدس و نظافت، مروّت و شرافت، ایثار و اخلاص کی رمزیت و ایمائیت کا جو ایک جہانِ حقیقی آباد تھا؛ افسوس! تحریک ِنسواں کے سیلاب نے اسے غارت و تباہ کر دیا ہے۔ اس اعتبار سے گذشتہ تین ہزار برس کے طویل سفر میں دنیا کے مذہبی اور اَدبی لٹریچر اور فنونِ لطیفہ نے عورت کے متعلق علوم وفنون کا جو عظیم محل تعمیر کیا تھا وہ زمین بوس ہوتا دکھائی دیتا ہے اور اس ضمن میں انسانی فکر نے جواہرپاروں کے جو پہاڑ جمع کئے تھے، ان کی حیثیت اب سنگریزوں یا پتھروں کی چٹانوں سے زیادہ نہیں رہی۔ تحریک ِنسواں کے علمبردار خواتین و حضرات نے نسوانیت کی پرانی قدروں کو مردوں کے ظلم اور استحصال کے لئے ایک ہتھیار قرار دے کر اس طرح کے وعظ و نصیحت کو عورت کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ تصور کیا اور عورتوں کی متواتر ذہن سازی کی کہ اگر وہ مردوں کے ظلم سے نجات چاہتی ہیں تو اس کی واحد صورت یہی ہے کہ وہ ‘مرد’ ہی بن جائیں یا کم از کم اس کی کاربن کاپی؛ نتیجہ معلوم ! عورت’مرد’ تو نہ بن سکی البتہ ‘عورت’ بھی نہ رہی…!!
عطاء اللہ صدیقی

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

کیا میرا جسم میری مرضی نعرے کا پس منظر بینر اٹھا کر پھرنے والی بیگمات اور ان کے تقلید میں چلنے والی عام خواتین کے علم میں ہے؟ جن ممالک کے سماجوں سے آپ نے چھومنتر سمجھ کے یہ نعرہ اڑا لیا اور مشرقی عورت کی تعلیمی آزادی سے قبل جنسی آزادی اور جنسی مساوات طلب کی، کیا ان ممالک کی حقوقِ نسواں کی جدو جہد کی خوں چکاں داستان کبھی پڑھی بھی ہے؟ان میں سے کتنوں کو معلوم ہے کہ بدن کی ریاست کی حاکمیت کا دعوی کرنے سے بہت پہلے یورپ کی عورت نے تعلیم کا حق مانگا۔ پھر اس علم کی روشنی میں جائیداد کا حق، پھر روزگار کا، پھر مساوی تنخواہ کا حق طلب کیا۔ تب کہیں جا کے ایک تعلیم یافتہ، آزاد،خودمختار عورت نے اپنے بدن کے ساتھ جبر و زیادتی، نادانی یا نا پسندیدہ حمل سے نجات کے لیے اسقاط کا حق مانگا ۔تقلید کے لیے بھی عقلِ سلیم کی ضرورت ہے۔
کیا فرانسیسی فیمنسٹ سیمون ڈی بوار کی کتاب کا ترجمہ کرنے والوں نے اس کی ذاتی زندگی کی تصویر کشی کی؟ برطانیہ کی میری وول سٹون کرافٹ کی زندگی کی بے ثمر محبتوں اور خود کشی کی کہانیاں سنیں؟ آخر میں مرد کی آغوش کو پناہ بنا لینے والی عورتوں کےافسانے پڑھے؟ نہیں نا، بس چند ادھ کچے لبرلز نے تانیثیت کا پھریرا لہرایا، مالی منفعت کا بیج بویا، علمی، ادبی اور ثقافتی نشستیں سنبھالیں اور فیمنسٹ کا بیج لگا کے اختیار کی دوڑ لگا دی۔ اپنے ہی مقتدر طبقے کے حصار میں قلعہ بند یہ بزعمِ خود تانیثیت کی محقق اور علمبردار عورتیں کروڑوں محنت کش عورتوں کا نمائندہ کیسے ہو سکتی ہیں؟ انہوں نے مردوں سے مسابقت کی تگ و دو میں عام عورت کی زندگی مزید اجیرن کی اور خود ہاتھ جھاڑ کر کونے پر ہو گئیں ۔ اسی فیصد آبادی کے حالات سے واقف ہوئے بغیر، جلتی پر تیل گراتے نعرے لکھے، بینر کا لال کپڑا تہہ کر کے گاڑی کی ڈکی میں رکھا اور ملازمہ سے کھانا لگانے کا کہہ کر ہاٹ شاور لینے دنیا کی کلی ضروریات سے مزین باتھ میں روم جا گھسیں اور یوں ایکٹوٹی کے نام پر ایک دن اور اچھا گزر کیا ۔
