کیامردکوچارشادیوں کی اجازت صنفی امتیاز (Gender Discrimination) نہیں ہے؟

۔

بلاشبہ قرآن مجید میں مرد کو چار شادیوں کی اجازت دی گئی ہے لیکن یہ عدل کے ساتھ مشروط ہے۔ اور مرد کو کہا گیا ہے کہ اگر وہ عدل نہ کر سکے تو پھر ایک ہی پر اکتفا کرے۔ ہم کئی ایک پوسٹوں میں مذہب سے ہٹ کر اس کے حق میں تفصیل سے دلائل نقل کر چکے ہیں۔ مثال کے طور پر اس وقت دنیا میں مردوں کی تعداد کم ہے اور عورتیں مردوں سے چھ کروڑ زیادہ ہیں۔ اگر ہر مرد ایک عورت سے شادی کرے تو بھی دنیا میں چھ کروڑ عورتیں بغیر شادی کے ہوں گی۔ اور ہر دور میں ایسا رہا ہے کہ دنیا میں عورتوں کی تعداد زیادہ رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مرد جنگوں میں کام آتے رہے وغیرہ وغیرہ۔ تو ہر عورت کو ایک مرد مل جائے تو بھی چھ کروڑ عورتیں بغیر مرد کے ہوں گی تو یہ امتیاز نہیں تو کیا ہے؟ اب اس امتیاز کے بارے ہم کس سے پوچھیں؟ پھر یہ کہ دنیا میں چھ کروڑ عورتیں زیادہ آ گئیں، یہ صنفی امتیاز نہیں ہے؟ یہ چھ کروڑ عورتیں دنیا میں مردوں سے زیادہ کیوں ہیں؟ اس سے بڑا صنفی امتیاز کیا ہو سکتا ہے؟ کیا مرد وزن کی تعداد میں توازن اور مساوات قائم کرنے کے لیے دنیا میں عورتوں کی زیادہ تعداد کے آنے پر میڈیکل سائنس کے رستے قانونی پابندیاں عائد نہیں کرنی چاہییں؟ تا کہ صحیح معنوں میں توازن قائم رہے۔ بے وقوف نہ ہوں تو۔
چلیں، ہم دین اسلام کی بات نہیں کرتے کہ آپ کو اس میں ظلم نظر آتا ہے۔ ہم مذہب فیمینزم کو لے لیتے ہیں جو آپ کے بقول مرد وزن کی مساوات کا علمبردار ہے۔ اس کے مطابق ایک مرد کو چار شادیوں کا حق نہیں ہونا چاہیے کہ یہ صنفی امتیاز ہے۔ لیکن ایک مرد کو ایک عورت سے نکاح ہی کیوں کرنا چاہیے کہ اسے زندگی بھر کے لیے ایک عورت ہی کیا، ایک خاندان کا معاشی بوجھ اٹھانے کے لیے کولہو کا بیل بننا پڑ جائے؟ تو مرد کو آپ چار شادیوں سے نکال دیں کہ ہم اس کو نہیں مانتیں، بھلے قرآن کا حکم ہو کہ یہ صنفی امتیاز ہے۔ تو جو مرد ایک مرتبہ قرآن کے حکم سے نکل گیا تو وہ کیا بے وقوف ہے کہ شادی کے مسئلے میں قرآن کا حکم مان لے گا؟ وہ پھر مغربی مرد بنے گا جو بغیر شادی کے چار نہیں، پچاس عورتوں سے تعلق قائم کرنے کو ترجیح دے گا کہ اور اس طرح کا تعلق کہ اس پر نہ عورت کا اور نہ ہی اس کے بچوں کا کوئی معاشی بوجھ آئے۔
خلیل الرحمن صحیح اور سچ کہتا ہے کہ ان پینتیس چھتیس عورتوں کو یہ اندازہ نہیں کہ وہ کیا کر رہی ہیں اور اس کے نتائج کیا نکلیں گے؟ وہ باپ جو اپنے بچوں کی روزی روٹی کمانے کے لیے اپنی چمڑی بیچ آتا ہے اور اس کے بارے تم یہ بِل بنا رہے کہ اگر بچوں کو شام گھر آ کر ڈانٹ دے گا تو وہ بچے ڈومیسٹک وائلینس کے نام پر اس کو جیل اندر کروا سکتے ہیں یا اس کے ہاتھ میں کڑا پہنوا سکتے ہیں تو تم اس طرح اس مرد کو اَن سیکیور کر رہے ہو۔ اور تمہاری ان حرکتوں کی وجہ سے ویل سیٹلڈ مرد کبھی نکاح کے رشتے کی طرف نہیں آئے گا اور عورت سے چند پیسوں کے عوض اپنی وقتی ضرورت پوری کرنے کو ترجیح دے گا۔ وہ بے وقوف ہے کہ ایسے بچوں کے لیے اپنا دن رات ایک کرے گا جو اس کی ایک ڈانٹ یا تھپڑ پر اسے جیل بھجوا سکتے ہیں۔ مغرب میں یہ اس لیے چل جاتا ہے کہ وہ اسٹیٹ بچوں کو اَون کرتی ہے۔ یہاں تو باپ ہے جو اَون کرتا ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ قرآن مجید میں چار شادیوں کی اجازت ہے۔ اور آپ کے ارد گرد کتنے مسلمان ہیں کہ جنہوں نے چار شادیاں کی ہوئی ہیں بلکہ دو شادیوں والے بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ آپ صنفی امتیاز کے نام سے اس مسلمان مرد کو قرآن سے جس طرح متنفر کر رہی ہیں تو ایک دفعہ یہ متنفر ہو گیا تو یاد رکھیں کہ وہ پچاس عورتوں سے دُور اسی قرآن کے حکم کے احترام کے سبب سے ہے جو اسے یہ کہتا ہے کہ نکاح کی پاکیزہ زندگی گزارو اور عورت اور اس کے بچوں کی ذمہ داری لو۔ تو جس عورت کو یہ تکلیف تھی کہ چار کی اجازت کیوں ہے، مذہب فیمینزم میں جس مرد سے اس کا تعلق ہو گا، اس مرد کو اس مذہب کے مطابق پچاس عورتیں رکھنے کی اجازت ہو گی۔ بس ان کا نام گرل فرینڈ ہو گا یا لائف پارٹنر ہو گا وغیرہ وغیرہ۔ تو آپ قرآن کے بدلے سودا کیا بیچ رہے ہیں؟ ذرا اس پر تو غور کریں۔
اچھا اگر اس کا جواب یہ ہے کہ مذہب فیمینزم میں اگر مرد کو پچاس عورتیں رکھنے کا حق ہے تو عورت کو بھی تو پچاس مرد رکھنے کا حق ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ میں نے سب سے سطحی ذہن رکھنے والا ان عورتوں کو پایا ہے جو عورتوں کے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ ذرا سے تجزیے سے ان کی بات کے تار وپود بکھر جاتے ہیں۔ اگر ایک عورت کو فیمینسٹ مذہبیوں نے پچاس مردوں سے تعلق رکھنے کا حق دے بھی دیا تو پھر بچے کا بوجھ عورت پر کیوں؟ یعنی بچے کی پریگنینسی عورت بھگتے، بچے کو پیدا عورت کرے، بچے کو پالے پوسے اور بڑا عورت کرے، بچے کا مالی خرچ عورت اٹھائے اور مرد مزہ کر کے چلتا بنے۔ اچھا مغرب میں تو اسٹیٹ کچھ خرچ اٹھا لے گی، یہاں وہ یہ بھی نہیں کرے گی۔ تو عورت کے ہاتھ تو مزہ نہیں بچہ آیا یعنی ذمہ داری۔ اب مرد وزن میں مساوات یا حقیقی برابری اسی صورت ہو سکتی ہے کہ عورت بچہ پیدا ہی نہ کرے۔ اور یہ مغرب میں شروع ہو چکا ہے۔ اب ان کے ہاں بوڑھوں کی تعداد نوجوانوں سے بڑھ کر ہے اور انہیں اپنے قومی اور اجتماعی معاملات کو چلانے کے لیے مشرق سے نوجوان ادھار لینا پڑ رہے ہیں۔ آپ دیکھ نہیں رہے کہ جرمنی نے کسی طرح شامی مہاجرین کو ویلکم کیا ہے۔
تو سوال یہ ہے کہ قرآن کو تو سائیڈ پر رکھیں اور اب بتلائیں کہ عورت پر بچہ پیدا کرنے کا ظلم کس نے ڈالا ہے؟ اور پھر اس ظلم پر ابھی تک چپ سادھے اور صاد کیے تمام ملحدوں، لبرلز اور فیمینسٹوں کو یہاں صنفی امتیاز کیوں نظر نہیں آتا؟ اور وہ اس صنفی امتیاز کے خلاف کیا کر رہے ہیں؟ تو بھئی خدا کی بنائی ہوئی دنیا کو چھوڑو، یہ دنیا تو تمہارے بقول تم نے خود بنائی ہے ناں۔ اس کے قوانین بھی تمہارے، سب کچھ تمہارا۔ اس دنیا میں عورت کے ساتھ یہ صنفی امتیاز کیوں؟ مرد کیوں نہیں بچہ پیدا کر رہا؟ چلیں، اگر مرد کے لیے بچہ پیدا کرنا مشکل ہے تو کم از کم عورت کو بچہ پیدا کرنے سے ریلیف دے دیں۔ عورت کو ایجوکیٹ کریں کہ وہ بچے پیدا کرنے اس دنیا میں نہیں آئی ہے، وہ اس دنیا میں مساوات حاصل کرنے آئی ہے۔ اور اسے جب تک انصاف نہیں مل جاتا ہے، وہ مرد کے برابر حقوق نہیں حاصل کر لیتی، وہ بچہ پیدا نہیں کرے گی۔ اور وہ اس وقت مرد کے برابر حق حاصل کر پائے گی جبکہ مرد بھی بچہ پیدا کرے گا یا عورت بھی پیدا نہیں کرے گی۔ بے وقوف نہ ہوں تو۔
ڈاکٹر زبیر

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password