سرمایہ داری کے مظالم اور این جی اوز کا باہمی تعلق

موجودہ دور میں نظر آنے والے بے شمار پروفیشنل خیراتی اداروں اور این جی اوز کا مارکیٹ (لبرل سرمایہ دارانہ) نظم سے جنم لینے والے مظالم کے ساتھ نہایت گہرا تعلق ھے۔ مارکیٹ یا سول سوسائٹی (جیسا کہ پہلے وضاحت کی گئی) اغراض پر مبنی تعلقات کے تانے بانے کا نام ھے، ھیومن رائٹس پر مبنی یہ معاشرت ذات کو لازما اکیلا (individualize) کرتی ھے، اس نظام میں اسکی بقا و کامیابی (حصول سرمایہ) کو اسکی اکیلی ذات کی پیداواری مستعدی (efficiency) کا مرھون منت بناتی ھے۔ نتیجتا وہ تمام لوگ جو ایفیشنٹ نہیں براہ راست اس نظم کا حصہ نہیں بن پاتے، اور یہ معاشرے کا بڑا طبقہ ھوتے ہیں کہ مارکیٹ معاشرے کی قلیل تعداد کو اپنے اندر سموتی ھے (نان لیبر فورس اور بے روزگار افراد کی تعداد برسرروزگارلوگوں سے زیادہ ھوتی ھے)۔ چنانچہ بوڑھے، بچے، لنگڑے لولے اندھے بہرے، یتیم، بیوہ مطلقہ، بے روزگار، (سرمایہ دارانہ علم سے) ناخواندہ، بیمار، پاگل، یہاں تک کہ مردے، الغرض ہر وہ شخص جو اس نظام میں کچھ ”بیچنے کی صلاحیت” (ability to sell) نہیں رکھتا غیر محفوظ (vulnerable) و بے یارومددگار ھوجاتا ھے۔

یہ سب کہاں جائیں؟ یہاں انکا پرسان حال کون ھے؟ سرمایہ دارانہ نظام نے ان جیسوں کیلئے دو آپشنز کھولے ھیں، ایک سرمایہ دارانہ ریاست، دوئم این جی اوز اور پروفیشنل خیراتی ادارے (professional philanthropic institutions)۔ یہاں انکا جائزہ لیتے ہیں، نیز ان کا روایتی معاشرتی نظم کے ساتھ تقابلی جائزہ لے کر دیکھتے ہیں کہ کونسا نظم انسانیت پر ظلم کرتا ھے۔ اس گفتگو سے سرکار (ص) کا اپنے دور کو ‘خیرالقرون’ فرما کر اسے آئیڈئیل قرار دینا انشاء اللہ ایک نئے روپ میں جلوہ گر ھوگا۔

چنانچہ پہلا آپشن (سرمایہ دارانہ) ریاستوں کا دروازہ ھے جن سے یہ امید کی جاتی ھے کہ وہ ان تمام ”بے کار” (مشہور فلسفی فوکو کے الفاظ میں ‘پاگل’ افراد کہ اسکے مطابق سرمایہ دارانہ نظام میں پاگل پن ‘کام نہ ھونے’ کی کیفیت کا نام ھے) لوگوں کی ذمہ داری اپنے ناتواں کاندھوں پر اٹھائیں جسکی یہ بالعموم متحمل نہیں ھوپاتیں۔ اولا اس لئے کہ آبادی کی اتنی عظیم اکثریت کو پالنے اور سرمایہ دارانہ اہداف کیلئے تیار کرنے کیلئے جس قدر ذرائع کی ضرورت ھوتی ھے دنیا کی تمام ریاستوں کے پاس بالعموم اور تھرڈ ورلڈ کی ریاستوں کے پاس بالخصوص وہ موجود نہیں ھوتے (ظاھر ھے انکی اکانومی میں اتنی وسعت ہی نہیں ھوتی کہ ٹیکس کے ذریعے اتنی خطیر رقوم اکٹھی کرسکیں)، ثانیا اس لئے کہ اتنی بڑی اکثریت کو پالنے کیلئے جس قدر دیو ہیکل ریاست کی ضرورت ھے فری مارکیٹ اکانومی پر مبنی عالمی ڈسکورس ریاستوں کے پھیلاؤ پر حد بندی لگاتا رھتا ھے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کا ایک دیرینہ تضاد ھے، یعنی ایک طرف یہ نظام حصول آزادی (بڑھوتری سرمائے) کے نام پر معاشرے کی عظیم اکثریت کو منظم طور پر (حادثاتی نہیں) بے یارومددگار کرتا ھے مگر ساتھ ہی ساتھ اسکے مداوے کے دروازے (ریاست کے پھیلاؤ) پر بھی حد بندی کرتا رھتا ھے، اور وہ بھی آزادی (بڑھوتری سرمائے و efficiency) ہی کے نام پر۔