صدف مرزا

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
فیمینسٹ حضرات آپ کو بتانا چاھتے ہیں کہ ہمارے معاشروں کے یہ جو لاکھوں کروڑوں مرد اپنی بیٹیوں پر جان نچھاور کرتے ہیں، اپنی ماؤوں کے حکم کی تعمیل کو سعادت سمجھتے ہیں، اپنی بہنوں کی حفاظت کے لئے جان چھڑکتے ہیں، عمر بھر اپنی بیویوں کا خیال کرتے ہیں، یہ سب مرد جو ان خواتین کی ضروریات و خواھشات پوری کرنے کے لیے دن بھر مارے مارے پھررھے ہیں، انکی تیمار داری کے لئے ھسپتالوں میں خوار ہورہے ہیں، یہ سب مرد جی ہاں یہ سب مرد دراصل اپنے ایک ازلی دشمن عورت پر غلبہ پانے اور اس پر اپنی حکومت برقرار رکھنے کے جذبے سے سرشار ہوکر یہ سب کررہے ہیں۔ نیز ایک ماں جو اپنے بیٹے کو پال پوس کر بڑا کرتی ہے، اس کا مقصد بالاخر ایک مرد پر حکمرانی کرنا ہوتا ہے۔ یہ ہے وہ ازلی حقیقت جس سے یہ ہر مرد وعورت کو روشناس کرانا چاھتے ہیں۔
اگر کسی کو ہمارے معاشرے کا تجزیہ فیمینسٹ عینک ہی سے کرنا مقصود ہے تو ھم کہے دیتے ہیں کہ مرد باپ، بھائی اور شوھر کی صورت میں ایک عورت پر جس قدر ظلم کرتا ہے، عورت ماں کے کردار میں اس کا حساب چکتا کر لیتی ہے۔ یقین نہ آئے تو دیکھ لیجئے کہ ھمارے یہاں مردوں کی شادی کے بعد کی زندگی کا سکون برباد کرنے میں ان کی ماؤوں کا بطور ساس (اور بہنوں کا بطور نند) کتنا بڑا حصہ ہوتا ہے یہاں تک کہ اکثر مردوں کے گھر طلاق کی نوبت بھی اسی عورت کی پیدا کردہ غلط فہمیوں کی وجہ سے آتی ہے۔ ایک عورت بطور ماں ایک سے زائد مردوں (بیٹوں) پر حکمرانی کرکے ان کے گھر کا سکون غارت کئے رکھتی ہے۔ تو اسے کہتے ہیں، سو سنار کی ایک لوھار کی۔ تو اب عورت بطور ماں کو کوسنا شروع کریں؟
ایک مرد اگر ایک عورت پر تھوڑی تھوڑی حکومت کرکے اس پر غلبہ پانے کی خواھش کو تسکین دیتا ہے تو ایک عورت کئی مردوں پر حکومت کرکے اس کا حساب چکتا کردیتی ہے۔
ڈاکٹر زاہد مغل
**********
مرد و عورت فیمینسٹ فکر میں
فیمینسٹ فکر کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ فکر مرد و عورت کے تعلق کو ایک ازلی جنگ کی تاریخ کی صورت میں دیکھتی ہے جہاں ایک جنس ھمیشہ سے دوسری جنس پر غالب آنے کی کشمکش سے دوچار رہی ہے۔ ہمارے یہاں اس فکر سے متاثر حضرات بھی جب ھمارے معاشرے کا تجزیہ کرتے ہیں تو عورت کو ایک مظلوم جبکہ مرد کو ظالم جنس کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
تاریخ کے جس جھروکے کو یہ حضرات “مرد و عورت کی ازلی جنگ” کا عنوان دینے کی کوشش کرتے ہیں دراصل یہ مرد و عورت نہیں بلکہ “بے مہار طاقتور اور کمزور” کی تاریخ کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے جسے پوری تاریخ کا عنوان دے کر پیش کیا جاتا ہے۔ جب طاقتور بے مہار ہو تو وہ مرد و عورت کی تقسیم نہیں دیکھتا، وہ کمزور مرد کو بھی بازاروں میں اسی طرح ذلیل کرتا ہے جیسے کسی خاتون کو، وہ کمزور مردوں کو بحری جہازوں سے سمندروں میں پھینک کر صرف طاقتور غلام ہی کو فیکٹریوں میں جھونکتا ہے۔ اگر ھمارے معاشرے میں کچھ خواتین کی مظلوم حالت مرد و عورت کی کسی ازلی دشمنی کی تاریخ کا اظہار ہوتی تو یقین مانئے اس معاشرے میں آپ کو سینکڑوں ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں ایسے طاقتور مرد دکھائی نہ دیتے جنکی زندگی میں اس قسم کی کسی ازلی کشمکش کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں، جہاں ایک “کمزور جنس” ایک نام نہاد طاقتور عورت سے زیادہ محفوظ و مطمئن زندگی گزارتی ہے۔ ڈرامائی انداز میں تحریر کردہ اس قسم کی یہ کہانیاں معاشرے کی اصلاح نہیں بلکہ اس کی بنیاد کو تبدیل کرنے کے مقصد کی خاطر لکھی جاتی ہیں۔
ڈاکٹر زاہد مغل
****

حالیہ آٹھ مارچ کے دن یوم خواتین کے سلسلے میں نکلنے والی چند مرد مار عورتوں کی ریلیاں اور ان میں پیش کیے جانے والے ذومعنی اور فحش جملے کسی بھی شریف عورت کا سر شرم سے جھکانے کے لیے کافی ہیں۔ ہمارا مقدمہ لڑنے والے یہ اناڑی وکیل کیا جانیں کہ عورتوں کے حقوق کیا ہیں۔ قبیلوں کے اندھے قوانین کی نذر ہونے والی عورتوں کی کسمپرسی پر تو کسی نے نعرہ نہیں لگایا۔ قرآن مجید سے شادی کروائے جانے پر بھی شور نہیں مچا، ونی اور کاری ہونے والی عورتیں بھی توجہ کی طالب ہی رہیں۔ گالی گلوچ میں پروان چڑھنے والی عورتیں بھی انگشت بدنداں ہیں۔ چند بدقماش عورتوں نے عزت دار عورتوں کی چادر اس زور سے سر سے کھینچی کہ بال بال الگ ہو گیا اور تار تار الگ۔ ’’اپنا کھانا خود گرم کرو‘‘ کی توجیح یہ پیش کی گئی کہ ایک عورت صرف اس لیے قتل ہوئی کہ اس نے کھانا وقت پر گرم کیوں نہ کیا۔ نعرے لگانے والیاں اس زیرو زیرو سیون عورت کو بھول گئیں جس نے اپنے شوہر کی بوٹی بوٹی کر کے سالن بنا کر محلے بھر میں تقسیم کیا تھا۔ آخر عورت کی کس بات پر لڑائی ہے؟؟؟ ’’اپنا بستر خود گرم کرو‘‘ لا حول ولاقوۃ، یعنی بیڈ روم سے باہر کھلنے والی کھڑکیاں بیچ چوراہے پر کھول دی گئیں۔ جتنا نظر آتا ہے سب دیکھ لو کہ اس کا نام آزادی رائے ہے، حقوق نسواں ہے۔میں خود سے شرمندہ ہوں کہ میری ہی صنف نے میری ہی عصمت دری کر دی اور میں بدلے میں کوئی بینر لے کر سر بازار نہ نکل سکی۔ نام نہاد این جی اوز کی جانب سے پھینکے جانے والا پیسہ رنگ لے آیا، ملک کے کونے کونے میں تشہیر ہو گئی، ہر زہریلی زبان یک زبان ہو کر بولی کہ ’’ٹائر میں لگا لوں گی‘‘ تو پھر جنازے بھی خود ہی پڑھا لو، بچے بھی ڈاؤن لوڈ کر لو، ڈر کیسا۔
ڈاکٹر مریم عرفان

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
یہ مسئلہ گوشت کے کسی اضافی لوتھڑے کا نہیں ہے بلکہ سمجھئے فطرت کی بے رحمی کا ہے جس نے ایک جنس کو طاقتور اور دوسرے کو کمزور بنایا ہے۔ اب کیسی ہی مثالی آئیڈئیلزم میں رہ کر گفتگو کرلی جائے، بہرحال یہ جینیاتی و بیالوجیکل حقیقت بدل نہیں جائے گی۔ جہاں لوگ مذھب کے سہارے کے بغیر زندہ ہیں وہاں بھی یہ طاقتور جنس کمزور پر غالب ہے۔
“مرد و عورت کی ازلی جنگ” کا عنوان دینے کی کوشش کی ہے یہ دراصل مرد و عورت نہیں بلکہ “بے مہار طاقتور اور کمزور” کی تاریخ کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے جسے پوری تاریخ کا عنوان دے کر پیش کیا جارھا ھے۔ جب طاقتور بے مہار ھو تو وہ مرد و عورت کی تقسیم نہیں کرتا، وہ کمزور مرد کو بھی بازاروں میں اسی طرح خریدتا بیچتا اور کمزوروں کو بحری جہازوں سے سمندروں میں پھینک کر صرف طاقتور غلام کو فیکٹریوں میں جھونکتا ہے۔