دینی طبقوں سے ”پکا پکایا متبادل مانگنے والی ذھنیت” کا المیہ

آگے بڑھنے سے قبل ذرا سرمایہ داری کی پچھلی دو سو سالہ تاریخ اور حالیہ گلوبلائزیشن کے عمل پر غور تو کیجئے۔ اس نظام کے تحت انسانیت کو آزادی و ترقی کے نام پر ایک ایسے نظام (لبرل سرمایہ داری) کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا جس کے نتیجے میں اب تک لاکھوں نہیں، کروڑوں بھی نہیں بلکہ بلامبالغہ اربوں انسان بھوک، افلاس، بے روزگاری، بیماری و بے یارگی کی مختلف شکلوں کا شکار ھوکر یا تو لقمہ اجل بن چکے اور یا پھر سسک سسک کر سانسیں پوری کررھے ہیں۔ اب ذرا جدید ذھن کی ذھنی حالت پر توجہ کیجئے، ایک طرف یہ ذھن اس قدر حساس واقع ھوا ھے کہ خاندانی نظم کے اندر اگر کسی مرد کے ھاتھوں عورت (خصوصا بیوی) پر ظلم ھوجائے تو یوں سیخ پا ھونے لگتا ھے گویا اس سے بڑا انسانیت کا کوئی ہمدرد ھے ہی نہیں، نیز اس کے دل میں روایتی معاشرت کو ختم کرکے عورت کو مارکیٹ نظام کا حصہ بنا کر آزاد کرنے کا ایسا جذبہ موجزن ھوتا ھے گویا دکھی انسانیت کے درد کا مداوا ہی اسکی زندگی کا مقصد تھا، پھر یہ وھی جدید ذھن ھے جو دینی جماعتوں سے ”پکے پکائے متبادل” (وہ بھی صرف ذہنی عیاشی و تجزیوں کیلئے) مانگنے کا رسیا بھی ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر دوسری طرف یہ جدید ذھن حاضروموجود نظام پر یہ سوال اٹھانے کی تکلیف نہیں کرتا کہ ”اے جدیدیت (آزادی، مساوات و ترقی) کے حامیو، جب تمہارے پاس تمام مسائل کا ‘حل پیش کرتا’ پکاپکایا متبادل موجود نہیں تھا تو تم نے کیونکر پوری دنیا پر اس ظالمانہ و سفاکانہ نظام کو مسلط کیا؟”

یہ اس جدید ذھن کا المیہ ھے کہ اسے دین کی طرف متوجہ ھونے کیلئے تو پورا پورا کام کرتا، وہ بھی موجودہ تقاضوں سے ھم آھنگ، متبادل ‘نظر آنا’ چاھئے بصورت دیگراس دعوت کے مدعیین کو اپنے تئیں احمق خیال کرکے اس جدوجہد کا حصہ نہ بننے کو اپنی عقلمندی سمجھتا ھے، البتہ حاضروموجود نظام اگر اونا پونا حل ہی پیش کررھا ھو (وہ بھی ایسا جس کا ظلم اسکے مداوے سے کہیں زیادہ ھو) اسکا حصہ بنے رھنے میں اسے کوئی تضاد محسوس نہیں ھوتا، فیاللععجب۔ اس جدید ذھن کا مسئلہ یہ ھے کہ یا تو یہ حاضروموجود سے واقف ہی نہیں اور محض بھیڑچال کا شکار ھے، ھاں سمجھ یہ رھا ھے کہ میں سب سے زیادہ عقل مند ھوں، پوری اسلامی تاریخ کے اسلاف سے بھی زیادہ؛ اور یا پھر اس نظام پر ‘ایمان’ لاچکا ھے اور ایمان تو ایسا ہی ھوتا ھے، وہ ‘پورے، کام کرتے، تیار شدہ متبادل’ کا نہیں بلکہ حصول مقصد کیلئے ‘جدوجہد’ کا تقاضا کرتا ھے۔ کیا بلال (رض) نے رسول اللہ (ص) سے ایمان لاتے وقت یہ تقاضا کیا تھا کہ ”اچھا تو بتائیے آپ کا پیش کردہ نظام کیسا ھوگا، ذرا اسکا مکمل نقشہ تو کھینچو ابھی میرے سامنے تاکہ میں دیکھ لوں آیا واقعی غلاموں کو اس میں کوئی فائدہ میسر آبھی رھا ھے یا نہیں” (کوئی کہنے والا کہہ سکتا ھے کہ اگر معاذاللہ بلال (رض) یہ سوال پوچھ لیتے تو رسول خدا اسکا جواب شاید نہ دے پاتے کہ ابھی تو پورا قرآن نازل ہی نہ ھوا تھا)۔

۔

سرمایہ دارانہ نظام سے جنم لینے والے مظالم کے شکار طبقات کیلئے دوسرا دروازہ این جی اوز اور پروفیشنل خیراتی اداروں کا ھے۔ جوں جوں مارکیٹ (لبرل سرمایہ دارانہ) نظم پختہ ھوتا چلا جاتا ھے، بے یارومددگار اور نادار افراد کی تعداد میں اضافہ ھوتا چلا جاتا ھے۔ ان مظالم کا مداوا کرنے کیلئے این جی اوز و خیراتی ادارے سامنے آنے لگتے ہیں جو اغراض کی اس معاشرت کو سہارا دے کر اسے پروان چڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ چنانچہ تقریبا ہر غیر محفوظ طبقے کیلئے ایک پروفیشنل خیراتی ادارہ (جس کا کام اور شناخت ھی یہی ھوتی ھے) وجود میں آجاتا ھے، مثلا اولڈ ہاؤس، ڈے کئیر سینٹر، پاگل خانہ، یتیم خانہ، دارالامان، معذورخانہ، خودکار معالجاتی نظام پر مبنی ہسپتال، مردے ٹھکانے لگانے کا ادارہ ((اور اسی طرح ‘حقوق کی جدوجہد’ (مثلا عورتوں کے حقوق، اساتذہ کے حقوق، ڈاکٹرز کے حقوق، میراثی، بھانڈ و کنجروں کے حقوق) کو فروغ دینے والی بے شمار سنگل اشو موومنٹس اور این جی اوز)) وغیرہ وغیرہ۔ یہ تمام ”فلاحی ادارے” مل کر ایک طرف مارکیٹ نظم کا گند صاف کرکے اسے فرد کیلئے قابل قبول بناتے ہیں (کہ اسے یہ بدنما دکھائی نہ دے کہ چلو اگر ظلم ھورھا ھے تو اسکا مداوا بھی کررہا ھے کوئی) تو دوسری طرف نظام سے حقوق مانگنے کی ذہنیت کو پختہ کرکے فرد کو نظام سے پرامید رھنے پر راضی کرتے ہیں۔