ورنہ اسی معاشرے میں آپ کو سینکڑوں نہیں ھزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں ایسے طاقتور مرد مل جائیں گے جنکی زندگی میں اس قسم کی کسی ازلی کشمکش کا کوئی وجود نہیں۔ ڈرامائی انداز میں تحریر کردہ اس قسم کی کہانیاں مخصوص مقاصد کی خاطر لکھی جاتی ہیں
******
فیمن ازم کی وجہ سے عورتوں میں مردوں سے نفرت پیدا ہوئ. فیمن ازم کا دعوی ہے کے مرد عورت سے نفرت کرتا ہے اس لیئے مرد عورت پر ظلم کرتا ہےلیکن جدیدیت نے تاریخ کا وہ دور پیدا کیا ہے جس میں عورت عورت سے ہی نفرت کر رہی ہے فیشن انڈسٹری اور شوبز کی عورتوں کو دیکھ کر اب عورت اپنے آپ سے نفرت کرنے لگی ہے۔وہ خود کو سب سے بدصورت سمجھ رہی ہے امریکن سائیکاٹرک ایسوی ایشن کی تحقیق یہ بات بتاتی ہے کہ تین چوتھائی امریکی عورتیں فیشن میگزین دیکھ کر خود سے نفرت کرنے لگی ہیں۔ہر عورت خوبصورت بننا چاہتی ہے کسی کو خالق کا بنایا ہوا چہرہ پسند نہیں فیمن ازم نے عورت کو مرد سے فارغ کرنے کی کوشش کی لیکن مرد کے بغیر عورت فطری عمدہ زندگی نہیں گذار سکتی۔فیمن ازم کی تحریک کے بعد زنا کاری مغربی معاشروں میں عام ہو گئ اور وہ موضوعات اور مباحث جو کبھی صرف نجی دائرے میں ہوتے تھے میڈیا،اشتہارات،کتابوں اور نئے علوم کے ذریعے بچوں سے لیکر بڑوں تک میں عام ہو گئے اور اس دور کو علم کی ترقی کا دور کہا گیا ایسا علم جو حیا کو ختم کر دے علم نہیں جہل ہے ذلالت ہے
ہریرہ شیخ
*******
میری مرضی”، فیمن ازم اور الحاد
بیگم کا شوہر کیلئے تیار ہونا اور زیب و زینت اختیار کرنا اسلام میں عبادت ہے اور فیمن ازم میں لعنت…
اور کوئی بتا رہا تھا کہ کسی ڈرامے میں اسی چیز کو پروموٹ کیا جا رہا ہے اور بیوی شوہر سے پوچھ رہی ہے کہ میں تمہاری خاطر کیوں میک اپ کروں، اپنی مرضی سے کیوں نہیں؟
میرے جیسا ہو تو کہے کہ چلو ٹھیک ہے، میں اسکے پاس جاتا ہوں جو میری خاطر تیار ہوتی ہے… 😊
لیکن آپ مجھے یہ سمجھائیں کہ ایک مسلمان خاتون فیمنسٹ کیسے ہو سکتی ہے؟
اور ہمارا میڈیا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہوتے ہوئے الحاد کا راستہ کیوں صاف کر رہا ہے؟
جی ہاں، فیمن ازم اور الحاد کا “چولی” دامن کا ساتھ ہے…
.. اللہ نے مرد کو قوام بنایا جو انکے نزدیک عورت پر ظلم ہے… یعنی نعوذبااللہ، اللہ ظالم ہے…!!!
.. اللہ نے نشوز والی آیت نازل فرمائی جو انکے نزدیک عورت کا استحصال ہے… یعنی نعوذبااللہ، اللہ عورتوں کے استحصال کا حکم دیتا ہے…!!!
.. اللہ نے اولاد کو قتل کرنے کو حرام قرار دیا اور انہیں اسقاط حمل کا “حق” چاہیے…یعنی نعوذبااللہ، اللہ کو عورتوں کے حقوق کا علم ہی نہیں…!!!
.. اللہ نے عورت کا وراثت میں حصہ آدھا رکھا ہے جو انکے ناانصافی ہے… یعنی نعوذبااللہ، اللہ بے انصاف ہے…!!!
.. اللہ نے بطور “اولی الامر” شوہر کی مکمل اطاعت کا حکم دیا ہے سوائے منکر کے جو انکے نزدیک “پیٹری آرکی”( patriarchy) اور “مزوجنی”(misogyny) کی بہترین مثال ہے (نعوذبااللہ)…
تو نتیجہ آخر میں اللہ اور رسول اللہ سے جان چھڑا کر الحاد کی دلدل میں دھنسنا ہی نکلے گا ناں…!!!
*******
*******
سامراجی فیمن ازم
پاکستان میں سوشل میڈیا پہ ہم پیٹی بورژوازی/درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والی ایسی خواتین اور مرد لکھاریوں کو ابھرتا دیکھ رہے ہیں جو عرف عام میں ویمن رائٹس ایکٹوسٹ کہلاتے ہیں اور ان کے ہاں ہم بار بار لبرل ازم سے بے تحاشا پیار کی رام لیلا بھی سنتے رہتے ہیں-یہ فیمنسٹ خواتین و حضرات کا ایک ایسا طبقہ ہے جن میں ابھی کئی نوجوان لکھاری ہیں، جنھوں نے اپنی سوشل لائف میں شہرت اور نام کا مزا چکھنا ابھی شروع ہی کیا ہے اور ہمارا خرانٹ ،پرانا لبرل بابوں کا ایک ٹولہ ان پہ داد کے ڈونگرے برسانے میں مصروف ہے اور ان کے لئے لبرل ازم اور مغرب میں اس کے دل دادہ اور اس رجحان کو ایک دانشورانہ رنگ میں رنگ کر پیش کرنے والوں کے جملوں اور نظریات کو مزید سجاکر ان کے سامنے پیش کرتا ہے اور یہ نوجوان لکھاری عورتیں خاص طور پہ جو اپنی آزادی کو پانے کے لئے سرگرداں بھی ہیں اور اپنے طبقاتی پس منظر کے ہاتھوں مجبور بھی اس سجے سجائے فریب کو ہاتھوں ہاتھ لیتی ہیں-ان کی فرسٹریشن سے جنم لینے والے کچے پکّے اور بعض اوقات کسی مہان لبرل سے مستعار لئے جملوں پہ لائک اور تبصروں کی وہ بوچھاڑ ہوتی ہے کہ رہے نام اللہ کا –اور یہ سب مغربی لبرل فیمن ازم یا مغرب میں عورت کی آزادی کے سامراجی جھنڈے کو بنا سوچے سمجھے اور بنا غور و فکر کئے اٹھانے میں سب سے آگے ہیں-کئی ادھیڑ عمر عورتیں جنھوں نے اپنی جوانی میں مغربی سامراجیت کے کیمپ سے آنے والے فیمن ازم کا جھنڈا اٹھایا تھا اور ان میں سے کئی ایک آج مذہب مین پناہ گزین ہوچکی ہیں ان نوجوان لڑکیوں کو اپنے تجربات سے آکاہ کرتی ہیں اور خبردار کرنے کی کوشش کرتی نظر آرہی ہیں اور کچھ عورتیں جنھوں نے مرد جاتی کے ہاتھوں زبردست اذیت بھگتی ہے وہ اپنی بچیوں کو اس تجربے سے بچانے کی کوشش کررہی ہیں اور یہاں طبقاتی حوالے سے یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ ایسی عورتوں کی بڑی تعداد کا تعلق پیٹی بورژوازی کی ورکنگ پرت سے ہے
محمد جاوید چوہدری
*********
فیمن ازم، میرے نزدیک، ایک نفسیاتی مرض ہے.
فیمنسٹس کہتے ہیں کہ ایک عورت کو کبھی بھی کسی مرد کو خوش کرنے کیلئے بننا سنورنا نہیں چاہیے. صرف اسوقت زیب و زینت اختیار کرے جب اسکا اپنا جی چاہے.
جی ہاں، باقی سب کو تو چھوڑیے، اس میں شوہر لوگ بھی شامل ہیں. ٹھیک ہے جناب. آپ بھنگن بن کر بیٹھی رہیں. پھر جب وہ کسی دوسری فیمنسٹ، جو صرف اپنی ذات کی خاطر جسم فروشی کرتی ہے، کے پاس جائے گا تو پھر رولا بھی نہ ڈالنا کہ اس نے مجھے محبت میں دھوکا دیا ہے.
ایک مسلمان کبھی فیمنسٹ ہو ہی نہیں سکتا. ہماری عورت کا رول ماڈل تو وہ عظیم صحابیہ ہیں جو اپنے بچے کی وفات کے باوجود اپنے شوہر کیلئے تیار ہوتی ہیں، بنتی سنورتی ہیں.
اچھا تو آپ احادیث کو نہیں مانتے؟
تو قرآن میں جو بیوی کو شوہر کی کھیتی کہا گیا ہے، اسکے بارے میں کیا خیال ہے؟
یا تو فیمن ازم سے توبہ کر لو یا اسلام کا نام لینا چھوڑ دو، ورنہ دو کشتیوں کی سواری کا نتیجہ تو پتہ ہی ہو گا…!!!