دھیان رھے، برادری و خاندانی نظم پر مبنی معاشرت میں فرد کو اپنی بقا کیلئے ان اداروں کی ضرورت نہ تھی کیونکہ وہاں فرد خود کو خاندانی تعلقات میں محفوظ پاتا ھے۔ مثلا بیمار ھونے کے بعد اسے کسی ایسے خودکار معالجاتی نظام (caring system) کی ضرورت نہیں ھوتی جہاں پہنچنے کے بعد ہسپتال کا پروفیشنل عملہ خودکار طریقے سے اسکا خیال رکھے کیونکہ تیمار داری کیلئے اسکے عزیز و اقارب کا خودکار نظام موجود ھوتا ھے (بلکہ بیماری روٹھوں کو منانے اور رفع اختلاف کا خوبصورت سبب ھوا کرتا ھے)۔ مگر جب فرد اکیلا ھو (جیسا کہ مارکیٹ نظم میں اسکا حال ھوتا ھے) تو معاشرے کے کسی فرد کو اسکی عیادت کرنے کا یارانہ نہیں، لہذا ضرورت ھے کہ اسکے معالجے کا ایسا نظام وضع کیا جائے جہاں کسی کو عیادت کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ اسی طرح مرجانے کی صورت میں فرد کو ایک تدفینی ادارے پر انحصار نہیں کرنا پڑتا کہ یہ کام خاندان کے لوگ سرانجام دیتے ہیں (اور جب ایک دفعہ ادارہ بن جاتا ھے تو لوگ اس ذمہ داری سے گلوخلاصی حاصل کرلیتے ہیں کہ ‘ادارہ ھے نا، وہ یہ کام کردے گا’)۔ بالکل اسی طرح ھم دیکھ سکتے ہیں کہ انسانی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ھوا کہ معاشرے کے سارے پاگلوں، یتیموں، بیواوں، معذوروں کو پکڑ پکڑ کر ایسے اداروں کے اندر جمع کردیا گیا ھو جہاں ”پروفیشنل” (ذاتی اغراض سے متحرک و مغلوب) افراد ان کا خیال رکھنے پر مامور کرد ئیے گئے ھوں۔ خاندانی نظم میں عزیز و اقارب معذور بچوں و نادار افراد کی محبت و صلہ رحمی کے ساتھ خود کفالت کرتے ہیں، یہاں تک کہ اس معاشرت میں پاگل (جھلا) بھی معاشرے کا حصہ ھوتا ھے، محبت اور صلہ رحمی کرنے والوں کے ساتھ رھتا اور دل لگی کرتا ھے۔ اس معاشرت میں غریب و مفلسوں کی تعداد نہایت قلیل ھوتی ھے (کیونکہ عمل صرف خاندان کے اندر اجتماعی ھوتا ھے، یعنی خاندان جتنی پیداوار عمل میں لاتا ھے سب لوگ اس میں یکساں حصے دار سمجھے جاتے ہیں۔ مگر مارکیٹ نظم ایک طرف معاشرے کو انفرادیت پر منتج کرکے اور دوسری طرف ذرائع کے ارتکاز کو بڑھا کر غربت، افلاس و ناداری کو فروغ دیتا ھے (جدید دنیا میں دو ارب سے زیادہ سسکتے انسان کہیں آسمان سے نہیں ٹپکے اور نہ ہی درختوں پر اگے ہیں، یہ اس ‘ترقی یافتہ’ نظام کے مظالم کا شاخسانہ ہیں، وہ نظام جس پر ہمارا جدید مسلم ذھن فریفتہ ھوا چلا جارھا ھے، دین کو جس کے تقاضوں سے ھم آہنگ ثابت کرنے کی فکر میں گھلا چلا جارھا ھے، وہ نظام جس سے متاثر ھوکر یہ پوری اسلامی تاریخ کو جانچ کر اپنے اسلاف کو قلت تدبر و سوئے فہم کا مصداق سمجھتا ھے، فیا للعجب)