ڈاکٹر رضوان اسد خان
********
جدید لبرل مارکیٹ عورت کا سب سے بڑا سوداگر ہے۔ اس مارکیٹ میں روز عورت کی ہر ادا اور ہر اندام کی بولی لگتی ہے۔ اور اسی عورت کا استعمال کرکے نئے صارفین کو اس مارکیٹ کی طرف مائل کیا جاتا ہے۔ عورت کو بنیادی حق اور آزادی کے نام پر سبز باغ دکھا کر اس کو مارکیٹ میں بطور پراڈکٹ بیچنے کے لئے تیار کرکے لایا جاتا ہے۔
اس بزنس میں عورت کی برہنگی کو مرکزی کردار حاصل ہے۔ اس کے لئے سماجی سطح پر مختلف مہمات اور ریاست کی سطح پر رفارمز متعارف کیے جاتے ہیں، تا کہ روایتی عورت کی برہنگی یقینی بنائی جا سکے۔ تدریسی نصاب ان کا بنیادی ٹارگٹ ہے۔ فی الحال ڈراموں، فلموں اور میڈیا کے لیول پر اس کے لئے ذہن سازی کیا جارہا ہے، تا کہ یہ برہنگی نارملائز ہو جائے۔ یہ کاروبار شرق و غرب میں بلا تفریق چل رہا ہے، البتہ مغرب میں ترقی یافتہ شکل میں موجود ہے اور مشرق میں مستحکم ہونے کی اب کوشش ہورہی ہے۔
*******
رقص دل اور دماغ کے سکون کا سبب ہے مگر شیما کرمانی اور سوہی ابڑو کو معلوم نہیں کہ مغرب میں تمام رنڈیاں رقاصائیں آرٹسٹ سب سے زیادہ خود کشی کرتی ہیں ان کی زندگی سکون کی تلاش میں بے سکون ہے کرس ہیجز کی کتاب illusion of love کا بابImpire of Illusion پڑھ لیجئے آپ الٹی کر دیں گے ۔اگرآرٹسٹ کو رقص سے سکون ملتا ہے تو امریکہ کی رنڈیاں جو رقص سے سب سے زیادہ پیسے کماتی ہیں خود کشی کیوں کر لیتی ہیں؟مغرب کے تمام آرٹسٹ، فلم اسٹار، رنڈیاں اپنی زندگی سے بے زار کیوں ہیں امریکہ میں ہر رنڈی رقاصہ 3500 ڈالر فی گھنٹہ کماتی ہے پھر بھی خود کشی کرتی ہے کیوں؟
خالد جامعی
********
یورپ اور دیگر غیر مسلم ممالک میں خواتین اور چھوٹی بچیوں کو مکمل تحفظ حاصل ہے؟۔یورپ خواتین کے لیے جنت ہے؟۔یورپ میں انسان زمین پہ نہیں بلکہ ایک زمینی پر امن جنت پہ رہتے ہیں ؟
حال ہی میں شائع ہونے والی ییل یونیورسٹی کی ایک تحقیقاتی رپورٹ بعنوان ’پوری دنیا میں شادی کے بغیر پیدا ہونے والے بچے‘کے مطابق دنیا کے بعض خطوں میں بغیر شادی کے پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد کل بچوں کے70 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
امریکا میں یہ تعداد 40 فیصد جبکہ شمالی یورپ کے ممالک میں یہ شرح70 فیصد تک چلی گئی ہے۔ پچھلے پچاس برسوں میں بغیر شادی کے بچوں کی پیدائش میں خوفناک حد تک اضافہ ہوا ہے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ اکیلی مائیں (سنگل مدرز) کی تعداد میں بھی۔تفصیلات کے مطابق ساری دنیا میں اکیلی ماؤں کے ساتھ پلنے والے بچوں کی تعداد کل بچوں کی تعداد کے 25 سے 33 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ اس ساری صورت حال کی وجوہات کیا ہیں؟ ترقی یافتہ ممالک میں خاندانی نظام کا ختم ہونا اور مخالف جنس کے لوگوں کا آزادانہ میل جول، حکومت کا ایسے بچوں کو قانونی حیثیت دینا اور پالنے والے والدین کو مالی مدد فراہم کرنا سر فہرست ہیں۔بروکنگ انسٹیٹیوٹ کی ایک رپورٹ جس میں اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ نوعمری میں حمل اور ناجائز بچوں کی پیدائش کیسے کم کی جاسکتی ہے؟‘ رپورٹ کے مطابق اس سارے معاملے کا ایک تشویش ناک پہلو یہ بھی ہے کہ اب ایسی کم عمر ماؤں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جو ہائی اسکول کے دوران ہی میں ماں بن جاتی ہیں۔ ایسے واقعات بھی اب غیر معمولی نہیں رہ گئے ہیں جن میں بچیاں دس، گیارہ سال کی عمر میں اپنے پہلے بچے کو جنم دیتی ہیں حالانکہ اسکولوں میں ابتدائی کلاسوں ہی سے بچوں کو جنسی تعلیم دی جاتی ہے اور برتھ کنٹرول کا طریقہ بھی بتایا جاتا ہے۔
بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی صرف تیسری دنیا کے ممالک کا ہی مسئلہ نہیں بلکہ مہذب ملکوں میں بھی یہ مسئلہ اتنی سنگین صورت اختیار کر چکا ہے کہ جان کر انسان کانپ اٹھتا ہے۔ مغربی ممالک کی مشہور اداکاراﺅں کی جانب سے پہلے بھی بچپن میں ہونے والے زیادتی کے واقعات کی خبریں آتی رہتی ہیں لیکن اب ایک اور اداکارہ نے ایسی داستان بیان کردی ہے کہ جس نے بھی سنا اس کی آنکھیں نم ہوگئیں۔
برطانوی اخبار دی سن کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ کی معروف ٹی وی اداکارہ و کاروباری خاتون کیٹی پرائس نے ایک ٹی وی پروگرام ” ہارٹ بریکنگ لوز وومین“ میں گفتگو کرتے ہوئے خود کے ساتھ بچپن میں ہونے والی زیادتی کے بارے میں بتایا۔انہوں نے بتایا کہ مجھے پہلی بار صرف سات سال کی عمر میں ہراساں کیا گیا اور یہ سلسلہ کبھی نہیں رکا ۔ مجھے بار بار ہراساں کیا گیا اور بار بار زیادتی کا نشانہ بھی بنایا گیا تاہم میں اس شخص کا نام نہیں لینا چاہتی۔ پہلے پہل تو وہ شخص مجھے صرف ہراساں کرتا تھا لیکن بعد ازاں اس نے میرے ساتھ زیادتی کرنا شروع کردی۔ بچپن میں ہونے والی زیادتی کا ہی رد عمل تھا کہ میں نے مختصر لباس پہننا شروع کردیے اور ماڈلنگ کے شعبے کی طرف آگئی۔
واضح رہے کہ بچوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتیوں کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کیلئے ایک برطانوی تنظیم ’ لوز وویمن‘ کی جانب سے ’ بتانے میں دیر نہ کرو‘ کے نام سے کیمپین چلائی جا رہی ہے ۔ یہ پروگرام اسی کیمپین کے تحت چلایا جا رہا ہے جس میں مختلف شعبوں کی ایسی کامیاب خواتین کو مدعو کیا جاتا ہے جنہیں بچپن میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ یورپ اور دیگر غیر مسلم ممالک میں خواتین اور بچوں کے خلاف جنسی جرایم انتہا پہ پہنچ چکے ہیں اور مرضی کے جنسی تعلقات کے علاؤہ ان زبردستی کے تعلقات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حرامی بچوں کی کثیر تعداد ان ممالک موجود ہے لیکن کالے انگریز اور دیسی نام نہاد دانشوروں کو یہ حقیقت نظر نہیں آتی کیونکہ یہ ایک منصوبہ بندی سے پاکستان اور اسلامی معاشرے کو بدنام کرنے کے مشن پہ کام کر رہے ہیں۔ لعنت ہے اللہ کی جھوٹ بولنے والوںپر۔القران

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ہمارے پاکستان میں عقل سے پیدل فیمنسٹوں کو یہ پتہ ہی نہیں ہے کہ ہماری عورتوں کے مسائل کیا ہیں اور ان کے حل کے لیے انہیں کیسے اور کس طرح کے اقدامات کرنے ہیں۔ مغرب کی نقل میں مارچ کر لیا، واک کا اہتمام کر لیا، مذاکرے کر لیے، ڈسکشن کر لی اور سمجھنے لگے کہ اس طرح سے مسائل حل ہو جائیں گے۔ یہاں عقل سے پیدل فیمنسٹوں کو صرف اتنا پتہ ہے کہ عورت گھر بار کو لات مار دے تو بس یہی فیمنزم کی معراج ہے۔کیا ان میں سے کسی نے کالجز اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والوں کو عورتوں کے حقوق، بیویوں سے حسن سلوک اور گھر کے معاملات بہتر طریقے سے چلانے پر کوئی لیکچر دیا ؟ عورتوں کے حقوق پر کام کرنے والی این جی اوز بنانے کے بجائے عورتوں کے عدالتی کیس لڑنے کے لیے کوئی پینل ترتیب دیا؟ جیلوں میں قید عورتوں کے مسائل حل کرنے کے لیے جیل حکام سے بات چیت کی گئی ؟ کیا قوانین میں موجود سقم کو دور کرنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ارکان اسمبلی سے پورے ورک آوٹ کے ساتھ کوئی بات کی گئی؟ یا پھر صرف عورت مارچ اور میڈیا پر ٹاک شوز میں ہی سارے ڈرامے کئے گئے؟ کوئی انہیں بتائے کہ فیمنزم کے لیے کہاں کہاں اور کیسے کوششیں کرنی ہیں ورنہ یہ عقل سے پیدل فیمنسٹ صحرا و دریا فتح کرتے رہیں گے اور میدانوں میں خواتین اپنے مسائل کے ہاتھوں مرتی چلی جائیں گی۔
خرم شہزاد

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

مغرب کا تصور اخلاق اور جنس