اب غور کیجئے، برادری، قبائلی و خاندانی نظم کس خوبصورتی کے ساتھ ”محبت و صلہ رحمی کے جذبات” کے تحت ان تمام طبقات کو اپنے اندر سمو لیتا ھے، جبکہ مارکیٹ نظم انکے لئے اغراض پر مبنی پروفیشنل اداروں کا محتاج ھے۔ کیا اغراض سے متحرک افراد سے یہ امید کی جاسکتی ھے کہ وہ ان نادار افراد کا ویسا دھیان رکھیں گے جیسا محبت و صلہ رحمی سے مغلوب لوگ رکھتے رھے ھونگے؟ سوچئے کونسا معاشرتی نظم انسانیت کے لئے رحمت ھے اور کونسا لعنت؟ چنانچہ جہاں یہ جدید نظام پختہ ھوچکا۔۔۔۔۔یورپ و امریکہ۔۔۔۔وہاں ایسا ہی ھوتا ھے اور ھمارے لوگ اسے دیکھ کر خوش ھوتے ہیں کہ ماشاء اللہ جی کیا عمدہ بندوبست ھے وہاں، کیا انسانیت و اعلی اخلاقیات ھیں!۔ یعنی جو مقام (انسانیت کا تعلق رحمی رشتوں سے کٹ کر پروفیشنل اداروں سے جڑ جانا) مقام افسوس تھا جدید ذھن نے اسے مقام عجب سمجھ لیا ھے۔ ذرا سوچئے ایک ایسا دین جو پڑوسیوں، بیماروں، مردے کے حقوق ادا کرنے کی بات کرتا ھو، اسکے ماننے والے آج اپنےیہاں بھی ایسے پروفیشنل اداروں کو پھلتا پھولتا دیکھ کر مطمئن ھورھے ہیں۔ گویا انکے خیال میں سول سوسائٹی مقاصد دین کو فروغ دے رہی ھے۔۔۔۔۔۔یہ مقام عبرت ھے۔

ہمارے یہاں سرکار (ص) کے اس قول ‘خیر القرون قرنی’ کو محض ایک اخلاقی قضیہ (moral rhetoric) سمجھ لیا گیا ھے، مگر یہ اس حدیث کا کما حقہ ادراک نہیں۔ سرکار (ص) کا دور انفرادیت، معاشرت و ریاست الغرض ہر اعتبار سے بہترین و آئیڈئیل دور ھے۔ مکہ سے ہجرت کے بعد سرکار (ص) نے مدینہ میں اغراض پر مبنی معاشرت نہیں بلکہ مواخات قائم کی، یہ گویا آپکی ”معاشرتی پالیسی” تھی جسکے ذریعے محبت و صلہ رحمی کی معاشرت کو فروغ دیا گیا۔ یہ کیسی عجیب بات ھے کہ اس نبی کا نام لیوا جدید مسلم ذھن آج محبت و صلہ رحمی کی جڑ کاٹ کر نسب کو مشکوک بنانے والی جدید معاشرت (سول سوسائٹی) کے گن گارھا ھے، اسے خیرالقرون کی طرف مراجعت کے تصور ہی سے وحشت ھوتی ھے (گویا اپنے تئیں یہ کسی نہایت اعلی اخلاقی دور کا باسی ھے جسے ترک کرنے کی بات کرنے والا شخص اسکی ‘شرعی زندگی’ میں خلل پیدا کرنے کی کوشش کررھا ھے)۔ اس جدید ذھن کا مسئلہ یہ ھے کہ یا تو یہ اس نظام کے مظالم و نوعیت سے واقف ہی نہیں اور یا پھر اس کا تصور دین ہی تبدیل ھو چکا ھے (جسکا ریفرنس جدیدی ڈسکورس ھے)۔

پھر یہ بھی کیسی عجیب بات ھے کہ اس نظام کے اس قدر مظالم کے باوجود یہ جدید ذھن اسی نظام سے اپنی امیدیں لگائے بیٹھا ھے۔ اسے کہتے ہیں نظام اور ڈسکورس کا جبر۔ جن مفکرین کے خیال میں یہ نظام ظلم نہیں کرتا لہذا اس کے خلاف جہادکی ضرورت نہیں وہ عقلی افلاس کا شکار ہیں۔

ڈاکٹر زاہد مغل

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password