بی بی سی کی ایک رپورٹ میں امریکہ میں پائے جانے والے جنسی رویوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔(لنک کمنٹ میں )۔۔ویڈیو میں ایک خاتون اپنی زندگی سے متعلق کربناک صورتِ حال کے ساتھ ساتھ ان مغربی خواتین سے متعلق درد انگیز حقائق کے انکشاف کا ایک ایسا اظہار ہیں جوایسی صورتحال سے روچار ہیں اور اسکے ساتھ ساتھ انسانیت کی گراوٹ اور پوری دنیا میں موجودہ انسانیت کے ذہنی رویوں میں تشکیلیت کا ایک موثر رول ادا کرنے والی عالمی تہذیب اپنے نمایاں تضادات کے ساتھ ساتھ اپنے حقیقی تصور جنس کے ساتھ وحشت انگیز عملی اظہار کے طور پر سامنے نظر آتی ہے۔
مغرب میں جنسی لحاظ سے ایسی جنسی بربریت اور وحشت انگیزی کا ازالہ مغرب میں پائے جانے والے کسی بھی تصورِ اخلاق (The Western Concept of morality) کے تحت ممکن نہیں۔۔۔مغرب کا جنسی اخلاقی تصور اس حد تک کمزور ہے کہ جنسی ہیجان کے تحت پروان چڑھنے والی بربریت کا وہ اخلاقی لحاظ سے انسانی رویوں میں کوئی موثر تبدیلی نہیں لا سکتا کہ انسان جنسی بربریت کا تدارک اپنے اخلاقی رویوں میں پیدا کر کے اپنی طبعیت اور مزاج کو ایسے وحشیانہ جبلی اظہار سے روک کر اسے متوازن اور اخلاقی اوصاف سے مزین کر سکے۔۔۔کیونکہ انسان کا بنایا گیا تصور اخلاق کسی دوسرے انسان کو اس پر کاربند رہنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔۔۔انسانی طبعیت کو پورے اخلاقی اور نفسیاتی مزاج میں ڈھالنے کیلئے ایک خدائی تصورِ اخلاق کی ضرورت ہمیشہ رہی ہے۔۔۔۔اور تاریخ میں ہمیشہ مذاہب ہی نے انسان کے اخلاقی جوہر کی تشکیل کی ہے۔
پر چونکہ اس وقت ہم دیکھتے ہیں کہ چاہے مذہبی معاشرے ہوں یا غیر مذہبی معاشرے دونوں اس قسم کی کشمکش سے دو چار نظر آئیں گے۔۔۔مذہبی معاشرے اپنی تہذیبی اساس اور تصورِ اخلاق کو کھو چکے ہیں جبکہ غیر مذہبی معاشرے اپنی مادر پدر تصور آزادی کے تحت ایسے کسی بھی اخلاقی تصور سے بیگانہ ہو چکے ہیں جس کی اساس کسی بھی دینی تصور پر استوار ہو اور دوسری طرف یہی معاشرے اپنی پوری تہذیبی اُٹھان کے ساتھ عالمی تہذبیی سطح پر بھی اپنا اثر و نفوذ قائم کر چکے ہیں لہذا اسکے تہذیی مزاج سے وابستہ جنسی رویوں کے اثرات پوری دنیا کے معاشروں بشمول مذہبی و غیر مذہبی براہ راست ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔۔۔۔مختلف ممالک میں مذہبی یا غیر مذہبی تخصیص کیے بغیر جہاں آئے روز بچوں کے ساتھ زیادتی خواتین کے ساتھ جبری زیادتی اور اس طرح کے دیگر حیا سوز واقعات سامنے آتے ہوئے نظر آتے ہیں درحقیقت ایسے واقعیات کے پیچھے چھپی جبلی و نفسیاتی مریضانہ حالت کے تانے بانے کسی نہ کسی طور پر مغربی تہذیب کے درپردہ تصورِ جنس اور اس کے تنیجے میں پروان چڑھنے والی جنسی بربریت کے رجحانات سے جا ملتے ہیں جو اس وقت عالمی سطح پر اپنے تہذییی ابلاغی اور فکری سطح پر اسانی رویوں کی تشکیل میں سب سے اہم کردار ادا کر رہی ہے۔۔۔۔جس طرح اس وقت پوری دنیا سیاسی اور معاشی سطح پر مغربی فکر سے اپنا اثر قبول کرتی ہے بالکل اسی طرح جبلی اور نفسیاتی سطح پر بھی مغربی تہذیب کے اثرات کو شعوری و غیر شعوری سطح پر قبول کرتی ہے۔۔۔لہذا جہاں آج کی انسانیت مغربی تہذیب سے وابستہ جدید ثمرات اور رجحانات سے بہرہ ور ہو رہی ہے اسی طرح اپنی تہذیبی اخلاقی اور نفسیاتی سطح پر مغربی تہذیب سے منسلک تضادات بے راہ رویوں اور غلط کاریوں سے بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ اس سے تاثر قبول کر رہی ہے۔۔۔
ایسے احوال ہم سے تقاضہ کرتے ہیں کہ ہم مغرب سے وابستہ ہر تصور اور فکر کو من و من قبول کرنے کی بجائے مرعوبیت کے اثر کو چھوڑ کر ان تمام تصورات کو حقیقت کی چھاننی سے چھانٹ کر اپنے لئے ایسے معقول تصورات کا ہی انتخاب کریں جو ہمارے تصور تہذیب اور ذہنی جذباتی اور مذہبی رویوں سے تضادات کی کارپرداذی نہ کریں۔۔۔وگرنہ ہمارا حال وہی ہے جو اس وقت ہو رہا ہے۔۔۔
عاطف ایوب۔

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password